قربانی غریبوں کی مدد بھی ہے اور معیشت بھی.

تحریر:رحم حسین ناریجو القادری
یہ بات ہر شخص پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام ایک دینِ فطرت ہے،۔ اُس کا دیا ہوا ہر حکم انسان کی فلاح و بہبود پر مشتمل ہے چاہے انسان کی ناقص عقل میں یہ بات آئے یا نا آئے۔ اسی طرح دینِ اسلام نے انسان پر کچھ مالی تو کچھ بدنی احکامات ارشاد فرمائے ہیں، ان میں سے ایک عظیم فریضہ قربانی کا بھی ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو یہ بظاہر مال خرچ کرنے کا نام ہے مگر اُس کی گہرائی میں جانے کے بعد یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ قربانی صرف جانور ذبح کر دینے کا نام نہیں ہےبلکہ یہ ایک پوری معیشت کا نام ہے، چونکہ عام انسان کو یہ معلوم نہیں کہ ایک جانور کتنے مراحل سے گزر کر قربانی کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور اُن سے کتنے لوگوں کی روزی روٹی جُری ہوئی ہوتی ہے۔اور کتنوں کے چوہلے اس سے جلتے ہیں جو کہ سالہا سال ان دنوں کا انتظار کرتے ہیں ۔
یہاں پر ایک مثال دینا چاہوں گا۔ ایک بندہ جانور خرید کر گھر لے آتا ہے اس کے لیے چارہ گھاس لینا پڑتا ہے جس سے کسانوں کو روزگار ملتاہے۔ گاڑیوں میں لاد کر لے جایا جاتا ہے جس سے جانور وں کو لے جانے والے کا روزگار وابستہ ہے۔قصائیوں کو روزگارملتا ہے، کھالوں کی بات کی جائے تو یہ ایک الگ معیشت ہے، گویہ کہ یہ ایک مکمل پروجیکٹ ہے۔جو کہ ملکی سطح پر چمڑے کی تجارت اور صنعت ہے ۔ نیز چمڑے کا کام کرنے والوں کا بھی اس سے روز گار وابستہ ہے۔ یوں تھوڑا تھوڑا کر کے ہر شخص کی روزی روٹی جڑی ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ قربانی کی صورت میں اسلام نے غریب طبقے کے لیے ایک بہترین نظام متعارف کروایا ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ گوشت کھانے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔خاص طور پر آج کی اس شدید مہنگائی میں جو لوگ دو وقت کا کھانا کھانے نہیں کھا سکتا وہ پندرہ بیس ہزار کا جانور لیکر قربانی کیسے کرے؟ مگر انہیں بھی کسی نا کسی طریقے سے قربانی کا گوشت نصیب ہوتا ہے کہ اسلام نے قربانی کا ایک حصہ غریبوں اور کمزور رشتےداروں کے لیے بھی مختص کیا ہے۔
میڈیکل کی بات کی جائے تو ہر ماہ گوشت کھانا صحت کے لیے لازمی قرار دیا ہے ۔ لیکن غریب انسان گوشت کھانے کی استطاعت نہیں رکھتا ہے،تو اس صورت میں اسلام امیروں کو قربانی کا حکم دیتا ہے کہ غریبوں کی مدد کر و اور دنیا میں دیکھا جائے تو اسلام کے علاوہ کوئی بھی ایسا مذہب نہیں جو غریبوں کی اس طرح مدد کرتا ہو۔ رہی بات یہ کہ جو لوگ قربانی پر اعتراض کرتے ہیں: ان کے لیے دو باتیں عرض کرتاہوں۔
ایک تو یہ کہ معترض یا تو مسلمان ہو گا جو کسی بُری صحت کی وجہ سے ایسے اعتراضات کرتا ہو گا ۔اس کو اتنا یاد رکھ لینا چاہے کہ جو حکم دین کی طرف سے ہوتا ہے اُس کو ماننا ہی اُس دین کی پیروی ہے۔
اور یہ کہ کیا اللہ پاک نے قربانی کا حکم نہیں دیا۔۔۔۔۔۔؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی نہیں فرمائی۔۔۔۔۔۔؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے قربانی نہیں کی۔۔۔۔۔؟
تبع تابعین اور سلف و صالحین نے قربانی نہیں فرمائی۔۔۔۔۔۔۔؟
اگر ہاں میں جواب ہے تو اعتراض کس بات کا۔۔۔۔۔۔ ؟
اب سوال یہ ہے کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ سلم کے زمانے میں غربت زیادہ تھی یا اب۔۔۔۔؟ عرب میں اتنی غربت و تنگدستی کا زمانہ ہونے کے باوجود بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ رضی اللہ عنھم اور آپ کے نقش ِ قدم پر چلنے والے ہر سال اہتمام کے ساتھ قربانی فرمایا کرتے تھے۔جب وہ ااس کٹھن وقت میں قربانی کیا کرتے تھے تو آج کا مسلمان اُسی مقدس فریضے پر اعتراض کیسے کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟
دوسری صورت غیرمسلموں یا نام نہاد آزاد خیالوں کی ہو سکتی ہے جو قربانی کی بجائے غریبوں کی مدد کرنے کاراگ الاپتے رہتے ہیں۔ اُن سے گزارش ہے کہ ہر مذہب کے اندر خیر کی نیت سے خرچ کرنے کا تصورر موجود ہے ۔جس طرح ہندؤں کے نزدیک بتوں کے نام پر جانور ذبح کرنا وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔تو پھرخاص طور پر اسلام کے مقدس فریضے کے ایام آتے ہی غریبو ں کی مدد کیوں یاد آجاتی ہے؟
یادرکھیں! قربانی اسلام کا ایک عظیم فلسفہ ہے جو کہ ہزارہا سال پرانا ہے جس کے ذریعے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بخشش کی نوید سنائی اور یہ عشق ومحبت اور احساس کا فریضہ ہے۔ اعتراضات کرنے کامقصد صرف اور صرف مسلمانوں کے ایمان کو کمزور کرنا ہے۔ ورنہ پوری دنیا کے اندردولت کی غیر منصفانہ تقسیم عام ہے وہ یوں کہ ایک طبقہ دن بہ دن امیر ہوتا جا رہا ہے اور دوسرا غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے نہ کہ قربانی جیسے مقدس فریضے کو روکنے کی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں