یہ تحریر مشہور مفکر ڈاکٹر سیّد حسین نصر کی کتاب Islam and the Plight of Modern Man کے آخری اور اہم ترین باب سے لی گئی ہے جس میں مصنف نے نہ صرف کتاب کے تمام مباحث کو سمیٹ کر ایک جائزہ مرتب کیا ہے بلکہ فکری سطح پر عالمِ اسلام کو مغرب کی طرف سے جن مسائل اور خطرات کا سامنا ہورہا ہے یا ہوسکتا ہے ان سب کو نقد و تجزیہ اسلام کی فکری میراث کی روشنی میں کرنے کے ساتھ ساتھ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے رہنما اُصول بھی فراہم کیے ہیں۔ اسکا ترجمہ ڈاکٹر سہیل عمر نے ڈاکٹر تحسین فراقی کے ساتھ مل کر کیا اور اسکو اپنی کتاب ‘حرف بہ حرف’ میں شائع کیا ۔(ایڈمن)
مسلم دنیا اور جدید فکری و تہذیبی چیلنجز:
آج کی صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ اگر کوئی شخص مغرب کی جانب سے اسلام کو دیے گئے چیلنجوں پر اور عمومی طور پر تہذیب جدید پر گفتگو کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے کام کا آغاز شمشیرِ فرقان کو ہاتھ میں لے کر ایک طرح کی فکری بت شکنی سے کرنا ہوگا اور ان تمام بتوں سے زمین کو پاک کرنا ہوگا جنھوں نے معاصر منظرنامے کو گدلا دیا ہے۔جدید تہذیب، مغرب میں ہو یا مشرق میں اس کے طغیان کی صورت میں، اس بات پر نازاں ہے کہ اس سے تنقیدی ذہن اور معروضی تنقید کی قوت کا ارتقا ہوا ہے حالانکہ بنیادی طور پر یہ معلوم تہذیبوں میں سب سے کم تنقید مائل تہذیب ہے۔ یہ ایک ایسی تہذیب ہے جو سچے شعورِ امتیاز سے کوسوں ہٹی ہوئی ہے کیونکہ اس کے پاس وہ معروضی پیمانے نہیں ہیں جن سے یہ اپنی سرگرمیوں کا محاکمہ کر سکے۔ یہ ایک ایسی تہذیب ہے جو بنیادی اصلاح کی ہر سعی میں ناکام ہے کیونکہ یہ اپنی ہی اصلاح سے کام کا آغاز نہیں کر سکتی۔
ایک روایتی اسلامی ضرب المثل ہے کہ شیطان تیز دھار سے متنفر ہے۔ اس قدیم مقولے میں ایک گہری صداقت پوشیدہ ہے جو آج کی صورت حال پر براہ راست منطبق ہوتی ہے۔ چونکہ شیطان ہر جگہ موجود ہے سو وہ ہر جگہ تیکھے کناروں اور نوک کو کند کرکے، جن تک اس کی رسائی ہو سکتی ہے، اپنے اثرات ظاہر کرتا ہے۔ چنانچہ اس ماحول میں جس پر اس کے واضح اثرات موجود ہوں، حق و باطل کی واضح تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ اُصولوں کی تیز دھاریں گِھس جاتی ہیں اور ان کا نکھرا سراپا بتدریج مدھم ہوتا چلا جاتا ہے۔ خیر و شر کا امتیاز پہلے سے زیادہ مبہم ہو جاتا ہے حتیٰ کہ مقدس رسوم، عبادات اور عقائد جو انسان پر خدا کی نہایت قیمتی عنایات میں شمار ہوتی ہیں، اس فرسودہ کار اثر کی صورت میں جو ہر شے کو غیر واضح اور مبہم بنا ڈالتا ہے، بے ہیئت اور غیر معین ہو جاتی ہیں۔ پس جدید دنیا کی جانب سے اسلام کو پیش کیے گئے چیلنجوں پر گفتگو کرتے وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ فکری تنقیح وامتیاز کے اُن کڑے اور سخت گیر اُصولوں کو جن کی بنیاد ’’شہادۃ‘‘ پر ہو، کام میں لاتے ہوئے اس دھند کاپردہ چاک کیاجائے۔
اس شمشیر شہادت کا استعمال ضروری ہے تا کہ جاہلیت جدیدہ کے ان جھوٹے بتوں کو توڑا جا سکے جن کے سامنے ہمارے اکثر مسلمان، بغیر ان کی نوعیت کا اندازہ لگائے گھٹنے ٹیکتے چلے جا رہے ہیں۔ اس شمشیر کا استعمال ضروری ہے تاکہ ان تمام باطل افکار اور خود ساختہ نظاموں کا قلع قمع کیا جا سکے جن کی جدیدیت زدہ مسلمانوں کے ذہنوں پر پھپھوندی جم چکی ہے۔ یہ شمشیر معاصر مسلمان کی روح کی تراش خراش میں معاون ہوگی اور اسے ایک غیر متشکل ڈھیر سے ایک دمکتے بلور میں بدل دے گی جو نورِ ربانی سے مستنیر ہوتا ہے کیونکہ بلور اصل میں اپنے تیز اور واضح ترشے ہوئے کناروں کی بدولت ہی چمکتا ہے اور روشنی بانٹتا ہے۔
یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ آج کی صورت حال میں جدید دنیا پر، مابعد الطبیعیاتی اور مذہبی اُصولوں کے حوالے سے کی جانے والی تنقید اپنی عمیق ترین سطح پر ایک طرح کا کارِ خیر ہے اور اسلام کی سب سے مرکزی نیکیوں کے عین مطابق ہے۔ روایتی اسلامی زبانوں میں ’’ادب‘‘ کے مفہوم میں بیک وقت، خوش اخلاقی، خوش اطواری، تمدن اور ادبیات سب شامل ہیں۔ چند مسلمان وہ بھی ہیں جو نقد و تنقیح سے اس لیے باز رہتے ہیں کہ مبادا انھیں غیر شائستہ اور ادب سے عاری نہ سمجھا جائے۔ ہمیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ پیغمبر اسلام نہ صرف یہ کہ’’ادب‘‘ پر اس کی کلیت میں حاوی تھے بلکہ وہ حق و صداقت کو بغیر لگی لپٹی کے پیش فرماتے تھے۔ ان کی زندگی میں ایسے لمحے بھی آئے جب انھوں نے انتہائی قطعی رویے کا اظہار فرمایا اور انھوں نے ادب پر صداقت کو کبھی قربان نہ فرمایا۔ اسلام نے کبھی اس بات کی تعلیم نہیں دی کہ انسان اتنا مودب ہوکہ دو جمع دو کو پانچ تسلیم کرلے۔حقیقت یہ ہے کہ ’’ادب‘‘ حق کے ہر حالت اور ماحول میں، ادراک و ادعا کی تکمیل کرتا ہے۔ ایک دفعہ شمالی افریقہ کی ایک ممتاز روحانی شخصیت نے کہا تھا:کیا تم جانتے ہو کہ ’’ادب‘‘ کیا ہے؟ اس کا مفہوم ہے اپنی تلوار کو دھار دینا تاکہ جب تمھیں کوئی عضو کا ٹنا ہو تو زیادہ اذیت کے بغیر تراشا جا سکے۔
مسلمانوں کو مغرب کے بارے میں اور اسلام کے لیے اس کی دعوتِ مبارزت پر گفتگو کرتے ہوئے اسی قسم کے زاویہ نگاہ کی ضرورت ہے۔حق و صداقت کانہ صرف یہ کہ ہماری جانوں اورجسموں پرحق ہے بلکہ اسے ہمیں یہ حکم دینے کا حق بھی حاصل ہے کہ ہم دوسروں کو دعوت خیردیں اور جب اور جہاں بھی ممکن ہو اس کی تشریح و توضیح کریں۔ آج ہمیں ناقد بننے کی ضرورت ہے۔۔۔۔ خواہ سخت گیری کی حد تک ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔کیونکہ اب اس قسم کا رویہّ شاذ کے حکم میں داخل ہوگیا اور اس کی شدید ضرورت ہے۔
آج دنیائے اسلام میں جس چیز کی کمی ہے وہ جدیددنیا میں ہونے والے واقعات کا بھرپور معائنہ اور محتاط تنقید۔ !!
اس قسم کی تنقید کے بغیر مغرب کا مقابلہ کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کبھی نہیں ہو سکتی۔جدیدیت زدہ مسلمانوں کے تمام ایسے بیانات جو اس پیش کش اور ادعائیت سے شروع ہوتے ہیں کہ :’’اسلام اور فلاں فلاں شے میں تطبیق کا طریقہ‘‘۔ ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ناکامی کا منہ دیکھیں گے۔ خواہ یہ فلاں کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ ورنہ اسلام اور مغربی سوشلزم یا مارکسنرم یا موجودیت یا ارتقائیت یا اسی قسم کی کسی بھی دوسری شے سے اسے تطبیق دینے کی تمام کوششیں اپنی تعمیر ہی میں صورت تخریب لیے ہوئے ہیں۔ کیونکہ اس قسم کی کوششیں کرنے والے زیر نظر ازم یا نظام نامے کو اسلامی اُصولوں کی روشنی میں کلی طور پر پرکھے بغیر ہی اپنا کام شروع کردیتے ہیں۔!!
اس ناکامی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ لوگ اسلام کو بجائے خود ایک مکمل ضابطۂ حیات اور تناظر نہیں سمجھتے۔ ایسا تناظر جو اپنی جگہ مکمل ہے اور بنابریں اسے کسی اور چیز کی نسبت اضافی یا نسبت توصیفی بنانے کا کوئی امکان نہیں خواہ اس چیز کو اسلام کی جگہ غیر شعوری طور پر مرکزی حیثیت دے دی گئی ہو۔ یہ لوگ اسلام کو ایک ایسے نظامِ حیات کے طور پر دیکھتے ہیں جو اشیا کے بارے میں صرف جزوی زاویۂ نگاہ رکھتا ہے اور اسے کسی جدید نظریے سے مکمل کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے آج کے رائج الوقت فیشنوں میں ہونے والی تیز تبدیلی، جس کے ذریعے ایک دن تو اسلامی سوشلزم قبولیت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے اور اگلے ہی روز لبرل ازم یا کوئی دوسرا مغربی ’’ازم‘‘بجائے خود اس قسم کے زاویۂ نگاہ کی موجودگی اور سطحیت کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ جو شخص بھی اسلام کے ڈھانچے کو اس کی کلیت میں سمجھتا ہے وہ جانتا ہے کہ اسلام کبھی خود کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا کہ کسی ایسے نظام فکر کے مقابلے میں جو اس سے الگ اپنی حیثیت رکھتا ہو یا اس سے متصادم ہو، اس کی اپنی حیثیت محض ایک ترمیم کنندہ یا معاون کی ہوکر رہ جائے۔
مغرب کے کوکھ سے مختلف فیشن زدہ طرزہائے فکر کم و بیش ایسی تیزی سے برآمد ہوتے رہتے ہیں جس تیزی سے موسموں میں تبدیلی آتی ہے۔ ان کے مقابلے میں جدیدیت زدہ مسلمانوں نے جو دفاعی اور معذرت خواہانہ زاویۂ نگاہ اپنا رکھا ہے وہ ان کی تنقیدی حس اور فرقانی روح کی کمی ہی کا شاخسانہ ہے۔عام طور پرواضح کوتاہیوں پر یا ایسی کوتاہی جس پر تنقید کرنا آسان ہو، تنقید کی جاتی ہے لیکن کسی شخص میں یہ ہمت نہیں کہ وہ کھڑے ہو کر ہمارے عہد کے بنیادی مغالطوں کو ہدف بنا سکے۔اس بات کی نشاندہی کرنا بڑا آسان ہے کہ روایتی مدارس میں طالب علموں کی زندگی حفظانِ صحت کے اُصولوں کے مطابق نہیں ہوتی لیکن اس بات پر ڈٹ جانا اور یہ کَہہ گزرنا نہایت مشکل کام ہے کہ آج کے جدید تعلیمی اداروں میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اس کا بیشتر حصہ طالب علموں کے نفوس کے لیے بے حد مہلک ہے، بمقابلہ بعض قدیم مدارس کی حفظان صحت کے اُصولوں سے عدم مطابقت رکھنے والی عمارات کے خطرات کے۔ اسلامی دنیا میں ایسے لوگوں کی تعداد شاذ ہے جو مغرب کی آنکھ میں آنکھ ڈال سکیں اور عقل کلی اور روح کی شمشیر کے ذریعے اس کے اس چیلنج کی اصل و بنیاد کا جواب دے سکیں جو اسلام کومغرب کی طرف سے درپیش ہے۔ آج ایسی ہی حالت ہے لیکن ایسی صورت حال کو باقی نہیں رہنا جاہیے۔ کوئی وجہ نہیں کہ اسلامی دنیا میں ایک نئے فکری طائفے کی بنیاد نہ ڈالی جا سکے ___ ایک ایسے طبقے کی جو اسلامی وحی کے پیغام سے میسر ابدی اقدار کی روشنی میں جدید دنیا پر ایک معروضی تنقید کرسکے اور جدید انسان کی قابل رحم حالت پر (اور اس کی ہر لحظہ بڑھتی ہوئی قابل رحم حالت پر جس کا اسے سامنا ہے) خدا کے عطا کردہ اسلامی خزانوں کو لٹا سکے۔
جدید چیلنجز اور مختلف مسلم مکاتب فکر:
اسلامی دنیا میں آج اصلاً افراد کے دو ہی طبقے موجود ہیں جن کا تعلق مذہبی، عقلی اور فلسفیانہ مسائل سے ہے یعنی طبقہ علما جن میں عام طور پر دیگر مذہبی اور روایتی مستند لوگ (مثلاً صوفیا) شامل ہیں اور(دوسرا) متجددین کا وہ طبقہ جسے اب بھی مذہبیات سے دلچسپی ہے۔ لیکن اب ایک تیسرا طبقہ بھی بتدریج وجو دمیں آ رہا ہے جو علما کی طرح روایتی بھی ہے مگر جدید دنیا سے بھی آگاہ ہے۔ جہاں تک علما اور دیگر روایتی روحانی شخصیات کا تعلق ہے بتایا جاچکا ہے کہ وہ جدید دنیا اور اس کی پیچیدگی کا گہرا علم نہیں رکھتے۔ لیکن وہ اسلامی روایت کے امین اور محافظ ہیں اور ان کے بغیر روایت کا تسلسل ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔جدیدیت زدہ لوگ ان پر معترض رہتے ہیں کہ وہ مغربی فلسفہ، سائنس اور جدید معاشیات اور اس قبیل کے دیگر علوم کی باریکیوں سے واقف نہیں لیکن یہ تنقید جو عموماً بڑی سہولت سے کر دی جاتی ہے اکثر وبیشتر غلط سمت میں ہوتی ہے۔ گزشتہ صدی میں اسلامی دنیا میں سیاسی اور معاشی قوت پر جو لوگ حاوی تھے انھوں نے مدارس کو اس سمت میں پیش قدمی کرنے کا شاذہی موقع فراہم کیا کہ ان کے علماء جدید دنیا سے غلط اثرات قبول کیے بغیر اس سے بہتر طور پر واقف ہو سکیں۔چند مقامات پر جہاں مدرسے کے نصابات میں ترمیم کی کوششیں کی گئیں ان کی تَہ میں بیشتر یہ مقصد پوشیدہ ہوتا تھا کہ کسی طرح روایتی نظام تعلیم کا حلیہ اس حد تک بگاڑ دیا جائے کہ اس کا خاتمہ ہو سکے۔ نہ یہ کہ ان مدارس کے نصابات میں ایسے کورس شامل کیے جائیں جن کے باعث اسلامی تعلیمات کی روشنی میں طلبہ جدید دنیا سے متعارف ہو سکیں۔ علاوہ ازیں اس قسم کے ادارے بنانے کی کوشش نہ ہونے کے برابر کی گئیں جو روایتی مدارس اور جدید تعلیمی درس گاہوں کے درمیان پل کا کام دے سکیں۔ بہرحال جدیدیت پرستوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ علما کو ایسی چیزوں سے بے علمی کا طعنہ دے سکیں جن پر حاوی ہونے کا انھیں سرے سے کوئی موقع ہی فراہم نہ کیا گیا۔
جہاں تک دوسرے طبقے(جدیدیت پرست) کا تعلق ہے، جن کے رویوں کا پچھلے ابواب میں تجزیہ کیا جا چکا ہے وہ یا تو مغربی یونی ورسٹیوں کی پیداوار ہیں یا اسلامی دنیا کی ان یونی ورسٹیوں کی جو کم و بیش مغرب کی نقالی کرتی ہیں۔ اب قصہ یہ ہے کہ اسلامی دنیا کی یونی ورسٹیاں بجائے خود بحرانی حالت میں ہیں اور یہ بحران تشخص کے سوال سے اُبھررہا ہے کیونکہ ایک نظام تعلیم کا تعلق نامیاتی طور پر اس کلچر سے ہوتا ہے جس کی آغوش میں یہ برسرِ عمل ہوتا ہے۔ایک جیٹ طیارے کو آپ ایشیا یا افریقہ کے کسی بھی ملک کے ہوائی اڈے پر اتار سکتے ہیں اور اسے اس ملک کا حصہ گردانا جا سکتا ہے لیکن ایک نظام تعلیم کو آپ محض درآمد نہیں کر سکتے۔ یہ حقیقت کہ اسلامی دنیا میں جدید جامعات ایک ایسے بحران سے دوچار ہیں جو مغرب میں موجود جامعات کے بحران سے مختلف ہے، بذات خود اس دعوے کا ثبوت ہے۔ اس بحران کا ہونا فطری تھا کیونکہ مقامی اسلامی کلچر ابھی زندہ ہے۔
مزید یہ کہ بحران زیادہ تر ان لوگوں کو شدید طور پر متاثر کرتا ہے جو ان جامعات میں تعلیم پاتے ہیں اور جنھیں عام طور پر ’’طبقۂ دانشوراں‘‘ Intellegensia کا نام دیا جاتا ہے۔ ’’انٹلکچوئل‘‘ کی طرح یہ اصطلاح بھی نہایت بد قسمت رہی ہے کیونکہ یہ جن لوگوں سے خاص ہے انھیں اکثر و بیشتر ’’دانش‘‘ کی ہوا بھی نہیں لگی لیکن بہرحال انھیں جس نام سے بھی پکارا جائے ان میں سے اکثر میں جو مغربی طرز کی جامعات کی پیداوار ہوتے ہیں ایک بات مشترک ہوتی ہے:” ہر مغربی چیز کی شدید للک اور ان چیزوں کے سلسلے میں احساسِ کمتری جن کا تعلق اسلام سے ہو”۔ متعدد جدید ذہن کے مسلمانوں کا مغرب کے مقابلے میں یہ احساس کمتری، جو مسلمانوں کے علاوہ ان جدیدیت زدہ ہندوئوں، بدھوں اور ان دیگر مشرقیوں کے یہاں بھی عموماً پایا جاتا ہے جو بت پرستی کی جدید شکلوں کی آشفتہ مغزی Psychosis کا شکار ہو جاتے ہیں، وہ مرض عظیم ہے جو اسلامی دنیا کو درپیش ہے اور وہ اسی گروہ کو سب سے زیادہ دق کر رہا ہے جس کے بارے میں توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ مغرب کے چیلنج کا مقابلہ کر سکے گا۔ چنانچہ اسلام کی مغرب کے ساتھ مبارزت کا مسئلہ اس وقت تک زیر بحث نہیں آ سکتا جب تک اس ذہنیت کو نگاہ میں نہیں رکھا جاتا جو بیشتر صورتوں میں جدید یونی ورسٹی تعلیم کی پیدا وار ہے۔ ایک ایسی ذہنیت جو پچھلی صدی میں اکثر و بیشتر ان معذرت خواہانہ اسلامی ’’تصانیف‘‘ کی ذمہ دار ہے جو اسلام اور مغرب کے تصادم سے متعلق ہیں۔
اسلام اور مغرب کے تصادم سے پیدا شدہ بحران کے سلسلے میں اس معذرت خواہانہ، جدیدیت زدہ رویے میں کوشش یہ ملتی ہے کہ مغرب کے چیلنج کے جواب میں کھینچ تان کر کسی نہ کسی طرح یہ ثابت کر دیا جائے کہ اسلام کا یہ اور وہ عنصر مغرب میں اس وقت رائج فلاں فلاں صورت سے مطابقت رکھتا ہے جب کہ اسلام میں موجود بعض دیگر عناصر کے سلسلے میں، جن کے لیے تخیل کی طویل اُڑان کے باوجود مغرب سے کوئی مثال دستیاب نہ ہو سکی ہو، صرف یہ کَہہ کر بات ختم کر دی جاتی ہے کہ یہ غیر اہم ہیں یا پھر مابعد کے غیر متعلق الحاقات۔
اس طرح اسلامی عبادات کی صحت بخش نوعیت اور پیغام اسلام کے مساویانہ کردار کو ثابت کرنے کے لیے لاطائل مباحث پیش کیے گئے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ یہ چیزیں خود اسلام کے کلی پیغام کے وسیع تناظر میں دیکھے جانے پر درست ہیں بلکہ اس لیے کہ ’’حفظانِ صحت‘‘ اور’’مساوات‘‘ کے خیالات اس وقت مغرب کے مسلمہ افکار و معیار مانے جاتے ہیں ۔ اس قسم کی واضح اور آسانی سے قابل دفاع خصوصیات کی توثیق کرکے، ان معذرت خواہوں نے مغرب کے کلی چیلنج سے صرفِ نظر کرنے کی کوشش کی ہے جس کے باعث اسلام کا قلب خطرے میں پڑ گیا ہے اور دشمن کے غصے کو کم کرکے اس خطرے کو ٹالا نہیں جا سکتا۔ جب سرجری کی ضرورت ہو تو ایک نشتر ناگزیز ہو جاتا ہے جس کی مدد سے فرسودہ حصے کو الگ کیا جا سکے۔ اسی طرح جب باطل مذہبی صداقت کی سلامتی کے لیے خطرہ بن رہا ہو تو اس صورت میں کوئی شے تنقید اور تنقیح کی تلوار کا بدل نہیں ہو سکتی۔ کوئی شخص بھی باطل سے صلح کرکے اور اسے اپنا دوست بتاکر اس کے منفی اثر کو زائل نہیں کر سکتا۔
یہ معذرت خواہانہ طرز فکر اس صورت میں اور زیادہ افسوسناک ہو جاتا ہے جب یہ اپنا رشتہ فلسفیانہ اور فکری سوالات سے جوڑتا ہے۔ جب ہم اس قسم کا معذرت خواہانہ لٹریچر پڑھتے ہیں جو اس صدی کے آغاز میں زیادہ تر مصر اور برصغیر ہندوستان میں پیدا ہوا اور جس میں مذہب اور سائنس کے سلسلے کے انتہائی فرسودہ اور مردہ مباحث کی جگالی کی جاتی تھی جو وکٹورین انگلستان اور اسی دور کے فرانس میں ہوتے تھے اور اب اہمیت کھو چکے تھے تو اس قسم کے لٹریچر کی کمزوری واضح ہو جاتی ہے جو اصل میں مغرب کے چیلنج کا جواب دینے کے لیے وجود میں لایا گیا تھا بلکہ اس وقت سے لے کر اب تک کے گزرنے والے دسیوں سالوں کے تناظر میں تو ایسا لٹریچر اور بھی فرسودہ لگنے لگا ہے۔ بہرحال اُس زمانے میں روایتی علما کی ٹھوس آواز سننے میں ضرور آ جاتی تھی جنھوں نے اپنے استدلال کو وحی الٰہی کے غیر مبدل اُصولوں پر ڈھال کر مذہبی سطح پر ان چیلنجوں کا جواب دینے کی کوشش کی تھی۔ بے شک وہ ان مباحث میں کارفرما مشہور فلسفیانہ اور مجرد افکار سے زیادہ واقفیت بھی نہ رکھتے تھے۔ یہ آواز نابود تو نہیں ہوئی لیکن رفتہ رفتہ کم ہوتی چلی گئی اور اس کے مقابلے میں جدید یت پرستوں کی آواز بلند سے بلند تر اور جاری ہوتی چلی گئی۔
اس واقعہ نے آج یہ افسوسناک صورت حال پیدا کر دی ہے کہ پڑھے لکھے طبقوں میں جدیدتہذیبِ مغرب کے انتہائی گرم جوش وفاع کرنے والے عملاً وہ لوگ ہیں جو مغرب زدہ مشرقی ہیں۔ آکسفورڈ اور ہار ورڈ میں پڑھنے والے انتہائی ذہین طالب علم بھی تہذیب مغرب اور اس کے مستقبل کے معاملے میں اتنے پُر اعتماد نہیں جتنے یہ ہمارے مغرب زدہ مشرقی جنھوں نے کچھ عرصے سے اپنا سب کچھ جدیدیت کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اور اب انھیں اپنے بت کی مکمل شکست و ریخت کے امکان کا اچانک سامنا ہے۔ چنانچہ وہ اب اس بت سے چمٹنے کے لیے ہر طرح ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ جدیدیت زدہ مسلمانوں کے لیے خصوصاً ان مسلمانوں کے لیے جو ان میں زیادہ انتہا پسند ہیں اسلام کا ’’حقیقی مفہوم‘‘ ادھر کچھ عرصہ سے وہ ہو چلا ہے جو انھیں مغرب نے پڑھایا ہے۔ اگر ’’نظریۂ ارتقا‘‘ کا چلن ہے تو سچا اسلام ارتقائی ہے۔ اگر سوشلزم کاکوس بج رہا ہے تو پھر اسلام کی ’’حقیقی تعلیمات‘‘ سوشلزم ہی پر مبنی ہیں۔ اس ذہنیت اور اُس ذہنیت کے نتیجے میں پیدا شدہ تصنیفات کا شعور رکھنے والے لوگ اس کی ممیاتی ہوئی، غلامانہ اور جامد فطرت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اور تو اور قانون کے میدان میں بھی بارہا ایسا ہوا کہ قطعی غیر اسلامی بلکہ دشمن اسلام قوانین کو آغاز میں بسم اللہ اور آخر میں بہ نستعین کا اضافہ کرکے اپنا لیا گیا جب کہ ان دونوں مقدس کلمات کے درمیان پایا جانے والا مواد کسی نہ کسی مغربی ضابطۂ فوجداری و دیوانی سے ماخوذ بلکہ نقل شدہ تھا۔
اب اچانک اس گروہ کی آنکھوں کے سامنے جو مغرب کی پیروی میں اپنی روح کا سودا کرنے کی سوچ رہا تھا،خود اسی مغربی تہذیب کی لڑ کھڑاہٹ کا ناقابل یقین منظر گھوم رہا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے یہ کتنا درد ناک منظر ہو گا؟ چنانچہ وہ تمام حقائق سے صرفِ نظر کرتے ہوئے مغربی نظامِ اقدار کے دفاع کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں اور ان مغربی مفکرین پر غضب ناک ہو جاتے ہیں جنھوں نے خود جدید مغرب کو ہدف تنقیدبنانا شروع کر دیا ہے۔ اگر جدید تہذیب کی یہ واضح ٹوٹ پھوٹ جو جنگ عظیم دوم کے بعد زیادہ کھل کر سامنے آنے لگی تھی، پہلی عالمی جنگ کے بعد ہی واضح ہو کر سامنے آ جاتی جب ابھی ایشیا کی روایتیں کہیں زیادہ محفوظ تھیں تو امکان غالب ہے کہ ان روایتی تہذیبوں کا کہیں زیادہ حصہ بچا یا جا سکتا تھا لیکن تقدیر کے ہاتھوں نے انسان کے لیے ایک اور رستے کی نقش گری کرنا تھی۔ بہر حال آج کی صورت حال میں بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ایک فارسی ضرب المثل کا مفہوم ہے کہ جب تک درخت کی جڑ میں پانی موجود ہے بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔
روایتی اُصولوں کے مطابق سچی سرگرمی کے منہاج پر کسی مثبت کام کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے اور اسی میں اعلائے کلمۃ الحق اور اس کے مطابق عمل کا انتہائی مرکزی اور واضح کام شامل ہے۔( دیکھیے: ایف شوان، نوایکٹیوٹی و د آئوٹ ٹرتھ‘‘ مجلہ مطالعہ تقابلی ادیان، خزاں، ۱۹۶۹ئ، ص ۱۹۳-۲۳۰) جہاں ایمان ہے وہاں مایوسی کی کوئی جگہ نہیں۔ آج بھی اگر دنیائے اسلام میں سچے دانشوروں کا ایک گروہ تشکیل دیا جا سکے جو بیک وقت روایتی بھی ہو اور جدید دنیا سے کاملاً آگاہ بھی تو مغرب کی دعوت مبارزت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور اسلامی روایت کی روح کواس فالج سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے جس کے باعث اس کے دست و بازو خطرے میں ہیں۔
اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے کہ اسلامی دنیا میں اب بھی کیا کچھ بچایا جا سکتا ہے یہ بات یاد رکھنا کافی ہوگا کہ مسلمانوں کی ایک غالب اکثریت اب بھی اسلامی تہذیب کو ایک زندہ حقیقت سمجھتی ہے جس میں وہ جیتی ہے سانس لیتی ہے اور دم دیتی ہے۔ انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک اسلامی تہذیب حال کا حوالہ ہے، ماضی کا واقعہ نہیں۔ وہ لوگ جو اس تہذیب کو صرف ماضی کا حوالہ سمجھتے ہیں اس مختصر مگر غلغلہ خیز اقلیت کا جزو ہیں جو دنیائے روایت میں زندہ نہیں ہیں اور جو اپنے لامرکز ہونے پر تمام مسلم معاشرے کو لا مرکز قیاس کیے بیٹھے ہیں۔اس صورت حال میں المیہ یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں من و عن یہ نقطۂ نظر کہ یہ تو ماضی کا حوالہ ہے اکثر و بیشتر ان لوگوں کا ہے جو دنیائے اسلام کے متعدد ملکوں میں ذرائع ابلاغ پر قابض ہیں اور لوگوں کے ذہنوں اور نفوس بڑا گہرا اثر ڈال رہے ہیں۔ ایسا اثر جو ان کی قلیل تعداد کے مقابلے میں ناروا حد تک بڑھا ہوا ہے کئی اسلامی ممالک میں یہ لوگ جو ریڈیو، ٹیلی وژن اور رسائل جرائد کے ذرائع پر قابض ہیں، ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس میں اسلامی تہذیب انھیں صرف ماضی کی ایک شے نظر آتی ہے کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ وہ مغرب کے سحر کے اس قدر اسیر ہو چکے ہیں کہ مغربی نقطۂ نگاہ کے علاوہ کسی اور زاویۂ نگاہ سے چیزوں کو دیکھنا ان کے لیے کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا، خواہ یہ دوسرا زاویۂ نگاہ عین ان کے دروازے پر زندہ حقیقت کی صورت ہی میں کیوں نہ موجود ہو۔
تعجب اس امر پر ہے کہ اسلامی دنیا کی اس مغرب زدہ اقلیت نے یہ مقام سیادت اس وقت حاصل کیا ہے جب مغرب مکمل طور پر اپنے لنگر کھو چکا ہے اور اسے معلوم نہیں کہ وہ کیا کر رہا ہے اور کہاں جا رہا ہے؟ اگر کسی سادہ عرب یا ایرانی کاشت کار کو مشرقِ وسطی کے کسی بڑے ائیر رپورٹ پر لا کھڑا کیا جائے اور اسے کہا جائے کہ وہ یورپینوں کوملک میں داخل ہوتے ہوئے مشاہدہ کرے تو اور کچھ نہیں تو صرف لباس کا فرق جو ایک راہبہ اور ایک عملاً عریاں مغربی عورت میں پایا جاتا ہے اس کے سادہ ذہن پر مغربی تہذیب کے مظاہر کی عدم یکسانیت کا احساس مرتسم کرنے کے لیے کافی ہوگا۔ لیکن یہ سادہ سا منظر بھی ایک مکمل طور پر مغرب زدہ مشرقی کی نگاہ سے چوک جاتا ہے جو اور کچھ نہ بھی ہو بہر حال ایک خوش ارادہ شخص ہوتا ہے لیکن نہیں چاہتا کہ وہ اس تہذیب کی واضح تضادات ہی کا سامنا کر سکے جس کی وہ بڑے چائو سے نقالی کر رہا ہے۔
کئی حلقوں میں اس طرز فکر کے غلبے اور تسلسل کے باوجود پچھلے تیس سالوں میں صورتحال کس قدر بدل کئی ہے۔ دو عالمی جنگوں کے دوران جو مسلمان یورپ گئے وہاں دریائے سین Seine یا ٹیمز کے گنارے اُگے ہوئے درختوں کو عملاً شجر طوبیٰ اور ان دریائوں کو انہار جنت سمجھتے تھے۔شعوری طور پر یا غیر شعور ی طور پر، بہرحال جدیدیت زدہ مسلمانوں کی اس نسل کے اکثر افراد نے اپناتصور بہشت مغرب کو اور کمالات جنت، مغربی تہذیب کو قرار دے رکھا ہے۔ لیکن آج مغرب پر بطور ایک دیوتا کے اندھا دھند اعتقاد اور اس کا یکساں نتیجہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ اب ایسے زاویۂ نگاہ کا امکان اس لیے نہیں رہا کہ پچھلے تیس سالوں میں مغرب کے اندرونی تضادات واضح سے واضح تر ہوتے چلے گئے ہیں۔ جدیدیت زدہ مسلمانوں کی نئی نسل تہذیب مغرب کے اقدار کی مطلقیت کے بارے میں اتنی پُر اعتماد نہیں رہی جتنے ان کے باپ اور چچا تھے جو ان سے پہلے یورپ ہو آئے تھے۔ یہ بات بجائے خود ایک مثبت رجحان کہلا سکتی ہے۔ اگر یہ جدیدیت کے معروضی اور مثبت جائز ے کا ابتدائیہ بن سکے۔ لیکن اب تک اس صورت حال نے جدیدیت زدہ مسلمانوں کی صفوں میں صرف انتشار کا اضافہ ہی کیا ہے اور صرف یہاں وہاں چند مٹھی بھر ایسے مسلمان علما کو جنم دیا ہے جو اس صورت حال کی نزاکت سے واقف ہیں اور انھوں نے مغرب کی کورانہ تقلید سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اصل مسئلہ ابھی جوں کا توں ہے اور وہ ہے جدید دنیا کی صحیح نوعیت کے بارے میں اس گہرے علم کی کمی جس کی بنیاد اسلامی تہذیب کی میزان پر ہوتی۔
آج اسلامی دنیا میں بہت کم ایسے مستغربین Occidentalists ہیں جو اسلام کے لیے وہ کام انجام دے سکتے جو مستشرقین نے اٹھارویں صدی سے اب تک یورپ کے لیے انجام دیا البتہ دریں صورت انھیں صرف اس کام کے مثبت پہلو سر انجام دنیا ہوں گے۔( ہمارایہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ مسلمان ’’مغرب شناس‘‘ حضرات مستشرقین کے تعصبات اور مجبوریوں کی نقالی شروع کر دیں۔ مراد یہ ہے کہ انھیں مغرب سے ممکنہ حد تک آگاہ ہونا چاہیے اور اس کا مطالعہ اسلام کے نقطۂ نظر سے کرنا چاہیے۔ ایسے ہی جیسے اچھے مستشرقین مغرب کے حوالے سے مشرق کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ مغرب جدید کی روایت دشمن نوعیت کی وجہ سے مشرقی روایتوں کی مابعد الطبیعیاتی اور دینی تعلیمات کا مطالعہ مغرب کے سیاق و سباق میںکرنا ناموزوں تھا مگر یہ ایک الگ مسئلہ ہے جس سے مذکورہ موازنہ غیر متعلق ہے۔)
جدید فکری چیلنجز کا نقدوتجزیہ کیسے؟
جدیدیت زدہ مسلمانوں کی تہذیب مغرب پر ایمان مجروح ہو چکا لیکن اس کے باوجود مسلمان اب تک افکار اور مادی اشیا کے معاملے میں مغرب کے دست نگر ہیں۔ چونکہ جدیدیت زدہ مسلمانوں کو اپنی فکری روایت پر اعتماد نہیں اسی لیے وہ ایک سادہ تختی کی طرح مغرب سے کسی نقش کی آمد کے انتظار میں ہیں۔ مزید یہ کہ اسلامی دنیا کا جو حصہ مغرب کے جس جس حصے سے فکری طور پر متصل رہ چکا ہے وہاں وہاں سے اسے افکار کی رنگا رنگ گٹھڑیاں ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر عمرانیات کے میدان یا جیسا کہ پہلے کہا گیا فلسفہ کے میدان میں، برعظیم ہندوستان نے پچھلی صدی سے انگریزی دبستانوں کی پیروی کی ہے اور ایران نے فرانسیسی مکاتبِ فکر کی(دیکھیے: سیّد حسین نصر، اسلامک سٹڈیز، باب ہشتم) لیکن جدیدیت زدہ طبقے اس امید میں بیٹھے ہیں کہ کہیں سے کوئی بھی چیز چہرہ نما ہو، تاکہ یہ اسے اختیار کر سکیں۔ ایک دن یہ شے ’’اثباتیت‘‘ ہو سکتی ہے اور اگلے ہی روز سڑکچرل ازم (ساختیات) کوئی شخص بھی اس بات کی زحمت نہیں اُٹھاتا کہ وہ صحیح اسلامی طرز فکر کو اپنا سکے جو ایک غیر متبدل مرکز سے آغاز کار کرے اور ایک معروضی طریقہ کار کو کام میں لاتے ہوئے ہر اس شے کی تحقیق و تفتیش کرے جو مغرب کی آندھی ہمارے رستے میں لا ڈالتی ہے۔ ہماری فکری فضا اتنی ہی مایوس کن ہے جتنی عورتوں کے فیشن کی فضا۔جہاں اکثر اسلامی ممالک کی عورتیں بحیثیت سعادت مندگاہکوں کے مکمل طور پر منفعل رہتی ہیں اور ہر اس شے کی اندھا دھند تقلید کرتی ہیں جو مٹھی بھر مغربی فیشن سازان کے لیے فیصلہ کرکے بنا ڈالتے ہیں۔ لباس کے فیشن اور فلسفیانہ اور فنی فیشن طرازی کے مسئلے دونوں میں جدیدیت زدہ مسلمانوں کا اس مرکز میں کوئی عمل دخل نہیں جہاں فیصلے کیے جا رہے ہیں۔
بعض حلقوں میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ خود اسلامی فلسفے کی مغربی طریقہ ہائے تفکر کی روشنی میں توجیہ و تعبیر کی جائے۔(جدیدیت پرست) مسلمان ’’دانشور‘‘ اس خطرناک صورتِ حال کے لیے براہ راست مورد الزام ہیں۔ عجیب تر بات یہ ہے کہ یہ بدعت تقلید کی بھی انتہائی احمقانہ اور نہایت اندھی صورت ہے۔ اگر اس قسم کی توجیہ و تعبیر کا سلسلہ جاری رہا تو مسلمانوں کی نئی نسل کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا ہوگی۔ آج مسلم ممالک میں ہر جگہ یہ صورت نظر آ رہی ہے کہ لوگ اپنے ماضی کے فلسفہ و فرہنگ کو مغربی ذرائع سے سیکھ اور جان رہے ہیں۔ ان ذرائع میں سے یقینا کافی ایسے ہوں گے جن میں مفید معلومات پائی جاتی ہوں گی اور وہ طلب علم کے نقطۂ نظر سے مفید ہو سکتے ہیں لیکن ایسی کم و بیش تمامتر تحریریں ایک غیر مسلم کے نقطۂ نظر سے لکھی گئی ہیں۔ اپنے وسیع تر معنوں میں فکر و فلسفہ کے میدان میں جن ممالک نے خاص طور پر نقصان اُٹھایا ہے، وہ ایسے ممالک ہیں جو اپنی جامعات میں انگریزی یا فرانسیسی کو بطور ذریعہ تعلیم استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً پاکستان، ہندوستان کے مسلم علاقے، ملائشیا، نائجیریا، یا پھر اسلامی مغرب یعنی مراکش اور تیونس۔ سامراجیت دشمنی کی تمام تقریریں ایک طرف لیکن حقیقت یہی ہے کہ ذہنی استعمار پر جو اصل میں سامراجیت کی بدترین صورت ہے،قابو پانے اور اپنے کلچر کی تلاش اور تفتیش، خصوصاً اپنے نقطۂ نظر سے اس کے روحانی اور فکری مرکز کے مطالعہ و تحقیق کے باب میں مسلمانوں نے بے حد تاخیر کر دی ہے۔
اگر خدانخواستہ کہیں ایسے مسلمان بھی پائے جاتے ہوں جو اپنے فکری ورثے کے بعض پہلوئوں کو رد کرنا چاہتے ہوں تو انھیں بھی پہلے اس ورثے کا علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ جس چیز کا کسی شخص کو علم ہی نہیں وہ اسے رد نہیں کر سکتا۔ بالکل ایسے ہی جیسے بغیر گہرے علم کے کسی چیز کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ آخر جو شے آپ کے قبضے ہی میں نہیں آپ اسے کیسے کہیں پھینک ماریں گے؟ یہ ایک بالکل سادہ سی سچائی ہے مگر اسے آج کل اکثر فراموش کر دیا جاتا ہے۔چند برس گزرے دھیان بدھ مت کے ایک معروف گرو ایک ممتاز مغربی یونی ورسٹی میں گئے۔ ان کے لیکچر کے بعد ایک گریجویٹ طالب علم نے سوال کیا کہ :کیا یہ درست ہے کہ بدھ مت کے گرو یہ سمجھتے ہیں کہ بدھ مت کی پستکیں جلا ڈالنا چاہییں اور بدھ کے مجسمے اُٹھا کر پھینک دینا چاہییں؟ گرو مسکرائے اور جواب دیا:ہاں بھئی درست ہے مگر کاغذ صرف وہ جلایا جا سکتا ہے جو آپ کی ملکیت ہو اور مجسمہ وہی اُٹھا کر پھینکا جا سکتا ہے جو آپ کے پاس ہو۔
جواب بہت گہرا تھا۔ گرو کی مراد یہ تھی کہ دین کی نری ظاہری جہت سے صرف اسی صورت میں اوپر اُٹھنا ممکن ہے جب آپ ظاہرِ دین پر عامل ہوں اور بعدازاں اس کے داخلی معانی تک رسوخ حاصل کریں اور اس کی ظاہری صورتوں سے اوپر اُٹھ جائیں۔ جو شریعت کا پابند نہ ہو اس کے لیے اس سے آگے دیکھنے کی کوئی امید نہیں۔ ورنہ صرف شریعت سے بھی محروم رہ جاتا ہے بلکہ اس حرماں نصیبی کو تمام رسوم وقیود سے ماورا ہونے کے مترادف جانتا ہے۔ اس کا اطلاق ایک اور سطح پر انسان کی روایتی عقلی میراث پر بھی ہوتا ہے۔گزرے وقتوں کے حکما اور اہل دانش کی تعبیرات سے ’’آگے‘‘ بڑھنے کا کوئی امکان نہیں، اگر ان کا فہم ہی موجود نہ ہو۔
معاصر مسلمانوں کو اتنا حقیقت پسند ضرور ہونا چاہیے کہ ان کو خواہ کسی سمت میں جانا ہو سفر کا آغاز اسی جگہ سے کرنا ہوگا جہاں اس وقت وہ موجود ہیں۔ ایک معروف چینی کہاوت ہے کہ ’’ہزار میل کے سفر کا آغاز بھی ایک قدم سے ہوتا ہے‘‘۔ یہ پہلا قدم لازماً اسی مقام سے اُٹھے گا جہاں وہ اس وقت جاگزیں ہیں۔یہ بات جسمانی طور پر جتنی درست ہے ثقافتی اور روحانی طور پر بھی اتنی ہی صحیح ہے۔ اسلامی دنیا جہاں کہیں کے لیے بھی روانہ ہوتا چاہتی ہے اسے اپنا آغاز اسلامی روایت کی حقیقت اور اپنی مفروضہ نہیں بلکہ حقیقی صورتحال سے کرنا ہوگا۔ جن لوگوں کی نگاہ سے یہ امراو جھل ہو جاتا ہے وہ کسی سمت میں بھی ڈھنگ سے سفر نہیں کر پاتے۔ ایک پاکستانی، ایرانی یا عرب دانشور جو مسلمانوں کے لیے فکری قیادت کی تمنا رکھتا ہو، اسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ کون ہے وگرنہ اسے بااثر ہونے کے بجائے باقی کے اسلامی معاشرے سے کٹ کر رہ جانا ہوگا۔ وہ لاہور، تہران یا قاہرہ کے ایک گوشے کو آکسفورڈ یا سوربون کا ٹکڑا بنانے کی کیسی ہی کوشش کیوں نہ کرے اسے کامیابی نہیں ہو سکتی۔ وہ مغرب زدہ نام نہاد دانشور جو یہ شکایت کرتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں انھیں کوئی سمجھتا ہی نہیں اور ان کی قدر نہیں کی جا تی، یہ بات بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے خود اپنے معاشرے اور اپنی ثقافت کی قدر نہیں پہچانی اور اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کی لہٰذا ان کے معاشرے نے ان کو رد کر دیا۔ معاشرے کایہ رد کرنا بجائے خود معاشرے کی زندگی کی نشانی ہے کہ اسلامی ثقافت میں ابھی قوتِ حیات موجود ہے۔
آخر میں ایک بنیادی مسئلے کا ذکر بھی مقصود ہے جو اس وقت بہت ضروری ہے۔ ہماری مراد ہے ماحولیاتی بحران سے جو جدید تہذیب کا پیدا کردہ ہے اور جس سے ہرجگہ انسانی زندگی کو خطرہ لاحق ہو چلا ہے۔ اسلامی دنیا میں مسلمان بھی اس خطرے کی زد میں ہیں۔ ہر وہ آدمی جسے جدید دنیا کی صورت حال سے آگاہی ہے یہ جانتا ہے کہ کم از کم مادی سطح پر سب سے پہلا مسئلہ جو آج کی دنیا کو درپیش ہے ماحولیاتی بحران ہے کیوں کہ انسان اور ان کے طبعی ماحول کے درمیان توازن تباہ ہو چکا ہے۔ اسلام اور اس کے علوم کے پاس خاص طور پر وہ فوری اور بروقت پیغام ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا ممکنہ حد تک دنیا کو درپیش اس گھمبیر مسئلے کو حل کرنے میں مدد کر سکتا ہے افسوس ہے کہ یہ پیغام خود جدیدیت زدہ مسلمانوں کی نگاہ توجہ سے روپوش ہے۔
ہمیں معلوم ہے کہ مسلمان نے طبعی علوم کو بہت شوق سے پروان چڑھایا۔ ان میں فلکیات طبیعیات اور طب شامل تھی اور ان علوم میں انھوں نے بڑے بڑے اضافے کیے لیکن اس کے باوجود عالم طبعی سے ان کا توازن کبھی ضائع نہیں ہوا۔ ان کے علوم طبیعی ہمیشہ اس فلسفہ طبیعی کے سیاق و سباق میں پروان چڑھے جو کائنات کے کلی نظام اور اسلامی تناظر سے ہم آہنگ تھا۔ اسلامی سائنس کے پس منظر میں عالم طبعی کا ایک ایسا سچا فلسفہ موجود ہے کہ جسے اگر سامنے لا کر آج کی زبان میں پیش کیا جائے تو اسے موجودہ جعلی طبعی فلسفے کی جگہ رکھا جا سکتا ہے اس لیے کہ یہ مؤخر الذکر فلسفہ اُصول اولیہ کے سچے مابعد الطبیعیاتی فہم کی کمی سے مل کر اس بحران کا بڑی حد تک ذمہ دار ہے جو آج انسان اور عالم طبعی کے درمیان واقع ہو رہا ہے۔
افسوس ہے کہ مسلمانوں نے خود بھی اسلام کی سائنسی میراث کا شاذ ہی مطالعہ کیا ہے اور جب کبھی کیا بھی ہے تو عموماً اس کی بنیاد ایک احساس کمتری پر رکھی گئی جس سے اس موضوع پر لکھنے والے مصنّفین یہ ثابت کرنے پر مجبور ہوتے رہے کہ مسلمانوں نے اہل مغرب سے پہلے ہی سائنسی اکتشافات کر لیے تھے لہٰذا وہ مغرب والوں سے باعتبار تمدن پیچھے نہیں ہیں۔ ایسا کبھی کم ہی ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے اس قیمتی سائنسی ورثے پر بطور ایک متبادل راہ کے غور کیا جائے۔ اسے عالم طبعی کی ایسی سائنس سمجھا جائے جو اس خوفناک انجام سے بچ سکتی ہے اوربچ چکی ہے جسے جدید سائنس اور اس کے تکنیکی اطلاقات نے انسانوں کے لیے پیدا کر دیا ہے، صاحب بصیرت مسلمانوں کو اس بات پر ناز کرناچاہیے کہ انھوں نے سترھویں صدی کا وہ سائنسی انقلاب برپا نہیں کیا جس کا منطقی خمیازہ آج ہمارے سامنے ہے۔ مسلمان مفکرین اور اہل علم کو اس بات کی تربیت حاصل کرنا چاہیے کہ اسلامی علوم میں موجود طبعی فلسفے کو پھر سے تازہ کر سکیں اور ان علوم کا از خود مطالعہ کر سکیں۔
سطورِ بالا میں جو مطمع نظر پیش کیا گیا ہے وہ جدیدیت زدہ مسلمانوں کے عزائم سے بہت مختلف ہے جو اس بات کو اپنے لیے باعث افتخار جانتے ہیں کہ اسلام نے نشاۃ ثانیہ کے لیے راہ ہموار کی۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ چوں کہ نشاۃ ثانیہ تاریخ کا عظیم الشان واقعہ ہے اور چوں کہ اسلامی تمدن و ثقافت نے اس کی تشکیل میں مدد کی لہٰذا اسلامی تمدن بھی کوئی قابل قدر چیز ٹھہرے گا۔ استدلال کا یہ طریقہ لغو طریقہ ہے کہ اس میں یہ بات سرے سے فراموش کر دی جاتی ہے کہ آج جدید دنیا جن مصائب کا شکار ہے وہ انھی اقدامات کا نتیجہ ہیں جو مغرب نے زیادہ تر نشاۃ ثانیہ ہی کے دور میں کیے تھے جب مغرب کا انسان بڑی حد تک اپنے خداداد دین سے بغاوت کر رہا تھا۔ مسلمانوں کو شکر ادا کرنا چاہیے کہ انھوں نے خدا سے بغاوت نہیں کی اور اس روحانیت دشمن انسان پرستی میں ان کا کوئی حصہ نہیں تھا جو آج زیر انسانی دنیا کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ اسلام نے تو کیا ہی یہی ہے کہ انفرادیت پرستی پر مبنی بغاوت کی بیج کنی کر دی، انکار و استکبار کی روح کے اس مظہر کی جو نشاۃ ثانیہ کے بیشتر آرٹ میں صاف ظاہر ہے اور جو اسلام کی روح سے قطبین کا بعد رکھتا ہے کہ اسلام کی بنیاد ہی خدا کے سامنے سپر اندازی پر استوار ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ اسلامی سائنس اور ثقافت مغرب میں آغازِ نشاۃ ثانیہ کے اسباب میں سے ایک تھی مگر اسلام عناصر اس میں صرف اس وقت استعمال ہوئے جب ان کے اسلامی تشخص سے انھیں جدا کر دیا گیا اور اس کلی نظام سے توڑ لیاگیا جہاں ان کی پوری معنویت اور اہمیت ممکن تھی۔
مسلمانوں کو اسلامی علوم کے مطالعہ کو پھر سے جلا دینا چاہیے اولاً نئی نسل پر یہ واضح کرنے کے لیے کہ مسلمانوں نے صدیوں تک علوم طبعی کی پرورش کی ہے بشمول اس ریاضی کے جو آج ثانوی سکولوں میں پڑھائی جاتی ہے اور اس کے باوجود پکے مسلمان رہے جب کہ آج کے نوجوانوں میں عام رجحان ہے کہ الجبرا کاپہلا قاعدہ یاد کرتے ہی نما ز پڑھنا ترک کر دیتے ہیں۔ ثانیاً اس لیے کہ اسلامی سائنس اور اسلامی فلسفہ و کلام و مابعد الطبیعیات میں جو داخلی ربط و توافق ہے اسے سامنے لایا جا سکے۔ مذکورہ بالا علوم طبعی سے بھی اس ربط و توافق کا قریبی تعلق ہے۔ اسلامی سائنس پر ابن سینا، خیام اور البیرونی جیسے مشاہیر کی تصانیف کا مطالعہ انھی دونوں مقاصد کے لیے کیا جا سکتا ہے۔
آخر میں ہم ایک مرتبہ اسی بات پر زور دینا چاہتے ہیں کہ اسلام اور اسلامی تہذیب کی حفاظت کے لیے اسلام کی روایت کا شعوری اور عقلی دفاع کرنا ہوگا۔ مزید برآں جدید دنیا اور اس کی کوتاہیوں پر بھرپور فکری تنقید کرنا ہوگی۔ مسلمان اگر وہ راستہ اختیار کریں گے جو مغرب نے کیا تو اسی جکڑ بند میں گرفتار ہو جائیں بلکہ اس سے بدتر صورت حال کاشکار ہوں گے کہ آج تغیر کی رفتار پہلے سے کہیں بڑھ چکی ہے۔مسلمانوں کے دانشور طبقے کو اس مضمون میں مذکور اور دیگر بہت سے خطرات کا مقابلہ خود اعتماد ی سے کرنا چاہیے۔ نفسیاتی اور ثقافتی احساس کمتری کی جس کیفیت میں وہ زندہ ہیں اسے اب ختم ہو جانا چاہیے۔ انھیں نہ صرف اپنی صف بندی کرنا چاہیے بلکہ ایشیا کی دیگر عظیم روایتوں سے مل کر اپنی طاقت میں اتنا اضافہ کرنا چاہیے کہ وہ نہ صرف دفاعی حیثیت سے نکل آئیں بلکہ آگے بڑھ کر حملہ بھی کر سکیں اور اپنی دانش کے اس خداداد خزینے سے وہ دوا فراہم کریں جو جدید دنیا کو اس کے خطرناک ترین مرض سے شفا دے سکے اور اس کے موجودہ بحران سے ان کے لیے نجات کا باعث ہو۔ مگر اس کام کا انحصار اس بات پر ہے کہ مریض کو شفایاب ہونے کی کتنی خواہش ہے۔
اگر ہم موجودہ صورت حال کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یاسیت زدہ نقطۂ نظر بھی اختیار کریں اور یہ مان لیں کہ اب کسی چیز کو بچانا ممکن نہیں تب بھی حق کا اظہار سب سے بڑا کار خیر ہے اور اس کے اثرات عام طور پر سمجھی جانے والی حدود سے کہیں دور تک پہنچتے ہیں۔ لہٰذا حق کو پوری قوت سے واضح کرنا لازم ہے اور اسلام کا عقلی دفاع ہر اس محاذ پر کرنا ہوگا جہاں اسے خطرہ درپیش ہے۔ نتیجہ خدا کے ہاتھ میں ہے جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا:جاء الحق و ذہق الباطل O ان الباطل کان ذ ہوقا۔ واللہ اعلم