عورت چادر کو پھانسی کا پھندا کیوں سمجھتی ہے؟

یہ معاشرہ مردوں کا ہے۔ گاؤں دیہات، قبیلے، علاقے، جرگے، پنچایتوں کے ان پڑھ مرد ہوں یا شہری زندگی کے پڑھے لکھے بابو، چونکہ اس معاشرے پر ان کا تسلط ہے تو ان کی حاکمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے کی عورت کو ہمیشہ سے ہی بہت مظلوم سمجھا جاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ اس روایتوں سے جڑی ہوئی ہے جہاں عورت کے لیے پیر کی جوتی جیسے قول تربیت کے ساتھ پروان چڑھائے جاتے ہیں۔ لیکن ایک عورت ہونے کی حیثیت سے میں ان عورتوں سے مختلف کیوں سوچتی ہوں جو عورت لکھتے ہوئے اس کے ساتھ ظلم و زیادتی، جبر و استبداد، بے چارگی، مجبوری اور عزت کے سابقے لاحقے بھی فرض کر لیتے ہیں۔

میں بھی عورت ہوں لیکن میں نہ تو عورت مارچ کی طرح مردوں سے یہ کہنے کے حق میں ہوں کہ ’’تمھارا باپ بھی آزادی دے گا‘‘ نہ باپ بھائی کی غیرت کا تازیانہ بنی اس لڑکی کے لیے جبراً شادی کو جائز سمجھتی ہوں، جسے آنکھیں اور باپ کی پگڑی دکھا کر خاموش کروایا جاتا ہے۔ اس کی پسند ناپسند بےمعنی ہے۔ مجھے افسوس ہوتا ہے اس پڑھے لکھے طبقے پر جو مغرب سے متاثر ہو کر عورت کی آزادی کا تو قائل ہے لیکن مسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنے مذہب سے منحرف۔ کیا شریعت سے جنگ ہی آپ کی مردانہ معاشرت سے جنگ ہے؟ آپ مردوں کو ظالم، جابر سمجھتے ہیں۔ انھیں دن رات کوستے ہیں۔ لعن طعن، طعنے تشنے، اور پھر اپنی بہن بیٹیوں کے لیے مرد تلاش کرتے ہیں تاکہ ان کی رخصتی کی جا سکے۔ کس قماش کے مرد چاہییں آپ کو؟ جو آپ کی بیٹی کو اپنا موزہ تلاش کرنے پر نہ لگائے، جو آپ کی بیٹی سے کھانا گرم نہ کروائے، آپ کی بیٹی اس کا بستر گرم نہیں کرنا چاہتی تو کوئی بات نہیں۔ کوٹھے بھی عورتوں سے آباد ہیں۔ آپ کی بیٹی کو بھی مرد میسر ہو سکتے ہیں، کوئی مضائقہ نہیں۔ ہاں ہاں۔! آپ اتنے ہی روشن خیال ہیں۔ آپ مغرب کے تلوے چاٹتے ہوئے بھول چکے ہیں کہ ہمارے ہاں جو ایک خاندانی نظام ہے، ایک صاف ستھری معاشرت ہے وہ شریعت کی دین ہے۔ آپ کی بہن بیٹیاں ننگ دھڑنگ گھومنا چاہتی ہیں، آپ بالکل آزاد ہیں، انھیں گھمائیں لیکن اس معاشرے میں رہتے ہوئے یہ توقع مت رکھیں کہ انہیں چھیڑا نہیں جائے گا۔ جب آپ کے بھائی، بیٹے، باپ دوسری عورتوں کے لیے مضر ہیں تو دوسرے مرد آپ کے لیے سیف گارڈ کیسے ہوں گے؟

چادر اور چار دیواری سے نفرت آپ کی اس شریعت سے نفرت ہے جو آپ کی مقدس کتاب میں بند ہے۔ آپ بڑے دھڑلے سے مردوں کو گالم گلوچ کرکے ثابت کر دیتے ہیں کہ عورت کو بھیڑ بکریوں سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ کیا اس پڑھے لکھے طبقے نے یہ کوشش کی ہے کہ اس معاشرے کو مذہب کے اصل معنی اور مفہوم بتائے جائیں۔ آپ کو کریم کے اشہتار کی تو بات سمجھ میں آ گئی کہ وہ لڑکی کو اس لیے بھگانا چاہتا ہے کہ لڑکی کی پسند اس نکاح میں شامل نہیں ہے، لیکن آپ کو حدیث کا حوالہ دینا یاد نہیں رہا۔ آ پ کو قرآن کی کوئی آیت نہیں یاد۔ کبھی پڑھ کر اس کے مفہوم پر غور کیا ہو تو یاد بھی ہو۔

باپ بھائی ظالم ہیں، لیکن کریم پر لاد کے لے جانے والا مرد قابل بھروسہ ہے۔ آپ کے پاس کیا گارنٹی ہے اس کی۔ ایک طرف آپ مردوں سے کہتی ہیں پیچھے ہٹ جاؤ، عورت راج آ رہا ہے۔ مردوں کو للکارتی ہیں کہ اب تمھارے زیر اثر نہیں رہوں گی، دوپٹہ نہیں پہنوں گی، اپنی آنکھوں پر باندھ لو۔ دوسری طرف آپ کے لیے اسی معاشرے کے مرد اتنے قابل اعتبار ہیں کہ آپ ان کے ساتھ اپنی بیٹی بھگانے کو باعث افتخار سمجھتے ہیں؟ یا تو آپ عورت سے کہیں کہ وہ کسی مرد پر بھروسہ نہ کرے۔ شادی سے بھاگنا ہے تو خود بھاگ جائے۔ لیکن بھاگ کر کہاں جائے گی؟ کسی دوسرے مرد کے پاس؟

ہمارے ہاں کتنے کیسز ایسے ہیں جہاں لڑکیوں نے گھر سے بھاگ کر شادی کی اور پھر جس کے پاس بھاگ کر گئیں وہ بھی دو نمبر کرپٹ نکلا۔ چلیں یہ الگ موضوع ہے، لیکن کیا عورت ہی مجبوری میں شادی کرتی ہے۔ ہمارے ہاں کی عورت ذات کیا اپنے بیٹے کو اس کی پسند سے شادی کا حق دیتی ہے؟ اس کا کیا جواب ہے آپ کے پاس؟ لڑکا اگر کسی لڑکی کو پسند کر لے تو ماں جینے مرنے پر اتر آتی ہے لیکن بیٹے کی پسند نہیں اپناتی۔ کیا یہاں بھی مرد قصور وار ہے؟ کیا انکار صرف لڑکی کے گھر والوں کی طرف سے ہوتا ہے؟

آپ کے پاس جاہل قبیلوں کی روایتیں ہیں۔ لیکن کبھی سوچا کہ اس قبیلے کا مرد بھی اتنا ہی بےبس اور مجبور ہے جتنی عورت۔ یہ خود ساختہ رواج اور عزت کے معیار ہیں۔ جس کا شریعت سے کوئی لینا دینا نہیں۔ آپ نے کبھی شریعت کو آگے رکھ کر تو تبلیغ نہیں کی کہ لوگو! عورت کے معاملے میں خدا سے ڈرو۔ دیکھو ہمارا دین عورت کو پسند کی شادی کی اجازت دیتا ہے، خلع کی اجازت دیتا ہے، حتی کہ اگر ایک صحابیہ کو اپنا شوہر محض صورت کی وجہ سے پسند نہیں تو بھی اسے علیحدگی کی چھوٹ دیتا ہے، لیکن نہیں آپ یہ مثالیں کیوں دیں گے؟ آپ کے نزدیک آزادی اور روشن خیالی کا مطلب دین سے انحراف ہے، شریعت سے بیزاری، مذہب سے اختلاف۔

آپ کو عورت مارچ کے بینرز تو بڑی جلدی سمجھ آ جاتے ہیں لیکن گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے کی سنت یاد نہیں ہوتی۔ ایک غلط چیز کے بائیکاٹ کے لیے دوسری غلطی کو سامنے لے آ تے ہیں، یعنی ایک برائی ختم کرنی ہو تو دوسری پیدا کر دو۔ اپنی پسند کے جواز اور تشریحات۔ پھر جب اس پر چیخ و پکار ہو تو وہ لوگ دقیانوسی، قدامت پرست ہوئے۔ عورت کے حقوق کی بات کرنی ہے تو سب سے پہلی یہ شق رکھتے ہیں کہ لباس کی آزادی دو۔ لڑکی جینز شرٹ پہن کو اس مڈل کلاس معاشرے میں دندنا تی پھرے اور کوئی اسے بری نگاہ سے دیکھے بھی نا۔ یا تو مغرب کی طرح حلال و حرام کی تمیز سے باہر آ جائیں۔ نکاح کا بائیکاٹ کریں اور اپنے بچوں کو ان کی پسند سے رہنے دیں۔ برہنگی کا شوق ہے تو پوری طرح جانور راج کو پروموٹ کریں۔ یہ کیا کہ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا۔ ایسی کنفیوژن کہ خود بھی پریشان دوسروں کو بھی عاجز کیا ہوا ہے۔

دراصل یہ اندھی تقلید کا نتیجہ ہے۔ بس آپ نے اونچے گھروں میں بیٹھ کر لبرل ازم کا مطلب یہ فرض کر لیا ہے کہ عورت مرد کے جیسا طرز زندگی اختیار کرلے تو وہ آزاد ہے۔ یعنی کھلم کھلا فطرت سے انحراف۔ یہ کیسی پڑھائی لکھائی ہے کہ جس کا اندازہ آپ کو خود بھی نہیں ہے کہ آپ کی عورت کرنا کیا چاہتی ہے؟

وہ زندگی میں بہت اوپر جانا چاہتی ہے، کچھ بننا چاہتی ہے، لیکن آپ نے فرض کر لیا کہ چادر اس کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ کیسے؟ آپ دوپٹے کو پھندہ کیوں سمجھتے ہیں؟ چار دیواری کو قید خانہ کیوں سمجھتے ہیں؟ کیا آپ گھر کے تصور سے بیزار ہیں؟ کیا جنگل کا سسٹم چاہیے؟ اگر عورت چادر اور چار دیواری میں رہتے ہوئے سب کر سکتی ہے تو آپ کو اس پر تکلیف کیوں ہے؟ آپ کی بیٹی ننگے سر گھومنا چاہتی ہے، گھومنے دیں، لیکن دوسرے کی چادر اور چار دیواری کو گالی دینے والے آپ کون ہوتے ہیں؟ پہلا اپنا قبلہ درست کیجیے پھر معاشرے کو سدھارنے کا ٹھیکہ لیجیے۔

اگر کوئی شریعت پر عمل کرنا اور اس کو لاگو رکھنا چاہتا ہے تو اسے پست ذہنیت، تنگ خیالات کا طعنہ مت دیں۔ آپ لاکھ پڑھے لکھے روشن خیال ہوں، اسلام سے زیادہ عورت کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ آپ اس معاشرے سے جاہلانہ طرز عمل اور ریت رواجوں کو ختم کرنے کے لیے مذہب کا سہارا لیں۔ اس کے اصل مفہوم کو لوگوں تک پہنچائیں۔ خدا اور اس کے نبی کی تعلیمات کا پرچار کریں تاکہ لوگ مذہب کے سہارے صحیح غلط میں تمیز کر سکیں، لیکن آپ نے بھی پڑھے لکھے جاہل ہونے کا ثبوت دیا۔ جاہلیت ختم کرنے کے لیے مزید جاہلیت کو فروغ دینا شروع کر دیا۔ سو پہلے اپنا کتھارسس کریں پھر لوگوں کو سمجھائیں

سدرہ سحر عمران