ابوالولید محمد ابن احمد محمد ابن رشد1128ء میں مسلم اسپین کے دارالخلافہ قرطبہ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کا شمار اپنے زمانے کے مشہور مالکی فقہاء میں ہوتا ہے ، آپ کی کتاب “بدایۃالمجتھد و نھایۃالمقتصد” فقہ ، اصول فقہ اور فقہی مسالک پر مشہور ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔فلسفے میں ابن رشد کو ارسطو کی کتب کا شارح سمجھا جاتا ہےاسکے علاوہ آپکی شہرت امام غزالی کی کتاب ‘تہافت فلاسفہ’ کے رد میں آپ کی لکھی گئی کتاب “تہافت التہافت” کے حوالے سے بھی ہے جس میں آپ نےیہ ثابت کیا کہ ابن سینا اور الفارابی کے نظریات ارسطو کی صحیح ترجمانی نہیں کرتے اس لیے امام غزالی نے جو انکے حوالے سے ارسطو کے نظریات کا رد کیا ہے وہ درست نہیں ہے ۔(ہم غزالی اور ابن رشد کے قضیے کو چند دن پہلے تفصیل سے زیر بحث لاچکے ہیں، اختلاف کی نوعیت ان میں دیکھی جاسکتی ہے) ۔ ابن رشد کی ارسطو پر لکھی شرحیں یورپ میں ارسطو کا ورثہ سمجھی جاتی ہیں، یوں کہا جاسکتا ہے کہ یورپ نے یونانی فلسفہ، یونانی زبان سے نہیں بلکہ ابن رشد کی شرح اور ان کے اضافے سے سیکھااور مغرب میں سائنس اور فلسفہ داخل ہی ابن رشد کے ذریعے ہوا ۔
ابن رشد کا تعلق فلسفیوں کے اس گروہ سے ہے جو مذہب اور فلسفہ میں مطابقت کے قائل ہیں ۔ ابن رشد کا خیال ہے کہ مذہب اور فلسفہ میں اصولی طور پر کوئی اختلاف نہیں ہے کیوں کہ دونوں کا مقصد ایک ہے۔ مذہب کا بنیادی مقصد حقیقتِ اعلیٰ یعنی خدا کا عرفان ہے اور یہی فلسفہ کا بھی اصلی ہدف ہے۔(جدید فلسفہ کا رخ مابعد الطبیعاتی مسائل کے بجائے عالمِ طبیعی کی طرف ہوگیا ہے۔ اور اس کی وجہ بالکل واضح ہے۔ یورپ میں نشأۃ ثانیہ کا آغاز مذہب مخالف رجحانات کے تحت ہوا اس لیے مابعد الطبیعاتی مسائل سے فلسفہ کی عدم دلچسپی بلکہ مخاصمت ناگزیر تھی۔ اب عقیدے کی جگہ عقل نے لے لی، جدید فلسفہ نے اپنی ترجیحات میں انسان، سول سوسائٹی اور نظامِ فطرت کو اہم جگہ دی اور ان ہی امورِ ثلاثہ سے متعلق مسائل اس کی بنیادی فکر کی حیثیت سے زیرِ بحث آئے ہیں)ابن رشد نے لکھا:’’فلسفہ کا کام اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے کہ موجودات اور اس کے متعلقات پر اس حیثیت سے غور کیا جائے کہ وہ صانع کی طرف رہ نما ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب صنعت کی معرفت حاصل ہوگئی تو صانع کی معرفت بھی بدرجۂ اتم حاصل ہوگئی۔‘‘ (فصل المقال فیما بین الحکمۃ والشریعۃ من الاتصال، علامہ ابن رشد، اردو ترجمہ: عبید اللہ قدسی، اقبال ریویو، جنوری ۱۹۶۸ء، ص ۱۲) مذہب اسلام نے بھی اہل علم کے لیے خدا کی معرفت کا یہی طریقہ بتایا ہے، یعنی مظاہرِ عالم پر غوروفکر کرکے اصل حقیقت تک رسائی حاصل کرنا۔ ابن رشد نے لکھا ہے :’’ شریعت نے موجودات پر عقل کے ذریعہ غور کرنے اور اس کے ذریعہ ان کی معرفت حاصل کرنے کی دعوت دی ہے، اور یہ بات اللہ تبارک و تعالیٰ کی کتاب کی آیات سے بالکل واضح ہے جیسا کہ اس نے فرمایا : أَوَلَمْ یَنظُرُوْا فِیْ مَلَکُوْتِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّہُ مِن شَیْْءٍ(سورہ اعراف:۱۸۵) یہ آیت تمام موجوداتِ عالم پر غور کرنے کی ترغیب کے لیے ایک پختہ دلیل (نص) ہے۔‘‘ (ایضاً) ابن رشد کا یہ بھی خیال ہے کہ شریعت نے موجوداتِ عالم پر غور وفکر کی جو دعوت دی ہے اس کا سب سے اعلیٰ ذریعہ عقل و منطق ہے :’’ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ شریعت نے موجودات اور اعتبارِ موجودات پر عقل کے ذریعہ غور کرنا واجب کردیا ہے، اور اعتبار اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے کہ معلوم سے مجہول کا استنباط اور ستخراج کیا جائے جس کا نام قیاس بالقیاس ہے۔ تو اب یہ بھی واجب ہے کہ ہم موجودات میں قیاسِ عقلی کے ذریعہ غور کریں۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ غور کرنے کی قسموں میں سب سے زیادہ مکمل اور قیاس کی قسموں میں سے سے زیادہ بہتر قیاس کا نام ’’برہان‘‘ ہے۔‘‘ (ایضاً ، ص ۱۳)
امام غزالیؒ (م ،۱۱۱۱ء) نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’تہافۃ الفلاسفہ‘‘ میں فلسفہ کے بیس ایسے مابعد الطبیعاتی مسائل کا ذکر کیا ہے جو مذہب کی رو سے قابلِ اعتراض ہیں ۔ان مسائل میں سے چار مسئلے ایسے ہیں جو ارباب مذہب کی نظر میں مذہبی تعلیمات سے صریحاً متصادم ہیں وہ یہ ہیں : قدامتِ عالم، خرقِ عادت (معجزہ) کا انکار، حشر اجساد اور روح کی انفرادی بقا کا انکار۔ ان مسائل میں ابن رشد نے ارسطو کی پیروی کی ہے لیکن مذہبی خیال کو بھی بالکلیہ رد نہیں کیا بلکہ ہر مسئلے کی توجیہ اس طور پر کی ہے کہ مذہب اور فلسفے میں مطابقت پیدا ہو جائے۔ ابن رشد سمیت اکثر مسلم جدت پسند فلاسفہ نے یہی کوشش کی کہ جن مابعد الطبیعاتی مسائل میں فلسفہ اور مذہب ہم آہنگ نہیں ہیں ان میں تطبیق کی صورت پیدا کی جائے اور اختلاف کو رفع کیا جائے۔ لیکن اس کوشش میں انھوں نے مذہب کے ساتھ انصاف نہیں کیا اور فلسفہ سے ان کی ذہنی مرعوبیت صاف ظاہر ہے۔ان کے نزدیک اختلافی مسائل میں مذہب اور فلسفہ کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی ایک ہی صورت ہے کہ فلسفہ کی روشنی میں مذہب کے نقطۂ نظر کو سمجھا جائے اور اس کی ایک ایسی تاویل کی جائے جو ’’برہان‘‘ کے مطابق ہو۔ ابن رشد فلسفہ اور مذہب میں جس نوع کی مطابقت کا خواہاں تھے اس کی نوعیت بالکل اسی قسم کی ہے۔ وہ فلسفہ کو سچائی کی سب سے اعلیٰ شکل خیال کرتے اور سمجھتے تھے کہ اس کے برہانی نتائج ہمیشہ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں۔( ہسٹری آف فلاسفی اِن اسلام، پروفیسر ٹی، جے، ڈی بوئر، انگریزی ترجمہ: ایڈروڈ آر جونس بی ڈی، لندن، ۱۹۶۵، ص ۱۹۹، انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا، ج ۱۷، ص ۷۴۹) اس معاملے میں ابن رشد پر تنقید کی جاتی رہی ہے لیکن اسکی بنیاد پر انکو کبھی ملحد یا کافر نہیں قرار دیا گیا نا دیا جاسکتا ہے ۔
٭ابن رشد کی کتابوں کو کس نے اور کیوں جلایا:
ابن رشد نے اشبیلیہ میں قاضی کا منصب سنبھالا اور خلیفہ الموحدی ابی یعقوب یوسف کے کہنے پر ارسطو کے آثار کی تفسیر لکھنی شروع کی، وہ خلیفہ کی خدمت میں مشہور فلسفی ابن طفیل کے ذریعے سے آئے تھے پھر قرطبہ چلے گئے اور قاضی القضاہ کا منصب سنبھالا، اس سے دس سال بعد مراکش میں خلیفہ کے خاص طبیب کی حیثیت سے متعین ہوئے۔مگر سیاست اور نئے خلیفہ ابو یوسف یعقوب المنصور (1184-1198) کی فلسفیوں سے نفرت اور حاسدین کی سازشوں نے خلیفہ کو مجبور کردیا کہ وہ ان پر کفر کا الزام لگا کر اسے الیسانہ (قرطبہ کے پاس ایک چھوٹا سا شہر جس میں زیادہ تر یہودی رہتے ہیں) بدر کردے، خلیفہ نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کی تمام فلسفیانہ تصانیف کو آگ لگادی اور طب، فلک اور حساب کے علاوہ فلسفہ سمیت تمام جملہ علوم پر پابندی عائد کردی۔ بعد میں خلیفہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ ابن رشد سے راضی ہوگیا اور انہیں اپنے دربار میں پھر سے شامل کرلیا مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی اور زندگی کے چار دن دونوں ہی کے پورے ہوچکے تھے.ابن رشد اور خلیفہ المنصور دونوں ہی اسی سال یعنی 1198ء عیسوی کو مراکش میں انتقال کرگئے۔
سیکولر مفکرین میں سے سبط حسن نے اسکا الزام مذہبی طبقے کو دیا اور اس بنیاد پر مذہبی طبقے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ اس واقعے کی اصل حقیقت اسکے بالکل برعکس ہے ۔ابن رشد کو نشانہ بنایا جانا محض مذہب کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اس میں حسد کا عنصر شامل تھا ۔جو لوگ ابن رشد کی شہرت سے حسد کرتے تھے انہوں نے ابن رشد کے خلاف مذہب کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔یہ لوگ مذہبی طبقہ کے نمائندہ نہیں تھے بلکہ درباری حاسدین تھے جنہوں نے ابن رشد کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کیا اور خلیفہ بھی ان کی باتوں میں آگیا لیکن جب خلیفہ کو اس اصل حقیقت کا پتہ چلا کہ یہ سب محض حسد کی وجہ سے کیا گیا ہے تو وہ بہت شرمندہ ہوا اور ابن رشد سے راضی ہوگیا اور اسے دوبارہ اپنے دربار میں جگہ دی۔
عبدالواحد المراکشی جو ابن رشد کے ہم عصر ہیں کی سن 1224 کی تحریر سے ایک اقتباس پیش ہے جو اصل صورتحال کو واضح کرتا ہے۔:
” اور یعقوب المنصور کے دور میں ابوالولید ابن رشد کو اس کی شدید مخالفت کا سامنا رھا اور اس کی دو وجوھات میں سے ایک معلوم ھے اور دوسری خفیہ۔ خفیہ وجہ جو کہ اصل ہے وہ یہ ھے کہ ابن رشد نے جب ارسطو کی کتاب ا ‘جانوروں کی تاریخ’ کا خلاصہ اور تبصرہ لکھا تو لکھا :”اور میں نے بر بر کے بادشاہ کے باغیچے میں ایک زرافہ دیکھا”۔ اور اسی انداز میں وہ کسی اور علاقے اور لوگوں کے بادشاہ کا بھی تذکرہ کرتے کیونکہ عام طور پر لکھاری اسی طرح کرتے ہیں ۔ لیکن وہ اس بات کا خیال کرنا بھول گئے کہ جو لوگ بادشاہ کی خدمت میں ہوتے ہیں انہیں پہلے اسکی تعریف کرنی چاہیے اور اسکے رسمی پروٹوکول کا خیال کرنا چاہیے ۔ یہ بات بادشاہ کو سخت بری لگی لیکن لیکن اس نے اسے دل میں ہی رکھا اسے ظاہر نہیں ہونے دیا حالانکہ ابوالولید نے یہ سب نیک نیتی سے لکھا تھا۔۔ پھر ایسا ھوا کہ قرطبہ میں موجود ابوالولید کے چند دشمن جو اس کی علم اور مقام کی وجہ سے اس سے سخت حسد رکھتے تھے اور اسکو نیچا دکھانے کی کوشش میں رہتے تھے ‘ بادشاہ یعقوب المنصور کے پاس گئے اور انھیں ابوالولید کی اپنے ہاتھ سے قدیم فلسفہ پر لکھی ھوئی کچھ تحاریر کے اقتباسات لے کر گئے ۔ انہوں نے اسکے ایک پہرے کو سیاق و سباق سے ھٹ یوں پیش کیا ” اس سے پتا چلتا ہے کہ وینس خداؤں میں ایک خدا ہے ” ۔ بادشاہ نے قرطبہ کے والی اور بزرگ کو بلا کے انکے سامنے ابوالولید سے پوچھا کہ ” کیا یہ تمہاری لکھائی ہے “؟ ابو الولید نے انکار کیا تو اس پر بادشاہ نے کہا کہ” جس نے بھی یہ لکھا ھے اس پر خدا کی لعنت”۔اور حکم دیا کہ عبدالواحد کو جلاوطن کر دیا جائے اور فلسفہ کی تمام کتابیں اکٹھی کرکے جلا دی جائیں ۔ اور جب میں(راقم) فس میں تھا تو میں نے دیکھا کہ بہت ھی زیادہ تعداد میں کتابیں گھوڑوں پر لاد کر لائی گئیں اور انھیں جلا دیا گیا۔(عبدالواحد المراکشی ، الموجب فی تلخیص الاخبار المغرب ( دی پلیزنٹ بک ان سمرائزئنگ دی ہسٹری آف مغرب )، صفحہ 150-151(1224))
استفادہ تحریر: ڈاکٹر احید حسن، محمد بلال، پروفیسر الطاف احمد اعظمی