یہ آپ سے کہیں گے کہ “پہلے ھیومن (انسان) بنو بعد میں مسلمان” (یہ سیکولروں کی عوام الناس کو پھانسنے کی ایک دیرینہ خوشنما دلیل ہے)۔
آپ ان سے پوچھئے کہ “اچھا بتاؤ مسلمان ہونے سے قبل انسان ہونے کا کیا مطلب ہے؟” دیکھئے مسلمان ہونے کا مطلب یہی ہے نا کہ “میں اصلا و حقیقتا خدا کا بندہ ہوں۔” بتائیے کیا میری اس حقیقت سے ماوراء اور ماقبل بھی میری کوئی ایسی حقیقت ہے جس کا آپ مجھ سے اقرار کروانا چاھتے ہیں؟
دراصل یہ بات کہنے والوں کی عظیم ترین اکثریت کو اس بات کا مطلب ہی معلوم نہیں ہوتا۔ “میں کون ہوں”، فی زمانہ اس کے دو غالب جواب ہیں۔ ایک یہ کہ میں خدا کا بندہ (مسلمان) ہوں، دوسرا یہ کہ میں آزاد و قائم بالذات ہوں۔ مسلمان ہونے سے قبل انسان ہونے کی دعوت کا اصل مطلب اسی بات کا اقرار کروانا ہے کہ “میں اصلا آزاد ہوں”۔ پھر یہ جو خود کو مسلمان وغیرہ سمجھا جاتا ہے تو یہ اس آزاد ھستی کے اپنے ارادے کے تحت اختیار کردہ اپنی ذات کے بارے میں کچھ تصورات ہیں جو اصل حقیقت نہیں، اصل حقیقت میرا وہ ارادہ ہے جو حقیقت تخلیق کرتا ہے۔
خوشنما باتیں کرکے لوگوں کو کیوں گمراہ کرتے ہو؟ اپنا سچ کھل کر بتاؤ!
یہ بات اچھی طرح، جی بہت ہی اچھی طرح، سمجھ رکھنی چاہئے کہ انسان ہونا میری اصل نہیں بلکہ “خدا کا بندہ” ہونے کی ممکنہ صورتوں میں سے بس ایک صورت ہے۔ میرے وجود، یعنی ہونے، کی امکانی صورتیں یہ تھیں کہ میں درخت ہوتا، جانور ہوتا، پہاڑ ہوتا، پتھر ہوتا یا پھر فرشتہ و جن، مگر میں کچھ بھی ہوتا اپنے وجود کی ہر امکانی صورت میں خدا کا بندہ (مخلوق) ہی ہوتا۔ اس کائنات میں میرے وجود کا ایسا کوئی امکان نہیں جہاں میں اصلا خدا کے بندے کے ماسواء کچھ اور بھی ہوتا۔ انسان ہونا میری اصل نہیں بلکہ میرے لئے ایک حادثہ ہے، ان معنی میں کہ خدا نے جس حال میں چاہا مجھے پیدا کیا اور وہ مجھے انسان بنانے پر مجبور نہ تھا، یہ محض اس کا فضل ہے۔ پس یہ سوال کہ “اصلا مسلمان ہو یا انسان”، تو اس کا بالکل واضح جواب یہ ہے کہ اصلا اور حقیقتا میں خدا کا بندہ (مسلمان) ہوں، انسان حادثاتی طور پر ہوں۔ میں لازما being with God ہوں، نہ کہ اس سے ماوراء کوئی ہستی۔ اپنے انسان ہونے کو ڈیفائن کرنے کا اس کے علاوہ میرے پاس کوئی دوسرا حوالہ نہیں، سوائے اس کے کہ میں خود مختاریت کا دعوی کروں۔
“میں کون ہوں”، اس سوال کا جواب میں جونہی خدا کے حوالے کے بغیر دینے کی کوشش کرتا ہوں میں لازما خود کو خدا سے ماوراء و ماقبل وجود (being without God) فرض کرلیتا ہوں، اور یہی الحاد کی بنیاد ہے۔ خدا کا وجود میرے شعور انسانیت سے ماقبل ہے، لا الہ الا اللہ اسی بات کا اقرار ہے۔ “مسلمان بننے سے قبل انسان بنو” اسی کلمے کا انکار ہے۔(لا الہ الا الانسان)
پھر جب یہ واضح ہوچکا کہ “میری اصل انسان ہونا نہیں بلکہ خدا کا بندہ (مسلمان) ہونا ہے” تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اب ایمان اور کفر کی حقیقت بھی واضح کردی جائے نیز یہ بھی کہ خدا کا بندہ ہونا کیوں کر مسلمان ہونے کے ہم معنی ہے۔
جان لو کہ اصلا و حقیقتا ہر انسان خدا کا بندہ ہی ہے، چاہے وہ اس کا اقرار کرے یا انکار، کسی انسان کا اس حقیقت سے انکار کرنا کائنات میں اس کے حقیقی مقام کو بدل نہیں سکتا۔ اگر وہ زبان و دل سے اس حقیقت کا اقرار کرلے تو مؤمن و مسلم کہلاتا ہے اور اگر انکار کرے تو کافر۔ خوب جان رکھو کہ کافر کفر کرکے کسی نئی حقیقت کو دریافت نہیں کرتا بلکہ اپنی حقیقت کا انکار کرتا ہے، اسی لئے تو “کافر” (حقیقت کو چھپانے و جھٹلانے والا) کہلاتا ہے۔ پھر جب یہ واضح ہوا کہ اصلا میں بندہ ہوں تو اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ بطور انسان میں بندہ کیسے بنوں؟ تو اس کا جواب ہے “ان الدین عند االلہ الاسلام” (یعنی اظہار بندگی کا واحد اور معتبر طریقہ تمہارے رب کے نزدیک صرف اسلام ہے)، نیز “من یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ” (یعنی جس کسی نے اپنی انسانیت کے اظہار کے لئے اسلام کے علاوہ کوئی طریقہ اختیار کیا تو ایسے طریقے سے ظاہر کی گئی انسانیت رب کے یہاں مقبول نہ ہوگی)۔ چنانچہ میری انسانیت معتبر (authentic) تب ہوگی جب میں اسے بندگی کے اظہار کا ذریعہ بناؤں، اور بندگی کے اظہار کا طریقہ جاننے کا معتبر طریقہ صرف وہ پیغام ہے جسے خدا نے اپنے آخری رسولﷺ پر نازل کیا۔ اس ایک طریقے کے حوالے کے سواء اظہار بندگی کے سب طریقے مردود ہیں۔
جب یہ واضح ہوا کہ میں خدا کا بندہ ہوں، تو خدا کا یہ بندہ میں تنہائی (پرائیویٹ لائف) میں بھی ہوں اور لوگوں سے تعلقات قائم کرنے کے بعد (پبلک لائف میں) بھی۔ یہ عقلی مخمصہ کسی طور قابل قبول نہیں ہوسکتا کہ تنہائی میں بطور انسان تو میں اور میری بیوی خدا کے بندے ہیں لیکن جونہی ہم تعلق قائم کرلیتے ہیں تو ہم خدا کے بندے اور اس کے حکم کی اطاعت کے پابند نہیں رہتے۔ ایسی بات صرف ایسا ہی انسان قبول کرسکتا ہے جو عقلی طور پر قلاش ہوچکا ہو۔ میں اگر واقعی خدا کا بندہ ہوں تو اپنی زندگی کی ہر حیثیت میں ہوں۔ اپنے سے باہر کسی غیر کو مخاطب کرنے کی میرے پاس اس کے سواء کوئی بنیاد و حوالہ ہی نہیں نیز نہ ہی خدا کے نازل کردہ پیغام سے باہر میرے پاس حقوق کے تعین کا کوئی ایسا دائرہ ہے کہ جس میں خود کو رکھ کر میں کسی سے ھم کلام ہوسکوں۔ میں جب بھی کسی کو خطاب کرتا ہوں تو اس بنیاد پر کرتا ھوں کہ اس بابت خدا کا حکم مجھ سے کیا تقاضا کرتا ہے، میں جب بھی کسی غیر مسلم کو خطاب کرتا ہوں تو اسی حق کی طرف دعوت دیتا ہوں نہ کہ اس سے ماوراء حقوق کی کسی تفصیلات کے فریم ورک میں ان سے مکالمہ کرتا ہوں۔ چنانچہ میں کسی غیر مسلم کا حق زندگی اس لئے نہیں مانتا کہ “ہر انسان کو بطور مجرد انسان” کچھ ایسے فطری حقوق حاصل ہیں جن کی پابندی مجھ پر لازم ہے۔ ھرگز بھی نہیں، بلکہ ایسا اس لئے مانتا ہوں کیونکہ یہ خدا کا حکم ہے اور جس کی پاسداری مجھ پر لازم ہے۔ حق کے تعین کا حق نہ تو میں اپنی ذاتی زندگی میں رکھتا ہوں اور نہ اجتماعی میں۔ “محمد رسول اللہ” کے اقرار کا یہی مطلب ہے۔
اب یہ جو “مسلمانیت” کے بجائے “انسانیت” کا حوالہ دیتے ہیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ انکی اصل بات، جس کا خود ان میں سے بہت سوں کو بھی ادراک نہیں، آپ کے سامنے رکھ دی جائے۔ میں اپنے انسان ہونے کے بارے میں مختلف بنیادی حوالے رکھ سکتا ہوں، مثلا ایک یہ کہ میں اصلا و سب سے پہلے مغل ہوں، یا یہ کہ میں اصلا پنجابی ہوں، یا یہ کہ میں اصلا پاکستانی ہوں، یا یہ کہ میں اصلا مزدور یا سرمایہ دار طبقے کا نمائندہ ہوں، یا یہ کہ میں اصلا مسلمان، ھندو یا عیسائی ہوں۔ اپنی ذات کے ادراک کے لئے میں جو بھی حوالہ اختیار کرتا ہوں، اسی کی بقا و غلبے کے لئے جدوجہد کرنے کا اخلاقی جواز رکھتا ہوں۔
اب یہ آپ سے کہیں گے کہ تم اصلا یہ سب نہیں ہو، بلکہ یہ سب تو تمہاری اصل کا اظہار ہیں۔ اب آپ ان سے پوچھئے کہ بتاؤ پھر اصل میں میں کیا ہوں؟ تو یہ آپ سے کہیں گے کہ اصل میں تم ایک آزاد و خود مختار (قائم بالذات) ھستی ہو جسے یہ حق ہے کہ وہ اپنے ارادے سے خیر کو متعین کرے۔ پس مسلمان ہونا یہ اصل نہیں بلکہ صرف اپنے ارادے کے تحت ایک خیر کو ڈیفائن کرلینا ہے۔ یہ واحد خیر نہیں بلکہ خیر کے لاتعداد تصورات میں سے بس ایک ہے۔ یعنی خدا کا حوالہ چھوڑ دو، زمین پر اپنے ارادے سے بنائے ہوئے خیر کے حوالوں کو اپناؤ، اسی کے لئے جدوجہد کرو۔ یہ ہے ان کے نزدیک انسان ہونے کا اصلی معنی، جس کا یہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اقرار کروانا چاہتے ہیں۔
ھیومن رائٹس اور الحاد
ھیومن رائٹس “ھیومن” کے حقوق ہیں۔ ھیومن کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان ایک خود مختار و قائم بالذات وجود ہے۔ انسان کے بارے میں ایسا عقیدہ رکھنے والے کو ملحد کہا جاتا ہے۔ اس ملحد کا مفروضہ ہے کہ اصول عدل کے ادراک کے لئے لازم ہے کہ ہر شخص اپنے مذہب سے انکار کرکے پہلے خود کو قائم بالذات (autonomous) وجود فرض کرے، یعنی “عدل کیا ہے” اس کا جواب معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہر شخص پہلے ملحد ہوجائے (لاک سے لے کر رالز تک سب ھیومنز کا یہی ماننا ہے)۔ ظاہر ہے اس الحادی پس منظر کے ساتھ جو اصول عدل اور حقوق کی تفصیلات طے کی جائیں گی وہ الحادی ہی ہونگیں۔ اس ملحد (“ھیومن”) کا اصرار ہے کہ عدل و انصاف انہی حقوق کا نام ہے جو ہم ملحدین نے طے کئے ہیں نیز دنیا کا ہر مذھب و روایت اسی قدر حق ہے جس قدر یہ ان اصولوں کی تصدیق کرتے ہوں، لہذا دنیا کے تمام مذاہب و روایتوں کے حامل انسانوں پر لازم ہے کہ وہ انہی اصولوں کے مطابق فیصلے کریں۔ اگر کوئی مذہب یا فکر ان الحادی اصولوں کے طے کردہ حقوق کو معطل کرنے کی بات کرے تو یہ اسے جبر و ظلم قرار دیتے ہیں لیکن خود یہ ملحدین دنیا کے سب مذاہب اور روایتوں کے طے کردہ حقوق معطل کرکے ان پر بالجبر اپنے اصول مسلط کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ چونکہ ھیومن رائٹس الحادی فریم ورک کے طے کردہ اصول ہیں لہذا ھیومن رائٹس کے فروغ سے الحاد ہی کا غلبہ ہوتا ہے۔
آخری بات عقیدے کےجن چند اسباق کا یہاں ذکر کیا گیا انہیں خوب اچھی طرح سمجھ رکھنا چاہیے کیونکہ جدید الحاد نے عقیدوں میں جو اجاڑ پیدا کیا ہے اس کا سبب اسی نوع کے خوشنما دعوے و اصطلاحات ہیں جنہیں دھرا دھرا کر لوگ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ اوپر جو تفصیلات پیش کی گئیں یہ سیکولر حضرات کے اس مقدمے کو رد کرنے اور اس کی غلطی واضح کرنے کے لئے پیش کی گئیں کہ معاشرے وریاست کی بنیاد اس قدر پر رکھنا چاھئے جو سب انسانوں میں مشترک ہو، چونکہ ھم اصلا انسان ہیں نہ کہ مسلمان ھندو وغیرہ، تو معلوم ہوا کہ مذھب انسانوں کی بنیادی صفت اور قدر مشترک نہیں۔ اسی کلیدی دلیل ( پہلے و اصلا انسان ہو یا مسلمان و ھندو )کی بنیاد پر یہ لوگ مذہب کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کرنے کا مقدمہ کھڑا کرتے ہیں۔ یہ جو کچھ کہا گیا اسے سمجھ لیا جائے تو سیکولر ڈسکورس کی بنیادی غلطی واضح ہوجائے گی۔
تحریر ڈاکٹر زاہد مغل