ڈاکٹر محمد اسلم رضا (ابو ظہبی)
الحمد لله ربّ العالمين، والصّلاةُ وَالسّلامُ عَلى خاتم الأنبياءِ وَالمرسَلين, وعَلى آلِهِ وَصَحْبِهِ أَجمَعِيْن
دينِ اسلام کا نظریۂ ذاتیات (Privacy Ideology)
عزیزانِ محترم! دينِ اسلام کا نظریۂ ذاتیات یعنی ایک فرد کی نجی زندگی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ دینِ اسلام اپنے ماننے والوں کو، کسی کی پرسنل لائف (Personal Life) میں مداخلت کرنے، ٹوہ ميں میں رہنے، یا تجسس میں مبتلا ہو کر، اس پر نظر رکھنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ١ٞ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا١ؕ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ۠١ؕ وَاتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٌ﴾(1) “اے ایمان والو! بہت گمانوں سے بچو! یقیناً کوئی گمان گناہ بھی ہوتے ہیں، اور عیب مت ڈھونڈو! اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو! کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا، کہ اپنے مرده بھائی کا گوشت کھائے، تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا، اور اللہ سے ڈرو، یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے!”۔
کسی شخص کے پوشیدہ اُمور سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے، ہر وقت اُس کی ٹوہ میں لگے رہنا، معاشرے میں خرابی اور بگاڑ کا سبب بنتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺ نے کسی کی نجی زندگی میں مداخلت سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: «إِنَّكَ إِنِ اتَّبَعْتَ عَوْرَاتِ النَّاسِ أَفْسَدْتَهُمْ»(2) “اگر تم لوگوں کے پوشیدہ اُمور کی ٹوہ میں رہو گے، تو ان كے معاملات خراب کر دو گے”۔
ایک اَور روایت میں ہے، کہ سرورِ کونین ﷺ نے ارشاد فرمایا: «يَا مَعْشَرَ مَنْ آمَنَ بِلِسَانِهِ وَلَمْ يَدْخُلِ الْإِيمَانُ قَلْبَهُ! لَا تَغْتَابُوا الْمسْلِمِينَ، وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ، فَإِنَّهُ مَنِ اتَّبَعَ عَوْرَاتِهِمْ يَتَّبِعُ اللهُ عَوْرَتَهُ، وَمَنْ يَتَّبِعِ اللهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ فِي بَيْتِهِ»(3) “اے وہ لوگو، جو زبان سے ایمان لائے، مگر اُن کے دلوں میں ابھی ایمان داخل نہیں ہوا! مسلمانوں کے پوشیدہ حالات کی کھوج نہ لگایا کرو!؛ کیونکہ جو مسلمانوں کے راز کے درپے ہو گا، اللہ تعالى اُس کے راز کے درپے ہو جاتا ہے، اور اللہ تعالى جس کے درپے ہو جائے، اُسے اُس کے گھر کے اندر بھی رسوا کرديتا ہے”۔
ذاتی بُغض و رنجش یا کسی اَور پرخاش کے سبب، کسی سے بدلہ لینے، یا اُسے بدنام کرنے کی غرض سے، اُس کےنجی معاملات کی کھوج میں رہنا، انتہائی غیر اخلاقی وغیرِ شرعی ہے، اور حدیثِ پاک میں اس سے منع فرمایا گیا ہے، حضرت سیِّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدارِ رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: «وَلَا تَجَسَّسُوا، وَلَا تَحَسَّسُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَكُونُوا إِخْوَاناً»(4) ” تجسّس نہ کرو! خبریں معلوم نہ کرو!، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو! اور سب بھائی بھائی بن جاؤ!”۔
حضراتِ گرامی قدر! دينِ اسلام میں پرائیویسی (Privacy) کی کس قدر اہمیت ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، کہ ایک بار ایک خاتون نے، حضورِ اَكرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض كى، کہ میں بَسا اوقات اپنے گھر میں اَیسی حالت میں ہوتی ہوں کہ مجھے پسند نہیں كہ كوئى (غیر مرد) مجهے اُس حالت ميں دیکھے، جبكہ بعض لوگ بنا اِجازت اندر چلے آتے ہیں(5)، اس پر اللہ رب العالمین نے یہ حکم نازل فرمایا: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَا ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۰۰۲۷ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِيْهَاۤ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْهَا حَتّٰى يُؤْذَنَ لَكُمْ وَاِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ﴾(6) “اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اَور گھروں میں نہ جاؤ، جب تک اجازت نہ لے لو اور ان کے ساکنِوں پر سلام نہ کر لو!، یہ تمہارے لیے بہتر ہے؛ کہ تم دھیان دو! پھر اگر ان میں کسی کو نہ پاؤ جب بھی بے مالکوں کی اجازت کے ان گھروں میں نہ جاؤ! اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس جاؤ! تو لوٹ جاؤ! یہ تمہارے لیے بہت ستھرا ہے، اللہ تمہارے کاموں کو جانتا ہے”۔
اسی طرح بلا اجازت دوسروں کے خط، یا موبائل فون سے میسج پڑھنا، یا چوری چھپے اُن کی باتیں سننا بھی انتہائی معیوب عمل ہے، دینِ اسلام اس کی سختی سے ممانعت فرماتا ہے، حدیثِ پاک میں ایسے شخص کے بارے میں نبئ کریم ﷺ نے سخت وعید سناتے ہوئے ارشاد فرمایا: «مَنِ اسْتَمَعَ إِلَى حَدِيثِ قَوْمٍ وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ، أَوْ يَفِرُّونَ مِنْهُ، صُبَّ فِي أُذُنِهِ الآنُكُ يَوْمَ القِيَامَةِ»(7) “جو شخص لوگوں کی باتیں سنتا ہے، حالانکہ وہ اسے سنانا نہیں چاہتے، بلکہ وہ اس سے دور بھاگتے ہیں، تو قیامت کے دن اس کے کان میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا”۔
حضراتِ محترم! بلا اجازت دوسروں کے گھر وں میں جھانکنا بھی، اسلام کےنظریۂ ذاتیات (یعنی پرائیویسی پالیسی) کے خلاف ہے، اور اس بات کی خلاف ورزی کے مرتکب ہونے والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا: «لَوِ اطَّلَعَ فِي بَيْتِكَ أَحَدٌ وَلَمْ تَأْذَنْ لَهُ، خَذَفْتَهُ بِحَصَاةٍ فَفَقَأْتَ عَيْنَهُ مَا كَانَ عَلَيْكَ مِنْ جُنَاحٍ»( 😎 “اگر کوئی بلا اجازت تمہارے گھر میں جھانکے، اور تم کنکر پھینک کر اُسے مارو جس سے اس کی آنکھ پُھوٹ جائے تو تم پر کوئی گناہ نہیں”۔
“صحیح مسلم” کی روایت میں ہے: «مَنِ اطَّلَعَ فِي بَيْتِ قَوْمٍ بِغَيْرِ إِذْنِهِمْ، فَقَدْ حَلَّ لَهُمْ أَنْ يَفْقَئُوا عَيْنَهُ»(9) “جو کسی کے گھر میں ان کی اجازت کے بغیر جھانکے، تو اس (گھر والوں) کے ليے جائز ہے کہ اس کی آنکھ پھوڑ دیں”۔
اسی طرح ایک اَور روایت میں ہے کہ «مَنِ اطَّلَعَ فِي بَيْتِ قَوْمٍ بِغَيْرِ إِذْنِهِمْ، فَفَقَئُوا عَيْنَهُ، فَلَا دِيَةَ لَهُ، وَلَا قِصَاصَ»(10) “جو بلا اجازت کسی کے گھر میں جھانکے، اس پر اگر وہ لوگ اس کی آنکھ پھوڑ دیں، تو نہ اس كى دیت ہے، نہ ہی کوئی قصاص”۔
حضراتِ مَن! دوسروں کےگھروں میں بلا اجازت جانا تو بہت دور کی بات ہے، دینِ اسلام تو یہاں تک تاکید فرماتاہے، کہ کوئی شخص خود اپنے گھر میں بھی اچانک داخل نہ ہو، اور اندر آنے سے قبل کسی نہ کسی طرح، مثلاً کھنکار کر، یا کوئی آواز پیدا کرکے، اپنے اہلِ خانہ کو خبردار کرے؛ تاکہ اس کی ماں، بہن یا جوان بیٹی وغیرہ، الغرض جو کوئی عورت گھر میں ہو، اپنے کپڑے اور دوپٹہ وغیرہ درست کر سکے۔
علاوہ ازیں ذکر کردہ جن آیات واحادیث میں، تجسس یا ٹوہ لگانے کی ممانعت ہے، وہاںمسلمانوں کی عیب جوئی کے لیے تجسس یا ٹوہ لگانا مراد ہے۔ لہٰذا ملکی انتظامات کو بہتر بنانے، اور اُسے دشمنوں کی میلی نظر سے بچانے کے سلسلہ میں، خفیہ ایجنسیز کے جاسوسی سے متعلق اقدامات اور نیٹ ورکس (Net Works) شرعی طور پر اس سے مستثنیٰ ہیں۔
يورپ کا نظریۂ ذاتیات (Privacy Ideology)
برادرانِ اسلام! دینِ اسلام کےمقابلے میں، اگر نام نہاد جدید تہذیب کی حامل، مہذّب مغربی دنیا کے رہن سہن، اور ملکی قوانین کا جائزہ لیا جائے، تو واضح طور پر نظر آتا ہے، ایک عام یورپی شہری کی نجی زندگی اور معاملات ہرگز محفوظ نہیں، اکثریت تو شاید اس بات سے بھی ناواقف ہو، کہ حقیقی پرائیویسی (Privacy) کہتے کسے ہیں؟ اور اس کے کیا تقاضے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ يورپ کے بیشتر ممالک ترقی یافتہ ہونے کے باوجود، پرائیویسی کے اعتبار سےاَخلاقی طور پر انتہائی پستی کا شکار ہیں، بحیثیتِ قوم يورپ میں نظریۂ ذاتیات (پرائیویسی پالیسی) (Privacy Ideology) کا فقدان اس قدر زیادہ ہے، کہ لوگوں کے گھروں میں تانکا جھانکی کرنا، اُن کی ڈاک (یعنی خطوط اور پرائیویٹ میسجز وغیرہ) بلا اجازت پڑھنا، ان کی کاپی کروا کر اپنے پاس رکھ لینا عام سی بات ہے، اسی طرح لوگوں کے گھروں میں بلا اجازت گھسنا، اور وہاں وائس ڈیوائسز (Voice Devices) لگا کر چوری چھپےاُن کی باتیں سننا، اور فون کالز ٹیپ کرنا بھی، اہلِ مغرب کا ایک عام طریقہ ہے۔
بلکہ آپ خود ہی سوچیں، کہ جس يورپ میں عورتیں نیم برہنہ حالت میں سرِ عام گھومتی ہوں، مرد وعورت پبلک پارکس (Public Parks) میں کھلے عام بوس وکنار کرتے ہوں، دن دیہاڑے کسی گاڑی یا درخت کی آڑ میں بے حیائی کا کام ہوتا ہو، بیوی یا نوجوان بیٹی کا اپنے بوائے فرینڈ کو گھر بلا کر، اپنے شوہر یا باپ کے سامنے ہم آغوش ہونا بھی معیوب نہ سمجھا جاتا ہو، اس یورپ کا نظریۂ ذاتیات (Privacy Ideology) کیا اور كيسا ہوگا؟
اپنی تمام تر قباحتوں اور فحاشی کے باوجود، بفرض ِمحال اگر يورپ نظریۂ ذاتیات، یا حقِ راز داری کو تسلیم کر بھی لیا جائے، تب بھی یورپی اعداد وشمار کے مطابق نجی زندگی میں مداخلت سے متعلق صورتحال بہت سنگین ہے، سپر پاور کے زعم میں مبتلا، مغرب کے سب سے بڑے نام نہاد جمہوری مُلک امریکہ ہی کو لے لیجیے، امریکی آئین میں کُل چھ6 دفعات ہیں، جن میں اب تک چھبیس26 ترامیم ہو چکی ہیں، جن میں سے چار4 ترامیم صر ف پرائیویسی پالیسی، یعنی حقِ راز داری سے متعلق ہوئیں، لیکن اس کے باوجود عملی طور پر، پورے امریکہ میں ان کا نفاذ کہیں نہیں ہے، اور یہ ترامیم ابھی محض زینتِ اوراق ہی ہیں(11)۔
نجی زندگی میں مداخلت کے اسباب
عزیزانِ محترم! کسی کی نجی زندگی میں مداخلت سے ممانعت کی بنیادی وجہ، عزت و آبر و کی حرمت قائم کرنا، اور نجی معاملات کی راز داری برقرار رکھنا ہے؛ تاکہ معاشرے کو منفی طرزِ عمل سے پاک کرکے، باہمی ہمدردی اور بھائی چارے کو فروغ دیا جا سکے۔ لیکن اس کے باوجود بعض لوگ کسی کی پرائیویسی پر اثر انداز ہونے سے باز نہیں آتے، اس کے مختلف اسباب ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے، کہ بعض لوگ عادت سے مجبور ہو کر ایسا کرتے ہیں، انہیں دوسروں کے نجی اُمو ر سے آگاہی، اور برائیوں کا کھوج لگانے میں مزا آتا ہے۔ عام طور پر اس عادتِ بد میں وہ لوگ زیادہ ملوث پائے جاتے ہیں، جو کام کاج سےفارغ ہوتے ہیں، لہٰذا ٹائم پاس کے طور پر وہ خود کو اس طرح کے غیر اخلاقی مشاغل میں مصروف کر لیتے ہیں۔
اسی طرح بعض لوگ بدگمانی، احساسِ کمتری، ذاتی انتقام یا نفرت و عداوت کے سبب بھی، فریقِ مخالف کے نجی معاملات اور راز جاننے کی کوشش کرتے ہیں؛ تاکہ اُسے دوسروں کے سامنے شرمندہ اور کمزور ثابت کرکے، اپنی اَنا کو تسکین پہنچا سکیں، اور انتقام کی آگ ٹھنڈی کر سکیں۔
کسی کے نجی معاملات میں تجسّس اور اسكى ٹوہ میں رہنے کے نقصانات
میرے عزیز دوستو! کسی کے نجی معاملات میں مداخلت، تجسس اور ٹوہ ميں رہنے کی عادت ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے، جو انسان کے دل و دماغ میں غم وغصہ، نفرت و عداوت، بغض و عناد اور حسد و بے چینی کے بیج بو دیتی ہے، یہ برائی رفتہ رفتہ اس قدر بڑھ جاتی ہے، کہ گناہوں کی دلدل میں اترنے کے ساتھ ساتھ، جسمانی طور پر بھی بنده بیمار ہو جاتا ہے، طرح طرح کے پراگندہ خیالات سے ذہن منتشر رہتا ہے، اور نتیجتاً انسان بلڈ پریشر، ڈپریشن اور احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔
لہٰذا جہاں تک ممکن ہو، دوسروں کے بارے میں حسنِ ظن رکھیں، بدگمانی اور منفی سوچ سے مغلوب ہو کر، کسی کے نجی معاملات کی ٹوہ میں پڑنے کی کوشش ہرگز نہ کریں، اللہ نہ کرے اگر آپ پر کسی کا عیب ظاہر ہو بھی جائے، تب بھی اُسے اپنے سینے کے اندر ہی دفن کر دیں، کسی سے بھی ہرگز شیئر نہ کریں۔
حدیث شریف میں حضرت سیِّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: «مَنْ سَتَرَ مُسْلِماً سَتَرَهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَة»(12)
” جس نے (دُنیا میں) کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالی بروزِ قیامت اس کی پردہ پوشی فرمائے گا”۔
ایک اَور مقام پر حضرت سیِّدنا ابنِ عبّاس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا: «مَنْ سَتَرَ عَوْرَةَ أَخِيْهِ الْمسْلِم، سَتَرَ اللهُ عَوْرَتَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ كَشَفَ عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمسْلِم، كَشَفَ اللهُ عَوْرَتَهُ حَتَّى يَفْضَحَهُ بِهَا فِيْ بَيْتِه»(13) “جو اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا، اور جو اپنے مسلمان بھائی کا عیب ظاہر کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کا عیب ظاہر کر دے گا، یہاں تک کہ وہ اپنے گھر میں بھی رُسوائی سے محفوظ نہیں رہ پائے گا”۔
ہاں البتہ اگر کسی کے عیب کی نوعیت ایسی ہو، کہ دوسرے مسلمانوں کو اس سے جانی ومالی یا دینی نقصان پہننے کا اندیشہ ہو، تو اس کی تشہیر میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔
حقِ راز داری (Privacy Right) اور اُس کے تقاضے
برادرانِ اسلام! حقِ رازداری (یا پرائیویسی كا حق) سے مراد اپنے جسم، گھر، جائیداد، خیالات، احساسات، پوشيده راز اور شناخت سے متعلق، اپنے گرد حفاظتی حصار قائم کرنے کا حق ہے، دینِ اسلام کی طرف سے ساڑھے چودہ سو1450 سال سے ہر مسلمان کو پیدائشی طور پر یہ حق اور اختیار حاصل ہے. کہ وہ اَحکامِ شريعت کے مطابق اس حق كو کب، کہاں اور کیسے استعمال کرتا ہے؟
میرے عزیز دوستو، بھائیو اور بزرگو! دینِ اسلام کی انفرادی وامتیازی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے، کہ یہ دين لوگوں کے حقوق صرف بیان نہیں کرتا، بلکہ اس کے عملاً نفاذ کے لیے اپنے ماننے والوں کو اس حق کا لحاظ رکھنے، اور پاسداری کرنے کی بھی تعلیم دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نجی زندگی میں مداخلت سے متعلق، حقِ راز داری کے تقاضے بیان کرتے ہوئے، دینِ اسلام نے ہر مسلمان کو یہ حکم دیا، کہ جب بھی کوئی کسی کے ہاں جائے، تو گھر وغیرہ میں داخل ہونے سے پہلے اس سے اجازت طلب کرے، اور اگر اجازت نہ ملے، تو بغیر ناراض ہوئے واپس لَوٹ جائے۔
غیر تو غیر، بعض اوقاتِ مخصوصہ میں، بچوں اور خادموں پر بھی پرائیویسی کا لحاظ رکھتے ہوئے، اجازت لینا لازم قرار دیتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِيَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِيْنَ مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ وَالَّذِيْنَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ ط مِنْ قَبْلِ صَلٰوةِ الْفَجْرِ وَحِيْنَ تَضَعُوْنَ ثِيَابَكُمْ مِّنَ الظَّهِيْرَةِ وَمِنْۢ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَآءِ١ؕ۫ ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّكُمْ﴾(14) “اےایمان والو! تمہارے غلام وخادم اور تمہارے وہ بچے جو ابھی جوانی کو نہ پہنچے، تین اَوقات: (1) نمازِ صبح سے پہلے، (2) دوپہر کو جب تم اپنے کپڑے اُتارے رہتے ہو، (3) اور نمازِ عشاء کے بعد, تم سے اِجازت لے کر تمہارے پاس آئیں، یہ تین3 اَوقات تمہارے پردے کے ہیں”۔
اس فرمانِ الٰہی A سے معلوم ہوا كہ نمازِ فجر سے پہلے، دوپہر قَیلولہ کے وقت جب مَرد حضرات آرام کی غرض سے اپنی قمیص اُتار دیتے ہیں، اور خواتین دوپٹے وپردے کا زیادہ اہتمام نہیں کرتیں، اور رات بعد نمازِ عشاء جب سونے کی تیاری کی جاتی ہے، یہ تین3 اَوقات سونے اور آرام وسکون کے ہیں، لہٰذا ان اَوقات میں بغیر اجازت اپنے گھر کے اندر بهى، دوسروں کے کمروں میں داخل ہونا ممنوع ہے، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، مَرد ہو یا عَورت, سبھی پر لازم ہے كہ اس حکم پر عمل کریں، اور پرائیویسی (Privacy) سے متعلق تمام اُمور، مثلاً بغیر اجازت کسی کے گھر یا کمرے میں داخل ہونے، ڈائری یا خط یا میسج پڑھنے، چوری چھپے اُن کی باتیں سننے، آڈیو رکاڈنگ کرنے یا ویڈیو بنانے میں اُن کے حق کی رعایت کریں، اور ایسا کرنے سے باز رہیں!!۔
پرائیویسی کا لحاظ رکھنے کے فوائد وثمرات
حضراتِ ذی وقار! اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری نبی ورسول ﷺ کی خوشنودی ورِضا، اور انسان کی دنیا وآخرت دونوں کی بہتری ہے، دینِ اسلام نے ہر وہ کام جو فتنہ وفساد، بگاڑ وبداَمنی اور گناہ وبربادی کی طرف لے جاتا ہو، اُس کے تمام اَسباب ومحرّکات سے منع فرمایا ہے، زندگی گزارنے کے اصول وضوابط مقرّر فرمائے, جن پر عمل كسى مصلحت سے خالی نہیں۔ رب تعالیٰ کے تمام اَحکام علم وحکمت پر مبنی ہیں، چاہے ہماری سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں۔
اِنہی آداب واَحکام میں سے ایک ادب، اپنے مسلمان بھائی کی نجی زندگی کا لحاظ رکھنا بھی ہے، کہ یہ طریقہ ثواب اور اُخروی انعام واکرام کا باعث، اور اسکے ساتھ ساتھ دیگر دنیاوی فوائد بهى حامل ہے، پرائیویسی کے پیشِ نظر، اجازت لے کر داخل ہونے سے گھروں کو عزّت نصیب ہوتی ہے، اور خود ہماری عزت و وقار میں بھی اضافہ ہوتا ہے، اہلِ خانہ پردے، اور لباس وغیرہ کو درست کر لیتے ہیں، علاوہ ازیں کسی کی پرسنل لائف میں، کسی بھی نوعیت کی مداخلت سے قبل اجازت لینا، شکوک وشُبہات کو ختم کرنے کا بھی مؤثِر ذریعہ ہے، اللہ رب العالمین ہمیں احکامِ شرع کی پاسداری کرنے کی توفیق دے، آمین!
وصلّى الله تعالى على خير خلقِه ونورِ عرشِه، سيِّدنا ونبيّنا وحبيبنا وقرّةِ أعيُننا محمّدٍ، وعلى آله وصحبه أجمعين وبارَك وسلَّم، والحمد لله ربّ العالمين!
(1) پ٢٦، الحجرات: 12.
(2) “سنن أبي داود” باب في النهي عن التجسّس، ر: 4888، صـ689.
(3) “سنن أبي داود” كتاب الأدب، باب في الغيبة، ر: 4880،
صـ688.
(4) “صحيح البخاري” كتاب النكاح، ر: 5143، صـ920.
(5) “تفسیر نور العرفان” 563۔
(6) پ١٨، النور: 27، 28.
(7) “صحيح البخاري” باب من كذب في حُلمه، ر: 7042، صـ1214.
(8 ) “صحيح البخاري” كتاب الديات، ر: 6888، صـ1186.
(9) “صحیح مسلم” باب تحریم النظر في بیت غیره، ر: 5642، صـ961.
(10) “سنن النسائي” كتاب القسامة، ر: 4864، صـ670.
(11) حقوقِ راز داری: https://rafeeqemanzil.com/?p=3229
(12) “صحيح البخاري” كتاب المظالم، ر: ٢٤٤٢، صـ٣٩٤.
(13) “سنن ابْن ماجه” كتابُ الحُدوْد، ر: 2546، صـ432.
(14) پ18، النور: 58.
