مسلم دنیا میں یونانی فلسفہ کا عروج اور امام غزالی

یونانی فلسفہ :

یونانی فلسفہ کی ابتداء بہت قدیم ہے اس کے اوّلین بانی یونانی مفکر تھے اس کی اساسی بنیادیں سقراط، افلاطون نے رکھی تھیں اور اسے پایۂ تکمیل تک ارسطو نے پہنچایا ۔ ارسطو صرف ایک مفکر وفلسفی ہی نہ تھا بلکہ سکندر اعظم کا اتالیق (وزیر)بھی تھا ۔ سکندر نے اپنی بہت ساری رقوم ارسطو کی تحقیقات پر صرف کیں، ہر طرح سے ارسطو کو سکندر اعظم کی تائید حاصل تھی ۔اس کا اثر یہ ہوا کہ جس جس علاقہ کو سکندر اعظم فتح کرتا گیا اور اپنی حکومت کا سکہ بٹھاتا گیا علمی اعتبار سے ارسطو کے نظریات و افکار پھیلتے گئے ۔ ایک لمبے عرصے تک یہ نظریات علمی حلقوں میں مسلمات کے طور پر قبول کیے جاتے رہے ۔


مسلم دنیا میں یونانی فلسفہ کا رواج :

عباسی خلیفہ مامون کی قدردانی اور دلچسپی اور مترجمین کی محنت اور توجہ سے سریانی، یونانی اور فارسی سے یونانی فلسفہ کی بکثرت کتابیں خصوصاََ ارسطو کی تصنیفات عربی میں منتقل ہو نا شروع ہوئیں اور وہ تیز طبیعت اور خام عقلیت مسلمانوں پر بڑا اثر آنا شروع ہوا، اس ذخیرہ میں کچھ تو منطق، طبیعیات ، عنصریات ریاضیات کی کتابیں اور علوم تھے، جن کے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہ تھا، اور کچھ الٰہیات اور مابعد الطبیعیات کے مباحث اور دفتر تھے، الٰہیات کا یہ ذخیرہ درحقیقت یونانیوں کا علم الاصنام (دیومالا) تھا، جس کو انھوں نے بڑی چالاکی سے فلسفیانہ زبان اور علمی اصطلاحات میں منتقل کر دیا تھا، یہ مفروضات اور تخیلات کا ایک طلسم تھا، جس کا نہ کوئی ثبوت تھا نہ کسی عالَم میں ان کا وجود، اس میں کہیں عقول و افلاک کا شجرہ نسب ہے کہیں ان فرضی اور خیالی چیزوں کے افعال کا زائچہ کھینچا گیا ہے، ایک ایسی امت کے لئے جس کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کی دولت سے سرفراز فرمایا تھا، اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اپنی ذات و صفات کے صحیح معرفت اور نوعِ انسان اور کائنات کی ابتداء و انتہا اور آغاز و انجام کا یقینی علم بخشا تھا، اس یونانی افسانہ اور طلسم ہوشربا، کی طرف التفات کرنے اور اس کی تفصیلات و جزئیات پر وقت ضائع کرنے کی مطلق ضرورت نہ تھی، مگر جو لوگ یونانیوں کے منطق و طبیعیات سے مرعوب تھے، انھوں نے الٰہیات کے اس دفتر پارینہ کو بھی صحیفہ آسمانی کی طرح قبول کر لیا، اور اس کو اس طرح ہاتھوں ہاتھ لیا کہ گویا ان کے پاس پیغمبر اور آسمانی کتاب کے ذریعہ کوئی علم نہیں پہنچا تھا، اور وہ جاہل قوموں کی طرح الٰہیات و دینیات میں بھی اسی طرح بے بضاعت اور تہی دامن تھے، جیسے ریاضیات و طبیعیات میں ۔

چنانچہ فلسفۂ یونان کو یعقوب کندی (م ۲۵۸ھ) ابو النصر فارابی (م ۳۳۹ھ) اور شیخ بو علی ابن سینا (م ۴۲۸ھ) کے سے پرجوش وکیل حاصل ہوئے کہ خود یونان میں بھی ان کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ انہوں نے ارسطو کو عصمت و تقدیس اور علم و حکمت کے ایسے مقام پر پہنچا دیا جو یونانی الہٰیات میں شاید مبدء اول (واجب الوجود) کو بھی حاصل نہیں، یہ بھی ایک بدقسمتی تھی کہ مسلمانوں کے حصہ میں یونان کے علمی ذخیرہ میں سے زیادہ تر ارسطو کی تصنیفات و افکار آئے جو پیغمبروں کی تعلیمات، اور دین کی روح و مزاج سے زیادہ اختلاف اور کم از کم مناسبت رکھتے ہیں، اور ارسطو بہت سے اسباب و وحوہ کی بنا پر ادیان سماوی کی روح اور دینی مفاہیم و تصّورات و حقائق سے زیادہ بعید و نا آشنا اور مادّی فکر و نظر کا پرجوش حامی وداعی ہے۔ پھر دوسری بدقسمتی یہ تھی کہ فلاسفۂ عرب میں سے کوئی بھی ان کے اصل ماخذوں اور ان کی اصل زبانوں سے واقف نہیں تھا۔ ان کا تمام انحصار تراجم پر تھا۔ اور ان سے خود ان فلاسفہ کا منشاء سمجھنے میں غلطیاں ہوئیں، پھر ان پر ارسطو کا ایسا علمی رعب اور اس کی شخصیت کا ایسا سحر غالب تھا کہ انہوں نے اس کے افکار و آراء پر نقد و جرح کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی اور معقولات کو بھی منقولات بنا دیا۔عقل پرستی کا فلسفہ جو مذہبی بنیاد پر خوارج نے شروع کیا تھا یونانی فلسفے کے زیرِ اثر معتزلہ میں علمی بنیادوں پر مستحکم ہوا۔


الکندی:


عقل پرستی کے اس مکتبہ فکر کا نمائندہ فلسفی، ابویوسف یعقوب ابن اسحق الکندی (م۸۹۹ء۔۲۸۶ء) تھے۔ الکندی کا نظریۂ عقل ارسطو سے اخذ شدہ ہے وہ عقل کے چار مدارج بیان کرتے تھے اور عقل کے ذریعے ابدی سچائیوں کو جان لینا تحفہ خداوندی سمجھتے تھے۔ کندی کے اس نظریۂ عقل کو بعد کے فلاسفہ فارابی، ابنِ سینا اور ابنِ رشد نے قابلِ قدر ورثے کے طور پر قبول کیا۔ وہ عقل کو ریاضیات، ابدی صداقتوں اور روحانی حقیقتوں کے بنیادی قوانین کا ماخذ سمجھتے ہیں جس سے پیغمبر پر وحی کا نزول ہوتا ہے اور شاعر کو آمد ہوتی ہے۔

ابوبکر رازی :

ابوبکر رازی (۸۶۴ء۔۹۲۴ء) تمام یونانی فلاسفہ کے معتقد تھے، ان کی تحریروں کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ۷ویں صدی ق م سے چوتھی صدی ق م کے درمیان جو یونانی فلاسفہ ہوئے رازی سے بڑھ کر ان کا روشن خیال اور دانشور معتقد ارسطو کے بعد سترہ سو سال کے عرصے میں کوئی اور نہیں ہوا۔ ۔

آزاد خیالی کی یہ لہر ابن الراوندی (م ۹۱۱ء) استاد ابو عیسیٰ وراق (م۹۰۹ء) شاعر بشار ابن برد (م ۷۸۳ء) اور ممتاز شاعر ابوالعلاء معریٰ (م ۱۰۵۷ء) کے ذریعے اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ گئی۔ معریٰ Humanism کے سب سے بڑا علمبردار اور مذہب کے سب سے بڑے مخالف تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ جو عقل رکھتے ہیں ان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور جو دین دار ہوتے ہیں عقل سے انھیں کوئی سروکار نہیں رہتا۔ تمام مذاہب کا مضحکہ اڑاتے ۔عمر خیام بھی اپنی روشن خیالی، آزاد خیالی اور بے باکی کے باوجود قسمت کے راز کو کبھی نہ پاسکے۔ وہ حقائق اور اشیاء کی تہہ تک پہنچنے کے بجائے شراب کی تہہ تک پہنچ گئے اور پھر تہہ میں ہی رہ گئے۔ ان کی بے بسی، بے کسی، نامرادی اور ناکامی ان کے ایک مصرعے سے عیاں ہے:

<ایک دروازہ تھا جس کی کوئی چابی مجھے نہ ملی، ایک پردہ تھا جس کے اندر میں جھانک نہیں سکتا تھا۔>undefined

افسوس کہ وہ اپنے قلب میں نہیں جھانک سکے اور وحی کی لذت سے ہمیشہ کے لیے محروم رہ گئے۔

فارابی: اسلامی نو افلاطونیت:

وہ لہر جو خوارج سے چل کر معتزلہ تک یونانی فلسفے کے ذریعے پہنچی۔ ابونصر فارابی (۸۷۰۔۹۵۰ء) نے عقلیت کی اس لہر کو وسعت دے کر اسلامی نوفلاطونیت undefined کی بنیاد رکھی۔ ان کا پورا نظامِ فلسفہ افلاطونیت، ارسطوئیت اور تصوف کا آمیختہ ہے۔ فارابی کے خیال میں مذہبی صداقت اور فلسفیانہ صداقت معروضی طور پر ایک ہیں، اس طرح فارابی نے اپنے استدلال کے ذریعے فلسفہ اور اسلامی عقائد کے درمیان ہم آہنگی کو ممکن بنانے کی کوشش۔فارابی عقل فعال کے ساتھ ربط و تعلق کو دو طریقوں سے ممکن بتلاتے ہیں، سوچ بچار اور الہام۔ نفسِ انسانی مطالعے اور جستجو کے ذریعے عقل مستفاد (Acquired Intellect) تک پہنچ جاتی ہے جہاں وہ الوہی روشنی حاصل کرلیتی ہے۔ اس سطح تک صرف فلاسفہ اور داناؤں کی مقدس روحیں ہی پہنچ سکتی ہیں ۔ فارابی کے مطابق یہ ربط و تعلق تصور کے ذریعے بھی ممکن ہے جیسا کہ پیغمبروں کے ساتھ ہوتا ہے اس لیے کہ ان کا تمام وحی و الہام تصور کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔ تصور میں یہ طاقت ہے کہ وہ روحانی دنیا کے نمونے پر ذہنی پیکر تخلیق کرے۔ فارابی کے اس فلسفے کی بازگشت انیسویں صدی کے جدیدیت پسند مفکرین جمال الدین افغانی اور شیخ محمد عبدہٗ کے یہاں سنائی دیتی ہے۔

ابن سینا:

فارابی کے فلسفے کی توضیح و توسیع اور نئے افکار کے امتزاج کے ساتھ ایک نئے مکتبہ فکر کی بنیاد رکھنے کا کام ابو علی الحسین ابن سینا <۱۰۳۷۔۹۸۰>undefined نے کیا۔ ان کی تصانیف کی تعداد ۲۷۶ ہے۔ ان کی کتاب الشفاء ۱۵ جلدوں میں فلسفے کا دائرۃ المعارف ہے۔ اس کی تلخیص ابن سینا نے ’’النجات‘‘ کے نام سے کی تھی۔ اس نے ایک بے احتیاط حد درجہ غیرمعتدل اور مسرفانہ زندگی بسر کی۔ ان کی مابعد الطبیعیات کا سب سے بڑا حصہ ’’وجود‘‘ (Being) کے بارے میں ہے۔

ابن سینا خدا کو وہ وجودِ واجب Necessary Existence تسلیم کرتے ہیں جس سے صرف عقلِ اول صادر ہوئی کیوں کہ ایک واحد ہستی سے ایک ہی چیز کا صدور ہوسکتا ہے اس عقلِ اول سے عقلِ ثانی اور پھر بتدریج عقل عاشر کی منزل آتی ہے جو تحت القمری دنیا کا انتظام چلاتی ہے اور مسلم فلاسفہ کی اکثریت نے اسے جبریل کا نام دیا ہے۔ اس فلسفے کے ذریعے انھوں نے ارسطو کے تصورِ خدا کی جدید اور بہتر توضیح کرنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ افکار و توضیحات اسلامی علمیات سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے، محض باطل خیالات ہیں۔

ابن سینا دو طرح کی، عقلی اور روحانی دنیاؤں کے باشندے ہیں، یعنی ایک یونانی اور دوسری اسلامی۔ اپنے ذہن میں انھوں نے دونوں دنیاؤں کو اس طرح خلقی طور پر (Intrinsically) یکجا کیا ہے کہ وہ بالکل ایک سی لگتی ہیں اور ان میں کسی کے ساتھ بے وفائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان حالات میں انھوں نے روایتی اسلام اور یونانی ورثے دونوں کی تعبیر و تشریح کی اور ان میں بہت کچھ تغیر و تبدل کیا۔ ابن سینا کے فلسفے کے مطابق پیغمبر اپنی سچائی کے لیے فلسفے کے معیار پر پورا اترے، گویا فلسفہ وحی آسمانی کے برابر حیثیت رکھتا ہے اور فلسفی کا مقام پیغمبر سے بلند ہے کیوں کہ ابن سینا کے مطابق فلسفیانہ تجربے کو پیغمبرانہ تجربے کے معیار پر نہیں بلکہ پیغمبرانہ تجربے کو فلسفیانہ معیار پر پورا اترنا چاہیے اس طرح معیار فلسفہ ہوا، لہٰذا فلسفی پیغمبر سے افضل ہے۔ اسی طرح ابن سینا یونانی فلسفہ کے اثر کیوجہ سے قیامت کے روز انسانوں کے اٹھائے جانے کے منکر تھے، ابن سینا عقلی تھے لہٰذا وہ مابعد الطبیعیاتی سوالات کو اپنی عقل کے زور پر حل کرنا چاہتے تھے۔

جماعتِ “اخوان الصّفا” اور اس کے رسائل:

چوتھی صدی ہجری کے آخر میں تمام عالمِ اسلام پر فلسفہ یونان کا اثر پڑ رہا تھا، ہر ذہین و متجسس نوجوان اس کو شوق و عظمت کی نگاہ سے دیکھتا تھا، چوتھی صدی کے وسط ہی میں اخوان الصفا کے نام سے فری میسن کے طرز کی ایک خفیہ انجمن بغداد میں قائم ہوئی، جس میں فلسفہ یونان کو معیار قرار دے کر دینی مباحث اور عقائد پر گفتگو ہوتی تھی اور مسائل کو طے کیا جاتا تھا۔ اس انجمن کا منشور ان کے الفاظ میں یہ تھا :”اسلامی شریعت جہالتوں اور گمراہیوں کی آمیزش سے گندی ہو گئی ہے۔ اس کو صرف فلسفہ کے ذریعہ دھویا اور پاک کیا جا سکتا ہے اس لئے کہ فلسفہ اعتقادی علوم و حکمت اور اجتہادی مصلحتوں پر حاوی ہے۔ اب صرف فلسفۂ یونان اور شریعت محمدی کے امتزاج سے کمال مطلوب حاصل ہو سکتا ہے”۔ (تاریخ فلاسفۃ الاسلام فی المشرق و المغرب محمد لطفی جمعہ ص ۲۵۳)

ان کی اپنے رفقاء کو خاص ہدایت تھی کہ وہ پختہ کار اور سن رسیدہ لوگوں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے نوجوانوں اور کم عمروں کی طرف توجہ کریں، اور ان کو اپنے خیالات سے متاثر کرنے کی کوشش کریں، اس لئے کہ عمر رسیدہ لوگوں میں پختگی اور جمود ہوتا ہے، جو نئی چیز کو قبول کرنے سے مانع ہوتا ہے، نوجوان نئی چیز کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ (ایضاً ص ۲۶۰، ۲۶۱)

انہوں نے اس بحث و نظر کے نتیجہ میں ۵۲ رسالے مرتب کئے، جو ان کے فلسفہ کی نمانیدگی کرتے ہیں، اور رسائل اخوان الصّفا کے نام سے تاریخ و ادب میں مشہور ہیں اور طبیعیات، ریاضیات، عقلیات کے مباحث پر مشتمل ہیں، معتزلہ اور ان کے ہم مذاق لوگوں نے ان رسائل کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ وہ اپنی مجلسوں میں ان کر پڑھتے تھے اور جہاں جاتے تھے اپنے ساتھ لے جاتے تھے، یہاں تک کہ ایک صدی کے اندر وہ اندلس پہنچ گئے۔ (تاریخ فلسفۃ الاسلام ص ۲۵۴)


باطنیت کا فتنہ:

فلسفہ کے ساتھ ساتھ اور اس کے اثر سے ایک نیا فتنہ پیدا ہوا، جو اسلام کے حق میں نبوت کی تعلیمات کے لئے فلسفہ سے بھی زیادہ خطرناک تھا، یہ باطنیت کا فتنہ ہے، اس کے بانی اور داعی اکثر ان قوموں کے افراد تھے جو اسلام کے مقابلہ میں اپنی سلطنتیں اور اقتدار کھو چکے تھے اور ظاہری مقابلہ اور جنگ سے ان کی بازیافت کی کوئی امید نہ تھی، یا شہوت پرست اور لذت پرست لوگ تھے ۔ اس فتنہ کے بانیوں نے اپنی ذہانت اور یونانی فلسفے کی مدد سے دین اسلام کے اصول و نصوص اور قطعیات میں تحریف و تنسیخ کا دروازہ کھولدیا اوراسی کے ساتھ اسلام واہل اسلام کے خلاف قوت وطاقت کا مظاہرہ بھی کیا جس کی بنا پر اسلامی حکومتیں عرصہ تک پریشان رہیں اوراسلام کی بہت سی منتخب شخصیتیں اس تشدد آمیز فتنہ کا شکار ہوگئیں۔

٭ایک نئی شخصیت کی ضرورت:

فلسفہ اور باطنیت کے ان اسلام کش اثرات کے لئے ایک ایسی شخصیت کی ضرورت تھی، جس کو علومِ عقلیہ و نقلیہ دونوں میں پوری بصیرت اور دستگاہ حاصل ہو اور وہ تمام علوم میں مجتہدانہ نظر اور اپنا خود مقام رکھتا ہو جو اپنے ذہن خداداد جودت طبع اور دقتِ نظر میں فلاسفۂ یونان اور بہت سے قدیم ائمہ فکر سے کم نہ ہو، جو بہت سے علوم کو نئے طریقہ سے مدوّن کرنے کی قابلیت رکھتا ہو، جو وفورِ علم اور وسعت ِ نظر کے ساتھ دولتِ یقین سے بھی مالا مال ہو، اور اس نے اپنے ذاتی تفکر، تلاش و تحقیق، اور ریاضت و عبادت سے دین کے ان ابدی حقائق پر نیا ایمان حاصل کیا ہو، اور وہ نئے اعتماد ، تازہ یقین کے ساتھ علٰی وجہ البصیرۃ دین کی پیروی اور رسول ﷺ کے اقتداء کی طرف دعوت دیتا ہو، نیز عالم اسلامی اور علمی دنیا میں اپنے علم و یقین اور فکر و نظر سے ایک نئی روح اور زندگی کی ایک نئی لہر پیدا کر دے، پانچویں صدی کے عین وسط میں اسلام کو ایسی شخصیت عطا ہوئی جس کی عالمِ اسلام کو سخت ضرورت تھی، یہ شخصیت امام غزالی ؒ کی تھی۔

امام غزالی رحمہ اللہ نے اس کے بعد جو مجددانہ کام انجام دیا، اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

۱ ۔ فلسفہ اور باطنیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کا مقابلہ اور اسلام کی طرف سے ان کی بنیادوں پر حملہ۔

۲ ۔ زندگی و معاشرت کا اسلامی و اخلاقی جائزہ اور ان کی تنقید و اصلاح۔


فلسفہ پر عملِ جراحی:

ان کے پہلے اور سب سے بڑے کارنامہ کی تفصیل یہ ہے کہ فلسفۂ الحاد، باطنیت کے خلاف اس وقت تک جو کچھ کیا جاتا رہا تھا، اس کی حیثیت صرف مدافعت و جواب دہی کی تھی، اس وقت تک فلسفہ اسلام پر حملہ آور تھا اور متکلمین اسلام صفائی کے وکیل تھے، فلسفہ اسلام کی بنیادوں پر تیشہ چلاتا تھا اور علم کلام سپر بننے کی کوشش کرتا تھا، اس وقت تک متکلمین و علماء اسلام کے گروہ میں کسی نے خود فلسفہ کی بنیادوں پر ضرب لگانے کی جرات نہیں کی۔ “فلسفہ” جن “مفروضات” پر قائم تھا، ان پر جرح کرنے اور خود ان کی علمی تنقید کرنے کی صدیوں تک کسی کو ہمت نہیں ہوئی۔ امام ابو الحسن اشعری کو چھوڑ کر جن کو فلسفہ سے براہِ راست واسطہ نہیں پڑا، پورے علم کلام کا لہجہ معذرت آمیز اور مدافعانہ تھا، امام غزالی رحمہ اللہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے فلسفہ کا تفصیلی و تنقیدی مطالعہ کیا، اس کے بعد “مقاصد الفلاسفہ” کے نام سے ایک کتاب لکھی، جس میں آسان زبان اور سلجھے ہوئے طریقہ پر منطق الٰہیات اور طبیعیات کا خلاصہ پیش کیا اور پوری غیر جانبداری کے ساتھ فلاسفہ کے نظریات، اور مباحث کو مدون کر دیا۔ کتاب کے مقدمہ میں انہوں نے وضاحت کے ساتھ لکھ دیا ہے کہ ریاضیات میں قیل و قال کی گنجائش نہیں ، اور دین کا اس سے نفیاً و اثباتاً کوئی تعلق نہیں ، لیکن اصل مذہب کا تصادم الٰہیات سے ہے ، منطقیات میں بھی شاذ و نادر غلطیاں ہیں ، اگر کچھ اختلاف ہے تو اصطلاحات کا ، طبیعیات میں ضرور حق و باطل کی آمیزش ہے ، اس لیے اس کا موضوع بحث دراصل الٰہیات اور کسی قدر طبیعیات ہے ، منطق محض تمہید و اصطلاحات کے لیے ۔

اس کتاب سے فارغ ہو کر جس کی علم کلام کے حلقہ میں سخت ضرورت تھی ، انھوں نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب ’’ تھافت الفلاسفۃ ” لکھی جس کی خاطر انہوں نے ’’ مقاصد الفلاسفہ ” لکھی تھی ۔ اس میں انہوں نے فلسفہ کے الٰہیات و طبیعیات پر اسلامی نقطۂ نظر سے تنقید کی ، اور اس کی علمی کمزوریوں ، اس کے استدلال کے ضعف ، اور فلسفہ کے باہم تناقض و اختلاف کو پوری جرأت و قوت کے ساتھ ظاہر کیا ، اس کتاب میں ان کا لہجہ پُر از اعتماد ان کی زبان طاقتور اور شگفتہ ہے ، کہیں کہیں وہ طنزیہ اور شوخ طرزِ بیان بھی اختیار کر لیتے ہیں جس کی فلسفہ سے مرعوب حلقوں میں ضرورت تھی ، اور جو بڑا نفسیاتی اثر رکھتا ہے ، اس کے پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ کتاب کا مصنف فلاسفہ کے مقابلہ میں احساس کمتری کے ہر شائبہ سے پاک ، اعتماد اور یقین سے لبریز اور فلسفہ سے بالکل غیر مرعوب ہے ، وہ فلاسفۂ یونان کو اپنی صف اور سطح کا آدمی سمجھتا ہے ، اور ان سے مساویانہ و حریفانہ باتیں کرتا ہے ، اس وقت ایک ایسے ہی آدمی کی ضرورت تھی ، جو فلسفہ سے آنکھیں ملا کر بات کر سکے ، اور بجائے مدافعت اور جواب دہی کے فلسفہ پر پورا وار کرے ، امام غزالیؒ نے ’’ تہافت الفلاسفہ ” میں یہی خدمت انجام دی ہے ، اوّل سے آخر تک اس کتاب میں ان کا طرز یہی ہے ، کتاب کی تمہید میں لکھتے ہیں :-

’’ ہمارے زمانہ میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوگئے ہیں ، جن کو یہ زعم ہے کہ ان کا دل و دماغ عام آدمیوں سے ممتاز ہے ، یہ لوگ مذہبی احکام و قیود کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے سقراط و بقراط ، افلاطون و ارسطو کے پُر ہیبت نام سنے ، اور ان کی شان میں ان کے مقلدوں کی مبالغہ آرائیاں اور قصیدہ خوانی سنی ، ان کو معلوم ہوا کہ ریاضیات ، منطقیات ، طبیعیات و الٰہیات میں انہوں نے بڑی موشگافیاں کی ہیں ، اور ان کا عقل و ذہن میں کوئی ہمسر نہ تھا ۔ اس عالی دماغی اور ذہانت کے ساتھ وہ مذاہب اور ان کی تفصیلات کے منکر تھے ، اور ان کے نزدیک ان کے اصول و قواعد فرضی و مصنوعی ہیں ، بس انہوں نے بھی تقلید ’’ انکارِ مذہب کو اپنا شعار بنا لیا ، اور تعلیم یافتہ اور روشن خیال کہلانے کے شوق میں مذاہب کا انکار کرنے لگے ، تاکہ ان کی سطح عوام سے بلند سمجھی جائے اور وہ بھی عقلاء و حکماء کے زمرہ میں شمار ہونے لگیں ، اس بناء پر میں نے ارادہ کیا کہ ان حکماء نے الٰہیات پر جو کچھ لکھا ہے ، اس کی غلطیاں دکھاؤں اور ثابت کروں کہ ان کے مسائل اور اصول بازیچہ ٔ اطفال اور ان کے بہت سے اقوال و نظریات حد درجہ کے مضحکہ خیز بلکہ عبرت انگیز ہیں ۔( تہافت الفلاسفۃ ص ۲ ۔۳ مطبع علامیہ مصر)

اس کتاب میں آگے چل کر ان کا زور بیان اور طنز آمیز طریقۂ تحریر اور شوخ ہو جاتا ہے اور ذات و صفات باری کے متعلق فلاسفہ کے عجائبات اور عقول و افلاک کا پورا شجرۂ نسب لکھ کر جو فلاسفہ نے تصنیف کیا ہے لکھتے ہیں:تمہارا یہ سارا بیان اور تفصیلات محض دعاوی اور تحکمات ہیں بلکہ در حقیقت تاریکیوں پر تاریکیاں ہیں اگر کوئی شخص اپنا ایسا خواب بھی دیکھنا بیان کرے تو اس کے سوء مزاج کی دلیل ہوگی ۔ (ایضاً ص۳۰۔ ۲۹ )

آگے چل کر لکھتے ہیں: مجھے حیرت ہے کہ دیوانہ آدمی بھی اِن خود ساختہ باتوں پر کیسے قانع ہو سکتا ہے ، چہ جائیکہ وہ عقلاء جو بزعم خود معقولات میں بال کی کھال نکالتے ہیں ۔( ایضاً ص ۳۳)

دوسری جگہ لکھتے ہیں: (مبدا اول) کی تعظیم میں مبالغہ کرنے سے ان کو اس حد تک پہنچا دیا کہ انھوں نے عظمت کے تمام شرائط و لوازم کو باطل قرار دے دیا ۔ اور اللہ تعالیٰ کو (اپنے فلسفہ میں) اس مردہ کی طرح بنا دیا ‘ جس کو کچھ خبر نہیں کہ عالم میں کیا ہورہا ہے ‘ صرف اس بات میں وہ مردہ سے غنیمت ہےکہ اس کو اپنا شعور ہے ( مردہ کو اپنا شعور بھی نہیں ہوتا ) اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کا ایسا ہی حشر کرتا ہے‘ جو اس کے راستہ سے ہٹ جاتے ہیں اور ہدایت کے راستہ سے کترا جاتے ہیں جو اس آیت کے منکر ہیں ۔ ’’میں نے ان کفار و مشرکین کو آسماں اور زمین کی پیدائش کے وقت گواہ نہیں بنایا ‘ اور ان کی پیدائش کے وقت ‘‘ جو اللہ تعالیٰ سے بد گمانی کرتے ہیں‘ اور برا اعتقاد رکھتے ہیں جن کا خیال ہے کہ امور ربوبیت کی حقیقت پر انسان قویٰ حاوی ہو سکتے ہیں جو اپنی عقلوں پر نازاں ہیں‘ اور سمجھتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں پیغمبروں کی تقلید اور ان کے اتباع کی ضرورت نہیں، لا محالہ اس کا انجام یہ ہوا کہ ان کی زبان سے (معقولات کے نام سے) ایسی ایسی مضحکہ خیز باتیں نکلیں کہ اگر کوئی خواب بھی ایسا بیان کرے تو لوگ تعجب کریں۔(ایضا)

فلسفے میں امام غزالیؒ نے اپنی محنت سے تمام فلسفیانہ مباحث پر عبور حاصل کیا۔ اس کااندازہ ان کی فلسفیانہ تحریروں سے لگایا جاسکتا ہے جن میں ایک ’’معیار العلم‘‘ ہے جو ارسطو کی منطق کا بہت صاف اور واضح خلاصہ ہے۔ دوسری ’’مقاصد الفلاسفہ‘‘ ہے جو نو افلاطونی فلسفیانہ تعلیمات کا نچوڑ ہے تیسری ’’میزان العمل‘‘ ہے جو اخلاق کے موضوع پر ایک اہم رسالہ ہے جس کا اختتامی روپ صوفیانہ ہے تاہم فلاسفہ پر اپنے حملے ’’تہافت الفلاسفہ‘‘ کے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں کہ: پہلی دو کتابوں کی تصنیف سے ان کا مقصد وہ بنیاد تیار کرنا تھا جس سے ارسطو کے یا غالباً افلاطونیوں کے ان افکار و نظریات کا رد کیا جاسکے جن کی تعبیر اسلام کے دو سب سے ممتاز اور قابل اعتماد فلاسفہ فارابی اور ابن سینا نے کی تھی”۔ اپنے اس رد میں غزالیؒ انصاف کے ساتھ فلسفے کے چار حصوں میں امتیاز قائم کرتے ہیں:

۱۔ ایک ایسا حصہ جس کا مذہب کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں، اس لیے اس کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ منطق ہے جو محض فکر کا ایک آلہ ہے۔

۲۔ ایک ایسا حصہ جو اول الذکر کی طرح مذہب کے ساتھ کوئی براہ راست تعلق نہیں رکھتا لیکن یہ اپنے یقینی ہونے کی وجہ سے ایک طالب علم کے اندر یہ گمان پیدا کرسکتا ہے کہ تمام فلسفیانہ علوم اس طرح کے یقینی مرتبے کے حامل ہیں۔ یہ حصہ ریاضیات ہے۔

۳۔ ایک ایسا حصہ جو سیاسی اور اخلاقی معاملات پر قابل اعتراض انداز میں بات کرتا ہے، اس لیے کہ ان کے اندر جو عمدہ مقولے اور سچے اصول پائے جاتے ہیں وہ اگر غور سے دیکھیں تو انبیاء اور صوفیہ کی تعلیمات سے اخذ ہوتے ہیں۔ فلسفیانہ علوم کے اس حصے کا مطالعہ احتیاط سے ہی کرنا چاہیے۔

۴۔ اور آخر میں ایک حصہ ایسا ہے جس میں فلاسفہ کی غلطیوں کا ایک بڑا عنصر پایا جاتا ہے، اس کا نام طبیعیات اور مابعد الطبیعیات ہے۔


تہافت الفلاسفہ:

اس کے بعد امام غزالیؒ اپنی کتاب ’’تہافت الفلاسفہ‘‘ میں ان مسائل کا خلاصہ دیتے ہیں جن پر فلاسفہ کو بدعتی اور بے دین قرار دینا چاہیے۔ ان میں سترہ مسئلے الہیات کے اور تین مسئلے طبیعیات کے ہیں۔ ان مسائل کی تفصیل یہ ہے:

۱۔ فلاسفہ کا یہ دعویٰ کہ عالم ازلی اور قدیم ہے۔

۲۔ فلاسفہ کا یہ دعویٰ کہ عالم، زمان اور حرکت سب ابدی ہیں۔

۳۔ فلاسفہ کا یہ خیال کہ ’’خدا صانع عالم‘‘ ہے لیکن ان کے اصولوں کے مطابق خدا صانع عالم نہیں ہوسکتا۔

۴۔ خدا کا وجود ثابت کرنے میں فلاسفہ کی نااہلی۔

۵۔ خدا کی توحید ثابت کرنے میں فلاسفہ کی ناکامی۔

۶۔ فلاسفہ کا یہ دعویٰ کہ خدا صفات مثلاً علم، قدرت اور ارادہ سے معرا ہے۔

۷۔ فلاسفہ کا یہ قول کہ خدا کی جنس اور فعل نہیں ہے۔

۸۔ فلاسفہ کا یہ دعویٰ کہ خدا کی ذات بسیط ہے۔

۹۔ فلاسفہ کا یہ ثابت نہ کرسکنا کہ خدا کا جسم نہیں۔

۱۰۔ فلاسفہ کی یہ ثابت کرنے میں ناکامی کہ خدا اپنے غیر کو اور انواع و اجناس کو کلی طور پر جانتا ہے۔

۱۱۔ فلاسفہ کا یہ ثابت نہ کرسکنا کہ خدا اپنی ذات کو جانتا ہے۔

۱۲۔ فلاسفہ کا یہ دعویٰ کہ خدا جزئیات کا علم نہیں رکھتا۔

۱۳۔ فلاسفہ کا یہ دعویٰ کہ آسمانی حیوان متحرک بالا رادہ ہے۔

۱۴۔ فلاسفہ نے آسمان کی حرکت کی جو غرض بیان کی ہے اس کا باطل ہونا۔

۱۵۔ فلاسفہ کا یہ خیال کہ افلاک تمام جزئیات کے عالم ہیں۔

۱۶۔ فلاسفہ کا یہ نظریہ کہ خرق عادت باطل ہے۔

۱۷۔ فلاسفہ کی یہ ثابت کرنے میں ناکامی کہ روح ایک جوہر قائم بالذات ہے۔

۱۸۔ فلاسفہ کی یہ غلطی کہ وہ حشر اجساد کا انکار کرتے ہیں۔

۱۹۔ فلاسفہ کی یہ ثابت کرنے میں ناکامی کہ اس کائنات کی کوئی علت یا اس کا کوئی خالق ہے۔ <غزالیؒ کی اس فہرست کے مباحثے اور آج کے جدیدیت پسندوں اور فلاسفہ کے موضوعات و مباحث میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا>undefined

لیکن ان میں سے تین سب سے زیادہ فاسد اور ضرر رساں مسائل جن پر فلاسفہ کی تکفیر کی جاسکتی ہے امام غزالیؒ کے نزدیک یہ ہیں: (۱) دنیا کا ازلی اور قدیم ہونا، (۲) خدا کا کلیات کا علم رکھنا، لیکن جزئیات سے بے خبر ہونا، (۳) قیامت کے روز حشر اجساد کا انکار۔

فلاسفہ اور غزالی کے درمیان جن مسائل پر دلائل کا تبادلہ ہوا ان میں ایک یہ تھا کہ فلاسفہ کے نزدیک جو تین حالتیں مل کر تمام وجود کا احاطہ کرتی ہیں چاہے وہ سوچ کی شکل میں ہو یا وجود کی شکل میں، وہ ممکن، ممتنع (Impossible) اور واجب کی حالتیں ہیں۔ فلاسفہ نے یہ خیال پیش کیا کہ وجود میں آنے سے پہلے یہ کائنات یا تو ممکن ہوگی یا ممتنع یا واجب، اب کائنات ممتنع تو ہو نہیں سکتی اس لیے کہ جو ممتنع ہو وہ وجود میں نہیں آسکتا، جب کہ کائنات موجود ہے، نہ یہ واجب ہوسکتی ہے اس لیے کہ ایسی چیز کا جو واجب ہو کبھی غیر موجود ہونا سوچا بھی نہیں جاسکتا اور یہ چیز کائنات کے بارے میں صحیح نہیں ہے تو ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے اور وہ ہے ممکن کی، کہ یہ کائنات وجود میں آنے سے پہلے ہمیشہ ممکن رہی ہوگی، ورنہ یہ کبھی وجود میں نہ آتی۔ لیکن امکان ایک وصفی تصور ہے۔ یہ کسی چیز کو پہلے سے فرض کرتا ہے یعنی ارسطوئی فکر کے معنوں میں ایک ایسا جوہر (Substance) جو واقعی بننے کے عمل میں ہے۔ ہم امکان کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ اپنے آپ موجود ہے یا یہ کسی چیز میں موجود نہیں ہے۔ نہ اس بات میں کوئی معقولیت ہوگی اگر ہم کہیں کہ امکان خدا کی ذات میں موجود ہوتا ہے۔ چنانچہ صرف مادہ ہی ہے جو امکان کے لیے ایک زیرطبق (Substratum) کا کام دے سکتا ہے یا اس سے اثر پذیر ہوسکتا ہے۔ اب اس مادے کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ وجود میں آیا۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اس کے وجود کا امکان اس کے وجود سے پہلے موجود ہوتا۔ اس حالت میں یا تو امکان خود امکان میں موجود رہا ہوتا، جو کہ ناقابل فہم ہے یا یہ کسی ایسے دوسرے مادے میں ہوتا جو وجود میں نہیں آیا۔ یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ مادہ ازلی ہے۔

فلاسفہ کی اس حد درجہ نفیس (Sophisticated) اور پر پیچ دلیل کو رد کرتے ہوئے غزالیؒ ، کانٹ کے انداز میں کہتے ہیں کہ امکان غیر امکان کی طرح محض ایک تصوراتی خیال ہے جس کی واقعیت کے ساتھ کوئی مطابقت نہیں ہوسکتی۔ اگر امکان کے لیے ایک زیر طبق چاہیے تو غیر امکان کے لیے بھی کوئی بنیاد چاہیے ہوگی۔ لیکن ٹھوس واقعیت کی صورت میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں ہے جس کا تعلق غیر امکان سے جوڑا جائے۔ چنانچہ امکان بھی غیر امکان کی طرح محض ایک تصوراتی خیال ہے۔ ایک ایسی بنیاد یا تحت طبقے کی موجودگی فرض کرنا جس کے ساتھ اس مفروضے کا تعلق قائم کیا جائے یہ خیال محض سے وجود واقعی کی طرف ایک مابعد الطبیعیاتی جست لگانے کے مترادف ہوگا اور یہ ایک وجودیاتی مغالطہ ہوگا۔

خدا کو جزئیات کا علم ہے یا نہیں فلاسفہ کی اس بحث میں غزالیؒ کی تنقید کا مرکزی حصہ مذہبی تجربے کے نقطۂ نظر سے وقت کا لحاظ ہے۔ فلاسفہ کے نزدیک خدا کو خاص واقعات کا علم اس وقت نہیں ہوتا جب وہ واقع ہوتے ہیں، بلکہ اس کو ان کا علم ازل سے ہوتا ہے، چنانچہ وہ پیغمبروں کے بارے میں بھی اسی کلی طریقے پر علم رکھتا ہے۔ خدا کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی یہ ازل سے معلوم تھا کہ وہ نبوت کا اعلان کریں گے۔ اس علم کا تعلق اس وقت کے ساتھ نہیں تھا جب یہ خاص واقعہ رونما ہوا۔ اہل مذاہب کا کہنا تھا کہ اس سے تو خدا اور انسان کے درمیان ایک خلیج واقع ہوجاتی ہے۔ خدا ایک ماورائی حالت میں رہتا ہے، کسی تغیر اور تبدیلی کے بغیر، ایک ازلیت کی بے رحم اقلیم میں اور انسان ناپائیداری کی ایک ہر آن بدلتی ہوئی اقلیم میں رہنے پر مجبور ہے۔ انسان کے تجربات وقت کے ساتھ لرزاں رہتے ہیں۔ لیکن خدا کی ذات میں وقت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا تو ایسی حالت میں ہماری دعاؤں اور التجاؤں کا کیا اثر ہوسکتا ہے اور ہماری تعریفیں اور عبادتیں وہ اپنی ازلی ماورائیت میں کہاں سنے گا، چنانچہ انسان مایوسی میں یہ دہائی دینے پر مجبور ہوگا کہ اے خدا تو کہاں ہے اور کیونکر اس خاص لمحے میں ہماری مدد کو آئے گا۔ امام غزالیؒ کا خیال ہے کہ فلاسفہ کا الوہی علم کا نظریہ ایسا ہے کہ خدا اور انسان کے درمیان سارا مذہبی رابطہ ختم ہوجاتا ہے اور اس سے مذہب کا سارا عصبی مرکز متاثر ہوتا ہے اور زندگی سے تمام حرارت نکل جاتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ فلاسفہ کے اس نظریے کے سبب غزالیؒ نے انھیں بے دین قرار دیا۔

امام غزالیؒ نے فلاسفہ کی اصل مشکل کا سبب یہ بتایا کہ وہ ایک جبری نظریۂ کائنات میں یقین رکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ تمام چیزوں کے لیے ایک نیچری انداز کی وضاحت طلب کرتے ہیں۔ زیادہ صحیح طور پر ایسی وضاحت جو علت اور معلول کے معنوں میں ہو اور کسی ایسی چیز کے امکان کو نہیں مانتے جو غیر معمولی اور فوق الفطرت ہو۔ اس بات نے امام غزالیؒ کو فلاسفہ کے نظریۂ علت (Causality) کا ایک تنقیدی اور تندو تیز تجزیہ کرنے پر اکسایا۔ فلاسفہ کے نظریہ علت کے پیچھے چونکہ ان کا نظریہ صدور تھا اس کے دو اہم پہلو قابل لحاظ تھے:

پہلا یہ کہ علت اور معلول کے درمیان جو تعلق ہوتا ہے وہ لزوم کا تعلق ہوتا ہے یعنی جہاں علت ہوگی وہاں معلول ہوگا اور جہاں معلول ہوگا تو اس کی کوئی علت ضرور ہوگی۔

دوسرے یہ کہ علت اور معلول کے درمیان جو تعلق ہوتا ہے وہ ایک کا ایک سے تعلق ہوتا ہے: وہی علت اور وہی معلول اور اسی طرح اس کے برعکس۔

امام غزالیؒ نے ان دونوں بیانات کو زور دار طریقے سے چیلنج کیا۔ پہلے بیان کے متعلق بتایا کہ علت اور معلول کے تعلق کے لیے کوئی ایسی مجبور کرنے والی ضرورت نہیں ہوتی، چنانچہ ایسا ہوسکتا ہے کہ آگ ہو اور وہ نہ جلائے۔ پانی ہو اور وہ پیاس نہ بجھائے۔ یہ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ ہم ان کے درمیان ایک لازمی تعلق سمجھ لیتے ہیں۔ پھر ان علتوں یا اسباب میں کسی طرح کے ارادے کی موجودگی کا نہیں سوچا جاسکتا، کیونکہ یہ سب اور ان کے ساتھ سیارگان اور ستارے کرہ ہائے فلک بالکل جامد اور بے جان ہوتے ہیں۔ ان افلاک کے اور زمین کے اس پورے کارخانے میں جو ارادہ کارفرما ہے وہ حاضر و ناظر اور قادر مطلق کا ارادہ ہے۔ یہ اس کا ارادہ ہی ہے جو اجرام فلکی کو ایک خاص قاعدے کے تحت حرکت دیتا ہے اور واقعات اس کے علت و معلول کے طریقے پر رونما ہوتے ہیں۔ آگ جلاتی ہے، پانی پیاس بجھاتا ہے اور سورج روشنی دیتا ہے وغیرہ۔

دوسرے بیان کے متعلق امام غزالیؒ نے کہا کہ علت اور معلول کے درمیان جو تعلق ہے وہ ایک اور ایک کا نہیں ہے جس طرح فلاسفہ سمجھتے ہیں اور اس کے لیے کہ ان کے ذہنوں پر نوافلاطونی نظریہ صدور نے قبضہ کر رکھا ہے۔ علت یقیناًایک وحدانی طرز کا واقعہ نہیں ہوتا، بلکہ ایک مخلوط واقعہ ہوتا ہے جس میں متعدد عوامل شامل ہوتے ہیں۔ کچھ ان میں مثبت ہوتے ہیں اور کچھ منفی۔ لیکن اس علت کی موثر کارکردگی کے لیے ان دونوں طرح کے عوامل کا علم ضروری ہوتا ہے۔ ایک معمولی سا فینا مینا مثلاً ہمارا کسی چیز کو دیکھنا، یہ بھی ایک مرکب اور پیچیدہ معاملہ ہے اس لیے کہ اس کا دارومدار ہماری بصارت پر، روشنی پر، گرد اور دھوئیں کے نہ ہونے پر اور اس امر پر ہوتا ہے کہ شے موضوع کتنے فاصلہ پر ہے اور کس سمت میں ہے، اس کا حجم اور صورت کیا ہے اور اس کے ہمارے بیچ کوئی چیز تو حائل نہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایک اثر یا واقعہ صرف ایک علت کا نہیں بلکہ کئی علتوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ بہت سے مختلف اسباب یا علتوں کی وجہ سے ایک ہی اثر پیدا ہوسکتا ہے اور ان علتوں کی تعداد کو صرف ان تک محدود نہیں کیا جاسکتا جو ہم نے خودمشاہدہ کی ہیں۔ اس لیے کہ ہمارا مشاہدہ محدود ہے اور گھرا ہوا ہے۔

بعض اہل نظر کے نزدیک امام غزالیؒ کا مذکورہ بالا تجزیہ انسانی فکر کی تاریخ میں ایک اوریجنل چیز ہے اس تجزیے نے فلاسفہ کے دلائل کو عبرتناک شکست دی۔

“تہافت الفلاسفہ” کا اثر:


فلسفہ پر دلیرانہ تنقید اور کسی حد تک تحقیر علمِ کلام کی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز تھا، جس کا سہرا امام غزالی رحمہ اللہ کے سر ہے۔ بعد میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کی تکمیل کی اور فلسفہ اور منطق کی لاش کی “تشریح” (پوسٹ مارٹم) کا فرض انجام دیا، فلسفہ جراحی کے اس سلسلہ کا آغاز امام غزالی رحمہ اللہ ہی کی تصنیفات سے ہوتا ہے۔

“تہافت الفلاسفہ” نے فلسفہ کے خیالی طلسم پر کاری ضرب لگائی اور اس کی عظمت، ذہنی تقدس کو کافی نقصان پہنچایا، اس کتاب کی تصنیف نے فلسفہ کے حلقوں میں ایک اضطراب اور غم و غصہ پیدا کر دیا، مگر سو (100) برس تک اس کے جواب میں کوئی شایانِ شان کتاب تصنیف نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ چھٹی صدی ہجری کے آخر میں فلسفہ کے مشہور پرجوش وکیل اور ارسطو کے حلقہ بگوش ابن رشد (م ۵۹۵ھ) نے “تہافت التہافت” کے نام سے اس کا جواب لکھا۔ ابن رشد کی غزالی پر تنقید کی 

نوعیت 

(تاریخ فلاسفۃ الاسلام فی المشرق والمغرب محمد لطفی جمعہ ص ۷۲)

باطنیت پر حملہ:


فلسفہ کے علاوہ امام غزالی رحمہ اللہ نے فتنۂ باطنیت کے طرف بھی توجہ کی۔ انہوں نے قیام بغداد اور مدرسۂ نظامیہ کی تدریس کے زمانہ میں باطنیوں کی تردید میں خلیفۂ وقت کے اشارہ سے “المستنظہری” تالیف کی تھی، جس کا تذکرہ انہوں نے اپنی خود نوشت تلاش حق کی کہانی “المنقذ من الضلال” میں کیا ہے۔ اس کتاب کے علاوہ اس موضوع پر ان کی تین کتابیں اور ہیں جو غالباً اس بازگشت زمانہ کی تصنیف ہیں۔ “حجۃ الحق”، “مفصل الخلاف”، “قاصم الباطنیہ” (ان تینوں کتابوں کا تذکرہ امام غزالی رحمہ اللہ نے “جواہر القرآن” میں کیا ہے)۔ ان کی تصنیفات کی فہرست میں اس موضوع پر دو کتابیں ” “فضائح الاباحیہ” اور “مواھم الباطنیہ” اور بھی ملتی ہیں۔ باطنیت کے رد کے لئے درحقیقت اہل سنت کے حلقہ میں ان سے زیادہ موزوں آدمی ملنا مشکل تھا۔ وہ فلسفہ و تصوف اور ظاہری علوم اور حقائق و معارف دونوں کوچوں سے واقف تھے اور باطنیہ کی اسرار فروشی اور ان کی عقلی سازش کا آسانی سے پردہ فاش کر سکتے تھے۔ باطنیہ کا بڑا حربہ فلسفہ اور اس کی اصطلاحات تھیں۔ اس لئے امام غزالی رحمہ اللہ جیسا جامعہ شخص اور عقلیات کا مبصر ان کی تردید کا کام کر سکتا تھا۔ چنانچہ اس کام کو انہوں نے بخوبی انجام دیا اور ان کو علمی طور پر بے وقعت اور بے اثر بنا دیا۔

استفادہ تحریر : عالم اسلام میں روایت اور جدید یت کی کشمکش از ڈاکٹر خالد جامعی، تاریخ دعوت و عزیمت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ