خدا ہم سے کیوں اپنی تعریف کروانا چاہتا ہے۔
خدا کیوں چاہتا ہے کہ ہم اس کی بڑائی کرتے رہیں
خدا کیوں چاہتا ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں؟
ہم خدا کی عبادت کریں تو خدا کو کیا فائدہ۔ اور اگر کوئی فائدہ ہے تو خدا ہمارا محتاج ہوا۔
خدا کا ہر حکم اس کی ذات پر مرکوز کیوں ہے۔
آپ کو اس طرح کے بہت سارے سوالات ملیں گے جو ملاحدہ کی طرف سے کئے جاتے ہیں۔اس قسم کے سوالات کے دو پہلو ہیں۔ ایک اس کا اخلاقی پہلو ہے۔ تعریف، عبادت اور بڑائی کو اپنی ذات میں مرکوز کرنا اخلاقی اعتبار سے اچھا نہیں سمجھا جاتا۔دوسرا یہ تجسس ہے کہ خدا ہم سے یہ سب کچھ کیوں کروانا چاہتا ہے۔ کیا اس سے خدا کو کوئی فائدہ ہے؟ اور اگر ہے تو پھر خدا ہمارا محتاج ٹھہرتا ہے اور اگر فائدہ نہیں ہے تو یہ سب کچھ بے کار ہے۔
انسان کے لئے اپنی بڑائی، تعریف، ستائش اور پرستاری چاہنا ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔
1۔انسان کے اندر پائی جانے والی خوبیاں مستقل اور لازوال نہیں ہیں۔
2۔انسان اپنی خوبیوں پر نظر رکھنے کی وجہ سے دوسرے کی خوبیوں کو دیکھ نہیں پاتا۔
3۔اپنی بڑائی کے زعم میں دوسروں پر زیادتی کر کے ان کی حق تلفی کرتا ہے۔
4۔انسان کے اندر پائے جانی والی خوبیاں اس کی اپنی نہیں ہوتی۔ اس کی ترویج میں اس کا خاندان اور معاشرے کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ اور چونکہ انسان کو فرد اور معاشرے کی حیثیت سے خدا نے پیدا کیا ہے اس لئے ان خوبیوں کا اصل خالق خدا ہے۔
5۔انسان میں خوبیوں کے ساتھ کمزوریاں بھی ہوتی ہیں اور جب وہ صرف اپنی خوبیوں پر نظر رکھتا ہے تو اس کی کمزوریاں اس کے نظروں میں نہیں رہتی جس کی وجہ سے وہ خود فریبی کا شکار رہتا ہے۔
اب غور کر کے بتائیں کہ خدا جب اپنی تکبیر کرواتا ہے، اپنی تعریف کا حکم دیتا ہے اور اپنی عبادت کرواتا ہے تو اوپر بیان کی ہوئی کونسی وجہ خدا پر بھی صادق آتی ہے؟
ظاہر ہے کہ خدا علیم و خبیر ہے اور تمام مخلوقات کا خالق۔ ہر قابل تعریف چیز کا خالق خدا ہے۔ تو پھر خدا ہی تعریف کا حقیقی مستحق ہوا۔ خدا کے ناموں میں سے ایک المتکبر ہے۔ تکبر مخلوق کے لئے بالکل سزاوار نہیں، لیکن یہ حق ہے کہ خدا سب سے بڑا ہے اور حق ہے کہ ہم خالق کائنات کی بڑائی بیان کریں۔انسانوں کے اندر خود ستائشی اور تکبر کے برے ہونے کے احساس کی بنیاد یہی ہے کہ ہم اسے خدا کا حق سمجھتے ہیں اور اس لئے جب کوئی انسان اس طرح کا طرز عمل اختیار کرتا ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ خدا بننے کی کوشش کر رہا ہے۔اب اسی چیز کی بنیاد پر خدا کی تعریف، ستائش اور تکبیر پر اعتراض کرنا خود ایک بہت بڑا تضاد ہے۔ جب خدا خود خدا ہے تو وہی خدا ہوا۔
ایک بھائی نے کہا کہ ایک روایت کے مطابق بندہ جب خدا سے دعا کرتا ہے تو خدا خوش ہوتا ہے۔ معلوم ہوا خدا ایک متکبر بادشاہ کی طرح ہے کہ جب لوگ اس کے سامنے بھکاریوں کی طرح گڑگڑائیں تو بادشاہ خوش ہوتا ہے۔ عرض کی کہ اگر معاملہ اسی نوعیت کا ہے تو یہ خدا ہی کو شیوہ دیتا ہے کیونکہ کبر اس کو زیب دیتا ہے، بندے کی بھلا کیا اوقات کے اپنے جیسے دوسرے بندوں سے بھیک منگوا کر خوش ہو؟ پس جو چیز بندوں کے لئے معیوب ہے لازم نہیں خدا کے لئے بھی معیوب ہو۔دوسری بات یہ کہ خدا سے مانگنے پر خدا کے خوش ہونے میں محبت کا پہلو بھی شامل ہے۔ میری بیگم جب مجھ سے کچھ فرمائش کرتی ہے تو واللہ مجھے اس کی یہ ادا سب سے زیادہ بھلی معلوم ہوتی ہے۔ “کسی کو اپنا سمجھ کر اس سے مانگنے” میں محبت کا جو اظہار اور لطف ہے اس سے صرف محب ہی واقف ہوسکتا ہے۔ ایک اور روایت کے مطابق خدا اپنے بندوں سے ایک ماں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے۔(زاہد مغل )
اب آتے ہیں اس پہلو پر کہ خدا کو اس سے کیا ملتا ہے۔
ایک بہت ہی اصولی بات ذہن میں رکھنا چاہئے، ہم خدا کو اس کی صفات سے پہچانتے ہیں۔ خدا کی معرفت اس کے صفات کی معرفت ہے۔ کسی کی صفت کے بارے میں یہ پوچھنا کہ وہ ایسا کیوں ہے ایک غیر منطقی بات ہے۔ خدا نے جس طرح سے اپنا تعارف کرایا وہ ایک حتمی، بدیہی اور ابدی حقیقت ہے۔ اس کے لئے “کیوں” کوئی معنی نہیں رکھتا۔ خدا کا تعارف ہی یہ ہے کہ وہ ہر چیز کا خالق ہے، اپنی پوری مخلوقات کا مالک ہے، ہر ایک سے بزرگ تر ہے اور اسی لئے تمام تعریفوں کا مستحق ہے۔جب کوئی عدد “دو” کا تعارف اس طرح سے کراتا ہے کہ جب ایک عدد میں ایک اور کا اضافہ ہوجائے تو اسے دو کہتے ہیں تو اس کے لئے “کیوں” کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ لغوی اعتبار سے دو کا تعارف یہی چیز ہے۔یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی پوچھے کی “خدا” کیوں ہے۔ خدا ہے یا نہیں اس پر تو منطقی بحث ہوسکتی ہے، خدا کیسا ہے اس پر مذہبی بحث ہوسکتی ہے۔ خدا کیوں ہے، یہ کوئی بحث کا نکتہ نہیں ہے۔ اور اگر کوئی مصر ہے کہ اس پر بحث ہونی ہی چاہئے تو جو چاہے کرے۔ لیکن اس کا جواب نہ مذہب کے ذمہ ہے اور نہ منطق کے۔اسی طرح سے یہ سوال پوچھنا کہ خدا ایسا کیوں ہے اور ویسا کیوں نہیں ہے ایسے ہی سوال کے ضمن میں آتا ہے۔اس طرح کا سوال پوچھنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی پوچھے، خدا بے رحم کیوں نہیں ہے؟ خدا سچ کو کیوں پسند کرتا ہے جھوٹ کو کیوں پسند نہیں کرتا، خدا ظلم کے خلاف کیوں ہے؟ خدا خالق کیوں ہے؟
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی صفات کے لیے “کیوں” پوچھنا ایسا ہی ہے جیسے خدا کے وجود کے لئے “کیوں” کا پوچھنا۔ اس سوال کا جواب ہمارے پاس نہیں ہے اور اس سوال کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ اس کا جواب ہو ہی نہیں سکتا۔ بالکل اسی طرح جیسے عدد “دو” کے تعارف کے لئے “کیوں” نہیں ہوسکتا۔
خدا کی ایک صفت معبود ہے۔ خدا کا حمید ہونا، خدا کا المتکبر ہونا، خدا کا البر ہونا اس کی صفات ہیں۔ اس کے لئے “کیوں” نہیں ہوتا۔ صفات اظہار چاہتی ہیں۔ جب خدا نے کچھ بھی نہیں بنایا تھا تو بھی خدا “خالق” تھا، لیکن اس نے جب “پیدا کیا” تو اس نے اپنی اس صفت کا اظہار کیا۔ جب کوئی خدا کی عبادت نہیں کررہا تھا تو اپنی صفت کے اعتبار سے وہ “الہ” تھا لیکن جب اس کی مخلوق نے اس کی عبادت کی تو صرف اس کی عبادت کا اظہار ہوا۔
اس پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خدا اپنی صفات کے اظہار کے لئے ہمارا محتاج ہے؟جواب یہ ہے کہ ہم تو تھے ہی نہیں اور خدا نے ہمیں اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا اور عبادت کرنے کا شعور، صلاحیت اور وقت بھی سب کچھ خدا نے دی، تو جب ہمارا کچھ ہے ہی نہیں اور سب کچھ خدا کا ہی ہے تو یہاں پر خدا کی محتاجی کا سوال پیدا ہی کیسے ہوتا ہے؟
خدا نے پوری کائنات بنائی اور کائنات کا ذرہ ذرہ خدا کے حکم سے چل رہا ہے۔ تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا اپنی حاکمیت کے لئے کائنات کا محتاج ہے؟ حالانکہ یہ پوری کائنات اپنے وجود کے لئے خدا کی محتاج ہے۔اس طرح کا سوال پوچھنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ، چونکہ خدا نے اپنی صفت خلاقیت کے اظہار کے لئے کائنات، فرشتے، انسان، اور دوسری مخلوقات کو پیدا کیا اس لئے خدا اپنی صفت خلاقیت کے اظہار کے لئے اپنی مخلوق کا محتاج ہے۔
خدا کے لئے انسانی مثالیں دینا مشکل ہے۔ پھر بھی ایک آسان سی مثال دیتا ہوں۔ایک پینٹر اپنی مصوری کے ذریعے اپنی تخلیقی صلاحیت کا اظہار کرتا ہے۔ کیا ہم اس بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ پینٹر اپنی صلاحیت کے لئے اس پینٹگ کا محتاج ہے؟ اس سادہ سی مثال سے کوئی یہ نتیجہ اخذ نہ کرے کہ پینٹنگ کی صلاحیت اور خدا کی صفت ایک ہی قسم کی چیز ہے۔ مقصود صرف محتاجی کی وضاحت کرنا ہے۔ مصوری کی صلاحیت ایک مصور کی اپنی نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ خدا کی صفت کی طرح لازوال ہوتی ہے۔ پھر بھی ہم مصور کو تصویر کا محتاج نہیں جانتے۔ اسی طرح اگر خدا اپنی صفت خلاقیت کے اظہار کے مخلوق پیدا کرتا ہے تو وہ اپنی مخلوق کا محتاج تو نہ ہوا بلکہ مخلوق اپنے وجود میں آنے کے لئے اس کی محتاج ہوئی۔ بالکل اسی طرح اگر خدا اپنے بندوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ اپنے شعور کو اختیار کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں اور اگر نہ کرنا چاہیں تو نہ بھی کریں تو خدا کیسے اپنی مخلوق کا محتاج ہوا؟
اللہ نے انسان کو سوچنے کی صلاحیت دی اور اس بات کا اختیار دیا کہ وہ چاہے تو خدا کی عبادت کرے اور چاہے تو نہ کرے۔ اب اس اختیار کی بنا پر انسان کیسی کیسی اڑانیں بھرتا ہے اور وہ بھی اسی خدا کی عطا کی ہوئی صلاحیت کو استعمال کر کے؟
أَوَلَمْ يَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ
کیا انسان دیکھتا نہیں ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا اور پھر وہ صریح جھگڑا لو بن کر کھڑا ہو گیا ؟
سوال :اگر ھم یہ کہیں کہ اللہ عزوجل نیکیوں سے خوش ہوتا ھے ۔ گناہوں سے ناراض ۔ دعا سے آمادہ بر عطا ہوتا ہے ۔ فلاں فلان کام سے راضی ہوتا ہے ۔ تو کیا اس کا یہ مطلب نہ بن جائے گا کہ مخلوق خدا عزوجل پر اثرانداز ہوتی ہے
تبصرہ
چیزیں خدا سے متعلق ہو کر مفہوم پاتی ہیں.. مفہوم دیتی نہیں…. خدا کی ذات فعال ہے منفعل نہیں….ہماری زبان میں اس طرح کے اظہاریے استعاراتی ہیں حقیقی نہیں تاکہ اعمال کو مفہوم مل سکے
تفصیل یہ کہ اثر انداز کوئی چیز تب ہوتی جب کوئی کمی ہو علم کی سطح پر یا وجود کی سطح پر… اور خدا ہر نقص سے پاک ہے کامل ہے مکمل ہے علم اور وجود کی کوئی حیثیت اس پر اس لیے اثر انداز نہیں ہوتی….ہم اس طرح کے الفاظ اور جملے اس لیے استعمال کرتے ہیں کہ ہمارا خدا سے زندہ تعلق ہے اور ہم نا قص ہیں ہم پر چیزیں اثر انداز ہوتی اس لیے کہ ہمارا علم اور وجود منفعل ہے اور وہ فعال ہے اسے اس سے فرق نہیں پڑتا…. علمی طور پر آسان مثال اگر آپ کے علم میں کوئی چیز نہیں تو معلوم ہونے پر حیرانی ہو گی اور اس طرح وہ اثر انداز ہوگی لیکن اگر پہلے سے علم ہے تو اثر نہیں ہو گا…. اور وجودی اورحقیقی طور پر خدا اکبر ہے.. ایسا نہیں ہے کہ ہمارے اللہ اکبر کہنے سے خدا بڑا ہو جاتا ہے یا نہ کہنے سے چھوٹا ہو جاتا ہے… ہمارے کہنے نہ کہنے سے اس کی بڑای پر کوئی فرق نہیں پڑتا
تحریر ذیشان وڑائچ، عثمان رمضی