اس سوال سے پہلے یہ طے کرنا چاہیے کہ انسان کہاں تک آزاد اور کس جگہ مجبور ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ انسان آزاد ارادہ رکھتا ہے تو اکثر لوگوں کو یہ گمان ہوتا ہے کہ انسان ہر طرح کے ارادے میں آزاد اور کسی بھی طرح مجبور نہیں ہے۔ اگر انسان کو مکمل طور پر آزاد مان لیا جائے تو تقدیر کا انکار ہوتا ہے۔ اور اگر بالکل مجبور مان لیا جائے تو آزادی سے کسی عمل کے اختیار کرنے پر سوالیہ نشان اٹھتا ہے، جو سزا اور جزا کے سارے معاملے کو بے معنی کردیتا ہے۔
معتدل قول یہ ہے کہ انسان نہ مختارِ کُل ہے نہ مجبورِ مَحض۔ دیکھنا یہ ضروری ہے کہ انسان کہاں کہاں اختیار رکھتا ہے اور کہاں مجبور ہے۔
کچھ چیزیں انسان کے اختیار میں بالکل نہیں۔ مثلاً: اس کا رنگ و نسل، پیدائش کا وقت، موت کا وقت اور علی ہذا القیاس۔ یہاں انسان بالکل مجبور ہے اور وہ یہ کبھی بھی طے نہیں کر سکتا کہ اسے کب پیدا ہونا چاہیے، کس رنگ و نسل کا ہونا چاہیے وغیرہ۔
اکثر معاملات ایسے ہیں جہاں انسان کا اختیار ہے۔ جیسے کھانا، پینا، بھاگنا،دوڑنا، اچھلنا، کودنا، حرکت کرنا وغیرہ۔ یا جو بھی ایسی حرکات ہیں جو بالارادہ ہوں وہ انسان کے کافی حد تک اختیار میں ہوتی ہیں۔ یہاں کافی حد تک اختیار کا مطلب یہ ہے کہ اس میں بعض حالات میں انسان کی حرکات کچھ ارادی اور کچھ غیر ارادی کا مرکب ہوتی ہیں۔، یا پھر ان دونوں کے درمیان ہوتی ہیں۔ اب چونکہ یہ موضوع بہت حساس ہے اس لیے میں زیادہ تفصیلی طور پر نہیں لیکن تقدیر کے حوالے سے ایک خاکہ بنانے کی کوشش کروں گا۔
تقدیر کائنات میں رونما ہونے والے مجموعی مظاہر، اور انسانوں کے مجموعی اکتساب کا اوسط نتیجہ ہے۔
جب ہم کہتے ہیں کہ اکتساب ہمارے کُلی اختیار میں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں صرف کسب کا اختیار مکمل طور پر حاصل ہے۔ اور سزا وجزا کا معاملہ در اصل اسی کسب کی بنیاد پر طے کیا جائے گا۔ اس کسب کے نتیجے میں اگر شر وجود میں آئے گا تو سزا اور خیر کا حاصل جزا ہوگی۔
یہاں ایک بنیادی نکتہ یہ سمجھ لیجیے کہ کسب کا نتیجہ انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ جس خیر کے کام کے لیے کسب کیا جا رہا ہو وہ پوری زندگی کی محنت کے بعد بھی حاصل نہ ہو پائے۔ اور جس شر کے لیے کسب کیا جارہا ہو اس کا حصول بھی ممکن نہ ہو پائے۔ تاہم جو بھی نتیجہ اس کسب کے ذریعے نکلے گا اسی کے لائق حساب و کتاب ہوگا۔
اس کے بعد تقدیر کے کئی مدارج ہیں جس میں انسان اپنے گھر، خاندان، ماحول، محلہ، علاقہ، آب و ہوا، شہر اور ملک کے حساب سے مجبور ہوگا۔ مثلاً کچھ مجبوریاں گھریلو ہوتی ہیں جن کے خلاف انسان کسی خاص وقت میں کوئی خاص کام نہیں کر سکتا۔ (خاص وقت سے مراد یہ ہے کہ گھریلو حالات بدلنے پر ممکن ہے وہ کام ممکن ہوجائے)۔
اسی طرح بعض حدود خاندان اور کسی خاص رنگ و نسل میں پیدا ہونے کی وجہ سے، یا کسی خاص علاقے، شہر یا خطے میں رہنے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ مثلاً کسی پورے علاقے کا حالتِ قحط میں ہونا، یا کسی ایک علاقے کا حالتِ غلامی میں ہونا۔ یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جو انفرادیت سے نکل کر اجتماعیت پر لاگو ہوتی ہیں۔ اور وہ ایک انسان کی جگہ سینکڑوں، ہزاروں اور لاکھوں انسانوں کی بیک وقت “مشترکہ تقدیر” ہوتی ہیں۔ مشترکہ تقدیر سے مراد یہ ہے کہ ان سب میں ہر کوئی اپنی اپنی حدود میں اپنی اس حالت میں مجبور بھی ہوتا ہے۔ اوراجتماعی طور پر ہر شخص اپنی اس حالت کا ذمہ دار بھی۔
اسی کو مزید آگے بڑھا لیجیے تو ایک تقدیر پوری دنیا کے انسانوں کے لیے بھی مشترک ہوسکتی ہے، جیس کرنسی اور سکّہ اس میں کوئی بھی خاص ملک یہ اختیار نہیں رکھتا کہ اپنے ملک سے کرنسی کا نظام ختم کردے۔ کیونکہ انسانیت نے اسے مجموعی طور پر قبول کرلیا ہے۔ اور اس فیصلے کی بنیاد پر کوئی انسان اگر اس معاشرے کا حصہ رہنا چاہتا ہے تو اسے اپنی تقدیر میں اس کرنسی کے نظام کو قبول کرنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر اسے انسانوں کے معاشرے سے علیحدگی اختیار کرنی پڑے گی۔
دراصل دنیاوی معاملات میں انسان کی جو جو معاشرتی مجبوریاں ہیں ان میں ہر کوئی ایک دوسرے کا مقروض اور سب آپس میں ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ میں اکیلا جن حرکات کا مرتکب ہوتا ہوں اس کا اثر میرے آس پاس ایک وسیع رقبے پر بھی پڑ سکتا ہے۔ علت و معلول میں بندھی اس دنیا میں جہاں ہم سب کی انفرادی طور پر کوئی حیثیت نہیں وہیں جب ہماری انفرادی حرکات جمع ہو کر اجتماعی شکل اختیار کرتی ہیں تو اس سے ایک پورے حالات کا مجموعہ وجود میں آتا ہے جس میں ہر ایک شخص کا عمل گِنا جا رہا ہوتا ہے۔ اور وہ حالات ہر ایک کے کو برداشت کرنے پڑتے ہیں۔
کسب یا اکتساب کیا ہے ؟
میں گزشتہ قسط میں لکھ چکا ہوں کہ کسب انسان کے اختیار میں ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ اختیار میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی حالات میں ایک ہی جیسے اسباب اور قابلیت رکھنے والے دو لوگوں کے مراتب مختلف ہوجاتے ہیں۔ زیادہ قابلیت والے لوگ پیچھے بھی رہ جاتے ہیں، کم قابلیت رکھنے والے نا اہل لوگ آگے بھی نکل جاتے ہیں۔ ایک انسان سارا دن محنت کرکے بھی پانچ سو روپے کماتا ہے۔ اور دوسرا بغیر محنت کیے بھی پانچ ہزار روزانہ کما لیتا ہے۔ سب وسائل موجود ہونے کے باوجود کہیں چوری نہیں ہو پاتی۔ اور بعض اوقات ساری احتیاطی تدابیر کے بعد بھی چوری ہوجاتی ہے۔
در اصل اس کی تین وجوہات ہیں۔
پہلی: مناسب اسباب کا موجود ہونا
دوسری: صحیح وقت کا ہونا
تیسری: کسب کا حالات سے مطابقت میں ہوناجب یہ تین چیزیں جمع ہوجائیں تو جو بھی کسی نتیجے کے کسب میں اس وقت مصروفِ عمل ہوگا اور اس کا کسب حالات سے مطابقت میں ہوگا، اسی کے ہاتھوں وہ کام سرزد ہوجائے گا۔ اگر کسی جگہ چوری ہونی ہے تو جو بھی انسان مناسب اسباب کی موجودگی میں صحیح وقت پر درست تدبیر کے ساتھ چوری کی جگہ پر پہنچ جائے گا اسی کے ہاتھوں چوری ہوجائے گی۔حصولِ نتائج کے مزید چار مدارج ہیں:
پہلا: جس میں انسان کسی چیز کی خواہش کرے اور اسے مطلوب حاصل ہوجائے۔
دوسرا: جس میں انسان مناسب کسب کی صورت میں مطلوب حاصل کر لے۔
تیسرا: جس میں انسان بہت مشقت اور سخت محنت کرکے مطلوب حاصل کرے۔
چوتھا: تمام محنت و مشقت اور ہر تدبیر کے باوجود مطلوب حاصل نہ ہوسکے۔
یہاں تک آتے آتے ہم یہ سمجھ چکے ہیں کہ کسب کا اختیار انسان رکھتا ہے۔ نتیجہ انسان کے اختیار میں نہیں ہوسکتا۔
تقدیرمیں نتیجے طے کیے جاتے ہیں، کسب کی صورت طے نہیں ہوتی۔ ۔۔!!
اب یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ اگر خدا کی ذات غیب اور ماضی، مستقبل اور حال سب کا علم رکھتی ہے تو پھر انسان کو اختیار کیسا؟
پوچھنے والوں کا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اگر خدا ہمارے مستقبل کے بارے میں پہلے ہی ہر چیز سے آگاہ ہے تو انسان کی آزاد مرضی (Free will) کا کوئی وجود باقی نہیں رہتا۔ اس سے جبر لازم آتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر خدا کے علم میں ہے کہ میں اگلے گھنٹے چوری کرنے والا ہوں تو مجھ پر یہ لازم ہے کہ میں چوری کروں، کیونکہ میرے پاس اور کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔ اور اگر میں چوری نہیں کرتا تو خدا کے علم میں نقص یا عیب ثابت ہوگا۔ حالانکہ اس کے علم کا بے عیب ہونا بھی مانا جا چکا ہے۔ تو اب میرے لیے بجز چوری کے، اور کوئی دوسری صورت باقی نہیں ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر انسان مجبور محض ہے تو پھر سزا اور جزا کا کوئی سلسلہ کیوں رکھا گیا ہے؟
میں اپنی پچھلی تفصیلی پوسٹ، جو علتِ اولی کے حوالے سے تھی، عرض کر چکا ہوں کہ ان اعتراضات کی حیثیت در اصل فلاسفہ کے درمیان اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ یہ فلسفیانہ اعتراضات ہیں۔ جو در اصل یہ حل نکالنے کے لیے کیے جاتے ہیں کہ آیا کوئی ایسی ہستی ممکن بھی ہے جو ہر چیز کا کلی علم رکھتی ہو، اور بے عیب ہو۔
ہم دیکھ چکے ہیں کہ کسب پر انسان اختیار رکھتا ہے۔ اور سزا و جزا کا سارا معاملہ اسی کسب سے وجود میں آتا ہے کہ اس کے ذریعے نتیجہ شر کی صورت میں نکلتا ہے یا خیر کی۔ تاہم خدا کی ذات چونکہ عالمِ غیب ہے اس لیے وہ ہر ایک چیز کی طرف نظر رکھتی ہے۔ اور وہ جانتی ہے کہ کون کس وقت کیا کر رہا ہے۔ یہاں یہ سمجھ لیجیے کہ عالمِ غیب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا مستقبل کا علم رکھتا ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ خدا ہر اس چیز کا علم رکھتا ہے جس کا کا ہم سے پردہ ہے۔ یہ پردہ وسائل کی شکل میں بھی ہوسکتا ہے، زمانے کی شکل میں بھی اور اسباب کی شکل میں بھی۔ ایسی بہت سی چیزیں ہیں جنہیں ہم ان چار جہات (تین جہاتِ مکان جمع وقت بطور چوتھی جہت) میں قید رہتے ہوئے نہ تو سمجھ سکتے ہیں نہ ان تک ہمارا درست قیاس پہنچ سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی سوچ میں کسی بھی واقعے کی تقدیم و تاخیر کے اوراسی وجہ سے علت و معلول کے پابند ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ جو میں “کل” کرنے والا ہوں وہ خدا تعالی کی ذات “آج” ہی جانتی ہے اس لیے مجھ پر جبر لازم آیا، وہ یا تو ناواقف ہیں یا بھول جاتے ہیں کہ خدا تعالی کی ذات کا زمانے سے بالا تر ہونا لازم ہے۔ اس لیے خدا کے لیے نہ کوئی کل ہے نہ آج ہے۔ بلکہ وہ ایسے مقام پر موجود ہے جہاں طبیعات کےسارے قوانین ٹوٹ کر ختم ہوجاتے ہیں۔ نتیجتاً گزشتہ کل اور آنے والا کل، یا گزشتہ سال اور صدی اور آنے والے سال اور صدی کسی معنی کے حامل نہیں ہیں۔ زیادہ سے زیادہ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہم کشادگئ زمان (Time Dilation) تھیوری سے تھوڑی مدد لے سکتے ہیں، جس کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ ایک جگہ پر جو عرصہ پچاس سال کے برابر ہو دوسری کے لیے وہی عرصہ صرف بیس سال کے برابر ہو۔ تو مدعا یہ ہے کہ ہم زمانے کی قید سے آزاد ہو کر سوچ نہیں سکتے۔ اور خدا کے لیے زمانہ خود ایک تخلیق ہے جو اسے قید نہیں رکھتی۔ اس صورت میں علت و معلول، تقدیم و تاخیر، پہلے اور بعد، آج اور کل کی کوئی حیثیت نہیں۔ اور جب ان کی کوئی حیثیت نہیں تو ممکن ہے کہ ہمارے آج اور کل، ہمارا جینا اور مرنا وغیرہ یا پہلے سے آخری انسان تک پوری انسانیت کی ابتدا اور انتہا اور سورج اور دوسرے ستاروں کا بجھ جانا، کائنات کا بننا اور تباہ ہوجانا، سب کچھ بیک وقت ہی خدا کی ذات کے سامنے رونما ہورہا ہے۔ ایسے میں ہماراکسبِ آئندہ خدا کی نظر کے سامنے تو ہے لیکن اس کے جبر کا پابند نہیں بلکہ اسکی مشیت کی وجہ سے آزاد ہے۔
آخری بات جس پر میں گفتگو کا اختتام کرتا ہوں وہ یہ کہ الہیات میں ہر چیز کی منطقی توجیہہ اگر ممکن نہ بھی ہو تو یہ اس کے غلط ہونے کا ثبوت نہیں ہے۔ کیونکہ ہم جس مطابقت کی دنیا میں رہ کر یہ مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ تمام قوانین وہاں لائقِ اطلاق نہیں ہوتے جس کی بنیاد پر ہم الجھتے اور سلجھتے رہتے ہیں۔ یہی بات منطقی تضادات کی وجہ بنتی ہے اور غلط استدلال تک لے جاتی ہے۔ اس حوالے سے اپنی تحریر “علتِ اولی کی بحث” میں تفصیلی بات کرچکا ہوں۔تحریر مزمل شیخ بسمل