جبری تبدیلیٔ مذہب۔۔۔کتنی حقیقت، کتنا فسانہ ….از قلم: سیف اللہ خالد

جبری تبدیلیٔ مذہب۔۔۔کتنی حقیقت، کتنا فسانہ

از قلم: سیف اللہ خالد

پاکستان کا وجود روز اول سے دشمنوں کے دل میں ایک کانٹا بن کر چبھا ہوا ہے اور سارا سامراجی نظام اس فکر میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے کہ کس طرح اس کانٹے کو نکال کر اسلام کا واحد سہارا بھی ختم کیا جائے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں محاذ کھول دیے گئے ہیں۔ ابلیسی نظام کی دولت کا بے دریغ استعمال خاص اس مقصد کی خاطر کیا جا رہا ہے کہ یہ ملک جو ملت واحدہ کا واحد آسرا ہے، دجالی قوتوں کے ہاتھ آجائے اور پھر آزادی کے ساتھ بے خوف ہو کر سارے عالم میں مسلمانوں کے سروں کو نیزوں پر اچھالا جائے۔

اسی تماشے کا ایک رُخ پاکستان کو ساری دنیا کے ’میڈیا زدہ‘ ذہنوں کی نظر میں ایک جابر و دہشت انگیز ملک قرار دینا ہے۔ ’میڈیا زدہ‘ اذہان سے مراد ہر ملک میں بسنے والے وہ افراد ہیں جو حقائق سے کہیں دور صرف اسکرین پر نظر آنے والے مناظر کو حق ۔۔۔اور سنائے جانے والے دعووں کو سچ تسلیم کر کے یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ’ہمیں سب معلوم ہے‘۔اس ضمن میں ایک میدان خاص اس کھیل کے لیے سجایا گیا ہے جہاں دکھایا جاتا ہے کہ پاکستان میں اسلام پسندوں کا غلبہ ہے اور کوئی غیر مسلم یہاں محفوظ نہیں۔ یہاں تک کہ غیر مسلموں کو جبری طور پر مسلمان کر لیا جاتا ہے ۔

اپنا آرٹیکل شروع کرنے سے قبل ایک ایسی شخصیت کا ذکر کرنا لازم سمجھتا ہوں جو پاکستان کے خلاف کی گئی اس سازش کے خلاف میدان عمل میں اس طرح اتری ہے کہ جھوٹ کا نقاب گویا نوچ ڈالا ہے۔ وطن عزیز میں غیر مسلم کس حد تک خود کو محفوظ سمجھتے ہیں اور کس طرح پاکستان سے محبت کرتے ہیں یہاں تک کہ اسلام کو سمجھتے اور احترام کرتے ہیں، کیسے رہتے سہتے ہیں اور اپنے مذہبی شعائر پر عمل کرنے میں کتنے آزاد ہیں۔۔۔ان سب سوالوں کے جوابات تلاش کرنے اور حقیقت کو دنیا کے سامنے لانے کا بیڑہ محترم ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی صاحب نے اٹھایا۔ آپ جس خلوص کے ساتھ ملک پاکستان کے کونے کونے میں تشریف لے جا کر پاکستانی ہندو، عیسائی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں سے ملاقاتیں کرنے، ان سے سوال و جواب کرنے اور ان کے انٹرویوز کو ریکارڈ کرنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں وہ نہ صرف قابل تعریف ہے بلکہ اس بات کا متقاضی ہے کہ آپ کی کوششوں کو عوام تک پہنچایا جائے اور غیر مسلم پاکستانیوں کے حقیقی جذبات سے وطن عزیز کے ایک ایک فرد کو آگاہ کیا جائے۔

ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی صاحب اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ہونے کے علاوہ جامعہ کراچی کے شعبہ اسلامک لرننگ میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر فائز ہیں۔ تدریس کے علاوہ ایک طویل عرصے سے آپ کی تحقیقات اور خدمات کا اعتراف علمی حلقوں میں بین الاقوامی سطح پر کیا جاتا ہے۔

ہم ’’شعور ‘‘ سوشل میڈیا نیٹ ورک کے جانب سے ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی صاحب کے بے حد ممنون و مشکور ہیں کہ انہوں نے بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے کی گئی اپنی تحقیقات کو شائع و نشر کرنے کے اجازت مرحمت فرمائی ۔

بیرونی طاقتیں اور ان کے ٹکڑوں پر پلنے والا میڈیا دنیا کی نظر میں پاکستان کا تاثر خراب کرنے کی سازشیں گھڑتا رہتا ہے ۔

دنیا کا سب سے زیادہ بظاہر ’بھروسہ مند‘ فوربس میگزین لکھتا ہے :

’’ہر سال پاکستان میں ایک ہزار عیسائی اور ہندو لڑکیوں کو جبری طور پر مسلمان کیا جاتا ہے اور ان کی کسی مسلمان مرد کے ساتھ زبردستی شادی کروا دی جاتی ہے ‘‘۔

نہ صرف یہ بلکہ پاکستان کا تاثر زیادہ خراب دکھانے کے لیے Wikipedia کے آرٹیکل میں اس قسم کے الفاظ کا اضافہ کر دیا گیا۔۔۔’’ان کو شادی کے بعد جبری طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے‘‘۔

بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے ساری دنیا کے میڈیا بالخصوص ہندوستانی میڈیا نے اس ضمن میں اپنا روایتی انداز اپنایا اور مرچ مصالحے کے ساتھ رپورٹنگ کر کے خوب نام اور پیسہ کمایا جس کی جھلکیاں انٹرنیٹ پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جبری تبدیلی ٔ مذہب کا مظلوم لڑکیوں کو بنا کر پیش کیا جاتا ہے جس کی وجہ سمجھنا ہرگز مشکل نہیں۔ ہمدردی سمیٹنے کے لیے عورت کے تحفظ کی بات کرنا اور کسی کو ظالم بتانے کے لیے عورت پر ظلم کا پرچار کرنا ایسے ہتھکنڈے ہیں جن سے آج ہر ایک اچھی طرح واقف ہے۔

یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ تمام ویب سائیٹس، بلاگز، میڈیا چینلز وغیرہ نے ایک ہی تعداد (ہر سال ایک ہزار) کا ذکر کیا ہے۔ اس تعداد کے لیے ہر ایک نے فوربس میگزین کو بطور حوالہ استعمال کیا۔۔۔لیکن خود فوربس میگزین کے پاس کون سے ’ثبوت‘ تھے؟

اس دلچسپ سوال کا بے حد دلچسپ جواب آگے ملاحظہ فرمائیے گا۔ایک نظر فوربس پر 08 مئی 2020 میں شائع ہونے والے آرٹیکل پر ڈالتے ہیں جس کے بقول چودہ سالہ عیسائی لڑکی مائرہ شہباز کو جبری طور پر مسلمان کیا گیا۔ اس کیس میں لڑکی کا اعترافی بیان (جو بعد میں تبدیل کر دیا گیا) یہ تھا کہ اس نے پرویز نامی شخص سے پسند کی شادی کرنے کے لیے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا تھا۔ لڑکی پر اس کے گھر والوں نے دباؤ ڈالا نیز میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے این جی اوز کا فائدہ اٹھایا اور لڑکی کو بیان بدلنے پر مجبور کیا گیا۔

یہ واحد کیس نہیں تھا جس میں جبری تبدیلی ٔ مذہب کا الزام عائد کیا گیا۔ سندھ میں دو مسلمان بہنوں رینا اور روینا کا کیس جولائی 2019 میں مشہور ہوا تھا جس میں لڑکیوں کی والدہ نے دعویٰ کیا کہ ان کی بیٹیوں کو اغواء کر کے زبردستی مسلمان کیا گیا اور ان کی شادیاں مسلمانوں سے کروائی گئیں۔ جب یہ لڑکیاں پولیس نے ڈھونڈ نکالیں تو خود لڑکیوں کے بیان کے مطابق انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور اس کا مقصد شادی کرنا نہیں بلکہ دین حق کو اپنانا تھا۔ شادی ان کا ثانوی فیصلہ تھا تاکہ ان کو تحفظ مل سکے۔ یہ لڑکیاں آخری معلومات تک اسلام پر قائم تھیں اور انہوں نے ہندو مذہب کو دوبارہ اپنانے سے انکار کر دیا تھا۔

ان کیسز کے علاوہ فوربس نے چودہ سالہ ہما یونس، چودہ سالہ مہوش،تیرہ سالہ ثناء جون، چودہ سالہ فرزانہ اور سولہ برس کی سحرش نامی لڑکیوں کے کیسز کو اسی طرح جبری تبدیلیٔ مذہب کے نام سے شائع کیا۔ کوئی بھی عاقل انسان اس رپورٹ کی صداقت پر درجنوں اعتراضات اٹھا سکتا ہے۔ لڑکیوں کی عمریں، ان کا ماحول، ان کے گھر میں ہونے والے غیر مسلم والدین کا سلوک اور دیگر بہت سی جہات ان دعووں میں یکسر مسترد کر کے ایک نکاتی ایجنڈا یعنی پاکستان کو بدنام کرنا واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

ہم نے سوال کیا تھا کہ فوربس کے پاس کیا ثبوت ہیں؟

اس کا جواب قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ بشریات (اینتھراپالوجی) کے پروفیسر ڈاکٹر غلام حسین کے ریسرچ پیپر میں ملتا ہے جس کو پلوٹو جرنلز (Pluto Journals) نے شائع کیا۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر غلام حسین انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اسلام آباد کے معاون محقق ہیں۔
آپ اپنے ریسرچ پیپر میں لکھتے ہیں ۔۔۔’’ہندؤوں اور عیسائیوں کی تبدیلیٔ مذہب کو جبر کے تناظر میں صرف سول سوسائٹی کے ماحول میں دیکھا جاتا ہے اور اس کا مقصد پاکستان کے اسلامی تشخص کو نشانہ بنانا ہوتا ہے‘‘۔
آپ مزید لکھتے ہیں کہ ۔۔۔’’میری تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ (۱) ایک ہزار عورتوں اور لڑکیوں کی جبری تبدیلیٔ مذہب کا دعویٰ محض لفاظی ہے۔ (۲) رپورٹ میں بنیادی شہادتیں تک موجود نہیں اور (۳) رپورٹ میں موجود بیانات اور اعداد و شمار صرف تکرار (tautological)ہیں‘‘۔
تکراری طریق کار (tautology) ایک خاص انداز ہے جس میں ایک بنیادی دعویٰ کیا جاتا ہے جس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں پائی جاتی۔ اس دعوے کو مزید دعووں کے ساتھ ملا کر اندازوں میں گڈ مڈ کیا جاتا ہے اور اس طرح بتدریج بڑھتے بڑھتے اعداد و شمار کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں جن کو ایک پورا چکر لگوا کر دوبارہ پہلے دعوے کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ تاثر پیش کیا جاتا ہے کہ معاملہ بہت گھمبیر ہے۔
ایک اور حقیقت جس سے ڈاکٹر غلام حسین اپنی تحقیق میں پردہ اٹھاتے ہیں وہ یہ کہ انٹرنیٹ پر موجود مواد جو جبری تبدیلیٔ مذہب کے نام پر اپ لوڈ کیا جاتا ہے وہ پاکستانی اداروں کی طرف سے نہیں بلکہ پہلے نمبر پر امریکہ اور پھر بھارت سے چلائی جانے والی انٹرنیٹ سروسز سے ڈالا جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
“Forced conversion in Pakistan’ emanates more from the internet and social media outlets located in United States of America (USA) and India than from Pakistan. It is how the rhetorical claim that ‘1,000 forced conversions annually happen in Pakistan’ appear in searches more frequently in documents and search entries mentioning Sindh, BJP and the USA along with the issue of ‘forced’ conversion.”

پس ثابت ہوا کہ فوربس میگزین کے پاس کوئی شہادت جو قرار واقعی ہو ، موجود نہیں اور دیگر میڈیا چینلز و اخبارات جو فوربس کو بطور حرف آخر لیتے ہیں ، کا معیار بھی سوالیہ نشان کی زد میں ہے۔یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان کو ایک خاص ایجنڈا کے تحت دنیا میں بدنام کیا جا رہا ہے اور قابل افسوس بات یہ ہے کہ خود پاکستانی عوام اس پروپیگنڈا مہم کا شکار بنتی جا رہی ہے۔ بجائے وطن عزیز پر انگلیاں اٹھانے کے یہ فکر کرنا چاہیے کہ اس ملک کی جڑوں میں اس قسم کے زہر کیوں گھولے جا رہے ہیں؟ امن و امان کے ساتھ رہنے اور بسنے والے غیر مسلموں کو آلۂ کار کون بنا رہا ہے اور اس کے پیچھے کون سے خطرناک عزائم پوشیدہ ہیں؟ اور سب سے اہم سوال تو یہ پیدا ہو چکا ہے کہ کیا ان موشگافیوں کے بعد میڈیا کے ان ذرائع پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں