‘توحید’ کے عقلی دلائل – سورۃ الفاتحہ کی روشنی میں
۱۔ دلیلِ کبریائی:
اگر خدا ایک سے زائد ہیں تو لازماً یہ سوال پیدا ہوگا کہ وہ طاقت وقوت، اقتدار تصرف اور تدبیر وانتظام کے لحاظ سے چھوٹے بڑے ہیں یا سب کا درجہ برابر ہے؟ اگر وہ چھوٹے بڑے ہیں تو خالق کائنات کے لئے چھوٹا ہونا عیب ہے، کمال نہیں اور عقل سلیم کا کسی دلیل کا تقاضا کئے بغیر بدیہی فیصلہ یہ ہے کہ خدا کو ہر عیب سے پاک ہونا چاہئے اور ہرکمال کا اسے مالک ہونا چاہئے۔ اگر ایک سے زائدیہ مفروضہ خدا درجے میں برابر ہیں تو برابری بھی عیب ہے، کیوں کہ اس صورت میں ایک خدا دوسرے کو مغلوب نہیں کرسکتا۔ دوسرے کو مغلوب نہ کرسکتا عاجزی اور بے بسی ہے، کمال نہیں۔ بالفرض ان مفروضہ خداؤں میں باہم تصادم نہ بھی ہو تو بھی یہی سمجھا جائے گا کہ انہوں نے ایک دوسرے کو مجبوراًبرداشت کرکے ایک دوسرے پر غالب نہ آسکنے کی اپنی کم زوری کو چھپالیاہے۔ عیب چھپالیا جائے یا چھپا رہے تو بھی بہ رحال عیب ہی رہے گا، کمال میں نہیں بدل جائے گا۔ پس خدا ایک ہے جس کی شان یہ ہے الحمدللہ رب العالمین کہ اللہ ہی تمام کمالات اور تعریفوں کا مالک ہے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔
۲۔ دلیل حفظِ اسرار:
حفظِ اسرار سے مراد رازوں اور بھیدوں کی حفاظت ہے کہ دوسرے ان پر مطلع نہ ہوں۔ اگر خدا ایک سے زائد ہیں تو وہ اپنے اسرار اور بھیدوں کو ایک دوسرے سے مخفی رکھ سکتے ہوں گے یانہیں۔ اگر مخفی رکھ سکتے ہیں تو جن مفروضہ خداؤں سے یہ اسرار مخفی رہے وہ جاہل ہوئے۔ جہل اور لاعلمی خدا کے لئے عیب ہے لہٰذا یہ خدائی سے نکل گئے اور اگر مخفی نہیں رکھ سکتے تو مخفی نہ رکھ سکنے والے مفروضہ خدا عاجز وبے بس ہوئے۔ عاجزی اور بے بسی بھی خدا کے لئے عیب ہے۔ پس خدا ایک ہی جو تمام کمالات کا مالک ہے اور جس کی شان یہ ہے ولایحیطون بشئی من علمہ الا بما شاء (البقرہ ۲۵۵) ’’اور وہ (لوگ) اس کے علم میں سے کسی چیز کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے مگر یہ کہ وہ جو (خودبتانا) چاہے‘‘۔
۳۔ دلیل تدبیر وانتظام:
اگر خدا ایک سے زائد ہیں تو کائنات کانظم ونسق چلانے اور سنبھالنے میں ایک دوسرے کے محتاج ہوں گے یا نہیں۔ اگر محتاج ہیں تو ان میں سے کوئی بھی خدا نہیں ہوسکتا، کیوں کہ محتاج ہونا خالق کے لئے عیب ہے۔ اگر وہ ایک دوسرے کے محتاج نہیں بل کہ سب اپنی اپنی جگہ پر مختار ہیں تو ایک کے سوا باقی خداؤں کا وجود سرے سے فالتو اور غیر ضروری ہوگا، جس کی مخلوق کو ضرورت نہ ہو وہ خدا نہیں ہوسکتا۔ خدا بے نیاز اور باقی سب اس کے محتاج ہیں عقل سلیم کے اس فطری فیصلے کے عین مطابق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے یایھا الناس انتم الفقرآء الی اللہ واللہ ھوالغنی الحمید(فاطر ۱۵) ’’اے لوگو! تم سب اللہ کے محتاج ہو اور اللہ ہی بے پرواہ (اور) تعریف کے لائق ہے۔ ‘‘ نیز مختارِ کُل عقلاً ایک ہی ہوسکتا ہے۔ اگر مفروضہ متعدد خدا اپنی اپنی جگہ پر مختارِ کُل ہیں تو اگر وہ ایک دوسرے کے برابر ہیں، توبرابری عیب ہے، مختارِ کُل اگر عیب کا ازالہ نہ کرسکے تو وہ عاجز ہوا۔ عاجزی اور اختیارِ کلی ایک دوسرے کے منافی ہیں اگر یہ مفروضہ مختارانِ کُل (خدا) بڑے چھوٹے ہیں تو چھوٹا ہونا بھی عیب ہے، جو مختارِ کُل ہوگا وہ ابتدا ہی سے عیب کو اپنے سے دور رکھے گا ورنہ وہ عاجز وبے بس سمجھا جائے گا، عاجزی و بے بسی خدا کے لئے عیب ہے، کمال نہیں حال آں کہ الحمد للہ رب العالمین، اللہ تمام کمالات کا مالک ہے، جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔
۴۔ دلیل وصفِ امتیازی:
اگر خدا ایک سے زائد ہیں، مثلاً الف، ب اور ج تین خدا ہیں تو ان سب میں کم از کم ایک امتیازی وصف ایسا ضرور ہوگا جس سے وہ ایک دوسرے سے ممتاز ہوسکیں اور مخلوق کے لئے ان کی شناخت ممکن ہو۔ اب اگر یہ امتیازی وصف کمال والا ہے تو یہ ماننا پڑے گا کہ ان تینوں میں کم از کم ایک وصفِ کمال کی کمی ہے حال آں کہ خدا کو تو تمام کمالات کا مالک ہونا چاہئے اور اگریہ امتیازی وصف نقص والا ہے، مثلاً ایک نابینا ، دوسرا بہرہ، اور تیسرا گونگا ہے تو اس صورت میں بھی تینوں میں سے کوئی بھی خدا نہیں ہوسکتا، کیوں کہ خدا کو ہرنقص سے پاک ہونا چاہئے، پس خدا ایک ہی ہے جو تمام کمالات کا مالک ہے الحمدللہ رب العالمین ، تمام کمالات اللہ ہی کے لئے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔
۵۔ بُرہانِ تمانع:
اگر خدا ایک سے زائد ہیں تو وہ ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کرسکتے ہوں گے یا نہیں۔ اگر ایک خدادوسرے (مفروضہ) خدا کے کام میں مداخلت کرے اور دوسرا اسے روک نہ سکے تو دوسرا خدا عاجز ہوا۔ اگر پہلا (مفروضہ) خدا دوسرے کے کام میں دخل دینے کی سکت ہی نہ رکھتا ہو تو پہلا خدا عاجز ہوا، حال آں کہ خدا کو ہرعیب سے پاک ہونا چاہئے۔ قبل ازیں دلیل کبریائی میں یہ مذکور ہوچکا ہے کہ اگر برابر مدارج اور مراتب کے مفروضہ خداؤں میں تصادم نہ بھی ہو تو بھی برابر درجے والے یہ خدا دراصل خدا ہیں ہی نہیں۔ لیکن یہ تصادم اور ٹکراؤ ناگزیر ہے کیوں کہ خدا کو تمام صفات و کمالات کا مالک ہونے کی حیثیت سے تکبرّ (برائی) (جتانے) کا حق بھی ہوگا چناں چہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں ’’متکبرّ‘‘ بھی شامل ہے۔ ایک سے زائد ایک ہی مرتبے کے متعدد متکبر موجود ہوں تو ان میں تصادم کا نہ ہونا عقلاً محال ہے، چناں چہ اس تصادم کے نتیجے میں کائنات سرے سے وجود پذیر ہی نہ ہوگی، مثلاً ایک خدا زید کو پیدا کرنا چاہے اور دوسرا پیدا نہ کرنا چاہے تو برابر کے ان خداؤں کے ارادے تو جمع ہوسکتے ہیں لیکن ان کی مرادیں جمع نہیں ہوسکتیں۔ اگر دونوں زید کو زندہ کرنا یا دونوں مارنا چاہیں اور دونوں اس کے لئے ایک دوسرے کی مدد کے محتاج ہوں تو ان میں سے کوئی بھی خدا نہ ہوگا اور اگر محتاج نہ ہوں تو ان میں سے ایک کی ضرورت ہی نہیں جو غیر ضروری ہوگا اسے مخلوق کی اور مخلوق کو اس کی ضرورت نہ ہوگی حال آں کہ خدا تو وہ ہوسکتا ہے کہ سب مخلوق اس کی محتاج ہو اور وہ کسی کا محتاج نہ ہو پس خدا ایک ہی جس کی شان یہ ہے الحمدللہ رب العالمین، کہ تمام کمالات اللہ ہی کے لئے ہیں جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔
۶۔ آفاقی دلیل:
چونکہ مشاہداتی دلائل کا سمجھنا لوگوں کے لئے زیادہ آسان ہوتا ہے اس لئے کلمات ’’رب العالمین‘‘ میں ان کی طرف بھی اشارہ کردیا گیاہے۔ رب کا معنی ہے ہر چیز کوبتدریج نشوونما دے کر اسے درجۂ کمال تک پہنچانے والا۔ کائنات اس قدر وسیع وعریض ہے کہ اس کے تصور ہی سے سر چکرانے لگتا ہے۔ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہے۔ اس حساب سے ایک منٹ ، پھر ایک گھنٹے، پھر ایک دن اور بعدازاں ایک سال کی مدت میں روشنی کی رفتار کا اندازہ لگانا کس قدر تعجب خیز ہے! اس کائنات کی وسعت کی پیمائش نوری سالوں میں بھی آسان نہیں۔ سورج اور اس کے گرد گھومنے والے سیارے ایک نظام شمسی کو تشکیل دیتے ہیں۔ کئی نظام ہائے شمسی ملیں تو ایک کہکشاں (Galaxy) بنتی ہے۔ کئی کہکشاؤں سے جھرمٹ وجود پذیر ہوتا ہے یہ کائنات بے شمار جھرمٹوں کا مجموعہ ہے۔ ہمارا نظام شمسی جس جھرمٹ سے وابستہ ہے وہ بہت چھوٹا ہے اور اس میں کل چودہ کہکشائیں ہیں۔ کائنات کی اس وسعت کوسورہ فاتحہ میں دو لفظوں ’’رب العالمین‘‘ میں سمیٹ دیا گیا ہے کہ تم اس کائنات کو ایک جہاں نہ سمجھو بل کہ یہ تو کئی جہانوں کا مجموعہ ہے۔ جمع میں افراد کا محدود ومتعین ہونا ضروری نہیں لہٰذا کائنات کے خارجی مظاہر کا پورا احاطہ عقل کے بس میں نہیں، اور نہیں تو صرف زمین ہی کو لیجئے اس میں موجود موالیدِ ثلٰثہ (حیوانات، نباتات اور جمادات) اور زمین کے اندر چھپی اشیا کا احاطہ کرلینا اور انہیں ہر حیثیت سے پوری طرح سمجھ پانا ہمارے بس میں نہیں۔ جب مخلوقات کا یہ حال ہے تو خالق کی عظمت کا کیا کہنا! سارے جہانوں کو بہ تدریج نشوونما دینا اور ان کی تمام ضروریات کو پورا کرنا اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ہے۔ انسانی مشاہدہ اور تجربہ بتارہاہے کہ اس ربوبیت میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں وہی رب العالمین ہے۔
اللہ کی پیدا کی ہوئی اس کائنات اور اس میں موجود جان دار اور بے جان اشیا پر اللہ تعالیٰ کا جو نظام ربوبیت جاری ہے اس کا احاطہ کرنا تو دور کی بات ہے، انسان صرف ایک لقمے پر ہی غور کرے جو وہ اپنے منہ میں ڈالتا ہے تو اس کے پیچھے لاتعداد اسباب ومُسبّبات کا سلسلہ کار فرمانظر آئے گا۔ اس وسیع اور محیر العقول نظام ربوبیت کو دو لفظوں ’’رب العالمین‘‘ میں سمیٹ کر واضح کردیا گیا کہ جب اللہ تعالی ہی رب العالمین ہے تو اس کی ذات وصفات میں شرک کی کوئی گنجائش نہیں۔ سورہ فاتحہ کے بعد باقی سارا قرآن اس ہی سورت کی توضیح وتشریح ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نظام ربوبیت پر دلالت کرنے والے آفاقی مظاہرِ فطرت کی طرف قرآن کریم میں بارہا توجہ دلائی گئی ہے، مثلاً سورہ بقرہ میں ہے کہ بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں اور کشتیوں کے لوگوں کو نفع دینے والی چیزوں (سامان تجارت وغیرہ) کو لئے ہوئے سمندروں میں چلنے میں اور جو اللہ نے آسمان سے (بارش کا) پانی اتارا ہے اس کے ذریعے مردہ (بنجر) زمین کو زندہ (تروتازہ اور شاداب) کردینے میں اور آسمان اور زمین کے درمیان مسخر بادل میں عقل مندوں کے لئے (اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور وحدانیت کی) نشانیاں موجود ہیں۔ (البقرہ ۱۶۴) ان مظاہر فطرت پر غور کیجئے کہ اگر خدا ایک سے زائد ہیں اور یہ فرض کرلیاجائے کہ کائنات کی تخلیق کے موقع پر ان میں کوئی تصادم نہیں ہوا تھا تو یقیناًہر ایک کی مخلوق الگ الگ ہوگی اور خدا چوں کہ متکبر بھی ہیں لہٰذا زود یابدیر ان میں تصادم ناگزیرہے، چناں چہ اس کو (مثلاً) سورۂ مومنون میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ نے اپنے لئے کوئی اولاد اختیار نہیں کی اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ورنہ ہر معبود (خدا) اپنی اپنی مخلوق کو الگ الگ لئے پھرتا اور ہر ایک دوسرے پرچڑھائی کردیتا۔ یہ (مشرکین اللہ کے متعلق) جو کچھ بتاتے ہیں وہ اس سے پاک ہے (المومنون ۹۱) اور مثلاً سورۂ انبیاء میں ہے کہ اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا اور معبود بھی ہوتے تو یہ دونوں (آسمان وزمین) درہم برہم ہوجاتے پس اللہ عرش کا رب ہر اس چیز (عیب اور نقص) سے پاک ہے جو یہ (مشرکین اس کے متعلق) بیان کررہے ہیں۔ (اس کی خودمختاری کا تویہ حال ہے کہ ) وہ اپنے کاموں کے لئے (کسی کے آگے) جواب دہ نہیں ہے اور وہ (سب کے سب اس کے آگے) جواب دہ ہیں۔ (الانبیاء ۲۳)
اب دیکھئے کائنات ایک خارجی حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ یہ خارجی کائنات ایک ہی ہے اور اس کے تکوینی قوانین باہم مربوط ہیں۔ کائنات اضداد کے باوجود رواں دواں ہے اور اس کے انتظام میں کوئی خلل نہیں، مثلاً اجرام فلکی ایک دوسرے کو کھینچتے ہیں لیکن اس کشش میں ایسا توازن ہے کہ وہ ایک دوسرے کو دھکیلتے بھی ہیں یعنی ان میں قوتِ جذب بھی ہے اور قوت طرد بھی ہے۔ ان دونوں متضاد قوتوں میں ایسا توازن ہے کہ یہ نہ تو آپس میں ٹکراتے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے سے دور جا نکلتے ہیں۔ اس وسیع کائنات میں حسن ہے۔ قوانین فطرت لگے بندھے ہیں جس کی وجہ سے کائنات میں نظم وترتیب ہے۔ اگر برابر کے اختیارات والے کئی منتظم ہوں تو لازماً بدنظمی اور بدترتیبی پیدا ہوگی اس لئے اگر خدا ایک سے زائد ہوتے اور بالفرض تخلیق کائنات کے موقع پر ان میں اختلاف نہ بھی پیدا ہوا ہوتا تو بھی بعد کے مراحل میں کائنات کا حسن اور باہم مربوط ہونا تو ایک طرف رہا یہ تباہ اور خستہ حال ہوتی۔ قوانین فطرت میں نہ باہم موافقت ہوتی اور نہ ہی یہ قوانین ایک ہی بالائی قوت کے سامنے مسخر نظر آتے۔ سورۂ ملک میں ہے کہ تو رحمن (اللہ تعالیٰ) کی تخلیق میں کوئی بے ضابطگی نہیں پائے گا تو دوبارہ نظر ڈال کر دیکھ لے کیا تجھے کوئی شگاف نظرآرہاہے؟ پھر دہرا کر دو دو بار نظر ڈالے، تیری آنکھ تیری طرف ذلیل (عاجز) ہوکرتھکی ہوئی لوٹ آئے گی (الملک ۳۔ ۴) اور مثلاً سورۂ یٰس میں ہے کہ سورج کے لئے یہ روا نہیں کہ وہ چاند کو جاپکڑے اور نہ ہی رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے اور یہ سب (اجرام سماوی) فلک میں تیر رہے ہیں۔ (یسین ۴۰) پس یہ مشاہداتی اور آفاقی دلائل بھی ثابت کررہے ہیں کہ اللہ ایک ہی ہے۔