دعوت کا کام اور کمپرومائز کی بیماری

امام ذھبی ؒ نے اپنی شاندار کتاب “سِيَر اَعلامِ النُبَلاء” میں ایک نہایت شاطرزندیق ابوالحسن الراوندی کا خاکہ تحریر کیا ہے جو پہلے عقلیت پسندی اور اس کے بعد اس سے بھی بدتر الحاد کا شکار ہوا۔ الراوندی کے خلاف بہت سی روایات اور واقعات تحریر کرنے کے بعد اور اسے اپنے دور کا سب سے ذہین دانشور ثابت کرنے کے بعد امام صاحب حاصلِ کلام کے طور پریوں تبصرہ کرتے ہیں کہ دراصل اس شخص کا علم اسکی عقل سےذیادہ تھا. اللہ کے ہاں عقل بغیر ایمان کے ملعون ہے جبکہ تقویٰ ذہانت و فطانت کے بغیر بهی مقبول ٹھہرتا ہے۔

بلاشبہ اسلام علم و استدلال ، جستجو اور غور و خوض کی حوصلہ افزائی کرتا اور جہالت و دقیانوسیت کو نا پسند کرتا ہے ۔ تاہم ایسی سادہ لوحی اور بھولپن جس میں تقویٰ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے ، نفس قابو میں رہے اور زبان اللہ کےذکر سے تر ہو، ایسی عبقریت سے ہزار درجے بہتر ہے جو انسان کو اسکے رب کی پہچان نہ کروا پائے۔ کیا خوش نصیب تھیں ہمارے پرانے وقتوں کی وہ بوڑھی مائیں جو بہت زیادہ علم نہ رکھنے کے باوجود خلوصِ نیت کے ساتھ توحید و عبادت پر کاربند رہیں۔

یہ مسئلہ حقیقتاً نہایت سنگین ہے ۔ آج کے پُرفتن دور میں کوئی بھی شخص بآسانی اپنی ذہانت کے زعم میں مبتلا ہو سکتا ہے ۔ خاص طور پر مغربی ممالک میں کام کرنے والے مبلغین جن کی اکثریت نے کسی ثقہ عالم سے علم حاصل نہیں کیا ۔ اور وہ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اسلام کی تشریع و تبلیغ میں مشغول ہیں ۔ یہ لوگ چہار جانب سے غیر مسلموں میں گھرے ہوئے ہیں جو ان کے آگے نت نئےسوالات اٹھاتے، ان کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں پھر نہلے پر دہلا یہ کہ ان مبلغین کی اکثریت کسی نہ کسی مغربی یونیورسٹی کے شعبہ سائنس ، ادیان ، یا اسلامیات سے وابستہ ہے۔ عوام الناس سے خطاب کرنے کی خواہش ، میڈیا کا دباؤ ، احباب کی آراء و تبصرے ، عام سیکولر مزاج رکھنے والی عوام کی نکتہ چینیاں ، اکثر ہم لوگوں کو بڑے خطر ناک ، اہلِ سلف کی رائے سے مختلف اور بڑی حد تک ملحدانہ بیانات دینے پر مجبور کر دیتی ہیں ۔

میں یہ نہیں کہتا کہ اس فتنہ کا مقابلہ آسان ہے ۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ ہم اس بات کو فتنہ سمجھیں تو سہی!

اگر آپ بصارت کے ساتھ بصیرت بھی کھو بیٹھیں ، خود فریبی میں مبتلا ہو کر رضائے الہی پر دوستوں رشتہ داروں کی خوشنودی کو فوقیت دیں تو پھر تو وحدتِ ادیان کی بات کرنا ، حجاب کی فرضیت سے انکار کرنا ، اجماعِ امت والے معاملات میں شکوک پیدا کرنا ، ہم جنس پرستی کے کھلے عام مذمت سے اعتراض برتنا … کچھ بھی تو مشکل نہیں رہتا!!!

اس لیے مبلغین کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ ہمہ وقت اپنے سے سینئر اور ثقہ علمائے کرام کے ساتھ رابطے میں رہیں ۔ اپنے آپ کو صراطِ مستقیم پر رکھنے کا یہ واحد راستہ ہے ۔

آج ہم سے کوئی بھی اس فتنے سے محفوظ نہیں ۔ بہت سے اس میں پڑ چکے ہیں ، اور بہت سوں کے پڑنے کا اندیشہ ہے. ہمارے بہت سے ہر دلعزیز داعی بهی اس فتنے کے گرداب میں پھنسنے اور نکلنے کی لیے ہاتھ پاوں مارتے نظر آرہے ہیں ۔ہمیں چاہیے کی صورتحال کی سنگینی کا کو محسوس کریں ، اللہ سے گڑگڑا گڑگڑا کر دعائیں مانگیں کہ وہ ہمیں اس مصیبت سے نکالے اور عام عوام کے لیے فتنہ نہ بنائے.

ماخوذ