اگر مان بھی لیا جاے کہ خدا ہے تو کیا واقعی ہی وہ انہی خصلتوں کا مالک ہوگا جو ہمیں مذہب بتاتے ہیں؟،مثال کے طور پہ کیا اتنی بڑی کائنات کے بنانے والے کو ذرا بھی فکر ھو گی کہ اربوں کھربوں ستاروں میں سے اک نقطے کی حیثیت جتنے سیارے کے چھوٹے سے شہر کی چھوٹی سی گلی میں رہنے والا اک معمولی انسان کوئ چیز کھانے سے پہلے اس کا نام لیتا ھے کہ نہیں؟ وہ اس کے نام کی تسبیح کرتا ہے کے نہیں ؟ دن میں پانچ وقت اس کے لیے جھکتا ھے کہ نہیں؟ اور اگر یہ سب نہیں کرتا تو اس کے لیے پہلے سے تیار کردہ دوزخ کا عذاب انتظار کر رہا ہے؟ اگر خدا ہے بھی تو کم از کم وہ نہیں ہے جس کی عبادت کے لیے کہا جاتا ہے۔ وہ صحیح معنوں میں بے پرواہ ھو گا۔
اعتراض کا جواب:
انسان باشعور ہے اور یہ خدا ہی ہے جس نے انسان کو باشعور بنایا۔ خالق کا حق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ خالق نے مخلوق کو جن خصوصیات کے ساتھ بنایا، چاہئے کہ ان خصوصیات کے ساتھ وہ اپنے خالق کی عبادت کرے۔ اس کائنات میں ان گنت کرے پائے جاتے ہیں اور وہ خدا کے طئے کرنا قانون کے مطابق سفر کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے اندر اس قسم کا شعور نہیں ہے جیسا کہ اللہ نے انسانوں کے اندر بنایا۔ اسی کرے یعنی زمین پر لاتعداد جانور پائے جاتے ہیں۔ حیاتیاتی اعتبار سے یہ جانور ہیں تو انسانوں سے کافی ملتے جلتے۔ لیکن ان کے اندر پایا جانے والا شعور انسانوں کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔ انسانوں کے اندر پایا جانے والا شعور اور اس کی صلاحیتیں اس کا تقاضا کرتی ہیں کہ وہ اپنے خآلق کو اس پورے شعور کے ساتھ محسوس کرے اور اس کے آگے سر خم تسلیم کرے۔ جس خالق نے انسانوں کو یہ شعور عطا کیا اس کا بھی تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے شعور کے ساتھ اس کی عبادت کرے نہ کہ کسی بے جان مادے کی طرح سے یا کسی جانور کی طرح۔ یہ شعور ہی اس کی جزا و سزا کہ اصل بنیاد ہے۔ جب کوئی ملحد یہ کہتا ہے کہ خالق کائنات کو اس بات کی کیا پروا کہ میں اس کا نام جپتا ہوں یا نہیں، اس کے سامنے چھکتا ہوں یا نہیں تو دراصل وہ اپنے آپ کو بے جان مادے یا جانور کی سطح پر رکھ کر سوچتا ہے(یہ شعور کا بیان ہےکہ ایسا سوچنے والا خود کو کس کے لیول پر رکھ کے سوچ رہا ہے ۔ کسی کی ذاتی تحقیر مقصود نہیں )۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ خالق کا انکار دراصل ایک انسان کو کس سطح پر لے آتا ہے۔ اللہ تعالی نے منکرین کے بارے میں یہ جو کہا ہے کہ َلهُمْ قُلُوبٌ لاَّ يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لاَّ يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لاَّ يَسْمَعُونَ بِهَا أُوْلَـئِكَ كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ, (جن کے دل ایسے ہیں جن سے نہیں سمجھتے اور جن کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے نہیں دیکھتے اور جن کے کان ایسے ہیں جن سے نہیں سنتے۔یہ لوگ جو پایوں کی طرح ہیں بلکہ یہ لوگ زیادہ بےراہ ہیں۔یہ لوگ غافل ہیں۔ سورہ اعراف ۱۷۹)
اور دوسری جگہ یہ کہا ہے وَلَا تَكُونُواْ كَٱلَّذِينَ نَسُواْ ٱللَّهَ فَأَنسَٮٰهُمۡ أَنفُسَہُمۡۚ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ هُمُ ٱلۡفَـٰسِقُونَ (اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جنہوں نے اللہ (کے احکام ) سے بے پروائی کی سو اللہ تعالیٰ نے خودا ن کی جان سے ان کو بے پروا بنادیا یہی لوگ نافرمان ہیں۔ سورہ حشر ۱۹)
لازمی پر خدا کا انکار کرنے والے اپنی حقیقت اور اپنے شعور کا انکار کر رہا ہوتا ہے۔ یہ سوال ایسے ہی ذہن کی پیداوار ہے۔ انسان جب خدا کا انکار کرتا ہے تو دراصل وہ اپنے شعور کا انکار کر رہا ہوتا ہے۔
انسان بہت کمزور ہے۔
۱۔ جب انسان کسی چیز کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے تو دوسری چیزوں کی طرف سے اس کی توجہ کم ہوجاتی ہے۔ کوئی بندہ جب اپنی ڈیوٹی پر ہوتا ہے تو وہ اتنی شدت کے ساتھ اپنے گھر والوں کی طرف توجہ نہیں دے سکتا اور اگر وہ بہت ہی شدت کے ساتھ گھر والوں کی طرف توجہ دے گا تو پھر اپنی ڈیوٹی ٹھیک سے انجام نہیں دے پائے گا۔
۲۔ جب انسان کسی چیز کی گہرائی اور تفصیلات میں چلا جاتا ہے تو اسی چیز کی مجموعی کیفیت سے اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔ مثلاً ایک شخص ایک گھر کا معائنہ کر رہا ہے۔ اگر وہ گھر کی تعمیر میں استعمال کئے گئے مٹیریل، رنگ، ٹائلز وغیرہ پر بہت زیادہ توجہ دے گا تو گھر کے مجموعی سانچے اور شکل کی طرف سے وقتی طور پر اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔
۳۔ جب انسان کا کسی چیز سے سروکار ہوجاتا ہے، اس سے اس کا جذباتی تعلق بن جاتا ہے تو پھر وہ اس کی کمزوری بن جاتی ہے۔ اور اگر اس تعلق میں کوئی رخنہ پیدا ہوجاتا ہے تو پھر انسان کا سکون اور چین چھن جاتا ہے۔ مثلاً اولاد اور بیوی سے تعلق میں تلخیاں کسی انسان کی نیندیں حرام کرنے کے لئے کافی ہیں۔
اوپر بیان کردہ چیزیں انسان کی کمزوریاں ہیں۔ اللہ رب العالمین تمام کمزوریوں سے پاک ہے۔ اللہ تعالی کلام پاک میں اپنا تعارف لطیف اور خبیر جیسے نام سے کراتا ہے۔ لطیف کا مطلب باریک بین ہے۔ اور خبیر کا مطلب ہر چیز کی خبر رکھنے والا۔ اللہ پاک اپنی تمام مخلوقات کو پوری تفصیل کے ساتھ بہ یک وقت اور بغیر کسی کوتاہی کے خبر رکھ سکتا ہے۔ اللہ کا ایک طرف متوجہ ہونا کسی کی طرف بے توجہی کی قیمت پر نہیں ہوتا۔ اس دنیا میں پائے جانے والے تمام کروں کو اس کے ایک ایک ذرے کے ساتھ خدا جانتا ہے اور خدا کا یہ سب کچھ جاننا کسی اور معاملے میں اس کی کوتاہی کا سبب نہیں بن سکتا اور نہ ہی اسے اس سے غافل کرتا ہے کہ وہ اپنی باشعور مخلوق کے ساتھ کس طرح کا معاملہ کرے۔
اللہ غنی ہے یعنی اللہ ہر ضرورت سے بے نیاز ہے۔ ایک طرف اللہ کو اپنے بندوں سے محبت ہے اور اللہ اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے۔ لیکن محبت کی یہ شدت جس طرح انسانوں کی کمزوری ہے اس طرح خدا کی کمزوری نہیں ہے۔ خدا تمام انسانوں کے ساتھ بالکل ہی ذاتی تعلق رکھ سکتا بغیر اس کے کہ وہ تعلق اس کی کمزوری بنے۔
اوپر بیان کئے گئے نکات سے واضح ہوجاتا ہے کہ جب ملحد اس طرح کے اعتراضات کرتا ہے تو وہ خدا کے ساتھ انسانوں کی کمزوریوں کو منسوب کر کے سوچتا ہے۔ایک بالکل عام اور سادہ ذہن آدمی بھی اس بات کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے کہ رب العالمین تمام کمزوریوں اور عیبوں سے پاک ہے اور یہ اس کے رب العالمین ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس قسم کے اعتراض کرنے والے کے ذہن میں دو بنیادی الجھنیں ہیں
وہ انسان کو جانور یا اس سے بھی کمتر سطح پر رکھ کر سوچتا ہے اور وہ رب العالمین کو انسان کی سطح پر رکھ کر سوچتا ہے۔
تحریر ذیشان وڑائچ