وجود باری تعالی پر بحث کے دوران وہ لمحہ آتا ہے جب ملحد یہ سوال کرتا ہے: “اچھا چلو ہم خدا کو مان لیتے ہیں، اب بتاؤ کونسے خدا کو مانیں، مسلمانوں کے، عیسائیوں کے یا پھر ھندووں کے؟ ان میں سے ہر کوئی اپنے مذہب کو سچ کہتا ہے”ان کا یہ سوال “کیوں” کے بعد ہے، یعنی اگر انہیں اس پر راضی کرلیا جائے کہ خدا کو ماننا لازم ہے تب وہ یہ سوال کھڑا کرتے ہیں۔ان کا اس سوال کو کھڑا کرنے کا مقصد دراصل یہ ہوتا ہے کہ چلو اگر خدا کو ماننا لازم ہے تو وہ کونسا خدا ہے جسے مانیں، اور انکی امید یہ ہوتی ہے کہ اب یہ مذھبی لوگ آپس میں ایک دوسرے کا رد کرکے خود ہی کیوں کو مشکوک بنا دیں گے۔
اس سوال کو دیکھنے کے متعدد زاویے ہوسکتے ہیں، ایک الزامی اور دوسرا اصولی۔ الزامی (یعنی “منہ بند کراؤ”) پہلو سے گفتگو کرنا یہاں مقصود نہیں، فی الوقت دوسرے پہلو پر کچھ کہنا ہے۔
اس سلسلے میں پہلے اس سوال کا جواب دینا ہوتا ہے کہ اتنے خدا کیسے وجود میں آگئے ۔مختصر جواب یہ ہے کہ خدانے اپنی طرف بلانے کے لیے الگ الگ زمانوں میں انبیاء ورسل بھیجے۔ان انبیاء و رسل کی تعلیمات وتصورخداامتدادزمانہ سے آلودہ ہوتاگیا ، پھر اس بگاڑ کو دور کرنے کے لیے نئے نبی اور رسول بھیجے جاتے رہے، محمدﷺ اسی سلسلے کی آخری کڑی ہیں ۔ چنانچہ خدا ایک ہی ہے مسئلہ وقت کیساتھ تصور خدا میں در آنے والے بگاڑ اور تحریف و تبدل کا ہے ۔اس کو جانچنے کا ایک طریقہ تو ہے کہ ہر مذہب کی تعلیمات کی سچائی وسند کو پرکھا جائےکہ کونسی اپنی اصل حالت میں موجود ہے ۔ اس کے لیے وقت و ذوق تحقیق چاہیے، دوسرا طریقہ آسان ہے ۔ وہ یہ ہے کہ پہلے یہ دیکھیں کہ خدا کے بغیر کائنات اور انسان کے مختلف پہلووں کی توجیہہ کیوں نہیں ہوسکتی ۔؟ جب یہ واضح ہوجاے تو یقیناً خدا کو ان صفات کیساتھ ہی ماننا پڑے گا جو ان توجیہات کا جواب دیتی ہوں ۔ مثلا خالق ، مثلا رحمن ، مثلا رحیم ، الاحد، الواحد، اسی طرح البدیع، الفاطر، الرب، المصور، الباری ، الروف وغیرہ وغیرہ۔ ورنہ ہم ان صفات کی ضرورت کو کائنات اور انسان میں سے بتا کر معترض سے پوچھیں گے کہ اس فعل کا فاعل کون ہے ؟
چنانچہ جب وجہ مان لی کہ خدا کا ماننا اس وجہ سے لازم ہے تو خدا کی صفات اس وجہ کے بعد خود سامنے آجاتی ہیں۔ مثلاً خدا کو ماننا اس لیے لازم ہے کہ مجھے ہر دم اس کی ضرورت ہے۔ تو اب ایسا خدا جو ایک مخلوق کی طرح ہی ہو ،میری نہ سنے، یا سننے کے بعد میری مدد پر قادر نہ ہو، میری ضرورت کیسے پورا کرےگا؟ اس طرح اس مذہب کا تصور خدا درست ہوگا جو توحید پر قائم ہے کیونکہ کائنات کی ساخت بتاتی ہے کہ یہ سب ایک ہی منصوبے کا حصہ ہے. اس کی ایک ہی ماخذ سے تدبیر ہو رہی ہے۔ وہ جو الحکیم و العلیم ہے کائنات کی مسلسل نگرانی اور تدبیر کر رہا ہےکیونکہ ہم جانتے ہیں کہ کائنات ہر لمحہ وقوع ہو رہی ہے. جو میتھمیٹکس کی انتہا پر قائم ہے، کیونکہ ہمارے آس پاس ہر چیز نہایت نپے تلے پیمانے پر ہورہی ہے. … مختصراً کائنات کی جس جس آیت /نشانی سے متاثر ہو کر خدا کے وجود کا اقرار کیا جاتاہے ان تمام صفات کے حامل خدا کا تصور جونسا مذہب پیش کرتا ہے اسکو مانا جائے گا۔یہ تصور دین اسلام ہی میں خالص حالت میں موجود ہے۔ یہ خدا کے وجود کے اقرار کے بعد تصور خدا کی درستگی کو جانچنے کا ایک عقلی نقطہ ہے ۔
خدا کی واحدانیت
خدا کی وحدانیت کا ثبوت فراہم کرنے کا ایک سادہ سا طریقہ تو یہ ہے کہ وحی (الہامی کتب) کی طرف رجوع کیا جائے۔اس آرگومنٹ کی بنیاد یہ ہے کہ اگر خدا نے خود کو انسانیت سے متعارف کروایا ہے، اور وحی کے متعلق یہ ثابت ہو جائے کہ خدا کی طرف سے آئی ہےتو جو بھی وہ اپنے بارے میں کہتا ہے وہ بھی درست ہو گا۔ تاہم، ایک باریک بین اس دلیل میں استعمال شدہ کچھ مفروضات پر سوال اُٹھا سکتا ہے۔ ان مفروضات میں خدا کا خود کو انسانیت سے متعارف کروانا اور اور وحی کا کتاب کی صورت میں ہونا شامل ہے۔
آئیے پہلے آخری مفروضے کا سامنا کرتے ہیں۔ اگر خدا نے خود کو انسانیت سے متعارف کروایا ہے تو اس کی جانچنے کے دو طریقے ہیں: اندرونی اور بیرونی۔ اندرونی سے میری مراد یہ ہے کہ آپ خدا کو صرف اپنے دل کی آواز سے اور اپنی ذات کے ادراک سے پہچان سکتے ہیں، اور بیرونی سے میری مراد یہ ہے کہ آپ خدا کو اپنی ذات کے علاوہ کسی دوسرے ذریعے سے ہونے والے رابطے سے بھی پہچان سکتے ہیں، بہ الفاظ دیگر حقیقی دنیا میں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ خدا کو اندرونی ذرائع سے تلاش کرنا درج ذیل وجوہات کی وجہ سے معقول نہیں:
1۔ ہر انسان مختلف ہے؛ ماہرین نفسیات اس چیز کو انفرادی فرق بھی کہتے ہیں۔ ان میں ڈی این اے، تجربات، معاشرتی پس منظر، ذہنی اور جذباتی اہلیت، جنسی فرق، اور دوسرے کئی محرکات شامل ہیں۔ یہ فرق ہمارے دل کی آواز اور ذات کے ادراک کی اہلیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسی لیے سوچنے کے عمل کے نتائج مختلف نکلتے ہیں۔ اگر ان تمام عوامل کو صرف اور صرف خدا کی تلاش میں استعمال کیا جاتا، تو نتیجتاً خدا کے حوالے سے ہمارے تصور میں اختلافات ابھر سکتے ہیں۔ یہ تاریخی نقطہ نظر سے بھی درست ہے۔ 6000 سال پہلے قبل مسیح کی قدیم دنیا سے آج تک، خدا کے تقریباً 3700 مختلف تصورات اور نام ہیں۔
2۔ تو جب خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے عام فہم طریقہ استعمال کیا گیا ہے، یا جسے فلسفی عقلمندانہ سوچ کہتے ہیں یا جسے مسلمان علماء دل کی آواز کہتے ہیں، تو ایسے میں اُس کی ذات کی تصدیق کی بجائے اگر یہ تلاش کیا جائے کہ خدا کون ہے تو یہ غلط ہو گا۔دلائل کی بنیاد پر کسی چیز کو ثابت کرنے کی ہماری صلاحیت محدود ہے۔ مجرد سوچ اور ماہیاتی دنیا پر سوچ بچار ہمیں اس نیتجے پر لے جاتی ہے کہ کوئی ہے جس نے یہ سب تخلیق کیا، اور وہ طاقتور ہے، اور علم رکھتا ہے وغیرہ۔ ان نتائج سے آگے سوچنا قیاس آرائی کے مترادف ہو گا۔ قرآن بجا طور پر پوچھتا ہے، کیا تم خدا کے بارے میں وہ کہتے ہو جو تم نہیں جانتے؟<قرآن: باب 7، آیت 28>undefined ذاتی تجزیے اور اپنی ذات کے ادراک سے خدا کو تلاش کرنا ایسا ہے جیسے کوئی چوہا کسی کہکشاں کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اس لیے انسان یہ نہیں سمجھ سکتا کہ خدا کیا ہے۔ خدا ایسا بیرونی وحی کی صورت میں بتا سکتا ہے۔
مندرجہ ذیل مثال پر غور کریں۔ آپ کا یہ علم کہ خدا کا وجود ہے ایسا ہے جیسے دروازے پر دی گئی دستک؛ آپ بجا طور پر یہ فرض کر سکتے ہیں کہ دروازے کی دوسری طرف کوئی موجود ہے ، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ کون؟ کسی کی آمد متوقع نہیں تھی، اس لیے یہ جاننے کا واحد ذریعہ کہ دروازے کی دوسری طرف کون ہے صرف یہ ہے کہ وہ شخص آپ کو خود بتائے جو دوسری طرف موجود ہے۔ اس لیے آپ اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ اگر خدا نے کچھ کہا ہے یا کسی بات کا اعلان کیا ہے، تو یہ انسان کو بیرونی ذریعے سے ہی پتا چلے گا۔ اس کے علاوہ کچھ بھی قیاس آرائی کے زمرے میں آئے گا۔
اسلامی نقطہ نظر کے مطابق یہ بیرونی رابطہ قرآن ہے، کیونکہ یہ وہ واحد تحریری دستاویز ہے جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ یہ خدا کی طرف سے آئی ہےاور الہامی دستاویز کے معیار پر پوار اترتی ہے۔ اس معیار میں شامل ہے:
1۔ اسے دلیل اور دل کی آواز کے ساتھ مطابقت ہونی چاہیے۔ مثال کے طور پر، اگر ایک کتاب کہتی ہے کہ خدا ایک ہاتھی ہے جس کی 40 ٹانگیں ہیں، تو آپ بجا طور پر یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ یہ کتاب خدا کی طرف سے نہیں بھیجی گئی، کیونکہ خدا کا تصور ہی یہی ہے کہ وہ اس دنیا سے ماورا ہے اور خودمختار ہے۔ ایک ہاتھی، قطع نظر اپنی ہئیت کے ایک مجبور ذات ہے۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ اس کی محدود جسمانی خصوصیات ہیں، جیسا کہ جسامت، شکل اور رنگ۔ ہر چیز جس کی محدود جسمانی خصوصیات ہوں مجبور ہوتی ہے کیونکہ ایسی بیرونی وجوہات ہوتی ہیں جو اس کی حدود بناتی ہیں۔ خدا اجسامی نہیں ہے اور خود مختار ہے۔ اس لیے ، کوئی بھی چیز جس کی محدود جسمانی خصوصیات ہوں خدا نہیں ہو سکتی۔
2۔ اسے اندرونی اور بیرونی طور پر یکسا ہونا چاہیے۔ بہ الفاظ دیگر، صفحہ نمبر 20 پر یہ کہا گیا ہے کہ خدا ایک ہے اور پھر صفحہ نمبر 340 پر کہا گیا ہے کہ خدا تین ہیں، یہ ایک اندرونی، ناقابلِ اصلاح تضاد ہے۔ مزید بر آں، اگر ایک کتاب کہتی ہے کہ یہ دنیا صرف 6000 سال پرانی ہے تو یہ ایک بیرونی تضاد ہو گا کیونکہ ہم یہ بات حقیقت کے طور پر جانتے ہیں کہ دنیا اس سے کہیں پرانی ہے۔
3۔ اسے انسانی اور عقلی نقطہ نظر سے ماورا ہونا چاہیے۔ وحی میں یہ اشارہ ہونا چاہیے کہ کہ یہ ربانی ہے اور یہ قدرتی طور پر تسلی بخش انداز میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ سادہ الفاظ میں، اس میں یہ ثبوت ہونا چاہیے کہ یہ خدا کی طرف سے ہے۔
قرآن میں یہ ثبوت موجود ہیں کہ یہ ایک ربانی دستاویز ہے۔ قوانینِ فطرت کے مطابق اس کی وضاحت نہیں کی جا سکتی؛ اس لیے مافوق الفطرت وضاحتیں ہی بہترین وضاحتیں ہیں۔ ایسے کچھ ثبوتوں میں شامل ہیں:
1۔ قرآن کی لغاتی اور ادبی طور پر نقل ممکن نہیں؛
2۔ قرآن میں بیان کردی کچھ تاریخی واقعات بہ وقتِ وحی انسانی علم کی دسترس میں نہیں تھے؛
3۔ اسکی منفرد ترتیب اور تدوین۔
خلاصہ یہ کہ چونکہ خدا کو جاننے کا واحد ذریعہ بیرونی ہے اور وہ وحی ہے۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ وحی اصلی حالت میں صرف قرآن کی شکل میں ہی موجود ہے ۔ قرآن خدا کی صفات و وحدانیت کے بارے میں واضح انداز میں بات کرتا ہے۔ دنیا کے عام مذاہب نے غالباً غیر ضروری سمجھ کر ان سوالات کو نہیں چھیڑا یا چھیڑا بھی تو اس کے مختلف پہلوؤں کو اتنا روشن نہیں کیا گیا جس کے وہ مستحق تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے مختلف زمانوں میں بجائے وحی و نبوت کے عقل و حواس ہی کی اس روشنی میں ان سوالات کو حل کرنا چاہا جو ہمیشہ ’’عالمِ غیب‘‘ میں جاکر گل ہوجاتی ہے، نظیروں اور مثالوں کی غلط رہنمائی نے مختلف غلطیوں کے خندقوں میں لوگوں کو گرادیا، مگر قرآن مجید جو غیبی حقائق کی تشریح کی آخری روشنی ہے، اس نے وضاحت کے ساتھ ان سوالات کو اُٹھایا اور وہ جوابات دئے ہیں جنہیں فطرت و عقل بے چینی کے ساتھ ڈھونڈھتی تھی، اس سلسلہ میں جو کچھ کہا جائے گا ممکن ہے کہ ڈھونڈھنے سے دوسرا مذاہب کی الہامی یاد داشتوں میں بھی اس کے تعلق کچھ تسلی مِل سکے، لیکن جہاں تک میری جستجو کا تعلق ہے قرآن کریم کا بیان اس باب میں جتنا روشن ہے یقیناً یہ روشنی کسی دوسری جگہ میسر نہیں آسکتی۔
استفادہ تحریر :حمزہ اینڈرئیس کی انگلش کتاب ” دی ڈیوائن رئیلیٹی: گاڈ، اسلام اینڈ دی میرج آف ایتھی ازم”