’’باطل سے مقابلےکے لیے اعتدال اور ترجیح کے درست تعین کی ضرورت‘‘

بسم اللہ الرحمن الرحیم
’’باطل سے مقابلےکے لیے اعتدال اور ترجیح کے درست تعین کی ضرورت‘‘
تحریر: شعیب مدنی
امت مسلمہ کی بقا اور احیاء کی خاطر ہمیشہ داعیان دین ،مصلحین اور مجددین کو اپنی پوری زندگی ایک متعین ترجیحی پہلو پر صرف کر نی پڑی ۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ انھوں نے اسلامی زندگی کے اس پہلو پر باطل کی جانب سے حملے اورمسلمانوں کے عمل میں کوتاہی ہوتے دیکھی ۔
جب یونانی فلسفے نے سر اٹھایا تو امام غزالی اور ان کے ہم عصر علماء نے اس کی سرکوبی کی۔ اسی طرح برصغیر کی تاریخ پر نظر ڈالئے، عہد اکبری میں ”دین الٰہیہ“ کے عنوان سے اسلام کے خلاف جو عظیم فتنہ رونما ہوا تو حضرت مجدد الف ثانی رحمة الله عليه اور شیخ عبدالحق دہلوی رحمة الله عليه اور ان کے ہمنوا علماء نے اپنے پایہٴ استقامت سے اس فتنہ کے سرکو ہمیشہ کیلئے کچل دیا۔
آج پوری امت مسلمہ پر مغربی نظریات و فلسفے کی یلغار ہے ۔عملی طور پر دین کے اجتماعی پہلو کو معطل کیا جا چکا ہے۔مسلمانوں کی عوامی رائے کے کئی پہلولاشعوری طور پر مغربی رائے سے تبدیل ہو چکے ہیں ۔ لیکن افسوس کہ اکثر علماء اس کی سنگینی کو سمجھ نہیں پا رہے اور اپنی توانائیاں فقہی یا مسلکی جزیات پر صرف کر رہے ہیں ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کھو چکے ہیں۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک عبارت کا خلاصہ پیش خدمت ہے جس میں آپ نے ترجیحات کے تعین کی اہمیت کو خوب سمجھایا ہے آپ فرماتے ہیں کہ اسلامی ثقافت کی عمارت، بنیادی ارکان، کچھ اضافی امور، بعض اصول اور فروع پر مشتمل ہے اس میں عقائد اور اعمال سب شامل ہیں۔مگر بعض لوگ کسی ایک جز کو اتنا زیادہ اہمیت دے دیتے ہیں کہ باقی اجزا کا حق مارا جاتا ہے۔ جیسے جسم کا ایک حصہ اگر غیر متناسب طور پر بڑھتا رہےتو باقی جسم اس سے متاثر ہوتا ہے اور جسم ہلاکت سے دوچار ہو جاتا ہے۔بس بات یہ ہے کہ جس چیز کا جتنا حصہ ہے اس کو اتنی ہی اہمیت دینی چاہیےاور توازن برقرار رکھنا چاہیے لیکن تباہی جب ہوتی ہے کہ ایک خاص فکر انسان کی عقل پر قبضہ کرلیتی اور کسی دوسری جانب سوچنے کی صلاحیت ہی کھودیتا ہے۔
پھر ایسے مفتی پیدا ہوتے ہیں جن کے ذہن تو تیز ہوتے ہیں لیکن دل عبادت گزار نہیں ہوتے، ایسے صوفی پیدا ہوتے ہیں جن کے احساسات تو انتہا پر ہوتے ہیں لیکن انھیں فقہ کی سمجھ نہیں ہوتی، ایسے محدثین تو ہوتے ہیں جو احادیث یاد کر لیتے ہیں لیکن ان میں اجتہاد کا ملکہ نہیں ہوتا، ایسے اصحابِ رائے تو ہوتے ہیں جو مصلحت کو دیکھ لیں لیکن صحیح نص سے جوڑ نہیں سکتے، لوگ انفرادی عبادت کا بڑا اہتمام کرتے ہیں لیکن جب بات نصیحت یا امر ونہی کی آجاتی ہے یا حکمرانوں کی ناراضگی مول لینے کی آتی ہے تو وہاں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ جو بھی کام ہو ایک اعتدال اور اندازے کی مطابق ہو نا چاہیے۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ہر شخص درست دینی ترجیحات کے بجائےاپنے پسندیدہ اعمال کو دین کی بلند ترین چوٹی اور سب سے اہم ترین کام سمجھتا ہے حالانکہ وہ دین کے فروعی ، مشربی، مسلکی معاملات ہی کیوں نہ ہوں جبکہ ان کی خاطر جنگ و جدل برپا کرنا دین کے پاوں پر کلہاڑی مارے نے برابر ہے۔
سیکولر ازم ، لبرل ازم اور الحاد کے اس طوفان میں ہمیں اپنی آنکھیں کھولنی ہوں گی قبل اس کے کہ لوگ دین سے ہی دوری اختیار کرلیں اور پھر ہمیں کوئی ہماری مسلکی، مشربی، فقہی موشگافیاں سننے والا ہی نہ ملے۔
ان ناگفتہ بہ حالات کے باوجود میں نا امید نہیں ہوں کیوں کہ ہمیشہ اسلام کے مخالفین و معاندین کی تعداد زیادہ رہی ہے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ شروع سے اب تک ہمیشہ علمائے اسلام اور صلحائے امت نے ان تمام فتنوں کا نہایت پامردی سے مقابلہ کیا ہے اور اسلام کےکارواں کو آگے بڑھایا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں