کچھ نہ تھا تو کہاں سے ہوا؟

پیغمبرانہ تجربات نے حق تعالیٰ کے لامحدود کمالات اور صفاتِ اعلیٰ یا اسماءِ حسنیٰ کے متعلق جن واقعات کا مشاہدہ اور علم حاصل کیا ہے مادّہ پرستوں اور خدا پرستوں کے درمیان حقیقی اختلاف کی سرحد یہیں سے شروع ہوتی ہے ، یہی پیغمبروں اور دہریوں کی بحت کا اصل خطِ جنگ ہے۔

ہم جن کمالات و اوصاف کو اللہ کے مختلف مظاہر میں محسوس کر رہے ہیں مثلاً ارادہ، اختیار، حیات، علم، بینائی، شنوائی اور قدرت وغیرہ کے متعلق مادہ پرستوں کا یہ وہم یعنی بغیر جانے ہوئے ہے کہ ابتداء میں مادہ ان کمالات سے بالکل مفلس تھا، اس میں نہ زندگی تھی نہ علم تھا، نہ ارادہ اور نہ شعور، غرض کچھ نہ تھا، پھر رفتہ رفتہ ارتقاء کے مختلف مدارج کو بخود طے کرتے ہوئے ان نابود اور معدوم صفات کا اس میں نمود اور بود شروع ہوا، جس کا حاصل یہی ہوا کہ ان لوگوں کے نزدیک جو نہ تھا وہ ہوا اور ہو رہا ہے۔۔!

عجیب بات ہے یہ وہی عقل ہے جسے جو نیست محض (Nothing)کے ہست(Something) ہونے کو سوچ نہیں سکتی تھی، جس کےنزدیک نیستی سےہستی کی پیدائش ایک ناقابلِ تصور خیال تھا، اُسی عقل اور اُسی فطرت میں کیا یہ عجیب و غریب دعویٰ سما سکتا ہے کہ جو نہ تھا اس کے ہونے کا یقین کرے، آخر جس میں زندگی نہ تھی اُس میں زندگی، جس میں علم نہ تھا اس میں علم، جس میں ارادہ نہ تھا اس سے ارادہ، جس میں اختیار نہ تھا اس سے اختیار، جس میں قدرت نہ تھی اس سے قدرت نکلنے کے کیا یہی معنیٰ ہوئے کہ جو نہ تھا وہ ہوا، جو نیستی تھی وہ ہستی بنی؟

مگر مادہ پرست اسی کے ماننے پر آدمی کو مجبور کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ یہی عقل کی بات ہے، سوچو! کیا اس سے بڑے درجہ کی بھی کوئی سفاہت اور دیوانگی ہوسکتی ہے؟

ہستی کے ہر ذرہ میں جن کمالات اور خوبیوں کی نمائش ہورہی ہے کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ نہ تھے اور ہوگئے ہیں؟ کیا تمہاری عقل اس بات کو سوچ سکتی ہے کہ نیسی(کچھ نہیں) سےہستی بنی؟ جب ایسا نہیں ہے تو یقین کرو کہ جہاں کہیں، جس کسی میں، جب کوئی ایسا کمال نظر آتا ہے جس کی تعریف کی جاتی ہے تو ان سب کا مرجع اور چشمہ وہی ازلی وجود ہے جو ان کمالا سے ازلاً و ابداً موصوف تھا اور ہے، اور جو ہمارے تمام محسوسات و معموملات (عاملین) کے آئینہ میں اپنے کمالات کو مختلف طریقوں سے چمکا رہا ہے اور وہ جو کائنات کے ہر ذرّہ کی ستائش و حمد کے گیت گاتے ہیں، لیکن اپنی بدعقلی سے جو ان کا بنیادی وجود اور حقیقی سرچشمہ ہے اس کا مادّہ نام رکھ کر ہر قسم کےکمالات سے اُسے بہ بہرہ سمجھتے ہیں یا سمجھنا چاہتے ہیں، صرف یہی نہیں کہ جو نہ تھا اس کے ہونے کا دعویٰ کرکے انسان کے اندرونی احساسات کو زیر و زبر کر رہے ہیں، بلکہ اگر غور کیا جائے تو فطرت پر ان کے جاہلانہ مظالم کا سلسلہ بہت وسیع نظر آئے گا۔

مثلاً اگر سوئی کے ناکے سے اونٹ کے گذرجانے پر اصرارِ عقل کے ساتھ اگر ظالمانہ چیرہ دستی ہے تو کیا یہی ظلم عقلِ انسانی پر وہ نہیں کر رہے ہیں جو ہر قسم کے کمالات سے مفلس مادّہ سے کائنات کے اس محیر العقول حیرتناک نظام کو نکالنا چاہتے ہیں؟

آسمان و زمین، ثوابت و سیارے، دریا، پہاڑ، حیوانات و انسان وغیرہ کے متعلق پوچھا جاتا ہے کہ یہ سب کہاں سے آئے؟ اب جو اس کے جواب میں مجبور و لاچار اور بے علم و بے جان مادّہ کا نام بغیر کسی مشاہدہ اور تجربہ کے لیتا ہے، بتاؤ اس نے اپنی عقل پر پتھر مارا یا جو اپنے ذاتی تجربہ کی بنیاد پر خدائے قادر و توانا کا نام جپتا، اس نے ہماری فہم کے فطری قوانین کے ساتھ انصاف کیا؟ کسی اثر اور معلول کے لئے کسی مؤثر کسی علت کا صرف فرض کرلینا ہی کافی نہیں بلکہ علت و معلوم اور اثر و مؤثر میں تناسب کا لحاظ بھی ضروری ہے، کسی مجذوب نے سچ کہا تھا کہ ’’تم انگور سے ہاتھی کب تک ٹپکاؤ گے‘‘۔

کیسی عجیب بات ہے کہ اس عالم میں دیکھتے ہیں کہ آنکھیں بن رہی ہیں، چند خاص پردوں کے ساتھ بن رہی ہیں، ہر پردہ خاص قوانین کے تحت بن رہا ہے، یہی آنکھیں حیوانات میں بھی بن رہی ہیں، انسانوں میں بھی بن رہی ہیں، امریکہ میں بن رہی ہیں، ایشیاء میں بھی بن رہی ہیں، ہر جگہ ہر پردہ اپنے اپنے قوانین کے تحت بن رہا ہے، الغرض جس چیز کو دیکھوگے اس میں ایک خاص قسم کی ترکیب، یکسانیت اور ہمواری نظرآئے گی، اور کیسی ترکیب، کیسی ہمواری؟ بقول بعض ’’فطرت کے قوانین کیا ہیں؟ ایک بلیغ نظم، ایک ایسا موزوں شعر کہ اگر اس کا ایک لفظ بھی اپنی جگہ سے نکال دیا جائے تو سارا نظمِ شعری بگڑ جاتا ہے‘‘، یہی حال اس علم کا ہے، کسی ایک چیز کو نکال کر دیکھو اور اندازہ کرو، بہر حال پوچھا جاتا ہے کہ یہ کس کی قدرت کے کرشمے ہیں؟ اب عقل کے ساتھ کیا یہ تمسخر نہیں ہے کہ اس کے جواب میں اس کا نام لیا جائے جس کو ہر قسم کی قدرت سے مفلس فرض کیا جاتا ہے۔أَفِي اللَّهِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ۔ (ابراہیم:۱۰)

آفتاب نکلتا ہے یا زمین گھومتی ہے جو طریقۂ تعبیر بھی اختیار کیا جائے، بہر حال ٹھیک چوبیس (۲۴) گھنٹوں میں یہ یومیہ دورہ حتم ہوجاتا ہے اور تین سو پینسٹھ (۳۶۵) دن اور کچھ منٹ وغیرہ میں یہ سالانہ گردش پوری ہوتی ہے، اور جس وقت تک کی تاریخ ہمارے پاس موجود ہے معلوم ہے کہ اس وقت یہی ہوتا رہا ہے اور اب بھی یہی ہورہا ہے اور ایک آفتاب اور زمین ہی کیا، عالم کی ہر چیز چند ایسے اٹل قوانین کی گرفت میں جکری ہوئی ہے کہ آج انہی کے استحکام پر ہمارے تمام علوم و فنون کی بنیاد ہے، پوچھا جاتا ہے کہ ان دقیق، نازک، مضبوط و مستحکم اور ہمہ گیر قوانین کی بات کس کے ہاتھ میں ہے؟ قرآن پاک اس کے جواب میں کہتا ہے:ذَلِکَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ۔(یٰسٓ:۳۸) یہ سب اس کے ناپنے اور جانچنے کا نتیجہ ہے جو ہر چیز پر غالب اور علم والا ہے۔


بتاؤ انسانی عقل کی تشنگی اس سے بجھتی ہے ؟یا اس جواب سے کہ کہا جائے:ذٰلک اتفاق المجبور الجاھل۔ یہ ایک لاچار اور علم و قدرت سے یکسر عاری مادّہ کے اتفاقی اثرات کا نتیجہ ہے۔

اور سچ یہ ہے کہ اس قسم کے مضحکہ انگیز حماقتوں کا صدور انہی لوگوں سے ہوسکتا ہے جنہوں نے فطرت اور اس کے نازک استوار قوانین پر کبھی غور ہی نہیں کیا یا جن کی زندگی صرف فسق و فجور، مسخرے پن اور اوباشی میں گذری ہو، ورنہ سچے سوچنے والوں نے ہمیشہ یہی کہا جسے پیغمبروں نے دیکھا، عہدِ جدید کا سب سے بڑا مفکر نیوٹن جس نے اپنے ایک معلوم کردہ قانون کے ذریعہ سے انسانی سمجھ کا رخ پھیردیا تھا، قانون جذب و کشش کی تشریح کرنے کے بعد لکھتا ہے:’’کائنات کے اجزاء میں باوجود ہزاروں انقلاباتِ زمان و مکان کے جو ترتیب اور تناسب ہے وہ ممکن نہیں کہ بغیر کسی ایسی ذات کے پایا جاسکے جو سب سے اوّل صاحبِ علم و ارادہ و با اختیار ہو‘‘۔

نظامِ ہستی کا ایک خود بخود ہستی پر ختم ہونا، اس کا ہمیشہ ہمیشہ سے ہونا، ایک ہونا، اس کا ہر قسم کے اعلیٰ کمالات اور برتر و گرامی صفات سے موصوف ہونا ثابت ہوچکا ہے کہ حق سبحانہ تعالیٰ کے متعلق پیغمبروں کے یہ ایسے ذاتی تجربے اور مشاہدے ہیں کہ عقلِ انسانی اس کے سواء کسی اور چیز کو مان بھی نہیں سکتی، اور یہی وجہ ہے کہ چند ماؤف العقل پیشہ ور فلسفیوں کے سواء فطرت بشری قریب قریب ہر زمانہ میں اور ہر ملک میں ایمان کے اس جزء کے ساتھ متفق رہی ہے۔