سوشل ازم سے مراد مزدوروں کی ریاستی ڈکٹیٹرشپ کے زیر نگرانی ایک پالیسی پیکج ھے جبکہ کمیونزم کا مطلب اس پالیسی پیکج سے دریافت ھونے والی اشتراکی جنت (Utopia) ھے۔
اشتراکی مفکرین کا خیال ھے کہ انسانی تاریخ ایک مسلسل عمل کا نام ھے جو حصول آزادی کیلئے ھونے والے مادے کے تغیرات اور اسکے نتیجے میں برپا ھونے والی طبقاتی کشمکش کے نتیجے میں محو سفر رہتی ھے۔ مادے کی یہ ترقی طبقاتی کشمکش کے ذریعے انسانیت کو ایک کے بعد دوسری بہتر شکل میں تبدیل کرتے رھتی ھے جسکے نتیجے میں انسانی عقائد، اخلاق، طرزعمل، معاشرت، ریاست، علم، حسن، عدل الغرض ھر تصور میں ارتقاء ھوتا رھتا ھے۔ ان مفکرین کے خیال میں انسانیت اپنا یہ سفر طے کرتے کرتے (لبرل) سرمایہ داری میں داخل ھوچکی ھے جو اپنے سے ماقبل تمام معاشرتی نظاموں سے بہتر نظام ھے کہ یہ آزادی (بڑھوتری سرمایہ) کے زیادہ مواقع پیدا کرتی ھے۔ البتہ انکے خیال میں انسانیت کا یہ سفر ابھی ختم نہیں ھوا کیونکہ scarcity ابھی ختم نہیں ھوئی لہذا انسان مکمل طور پر ابھی آزاد نہیں ھوا۔ پس اسے ایک اصلاحی قدم مزید آگے بڑھنا ھے۔
وہ قدم کیا ھے؟ وہ قدم ھے سوشل ازم، یعنی انسانیت پر لازم ھے کہ وہ اپنی تاریخ کے ناگزیر قوانین کو سمجھ کر اپنے شاندار مستقبل کے حصول کیلئے ان پالیسیوں کو اپنائے جن کی نشاندھی مارکس (اور چند دیگر اشتراکی مفکرین) نے کی۔ یہ پالیسیاں کچھ اس نوع کی ہیں:
– ذرائع پیداوار پر نجی ملکیت کا خاتمہ اور ان پر اشتراکی ریاست کا قبضہ
– پروگریسو ٹیکسیشن (progressive taxation)
– لازمی لیبر ورک (آمدن کا واحد ذریعہ صرف لیبر ورک)
– تیز رفتار انڈسٹرئیلائزیشن
– پیداوار کی تقسیم پیداواری عمل میں صرف کئے گئے اوقات کار اور ضرورت کی بنیاد پر
ان پالیسیوں کے نتیجے میں درج ذیل نوع کی تبدیلیاں رونما ھوں گی:
– ورکنگ کنڈیشن میں بہتری
– کام کے اوقات (working hours) میں کمی
– پیداواری صلاحیت میں اضافہ
– اجرتوں اور معیار زندگی میں اضافہ
– معاشی و معاشرتی عدم مساوات میں کمی
سوشل ازم درج بالا نوع کی پالیسی پیکج کا نام ھے۔ طویل عرصے تک ان پالیسیوں پر عمل پیرا ھونے کے نتیجے میں ایک نیا انسان اور معاشرہ دریافت ھوگا، جسکے خدو خال کچھ یہ ھونگے:
– پیداوار میں کثرت (abundance) ھوجائے گی، یوں scarcity کا وجود ختم ھوجائے گا
– اس پیداواری کثرت سے لوگوں کے عقائد و طرز عمل تبدیل ھوجائیں گے، یوں ایک نیا انسان دریافت ھوگا جسے مارکس specie being کہتا ھے
– پیداواری عمل میں شرکت (مارکس کے نزدیک انسان کی اصل فطرت) اظہار ذات کا بنیادی داعیہ بن جائے گا
– ہر شے اجتماعی ملکیت بن جائے گی (اسی سے specie being دریافت ھوگا، جسکی شناخت کا بنیادی شعور ‘اکیلی ذات’ نہیں بلکہ ‘انسانیت کا ایک رکن ھونا’ ھوگی)
– جذبہ مسابقت ختم ھوجائے گا کہ یہ scarcity کا نتیجہ ھے
– جرائم کا خاتمہ ھوجائے گا کہ اس کا بنیادی محرک ہی ختم ھوجائے گا (ہر شخص کا فطری شعور ہی اسے جرم سے باز رکھنے کیلئے کافی ھوگا)
– انسان اپنی خواہشات کو پوری طرح کائنات پر مسلط کرنے لائق ھوگا، جو چاھے گا کرسکے گا (گویا فعال لما یرید کا مصداق ھوگا)
– ہر قسم کے طبقات (خاندان، مذھب، قومیں، شہری دیہاتی، پیشہ وارانہ تقسیم کار) ختم ھوجائیں گے کہ انکا مقصد صرف scarce ذرائع پر استحصالی تسلط کو جواز دینا اور اسکے نتیجے میں برپا ھونے والی ادارتی صف بندی کو اختیارکرنا ھوتا ھے، لہذا طبقاتی کشمکش نہ رھے گی۔ صرف فرد (specie being) باقی رہ جائے گا اور وہ جو چاھے گا کرسکنے کا مکلف ھوگا۔ اخلاقیات کے بے شمار موجودہ تصورات بے معنی ھوجائیں گے
– کیونکہ جبر کی بنیاد و ضرورت ھی ختم ھوجائے گی، لہذا ریاست تحلیل ھوجائے گی، محض ایک فطری پیداواری نظم باقی رہ جائے گا جو انسانیت کے خود اختیار کردہ فطری اظہار کا مظہر ھوگا
اشتراکی مفکرین انسانی تاریخ کے آخری سرے پر قائم ھونے والے اس معاشرے کو کمیونزم سے تعبیر کرتے ہیں۔ گویا سوشل ازم کا مطلب لبرل سرمایہ داری اور کمیونزم کے دوران عبوری ریاستی دور کا نام ھے جو لبرل سرمایہ داری کو مطلوبہ کمیونسٹ معاشرے میں تبدیل کرنے کی بنیاد فراھم کرے گی۔ سوشل ازم اور کمیونزم کے اس نقشے سے بالکل واضح ھے کہ یہ سرمایہ داری ہی کی وکالت کا متبادل نظریہ ھے۔