فلسفۂ قربانی

قربانی کیا ہے؟
قربانی دینِ اسلام کی شان اور اسلام کا ایک بڑا نشان ہے۔
قربانی ربِّ جلیل کے خلیل ابراہیم اور دیگر انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃو السلام کی سنت اور ربِّ کائنات کے دربار میں بندوں کی بہترین عبادت ہے۔
لیکن افسوس کہ آج ہم صرف خون کے چند قطرات بہادینے کو ہی قربانی سمجھ بیٹھے ہیں اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور دیگر جلیل القدر پیغمبروں کی اِس سنّتِ مبارکہ کے مقصدِ اعلٰی کو فراموش کر ديا ہے۔
قربانی کے اغراض و مقاصد اور اسکے ثمرات و نتائج کیا ہیں اسکی طرف بہت کم لوگوں کی توجہ ہوتی ہے۔
یاد رکھئے !قربانی بظاہر ایک جانور کو اللہ عزّوجلّ کے نام پر ذبح کردینے کا نام ہے، لیکن قربانی کا مقصدِ حقیقی محض جانور کو ذبح کردینا، اور گوشت حاصل کر کہ خود کھا لینا۔۔ یا۔۔ تقسیم کر لینا ہی نہیں ہے ،بلکہ تمام عبادات کی طرح قربانی کی روح اور مقصد حقیقی بھی یہی ہے کہ
“بندہ جذبۂ اخلاص کے ساتھ اپنے اندر فداکاری، ایمانداری و نیکوکاری اور تقویٰ و پرہیزگاری کا کمال پیداکرے”۔
جانور کی قربانی اللہ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہوئے بندۂ مؤمن کے دل میں یہ جذبہ بھی ہونا چاہیے کہ
“جانور کی قربانی تو اللہ سبحانہٗ کی راہ میں کر ہی رہا ہوں لیکن اگر اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑا تو اس سے بھی دریغ نہیں کروں گا”۔
اور یہی تقویٰ و پرہیزگاری ہی بارگاہِ خداوندی میں مقبول ہوتی ہے جیساکہ خالقِ کائنات کا قرآنِ پاک میں فرمان ہے۔
لَنۡ یَّنَالَ اللہَ لُحُوۡمُہَا وَلَا دِمَآؤُہَا وَلٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنۡکُمْ
(سورہ الحج آیت ۳۷)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کو(تمھاری) ان قربانیوں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ اس عملِ قربانی سے جو تقویٰ تمہارے اندر پیدا ہوتا ہے وہی اللہ کی بارگاہ میں پہنچتا ہے۔
پس معلوم ہوا کہ ،اصل مطلوبِ خداوندی ’تقویٰ‘ ہے۔
لہٰذا قربانی ضرور کرنی چاہیے لیکن اس مقصد کو مدِ نظر رکھ کر کرنی چاہیے۔
اور قربانی میں چونکہ بظاہر کثیر مال خرچ کرنا پڑتا ہے تو خرچ کرتے وقت یہ خیال ذہن کے کسی گوشے میں بھی ہرگز نہیں لانا چاہیے کہ اس سے میرے مال میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع ہوگی۔۔۔کیونکہ قربانی کا فلسفہ یہ ہے کہ جو چیز بھی خدا کی راہ میں قربان کی جاتی ہے وہ ہرگز کم نہیں ہوتی بلکہ اس میں برکت ہوتی ہے۔
دنیا کا بھی یہی قانون ہے کی قربانی دی جائے تو ہی کامیابی اور ترقّی ملتی ہے۔مثال کے طور پرگائے، بھینس اور اونٹنی سال بھر میں صرف ایک بچہ جنتی ہیں اور بھیڑ،بکری بھی سال میں بمشکل دو تین بچے ہی دیتی ہیں یعنی ان جانوروں کی پیداوار بہت ہی کم ہے لیکن ان جانوروں کے گوشت کے استعمال کا یہ عالم ہے کہ ،عام دنوں میں بھی، روزانہ ملک بھر میں لاکھوں گائے، بیل، بکرے اور بھیڑ بکریاں ذبح کی جاتی ہیں اور قربانی کے دنوں میں یہ تعداد بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ايک اندازے کے مطابق پاکستان میں عیدِ قرباں پر تقریباً ایک کروڑ بائیس لاکھ(12,200,000)جانور ذبح کئے جاتے ہیں اور ہزاروں جانور سال بھر میں ،بیماری کی وجہ سے ، مر بھی جاتے ہیں،اس کے باوجود ان کی نسل میں اتنی برکت ہے کہ اگلے سال اتنے جانور بلکہ اس سے زیادہ مقدار میں دوبارہ با آسانی دستیاب ہو جاتے ہیں، کسی قسم کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔
دوسری طرف بہت سے جانور ایسے ہیں جن کی نہ تو قربانی ہوتی ہے اور دیگر کاموں میں بھی ان کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے ،پھر بھی ان کی نسلوں کی حفاظت کے اقدامات کئے جاتے ہیں۔
اسکی وجہ یہی ہے کہ جب جانور اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کئے جاتے ہیں تونسل میں برکت ہے اور تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے ۔
لہٰذا اس قانونِ فطرت سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جو چیز بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کی جائے گی وہ ہمیشہ بڑھتی اور ترقی کرتی رہے گی اور جو چیز خدا کی راہ میں خرچ نہیں کی جائیگی وہ ہمیشہ گھٹتی اور تنزل پذیر ہوتی رہے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں