بحث کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔ جناب عزازی ہاشم صاحب نے تقدیر کے مسئلے پر ایک سوال پیش کردیا اور اس میں سوال کے ساتھ ایک مجہول اصطلاحات جیسے “عربی خدا” اور “عربی اللہ” کا استعمال کیا۔ چونکہ موصوف تقریباً اپنی ہر پوسٹ میں اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں اور وقت کی کمی کے باعث میں ہر پوسٹ پر تبصرہ نہیں کرسکتا اس لئے اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ اس موقعے پر اس سلسلے میں ضرور بحث ہونی چاہئے۔
اس سے پہلے کہ بحث کی روداد پر مزید کوئی روشنی ڈالوں میں قارئین کے فائدے کے لئے کچھ علمی پؤائنٹ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ اس طرح نہ صرف اس بحث کو سمجھے میں آسانی ہوگی بلکہ بحث کے دوران ملحدین کی چالوں کو بھی آسانی سمجھا جاسکے گا۔
مناظرے اور بحث کے دوران کچھ فریق چکمہ دے کر اپنے غلط مؤقف کو صحیح ثابت کرنے کے لئے کچھ مغالطے استعمال کرتے ہیں جسے انگریزی میں Fallacies کہتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کے Fallacy کے لئے مناسب ترین اردو ترجمہ کیا ہے۔ میری تجویز یہ ہے کہ اس کے لئے ہم “چکمہ بازی” کا لفظ استعمال کر لیں۔ اس بحث کے دوران ملحدین نے ان چکموں کا خوب استعمال کیا بلکہ ان کی پوری بحث انہیں چکمہ بازیوں کا مجموعہ تھیں۔ میں نے بحث کے دوران ان کو خوب ایکسپوز کیا جس کے نتیجے میں آخر کار مجھے بلاک کرنا پڑا۔ اس نوٹ سے میرا مقصد یہ بات ثابت کرنا نہیں ہے کہ یہ لوگ اس مجہول اصطلاح کو استعمال کرنے میں غلط ہیں، وہ تو آپ کو تھریڈ سے ہی معلوم ہوجائے گا۔ یہاں پر مقصد ان ملحدوں کی جہالت، بددیانتی اور کمزوریوں کو ایکسپوز کرنا ہے۔ چونکہ انہوں نے ایک تاثر قائم کیا ہوا ہے کہ الحاد کی بنیاد عقل اور علم پر ہے اور مذہبی لوگ بغیر سوچے سمجھے اور بغیر تحقیق کے کسی بھی چیز پر “ایمان” لے آتے ہیں۔ اس لئے ضروری تھا کہ ان کی جہالت کو ایکسپوز کردیا جائے۔
میں یہاں پر ان کی چکمہ بازیوں کی تفصیل بیان کر رہا ہوں۔ دراصل اس قسم کی چکمہ بازیوں کی تفصیل اور تشریح میں ملحد ہی زیادہ لکھتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی مذہب کا ماننے والا اس طرح کی چکمہ بازیوں کا مرتکب ہو تو اس پر گرفت کریں۔ لیکن اب اس کا کیا کیا جائے کہ آج کل ملحدین خود اپنے علمیت کی گرفت میں آرہے ہیں۔ ہمارے مسلمان بھائیوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ جب وہ کوئی آرگیومنٹ پیش کرتے ہیں تو کہیں وہ بھی اس طرح کی چکمہ بازیاں پیش نہ کر رہے ہوں۔
۱۔ لوڈڈ سوال یعنی Loaded Question:
اس میں یہ ہوتا ہے کہ ایک فریق کسی سے سوال پوچھتے ہوئے اس سوال کے اندر ایک دعوی داخل کردیتا ہے جب کہ اس دعوی پر ابھی دونوں فریق متفق نہ ہوئے ہوں۔ مثلاً اگر کسی کو یہ پوچھا جائے کہ آپ نے کب سے ایمانداری سے انکم ٹیکس دینا شروع کیا تو اس سوال میں یہ دعوی چھپا ہے کہ اس بندے نے کچھ دور میں ایمانداری کے ساتھ انکم ٹیکس نہیں دیا۔ اب بظاہر تو یہ سوال لگتا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ سوال نہیں بلکہ ایک الزام ہے۔ ہاں اگر بحث کا سیاق و سباق ایسا ہو کہ سوال کرنے سے پہلے اس فریق نے اپنی بے ایمانی تسلیم کی ہوئی تھی اور یہ سوال مزید تحقیق کے لئے پوچھا جائے تو یہ لوڈڈ سوال نہیں ہے۔ لیکن اگر ابھی اس فریق نے ایسا کوئی الزام قبول نہیں کیا تو پھر یہ لوڈڈ سوال ہے۔
۲۔ ریڈ ہیرنگ، Red Herring:
ایک اہم اور زیر بحث مسئلے کی طرف سے توجہ ہٹا کر قارئین یا سامعین کا دھیان کسی دوسرے طرف لے کر جانا جس کا زیر بحث مسئلے کی منطق پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ مثلا آپ نبیﷺ کی امانت اور دیانت پر بات کر رہے ہوں اور کوئی فوراً یہ کہیں کہ اس کے اخلاق کس طرح اچھے ہوں گے جو چھ سال لڑکی سے جنسی تعلقات قائم کرے۔ مسئلہ ہے کہ آپ کا حضرت عائشہ سے نکاح، اس وقت حضرت عائشہ کی عمر اور جس سیاق و سباق میں یہ نکاح ہوا، اس پر حضرت عائشہ کا ردعمل اور رویہ ایک قطعی الگ ہی قسم کی بحث کا متقاضی ہے۔ لیکن کسی اور بحث کے دوران اس قسم کی ڈائلاگ بازی کرنے کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا کہ اصل مسئلے پر دلیل دینے کی ضرورت پڑے ہی نہیں۔
۳۔ سرکیولر لاجک، Circular Logic یا دائروی منطق۔
اگر آپ کسی مسیحی سے پوچھیں کہ آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ بائبل خدا کی کتاب، وہ کہے کہ بائبل اس لئے خدا کی کتاب ہے کیوں کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے ہمیں یہی بتلایا ہے۔ اور آپ پوچھیں کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ عیسی علیہ السلام نے یہی بتلایا ہے تو وہ کہے کیوں کہ بائبل میں یہی لکھا ہوا ہے۔ یہ ایک بہت سادہ سی مثال ہے Circular logic کی۔ بحث میں بعض اوقات یہی چکمہ دیا جاتا ہے لیکن وہ بحثیں تھوڑی بہت کامپلیکس ہوتی ہے اس لئے ہر ایک کی سمجھ میں نہیں آتی۔ سیدھی سی بات یوں سمجھیں جب کوئی بحث کر کے ایک نتیجہ ثابت کرنا چاہتا ہے اور ثابت کرتے ہوئے وہ اس بحث کے نتیجے کو ہی بحث کے ثبوت کے طور پر پیش کرے تو یہ سرکیولر لاجک ہوئی۔ حالانکہ جس چیز کو ثبوت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے وہی مسئلہ ابھی زیر بحث ہے۔
۴۔ سٹرامن آرگیومنٹ، Strawman Argument.
انگریزی میں بھس بھرے آدمی کو سٹرامین کہتے ہیں۔ یعنی کھیتوں وغیرہ میں جانوروں اور پرندوں کو ڈرانے کے لئے بھوسے کو استعمال کرکے ایک پتلا بناکر رکھا جاتا ہے۔ اب اس کی وجہ تسمیہ مجھے نہیں معلوم۔ اس قسم کے آرگیمونٹ کا مطلب یہ ہے کہ ایک فریق دوسرے فریق سے ایک ایسے مؤقف کو مسنوب کرتا ہے جو کہ اس فریق کا ہے ہی نہیں۔ اور پھر وہ دوسرے فریق کو شکست دے کر سمجھتا ہے کہ میں نے اس کو شکست دی۔ حالانکہ جس مؤقف کو اس نے شکست دی ہے وہ فریق مخالف کا مؤقف نہیں تھا۔
۵۔ نیم کالنگ، Name calling:
دراصل اس کو کسی خاص قسم کی Fallacy میں بیان نہیں کیا جاتا۔ لیکن یہاں پر چونکہ اس قسم کی حرکت ہوئی ہے اس لئے میں نے اس کو بیان کرنا ضروری سمجھا۔ کسی خاص مقصد سے یا کسی دلیل کو شکست دینے کے لئے فریق مخالف یا کسی اور شخصیت کو کسی نام سے منسوب کرنا۔ یہ دراصل ایک انتہائی قسم کی گھٹیا حرکت ہوتی ہے۔ اس کا مقصد بحث کرنا نہیں بلکہ کسی کو نیچا دکھانا ہوتا ہے۔ کسی کے بارے میں منطق اور ثبوت کی بنیاد پر ایک بات کہنا الگ مسئلہ ہے۔ اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ اللہ دراصل عربی خدا ہے تو اس پر منطقی اعتبار سے بحث کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر اللہ کی جگہ پر بطور نام ہی عربی خدا استعمال کرنے لگے تو اسے Name Calling ہی کہا جائے گا۔ انتہائی صورت حال میں جب کہ آپ کسی کی مذمت کرنا چاہتے ہوں تو اس کی گنجائش ہوسکتی ہے۔ لیکن کسی منطقی بحث میں فریق مخالف سے بحث کرتے ہوئے یہ حرکت صرف اور صرف بدنیتی کی وجہ سے ہوسکتی ہے۔ وسے اس کو آپ ریڈ ہیرنگ کی ہی ایک قسم سمجھ سکتے ہیں۔
۶۔ Ad-Hominem:
کسی بحث کے دوران منطق کا رخ دلیل کے بجائے فریق مخالف کی شخصیت کی طرف کی جائے تو اسے Ad-Hominem کہتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دلیل کا جواب دینے کے بجائے فریق مخالف کی قابلیت، صلاحیت یا اخلاقی حالت پر ہی اعتراض کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے کہ یہ بندہ بحث کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔ یا چونکہ اس قسم کا بندہ یہ بحث کر رہا ہے اس لئے اس کا مؤقف لازمی طور پر غلط ہوگا۔ یہ طریقہ کار ہمیشہ غلط نہیں ہوتا۔ لیکن اس کو سوچ سمجھ کر استعمال کیا جانا چاہئے۔
۷۔ Unfalsifiable claim:
اگر آپ کوئی دعوی کریں تو اس دعوی سے یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ کس طریقہ کار کو استعمال کر کے اس دعوی کی تصدیق یا تردید ہوسکتی ہے۔ مثلا اگر کوئی یہ کہے کہ زید کا قد پانچ فٹ نو انچ ہے۔ تو آسان سا طریقہ ہے کہ آپ ایک ٹیپ لیں اور زید کی قد کی پیمائش کریں۔ آپ کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ دعوی صحیح ہے یا نہیں۔ اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ زید کی حرکتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ متکبر ہے۔ اب اس دعوی میں مسئلہ یہ ہے کہ دعوی سے یہ واضح نہیں ہے کہ زید کی کس حرکت کو تکبر سے تعبیر کیا جائے۔ اور کیا ایسا کوئی متفق علیہ پیمانہ ہے جس کی بنا پر یہ فیصلہ کیا جائے کہ کونسی حرکت تکبر ہے اور کونسی نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کسی کے صرف اچھے کپڑے پہننے کو ہی تکبر سے تعبیر کیا جائے۔ ایک Unfalsifiable دعوی ضروری نہیں ہے کہ ہمیشہ غلط ہو۔ لیکن کسی سے بحث کے دوران اس قسم کے دعوی کو بہت احتیاط سے استعمال کیا جانا چاہئے۔ الغرض Unfalsifiable دعوی کرنا ہمیشہ غلط نہیں ہوتا۔ لیکن اس قسم کی چیزوں کو بعض لوگ غلط مقصد سے استعمال کرتے ہیں۔
اب آتے ہیں اس بحث پر میرے تاثرات کی طرف۔
بحث میں کیا ہوا اس پر آپ جب بحث پڑھیں گے تبھی پتہ چلے گا۔ میں کچھ اپنے تاثرات ہؤائنٹ بائی پؤائنٹ بیان کرتا ہوں۔
۱۔ میں نے بحث کے اوائل میں جو بنیادی نکتہ اٹھایا تھا وہ یہ تھا کہ تقدیر پر بحث کے دوران “عربی خدا” کا لفظ اسعتمال کرنا لوڈڈ سوال ہے۔ اس میں آپ ایک مسئلہ پر سوال کھڑا کرتے ہیں لیکن بیچ میں ایک دوسرا دعوی گھسیٹ دیتے ہیں۔
۲۔ پؤائنٹ نمبر ۱ کے جواب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ چونکہ اللہ کے لئے “عربی خدا” کا لفظ استعمال کرنے کا جواز موجود ہے اس لئے یہ لوڈڈ سوال نہیں ہوا۔ یہ جواب انتہائی احمقانہ ہے۔ یہاں پر ان کے پاس جو بھی جواز ہے وہ دو فریقوں کے درمیان ابھی متفق علیہ نہیں ہے۔ اس لئے عربی خدا کے الفاظ کو استعمال کرنا فی الحال ایک دعوی ہی تھا نہ کہ کوئی متفق علیہ کوئی چیز۔
۳۔ اپنی اسی بات کو مزید ثابت کرنے کے لئے عزازی صاحب یہ مسئلہ کھڑا کیا کہ ان کے نزدیک اللہ کوئی باشعور ہستی نہیں ہے اس لئے وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ عزازی صاحب نے جب تقدیر پر ایک سوال اٹھایا ہے تو اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ یہ ثابت کیا جائے کہ اللہ ایک باشعور ہستی نہیں ہے۔ اب جناب موصوف جس چیز کو فی الحال “ثابت کرنے” کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اسی کو اپنے دعوی کے ثبوت میں پیش کر رہے ہیں۔ یعنی یہ واضح طور پر Circular Logic ہے۔
۴۔ میں نے اس بحث میں ایک اور نکتہ رکھا تھا کہ چونکہ اللہ نے خود یا اس کے معتقدین نے اللہ کے لئے “عربی خدا” کی اصطلاح استعمال نہیں کی اس لئے اللہ کو “عربی خدا” کہنا Name calling ہے۔ تو جناب موصوف نے کہا چونکہ مسلمان جس خدا کو مانتے ہیں وہ عربوں میں ہی متعارف ہوا اس لئے اس کی شناخت ظاہر کرنے کے لئے عربی خدا کا لفظ اسعتمال کیا گیا۔ جب میں نے یہ کہا کہ تو پھر اس کی اس شناخت کو ظاہر کرنے کے سب سے بہتر لفظ “اللہ” ہی ہے تو جناب نے یہ بہانہ بنایا کہ چونکہ ان کی زبان اردو ہے اس لئے انہوں نے یہ لفظ استعمال کیا۔ جب میں نے کہا کہ خدا فارسی لفظ اور اللہ عربی اور دونوں الفاظ اردو میں بھی مستعمل ہیں تو موصوف کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ یہاں پر موصوف کی واضح بدنیتی اور جہالت نظر آتی ہے۔
۵۔ میں نے اللہ کی عربی شناخت کے سلسلے میں تین ممکنہ نکات رکھے تھے، عربی خدا کہنے کی گنجائش تبھی تسلیم کی جاسکتی ہے جب آپ یہ مانیں کہ اللہ کی مادری زبان عربی ہے، یا اللہ عربی النسل ہے یا پھر اللہ عرب میں رہائش پذیر ہے۔ موصوف نے پہلے دونوں نکات کا انکار کردیا۔ جب تیسرے نکات پر بات آئی تو موصوف نہ یہ کمال کا نکتہ اُٹھایا “کمال ہے حضرت مکہ میں بغیر رجسٹری کے اس نے ایک گھر پر قبضہ کیا ہوا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ وہ عرب میں رہائش پذیر نہیں ہے”۔ جب میں نے علمی انداز میں گرفت کرنے کی کوشش کی تو جناب نے اس کو اپنا مذاق قرار دیا اور کسی بھی علمی بحث سے گریزاں رہے۔ اس قسم کی ڈائیلاگ بازی دراصل Red Herring کہلاتی ہے۔ یہ واضح طور پر موصوف کی بدنیتی تھی۔ موصوف کو خود اپنی ریڈ ہیرنگ اتنی پسند آئی تھی کہ اسی کو ایک الگ سے پوسٹ بنا کر خود ستائشی کے انداز میں ڈال دیا۔
۶۔ بحث کے تقریباً آخر میں ایک بھائی صاحب نے مجھ پر الزام لگایا کہ میرے اندر غرور و تکبر صاف نظر آرہا ہے۔ بلکہ کچھ دوسرے حضرات نے مجھے اخلاقیاتی طعنے بھی دئے۔ اسی طرح یاسر حبیب مستقل طور پر مجھ پر الزام لگاتے رہے کہ میں کج بحثی کر رہا ہوں اور تاویلات گڑھ رہا ہوں۔ اسی ضمن میں میں نے Unflasifiable Claim کی مثال دی کہ غرور و تکبر نظر آنے کا کیا مطلب ہے اور اس کے ہونے اور نہ ہونے سے کو کس طرح سے ثابت کیا جائے۔ حقیقت یہ تھی کہ جس اعتماد سے میں اکیلا ان طعنے بازوں کے مقابلے میں کھڑا تھا اس کو موصوف نے تکبر قرار دیا۔ میرے جواب کی تفصیل صفحہ نمبر ۱۰۵ پانچ پر ملاحظہ فرمائیں۔ اسی طرح ایک بحث کو تاویلات اور کج بحثی قرار دینے کا بھی کوئی پیمانہ نہیں ہوتا۔ یہ سب Unfalsifiable Claim تھے۔ ٍ
۷۔ سعید خالد، نعمان سعید اور یاسر حبیب مستقل طور پر میرے پیچھے پڑے رہے کہ میں یہ ثابت کروں کہ اللہ عربوں سے پہلے بھی پایا جاتا تھا۔ اگرچیکہ اس پر بحث کرنا ممکن تھا لیکن یہ بحث بہت زیادہ علمی ہوجاتی اور یہ نابغہ روزگار شخصیات نہ علم کے اعتبار سے اور نہ نیت کے اعتبار سے اس قابل قطعی تھیں کہ ان سے اس پر بحث کی جائے۔ اس بارے میں میرا مؤقف یہ تھا جسے کئی بار دہرانا پڑا کہ میں نے اپنے آرگیومنٹ پر یہ دعوی کیا ہی نہیں تھا کہ اللہ کا نام بہت پہلے سے مستعمل ہے۔ لیکن یہ حضرات کسی طرح سے مجھے اسی بحث کی طرف لے کر آنے پر مصر تھے۔ تاریخ کی بحث منطقی بحث سے بہت زیادہ پیچیدہ ہوتی ہے اور پھر ایسے بدنیت اور جاہلانہ مزاج کے لوگوں سے تاریخ پر بحث کرنا عبث تھا۔ چونکہ میں نے اس بحث میں اسم اللہ کا پہلے سے ہونے کا دعوی نہیں کیا تھا اس لئے مجھ سے اس بات کا ثبوت مانگنا دراصل Strawman Argument تھا۔
۸۔ اس بحث کے دوران یاسر حبیب صاحب مجھ پر الزام لگاتے رہے کہ میں کچھ بحثی کر رہا ہوں، تاویلات کر رہا ہوں وغیرہ وغیرہ حالانکہ وہ اپنی کوئی ایک بات بھی ثابت نہیں کر سکے۔ یہ Ad-Hominem تھا۔ موصوف مستقل طور اس شدید قسم کے تاثر میں رہے کہ وہ جب چاہیں کسی کے بھی بارے میں بغیر وجہ بتائے جس قسم کا چاہے فیصلہ کر سکتے ہیں۔ جناب آخر تک یہ طئے نہیں کر پائے کہ وہ بحث میں ایک فریق ہیں یا ایڈمن ہیں۔
۹۔ سید امجد حسین، غلام رسول، سعید خالد اور نعمان سعید جو کہ بہت بڑکیں مارتے ہیں اس تھریڈ میں آکر ممیاتے ہوئے نظر آئے۔ بحث کا بہاؤ اگرچیکہ علمی اور منطقی تھا لیکن اتنا دقیق بھی نہیں تھا کہ ایک پڑھا لکھا شخص اس میں شرکت نہ کر سکے۔ لیکن یہ حضرات بس کسی وقفے میں یکا دکا کمنٹ کر کے غائب ہوجاتے۔ خصوصاً سید امجد حسین کی حالت قابل رحم تھی۔ موصوف آتے تھے ایک دو کمنٹ کر کے پھر غائب ہوجاتے تھے۔ ان کی سمجھ میں یہ تو آرہا ہے تو یاسر حبیب اور عزازی صاحب بہت ہی کمزور پڑ رہے ہیں لیکن یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اپنی ریڈ ہیرنگ سے کیسے ان کی مدد کی جائے۔ یہ بندہ جو دھڑا دھڑا “اسلام کی حقیقت” میں پوری سیریز پیش کر رہا ہے اس کی علمیت کا صحیح اندازہ اسی تھریڈ میں ہوجاتا ہے۔
۱۰- میرا تاثر یہ تھا کہ گروپ میں کچھ پڑھے لکھے اور واقعی میں پڑھے لکھے اور سمجھدار بندے ہیں۔ لیکن ان کی انتے چکمہ بازیوں کو ایکسپوز کرنے کے باوجود کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ کھل کے کہے کہ ملحدین واقعی میں چکمہ بازیوں میں مصروف ہیں۔ ہاں ان قدرے سمجھدار ملحدوں کی وجہ سے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ انہوں نے ابتداء میں ہی مجھے بلاک نہیں کیا۔ وجہ صاف تھی، ان پڑھے لکھے ملحدوں کی سامنے امیج خراب ہوجاتا۔ ورنہ اتنا زیادہ برداشت کرنا فری تھنکرز کی سرشت میں نہیں ہے۔
۱۱۔ آخر میں جاکر یہ ہوا کہ جب ان سے کچھ بھی نہیں بن پڑا اور یہ بھی دیکھا گیا کہ اس بحث میں مسلسل ان ملحدین کی حماقت ظاہر ہورہی ہے جس کی وجہ الحاد کی علمیت کا تاثر شدید متاثر ہورہی ہے تو مجھے بلاک کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وہ کچھ یوں کیا گیا کہ
لوڈڈ سوال پر بحث کرتے ہوئے جناب یاسر حبیب نے میری دلیل کو بھونڈی قرار دیا تھا۔ میں نے بھی بالکل اسی انداز میں اسی بحث میں یاسر حبیب کی دلیل کو بھونڈی قرار دیا۔ مجھے پتہ ہے کہ اس قسم حرکت کے نتیجے میں بلاک کیا جاسکتا۔ چونکہ یاسر حبیب نے خود اس قسم کی حرکت کی لبرٹی لی ہوئی تھی اس لئے میرا خیال تھا کہ مجھے بھی یہی آزادی دی جائے گی۔ لیکن ایک خاص موقعے پر جب جناب نے تنگ آکر مجھے بلاک کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ تقاضا رکھا گیا کہ میں اپنا کمنٹ ایڈٹ کروں اور معافی مانگوں۔ میں نے موصوف کو بتایا کہ یہ حرکت انہوں نے خود کی ہے اس لئے پہلے انہیں معافی مانگی چاہئے۔ ساتھ میں ان کے کمنٹ کی سکرین شاٹ بھی لگادی۔
موصوف نے میری بات کا جواب دئے بغیر مزید معافی کا ڈیمانڈ رکھ دیا۔ میں نے پھر اپنے مؤقف کو دہرایا۔ اب میں دیکھتا ہوں کہ مجھے بلاک کردیا گیا ہے اور وہ کمنٹ جس میں ان کی اسی حرکت کا ثبوت پیش کیا گیا تھا اسے بھی ڈلیٹ کردیا ہے۔ لیکن کسی سچے اور مخلص ملحد کو تاحال یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس پر احتجاج کرے۔ ملحد یہی ہوتا ہے بلکہ یہ دیکھتا ہوں کہ عزازی میاں نے بھی مجھے بلاک کرنے کی تائید کی ہوئی ہے۔
۱۲۔ پوری بحث میں ایک چیز خاص طور پر محسوس کی گئی کہ ملحدین تین سٹرٹجی پر عمل کرتے رہے لیکن یہ ان کے کوئی کام نہیں آئی۔ اول یہ کہ اعتراض کے جوابات کو پڑھے بغیر اپنے اعتراضات کو وقفے وقفے سے دہراتے جانا، دوم یہ کہ نکات کا جواب دینے کے بجائے جوابات پر تبصرے کرنا جیسے یہ کج بحثی ہے ، تاویلات ہیں، جذباتی باتیں ہیں، بچکانہ حرکات ہے وغیرہ۔ سوم یہ کہ جب کوئی ایک بندہ کمزور پڑ جائے تو وہ پیچھے ہٹ جائے اور دوسرے بندہ میدان میں آجائے اور جب وہ کمزور پڑجائے تو پھر پہلے میدان میں آجائے۔ یاسر حبیب اور عزازی یہی گیم کھیلتے رہے۔ الحمد للہ مجموعی طور پر پوری بحث پر میری ایسی گرفت رہی کہ کسی کو بھی زیادہ حرکت کرنے کا کوئی موقعہ نہیں ملا۔ یہ ملحدین اپنا دفاع کرنے کے لئے Struggle کرتے نظر آئے۔ جب بھی انہوں نے اپنا دفاع کرنے کی کوشش کی کوئی نہ کوئی نئی چکمہ بازی (Fallacy) کرتے ہوئے پکڑے گئے۔
۱۳۔ بحث کے دوران ایک خاص لیول پر جاکر میں نے محسوس کیا کہ یہ ملحدین کبھی اپنی غلطی نہیں مانیں گے اور نہ ہی اپنی غلطی کو صحیح ثابت کریں گے۔ اس بنیاد پر میں نے کہا کہ چونکہ معاملہ Stalemate کی سطح پر پہونچ چکا ہے اس لئے اس بحث کو ختم کردیتے ہیں اور قارئین کو فیصلہ کرنے دیتے ہیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط۔ میری اس آفر کو یاسر حبیب نے میری کمزوری سمجھا اور بڑے تکبر سے میری اس پیش کش کو ٹھکرا دیا۔ ایسے میں اگر میں پیچھے ہٹ جاتا تو اس کو میری شکست مان لیا جاتا۔ اس لئے پھر مجھے بھی کمر کس کر میدان میں رہنا پڑا۔ یہ تکبر یاسر حبیب کو بہت مہنگا پڑا۔
۱۴۔ بحث کے دوران ایک سطح پر یاسر حبیب نے بحث کو بوریت قرار دے کر کہہ دیا کہ مزید اس کا وقت خراب نہ کیا جائے وہ مزید بحث میں حصہ نہیں لیں گے۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ عزازی معاملہ کو سنبھال نہیں پایا تو پھر بار بار آتا رہا۔ صاف لگ رہا تھا کہ موصوف کو لگ رہا تھا کہ الحاد کی عزت خطرے میں ہے۔
۱۵- بحث کے دوران عزازی نے اپنے مؤقف کا دفاع کرنے کے بجائے مجھ سے سوالات پوچھنے شروع کردئے۔ چونکہ مجھے عزازی کی اس چکمے بازی کا علم تھا اس لئے میں نے عزازی سے یہ پوچھا کہ آپ کو اپنے مؤقف کے دفاع کرنے کے لئے سوال جواب کا کتنا دور پورا کرنا ہے۔ اور مزید یہ بھی مطالبہ کیا کہ جس طرح موصوف مجھ سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں اسی طرح مجھے بھی پوچھ گچھ کرنے کی آزادی دیں۔ عزازی کی چکمے بازی کا ایک مخصوص طریقہ یہ ہے کہ جب وہ لاجواب ہوجاتا ہے تو پھر اپنے مؤقف کا دفاع کرنے کے بجائے فریق مخالف پر ایک سوال داغ دیتا ہے اور جب اس کا جواب دیا جائے تو پھر ایک اور داغ دیتا ہے اور جب اس کا بھی جواب دیا جائے کچھ اور داغ دیتا ہے۔ اس طرح بحث نتیجے تک کبھی نہیں پہونچتی اور قارئین بحث میں اپنی دلچسپی کھودیتے ہیں۔ اسی کے پیش نظر میں نے عزازی کے سوال جواب والے چکر کو انٹرٹین نہیں کیا۔ جب عزازی نے یہ صورت حال دیکھی تو اس نے مزید سوال کرنے کی ہمت نہیں کی۔
۱۶۔ بحث کے ایک مرحلے پر موصوف عزازی صاحب مجھے عجیب و غریب قسم کی خطابات دیتے نظر آئے۔ کبھی مجھے حضرت کہہ کر پکارتے کبھی اعلی حضرت کہہ کر۔ اب میری سمجھ یہ نہیں آیا کہ میرے دلائل کے دباؤ میں آکر خواہ مخواہ میری عزت کرنے لگے ہیں یا یہ کوئی طنز ہے جو کہ Name Calling کی شکل میں ظاہر ہوا یا ہھر موصوف اس بحث کو کسی اور طرف Divert کرنا چاہتے تھے۔ بہرحال یہ سلسلہ جبھی رکا جب میں نے بھی آنجناب کو علامۃ العصر جیسے خطاب سے نوازا۔ غالبا انہوں نے سوچا ہوگا کہ “علامہ” کے اس نام کی برکت سے کہیں ان کا حشر علامہ ایاز نظامی جیسا نہ ہوجائے۔ ویسے آج کل دیکھنے میں آیا ہے کہ ایاز نظامی صاحب نے اپنے آگے علامہ لکھنا بند کردیا ہے۔
۱۷۔ بحث کے دوران یاسر حبیب نے اپنی کمزوری کو دیکھ کر ایک اور چال چلی۔ موصوف نے ایک کمنٹ میں اختتامی کلمات پیش کردئے اور پیش کرنے کا انداز ایسا تھا جیسے اس بحث میں الحاد کی جیت ہوچکی ہے اور جن جن لوگوں نے اس بحث میں دلچسپی سب کا شکریہ وغیرہ وغیرہ۔۔ میری اپلوڈڈ فائل کے صفحہ نمبر چھیاسٹھ کے نیچے اس کمنٹ کو دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ بحث کے دوران چکمے بازی کی ایک اور گھٹیا قسم ہے جس کے لئے فی الحال کوئی نام نہیں ہے۔ لیکن میری تجویز ہے کہ اس قسم کی عیارانہ چکمے بازی کو Yasir Habib Fallacy قرار دیا جانا چاہئے۔ بہرحال ایسا جواب ملا کہ موصوف کو مزید ایسی حرکت کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
بہرحال ہم گروپ سے بلاک ہوچکے ہیں۔ پوری بحث کی فائل یہاں پر ملاحظۃ فرمائیں۔ ۔ چونکہ ہم کو غلط طریقے سے بلاک کیا جاچکا ہے اور خود عزازی صاحب نے بھی ایک عدد لائک سے اس بلاک کئے جانے کی تائید کی ہوئی تو پھر مزید بحث کرنے کے لئے کچھ نہیں رہ گیا ہے۔
تحریر: عزالدین دکنی