اہل مذہب اور ملحدین کا تعارف اور بنیادی فرق:
ملحدوں کے ساتھ مکالمے کے بنیادی اصول اور اہم ہدایات سے قبل ضروری ہے کہ آپ ملحدین کا ایک تعارف حاصل کر لیں تاکہ نکات کو سمجھنے میں آسانی ہو۔آپ نے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ یقیناً دیکھے ہوں گے، مثلا عیسائی، یہودی، ہندو وغیرہ۔ اسی طرح ہر مذہب کے مختلف فرقوں کے بارے میں بھی آپ بنیادی باتوں سے ضرور آگاہ ہوں گے، لیکن ملحدین عیسائیوں، یہودیوں، ہندووں اور سکھوں کی طرح کے کافر نہیں ہوتے، یہ ایک خاص قسم کے کافر ہوتے ہیں۔
اگر آپ نے مختلف مذاہب پر غور کیا ہو تو یقیناً جانتے ہوں گے کہ چاہیے کوئی شخص ہندو ہو، مجوسی ہو، عیسائی، یہودی یا سکھ ہو یا چاہے کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو، اس شخص کے کچھ مخصوص عقائد ہوتے ہیں، مخصوص مذہبی عبادات ہوتی ہیں اور وہ شخص زندگی کے تمام فیصلوں میں اپنے مذہب کے نکتہ نظر کو ضرور اہمیت دیتا ہے۔ مذاہب کو ماننے والے ان افراد کو اہل مذہبReligious People (مذہب کا ماننے والا) کہا جاتا ہے۔ مسلمان بھی اہل مذہب ہیں اور عیسائی، یہودی، ہندو، سکھ، بدھ اور مجوسی بھی اہل مذہب ہیں۔ “اہل مذہب”سے ہر وہ شخص مراد ہے جوغیب کی باتوں پر ایمان رکھتا ہو، اس سے غرض نہیں کہ وہ ایک خدا کا ماننے والا ہے یا دس یا بیس یاشنتومت کے ماننے والوں کی طرح کروڑوں دیوتاؤں کا قائل ہے۔ اہل مذہب سے ہر وہ شخص مراد ہے جو کسی نہ کسی صورت میں غیب پر ایمان رکھتا ہوں، یعنی اللہ رب العزت کے وجود کا قائل ہو، اگرچہ اللہ کو پرماتما، بھگوان، گاڈ، اہورامزدا یا کوئی بھی نام دیتا ہو۔ ہر وہ شخص جو کسی نہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہے یا کسی نہ کسی صورت میں جنت، دوزخ، یوم آخرت، سزا جزا، تقدیر، جنات، بھوت پریت، حوروقصور اور فرشتوں کا قائل ہو، اہل مذہب ہی میں شمار کیا جائے گا۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس کے عقائد شرکیہ ہیں یا نہیں، اس کے عقائد درست ہیں یا نہیں، البتہ مطلقا اسے اہل مذہب سے خارج قرار نہیں دیا جا سکتا۔
غرض ہمیں معلوم ہوا کہ وہ شخص جو خاص قسم کے غیب یا دوسرے الفاظ میں مابعد الطبیعات Meta-Physics(غیر مادی وجود) پر ایمان رکھتا ہو، وہ شخص اہل مذہب یا مذہبی یا دینی فکر کا حامل کہلائے گا۔
اہل مذہب کے برعکس، ملحدین سے مراد وہ لوگ ہیں جو کسی بھی قسم کے غیب، یا غیب کی کسی بھی قسم پر ایمان نہیں رکھتے۔ ان کا کسی مذہب سے تعلق نہیں ہوتا، وہ نہ تو کسی مذہب کو سچا سمجھتے ہیں اور نہ کسی مذہب کی پیروی کے قائل ہوتے ہیں۔ان کے نزدیک تمام مذاہب یکساں طور پر بے بنیاداور جھوٹے ہیں۔ وہ تمام مذاہب کو محض قصے کہانیاں قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ایسی کسی حقیقت کو قبول نہیں کریں گےجسے حواس خمسہ یا حسی تجربے کے ذریعے محسوس یا ثابت نہ کرسکیں یا جسے اب تک سائنس نے ثابت نہ کر دیا ہو۔ گویا ملحدین کا مذہب سائنس ہے۔ وہ سائنس کو اسی طرح پوجتے ہیں جس طرح اہل مذہب اپنے اپنے مذاہب کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینے میں ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ملحدوں کے متعدد نام ہیں مثلا انہیں ملحدین، ملاحدہ، دہرئیے، ایتھسٹ(Atheists)، سوفسطائی(Sophists)، لاادری، متشککین اور لادین کے ناموں سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ لیکن بات بھی ذہن نشین نہیں رہے کہ جس طرح اہل مذاہب کے درمیان مختلف عقائد اور ایمانیات میں اختلاف ہے اسی طرح ملحدوں کی ان تمام اقسام میں بھی اختلافات ہوتے ہیں لیکن ان اختلافات کی نوعیت زیادہ سنگین نہیں۔ اہل مذہب کی نسبت لادینوں (ملحدوں) کے افکار و نظریات میں برائے نام ہی اختلاف ہوتا ہے، ان کے تمام افکار تقریبا ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔مثلاً اہل مذہب کے ہاں جو شے قدرِ مشترک ہے وہ یہ ہے کہ اہل مذہب وحی یا الہام پر یکساں طور پر یقین ایمان رکھتے ہیں۔ یعنی اہل مذہب کے ہاں متفقہ طور پر یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ اس کائنات کا خالق و مالک کسی مقرب فرشتے یا کسی نوری مخلوق کے ذریعے اپنے بندوں سے ہمکلام ہوتا ہے اور اپنا پیغام پہنچاتا ہے تاکہ لوگ اُس کے احکامات کے مطابق زندگی بسر کرکے دنیا و آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ جیسے ہم مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا جبریل ؑ کے ذریعے نبی آخرالزماں تاجدار مدینہ حضرت محمد ابن عبداللہ ﷺ سے کلام فرمایا اور قرآن پاک نازل فرمایا۔ غرض خدا اور بندے کے درمیان ایسے کسی روحانی رابطے کو “وحی پر ایمان رکھنا یا اقراروحی” کہا جاتا ہے۔ اہل مذہب کے برعکس ملحدین “وحی” کی کسی بھی صورت پر ایمان نہیں رکھتے بلکہ ان کے نزدیک یہ سب افسانوی باتیں ہیں۔ سوچنا چاہیے کہ جب یہ لوگ اللہ تعالیٰ ہی کے وجود پر ایمان نہیں رکھتے تو کسی فرشتے یا غیر مادی مخلوق پر کیونکر ایمان لائیں گے؟
یہاں تک ہم ایک بنیادی اور اہم ترین نکتہ سمجھ چکے ہیں کہ اہل مذہب اور اہل الحاد (ملحدین) کے درمیان جو سب سے اہم اختلاف ہے وہ اقرار وحی اور انکار وحی کا ہے، دراصل یہی اختلاف بقیہ تمام اختلافات کی جڑ ہے، ملحدین کے تمام اعتراضات وحی پر ایمان نہ رکھنےکے سبب ہی پیدا ہوتے ہیں!
*ملحدوں کےساتھ مکالمے کے اہم اصول:
1.ملحدوں سے مکالمہ کرتے ہوئےآپ کو اپنی اور ملحدکی سٹینڈنگ پوزیشن بالکل واضح ہونی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پاس ضروری علم ہونا لازم ہے، اگرآپ اپنے اور ملحدین کے افکار و نظریات اور ان کے دلائل سے پوری طرح آگاہ نہیں تو پھر میرا نہیں خیال کہ آپ کو ایسی کسی بحث میں شریک ہونا چاہیے۔
2.ضروری علم سے مراد یہ ہے کہ اولاً تو آپ کو اپنے دین اسلام کے اہم علوم مثلاً اصول تفسیر، اصول حدیث، اصول فقہ، تاریخ، عربی زبان و ادب کی مبادیات و اہم معلومات پر کافی حد تک عبور حاصل ہونا چاہیے۔
3.اور دوم یہ کہ آپ کو ملحدین، ان کے افکار ونظریات، ان کے مختلف گروہوں اور ان کی تاریخ کا علم ہونا ضروری ہے۔
4.لازم ہے کہ آپ کو ہیومن ازم، سیکولرازم، لبرل ازم، کیپٹل ازم، سوشل ازم اورتاریخ فلسفہ مغرب کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں ان نظریات سے متاثرہ ممالک کے بارے میں تقریبا تمام اہم معلومات حاصل ہو۔
5.فلسفے کے علاوہ علم الکلام اور مسلمان متکلمین اور فلاسفہ کے افکار سے آگاہی بھی ضروری ہے۔
6.ضروری ہے کہ آپ کے پاس سائنس اور فلسفہ سائنس کا علم بھی ہو۔ خصوصا تمام مشہور سائنٹیفک تھیوریز مثلاً بِگ بینگ تھیوری اور نظریہ ارتقاء کے اچھا خاصا علم ہو۔
7.ان علوم کے بعد آپ کو اسلام اور الحاد کا مزاج شناس بھی ہونا چاہیے تاکہ آپ معاملات کو سمجھنے میں مشکلات کا شکار نہ ہوں۔
8.منطق کی مبادیات کا علم اور اطلاق کا آنا بھی لازم ہے تاکہ آپ ملحدوں کے منطقی مغالطوں کے تار و پود بکھیر سکیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بیشتر اوقات ملحدین کے اعتراضات منطقی مغالطوں پر مشتمل ہوتے ہیں جنہیں عام آدمی سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے۔
9.ان تمام علوم کے بعد آپ جب بھی ملحدوں سے مکالمہ شروع کریں تو بلاجھجھک سب سے پہلے ملحد سے اس کے نظریات کے بارے میں سوال کریں اور ایک اچھے ماحول میں گفتگو آگے بڑھائیں۔
10.ملحد سے اس کی تعلیم کا سوال بھی لازمی کریں کیونکہ دور حاضر میں زیادہ تر مذہب بیزار لوگوں نے محض فیشن کے طور پر اسلام پر اعتراضات کرنا اپنا شعار بنا رکھا ہے۔ ان لوگوں کے پاس بنیادی باتوں کا علم بھی نہیں ہوتا اور اپنے زعم میں یہ لوگ مفکر اعظم بننے کی کوشش کرتے ہیں۔
11.گفتگو ہمیشہ کسی ایک موضوع پر کریں، نہ تو خود موضوع بدلیں اور نہ ملحد کو موضوع سے فرار کا موقع دیں۔ اگر ملحد گفتگو کارخ موڑنا چاہے تو اسے فوراً ٹوک دیں اور اسے پابند کریں کہ وہ موضوع کے اندر رہتے ہوئے اپنا نکتہ نظر بیان کرے۔
12.اگر بحث کے دوران کسی نکتے پر آپ کے پاس علم نہ ہو تو بحث بلاجھجک کسی اہل علم کو اپنے وکیل کے طور پر پیش کریں، ضروری نہیں ہوتا کہ آپ ہر اس سوال کا جواب دینے کی کوشش بھی کریں جو آپ کو معلوم نہ ہو۔ اس کا فائدہ تو شائد کچھ نہ ہو مگر اس کے نقصانات متعدد ہیں۔ 13.اور اگر آپ یہ محسوس کریں کہ ملحد دوران بحث فرار چاہ رہا ہے یا اس سے جواب نہیں بن رہا تو بجائے اس پر طنز و تضحیک کرنے کے، ایک اچھے داعی کی طرح اسے پیار سےسمجھائیں۔
14.آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ملحدین عام طور پر اسلام سے متعلق کم علمی اور مغالطوں کا شکار ہوتے ہیں، نہ تو ان کے پاس اسلام کا زیادہ علم ہوتا ہے نہ اسلام سے کوئی لگاؤ، بلکہ انہیں تو بس برین واش کیا گیا ہوتا ہے، طوطے کی طرح رٹی رٹائی باتیں دہرانا ہی ان کا شیوہ ہے۔
15.ملحدین کے بیشتر اعتراضات وہ ہیں جو مستشرقین نے اسلام پر داغے ہیں، ملحد کوئی نئے قسم کے اعتراضات نہیں کرتے بلکہ انہی اعتراضات کو بار بار دہرا کر عوام الناس کو بہکانے کی کوشش کرتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ آپ کو تحریک استشراق، مستشرقین کے اعتراضات اور ان کے جوابات معلوم ہوں تاکہ آپ کو پہلے سے معلوم کہ ملحد فلاں بات کے بعد کیا بات کر ے گا اور تب اسے کیا جواب دیا جائے گا۔
16.اگر ہم ملحدین کے اعتراضات کی تقسیم کرنا چاہیں تو عقائد، قرآنیات، احادیث، تفاسیر، سیرۃ الرسول ﷺ، سیر الصحابہ، ازواج مطہرات،عبادات، مالیات، تعلیمات، سماجیات، تاریخ، اخلاقیات اور زندگی کے تقریبا تمام شعبوں میں تقسیم کر سکتے ہیں اور ہمیں اپنے علمائے کرام کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے ان تمام اعتراضات کا جواب پہلے ہی دے دیا ہے۔ ہمیں نئے جوابات پیدا کرنے کی بجائے اپنے علمائے کرام کے پیش کردہ جوابات کو ہی نئے اسلوب میں پیش کرنا چاہیے۔ ہاں البتہ اگر کہیں نئے جوابات کی ضرورت پیش آئے تو علمائے کرام کے پیش کردہ جوابات کےنکات کے ضمن میں ضرور پیش کرنے چاہئیں۔ ہمارا مقصد اسلام کو درست طور پر ریپریزینٹ اور انٹرپریٹ کرنا ہونا چاہیے اور یہ جبھی ممکن ہے جب ایک مسلمان گزشتہ چودہ سو سال کے آئمہ کرام کے علوم پر اکتفاء کرے۔
17.ملحدوں کے ساتھ تقریبا ہر دوسری بحث میں جو بات میں نے دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے مسلمان بھائی اور ملحدین دونوں ہی اسلام اور الحاد کے اصولی اختلاف سے ناواقف ہوتے ہیں اور ایسے نکات پر بحث کر رہے ہوتے ہیں جن کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے۔
18.بحث ہمیشہ اصولی اختلاف میں کرنی چاہیے اور اگر اصول اور اصولی اختلافات طے ہو پائیں تو پھر ضمنی اور ثانوی اختلافات از خود رفع ہو جاتے ہیں۔
19.ذہن نشین رکھیں کہ اہل مذہب کا اہل الحاد کے ساتھ بنیادی اور اصولی اختلاف محض چند باتوں میں ہے، بقیہ اختلافات انہیں کا شاخسانہ ہیں۔ وہ بنیادی اختلاف مندرجہ ذیل سوالات میں ہیں:
(ا) علم کیا ہے؟
(ب) ذرائع علم کتنے اور کون کون سے ہیں اور ان کی حدود کیا ہیں؟
(ج) وحی ذریعہ علم ہے یا نہیں؟
(د) عقل کیا ہے، اس کی حدود کیا ہیں؟
(ہ) مابعد طبیعات ممکن ہے یا نہیں؟
(و) نظریات کے قابل قبول اور نامقبول ہونے کی بنیادی شرائط کا مآخذ کیا ہے؟
(ز) غرض ایسے چند ایک فلسفیانہ سوالات ہیں، اگر ان کے جوابات پر اتفاق رائے ہو جائے تو اہل مذہب اور اہل الحاد کے اختلاف کا علمی حل نکل سکتا ہے، اگر آپ مذکورہ اولیٰ علوم پر گرفت حاصل کر لیں تو ایسے مزیدفلسفیانہ سوالات اور ان کے جوابات آپ ازخود سمجھ جائیں گے۔
20.وجود باری تعالیٰ، نبوت و رسالت، یوم آخرت، غیر مادی نوری و ناری مخلوقات، تقدیر وغیرہ جیسے موضوعات پر بحث صحیح صورت میں تب ہی آگے بڑھ سکتی ہے جب مذکورہ بالا سوالات کی بنیاد پر بات آگے بڑھائی جائے، بصورت دیگر دونوں فریقین وقت برباد کرنے کے سوا کچھ نہیں کریں گے۔
الحاصل یہ کہ نہ تو اہل مذہب اور اہل الحاد کے درمیان جنگ کوئی نئی جنگ ہے اور نہ ملحدین کے اعتراضات نئے ہیں۔ یہ تمام باتیں فلسفے اور کلام کی کتب میں پہلے سے موجود ہیں، ضرورت بس اس امر کی ہے کہ ان کتب کا مطالعہ کیا جائے اور اللہ تعالیٰ سے ہدایت مانگ کر ان پر غور و فکر کیا جائے۔ ردّ الحاد کے دوستوں سے خاص گزارش یہی ہے کہ اس محاز پر کام کرنے کے لیے اللہ رب العزت کی مدد کا شامل حال ہونا لازمی ہے، اللہ سے خاص لو لگا کر رکھیں تاکہ تشکیک سے بچ سکیں اور اپنے ایمان کو مضبوط رکھیں۔ اہل اللہ کی محافل میں شریک ہونا معمول بنائیں اور دین کو اس کے مزاج کے مطابق سمجھنے اور عمل پیرا ہونے کی کوشش میں لگے رہیں، ان شاء اللہ اللہ پاک کی مدد شامل حال ہو گی۔
تحریر فیصل ریاض شاہد
بتغیر قلیل