اچھےکام کرنےوالوں کی زندگی تنگ کیوں ہوجاتی ہے

سوال: آج سے ایک سال قبل دنیا کے جملہ افعال بد سے دوچار تھا، لیکن دنیا کی بہت سی آسانیاں مجھے حاصل تھیں۔ میں نہ کسی کا مقروض تھا اور نہ منت کش اور اب جبکہ میں ان تمام افعال بد سے تائب ہو کر بھلائی کی طرف رجوع کرچکا ہوں، دیکھتا ہوں کہ ساری فارغ البالی ختم ہوچکی ہے اور روٹی تک سے محروم ہوں۔ سوال یہ ہے کہ اچھے اور نیک کام کرنے والوں کے لیے دنیا تنگ کیوں ہوجاتی ہے اوراگر ایسا ہے تو لوگ آخر بھلائی کی طرف کا ہے کو آئیں گے؟ یہ حالت اگر میرے لیے آزمائش ہے کہ سرمنڈاتے ہی اولے پڑے تو یہ منزل میں کس طرح پوری کروں گا؟


جواب

: آپ جس صورتحال سے دوچار ہیں، اس میں میری ہمدردی آپ کے ساتھ ہے اورمیں آپ کا دل دکھانا نہیں چاہتا لیکن آپ کی بات کا صحیح جواب یہی ہے کہ آپ فی الواقع آزمائش ہی میں مبتلا ہیں اور اس منزل سے بخیریت گزرنے کی صورت صرف یہی ہے کہ آپ خدا اور آخرت کے متعلق اپنے ایمان کو مضبوط کرکے صبر کے ساتھ نیکی کی راہ پر چلیں۔


آپ کو اس سلسلے میں جو الجھنیں پیش آرہی ہیں، ان کو رفع کرنے کے لیے میں صرف چند اشارات کرنے پراکتفا کروں گا۔


بدی کی راہ آسان اور نیکی کی راہ مشکل ہونے کی جو کیفیت آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا موجودہ اخلاقی، تمدنی، معاشی اور سیاسی ماحول بگڑا ہوا ہے۔ اس ماحول نے بکثرت ایسے اسباب پیدا کررکھے ہیں جو برے راستوں پر چلنے میں انسان کی مدد کرتے ہیں اور بھلائی کی راہ اختیار کرنے والوں کی قدم قدم پرمزاحمت کرتے ہیں۔ اگرخدا کے صالح بندے مل کر اس کیفیت کو بدل دیں اورایک صحیح نظام زندگی ان کی کوششوں سے قائم ہوجائے تو انشاء اللہ نیکی کی راہ بہت آسان اور بدی کی راہ بڑی حد تک مشکل ہوجائے گی۔ ایسا وقت آنے تک لامحالہ ان سب لوگوں کوتکالیف و مصائب سے دوچارر ہونا ہی پڑے گا جو اس برے ماحول میں راہِ راست کو اپنے لیے منتخب کریں۔


تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ نیکی بجائے خود اپنے اندر دشواری کا ایک پہلو رکھتی ہے، اس کے برعکس بدی کی فطرت میں ایک پہلو آسانی کا مضمر ہے۔ آپ بلندی پر چڑھنا چاہیں تو بہرحال اس کے لیے آپ کو کسی نہ کسی حد تک محنت کرنی ہی پڑے گی، چاہے ماحول کتنا ہی سازگار بنادیا جائے لیکن پستی کی طرف گرنے کے لیے کوشش اور محنت کی ضرورت نہیں۔ ذرا اعصاب کی بندش ڈھیلی کرکے لڑھک جائیے، پھر تحت الثریٰ تک سارا راستہ کسی سعی و محنت کے خود طے ہوجائے گا۔


آپ پوچھتے ہیں کہ اگر اچھے کام کرنے والوں کی زندگی تنگ ہوجاتی ہے تو دنیا اس طرف رخ ہی کیوں کرے گی؟ لیکن میں پوچھتا ہوں کہ اگر اچھے کام کرنے والوں کو دنیاکی تمام سہولتیں اور آسائشیں بہم پہنچنے لگیں اور برے کام کرنے والوں پر آفتیں ٹوٹ جایا کرتیں تو پھر کون ایسا احمق تھا کہ جو برائی اختیار کرتا اور بھلائی سے منہ موڑتا۔ پھر تو کامیابی آسان اور ناکامی دشوار ہوتی، جزا سستی اور سزا مہنگی ہوجاتی، انعام مفت ملتا اور عذاب پانے کے لیے محنت کرنا پڑتی۔


کیا اس کے بعد دنیا کی اس امتحان گاہ میں انسان کو بھیجنے کا کوئی فائدہ تھا ؟ اور کیا اس کے بعد نیک انسانوں کی نیکی کسی قدروقیمت کی مستحق قرار پاسکتی تھی؟ جبکہ ان کو نیکی کے راستے طے کرنے کے لیے قالین بچھا کر دیے گئے ہوں؟ درحقیقت اگر ایسا ہوتا تو جنت کی بجائے جہنم کی طرف جانے والے زیادہ قابل قدر ہوتے۔


آپ کا یہ سوال ایک اور لحاظ سے بھی عجیب ہے۔ آپ شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ لوگوں کے راہ راست پر آنے سے اللہ تعالیٰ کی کوئی اپنی غرض اٹکی ہوئی ہے۔ اس غلط فہمی کی بنا پر آپ پوچھتے ہیں کہ اگر راہِ راست مشقتوں اورآزمائشوں سے بھری ہوئی ہے تو دنیا اس راہ پر آئے گی ہی کیوں؟ لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ راہِ راست اختیار کرنے میں لوگوں کا اپنا فائدہ ہے نہ کہ خدا کا اور اس کے خلاف چلنے میں لوگوں کا اپنا نقصان نہ کہ خدا کا۔ خدا نے انسان کے سامنے دو صورتیں رکھ دی ہیں اور اسے اختیار دیدیا ہے کہ ان میں سے جسے چاہے انتخاب کرلے۔ ایک یہ کہ وہ اس زندگی کے چند روزہ مزوں کو ترجیح دے کر آخرت کا ابدی عذاب قبول کرلے۔ دوسری یہ کہ وہ آخرت کی بے پایاں راحت و مسرت کی خاطر ان تکلیفوں کو گوارہ کرے جو دین و اخلاق کے ضابطوں کی پابندی کرنے میں لامحالہ پیش آتی ہیں۔ لوگوں کا جی چاہے تو وہ پہلی صورت کو پسند کریں۔ اگر ساری دنیا مل کر بھی اپنے انتخاب میں یہ غلطی کر گزرے توخدا کا کچھ نہ بگاڑے گی۔ خدا اس سے بے نیاز ہے کہ لوگوں کے صحیح انتخاب راہ سے اس کا کوئی مفاد وابستہ ہو۔


(ترجمان القرآن۔ محرم ۱۳۷۰ھ، نومبر1950ء)