قربانی اسلامی عبادات میں سے ایک اہم عبادت ہے جسے شرعِ محمدی صلی اللہ علیہ والہ ٖوسلم نے دو اہم درجے دیے۔
۱۔ واجب (غنی پر)
۲۔ سنت یا نفل (شرعی فقیر یا منت والے پر)
ان دو مراتب (elements of status) سے قربانی کے ضمن میں یہ اصول اظہر من الشمس ہوجاتا ہے کہ قربانی بہت اعلی ٰ حیثیتوں کی حامل عبادت ہے۔یہ حیثیتیں حکمِ شرعی کے لحاظ سے ہیں مگر ان سے بھی بڑھ کر قربانی کا وہ مقام ہے جہاں اسے “سنتِ ابراہیمی” جیسے خاص مرتبے سے یاد کیا گیا۔
::ایک شبہ کا ازالہ::
جیسا کہ خود کو روشن خیال گرداننے والے ملحدین اور ان کے ہمنوا، دیسی لبرل و سیکولر قربانی کی حیثیت کو ماننے سے انکاری ہیں،ہمیں بحیثیت مسلمان بس یہی عقیدہ واصول اختیار کرنا ہے کہ قربانی بے کار یا بے حیثیت عبادت نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک امرِ شرعی ہے اور جس چیزکے لئے امرِ شرعی وارد ہوجاتا ہے تو اس کا مطلب وہ من جانب اللہ ہوتا ہے اور جو چیز من جانب اللہ ہوتی ہے اس پر خود کو عقلِ کل تصور کرتے ہوئے اعتراض کرنا یا اس کو کم درجہ ثابت کرنا ہی بے اعتدالی (immoderation) ہے جسے ہم اصلاحِ معروف میں الحادی نظریات (atheistic ideologies)میں شمار کرتے ہیں۔
قربانی کی تاریخ پر روشنی ڈالنے سے یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ قربانی کے پیچھے ایک اہم ترین فکرِ اسلامی شامل ہے جس کا مختصر تجزیہ ان الفاظ کے ساتھ کیا جاسکتا ہے:
۱۔ اپنی پیاری چیز اللہ کی راہ میں قربان کرنا
۲۔ اللہ کے حکم کی بجاآوری کے لئے محبتوں کے بڑے سے بڑے رشتے کو قربان کردینا
۳۔ اپنے مال اور اولاد پر اللہ کے حکم کو ترجیح دینا
۴۔ راہِ خدا میں قربانی پیش کرنے سے روکنے والے طاغوتی حملوں کا دلیری و بلند حوصلے سے مقابلہ کرنا، وغیرہ وغیرہ
::ایک اہم نکتہ۔۔۔شیطان ملحد کے بھیس میں::
مندرجہ بالا اہم تاریخی نکات سے جہاں ایک طرف بے دین الحادی و سیکولر قوتوں کا ’ردّ‘ ہوتا ہے تو دوسری جانب قربانی کا مقصد طاغوت و شیاطین سے فکری مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ یہاں فی زمانہ الحاد بلاواسطہ یا بالواسطہ یہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ۔۔۔”انسانی آزادی کے سامنے دین ایک ثانوی چیز ہے۔۔۔!”
ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک مسلمان کے لئے اللہ کے خلیل سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا وہ طریقہِ مبارک کہ جب شیطان اپنے گمراہ کن نظریات (misleading ideologies) کے ساتھ عین اس وقت حاضر ہوا کہ جس وقت آپ اپنے فرزند سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو حکمِ باری کی تعمیل میں قربان فرمانے جارہے تھے اور شیطان اس وقت بھی آپ کے سامنے اولاد کی محبت کو حکمِ الہی کی تعمیل کے سامنے اصولی حیثیت (primary status) دیتے ہوئے دین کو ثانویت (secondary status) پر رکھ رہا تھا اور یہ کہ کر آپ کو قربانی سے روک رہا تھا کہ اولاد کی محبت انسانی آزادی (freedom of human) کا حصہ ہے آپ اولاد کو قربان نہ کریں. اس پر اللہ کے خلیل نے اس کا صرف علمی رد نہ فرمایا ۔۔۔بلکہ کنکر اٹھا کر اسے دے مارے کیونکہ آپ جانتے تھےکہ۔۔۔”ملحدو بے دین سے صرف عقل و دلیل کی بنیاد پر نہیں لڑا جاسکتا بلکہ ان کا علاج یہ بھی ہے کہ انھیں اپنی صفوں سے دور نکالا جائے۔”
آج براہِ راست شیطان تو نہیں آتا بلکہ انسانوں میں اس کے نمائندے جسے انسانوں میں شیطانی مافیا( Devil’s gang or mafia in the world) قرار دیا جاسکتا ہے، اہم تاریخی عبادات کے مواقع پر بے عقلی پر مبنی اعتراضات کے ساتھ سر اٹھاتے ہیں اور سوشل میڈیا کو آلہ کار بناکر فرزندانِ توحید کے دلوں میں شکوک و شبہات جنم دیکر انھیں نظریاتی ملحد یا کم از کم دیسی لبرل بنانے کی کوشش کرتے ہیں لہذا قربانی کے اہم موقع پر اہل اسلام کو سیدنا ابراہیم کی ایک سنت نہیں بلکہ دو سنتیں ادا کرنی چاہئیں.
۱۔ قربانی کرنی چاہیے۔
۲۔ قربانی جیسی اہم عبادت سے روکنے والے الحادی ذرائع کا علم و عمل دونوں کے ذریعے مقابلہ کرنا چاہیے ۔
قربانی جیسی عبادت کے اندر یہی وہ راز تھا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پوچھا کہ یہ قربانیاں کیا ہیں؟
اس سوال کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہرگز یہ نہ فرمایا کہ قربانی ایک عبادت ہے یا یہ میری سنت ہے بلکہ قربانی کی نسبت و تعلق کو اللہ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام کی طرف قائم کرتےہوئے اسے سنتِ ابراہیمی قرار دیا تاکہ۔۔۔”قربانی کی تاریخ، فلسفہ اور اسکی شعوری و فکری حیثیت نہ صرف نکھر کر امت کے سامنے آجائے بلکہ شیطان کا وہ ملحدانہ عمل (atheistic action)جو امت کے لئے ادائیگیِ قربانی میں رکاوٹ بن سکتا ہے، کے رد کے سلسلے میں اللہ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام کا مبارک طرزعمل بھی امت پر روشن ہوجائے اور اہل توحید یہ جان لیں کہ جہاں قربانی اور الحاد کا مدمقابل ہوجائے تو سنتِ پر چلتے ہوئے کیسے الحاد کا علمی و عملی رد کرنا چاہئے۔”
(نوٹ: ابلیس خود ملحد نہیں بلکہ وہ خدا کو ماننے والا ہے لیکن نوعِ انسانی کو بہکانے کے لیے ہر قسم کے فتنے پیدا کر کے اپنی قول کے مطابق اپنے ساتھ جہنم میں لے جانے کی کوشش کے تحت نت نئے فسادات پر ابھارتا ہے۔ گویا ایک ملحد خود ابلیس سے بھی ایک قدم آگے ہوتا ہے۔ )
