اسلام اور نظریۂ عدل ومساوات

تحریر: ڈاکٹر محمد اسلم رضا (ابو ظہبی)
الحمد لله ربّ العالمين، والصّلاةُ وَالسّلامُ عَلى خاتم الأنبياءِ وَالمرسَلين, وعَلى آلِهِ وَصَحْبِهِ أَجمَعِيْن
دینِ اسلام کا نظریۂ عدل ومساوات
اسلام کی نظر میں تمام لوگ بحیثیتِ انسان حضرت سیِّدنا آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں، عزت و آبرو کے ساتھ جینے کا سب کو یکساں حق حاصل ہے، دینِ اسلام رنگ ونسل، قومیت و وطنیت، اور اونچ نیچ کے سارے امتیازات کا یکسر خاتمہ کر کے، ایک عالمگیر عدل ومساوات کا آفاقی تصوّر پیش کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی گورے کو کالے پر، اور کسی کالے کو گورے پر رنگ ونسل، ذات پات، مُلک اور قبیلے کی بنیاد پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے، اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں فضیلت کا معیار صرف ایک چیز ہے، اور وہ ہے تقویٰ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآىِٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ﴾(1)
“اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا، کہ آپس میں پہچان رکھو، یقیناً اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے، جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے، یقیناً اللہ جاننے والا خبردار ہے”۔
اسی طرح حدیثِ پاک میں حضور نبئ کریم ﷺ نے فرمایا:
«يَا أَيُّهَا النَّاسُ! أَلَا إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ، أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى عَجَمِيٍّ، وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ، وَلَا أَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ، إِلَّا بِالتَّقْوَى»(2)
“اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے، اور تمہارا باپ آدم بھی ایک ہے، کسی عربی کو کسی عجمی پر، اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر، اور کسی کالے کو کسی گورے پر، تقویٰ کے سوا کوئی فضیلت نہیں ہے”۔
مغرب کا طرزِ عمل
مساوات کا یہ اصول انسانیت کی بنیاد ہے، اسی اصول کے تحت مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺ نے بین الاقوامی سطح پر جمہوری، عادلانہ اور مہذب انسانی معاشرے کی بنیاد رکھی، یہی اصول آگے چل کر عالمی جمہوریت کے قیام کا سبب بنا، لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے، کہ زمانۂصحابہ وتابعین کے بعد اس اصول کو صحیح طور سے نہیں اپنایا گیا، آج اقوامِ متحدہ کے منشور میں مساواتِ انسانی سے متعلق قوانین تو موجود ہیں، مگر ان پر سنجیدگی سے کما حقّہ عمل نہیں کیا جاتا، طاقتور ممالک نیٹو (NATO) کے اتحادی لشکر، اور ویٹو پاور (Veto Power) کے نام پر، کمزور ممالک کو ظلم وستم کا نشانہ بنا رہے ہیں، ان کے بنیادی انسانی حقوق تک پامال کر رہے ہیں، بالخصوص اسلامی ممالک کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے، کشمیر وفلسطین، عراق، یمن، شام اور افغانستان میں ہونے والے لاکھوں مسلمانوں کے قتلِ عام سے چشم پوشی کی جا رہی ہے، مسلمان ماؤں بہنوں کی عزت وعصمت دری پر انسانی حقوق کی تنظیمیں NGO’s، مذمّت کے دو2 بول بولنے سے بھی قاصر دکھائی دیتی ہیں، مغربی ممالک میں مسلمان خواتین کے حجاب اوڑھنے پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں، انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا جا رہا ہے، ہر داڑھی والے مسلمان کو دہشتگرد خیال کیا جاتا ہے، دنیا بھر میں کہیں بھی دہشتگردی ہو، اس کا الزام اسلامی ممالک کے سر تھوپ دیا جاتا ہے، جن کے نام میں لفظِ “محمد” آتا ہے، انہیں ویزہ جاری کرنے میں پس وپیش سے کام لیا جاتا ہے، لیکن کیا مجال کہ کوئی سیاستدان، جج، صحافی یا انسانی حقوق کی تنظیم، مسلمانوں کے ساتھ بطورِ انسان اس امتیازی سلوک کے خلاف آواز بلند کر لے۔
قانون کا یکساں اطلاق
اسلامی تعلیمات کی آئینہ دار ریاستِ مدینہ دنیا کی وہ واحد اور اوّلین ریاست تھی، جس میں قانون کا اطلاق سب کے لیے یکساں اور برابر تھا، آج دنیا کے ہر ملک میں، ہر ایک سے متعلق قانون موجود تو ہے، لیکن ہر شخص چاہے وہ امیر ہو یا غریب، صدر ہو یا وزیراعظم، اُن پر اِس قانون کا یکساں اطلاق عملاً کہیں رائج نہیں، آج مسندِ اقتدار پر براجمان کرپٹ عناصر نے، قانون کی گرفت سے محفوظ رہنے کے لیے منتخب اسمبلیوں سے “استثناء” کے قانون منظور کروا رکھے ہیں، وہ جس قدر چاہیں قانون شکنی کریں، قانون نافذ کرنے والے ادارے انہیں اُس وقت تک گرفتار نہیں کرسکتے، جب تک وہ اقتدار کی کرسی سے علیحدہ نہیں ہوجاتے، جبکہ دوسری طرف دینِ اسلام میں بلا تفریقِ مذہب، عدل وانصاف اور انسانی مساوات کے تمام تقاضے پورے کیے جانے کے اصول وضوابط موجود ہیں۔
چنانچہ ایک بار بنی مخزوم کی ایک عورت فاطمہ بنتِ اَسوَد نے چوری کی، یہ خاندان قبیلۂ قریش میں عزّت ووجاہت کا حامل تھا، اس لیے لوگ چاہتے تھے کہ وہ عورت سزا سے بچ جائے، اور مُعاملہ کسی طرح ختم ہو جائے، حضور نبئ کریم ﷺ سے مُعافی کی درخواست کی گئی، حضور رحمتِ عالم ﷺ نے ناراض ہو کر فرمایا: «إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِيْنَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوْا إِذَا سَرَقَ فِيْهِمُ الشَّرِيْفُ تَرَكُوْهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيْهِمُ الضَّعِيْفُ أَقَامُوْا عَلَيْهِ الْحَدَّ، وَايْمُ اللهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ، لَقَطَعْتُ يَدَهَا»(3) “تم سے پہلے لوگ اسی لیے تباہ وبرباد ہوئے، کہ وہ غرباء پر بلاتامّل حد قائم کرتے، جبکہ اُمراء سے در گزر کیا کرتے تھے، قسم ہے ربِ عظیم کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر فاطمہ بنتِ محمد (ﷺ) بھی چوری کرتی، تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹتا!”۔
حاکمِ وقت اور عام ملازم کی یکساں اجرت
خلیفۂ اوّل حضرت سیِّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سیرتِ مبارکہ پر نظر دوڑائیں، تو مساوات کی ایسی مثال دیکھنے کو ملتی ہے، کہ بے اختیار زبان، “سبحان اللہ” پکار اٹھتی ہے۔
مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺ کے وصالِ ظاہری کے بعد، حضرت سیِّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ باہمی مشاورت اور اتفاقِ رائے سے ریاستِ مدینہ کے حکمران وخلیفہ چنے گئے، آپ اپنی خلافت کے دوسرے روز ہی کچھ چادریں لے کر (فروخت کرنے کی غرض سے) بازار جا رہے تھے، حضرت سیِّدنا عمر فاروق نے دریافت کیا: آپ کہاں تشریف لے جا رہے ہیں؟ فرمایا: (بغرضِ تجارت) بازار جا رہا ہوں، حضرت سیِّدنا عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کی: آپ یہ کیا کر رہے ہیں؟ اب آپ مسلمانوں کے امیر ہیں!۔ یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (اگر میں یہ کام چھوڑ دُوں) تو پھر میرے اہل وعیال کہاں سے کھائیں گے؟ حضرت سیِّدنا عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کی: آپ واپس چليے، اب آپ کے اخراجات حضرت ابو عبَیدہ طے کریں گے۔ پھر یہ دونوں حضرات سیِّدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے، حضرت سیِّدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: «أَفرَضُ لك قُوتَ رجلٍ من المهاجرينَ، ليس بأفضلِهم ولا أوكَسِهم، وكِسوةَ الشِّتاءِ والصَّيفِ، إذا أخلقتَ شيئاً رددتَه وأخذتَ غيرَه!» “ميں آپ (حضرت سیِّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور آپ کے اَہل وعِیال کے واسطے) ایک اوسط درجے کے مہاجر کی خوراک کا اندازہ کرکے روزينہ، اور موسمِ سرما و گرما کا لباس مقرّر کرتا ہوں، اس طور پر کہ جب وہ لباس قابلِ استعمال نہ رہے، تو واپس دے کر اُس کے عِوض دوسرا لے لیا كريں!”۔ چنانچہ حضرت ابو عبیدہ بن جرّاح نے حضرت سیِّدنا صدیقِ اکبر کے ليے آدھی بکری کا گوشت، لباس اور روٹی مقرّر کر دی(4)۔
خلفائے راشدین کے نزدیک مساوات کی کیا اہمیت تھی؟ اس کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے، کہ حضرت سيِّدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: «خرجَ عمرُ حاجّاً من المدينة إلى مكّةَ إلى أن رجعَ، فما ضرب فسطاطًا ولا خباءً إلّا كان يُلقي الكساءَ والنطعَ على الشجرةِ، ويستظلّ تحتَها»(5) “حضرت عمر رضی اللہ عنہ عازمِ حج ہوکر مدینۂ طیّبہ سے روانہ ہوئے، آمد ورفت میں آپ کے ليے کوئی سائبان يا خیمہ نہیں لگایا گیا، جہاں قیام فرماتے، اپنے کپڑے اور بستر کسی درخت پر ڈال کر خود ہی سایہ کر لیا کرتے”۔
ان واقعات میں ہمارےحکمران طبقے کے لیے بہت نصیحتیں ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ سادگی اپنائیں، پروٹوکول کے نام پر اپنے اور عوام کے بیچ امتیازی خلیج ہرگز حائل نہ ہونے دیں، اسلام کے درسِ مساوات کو یاد رکھیں، سہولیات اور تنخواہ ایک اوسط درجہ کے ملازم کی اجرت کے برابر لیں، شاہ خرچی سے بچ کر ملک و قوم کی حقیقی خدمت انجام دیں، تب ان کی رعایا انہیں خیر وبرکت کی دعائیں دے گی، جس سے ان کی دنیا اور آخرت سنور جائے گی، اور ہمارا ملک حقیقی معنوں میں ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو جائے گا۔
بلا تفریق عدل ومساوات
عدل ومساوات کا جو نظام دينِ اسلام نے دیا ہے، دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی، رسولِ کریم ﷺ نے اپنے قَول وفعل سے عدل ومساوات کی بہترین مثالیں قائم فرمائیں، انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنے اَہل وعِیال، رشتہ داروں، دوستوں، ہمسایوں، ملازموں، الغرض سبھی کے ساتھ عدل ومساوات اور انصاف کرے، ارشادِ باری تعالی ہے: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْاؕ اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ﴾(6) “اے ایمان والو! اللہ تعالی کے حکم پر خوب قائم ہو جاؤ، انصاف کے ساتھ گواہی دیتے! اور تم کو کسی قَوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو! وہ پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے، اور اللہ تعالی سےڈرو! یقیناً اللہ تعالی کو تمہارے کاموں کی خبر ہے”۔
حضراتِ گرامی قدر! عدل وانصاف اور مساوات پر مبنی دُرست فیصلے اَقوامِ عالَم کی کامیابی وكامرانى کے لیے اہم ترین سبب وذریعہ ہیں، عدل ومساوات معاشرے میں امن واِستحكام کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے؛ کہ اس سے لوگوں کے حقوق کی حفاظت ہوتی ہے، اور اس کی برکت سے دينِ اسلام کی افضلیّت واَہمیّت اُجاگر ہوتی ہے۔
غیر مسلموں کے ساتھ مساوات کی تعلیم
انسان کی جان، مال، ناموس کی حفاظت، امن وامان، اور سکون اسلامی قوانین کا اوّلین مقصد ہے، دینِ اسلام نے جہاں ایک مسلمان کی جان، مال، اور عزّت وآبرُو کے تحفّظ کا حکم دیا ہے، وہیں غیرمسلموں پر ظلم وزیادتی اور بحیثیت انسان امتیازی سلوک سے بھی روکا ہے، ان سےحُسنِ اخلاق سے پیش آنے اور عدل وانصاف قائم کرنے کا بھی درس دیاہے، ارشادِ خداوندی ہے: ﴿لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَ لَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْۤا اِلَيْهِمْ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ﴾(7) “اللہ تعالی تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جو تم سے دِین میں نہ لڑے، اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا، کہ ان کے ساتھ احسان کرو، ان سے انصاف کا برتاؤ برتو، یقیناً انصاف والے اللہ تعالی کو محبوب ہیں”۔
اسی طرح آقائے دو جہاں ﷺ نے ارشاد فرمایا: «مَنْ قَذَفَ ذِمِّيّاً حُدَّ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِسِياطٍ مِنْ نَارٍ»(8 ) “جس نے کسی ذِمّی پر ناحق تہمت لگائی، روزِ قیامت اس پر آگ کے کوڑوں کے ساتھ حد قائم کی جائے گی”۔
غیر مسلموں کے ساتھ عدل وانصاف کی ایک مثال
اسلام دینِ رَحمت ہے، جس نے غیروں کے ساتھ بھی مُساوات، ہمدردی، غمخواری ورَواداری اور عدل وانصاف کی تاکید فرمائى ہے، مصطفىٰ جانِ رَحمت ﷺ کی پوری حیاتِ طیبّہ کے دَوران ایک واقعہ بھی اَیسا نہیں ملتا جس میں نبئ رحمت ﷺ نے غیر مسلموں کے ساتھ کوئی زیادتی کی ہو، بلکہ رحمتِ عالمیان ﷺ نے ہمیشہ عدل وانصاف سے کام لیا، جَیسا کہ اَنصار کے ایک شخص طُعمہ بن اُبیرق جو بظاہر مسلمان تھا، اُس نے اپنے ہمسایہ قتادہ بن نعمان کی زِرہ چُرا کر آٹے کی بوری میں زَید بن سمین یہودی کے گھر چھپا دی، جب زِرہ کی تلاش ہوئی اور طعمہ پر شُبہ ہوا تو وہ انکار کرتے ہوئے قسم کھا گیا۔
بوری پھٹی ہوئی تھی اور آٹا اس میں سے گرتا جاتا تھا، اس کے نشان سے لوگ یہودی کے مکان تک پہنچے اور بوری وہاں مل گئی، یہودی نے کہا کہ طعمہ اس کے پاس رکھ گیا ہے، یہودی کی ایک جماعت نے بھی اس کی گواہی دی، طعمہ کی قَوم نے یہودی کو چور ثابت کرنے اور طعمہ کو بَری کرانے کے عزم سے قسمیں کھائیں، طعمہ کے مُوافق اور یہودی کے خلاف جھوٹی گواہی دی؛ تاکہ پوری قوم رُسوا نہ ہو، ان کی خواہش تھی کہ رسولِ کریم ﷺ طعمہ کو بَری کر دیں اور یہودی کو سزا دیں، تب اللہ تعالی نے یہ آیتِ کریمہ نازل فرمائی: ﴿يَسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰهِ وَهُوَ مَعَهُمْ اِذْ يُبَيِّتُوْنَ مَا لَا يَرْضٰى مِنَ الْقَوْلِ١ؕ وَكَانَ اللّٰهُ بِمَا يَعْمَلُوْنَ مُحِيْطًا﴾(9) “آدمیوں سے چُھپتے ہیں اور اللہ تعالی سے نہیں چُھپتے، اللہ تعالی ان کےپاس ہے جب دل میں وہ بات تجویز کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے، اور اللہ تعالی ان کے کاموں کو گھیرے ہوئے ہے”(10)۔
سروَرِ کونَین ﷺ نے عدل ومساوات کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے یہودی کے حق میں فیصلہ دیا، اور غیر مسلم ہونے کی وجہ سے اس سے کوئی امتیازی سلوک نہ برتا۔
حاکمِ وقت اور جج صاحبان کی ذمہ داری
اسلام میں قاضی وجج کو یہ مقام وحق حاصل ہے کہ وہ عدل وانصاف اور مساوات کی خاطر حاکمِ وقت کو بھی بلوا کر عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر سکتا ہے، حاکمِ وقت اور جج صاحبان پر یہ فرض ولازم ہے، کہ ملک ومُعاشرے میں عدل ومساوات اور انصاف قائم کریں، کسی سے امتیازی سلوک نہ ہونے پائے، حقدار کو حق دلائیں، مظلوم کو ظالم سے نَجات دلائیں، اور نسلی ومذہبی امتیاز کے بغیر عدل ومساوات کا لحاظ رکھتے ہوئے انصاف کے مطابق فیصلہ کریں، ہر شعبہ، ہر طبقہ اور ہر فرد کو عدل وانصاف فراہم کیا جائے، ذات پات کی بنیاد پر كسى سے کوئی امتیازی سلوک ہرگز نہ برتا جائے، اسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے اپنے دائرۂ کار کے مطابق ہر چھوٹے بڑے، امیر غریب، افسر وماتحت، سب کے ساتھ مساویانہ برتاؤ کریں، اور رنگ ونسل یا ذات پات کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق کا مظاہرہ ہر گز نہ کریں۔
وصلّى الله تعالى على خير خلقِه ونورِ عرشِه، سيِّدنا ونبيّنا وحبيبنا وقرّةِ أعيُننا محمّدٍ، وعلى آله وصحبه أجمعين وبارَك وسلَّم، والحمد لله ربّ العالمين!.
( ) پ26، الحجرات: 13.
(2) “مسند الإمام أحمد” ر: 23489، 38/474.
(3) “صحيح البخاري” كتابُ أحاديْث الْأنْبياءِ، ر: 3475، صـ586.
(4) “تاريخ الخلفاء” الخلفاء الراشدون، صـ63 بتصرّف.
(5) “الرياض النضرة” الفصل 9، الجزء 2، صـ368.
(6) پ6، المائدة: 8.
(7) پ28، الممتحنة: 8.
(8 ) “المعجم الکبیر” بابُ الواو، ر: 135، 22/57.
(9) پ5، النساء: 108.
(10) “تفسیر ابن کثیر” پ5، النساء، تحت الآية: 108، 2/405.

اپنا تبصرہ بھیجیں