فکری محاذ کی تیاری

بسم اللہ الرحمن الرحیم
فکری محاذ کی تیاری
تحریر: شعیب مدنی
ایسے افراد جو فکری جدوجہد کا شعور تو پاچکے ہیں لیکن ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی ہے کہ وہ کیا کریں اورکس طرح اسلامی تہذیب کی فکری اساس کومحفوظ بنائیں۔ اس ضمن میں کچھ معروضات پیش خدمت ہیں اگر آپ ان سے متفق ہوں توآ یئے کام کا آغاز کرتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ کچھ چیزیں حاصل کیےبغیر فکری جدو جہد کا سپاہی خود اپنی ہی فوج کا نقصان کر بیٹھے گا۔ اس لیے پہلے ان اہم باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
1۔ ہمیں یہ یقین کرنا ہوگا کہ اعمال کی بنیاد اور درستگی ، فکر اور نظریہ کی درستگی پر منحصر ہے۔ تہذیب اسلامی کی حفاظت فکری اور اخلاقی بنیادیوں کی حفاظت سے ہی ممکن ہے۔ہم اکثر وقت سے پہلے چیز کے حصول میں جلد بازی سے کام لیتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اکثر افراد دیگر بے شمار سطحی کاموں میں مشغولیت کے باعث فکر ی انقلاب کے دور رس نتائج کا انتظار نہیں کر سکتے اور اکتا کر محنت کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
2۔ ہمیں دین کی ایسی سمجھ حاصل کرنی ہو گی جس میں گہرائی اور جامعیت ہو۔ اس لیے مقاصد شریعت اور ترجیحات کو سمجھنا ہو گا۔
3۔ اختلافات کے بجائے باہمی مشترکات کو ترجیح دینا ہوگی اور اختلاف کے آداب سیکھنا ہوں گے۔ کیونکہ باہمی اختلافات کے باوجود ہم سب کا دشمن مشترکہ ہے۔ اس میں بے احتیاطی ہمیں کمزور کرے گی اور دشمن کو مضبوط۔
4۔ دشمن پر تنقید بھی ضروری ہے لیکن صرف تنقید سے کام نہیں چلے گا ۔اس بات کو یوں سمجھ لیں کہ امپورٹڈ اشیاء کے خلاف بائیکاٹ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک ان سے بہتر کوالٹی کی اشیا ءپاکستانی برانڈز میں دستیاب نہ ہو جائیں۔اسی طرح صرف باطل نظریات پر تنقید سے کام نہیں چلے گا بلکہ ہمیں ایسی علمی اور تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کرنا ہوگا جس کی مدد سے ہم اسلامی نظام کے ایک ایک شعبے کی جزئیات تک کو عوام کے سامنے ایسے پیش کرسکیں کہ پڑھنے، دیکھنے اور سننے والا اس کے حسن انجام کو چھو سکے، محسوس کر سکے اور ان کے نفاذ کی تمنا کا داعی بن جائے۔
بعد الموت اجر عظیم کی بشارتوں کے ساتھ ساتھ ہمیں ان کے تحت الشعور میں بٹھانا ہوگا کہ کہ آخر اسلامی نظام قانون ، معاشرت، معیشت، عدل، تعلیم وغیرہ ان کی زندگی میں کیا خوش نما تبدیلیاں لا سکتے ہیں اور وہ اس کی زندگی کو کیسے بہتر بنائے گا۔
5۔ مسائل میں آسانی اور دعوت میں خوش خبری کو ترجیح دینا ہو گی۔زمانے کی عرف و عادت کا لحاظ رکھنا ہوگا اواحکام شریعت اور جدید مسائل میں توازن قائم رکھنا ہوگا۔
6۔ اسلامی تہذیب کی روحانیت سے اخلاق کو مزین کرنا ہوگا ۔حرص مال و جاہ وہ مردار ہے جسے کنویں سے نکالے بغیر پانی پاک نہیں ہو سکتا۔ترک معاصی کے بغیر دعوت اسلام بےروح کے صرف ایک میت ہے۔ جو کسی کے لیے فائدہ مند نہیں ہو سکتی۔
7۔یہ سمجھنا ہو گا کہ دین کو انفرادیت نہیں اجتماعیت مطلوب ہے۔ ہماری کامیابی اجتماعی کاموں میں ہے۔ ہمارا ٹکراو سپر پاورز کی فکر سے ہے۔ اس کے مدمقابل کھڑا ہونے کے لیے ہمیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اپنے وجودکو بڑا کرنا ہوگا۔
8۔تعلیم و تعلم کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کے لیے مسلمان ماہرین ابلاغ تیار کرنے پڑیں گے ۔ سوشل میڈیا نے لوگوں کو ایک خاص تفریحی مواد کا عادی کر دیا ہے ۔ اور وہ لاشعوری طور پر ان باطل نظریات کے حامی و داعی بنتے چلے جا رہے ہیں۔اعلیٰ معیاری متبادل دینے کے لیے ہمیں ہر میدان اور ہر سطح پر مسلمان ماہرین کو شامل کرنا ہوگا۔ جو صوتیات، اداکاری، ڈرامے ، فائن آرٹس اور گرافکس جیسے فنون میں مہارت رکھتے ہوں۔ان کے ساتھ ساتھ مواد جمع کرنے والے ، اسکرپٹ لکھنے والے، پروڈیوسر، ڈائریکٹرز، ایڈٹرز اور مارکیٹرز کی ضرورت ہوگی۔
9۔ موجودہ ماہرین ابلاغ کو اپنے ساتھ شامل کرنا ہوگا کیونکہ ان میں بہت سے ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو اسلام کے خلاف نہیں ہوتے لیکن متبادل نہ ہونے کی وجہ سے وہ یہ کام کرتے ہیں یا جس موحول میں وہ وقت گزارتے ہیں وہاں کے عادی ہو جاتے ہیں یا وہ لاعلمی کی وجہ اسے براکام ہی نہیں سمجھتے ۔ ایسے افراد کو اچھے مقاصد کے لیے راغب کرنا چاہیے۔
اگر آپ فکری جنگ کا شعور پا چکے ہیں اور ’ج ہ اد‘ با الِّسان پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشرکین سے ’ج ہ اد‘ کرو اپنے مال ، جان اور زبان کے ساتھ تو اس بات کو بھی سمجھ لیں کہ مذکورہ بالا تمام کام باہمی رابطے اور تعاون کے ممکن نہیں ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں