تحریر: سیف اللہ خالد
(پڑھنے سے پہلے جان لیجئے کہ یہ تحریر ایک مسلمان سوسائٹی میں ایک ’عورت‘ کی عزت کے دفاع کے لیے لکھی گئی ہے۔ وہ عورت وہاں کیوں، کیسے، کب گئی تھی۔۔۔اور اس کے نتائج کیا ہوتے۔۔۔یہ سب ایک الگ تحریر میں بیان کیا جائے گا۔)
مینارِ پاکستان جیسے تاریخی مقام پر درندگی کی بھی ایک تاریخ رقم ہوگئی۔ ذہن کی حالت وہ ہے کہ ایک لمحے میں سینکڑوں سوچیں آرہی ہیں اور جا رہی ہیں۔ یہ واقعہ نہ بے شرمی کا ہے نہ بے غیرتی کا۔ یہ واقعہ اپنی اوقات بھول جانے سے پیدا ہونے والی غلط فہمی کا ہے۔ یہ واقعہ دل سے خدا کا خوف یکسر نکل جانے سے پیدا ہونے والی ابلیسیت کا ہے۔ یہ واقعہ اپنی ننگی سوچ کو ہجوم کی آڑ میں چھپا کر شرافت کے نام سے حیوانیت دکھانے کا ہے۔بلکہ یہ واقعہ نہیں۔۔۔یہ اس ملک کے شرفاء کی خاموشی کا نتیجہ ہے جو ہر معاملے میں ’میں اکیلا کیا کر سکتا ہوں‘ کا الاپ جاپ کر اپنی مستی میں کھو جاتے ہیں۔ یہ حکمرانوں کی نا اہلی کا نتیجہ ہے جو عدالتی نظام کو آج تک اس قابل نہ بنا پائے کہ مجرم کو فوراً نشانِ عبرت بنا پاتا۔ یہ قانون کے اس اندھے پن کا نتیجہ ہے جو رشوت نہ کھلانے پر ایک بے قصور کو جھوٹے الزام میں عمر قید تو کروا سکتا ہے لیکن ایک ظالم کو انجام تک پہنچانے میں ’ثبوت‘ بھی تلاش نہیں کر پاتا۔
اتنے بڑے ہجوم میں کسی دل کا نہ پسیجنا۔۔۔کسی کے اندر ذلالت کے اس اندھے ناچ کو روکنے کی ہمت نہ ہونا۔۔۔بلکہ شیطنت کا کھلم کھلا اظہار ہوتے مناظر کی تابڑ توڑ وڈیوز بنانا۔۔۔کسی ایک سوال کو جنم نہیں دیتا بلکہ موجودہ نسل کی تربیت اور ماحول پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔ آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی یقین کرنے کو دل نہیں مانتا کہ ایک لڑکی کو اتنا بڑا مجمع گھیر کر مدد کے نام پر ہوس کا نشانہ بنا رہا ہے۔۔۔اور ایسے مقام پر جہاں اُس یادگار کا وجود ہے جو ماؤں ، بہنوں، بیٹیوں کو اسی سلوک سے بچانے کی خاطر کی گئی جدوجہد کی یادگار ہے۔کیا ان اجہل الجاہلین کویہ لگنے لگا ہے کہ ہم نے ہندوؤں اور سکھوں سے اپنے عزتیں اس لیے بچانا چاہی تھیں کہ یہ درندے ’زندہ دلی‘ کے نام پر ایک عورت کو بے آبرو کریں گے؟
کشمیر، برما اور فلسطین کی مسلمان عورت پر ترس کھانے والے اس ملک میں ایسے بے خوف بھیڑیوں کا ہجوم ایک ہی مقام پر ہونا۔۔۔یقیناً خطرے کی علامت ہے۔ اس ملک کے حاکم کو تمام جہتوں سے ایسے واقعات رونما ہونے سے روکنا ہوگا۔ قانون کو اس کا کام کرنے پر مجبور کرنا ہوگا اور عدالتوں کو ہر قسم کے دباؤ سے آزاد کرنا ہوگا۔ یہ کوئی عام سا واقعہ نہیں جس کو بھلا دیا جائے۔ یہ اس دھرتی کی ہر ماں، بہن ، بیٹی کی عزت کا سوال ہے۔
اور خبر دار۔۔۔! اس واقعے کی آڑ میں ہر گروہ کو اپنے من چاہے چورن بیچنے سے بھی روکنا ضروری ہے۔وہ مغربی ذہنیت کے مارے جو اس واقعے کو بنیاد بنا کر اسلام پر انگلی اٹھائیں گے۔۔۔وہ نسوانی حقوق کے علمبردار کو اس بہانے عورت کو بے پردہ ہونے کا درس دیں گے۔۔۔وہ خبریں بیچنے والے جو اس مظلومہ سے انٹرویوز کر کر کے اپنی دکان چمکائیں گے۔۔۔ہر ایک کو اس کی حد میں رکھا جائے اور اس بہانے پاکستان یا نظریہ پاکستان۔۔۔اسلام یا مسلمان۔۔۔پردہ یا حجاب پر حملہ کرنے کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ریاست اس ذمہ داری کو پورا کرے۔
وقت آگیا ہے کہ تسلیم کیا جائے۔۔۔کہ جب تک شرعی قوانین اور سزاؤں کا نفاذ نہیں ہوگا اس قسم کے بھیڑیے کسی نہ کسی لباس کو تار تار کرتے رہیں گے۔ یا د رکھیں کہ ہر وہ شخص کو شرعی قوانین کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے ۔۔۔اس قسم کے جرائم کے ذمہ داروں میں شامل ہے۔
عورت کو پردے کا حکم دیا جائے۔ مردوں کی آنکھیں نیچی رکھوائی جائیں۔ عدالتیں آزاد کی جائیں۔ قانون کو سب کے لیے برابر کیا جائے۔ کسی مسلک کو نہیں بلکہ دین کو نافذ کیا جائے۔ جرم کرنے والے مولوی سے لے کر ایلیٹ کلاس برگر تک ہر ایک کو نشان عبرت بنایا جائے۔ فحاشی کے تمام ذرائع کو بند کیا جائے جن کی وجہ سے ذہنوں میں بدبو دار خیالات جنم لے کر موقع تلاش کرتے پھرتے ہیں۔
موم بتیاں اٹھائے ہمدرد بن کر اس واقعے کو کیش کروانے کے لیے بہت لوگ سامنے آئیں گے۔ بی بی سی اور انڈیپینڈنس جیسے اسلام و پاکستان دشمن ’خبر رساں‘ ادارے اس ملک کی دھجیاں اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ خود اس مظلوم لڑکی کو حقوق نسواں کے نام پر استعمال کرنے کی ہر کوشش کی جائے گی۔ ٹک ٹاک کو بھی پروموٹ کیا جائے گا اور بے حیائی کو مزید بڑھاوا دیا جائے گا۔
یہ کام ہر ذمہ دار مرد، عورت، لڑکے اور لڑکی کا ہے کہ ریاست پر زور ڈالے اور آواز اٹھائے کہ ایسے واقعات کے انسداد کے لیے فوری اقدامات کرے۔ اگر موم بتیاں اپنی مہم میں کامیاب ہو گئیں تو ایسے واقعات انوکھے نہیں رہیں گے بلکہ عام ہو کر قوم کے ماتھے کا بدنما داغ بن جائیں گے۔
