تعلیمی ادارے : بندش، الزامات، ذمہ داری

تحریر: سیف اللہ خالد
بحیثیت قوم ہمارا مزاج یہ بن چکا ہے کہ ہم ہر معاملے میں بولتے ہیں۔ مزا یہ ہے کہ صرف بولتے ہیں۔ اس سے زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی مسئلے کی اصل پر بات کرنے کے بجائے سطحی بحث میں خود کو افلاطون اور دوسروں کو احمق ثابت کرنے میں تمام طاقت صرف کر دیتے ہیں۔
کورونا وائرس کی وجہ سے جہاں ہر شعبہ متاثر ہوا وہاں شعبہ ٔتعلیم بھی شدید نقصانات کا شکار ہوا۔پہلا تعلیمی سال اس قدر خراب ہوا کہ طلبہ کو بغیر امتحانات کے اگلے درجوں میں ترقی دے دی گئی۔ ویکسین کے آنے سے معاملات میں واضح بہتری نظر آئی (قطع نظر اس سے کہ ہمارے یہاں ویکسین سے متعلق کیا کچھ سمجھا جاتا ہے) اور پاکستان کے تمام صوبوں میں تعلیمی سرگرمیاں الحمد للہ بحال ہو گئیں۔
صوبہ سندھ میں کورونا وائرس کے کیسز کے گھٹنے اور بڑھنے کا پیٹرن سائنس کے کسی پیمانے پر ناپا تولا نہیں جا سکتا۔ مسلسل لاک ڈاؤن کے اعلانات اور اس کے نتیجے میں تعلیمی اداروں کی طویل بندش کی صورتحال اب تشویشناک حد تک سنجیدہ ہو چکی ہے۔ ہر کاروبار کو کم از کم بارہ گھنٹے کا سرکاری وقت (صبح چھ سے شام چھ بجے تک) عنایت کیا گیا ہے جو لاک ڈاؤن کے دوران عمل میں لایا جاتا ہے۔ نرمی کی صورت میں کاروبار آٹھ بجے تک اور کچھ کاروبار رات دس سے بارہ بجے تک جاری رکھنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اگر اجازت نہیں ہے تو تعلیمی ادارے کھولنے کی اجازت نہیں ہے۔
دوسری طرف وہ عوامی مزاج ہے جس کا ذکر ابتدائی جملوں میں کیا گیا۔ایک طبقہ اس لیے خاموش رہتا ہے کہ ان کے بچے ’بڑے ‘ سکولز میں پڑھتے ہیں جن کے پاس وسائل موجود ہیں اور وہ آن لائن کلاسز دے رہے ہیں۔ اس طبقے کی مالی حالت مستحکم ہے ۔ یہ وائرس سے ڈرتے بھی زیادہ ہیں۔ اس لیے بہتر سمجھتے ہیں کہ بچہ گھر پر ہی پڑھے تو اچھا ہے۔ کسی کمی کی صورت میں پرائیوٹ ٹیوٹر افورڈ کرنا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔ یعنی یہ سکولز کھولنے کی مہم میں ساتھ دینے والے نہیں۔
دوسرا طبقہ لوئر مڈل کلاس کا ہے جہاں الزامات کی بوچھاڑ ہے۔ الزامات عائد کرنے والے دو فریق ہیں۔ ایک فریق والدین ہیں جن کا کہنا ہے کہ تعلیمی ادارے بند ہونے کے باوجود ان سے زبردستی فیس لی جاتی ہے اور ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں بچے کا نام خارج کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اکثر والدین بچوں کو گھر بٹھا چکے ہیں کہ جب وائرس مکمل طور پر قابو میں آجائے گا تو نیا داخلہ کروایا جائے گا۔
دوسرا فریق خود سکول ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اساتذہ کو تنخواہیں دینے کے لیے ہمارے پاس پیسہ نہیں اوراگر والدین فیس نہ دیں تو اساتذہ شدید مالی مصیبتوں میں مبتلاء ہوجائیں گے۔بات درست تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اکثر اساتذہ سکولز چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور کسی اور روزگار کی جانب چلے گئے۔جو اساتذہ اب تک اداروں کے ساتھ منسلک ہیں ان کی تنخواہیں کاٹی جارہی ہیں تاکہ سکولز اپنے اخراجات نکال سکیں۔
والدین کا یہ شکوہ کہ تعلیم نہیں تو فیس کیوں۔۔۔اور سکولز کا یہ رونا کہ فیس نہیں تو اساتذہ کیوں۔۔۔اور اساتذہ کی یہ شکایت کہ جب اتنا عرصہ سکولز نے لاکھوں کروڑوں روپیہ کمایا تو اب کچھ عرصہ ان کو جیب سے مکمل تنخواہیں دینے میں کیوں جان جاتی ہے۔۔۔جواب میں سکولز کا کہنا کہ فیس آئے گی تو سیلری ملے گی۔۔۔والدین کا جواب کہ پڑھائی ہوگی تو فیس دیں گے۔۔۔سکولز کاکہنا کہ فیس نہ دی تو نام کاٹ دیا جائے گا۔۔۔اور اس سارے تماشے میں کوئی اصل بات کی طرف آتا دکھائی نہیں دیتا۔
اصل یہ ہے کہ ادارے کھولے جائیں۔ ہر ایک جانتا ہے کہ وائرس کی صورتحال ایس او پیز پر عمل کر کے قابو میں لائی جا سکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایس او پیز پر جس طرح شعبہ ٔتعلیم نے عمل کیا کسی اور شعبے میں اس کی مثال تلاش نہیں کی جا سکتی۔ یہ بات بھی زبان زدِ عام ہوچکی ہے کہ وائرس کو گویا ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی حالات نے اس نظریے کو بھی جنم دیا ہے کہ وائرس کا نام لے کر فرقہ وارنہ فسادات کو ہوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
نظریات اور شکایات جو بھی ہوں، حقیقت آشکار ہو چکی ہے کہ تعلیمی اداروں کی بندش کا کوئی جواز اب باقی نہیں۔ ویکسین کی شرط بھی اساتذہ کی اکثریت کب کی پوری کر چکی۔ آٹھ دس فیصد ’غیر ویکسین یافتہ‘ اساتذہ ہرگز بھی اداروں کو بند رکھنے کا جواز نہیں بنائے جا سکتے۔ یہ سکولز کی ذمہ داری ہے کہ اساتذہ کو بغیر ویکسین کےجاب پر نہ رکھیں۔ حکومت ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور فوری طور پر تعلیمی اداروں کی بندش کا فیصلہ واپس لے ۔
عوام اور ادارے ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے بجائے سکولز کھولنے کی مہم چلائیں اور حکومت کو احساس دلائیں کہ عوام حکومت کے غلام نہیں ہیں۔ اپنے اندر سچ بولنے کی ہمت پیدا کریں اور دلائل کے زور پر اپنی بات منوائیں۔ ویسے اس بات کی توقع تو نہیں ہے کہ تعلیم کی بحالی کی خاطر سڑکوں پر کوئی احتجاج کرنے نکلے گا کیونکہ تعلیم ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔۔۔ لیکن اساتذہ کو گذشتہ دو برسوں میں جن ذلتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔۔۔اگر وہ سڑک پر آگئے تو نہ علم رہے گا نہ تعلیم۔۔۔وہی ہوگا جو منظورِ خدا ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں