ولیم پیلے (William Paley (1743–1805 ایک عیسائی متکلم ہیں کہ جنہوں نے خدا کے وجود کے اثبات میں Natural Theology or Evidences of the Existence and Attributes of the Deity کے عنوان سے ایک معرکۃ الآراء کتاب لکھی۔اس کتاب نے اپنے دور کے سب سے بڑے دہریے ڈیوڈ ہیوم کے افکار کو لگام ڈال دی تھی۔ یہ کتاب 1920 تک کیمبرج یونیورسٹی کے نصاب میں رہی ہے۔ پوپ نے غالبا 1972 میں اسے عیسائیت کی دلیل کی کتاب قرار دیا۔”پیلے” کی کتاب کا خلاصہ گھڑی ساز سے مشابہت کی دلیل “Watchmaker Analogy” کہلاتا ہے۔ یعنی اگر ایک گھڑی، کسی گھڑی ساز کے بغیر نہیں ہو سکتی اور ٹیلی سکوپ کسی موجد کے بغیر نہیں ہو سکتی تو کائناتی گھڑی اور آنکھ کسی خالق کے بغیر کیسے ہو سکتے ہیں؟ کیونکہ دونوں اپنے نظام میں پیچیدہ ہیں۔
چارلس ڈارون سے لے کر رچرڈ ڈاکنز تک ہر بڑے دہریے نے “پیلے” کی اس دلیل کا جواب دینا چاہا ہے۔ ڈارون کو کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپ ڈیٹڈ نہیں تھا، اور بھائی، رچرڈ ڈاکنز کا “پیلے” کی دلیل پر رد پڑھیں اور سر دھنیں؛
Paley’s argument is made with passionate sincerity and is informed by the best biological scholarship of his day, but it is wrong, gloriously and utterly wrong. The analogy between telescope and eye, between watch and living organism, is false. All appearances to the contrary, the only watchmaker in nature is the blind forces of physics, albeit deployed in a very special way. A true watchmaker has foresight: he designs his cogs and springs, and plans their interconnections, with a future purpose in his mind’s eye. Natural selection, the blind, unconscious, automatic process which Darwin discovered, and which we now know is the explanation for the existence and apparently purposeful form of all life, has no purpose in mind. It has no mind and no mind’s eye. It does not plan for the future. It has no vision, no foresight, no sight at all. If it can be said to play the role of watchmaker in nature, it is the blind watchmaker
بھئی ڈاکنز تم میں اور “پیلے” میں فرق کیا ہے۔ “گھڑی ساز” تو تم نے بھی مان ہی لیا ہے۔ “پیلے” کہتا ہے کہ وہ “سمیع بصیر” ہے اور تم کہتے ہو کہ وہ “اندھا بہرا” ہے۔ “پیلے” کہتے ہیں کہ وہ گھڑی ساز “حکیم” ہے۔ تم کہتے ہو کہ “اس کے پاس عقل ہی نہیں ہے۔”
*توجیہہ کائنات کی ‘سائنسی دیومالا’
آج سے کھربوں سال قبل مادہ خودبخود برقوں اور پروٹونز کی شکل میں فضاۓ بسیط میں ہر طرف پھیلا ہوا تھا (یہ اور بات ہے کہ کسی نے اس کیفیت کا تجربہ نہیں کیا)، مادے کے اس خفیف بادل میں خود بخود ایک خفیف سا خلل واقع ھوا (جس کا بھی تجربہ نہیں ھوا) اور نتیجتا قوانین علل کے تحت مادہ سمٹ سمٹ کر مختلف جگہوں پر خود بخود جمع ہونا شروع ھو گیا، مادے کے ان ٹھوس اجماع کو ہم سیارے وغیرہ کہتے ہیں (معلوم نہیں اس غیر متحرک مادے میں حرکت کیوں کر آئ جس کے اسباب نہ تو اس مادے کے اندر تھے اور نہ ہی اسکے باہر، اور ایک بے ربط ابتدائ حالت سے مربوط قوانین علل کیوں کر وجود میں آگئے اور وہ کیونکر اسی طرز پر چلے)۔ یہ اسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ ھے کہ
سورج چاند اور یہ بے شمار سیارے خود بخود وقت مقرر پر سفر طے کرتے رہتے ہیں۔
اس وسیع و عریض کائنات میں قریب قریب یکساں موسمی حالات جیسے بے شمار سیاروں کے باوجود زندگی صرف ایک حقیر سے سیارے یعنی زمین پر اور وہ بھی خود بخود وجود میں آگئ،
اوران بے شمار سیاروں میں سے صرف زمین پر ہی زندگی ممکن بنانے والے تمام حالات خودبخود جمع ھوگئے۔
پھر کائنات کے صرف اس ہی حقیر سے کرے پر سوچنے سمجھنے والی ایک مخلوق (انسان) مادی ارتقاء کے نتیجے میں خود بخود وجود میں آگئ (معلوم نہیں اب یہ ارتقائ عمل کیوں ختم ھوگیا کہ اب ملین کی تعداد میں بندر انسان نہیں بن پاتے) اور یہ عمل کھربوں برس سے خود بخود چلتا ہی چلا جارہا ھے (سواۓاس ‘خود بخود خود بخود ھونے’ کے اس سلسلے کے جو نہ جانے کیوں اب بند ہوگیا) نیز اسکا کوئ مقصد نہیں (تو پھر یہاں بے معنی زندگی کو معنی دینے کی کوشش فاتر العقلی کے سواء اور کیا ہے؟)۔
کیا یہ پوری دیومالا کسی تجربے یا مشاہدے پر تعمیر کی گئ؟ کیا اسکے مختلف اجزاء باہم مربوط و متصور ہیں؟ یقینا اس دیو مالا کو رد کرنے کیلیے کسی پیچیدہ علمی دلیل نہیں بلکہ صرف دماغی توازن ٹھیک ہونا ضروری ہے۔.
سوال یہ ہے کہ جب کائنات میں صرف غیر متحرک مادہ تھا، اس کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی تو یہ عجیب و غریب اتفاق کہاں سے وجود میں آگیا جس نے ساری کائنات کو حرکت دے دی جس واقعہ کے اسباب نہ مادہ کے اندر موجود تھے اور نہ مادہ کے با ہر وہ و اقعہ وجود میں آیا تو کیسے آیا۔ اس تو جیہہ کا یہ نہایت دلچسپ تضاد ہے کہ ہر واقعہ سے پہلے ایک واقعہ کا موجود ہونا ضروری قرار دیتی ہے جو بعد کو ظاہر ہونے والے واقعہ کا سبب بن سکے مگر اس توجیہہ کی ابتدا ایک ایسے واقعہ سے ہوتی ہے جس سے پہلے اس کا سبب موجود نہیں۔ یہی وہ بے بنیاد مفروضہ ہے جس میں کائنات کی اتفاقی پیدائش کے نظریہ کی پوری عمارت کھڑی کر دی ہے۔
یہ کائنات اگر محض اتفاق سے وجود میں آئی ہے تو کیا واقعات لازمی طور پر وہی رخ اختیار کرنے پر مجبور تھے جو انہوں نے اختیار کیا ۔ کیا اس کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا تھا۔ ؟
کیا ایسا ممکن نہیں تھا کہ ستارے آپس میں ٹکرا کر تباہ ہو جائیں۔ مادہ میں حرکت پیدا ہوجانے کے بعد کیا یہ ضروی تھا کہ محض حرکت نہ رہے بلکہ ایک ارتقائی حرکت بن جائے ۔ ؟اور حیر ت انگیز تسلیل کے ساتھ موجودہ کائنات کو وجود میں لانے کی طرف دوڑنا شروع کر دے۔ ؟
آخر وہ کون سی منطق تھی جس نے ستاروں کے وجود میں آتے ہی ان کو لا متنا ہی خلا میں نہایت باقاعدگی کے ساتھ پھیرا نا شروع کر دیا۔۔؟
پھر وہ کون سی منطق تھی جس نے کائنات کے ایک بعید ترین گوشہ میں نظام شمسی کو وجود دیا ؟؟
وہ کون سی منطق تھی جس سے ہمارے کرہ زمین پر وہ عجیب و غریب تبدیلیاں ہوئیں جن کی وجہ سے یہاں زندگی کا قیام ممکن ہوسکا اور جن تبدیلیوں کا سراغ آج تک کائنات کی بے شمار دنیاؤں میں سے کسی ایک دنیا میں معلوم نہ کیا جا سکا ہے۔۔؟
وہ کون سی منطق تھی جو ایک خاص مرحلہ پر بے جان مادہ سے جاندار مخلوق پیدا کرنے کا سبب بن گئی۔۔؟
کیا اس بات کی کوئی معقول توجیہہ کی جاسکتی ہے کہ زمین پر زندگی کس طرح اور کیوں وجود میں آئی اور کس قانون کے تحت مسلسل پیدا ہوتی چلی جا رہی ہے۔۔؟
وہ کون سی منطق تھی جس نے کائنات کے ایک چھوٹے سے رقبہ میں حیرت انگیز طور پر وہ تمام چیزیں پیدا کر دیں جو ہماری زندگی اور ہمارے تمدن کے لئے درکار تھیں؟؟پھر وہ کون سی منطق ہے جو ان حالات کو ہمارے لئے باقی رکھے ہوئے ہے۔؟؟
کیا محض ایک اتفاقی کا پیش آجانا اس بات کی کافی وجہ تھی کہ یہ سارے واقعات اس قدر حسن و ترتیب کے ساتھ مسلسل پیش آتے چلے جائیں اور اربوں و کھربوں سال تک ان کا سلسلہ جاری رہے اور پھر بھی ان میں کوئی فرق نہ آنے پائے ۔؟؟
کیا اس با ت کی کوئی واقعی توجیہہ کی جاسکتی ہے کہ محض اتفاق سے پیش آجانے والے واقعہ میں لزوم کی صفت کہاں سے آگئی اور اتنے عجیب و غریب طریقہ پر مسلسل ارتقاء کرنے کا رجحان اس میں کہاں سے پیدا ہو گیا۔؟؟
استفادہ تحریر زاہد مغل و حافظ زبیر ، وحید الدین خان