آئیں ہم خدا اور انسان کے تعلّق کو ایک مختلف اور غیر روایتی پیرائے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
انسان اور اس کی بنائی چیزیں ایک فطری تعلّق میں بندھے ہوتے ہیں جیسے ایجاد اور موجد، فن اور فن کار، تحریر اور مصنّف، غزل اور شاعر، ڈیزائن اور ڈیزائنر وغیرہ۔ کام اور کام کرنے والے کے آپس کے اس تعلّق کے متواتر مشاہدے نے ہماری سوچ کی ایک ساخت تخلیق کردی ہے کہ گویا فعل اور فاعل ایک سکّے کے دو رُخ ہیں جو ایک ہی ماحول میں منسلک ہوتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ذہن میں سوچ کی ایک جبلّت تشکیل پا گئی ہے کہ ایسے جوڑ کا ایک مظہر میں مقیم ہونا ہی لازم ہے۔ خدا کو جاننے میں فہم کا یہی “فطری” اور جبلّی وصف یا ذہنی قفل ہماری فکر کے زاویئے متعیّن کرتا ہے کہ خالق اور کائنات بھی ایسے ہی پیرائے میں لازم و ملزوم کی طرح منسلک ہیں۔ کائنات اور انسان مادّی وجود رکھتے ہیں، اسی وجہ سے ہم خدا کو بھی مادّی اور شعور ی پیرائے میں ہی جاننے اور تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غالباً یہ نقطۂ نظر درست نہیں اسی لیے انسان آج بھی خدا کے بارے میں متجسّس ہے کہ خدا کون ہے، کہاں ہے اور کیا ہے؟
کائنات کے ظاہر ہونے سے قبل کے پیرائے ناقابل تشریح پراسرار رنگ لیے ہوئے ہیں کیونکہ عدم ایساپیرایہ کہ جس کی تشریح یہی ہے کہ وہ کچھ نہیں ہے۔ اللہ ہی ہمیں غور کی دعوت دیتا ہے تو کیوں نہ ہم تجسّس کے بموجب کسی نئے اندازِ فکر کے تحت اس باب میں غور کریں۔ لہٰذا ہم خدا اور اپنے موجود ہونے کو سمجھنے کے لیے غور و فکر کی روایتی سطح سے ایک منزل اوپر زقند بھرتے ہیں اور دنیا کے وجود میں آنے سے پہلے اس نامعلوم ماحول یعنی عدم یا قبل ِآفرینش کی پراسراریت میں غوطہ زن ہوکر عقل، علم اور وجدان کی بنیاد پر ایک مختلف خاکہ بناکر اپنے مخمصوں کا جواب تلاش کرتے ہیں۔ اس پر اسراریت کی جانکاری کے سلسلے میں ہم خدا کی ذات، وجود انسانی اور کائنات کے باہمی تعلّق کے پیرائے ایک نئے زاویے سے دیکھیں گے اور چند اہم نکات پر غور کریں گے اور وہ ہیں:
عدم کیا ہے؟
موجود ہونا یا وجودکیا ہے؟
کیا وجود بذات خود ایک تخلیق ہے؟
کیا وجود ایسا محدود مظہر (limited-phenomenon) ہے جس میں انسان اور کائنات مقیم ہیں؟
عدم ایک لاوجود (anti-existence) یا لا شے (no-thing) ہے کہ وہاں وجود بھی اجنبی ہے کیونکہ کوئی شے موجود نہیں۔ اگرچہ عدم شے نہیں ہے مگر کوئی ریفائنڈ اور برتر شے (para-thing) ہوسکتا ہے جہاں پر وجود کے ایسے ریفائنڈ پیرامیٹرز یا بالائے وجود (paraexistence) پیرائے ہوسکتے ہیں جو انسان کی عقل سے ماورا ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عدم یعنی کائنات کی آفرینش سے قبل کیا تھا یہ انسان نہیں جان سکتاکیونکہ ہمارا ماحول شئے کے پیرائے، اصطلاحات اور وضاحتیں رکھتا ہے۔
تووہاں کیا تھا اور کیا ہونا ہو سکتا ہے؟
اس کا مستندجواب فی الوقت ہمارے پاس نہیں، بس فلسفے اور غیر مصدّقہ سائنسی نظریات۔ لیکن اس پر غور ہی شاید حقیقت وجود کو آشکارا کرسکتا ہو۔ اس لیے ہم کائنات کے مادّی پیرائے سے اوپر کسی مظہر کو جاننے کے لیے ایک ذہنی کاوش کرتے ہیں، گویا ایک مشق جو شاید کوئی عقلی گرہ کھول دے۔ اس کوشش میں نہ کسی ایمانی نظریے کو چیلنج کرنا مقصود ہے، اور نہ کسی متعیّن عقیدے کی نفی۔ ہم ایک مفروضے پر گفتگو کر یں گے کہ جس کا مقصد ذہنی تشفّی ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ یہ بیان صرف خدا اور انسان کے تعلّق کے حوالے سے ہے اور دوسری مخلوقات کا حوالہ محض بر سبیل تذکرہ ہے۔
تو آئیے ہم ایک مفروضے (hypothesis) یا نظریے پر غور کرتے ہیں کہ:
“انسان وجود میں نہیں بلکہ کسی حصار ِوجود میں ایک ادراکِ وجود سے منسلک ہے۔”
مختصراً اس کی وضاحت یہ ہے کہ انسان کی تخلیق کا بنیادی جوہر انسان کے “موجود ہونے کا احساس” ہے۔
وجود (existence) ہمارے تخیّل کی ایک گرہ ہے یعنی موجود ہونا ایک ایسا مظہر ہے جو خود اپنی تخلیق سے پہلے معدوم تھا!
ہمارے مذکورہ حصار وجود سے باہر نہ وجود ہے نہ مظہرِ وجودیت. مگر صرف اَسرارِ اُلوہیت کہ جہاں وجودیت کی تخلیق ہوتی ہے۔ وہیں سے خالق اپنی ہر طرح کی تخلیق سے اس کی پیدائشی جبلّت کے پیرایوں سے ہم آہنگ رابطے رکھتا ہے۔ حالانکہ ہم کُل مظہرِ وجود کی نفی کر رہے ہیں لیکن لاوجودیت کے پیرایوں کی تشریح اپنی فطری طبعی اور وجودی جبلّت کی محدودیت کے تئیں وجود کے پیرایوں میں ہی کرسکتے ہیں۔ خدا کائنات کے سسٹم کا حصّہ نہیں ہے، کیونکہ خالق تخلیق کا جز نہیں بن سکتا ہے، جو خود کو تخلیق کرنا ہوگا جو غیر منطقی ہے۔ دنیا کا خالق انسانی تصوّر سے بالا کسی انجانی ہستی کا خوگر ہے۔ اس کی وضاحت اسی طرح کی جائے گی کہ خدا بالائے وجود میں مقیم ہے جہاں سے اس نے طبعی وجودیت (physical-phenomena) تخلیق کی، جس میں مادّی اورغیر مادّی وجودیت کے پیرائے ترتیب ہوئے۔ تخلیقی ماحول یعنی بالائے وجود (Paraexistence) کا مظہر انسان کی سمجھ کے پیرایوں سے بھی سِوا کچھ اور ہے! لیکن وہ جو کچھ بھی ہے یا وہاں جو کچھ بھی ہے، اس کو انسان انھی پیرایوں میں جان سکے گا کہ جن مرئی و غیر مرئی پیرایوں کو انسان کے لیے متعارف کر دیا گیا۔
وجود کیا ہے؟
اطراف کے ماحول کا طبعی تاثر ہمارے حواس ہمارے شعور میں ثبت کرتے ہیں، یہ تاثر شعور میں جذب ہو کر ذہن میں کسی کے ہونے کا احساس دلاتا ہے، جس کو ہم وجود کی حقیقت کے بموجب قبول کرتے ہیں۔ وجود اور شعور لازم و ملزوم ہیں یعنی شعور کے بغیر ادراکِ وجود بھی مفقود اس طور پر وجود بھی۔ یعنی انسان منفرد وجودی دائرے میں گردش کرتا ذی روح ہے، جس کا تخیّل وجود کے مدار سے نہیں نکل سکتا۔ انسان کی دانست میں وجود ایک ایسا پیرایا یا ڈائمنشن ہے کہ جس کے باہر معدومیت ہے لیکن یہ تاثر ذہن اور جبلّت میں پیوست طبعی وجود کے ادراک کی مقناطیسیت کی وجہ سے ہے، جو وجود سے بالا کسی مظہر یا حقیقت کو قبول نہیں کرنے دیتا۔ وجودی مظہر (phenomenon-of-existence) کا وصف یہی تاثر ہے کہ کوئی چیزیا تو ہے یا نہیں ہے جبکہ کوئی تیسرا روپ مفقود ہے بجز واہمہ۔
اتنا جان کر ہم اپنا اور اپنے خالق کا تعلّق سمجھنے کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ لاوجود میں ایک “بالائے وجود ارادے” نے ایک انجانا حصار تخلیق کیا جو وجود سے پہلے وجود کی قیام گاہ کی فصیل بنا۔ پھر اُس کے اندر ایک نظام کی بنیاد کے طور پر ایک منفرد مظہر “ادراکِ وجود (perception-of-being-existed) یعنی موجود ہونے کا تاثر تخلیق کیاگیا کہ جس میں ہر ذی نفس کو اس ادراک کے ساتھ پیدا کرنا تھا کہ “میں ہوں” یعنی حصار وجود میں ذی حیات کا احساسِ وجود۔ وضاحت اس کی اس طرح ہو سکتی ہے کہ اللہ نے موجود ہونے کا ایک ماحول بنایا، پھر اس میں وجود کے پیرائے تشکیل دے کر اس میں انسان اور جانداروں کی تخلیق کی جس کی بنا پر ہر جاندار یہ ادراک لے کر پیدا ہوتا ہے کہ وہ موجود ہے اور اطراف میں موجودات ہیں۔
اس اہم مظہر کی تخلیق کے بعد وجود کے حصار میں شے یعنی کائنات اور اس میں زندگی کی تخلیق ہوئی، پھر غالباً زندگی مختلف پیرایوں میں ڈھلی جس میں شعور کی تخلیق ہوئی، شعور میں خالق کا ادراک جاگزیں ہوا اور خالق معبود بنا۔ اک مادّی ہیئت میں منفرد حیات داخل کی گئی تو اس نے انسان کا روپ دھارا اور انسان صاحب ِشعور اور دیکھتا سنتا ہوگیا، یہ اُس ادراک وجود کی بیداری تھی کہ جو بطور خاص انسان کے لیے بنا۔ اس طرح اطراف کائنات انسان کے لیے موجودات بنے۔ پھر انسانی شعور میں فکر اور فلسفے نے جنم لیا۔ انسان نے اپنے وجود پر غور شروع کیا تو خالق کا ادراک بیدار ہوا۔ انسان مادّی استعداد (capacity) میں اپنے خالق کو ڈھونڈنے تو لگا لیکن جان نہیں پایا کیونکہ انسان کی عقل اور علم شے کی طبعی جبلّت پر ارتقاء پذیر ہوئے جبکہ خالق شے نہیں ہے۔ مزید اجاگر کرنے کے لیے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کیونکہ انسانی جبلّت طبعی وجود کے خمیر سے اٹّھی ہے لہٰذا ہمارا تخیّل ہمارے دماغ کی سالماتی یا مولیکیولر (molecular) ساخت کی بنا پر اور فطری ہم آہنگی کے باوصف صرف مادّی پیرائے کے وجود کو ہی حقیقت کا نام دیتا ہے اور غیر طبعی یا حواس سے ماورا وجود کو خیال یا واہمہ سمجھا جاتا ہے۔ انسان کے لیے آفرینش سے قبل کے پیرائے اسی لیے معدوم اور ناقابل دسترس ہیں کہ ہمارا شعور متعیّن مادّی اور وجودی پیمانوں اور حدود میں سوچنے کا مکلّف ہے۔
نکتہ اہم یہ ہے کہ ایک لامحدود ارادے کی تخلیق “حصار وجود” کے اندر ہمارا یہ تاثر یا ادراک کہ کوئی چیز موجود ہے یا نہیں؟ دراصل انتہائی اہم اور یکتا مظہر (unique phenomenon) اور سپر تخلیق (super-creation) ہے۔ یہ وصف ہی حیات و کائنات کی تخلیق کے ماحول کا نقطۂ ثقل اور جوہری بنیاد ہے۔ یہی وصف انسان کو اطراف کے موجودات کا احساس دلاتا ہے اور یہی باقی معاملات کی اساس بنتا ہے۔ شعور کا یہ وصف جو حِسّیات کے منشور سے کائنات کا مشاہدہ کرتا ہے، یہی انسان کو وجود کا احساس دلاتا ہے۔ وجود شعور کا احساس ہے جو درحقیقت ناپائیدار تاثر ہے جو ہرشخص کی نیند اور موت کے ساتھ معدوم ہوجاتا ہے۔
دوسری طرف خالق انسان کے ماحول اور اس کی ذہنی استعداد کے مطابق اس سے مخاطب ہوتا ہے۔ اسی لیے خالق خود کو زندہ اور قائم بتاتا ہے تاکہ انسان اُس کو اپنے وجود اور عقل کے پیمانے میں سمجھے۔ غالباً انہی پیرایوں میں اللہ نے انسانی جسم کے اعضا کے حوالے سے اپنی ذات کا ذکر بھی کیا جیسے اللہ کا چہرہ، ہاتھ یا پنڈلی تاکہ انسان آسانی سے نصیحت سمجھ لے۔ اس کو اسی پیرائے میں سمجھنا ہوگا۔
ادھر دیکھیں توخالق نے شے ہی پر مبنی ایک مظہر تخلیق کیا، تب ہی انسان سے بار بار کہا کہ:ان اللہ علی کل شی قدیر ، بےشک اللہ ہر شے پر قادر ہے.و ھو علی کل شی قدیر ، وہ ہر شے پر قادر ہے۔
یہ انسان کی سمجھ کے پیرایوں میں خالق کا پیغام ہے۔ خالق شے کے علاوہ بھی مظاہر کی تخلیق پر قادر ہے، جس کا اعلان کر رکھا ہے کہ وہ ہر طرح کی تخلیق پر قدرت رکھتا ہے لیکن عام انسان کو ان سے نابلد رکھا گیا ہے۔
کائنات شے ہے، اس میں موجود ہر مظہر شے ہے، انسان بھی شے ہے۔ انسان کائنات میں مقیّد ہے اس لیے اس کا واسطہ کائنات میں موجود اشیا ہی سے ہونا ہے۔ انسان کی فکر بھی طبعی وجود کے دائرے اور پیرایوں یا شے کی اصطلاحات میں ہی حرکت پذیر ہے، لہٰذا انسان کا کل علم شے کے پیرایوں میں ہی عیاں ہونا ہے۔ انسان شعوری وجود رکھتا ہے جبکہ خالق نامعلوم وجودی پیرایوں یا وجود سے جدا پیرایوں میں مقیم ہے۔ لیکن وجود سے ماورا کسی پیرائے کو ہم نہیں سمجھ سکتے، کیونکہ انسان وجود کے عدسے سے ہی کائنات اور ماقبل کائنات کو دیکھتا ہے اور وجودیت کے اندر ڈیفائن کیے شے کے پیرایوں میں ہی اس کی عقل مصروفِ کار ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ ہم محض ایک مفروضے پر غور کر رہے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ کائنات سے اوپر کا ماحول انسان اور ماورائے وجود کے درمیان ایک بفر زون ہو کہ اس زون میں خالق اپنی مخلوق سے رابطے کے انجانے واسطے رکھتا ہو! دلیل اس کی مشہور واقعۂ معراج النّبی ﷺ ہے کہ جس میں اللہ کی قربت کی طرف بڑھتے ہوئے اُس ماورائے عدم کی سرحد پر آ کر جبرائیل علیہ السلام رک گئے کہ ایک حد یا رکاوٹ تھی!
جلتے ہیں جبرئیل ؑ کے پرَ جس مقام پر
کسی ماورائے عقل و شعور ماحول سے متعلق ایک
حدیث ِ
مبارک بھی دلیل ہے جس میں کچھ ایسا ارشاد ہوا کہ:
“جنّت ایسی جگہ جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کان نے سنا اور نہ کسی ذہن میں اس کا خیال تک آیا!”
یہ اُس اجنبی” ماورائے وجود” یا ماورائے عدم ماحول کی طرف منسوب ہو سکتی ہے جو انسانی شعور اور طبعی وجودیت کے حصار سے جدا اور ماورا ہے یعنی ہو سکتا ہے کہ جنّت کسی اجنبی تخلیقی حصار میں ہو جہاں کے پیرائے یکسر مختلف ہوں۔ یہاں اس بات کو بھی تقویت ملتی ہے کہ حقیقتاً خالق انسان سے اس کی سمجھ کے پیرایوں میں ہی مخاطب ہوا ہے۔ اس کو اس طرح سمجھیں کہ انسان کسی سپر انسانی روبوٹ (humonoid-robot) کو مصنوعی ذہانت کے حوالے سے کوئی کمانڈ یا ڈائریکشن ایک مخصوص پروگرام لینگویج یا مخصوص الیکٹرانک طریقے سے ہی دے گا کہ جس پر روبوٹ کی ساخت ہے یا اُس کی مصنوعی الیکٹرانک ذہانت اس سے ہم آہنگ ہو۔
تشکیل وجود ہی اصل نکتہ ہے سمجھنے کا۔
غور کریں کہ ایک سپر انسان نما روبوٹ (humanoid-robot) انسان کا بنایا وجود ہے جو شعور رکھتا ہے۔ اس کا شعور مصنوعی ہے اور اس کا “وجود” اس کے پروگرام کے مطابق الیکٹرانک ہوگا کیونکہ اس کی ساخت بجلی، میٹل اور سوفٹ وئیر پر ہے۔ یہ سوفٹ وئیر دراصل انسان کے دماغ کے ایک گوشے کا عکس یعنی تخیّل و فکر کا انعکاس ہے جو روبوٹ کے وجود کو ایک مصنوعی زندگی عطا کرتا ہے۔ یعنی کہا جاسکتا ہے کہ انسان نے روبوٹ میں اپنے خیال کا عکس منتقل کیا تو وہ ایک برقی حیات (electronic-life) پا گیا۔ اس روبوٹ کی ذات میں اتر کر غور کریں کہ کیا اس کی کوئی سوچ ہے؟ جو یقیناً ہے کیونکہ اس کو ایک خاص اور محدود پیرائے میں عمل کی آزادی دی گئی ہے۔ غور کا نکتہ یہاں یہ ہے کہ ایک سوچتے مگر محدود ذہن والا ہیومن روبوٹ انسان کے وجود کے بارے میں انسان کے معیّن کیے ہوئے پیرامیٹرز میں ہی کسی ایسے تاثر میں ہوگا جو انسانی ماحول سے جدا ہوگا۔ واضح یہی کرنا ہے کہ کسی ذی حیات میں وجود کا ادراک ہی اصل بنیاد ہے جو اس کے لیے کسی عالم (world) کی تشکیل کرتا ہے۔اس کو سمجھنے کے لیے یہاں پر ہمارے وجدان یا مراقبے اور تخیّل کا کردار ہے جو ہمیں بتائے گا کہ اگر ہم ایک سپر انسانی روبوٹ (humanoid) ہیں تو ہم الیکٹرانک حصار میں انسان کے وجود کی نوعیت کے بارے میں کیا جان سکتے ہیں؟
اسی طرح ہمارا مادّی وجود ایک بے ثبات مظہر ہے کیونکہ کائنات میں موجود ہونا کسی برتر مظہر کے حوالے سے ایک واہمہ بھی ہوسکتا ہے جیسے کہ ہمارا وجود بالائے وجود میں ایک لایعنی چیز ہو۔ مثال اس کی ہمارے خواب ہیں جو حقیقی جذبات جیسے خوشی، خوف اور لذّت کا احساس پیدا کرتے ہیں لیکن پھر ایک دوسرے مظہر (phenomenon) بیداری میں واہمے کی طرح معدوم ہوجاتے ہیں۔ عین اسی طرح انسان اپنی دانست میں فی الوقت ٹھوس وجود کے پیرائے میں لیکن درحقیقت ایک ادراک وجود میں رہائش پذیر ہے جو ایک طبعی یا برتر خواب یاپیرا ڈریم (para-dream) کی کیفیت ہوسکتی ہے۔ یعنی موت کے بعد حواس ایسی کیفیت سے دوچار ہوں یا ایسے گم گشتہ ماحول میں بیدار ہوں جو کبھی روح کا مسکن ہو تو انسان یہی کہہ اُٹھے گا کہ دنیا کی زندگی تو ایک خواب تھی! دلیل اس کی قرآن سے یہ ہے کہ دنیا کو کھیل تماشہ بتا دیاگیا ہے اور یہ بھی کہ قیامت کے روز انسان محسوس کرے گا کہ دنیا میں مختصر وقت گذارا، اور ارواح کا مسکن بھی عدم کا کوئی ماحول ہی ہے۔ لہٰذا ہم بالائے وجود کے ایک ارادے کا ردّ عمل ہیں جو مادّے کی ٹھوس روایات تو رکھتا ہے لیکن ہم اِس طبعی ماحول کی ایسی حقیقت ہیں جو بالائے وجود میں بےحقیقت ہے۔
خالق کے نائب کی حیثیت سے انسان کی تخلیق انتہائی خاص پیرامیٹرز رکھتی ہے۔ انسان کی ساخت انوکھا رنگ لیے ہے جس میں جسم کی موت ہے لیکن روح کو موت نہیں! اسی روح کا راز انسان سے پوشیدہ بھی رکھا گیا۔
کیا روح بالائے وجود سے متعلّق کوئی ایسا مظہر تو نہیں جو وجود میں عیاں ہونے کی خاصیت رکھتا ہو؟
اللہ نے انسان کو مخاطب کرکے فرمایا کہ:
اَلّذِی خَلَقَ المَوتَ والحیَات لیبَلُوَ کُم ایُّکم احسنُ عملاً (سورۃ 68آیت 2)
جس نے موت اور زندگی تخلیق کی تاکہ تم کو آزمائے کہ کس نے اچھے اعمال کیے ہیں۔
اس خطاب سے قبل کسی ڈائمنشن میں خالق ارواح سے بھی مخاطب ہوا اور اپنی بادشاہی کا اقرار کرایا۔
“کیا میں تمہارا رب نہیں؟”
یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ زندگی تو انسان سے قبل موجود تھی کہ انسان سے قبل مخلوق کی موجودگی کا بیان بھی ہے! گویا بہت سی انجانی حیات کا قیام ایک نامعلوم ماحول میں تھا اور ہے جیسے فرشتے، جنّات وغیرہ لیکن اہم بات یہ ہے کہ غالباً اُس وقت کسی حیات کو موت نہ تھی کیونکہ ایسا کوئی خدائی اشارہ نہیں۔ اُس ماحول یا مظہر میں نہ کوئی ہمارے جیسا وقت رواں تھا نہ دن نہ رات، بس ایک انجانا دائمی حال! اس جمود ِوقت میں انسانوں کے لیے مادّی وجودیت کے تئیں ایک جدا اور خاص سسٹم بنا جس میں اس کے لیے موت کے ساتھ ایک اچھوتی طبعی زندگی تخلیق ہوئی۔ انسان کو نیابت کی خلعت عطا کر کے اور موت کا ہار پہنا کر ایک جداگانہ حیات کے تئیں موجود ہونے کا سیمابی یا بےچین شعور دیا گیا جو اس کا سرمایۂ افتخار ہے اور یہی اس کو طبعی وجودیت کا انتہائی مؤثّر احساس دلاتا ہے۔ اس طرح انسان کا قیام یا ظہور ایک مخصوص مادّی مظہر کے اندر ہے جسے ہم وجود کہتے ہیں۔گویا مادّی پیمانے کے اعتبار سے “ماورائے وجود” میں خالق، پھر نوری ناری مخلوقات اور پھر کائنات میں خلوی و خاکی حیات کے سسٹم دائرے در دائرے ہیں۔ موت اور فنا میں فرق یہ ہے کہ موت اس ہیئت کو ہوتی ہے جو روح یا روح جیسی کوئی خاصیت رکھتا ہے جبکہ فنا اس وجود کی ہے جو روح نہیں رکھتا یا روح سے جدا ہو۔ روح اصل مظہر ہے جو کسی بھی جسم میں دوبارہ عیاں ہو سکتا ہے جیسے کمپیوٹر کا سوفٹ ویئر!
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ موجود ہونا یا نہ ہونا مخصوص کائناتی طبعی تاثر (paradigm) ہے جس کی ہمارے حواس ایک خاص ماحول کے حوالے سے ہمیں اطلاع دیتے ہیں۔ خدا کے حوالے سے اس کا اطلاق قطعی غیر متعلق (irrelevent) ہے کیونکہ خدا مظہرِوجود کے حصار اور ادراک ِوجود (phenomenon-of-being-existed) کے مظہرکی تخلیق کے تئیں نہ صرف ہمارے شعور بلکہ وجود کے مظہر سے بھی ماورا ہوچکا ہے۔ ہمارے مفروضے کے مطابق اللہ تعالیٰ حصار ِ وجود سے باہر ہیں اس لییے وجودیت اور طبعیات کی اصطلاحات و استعارات سے بھی ماورا۔ اس صورتحال میں ہم اللہ کو اپنی فکر کی بناوٹ کے تئیں اپنے شعور میں جاگزیں وجود کے ادراک کے تحت ہی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خدا کو کس نے بنایا؟ کا سوال اسی تاثر کی کوکھ سے نکلتا ہے جبکہ ہم جان چکے ہیں کہ حصار وجود سے باہر موجود ہونا یا نہ ہونا ہی اجنبی ہے۔
خدا وہ ہستی ہے کہ موجود اور غیر موجود کے پیرایوں میں صرف سمجھی جاسکتی ہے، تشریحات سے سمجھائی نہیں جا سکتی کیونکہ وہ بالائے وجود سے متعلّق ہے۔ واضح رہے کہ انسان کے لیے خالق شے یا مادّی پیرایوں میں ہی اپنی صفات میں لامحدود ہے کیونکہ لا محدود ہونا فکر ِوجودیت کا ہی ادراک ہے۔ خالق حقیقتاً کائنات کے مادّی اور غیر مرئی پیرایوں سے مبرّا ہے اور بالائے وجود میں لامحدود علم، لا محدود ارادہ اور لامحدود زندگی کا خوگر ہے۔ وجود کے پنجرے میں مقیّد انسان اپنی اصطلاح میں اللہ کی ذات کو اتنا کچھ ہی سمجھ سکتا ہے اور بیان کر سکتا ہے۔
کیا ہمارا یہ مفروضہ مادّی پیرایوں میں خدا کی ناقابل ِتشریح ہستی کے اسرار کی گتھّی کسی حد تک سلجھاتا ہے؟
کیا انسان اللہ کو مادّی وجود کے پیرایوں میں سمجھنے میں اپنی عقلی بے بسی کو تسلیم کرنے پر تیّار ہے؟
فیصلہ آپ کا۔