موجودہ دور میں الحاد ی لٹریچر کی تشہیر اور سوشل میڈیا پر سرگرم ملحدین نے علمی چیلنجز کا جو ماحول اور ذہنی تبدیلی کے لیے جو اثر انگیز حالات پیدا کردیے ہیں انکو دیکھتے ہوئے اس وقت ہمیں اردو زبان میں سب سے ذیادہ ایسے لٹریچر کی ضرورت ہے جو اسلامی عقائد و نظریات کے حق میں عقلی دلائل پر مبنی ہو اور اسکے ذریعے اُمت کے جدید تعلیم یافتہ اور ذہین طبقے کو فکری ارتداد سے بچایا اور اسکے ذہن و قلب میں اسلام پر یقین و اعتماد کو بحال کیا جائے ۔علماء کی ضرور ایسی سینکڑوں کتابیں موجود ہیں جو ایک عام آدمی کے اسلامی عقائد توحید، رسالت اور آخرت پر یقین پیدا کرنے کے لیے کافی ہیں لیکن جنھوں نے مغربی فلسفوں کا مطالعہ کیا ہے یا دور جدید کا الحادی لٹریچر اور سوشل میڈ یا پر ملحدین کے اعتراضات جن کی نظر سے گزررہے ہیں’ انکے لیے یہ کتابیں کافی نہیں ہیں۔ ملحدین خصوصا رچرڈ ڈاکنز ، برٹرنڈرسل ، کرسٹوفر ہیحنز اور وکٹر جے استینجر ، ڈین بارکر وغیرہ نے الحاد کے حق میں دلائل کی جو وسیع عمارتیں کھڑی کی ہیں’ وہ اچھے اچھے اہلِ ایمان کو متشکک کر دیتی ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ اس الحادی لٹریچر کے مقابلے کے لیے اردو زبان میں جدید اسلوبِ میں ہمارا موجودہ اسلامی تحریری سرمایہ کسی صورت کافی نہیں ہے۔ انگریزی زبان میں عیسائیوں نے اور اب مسلمانوں نے بھی اس محاذ پر بڑا قابلِ قدر کام کیا ہے لیکن اردو زبان میں اس موضوع پر گنے چنے لوگوں کی ہی کتابیں موجود ہیں جیسے مولانا مودوی ، وحیدالدین خان ، پروفیسر احمد رفیق اختر، ڈاکٹر مرتضی ملک، مبشر نذیر، مولانا عبدالباری ندوی، عبدالماجد دریابادی، حسن عسکری وغیرہ۔ ان کی کتابوں میں مذہب ، عقلیات اور سائنس پر گراں قدر مباحث ہیں لیکن ایک تو یہ ابحاث کافی نہیں ہے اور دوسرے قدیم ہیں اور جدید اشکالات کو بہت کم زیر بحث لاتی ہیں ۔جدید فکری موضوعات پر انصاری سکول آف تھاٹ نے کافی اچھا کام کیا ہے لیکن انکا فوکس مغربیت، جدیدیت اور کیپٹل ازم وغیرہ جیسے موضوعات پر ہے ، وہ مقبول عام الحادی لٹریچر و اعتراضات کو ڈائریکٹ زیر بحث نہیں لاتے ۔ اس پس منظر میں اسوقت ہمیں اردو میں امام غزالی کے طرز پر ایسی خالص علمی اور فکری کتابوں کی ضرورت ہے جو جدید فلسفہ ونظریاتی سائنس کی آڑ میں مذہب پر کیے گئے اعتراضات کو زیر بحث لائیں اور وہ بیوقت عام فہم بھی ہوں۔
اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے کچھ لوگوں نے کام شرو ع کیا ۔ حال ہی میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ کے خاندان کے ایک فرد مجیب الحق حقی صاحب کی ایک کتاب’خدائی سرگوشیاں ‘ کے نام سے سامنے آئی ہے۔ مصنف پہلے کافی عرصہ انگلش فورمز پر ملحدین کیساتھ علمی بحثوں میں متحرک رہے اور پھر انہوں نے اپنے علم اور تجربے کی بنیادی پر ‘دی ڈیوائن وسپرز ‘ کے نام سے کتاب لکھی جو مشہور سائیٹ ایموزون ڈاٹ کام پر بھی موجود ہے۔ خدائی سرگوشیاں اسی کتاب کا اردو ترجمہ ہے۔ مصنف نے اس میں مذہبی عقائد ونظریات پر جدید فلسفہ اور سائنس کی روشنی میں اٹھائے گئے اعتراضات کو جدید اسلوب میں زیر بحث لایا ہے۔دیباچہ میں لکھتے ہیں :
” میں خود الحاد کے نطریاتی حملے کا شکار ہوچکا ہوں لیکن گھر کے ماحول اور مضبوط اخلاقی اور یقین کی بنیاد نے مجھے لرزنے تو دیا لیکن گرنے نہیں دیا۔ تشکیک کا سفر کچھ عرصے جاری رہا لیکن ہر بات کی تہہ تک استدلال اور سادہ منطق کے ساتھ پہنچنے کی میری عادت نے رفتہ رفتہ مجھ پر عیاں کیا کہ اسلام کے علاوہ ہر نظریہ اپنی بنیاد میں سنگین خامیاں رکھتا ہے۔ بس انہی ذہنی مشقوں اور تجربات کو عامتہ الناس کے فائدے کے لیئے شیئر کر رہا ہوں۔ اگر ایک تشکیک میں مبتلا مسلمان یقین کا موتی پا لیتا ہے تو میں سمجھونگا کہ میری محنت کا پھل مل گیا”۔
کتاب خدائی سرگوشیاں سادہ استدلال اور منطق سے سائنس اور دین کے تعلّق کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے جس میں جدید نظریات اور سائنسی ابہامات کا تجزیہ عقلی بنیادوں پر کیا گیا ہے، مصنف نے اس میں معروف الحادی اعتراضات کا تنقیدی جائزہ لیا اور پھر اس کو علمی اصولوں کی کسوٹی پر پرکھا ہے ۔کتاب میں جابجا فلسفہ اور سائنس کی بحثیں موجود ہیں لیکن مصنف نے انکو اس قدر سادہ انداز میں پیش کیا ہے کہ عام آدمی بھی انہیں باآسانی سمجھ سکتا ہے، اپنے مخصوص طرزِ بیان اور جدید مثالوں سے مصنف نے ان خشک بحثوں کو بھی نیا آہنگ اور پُرتاثیر خوب صورتی بخشی ہے اور انہیں ہر قسم کے ذہن کے لیےقابلِ قبول بنا دیا ہے ۔ کتاب کے موضوعات بہت اہم، اچھوتے اور منفرد ہیں مثلا خالق، تخلیق اور انسانی شعور، وجودکا قفس ، وجودیت کے پیرائے ، روح ، حقیقتِ کبریٰ اور انسانی عقل، شئے عدَم یا لا شئے، حصارِ وجود اور انسان،خدا کا طبعی ثبوت، ہم کون ہیں؟ وغیرہ ۔ اس کتاب کی کچھ تحاریر کو ہم نے اپنے پیج سے اپنے گزشتہ الہیات کے تحریری سلسلے میں پیش کیا تھا ، ان کو پڑھ کر بھی کتاب کی اہمیت کا انداز لگایا جاسکتا ہے۔ وہ تحاریر ہماری سائیٹ پر اس لنک سے دیکھی جاسکتی ہیں۔
۔ اللہ مصنف کی اس محنت اور اخلاص کو قبول فرمائے اور اسے انکے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔