موت کے بعد کوئی دوسری زندگی ہے یا نہیں؟ اور ہے تو کیسی ہے؟
یہ سوال حقیقت میں ہمارے علم کی رسائی سے دور ہے۔ ہمارے پاس وہ آنکھیں نہیں ہیں جن سے ہم موت کی سرحد کے اس پار جھانک کر دیکھ سکیں کہ وہاں کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ ہمارے پاس وہ کان نہیں ہیں جن سے ہم اُدھر کی کوئی آواز سن سکیں۔ ہم کوئی ایسا آلہ بھی نہیں رکھتے جس کے ذریعے سے تحقیق کے ساتھ معلوم کیا جا سکے کہ ادھر کچھ ہے یا کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا جہاں تک سائینس کا تعلق ہے، یہ سوال اس کے دائرے سے قطعی خارج ہے۔ جو شخص سائنس کا نام لے کر کہتا ہے کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے وہ بالکل ایک غیر سائینٹفک بات کہتا ہے۔ سائنس کی رو سے نہ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی زندگی ہے اور نہ یہ کہ کوئی زندگی نہیں ہے۔ جب تک ہم کوئی یقینی ذریعہ علم نہیں پاتے کم از کم اس وقت تک تو صحیح سائنٹفک رویہ یہی ہو سکتا ہے کہ ہم زندگی بعد موت کا نہ انکار کریں نہ اقرار۔
مگر کیا عملی زندگی میں ہم اس سائنٹفک رویے کو نباہ سکتے ہیں؟
شاید نہیں، بلکہ یقینًا نہیں۔ عقلی حیثیت سے تو یہ ممکن ہے جب ایک چیز کو جاننے کے ذرائع ہمارے پاس نہ ہوں تو اس کے متعلق ہم نفی اور اثبات دونوں سے پرہیز کریں، لیکن جب اسی چیز کا تعلق ہماری عملی زندگی سے ہو تو ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ یا تو انکار پر اپنا طرز عمل قائم کریں یا اقرار پر۔
مثلًا ایک شخص ہے جس سے آپ واقف نہیں ہیں۔ اگر اس کے ساتھ آپ کا کوئی معاملہ درپیش نہ ہو تو آپ کے لیے یہ ممکن ہے کہ اس کے ایمان دار ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کوئی حکم نہ لگائیں۔ لیکن جب آپ کو اس سے معاملہ کرنا ہو تو آپ مجبور ہیں کہ یا تو اسے ایمان دار سمجھ کر معاملہ کریں یا بے ایمان سمجھ کر۔ اپنے ذہن میں آپ ضرور یہ خیال کر سکتے ہیں کہ جب تک اس کا ایمان دار ہونا یا نہ ہونا ثابت نہ ہو جائے اس وقت تک ہم شک کے ساتھ معاملہ کریں گے۔ مگر اس کی ایمان داری کو مشکوک سمجھتے ہوئے جو معاملہ آپ کریں گے، عملًا اس کی صورت وہی تو ہو گی جو اس کی ایمان دار کا انکار کرنے کی صورت میں ہو سکتی تھی۔ لہٰذا فی الواقع انکار اور اقرار کے درمیان شک کی حالت صرف ذہن ہی میں ہو سکتی ہے۔ عملی رویہ کبھی شک پر قائم نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے یا تو اقرار یا انکار بہرحال ناگزیر ہے۔
یہ بات تھوڑے ہی غوروفکر سے سمجھ میں آ سکتی ہے کہ زندگی بعد موت کا سوال محض ایک فلسفیانہ سوال نہیں ہے بلکہ ہماری عملی زندگی سے اس کا بہت گہرا تعلق ہے۔ دراصل ہمارے اخلاقی رویے کا سارا انحصار ہی اس سوال پر ہے۔ اگر میرا یہ خیال ہو کہ زندگی جو کچھ ہے بس یہی دنیوی زندگی ہے اور اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے تو میرا اخلاقی رویہ ایک طرح کا ہو گا۔۔۔ اور اگر میں یہ خیال رکھتا ہوں کہ اس کے بعد ایک دوسری زندگی بھی ہے، جس میں مجھے اپنی موجودہ زندگی کا حساب دینا ہو گا، اور وہاں میرا اچھا یا برا انجام میرے یہاں کے اعمال پر منحصر ہو گا، تو یقینًا میرا اخلاقی طرز عمل بالکل ایک دوسری ہی طرح کا ہو گا۔
اس کی مثال یوں سمجھیے جیسے ایک شخص یہ سمجھتے ہوئے سفر کر رہا ہے کہ اسے بس یہاں سے کراچی تک جانا ہے اور کراچی پہنچ کر نہ صرف یہ کہ اس کا سفر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا بلکہ وہ وہاں پولیس اور عدالت اور ہر اس طاقت کی دسترس سے باہر ہو جائے گا جو اس سے کسی قسم کی باز پرس کر سکتی ہو۔۔ اور اس کے برعکس ایک دوسرا شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہاں سے کراچی تک تو اس کے سفر کی صرف ایک ہی منزل ہے، ا سکے بعد اسے سمندر پار ایک ایسے ملک میں جانا ہو گا جہاں کا فرمانروا وہی ہے جو پاکستان کا فرمانروا ہے اور اس کے دفتر میں میرے اس پورے کارنامے کا خفیہ ریکارڈ ہے جو میں نے پاکستان کے اس حصے میں انجام دیا ہے، اور وہاں میرے ریکارڈ کو جانچ کر فیصلہ کیا جائے گا کہ میں اپنے کام کے لحاظ سے کس درجے کا مستحق ہوں۔۔۔
آپ بآسانی اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان دونوں شخصوں کا طرز عمل کس قدر ایک دوسرے سے مختلف ہو گا۔ پہلا شخص یہ سمجھے گا کہ نفع یا نقصان جو کچھ بھی ہے کراچی پہنچنے تک ہے، آگے کچھ نہیں، یہ شخص اپنے افعال کے صرف انہی نتائج پر نظر رکھے گا جو کراچی تک کے سفر میں نکل سکتے ہیں۔ جبکہ دوسرے شخص کی نگاہ ان نتائج پر ہو گی جو سمندر پار دوسرے ملک میں پہنچ کر نکلیں گے۔ ٹھیک اسی طرح ہماری اخلاقی زندگی میں بھی وہ عقیدہ فیصلہ کن اثر رکھتا ہے جو ہم زندگی بعد موت کے بارے میں رکھتے ہیں۔ عمل کے میدان میں جو قدم بھی ہم اٹھائیں گے، اس کی صحت کا تعین اس بات پر منحصر ہو گا کہ آیا ہم اسی زندگی کو پہلی اور آخری زندگی سمجھ کر کام کر رہے ہیں یا کسی بعد کی زندگی اور اس کے نتائج کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ پہلی صورت میں ہمارا قدم ایک سمت اٹھے گا اور دوسرے صورت میں اس کی سمت بالکل مختلف ہو گی۔ میتھو ہیل لکھتا ہے
“یہ کہنا کہ مذہب ایک فریب ہے ، ان تمام ذمہ داریوں اور پابندیوں کو منسوخ کرتا ہے جن سے سماجی نظم کو برقرار رکھا جاتا ہے” (Religion without revelation. Page 115)
اسی طرح والٹئیر ایک جگہ لکھتا ہے:
” خدااور دوسری زندگی کے تصور کی اہمیت سے اس لحاظ سے بہت ذیادہ ہے کہ وہ اخلاقیات کے لئے مفروضے کا کام دیتے ہیں ، صرف اسکی کے ذریعے بہتر اخلاق کی فضاء پیدا کی جاسکتی ہے، اگر یہ عقیدہ ختم ہوجائے تو حسن عمل کے لئے کوئی محرک باقی نہیں رہتا اور اس طرح سماجی نظم کا برقرار رہنا ناممکن ہوجاتا ہے”۔ (History of philosophy by Windelband, Page 496)
اس سے معلوم ہوا کہ زندگی بعد موت کا سوال محض ایک عقلی اور فلسفیانہ سوال نہیں ہے۔ بلکہ عملی زندگی کا سوال ہے۔ اور جب بات یہ ہے تو ہمارے لیے اس معاملے میں شک اور تردد کے مقام پر ٹھہرنے کا کوئی موقع نہیں۔ شک کے ساتھ جو رویہ ہم زندگی میں اختیار کریں گے وہ بھی لا محالہ انکار ہی کے رویے جیسا ہو گا۔ لہٰذا ہم بہرحال اس امر کا تعین کرنے پر مجبور ہیں کہ آیا موت کے بعد کوئی اور زندگی ہے یا نہیں۔ اگر سائنس اس کے تعین میں ہماری مدد نہیں کرتی تو ہمیں عقلی استدلال سے مدد لینی چاہیے یا کوئی اور سورس تلاش کرنا چاہیے۔
مولانا مودودی