ایک بستی میں سو خاندان آباد تھے ۔ وہ بہت پر امن ، خوش حال زندگی بسر کر رہے تھے۔ تمام ہی خاندان ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے تھے۔ نہ چوری تھی نہ سینہ زوری ۔ہر ایک کی عزت و آبرو محفوظ تھی۔ کوئی کسی طرف بری نگاہ سے دیکھتا تک نہ تھا۔ بلکہ ہر ایک دوسرے کا رکھوالا تھا۔ گویاکہ ایک آئیڈیل پر امن معاشرہ تھا ۔
آبادی کے ساتھ بڑے بڑے پہاڑ تھے ۔ وہاں ایک زور آور دیو رہتا تھا ۔ وہ اس پر امن آبادی کو دیکھ کر بہت حسد کرتا تھا کیونکہ اس کی بستی میں ایسا کچھ نہیں تھا بلکہ اس کی بستی فتنہ و فساد کی آگ میں جل رہی تھی۔
دیو کے سینے میں حسد کی آگ کے شعلے جب چنگاریاں اڑانے لگے تو اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ضرور اس بستی میں فساد برپا کرکے رہے گا۔ اب وہ سوچنے لگا کہ وہ کون سا کام کرے جس سے پوری بستی فتنہ و فساد کی ایسی آگ میں لپٹ جائے جو کبھی نہ بجھے ۔ اس نے سوچا کہ بستی کے چند لوگو ں کا ایک ڈاکوگروپ بنادینا چاہیے ۔ تاکہ خوب فتنہ و فساد ، قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم ہو سکے لیکن وہ یہ سوچ کر رک گیا کہ اس بستی کے تمام لوگ بہت اچھے ہیں ان کی تربیت بہت اچھی ہے ۔ ان کے مزاج میں ایسی کوئی برائی نہیں اگر میں نے انھیں وقتی طور پر اس کام کے لیے تیار بھی کر لیا تو اس بستی کے عقل مند نیک لوگ انھیں تھوڑے ہی دنوں میں پھر نیکی کے راستے پرلا سکتے ہیں ۔
ایک کے بعد دوسرا تباہ کن خیال آتا رہا ۔اس نے سوچا مجھے نشہ آور چیزوں کو عام کرنا چاہیے تاکہ بد مستی کے عالم میں وہ ہر برائی کرنے کے لیے آمادہ ہو جائیں۔ اور پورا معاشرہ تباہی کا شکار ہو جائے نہ کسی کے مال کا تحفظ نہ کسی کی عزت و آبرو کا خیال رہے اوریوں ا س بستی کا امن تباہ ہو جائے گا۔لیکن پھر اس نے سوچا کہ یہ تمام افراد بالآخر ہیں تو بہت اچھے ، ان کی تربیت میں ایسی کوئی برائی نہیں۔اگر وقتی طور پر بگڑ بھی گئے تو ان کے نیک لوگ انھیں پھر اچھائی کے راستے پر لے آئیں گے ۔
الغرض وہ ہر طرح کی برائی پھیلانے کا سوچتا رہا لیکن جب وہ اس کےحتمی نتیجے کودیکھتا تو اسے اپنا ہر منصوبہ بہت مختصر دورانیہ کا معلوم ہوتا کیوں کہ وہ تمام افراد بذات خود بہت اچھے تھے ۔ ان افراد نے بچپن ہی سے اچھے ماحو ل میں زندگی گزاری تھی ان کی تربیت میں نیکی کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی تھی اس لیے وہ معاشرہ ایک مثالی پر امن معاشرہ تھا۔
دیو اپنی منصوبہ بندی میں مصروف شش و پنج میں مبتلا اس معاشرے کو بغور دیکھتا رہا اور ایک ایسی بات تلاش کرنے کی جستجو میں لگا رہا جس کے بعد اسے مزید کسی گمراہی اور فتنہ فساد کی ضرورت نہ پڑے اور وہ بستی ایسی تباہی کا شکار ہو جائے جس میں دوبارہ امن لوٹ کر نہ آ سکے۔
کئی سالوں کی تحقیق کے بعد اس نے بستی کو مکمل تباہ کرنے کا راز جان لیا ۔ اور اس نے وہاں کی ایک لڑکی کو صرف ایک چھوٹی سی بات سکھائی ۔ اور اس چھوٹے سے کام نے پوری بستی کو ہمیشہ کے لیے نیست و نابود کردیا اور اسے ایسےفتنہ و فساد میں مبتلا کردیا جس کاعلاج ممکن نہ رہا۔
کیا آپ جانتے ہیں وہ چھوٹی سی بات کیا سکھائی —؟؟؟؟
جی ہاں ، آج کی نوجوان لڑکی بھی اس چھوٹی سی بات کی سنگینی سے ناواقف ہے اور اس کے نتائج سے نا آشنا ہے۔
اکثر لوگ سوچتے ہیں کہ بھلا اس سے ایسا کیا فرق پڑتا ہے ؟ کیوں لوگوں نے اس بات کو اتنا بڑا بنا دیا ہے؟ اگر ایسا ہو بھی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے؟
آخر” پردہ “کیوں ضروری ہے؟
پردہ تو گویاعورت کو باندھ دینا ہے—پردہ میں عورت کو زمانے سے پیچھے رکھنا ہے—ناجانے کیوں مردحضرات عورت کی آزادی سے گھبراتے ہیں —آخرپردہ کیوں ضروری ہے؟
یہ سوال میں بھی خود سے کرنے لگااور میں نےتخیل میں پردے کو بستی سے نکال دیا۔تاکہ دیکھ سکوں کہ اس دیونے بستی کو تباہی کے کس درجہ میں پہنچایا تھا۔ جب میں نے اس سو خاندانوں کی بستی سے حجاب اور پردے کو نکال دیا اور عورت کو مکمل آزاد کردیا ٹھیک اس معنی میں جس معنی کی آزادی کا نعرہ آج حقوق نسواں کے نام سے بنائی جانے والی این جی اوز لگا رہی ہیں۔
میں نے دیکھا کہ کچھ ہی دنوں میں جیسے ہی عورت خالق کے بنائے ہوئے حصار و حدود سے باہرآئی ۔اور اس نے اپنے قدرتی حسن سے لطف اندوز ہونے کے لیے ہر ایک کو کھلی اجازت دے دی ۔ اپنے آپ کو شوہر کی پابندیوں سے آزاد کیا—آخرعورت بیچاری کیوں زندگی بھر ایک مرد کے شکنجہ میں رہے —اسے پسند کرتی ہو یا نہ پسند کرتی ہو—شوہر کی غلام کی طرح خدمت کرے پھر جان لیوا تکالیف برادشت کرکے اس کے بچوں کی ماں بنے اور زندگی بھرخدمتگاری میں گزارے ۔ عورت کا بھی دل چاہتا ہے کہ وہ بھی وہ سب کچھ کرے جو مرد کرتے ہیں ۔جس سے چاہے میل ملاقات رکھے۔ اس کو آزادی ہونی چاہیے کہ وہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارے ۔ پہلے باپ بھائی اور پھر شوہر کی غیرت بن کر وہ خود کو کیوں قید میں رکھے!!!!!
اس بستی کے تمام مردوں نے اپنی تمام عورتوں کو ایسی ہی مکمل آزادی عطا کر دی۔ اب کیا ہوا کہ جوانی میں عورت نے خوب آزاد زندگی گزاری لیکن جیسے ہی چالیس کی دہلیز کو چھوا کوئی اس کا اپنا نہ رہا ،وہ بہت سارے افراد جو اس کے حسن کے پرستار تھے اب کوئی اس کا سہارا بننے کے لیے تیار نہ تھا ۔ اس کی عمر ڈھل گئی تھی اور اب ہمت ٹوٹ چکی تھی۔ جوانی کا نشہ اتر چکا تھا ۔ اب اسے احساس ہوا کہ وہ مرد نہیں ہے اس کی طاقت اوراس کی بناوٹ میں فرق ہے۔ اس کے بچوں کا کوئی باپ بننے کے لیے تیار نہیں ، کوئی اس ذمہ داری کوقبول کرنے کا روادار نہیں۔
اب دیکھیے کہ اس بستی کی اگلی نسل کا کیا بنا۔ یہ وہ بچے ہیں جنھیں نہ کبھی باپ کا پیار ملا ، نہ تحفظ،نہ تربیت۔
خاندانی سسٹم میں بچوں کی تربیت نہ صرف ماں باپ کرتے ہیں بلکہ دادا، دادی، نانا، نانی، چچا ، ماموں ، پھوپھی ، خالہ سبھی ہی کی شفقتوں محبتوں حفاظت اور تربیت میں بچہ پلتا بڑھتا ہے۔
لیکن اس بستی کے بچوں کا نہ کوئی باپ ہے نہ دادا، دادی، نانا، نانی، نا کوئی چچا نہ کوئی ماموں، نہ کوئی خالہ نہ کوئی پھوپھی نہ ہی کزن ، وہ تنہا ہے وہ اکیلا ہے ۔ اس کی حفاظت اور تربیت کرنے والے کوئی نہیں۔بلکہ بدکار غلیظ آزاد ماحول میں اس کی پرورش ہو رہی ہے۔ایک ماں ہے لیکن وہ بیچاری خود کئی افراد کے لیے لطف اندوز ہونے کا سامان ہے۔
آپ جانتے ہیں پھر اس بستی کا کیا ہوا —آزاد معاشرے کے آزاد افراد کیسی مشکل میں پھنس گئے—یہ بچے آوارہ سیاہ تربیت میں پراون چڑھے —یہ بھی آزاد بنے—مادرپدر آزاد—
آپ نے اکثر یہ جملہ سنا ہو گا “لاوارث ہے نالائق ہے اس کےماں باپ نہیں ہیں جو اسے تمیز سکھاتے” —–“کسی نے اس بدمعاش کی تربیت نہیں کی”
جی ہاں ، ریسرچ سے یہ بات ثابت ہے کہ ایسے بچے جن کی تربیت نہ ہو، جن کا خاندان نہ ہو، جنھیں باپ ، دادا گھر اورخاندان والوں کی شفقت اور تربیت میسر نہ ہو۔ وہ اکثر اوباش ، بد معاش، اور جرائم پیشہ کردار بن کر معاشرے کا ناسور بنتے ہیں۔
اُس بستی کا حال بھی یہی ہوا۔ اس کے تمام بچوں میں وہ تمام جرائم اس تربیت کا حصہ رہے جسے وہ دیو اُن میں پھیلانا چاہتاتھا۔ چوری ، ڈاکہ زنی، قتل و عصمت دری وغیرہ ۔اب ہر لڑکا اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے چوری، ڈاکے اور قتل جیسے گھناؤنے جرم کو کوئی برائی تصور نہیں کرتا تھا ۔کیونکہ ان کی تربیت ایسے ہی بدکرداروں نے کی تھی۔
اُس بستی کی ہر لڑکی تنہا اورغیر محفو ظ تھی ۔ نہ کوئی اس کا سگا باپ تھا نہ بھائی جو اسے تحفظ دیتا ۔عورت ایک مرد کی خدمات گاری سے آزاد تو ہو گئی تھی لیکن اب معاشرے کے ہوس پرستوں کی جنسی خواہشات پورا کرنے والی کی سیکس ورکر بن گئی ۔جو مرد چاہتا تھا اپنی خواہش اس سے پوری کرتا اور پھینک دیتا تھا —وہ تنہا رگئی —اس کا دکھ سننے والا کوئی نہیں—اسے بچانے والا کوئی نہیں—اس کے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہیں ۔
اب آپ اُس بستی کی اگلی نسل کا آپ خود اندازہ لگا لیں ۔وہ معاشرہ کس طرح کا جنگل بن گیا —دیو کا منصوبہ کامیاب ہو گیا اور بستی کا امن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔
یہ ہے نتیجہ اِس چھوٹے سے سوال کا کہ کیا فرق پڑتا ہے— پردہ ختم تو خاندانی نظام ختم اور خاندانی نظام نہ ہوتو انسانی معاشرہ جنگل کا منظر دینے لگتا ہے۔
آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے خلافت دی اور خلیفہ کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مالک اللہ احکم الحاکمین کی زمین پر اُس کی پُرامن حکومت کو قائم کرے۔
آدم علیہ السلام کی تخلیق کے ساتھ ہی شیطان نے منصوبہ بندی شروع کردی—اِس بستی یعنی زمین میں امن ختم کرنے اور فتنہ و فساد پھیلانے کی کیوں کہ اس کی برادری فتنہ و فساد میں مبتلا تھی ۔کیا آپ بھول گئے فرشتوں نے آدم علیہ السلام کی تخیلق پر حیران ہو کر کہا تھا کہ اِس کو خلیفہ بنایا ہے جو زمین میں خون خرابہ کرے گا۔کیونکہ وہ جنات کو دیکھتے تھے۔
آدم علیہ السلام کا کام امن قائم کرنا اور شیطان کا کام زمین میں فساد برپا کرنا مقرر ہو گیا ۔ اسی لیے اسلام سلامتی اور امن ہے جبکہ کفر فتنہ اور فساد ۔
دو طاقتوں کی جنگ شروع ہو گئی شیطان کی فورس کا نام ہوا:”حزب الشیطان “فرمایا:
اِسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطانُ فَأَنْساهُمْ ذِكْرَ اللّٰهِ أُولٰئِكَ حِزْبُ الشَّيْطانِ أَلا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطانِ هُمُ الْخاسِرُونَ (پ28،المجادلۃ،16)
“ان پر شیطان نے غلبہ پالیا ہے سو اس نے انہیں اللہ کا ذکر بھلا دیا ہے۔ یہی لوگ شیطان کا لشکر ہیں ۔ جان لو کہ بیشک شیطانی گروہ کے لوگ ہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔ ”
اورآدم علیہ السلام کی فورس کو قرآن نے نام دیا : “حزب اللہ ” فرمایا:
رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولٰئِكَ حِزْبُ اللّٰهِ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (پ28،المجادلۃ،22)
“اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں، یہی اللہ والوں کا لشکر ہے، یاد رکھو بے شک اللہ والوں کی جماعت ہی فلاح پانے والی ہے۔ ”
شیطان نے فتنہ و فساد کے لیے بے حیائی کو اپنا وار بنالیااور پُر امن بستی میں فساد پھیلانے کے لیے عور ت کے حصول کی ناجائز خواہش کو ذریعہ بنا کر زمین میں پہلا قتل قابیل کے ہاتھوں اپنے ہی بھائی ہابیل کا کروایا۔
آپ نے دجال کا نام سن رکھا ہے جو شیطان کا کھلا نمائندہ بن کرظاہر ہو گا اور دنیا کو فتنہ و فساد میں مبتلا کر دے گا ۔اس نے بھی اپنے مشن کے لیے عورت کی بے راہ روی کو ہتھیار بنایا ہے ۔کیوں کہ وہ اس حقیقت کو جانتا ہے کہ ہر مرد کی کردار سازی ایک عورت کرتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پورے معاشرے کی نظریاتی بنیاد کی ذمہ دارعورت ہے ۔ماں کے ساتھ ساتھ آج کے اس جدید دور میں باقاعدہ اسکول ،کالج اور مدارس کے نظام کی وجہ سے عورت اساتذہ کی صورت میں پورے معاشرے کی تشکیل پرپہلے سے زیادہ اثر انداز ہے ۔
ابھی دجال تو نہیں آیا لیکن اس کے آنے کی تیاریاں جاری ہیں ۔ اُس کی فکر کو عام کیا جارہاہے۔ خاندانی نظام امن کی ضمانت ہے۔ اس لیے پوری دنیا سے خاندانی نظام کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں ۔ اس ناپاک فکر کو ہر ذریعے سے عام کیا جارہا ہے۔ ٹی وی ہو یا اشتہار ، اخبار ہو ناول، موبائل ہو یا نیٹ ،اسکول ہو یا کالج ہر ابلاغ کا ذریعہ دانستہ نا دانستہ اِسی فکر کو عام کر ہا ہے اور ہم بھی اس گھناؤنے مشن کاجانے انجانے حصہ بن جاتے ہیں۔
عالمی سطح پر اس فکر کو عام کرنے کے لیے اربوں ڈالرز سے بے شمار تنظیمیں بنائی گئی ہیں۔ میں آپ کو ایک ایسی خاتون کے بارے میں بتاتا ہوں جس کی فکر پر آج اقوام متحدہ کا م کر رہی جسے آپ یو نائیٹڈ نیشن کے نام سے جانتے ہیں۔ اس عورت کا نام Alice Bailyہے ۔
ایلس بیلی ۱۸۸۰ میں پیدا ہوئی ۔وہ ایک مصنفہ تھی ۔ اس نے چو بیس کتابیں لکھیں ۔ اپنی کتابوں میں اس نے یورپ کو ایک عجیب و غریب دجالی فلسفہ دیا جسے یورپ کے دین بیزار طبقے نے نہ صرف قبول کیا بلکہ اسے پھیلانا اپنا مشن بنالیا۔
مذہب کو ختم کرنے کے لیے اس نے دس نکاتی دجالی منصوبہ پیش کیا، وہ لکھتی ہے:
۱۔ خدا اور نماز کو تعلیمی نظام سے نکالا جائے ۔
۲۔ بچوں پر والدین کی اتھارٹی کو کم کیا جائے۔
کیسے؟
[الف] ضرورت سے زیادہ بچوں کے حقوق کو فروغ دیا جائے۔
[ب] جسمانی سزا کو ختم کیا جائے۔
[پ] منصوبہ کے نفاذ کا ذریعہ اساتذہ کو بنایا جائے۔
۳۔ مذہبی خاندانی سسٹم کو ختم کیا جائے ۔
کیسے ؟
[الف] فحاشی
[ب] ذرائع ابلاغ
۴۔ فحاشی کو قانونی حیثیت دلائی جائے۔ استقاط حمل کو آسان اور قانونی بنایا جائے۔
۵۔ طلاق کو قانونی طور پر آسان کیا جائے۔
۶۔ ہم جنس پرستی کو شادی کا متبادل قرار دیا جائے۔
۷۔ ادب و ثقافت کے نام پر برے تخیلات پھیلائے جائیں۔
۸۔ لوگوں کی فکر بدلنے کے لیے میڈیا استعمال کیا جائے۔
۹۔ بین المذاہب تحریک چلائی جائیں۔
۱۰۔ کوشش کی جائے کہ حکومتیں قوانین کے ذریعے اس منصوبے کو نافذ کریں اور ایسے مذہبی پیشوا تلاش کیے جائیں جو ان قوانین کی توثیق کریں ۔
ایلس بیلی ہی وہ کردار لگتی ہے ۔جسے تمثیلی کہانی میں دیو نے گمراہ کیا تھا۔یہ شیطان کے لشکر کی سپہ سالار بنی۔یہ دنیا میں فساد پھیلانا چاہتی ہے۔
اسلام سلامتی کا دین ہے۔ اللہ کا دین پکار رہا ہے ان پاکیزہ خواتین کو جو زمین میں امن کے قیام کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں اور اللہ کی فوج میں شامل ہو جائیں ۔ آج کی بچیوں اور کل کی ماؤں کو اس فسادی خبیث منصوبے سے آگاہ کر سکیں ۔ اسلام کو ایسی دوشیزاؤں کی ضرورت ہے جو اپنی جوانی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے بجائے ۔ اللہ کی فوج کی گمنام سپاہی بن جائیں۔ جو دجال سے مقابلہ کرنے والے امام مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کی فوج کے سپاہی تیار کر سکیں — جو ایسی مائیں تیار کر سکیں— جن کی کوکھ سے ایک بار پھر صلاح الدین ایوبی جنم لے —اسلام آپ کو پکار رہا ہے — اساتذہ اس شیطانی منصوبے کو ناکام بنا سکتے ہیں ۔
لیکن کیا آپ یہ سوچ رہی ہیں کہ آپ کو کون جانتا ہے؟ آپ کیا کر سکتی ہیں ؟
آ پ اگر میری بات پر یقین کریں تو آپ ہی وہ ”گمنام سپاہی ”ہیں جو اس شیطانی سیلاب کو روک سکتی ہیں ۔
دنیا میں کتنے انبیا ء تشریف لائے ؟ ایک لاکھ چوبیس ہزار لیکن ہم کتنوں کے نام جانتے ہیں ؟ صرف پچیس یا اٹھائیس
باقی سب اللہ کے لشکر کے ”گمنام سپاہی” ہیں ؟
یہ لاکھو ں لاکھ گم نام سپاہی ہی ہیں جو اپنے خون سے وطن عزیز کی حفاظت کرتے ہیں ۔ نامور سپاہیوں کی کامیابیوں کی پیچھے لاکھوں گمنام سپاہی اپنے خون سے تاریخ رقم کرتے ہیں۔
ہمیں اس اللہ کو راضی کرنا ہے جو ہر پوشیدہ کو جاننے والا ہے ۔ ہمیں اس رب کو منانا ہے جو اپنے ہر گمنام سپاہی کو جاننے والا ہے۔
ہو سکتا ہے کسی کے ذہن میں سوال اٹھے کہ اتنے بڑے اہم منصب کے لیے اتنی معمولی وظائف وصول کرنے والے اساتذہ کیسے کام کرینگے؟؟؟
میں توحیران ہوں اس ٹیچر پر جسے میں اچھی طرح جانتا ہوں ۔ وہ اٹھارہ سال سے مسلسل پڑھا رہی ہے ۔ اپنا پورا وقت دیتی ہے ، اس نے آج تک کوئی چھٹی نہیں کی، وہ اپنے پانچ طلبہ کی تعلیم و تربیت کے ساتھ انھیں مفت کھانا بھی فراہم کرتی ہے اور آج تک کبھی اس نے کسی فیس کا تقاضا نہیں کیا —اس عظیم ٹیچر کا نام ”ماں” ہے۔
ماں کے پاس کیا ہے؟ ایک محبت کا جذبہ۔ اگر یہ جذبہ رحمت اور محبت ۔امت ِمسلمہ کے لیے پیدا ہو جائے تو استاد کی نگاہ مہینے بعد ملنے والے چند روپوں پر کبھی نہیں ٹہرے گی۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔”
تمام انبیاء معلم بنا کر بھیجے گئے ۔ لیکن کیا ان عظیم اساتذہ کا مطمع نظر کبھی یہ دنیاوی مال و زر رہا ؟میں نے آج تک تاریخ انسانیت میں کوئی ایسا نا م نہیں سنا ،جس نے دولت کے لیے علمی کام کئے ہوں اور دنیا نے اسے محبت سے اپنے دل کی کتاب میں جگہ دی ہو۔
علم جنت کا درخت ہے اس کی شاخوں کو پکٹر کر جنت میں پہنچا جا سکتا ہے ۔ اس پاکیزہ درخت کی آبیاری محبت، عشق اور سوز سے تو ہو سکتی ہے کسی طرح دنیاوی مال و متاع سے نہیں ہو سکتی۔
یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ معمولی تنخواہ پر کام کرنے والے اساتذہ اتنا بڑا تعلیمی انقلاب برپا نہیں کرسکتے — یہ مشن صرف دنیاوی مال و دولت کے ایندھن سے نہیں چل سکتا—بلکہ یہ تعلیمی انقلاب اللہ کی فوج کے گمنام سپاہی اساتذہ کے روپ میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ک ایندھن سے برپا کر سکتے ہیں۔ تعلیم صرف اور صرف دنیوی مال و دولت کےعوض دینے والے، کبھی قوم کو بیدار نہیں کر سکتے ۔
اللہ کی فوج کے لیے سپاہیوں کی ضرورت ہے ۔عظیم تعلیمی انقلاب کے لیے ،خاندانی نظام کی حفاظت کے لیے،دین کی حفاظت کے لیے ، نئی نسل کے عقائد ونظریات کی حفاظت کے لیے ، اسلام کی سربلندی کے لیے، ناموس رسالت کے لیے،حوا کی بیٹی کی عصمت کی حفاظت کے لیے، امت کی ماؤں کی تعمیر کے لیے، اللہ کےدین کو آپ کی ضرورت ہے۔
کیا آپ اس عظیم مشن کےگم نام سپاہی بنیں گے؟؟؟
ایک طرف شیطانی فوج کام کررہی ہے جس کے پاس بے شمار وسائل ہیں ۔ مال و دولت ہے میڈیا ہے سب کچھ اور دوسری جانب ہم بے سروسامانی کی کیفیت میں ہیں ۔ ہمارے پاس اپنے ان گمنام سپاہیوں کو پیش کرنے کے لیے مناسب تنخواہ تک نہیں لیکن ہم یہ جنگ جیت سکتے ہیں —کیوں کہ اللہ کی محبت کا نور —ظلمت کے اندھیروں کو مٹا دیتا ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں ہم کس چیز سے یہ جنگ جیت سکتے ہیں؟؟؟؟
مضبوط با کردار ، نیک سیرت ، عبادت گزار اساتذہ سے
کیوں کہ اساتذہ طلبہ کے جسموں سے مخاطب نہیں ہوتے وہ روح سے مخاطب ہو تے ہیں ۔ اسی لیے اساتذہ کو روحانی ماں باپ کا درجہ دیا جاتا ہے۔
اپنی روح کو ہمیں پاک کرنا ہوگا ، گناہوں سے ، نفسانی خواہشات سے اوراپنی روح کو منور کرنا ہوگا اللہ رسول کی محبت اور عبادات سے ۔
ذرا سوچئے !کہ جو مقبولیت امام غزالی، شیخ سعدی، حافظ شیرازی، اور مولانا روم جیسے اہل دل کے کلام کو ملی کسی دوسروں کو نہ مل سکی ۔ کیوں؟؟؟
کیا اُس زمانے میں ان سے بڑے شاعر اور فلسفی نہ تھے۔ کیا امام غزالی اور امام احمد بن حنبل سے بڑے عربی دان نہیں تھے؟ کیا ان سے زیادہ کسی نے کتابیں نہیں لکھیں ؟ ابن طولون مصری نے ساڑھے سات سو کتابیں لکھیں؟
بات ایک ہی تھی ان کا رابطہ اللہ سے قائم تھا ۔ آپ کو بھی اگر مصلح بننا ہے تو اپنا رابطہ اللہ سے مضبوط کرنا ہوگا ۔
طالب علم استاد کی روح کا آئینہ ہوتا ہے۔ طالب علم خالی تختی ہے ۔اساتذہ کی روح کے اثرات اس کی روحانیت پر پڑتے ہیں ۔ اگر اساتذہ کے دل میں گناہ کی لذتیں بس جا ئیں ان کا دھیان کسی بےکار بے ہودہ کام میں ہو تو طالب علم میں نیکی کیسے پیدا ہوگی؟
آج اپنے آپ سے وعدہ کریں کہ آپ نے اپنی روح کو پاک کرنا ہے۔ تمام گناہوں سے ، تمام برائیوں سے اور آپ نے اپنی عزت و آبرو اور پاکیزگی کی حفاظت کرنی ہے۔ اللہ کی فوج کا “گمنام سپاہی ”بننا ہے اور اس امت کو دجالی شیطانی فتنوں کے شر سے بچانے میں اپنا بھرپور کردار اداکرنا ہے۔
____________________
و صلی الله تعالی علی خیر خلقه سیدنا و نبینا و حبیبنا و قرۃ اعیننا محمد و علی آله وصحبه اجمعین وبارك وسلم، الحمد لله رب العالمین !
