دورحاضر میں مسلم معاشروں میں اسلامی (تعلیمات) اور جدید سائنس (بالخصوص جدید ٹیکنالوجی) میں مثبت تعامل ان پیچیدہ مسائل میں سے ایک ہے جس کا سامنا پچھلے دو سو سالوں سے مسلمانوں کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 19ویں صدی عیسوی میں جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے مسلم معاشروں میں انجذاب مسلمان دانشوروں اور مفکرین میں فکری مباحث کا ایک اہم موضوع رہا ہے اور یہ سلسلہ اب 21ویں صدی میں بھی جاری و ساری ہے اگرچہ اب اسلامی دنیا اور جدید مغرب کے مابین جدید ذرائع مواصلات اور آمد و رفت کے وسائل ایجاد ہونے سے جہاں فکری تعامل کے نئے واقع میسر آئے ہیں وہاں یہ بحث اور زیادہ شدت اختیار کرگئی ہے کہ آخر کس انداز سے جدید سائنس اور اسلامی تصور جہاں کے مابین مثبت بلاغ قائم کیا جاسکتا ہے؟
جب 19ویں عیسوی میں عرب دنیا میں اصلاحی سیاسی اور علمی تحریکیں (نہدی تحریک) برپا کی گئیں اوراس سے ملتی جلتی اسلامی تحریکیں ایران (فارس) ترک اور برصغیر پاک و ہند میں چلائی گئیں۔ یہاں ُان تحریکوں کے بانیان میں جمال الدین افغانی سرسید احمد خان ضیا گولپ اور ڈاکٹر محمد علامہ اقبال جیسی قدآور شخصیات تھیں حتیٰ کہ عرب دنیا میں سلفی تحریک کے پیروکار بھی ان اصلاحی تحریکوں سے متاثر ہوئے۔ حالیہ وقتوں میں بھی مصر کی الازھر جامعہ کے مختلف شیوخ اور جدید سائنس کے مسلم سائنسدانوں اور دیگر طبیعات (عبدالسلام) کے افکار ان اصلاحی و تعلیمی تحریکوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ 19ویں اور 20ویں صدی میں ان علمی و سیاسی اصلاحی تحریکوں کے بانیان کی مغربی سائنس (اور کسی حد تک ٹیکنالوجی) سے دلچسپی فکری اور مذہبی سطحوں پر مختلف چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے قومی اور سیاسی آزادیوں کے حصول کے حوالے سے تھی۔ لیکن قومی آزادی کے بعد بھی ان ملکوں میں مسلم حکومتوں (ریاستوں) کی دلچسپی کا محور جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کا حصول ہی رہا۔ کیونکہ وہ اسے (مادی) طاقت کے حصول کا ذریعہ سمجھتے تھے اوراسے معاشی دولت اور عسکری طاقت حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ضرورت سمجھتے تھے۔
اس کے برعکس وقت نے ثابت کیا ہے کہ یہ حکمت عملی حکمت الٰہیہ (Divine Wisdom) پر مبنی نہیں تھی۔ کیونکہ اس حکمت عملی کے تحت جہاں مسلم تجدد پسندوں (Modernists) کے لشکر نے جدید مغربی سائنس اور ٹیکنالوجی کی مداح میں مغلوبانہ ذہنیت کے ساتھ بنیاد پرستانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اندھادھند جدید سیکولر سائنس کے حصول کی ترغیب کی خاطر انتہائی غلط انداز میں جدید سائنسی علوم کو قرآن مجید احادیث مبارکہ اور اسلامی تاریخی دور میں موجود اصطلاح ’’العلم‘‘ کے مترادف قرار دینا شروع کردیا (حالانکہ اسلامی تاریخ میں ’’العلم‘‘ کا مفہوم اکثریتی طور پر آیت اللہ کی گہرائی کے ساتھ تفہیم اور خالق کائنات کے ساتھ مخلوق کے آفاقی تعلق کی نوعیت کی وضاحت و تشریح اور انسانی روح و جسم کے تزکیے جیسے اعلیٰ و ارفع مقاصد میں مددگار ذریعے کے طور پر موجود تھا)۔ لیکن اب اس ’’العلم‘‘ کو محض مادی غلبے اور تسخیریت کے ذریعے طاقت کے حصول کا ذریعہ سمجھ لیا گیاجس کے بل بوتے پر مختلف نسلی اور مذہبی گروہوں کو طاقتور اقوام کی طرف سے معاشی ذہنی و فکری غلام بنایا جاتا ہے جیسا کہ امریکہ کی حالیہ تاریخ میں واضح نظر آتا ہے اور جس کی پیروی آج کے تجدد پسند مسلمان مقلدبھی اندھادھند کررہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مختلف سیاسی مذہبی اور فقہی اختلافات ہونے کے باوجود ہمیں مسلم معاشروں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی اندھادھند توصیف کی مد میں تقریباً پرستشانہ انداز میں کلُی اتفاق نظر آتا ہے اور یہ یقین اُس وقت ’’ایمان‘‘ کا درجہ حاصل کرلیتا ہے جب کوئی تجدد پسند مسلم دانشور دیکھتا ہے کہ کسی لڑائی یا جنگ میں ایک طرف (سائنس اور ٹیکنالوجی سے لیس غیر مسلم فریق) تقریباً 60 افراد مارے گئے ہیں جبکہ دوسری طرف بظاہر ’’سائنسی پسماندگی‘‘ کے حامل ہزارہا مسلمان جاں بحق ہوگئے ہیں جس کی عملی مثالیں ہمیں بوسنیا سے لے کر چیچنیا کشمیر سے لے کر فلپائن افغانستان سے لے کر فلسطین و عراق اور حالیہ شام و لیبیا میں نظر آتی ہے جہاں مسلمان ہمیشہ دفاعی حالت میں رہے ہیں اور دوسرے ظالم فریق کی طرف سے مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔
لیکن یہ بھی عجب المیہ ہے کہ ہم (مسلمان) جوں جوں سیکولر جدید سائنس و ٹیکنالوجی کو گلے لگانے کی کوشش کرتے ہیں توں توں ہم اور زیادہ مغربی طاقتوں کے فکری و فنی لحاظ سے دست نگر بنتے چلے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے اس تنزلی کے سفر میں چند سنجیدہ کار مسلمان دانشور اب یہ سوچنے لگے ہیں کہ جدید مغربی سائنس اور ٹیکنالوجی کی اندھادھند تقلید چاہے ظاہری جذباتی طور پر مسلم معاشروں کی حالیہ ضرورتوں کو پورا کرنے میں کتنی ہی سہولت کیوں نہ فراہم کرتی ہو۔ تب بھی ہمیں جدید سائنس اور اسلامی تناظر جہاں (World View) کے مابین ’’مثبت‘‘ یا منفی تعلق کو سچائی کے ساتھ سمجھنے کے حوالے سے غفلت نہیں برتنی چاہیے کیونکہ یہ (الحق) آفاقی سچائی ہی ہے جو کہ بالآخر انسانی معاشروں میں باقی رہتی ہے یوں اس لیے مسلمانوں کو ’’سہولت‘‘ کا علم بردار بننے کے بجائے عدل و انصاف حق اور سچ کا علمبردار بننا چاہیے اور یہ کہ معاشرے یا سیاست کے چلن کے بجائے آفاقی و الہامی جنتوں کے زیرسایہ اپنی عارضی دنیاوی زندگی بسر کرنیں چاہئیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں سورہ بنی اسرائیل (اسراء) میں بھی ارشاد ربانی ہے:وَقُلْ جَآئَ الْحَقَّ وَزَھَقَ الْبَاطِلْ اِنَّ الْبَاطِلَ کَان زَھُوقًا (۸۱)۔ ترجمہ :اور کہیے! حق آگیا اور باطل مٹ گیا بے شک باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔
جدید سائنس پر تنقیدی نوٹ:
یہ نہایت ضروری ہے کہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کو اسلامی تناظر جہاں کے حوالے سے گہرائی سے سمجھا جائے اور اس پر تنقید اسلامی تصورحیات و ممات اور مشاہدہ کائنات کے لحاظ سے کی جائے۔ لیکن یہاں اس سے یہ مراد بھی نہیں ہے کہ محض ظاہری مفہوم کو دیکھتے ہوئے قرآن پاک کی مختلف آیات اور مغربی سائنس کے ’’ازم‘‘ اور تصورات کو یکجا کر دیا جائے جیسا کہ پچھلے دو سو سالوں سے مسلم معاشروں میں کیا جارہا ہے بلکہ اس کے بجائے یہ تنقید اسلامی فکری روایت کی روشنی میں ہونی چاہیے اور اس تنقید کو تمام تر شعبہ جات ہائے زندگی سے اخذ کیا جانا چاہیے۔ جیسا کہ ہمارے علمی اکابرین ماضی میں ایک ہزار سال پہلے کرتے تھے۔ جس کے تحت کسی بھی اسلام سے اجنبی تہذیبی ثقافتی علمی یا فنی نظریے کو اسلامی مشاہدہ کائنات تناظر جہاں اور تصور حیات و ممات کی چھلنی سے گزار کر اُس سے مطلوبہ حکمت الٰہیہ کشید کرلی جاتی تھی۔ یوں یہ تعبیر نہ تو جدیدیت زدہ ہوتی تھی نہ ہی محض کلامی مباحث اور فقہی فرقہ واریت پر مبنی ہوتی تھی۔
1
۔ سب سے پہلا رویہ جو کہ اسلامی دنیا کی طرف سے ایک اجتماعی متفقہ موقف کے طور پر اپنایا گیا ہے اور منفی نوعیت کا بھی ہے وہ یہ کہ ہم نے بحیثیت مجموعی مغربی تصور سائنس کے ناقدانہ انداز سے سنجیدہ مطالعہ سے انکار کر دیا ہے اگرچہ زیادہ تر یہ رویہ اُس احساس کمتری کا نتیجہ ہے جس کے تحت عمومی طور پر جدید مغربی اور سیکولر سائنس کو اسلامی تصور جہاں پر مبنی سائنس کی ترقی یافتہ صورت اور جاری و ساری رہنے والے مرحلے کے طور پر دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ یوں اس فکر کے تحت ہر قسم کے فکری تناظراتی تفہیم (Paradigm) میں تبدیلی اور سائنسی اور صنعتی انقلاب کے دوران سائنسی فلسفے میں تغیر کے امکان کو رد کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ سولہویں صدی عیسوی سے بیسویں صدی عیسوی تک سائنسی فلسفے میں جوہری تبدیلی واقع ہوئی ہے جس کے تحت نہ صرف اُن امتیازی رجحانات سے پہلوتہی کی جاتی ہے جو کہ اسلامی سائنس اور جدید سائنس کے مابین حد فاضل قائم کرتے ہیں بلکہ مغربی سائنس کی نشاۃ ثانیہ سے پہلے اور ازمنہ وسطیٰ کی (مذہبی مسیحی) سائنس جو کہ 5ویں صدی عیسوی سے 15وی صدی عیسوی تک مغرب میں موجود تھی ‘ اُس کے جدید سائنس کے حوالے سے پائے جانے والے فکری تفاوت سے بھی پہلوتہی برتی جاتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ امر حیران کن ہے کہ ان میں کچھ تو صرف جدید سائنس کو اسلامی سائنس کے مساوی ہی قرار نہیں دیتے بلکہ مغربی سائنسی فلاسفی کو واحد سائنسی (علمی) کسوٹی کے طور پر پیش کرتے اور فروغ دیتے ہیں حالانکہ سب پر واضح ہے کہ جدید سائنسی فلاسفی تشکیکی نظریات پر مشتمل ہے جس پہ خود مغرب میں کئی مفکرین نے سنجیدہ تنقید کی ہے اور خود اہل مغرب بھی اب اسے چھوڑتے جارہے ہیں۔ لیکن یہاں ہمارے تجدد پسند مسلمان اس بیمار فکر کو فخراً اپناتے ہوئے اسلامی سائنسی فلاسفی کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
2
۔ دوسرا اہم نقطہ جدید سائنس اور اُس سے جڑے اقداری نظام کے مابین تعلق و تعامل کی وضاحت کے حوالے سے ہے جس کے تحت جدید سائنس سے اخذ کی جانے والی اقدار اور اقداری نظام پر یقین استوار کیا جاتا ہے۔ اس فکر کے تحت جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے اندھے مقلدین کا دعویٰ ہے کہ جدید سائنسی اقدار غیرجانبدار (نیوٹرل) اور فطری ہیں حالانکہ اس فاش غلطی کو کرتے ہوئے یہ دانشور جہاں ایک طرف مغربی فلاسفرز اور مغربی سائنس کے حوالے سے خود مغرب میں ہونے والی تنقید سے لاعلمی کا ثبوت پیش کررہے ہوتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ اپنی خودساختہ جہالت کا پردہ فاش بھی کر رہے ہوتے ہیں جس کے تحت ناقابل تردید دلائل سے ثابت کیا گیا ہے کہ جدید سائنس بھی دیگر (سائنسی علوم) کی طرح ایک مخصوص فکری نظر رکھتی ہے اور یہ اپنا ایک مخصوص تصور جہان اور حیات و ممات رکھتی ہے جو کہ اُن مخصوص مفروضات (نظریات) پر مبنی ہے جس کے تحت فطرت (انسانی و کائناتی) کو محض ایک طبیعی (مادی) حقیقت کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ صرف بیرونی حقائق کو جزوی طور پر جاننے میں دلچسپی رکھتی ہے اور اس کے مابین ظاہری تعلق کی بھی وضاحت کرتی ہے۔ حالانکہ اس کے برعکس ہمیں جدید سائنس کا موازنہ لازماً اسلامی تناظر جہاں اور مشاہدہ کائنات کے حوالے سے کرنا چاہیے تھا تاکہ مسلمانوں پر عیاں ہوسکے کہ حقیقتاً وہ اقداری نظام اور فلاسفک مفروضات کون سے ہیں جس پر مغربی تصور حقیقت اور فطرت کو استوار کیا گیا ہے کیونکہ اس کے مقابلے میں اسلامی اقداری نظام اور تصورفطرت (انسانی و کائنات) کافی حد تک مختلف اور مخالف سمتوں میں ہیں۔ دراصل اسلامی تصور حقیقت و کائنات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ الہامی علم (وحی) کے ماتحت ہے لہٰذا یہ محض اکتسابی انسانی علوم کی مختلف اشکال و توضیحات پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ جدید سائنس ہی ہے جو عقلیت پسندی پر مبنی فکر کے تحت محض عقل انسانی اور حواس خمسہ کے مشاہدات (تجربیت) کے علاوہ کسی دوسرے ذریعۂ علم (وحی) کو معتبر ذریعہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر تجدد پسند دانشور اور ان کے ہمنوا دیگر غیرمسلم زعماء کی طرف سے جدید سائنسی (طبیعاتی و حیاتیاتی) کو عالمگیر (آفاقی و کائناتی) سائنس (علم) کے طور پر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ اس سائنس کی بنیادیں مخصوص مشاہدہ کائنات اور فلسفہ حیات کے تحت استوار کے گئے اقداری نظام کے ساتھ ہیں جس کا کلیُ تعلق یورپی تاریخ کے ساتھ ہے نہ کہ عالمی انسانی تاریخ کے ساتھ ہے یہی وجہ ہے کہ بوئنگ جیٹ طیارے (747) کو بھی اس لیے ’’آفاقی‘‘ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ یہ ٹوکیو بیجنگ اسلام آباد یا تہران میں لینڈ کرتا ہے۔ اس کے بجائے یہ اُس ٹیکنالوجی کا نتیجہ ہے جس کے تحت فطری طاقتوں اور ماحول کے انسانی حوالوں کے ساتھ ایک مخصوص تناظر کے تحت وضاحت کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ انسان کے بارے میں بھی ایسے نقطہ نظر کو فروغ دیتیں ہیں جس کے ذریعے جدید مغربی طاقتیں اپنی عالمگیر حیثیت کو مزید فروغ دینا چاہ رہی ہوتیں ہیں اور اس مقصد میں کامیابی کے لیے وہ اس کے بالمقابل تمام تناظرات کو مٹانے کی کوشش کر رہیں ہوتی ہیں۔ یقینا ان کے اہداف میں اسلام بھی شامل ہے اسلیے جدید سائنس اور اُس کے جڑا فلسفہ بھی دیگر مذاہب بالخصوص اسلام کے لیے بڑا چیلنج ہے کیونکہ اسلام کا تصورحقیقت تناظر جہان اور مشاہدہ کائنات محض مجرد انسانی عقل پر مبنی نہیں ہے بلکہ وحی الٰہیہ اور وجدان (الہام) خداوندی پر مشتمل ہے۔ اس لیے جدید سائنس پر بنیادی تنقید اور اس کے مطالعے میں ہمیں اس تناظر کو لازماً مدنظر رکھنا چاہیے کیونکہ بحیثیت مسلمان یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم جدید سائنس کا مطالعہ اُن کے تناظر جہان کے پس منظر اور سیاق و سباق سے جڑے فکری اصولوں اور ماخذات کے لحاظ سے کریں اور پھر معتبر اسلامی تناظر کے پس منظر میں ان اصولوں پر جرح و تنقید کریں۔
3
۔ یہ حقیقت بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ واضح ہو رہی ہے کہ اخلاقی اقدار کی بنیاد کا براہ راست تعلق سائنسی اخلاقیات کے ساتھ بھی ہے۔ بہت سے لکھنے والوں نے انفرادی سائنسدانوں کے غیراخلاقی رویے کو واضح کیا ہے اور ہمیں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جدید سائنس پرغیر اخلاقی رویے اپنانے کی ذمہ داری نہیں ڈالی جاسکتی اور بذات خود سائنس کسی اخلاقی رویے کو فروغ نہیں دیتی۔ بلاشبہ بہت سے مخلص عیسائی یہودی اور مسلمان سائنسدان مغرب میں موجود ہیں جیسا کہ مسلمان بدھسٹ اور ہندو سائنسدان مشرقی ممالک میں موجود ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اخلاقی رویوں کا کسی مخصوص مذہبی شناخت پر انحصار اُن تمام صورتحالوں میں نہایت کم رہ جاتا ہے۔ خاص طور پر جب جب جدید سیکولر سائنس سے جڑی اقدار و اخلاقیات کی شعوری و لاشعوری طور پر پرستش کی جائے۔ مثلاً ذاتی تجربے کے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ میں اپنی نوجوانی میں بہت سے ایسے اخلاقی سائنسدانوں کو جانتا ہوں جنہوں نے بعد میں ایسے بم (نیوکلیئر) بنانے میں مدد کی تھی جس کی مدد سے 70سال پہلے دو لاکھ انسانوں کو دو دنوں میں جاپان میں ہلاک کردیا گیا۔ جبکہ نازی دور میں نام نہاد جرمن اخلاقی سائنسدانوں کے ہاتھوں برپا ہونے والے انسانی المیے اس کے علاوہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی عملی زندگیوں میں عاجزی کا مظاہرہ کرنے والے یہ سائنسدان جو اپنے پائوں کے نیچے کسی چیونٹی کو کچلنا یا مسلنا بھی پسند نہیں کرتے لیکن انہوں نے بہت سی خدائی تخلیقات (مخلوقات) کو صفحہ ہستی سے مٹانے (ختم) کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ علم اور اس کی اطلاقی صورتوں سے اخلاقی ذمہ داریوں کو علیحدہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جدید سائنس نے فطرت کے دیگر تناظرات کو تباہ کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے جس کے اس تحت مذہبی علوم کی صداقتوں (سچائیوں) کو شاعری حکایت حتیٰ کہ توہم پرستانہ عقائد (Dogma) کہہ کر بے توقیر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یوں مذہبی علم کو ’’فطرت (انسان و کائنات) کے علم کے قلعے‘‘ کی حیثیت سے محروم کردیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر اب مغرب میں جو کچھ اخلاقی بچا ہے وہ اُس ابراہیمی مذہبی روایات کی باقیات ہیں جو کہ کئی لحاظ سے اسلام کے اخلاقی اصولوں اور تعلیمات کے قریب تر ہیں۔ ابراہیمی روایت کے علم فطرت کے دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے جدید مغربی سائنس نے ایک ایسے رویے کو فروغ دیا ہے جس کے تحت ہرگزرتے دن کے ساتھ آفاقی حقائق کے ساتھ جڑا اخلاقی و تاریخی ورثہ زنگ آلود ہو رہا ہے۔ یوں جدید دنیا میں علم کا آفاقی حقیقت کے ساتھ معروضی تعلق بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔ لیکن وہاں یہ صورتحال مسیحیت کی مذہبی روایت میں کمزوری کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے جس کے تحت مسیحی مذہبی اور اصلاحی تحریکوں کے ذریعے سیکولر سائنسی فلاسفی کو مسیحی مذہبی کلام کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی مصنوعی کوشش کی گئی۔ یہی رویہ اسلامی مذہبی عقائد اور روایت کے ساتھ تجدد پسندوں کی طرف سے بھی کرنے کی کوششوں کے ضمن میں بھی نظر آتا ہے حالانکہ یہ رویہ اُس سطحی اور مغلوبانہ سوچ کا نتیجہ ہے جس کے تحت مغربی فکری فلاسفی اور سائنسی تاریخ کا کم تر درجے کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے اس قسم کا مطالعہ اور ردعمل کا مظاہرہ مسلم دنیا کے بہت سے ملکوں میں تجدد پسند مسلمانوں کی طرف سے کیا جارہا ہے۔
حالانکہ اب ہمیں ایسی مثبت اسلامی تنقید کی ضرورت ہے جو کہ ایک طرف ٹھوس علم پر مبنی ہو نہ کہ محض جذباتی نعرے بازی پر جو ہمیں نہ صرف یہ بتائے کہ جدید مغربی سائنس میں ہمارے لیے کیا کچھ ہے؟ (جیسا کہ اس کے بہت سے پرزور وکیل دعویٰ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں) بلکہ یہ بھی بتائے کہ مغربی سائنس کیا کچھ نہیں ہے۔ جس کے ذریعے ہمیں یہ آگہی ہوسکے کہ جدید سائنس واحد فطری نظم و نظام کی وضاحت کرنے والی سائنس (علم) نہیں ہے بلکہ یہ محض فطری علم (سائنس) کا ایک تناظر ہے جو کہ اپنے مخصوص مفروضات کے دائروں میں ’’ثبوتوں‘‘ کے ساتھ قائم ہے اور یہ مفروضات اُن معروضی معلومات اور تفکری تفصیلات پر مبنی ہیں جن کا مغرب سے تعلق ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کو لازماً اپنے روایتی اسلامی تصور تفکر کو برقرار رکھتے ہوئے ایسے گردوپیش کو تخلیق کرنا چاہیے جہاں اسلامی تصور فطرت اور تصورحقیقت کو فروغ دیا جاسکے جس میں اسلامی تصور اخلاق براہ راست اثرورسوخ رکھتا ہو۔
لیکن یہاں اسلامی روایتی تصورجہاں کی وضاحت کرتے ہوئے ہمیں جدید سائنس کے قائم شدہ مفروضات کو یکسر مستردبھی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے ناصرف انتہاپسندی کو فروغ ملے گا بلکہ پیچیدہ مسائل کے سادہ سے حل جو بظاہر مذہبی اور خوشنما دکھائی دیتے ہوں گے وہ بھی اور زیادہ لامذہبیت کی قبولیت کاداعیہ مسلم معاشروں میں پیدا کرتے رہیں گے یوں مسلمان اسلامی تصورجہاں کے بجائے جدید سائنس سے اخذ شدہ تصورفطرت جہان اور حیات و ممات کو فروغ دینے لگیں گے جو بظاہر تو مادی طور پر مسلم ملکوں کو طاقتور امیر قومی ریاست بنانے والا اقدام ہوگا لیکن اسلامی اجتماعیت اور اسلامی اخلاقیات کو پارہ پارہ بھی کرنے پر مصر ہوگا۔ اس لیے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ اس بیماری نے نہ صرف مغربی مسیحیت کو بلکہ تجدد پسند مسلمانوں کو بھی اس روش کا شکار کرکے اُن کے اپنے عظیم روحانی و اخلاقی ورثے کے خزینے سے بے اعتنائی برتنے پر مجبور کردیا ہے اور یوں وہ ’’سائنسی تصور جہاں‘‘ کی قبولیت کے نام پر کہیں مارکس ازم کو مذہبی نظریے کی حیثیت دے رہے ہیں یا پھر کہیں سیکولرازم اور نیچریت (فطرت) کا علم بلند کیے ہوئے ہیں اور کہیں بنیاد پرستانہ کہیں سیکولر تحریکوں کی کان کا نمک بن کر معاشرے میں انتہاپسندانہ رویوں کو فروغ دے رہے ہیں اور دوسری طرف ان رویوں نے مغرب میں بھی مذہب مخالف طاقتوں انسان پرستوں (Humanists) اور سیکولرز کو متحد کردیا ہے۔
آخر میں جدید سائنس کے اس رویے پر ٹھوس تنقید کی ضرورت ہے جس کے تحت سیکولر سائنس نے ایسے ذہنی گرد و پیش اور ماحول کو تخلیق کیا ہے جس کے تحت خدا (اللہ کی ذات و صفات) اور عقیدہ آخرت (معاد) غائب (معدوم) ہوکر رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فکری رجحان کے تحت آہستہ آہستہ اب اسے غیرحقیقی قرار دے دیا گیا ہے اگرچہ بہت سے جدید مغربی دانشوروں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جدید سائنس مذہب مخالف نہیں ہے کیونکہ اس میں خدا تعالیٰ کی (ذات) کے امکان کو کلیتاً مسترد نہیں کیا گیا۔ اگرچہ بہت سے مسلمان اُن کی ہمنوائی میں یہ دعویٰ کرتے ہوئے ضرور نظر آتے ہیں لیکن اس قسم کی مباحث میں جدید سائنس کے بجائے محض مذہبی اصولوں اور تصور حقیقت پر دبائو ڈالا جاتا ہے کہ وہ اپنے عقائد اور اعمال میں تغیر پیدا کریں اور تبدیلی کی گنجائش پیدا کریں۔ یہی وجہ ہے کہ بالخصوص وحی پر مبنی علم کی جگہ فطری حقائق (Facts) کو قرار دینے کی کوششوں کا سلسلہ گزشتہ چار سو سالوں سے جاری ہے اور جدید سائنس کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ ان رویوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید سائنسی فلسفے پر سنجیدہ تنقید کرنے کے بجائے مذہبی آفاقی صداقتوں کو کونے کھدرے میں پھینک دیا گیا ہے۔
عام طور پر اکثر مغربی متکلمین اور اہل مذہب (مسیحی) شدت جذبات کے ساتھ جدید سائنس کے تحت ہونے والی ایجادات (دریافتوں) کو فوراً اپنی مذہبی تعلیمات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں حالانکہ یہ رویہ اُن کی مذہبی (مسیحی) بنیادوں کے حق میں نہایت مضر ہے۔ کیونکہ انہی رویوں کے تحت علم مطلق کی آفاقی حقائق کی صورت گری (ہیئت) تغیرپذیر حسی و مشاہداتی سائنسی (علمی) حقائق کے ساتھ مساویانہ طور پر کی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ تغیر پذیر حقائق (Facts) اور ایجادات ماورائی حقیقت (عالم غیب) کے کسی پہلو کی جزواً وضاحت کر بھی رہے ہوں تب بھی اس قسم کے ربط قائم کرنے کا مقصد کسی آفاقی نصب العین کی تکمیل کے بجائے محض کنفیوژن اور پریشان فکری کو بڑھاوا دینا ہی ہوتا ہے,مثلاً تخلیق کائنات کے سائنسی مفروضے بگ بینگ (Big Bang) سے ہمارے تجدد پسند مسلمان کئی عشروں تک مسحور رہے اور اس اثر کے تحت وہ اسے بائبل اور قرآن کے آفاقی تصور تخلیق سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس نظریے کے حوالے سے مسلم دنیا میں کئی مجالسوں (کانفرنسوں) کا انعقاد بھی کیا جاتا رہا لیکن پھر ’’نئے سائنسی حقائق‘‘ کی روشنی میں خود مغربی سائنسدانوں کی طرف سے بگ بینگ نظریے پر سنجیدہ سوالات اٹھائے جانے لگے تو ان تجدد پسند مسلمانوں نے بھی اس پر تنقید شروع کردی۔
اس لیے جدید مغربی سائنس پر سنجیدہ تنقید اور نقدو جرح اسلامی تصور جہاں اور مشاہدہ کائنات کے تناظر میں ہونی چاہیے جو کہ موجودہ مرعوبانہ مغربی علوم (سائنسی علوم) کے سیکولر فکری تناظر میں مطالعے سے قطعاً مختلف بات ہے کیونکہ اس طریق مطالعے میں جدید سائنس کے گمان کو بھی مطلق سچائی کی حیثیت سے قبول اور فروغ دیا جاتا ہے پھر سیاق و سباق سے ہٹا کر کسی قرآنی آیت یا احادیث نبویؐ سے اس کے انطباق کے ذریعے تغیر پذیر سائنسی حقائق کے ساتھ مطلق آفاقی صداقت ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں کسی کائناتی حقیقت کا مرتبہ اور بزرگی اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ حقیقت کی ذات و صفات سے کتنی زیادہ آگہی فراہم کرتی ہے یاآفاقی نفوس اور آثار کی قرآنی نشانیوں کو سامنے لاتی ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ یہ مخصوص (سائنسی علم) حقائق اور فطرت کو ’’تسخیر‘‘ کر کے سیاسی طاقت اور مادی دولت کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ یہ بالکل علم اور سائنس کے حوالے سے وہی سوچ ہے جسے نشاۃ ثانیہ کے مغربی بانیان میں سے اہم شخصیت فرانسس بیکن نے فروغ دیا تھا۔
اسی تناظر میں یہ ظاہر کرنا بھی ضروری ہے کہ جدید سائنس کے تحت خدا کی موجودگی کے عقیدے کو ایک ’’مفروضے‘‘ یا ایک ’’فکری نظام‘‘ پر ایمان (ایقان) تک محدود کردیا گیا ہے۔ چنانچہ اس فکری رجحان کو اپنانے کے بعد کوئی بھی بیک وقت مغربی ماہر طبیعات ہو سکتا ہے چا ہے وہ انفرادی عقائد میں کیتھولک ہو یہودی ہو یا مسلمان بلکہ زیادہ معروف ماہر طبیعات متشکک لا ارادی اور ملحد ہوتے ہیں۔ کیونکہ خدا کی حقیقت اور اس کے موجودگی کے احساس کا اس طبعی (سائنس) علم سے کوئی ربط اور تعلق نہیں ہے جس کا مطالعہ وہ برسوں کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی سائنسدانوں کے نزدیک خدا پر ایمان ہی ’’ایک غیرضروری مفروضہ‘‘ بن کر رہ گیا ہے۔ حالانکہ جدید طبیعات ہر لمحہ تغیرپذیر نظریات کی آماج گاہ ہے۔ کہیں خدا کے وجود اور خدائی شعور (Conscience) کو کوانٹم میکانیات کی تشریحی توضیحات کے تحت ثابت کیا جارہا ہے اور کہیں اس امکان کو ہی غیرضروری قرار دیا جارہا ہے کیونکہ نیوٹن میکانیات کے نزدیک یہ ابھی بھی ناقابل قبول ہے۔ چنانچہ اس کھچائو اور کشمکش میں جو سائنس (طبیعات) واضح اور مقبول ہے اُس کے تحت ایسے تناظراتی فہم علم (سائنس) کو فروغ دیا جارہا ہے جس میں خدا واضح طور پر اجتماعی زندگیوں سے غائب ہے اب چاہے انفرادی زندگیوں میں کتنا ہی خدا پر ایمان رکھا جائے اُس کی فکر کون کرتا ہے؟
نتیجتاً یہ کہا جاسکتا ہے کہ آخر اسلام علم (سائنس) کی کسی ایسی صورت یا ڈھانچے کو کیسے قبول کرسکتا ہے؟ اور اسے فروغ بھی دے سکتا ہے؟ جس کا مبدا و ماخذ اللہ تعالیٰ کی ذات (ہستی) نہ ہو؟ جو اللہ کی طرف رہنمائی کرنے والا علم نہ ہو؟ آخر کس طرح اسلامی تصور علم کے تحت ایسے کائناتی علوم کو فروغ دیا جاسکتا ہے جس میں سرانجام دئیے گئے تمام کاموں کا ماورائی حقیقت (عالم غیب) کے ساتھ کوئی مثبت تعامل اور ربط نہ ہو؟ حالانکہ ان تمام معاملات روابط ماورائی حقیقت کی وضاحت قرآن مجید کے ہر صفحے میں کی گئی ہے اور ایک ہزار سال پہلے مسلمان اکابرین زعما علما حکما اور متکلمین نے ایسے اسلامی تصور جہان کو کمال خوبصورتی کے ساتھ اپنی تحریروں میں سمویا بھی ہے جبکہ موجودہ اسلامی دنیا کی طرف سے تجدد پسند اور بنیاد پرست مسلمان زعما اور علما کی طرف نہایت مدافعانہ اور یتیمانہ قسم کے جوابات دئیے جارہے ہیں۔ حالانکہ ماضی کے برعکس ان جدید مفکرین حکماء متکلمین اور مفکرین کے پاس جدید تصور علم کے ماخذات اور اسلامی روایتی علوم کے ذخیروں (خزینوں) تک زیادہ رسائی موجود ہے جس کی وجہ سے وہ زیادہ پر اعتماد طریقے سے اور زیادہ مدلل اور قابل فہم انداز سے اس علمی چیلنج سے عہدہ برا ہوسکتے ہیں لیکن قابل افسوس مقام ہے کہ ہمارے ماضی کے علمی اکابرین اور فکری اسلاف کے جوابات کم تر مادی وسائل علمی کے باوجود ان تجدد پسندووں کے مقابلے میں زیادہ مدلل اور جرأت آمیز ہوا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ا بھی سنجیدہ مفکرین دانشور اور سائنسدان جو کہ مغرب میں تصورعلم اور تصورحقیقت کے متبادل کے بارے میں جاننے کے لیے کوشاں ہیں وہ انیسویں و بیسویں صدی کے مسلمانوں کی تحریروں کے بجائے ۹ویں سے ۱۲ویں صدی عیسوی صدی کے مسلمان علماء حکماء اور مفکرین کی تحریروں میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ بہرحال یہ طے ہے کہ اسلام اور جدید سائنس میں مثبت اور صحت مندانہ تعامل کا قیام اُس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک گہرائی اور سنجیدہ تناظراتی تنقید کے ساتھ ہر اُس تناظراتی علم اور علمیاتی نظام کا ازسرنو جائزہ نہ لے لیا جائے جو خود اپنے اندر الحق کے مقابلے میں خود خدا کی ذات اور صفات کا علم رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے۔جیسا کہ جدید سائنس کے معاملے میں ہے۔
جدید مغربی سائنس کے انجذاب کا چیلنج:
ایک صدی سے بھی زائد عرصے سے اصلاح پسند مسلمان (قومی رہنما) اور دانشور چاہے وہ مذہبی ہوں یا پھر سیاسی جدید مغربی سائنس اور ٹیکنالوجی کے اسلامی تہذیب و ثقافت کے ساتھ انجذاب پر اصرار کرتے آئے ہیں اور ایسا بہت کم ہوا ہے کہ انجداب کے اس یکطرفہ عمل میں اسلامی مشاہدہ کائنات اور تصورجہاں سے مشتق تصور اخلاقیات کو توانا اور محفوظ بنانے کی بھی کوشش کی گئی ہو محض جدید سائنس کی اندھا دھند نقالی اور پیروی نے ہمیں اب اس موڑ پر لاکھڑا کیا ہے جہاں ہم چاہیں بھی تو اسلامی اجتماعی زندگیوں سے اس (جدیدسائنس) کے منفی اثرات کو بے دخل نہیں کرسکتے کیونکہ مسلم ممالک نے اس تقلید اور اندھا دھند نقالی میں حکمت الٰہیہ پر مبنی انتخاب و استراد کے عمل کو یکسر نظرانداز کیا ہے۔ چنانچہ نتیجتاََ اس حکمت کو اپنائے بغیر جدید سائنس کے ایسے ایسے مظاہر کو گلے لگایا جاتا ہے جس کا اسلامی تصورجہاں یا تناظر حیات و ممات کے ساتھ کوئی مربوط ربط اور تعلق موجود نہ ہو اور اپنی بہترین شکل میں بھی اس نقالی کو محفوظ بنانے کی لاحاصل سرگرمی میں مسلمان معاشروں کے بہترین دماغی صلاحیتیں اور مادی وسائل صرف (ضائع) کرنے میں مصروف ہوں حالانکہ جدید سائنس کے اسلامی تناظر جہاں کے حوالے سے مکمل انضمام کے حوالے سے بات کی جائے تو خود اس کے منفی اثرات مسلم معاشروں پر زیادہ مرتب ہوتے ہیں۔
چنانچہ مغربی سائنس کی غیرمشروط قبولیت کا نتیجہ اس تصورجہاں اور تناظر حیات ممات کے انجذاب کی صورت میں نکلا ہے جس سے اسلامی تصور حقیقت (چاہے مادی ہو یا ماورائی) وہ دھندلا کر رہ گئی ہے یہی وجہ ہے اس کے تباہ کن اثرات معاشروں میں سامنے آرہے ہیں ایسی صورتحال کا سامنا اگرچہ دیگر مذاہب کو بھی کرنا پڑ رہا ہے لیکن اسلام اس سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔ اس انجداب کے حوالے سے تجدد پسند جاپان کی مثال دیتے ہیں جس نے سائنس و ٹیکنالوجی اور (مذہبی) ثقافت میں انجداب کیا ہے حقیقت حالانکہ اس کے برعکس ہے۔ جس کے تحت یہ دیکھنا چاہے کہ انہوں نے سائنس و ٹیکنالوجی کی قومی ترقی کے ساتھ ساتھ اپنی روایتی بادشاہت کے نظام کو بھی برقرار رکھا ہے۔ اُن کے شہری مخصوص روایتی لباس (Kinonos) اور کھانے کے لیے سلائیوں (Chop Sticks) کا استعمال ابھی تک کرتے ہیں۔ یہ صورتحال بدھ مت اور شیٹوازم (Shintoism) کے تناظر میں بھی دیکھی جاسکتی ہے بہرحال اس سب کے باوجود جاپانی مذہبی روایت زوال پذیر ہے اور اس میں انتشار اور افراتفری کا ماحول برپا ہے۔ جس کے تحت وہاں کا معاشرتی بحران اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اب جاپان نے بھی خود اپنے ملک کو دوبارہ ’’ایشیائی لہر‘‘ سے وابستہ کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کردیا ہے۔
اسلام اور اسلامی تہذیب کے جدید سائنس کے فکری اصولوں کے ساتھ تعامل کے باب میں اسلامی تصور جہان اور تناظر حیات و ممات کے مخالف عوامل کو مسترد کیے بغیر صحیح اور حقیقی معنوں میں اسلام کی خدمت سرانجام نہیں دی جاسکتی۔ اگر اس دعویٰ کا کوئی واضح ثبوت درکار ہو تو محض پچھلی صدی پر نظر دوڑائیے بیمار ذہنیت کی حامل جدیدیت مغربی جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی اندھادھند نقالی اور تقلید نے مسلم دنیا میں سائنسی نشاۃ ثانیہ قائم کرنے کے بجائے ایک کھوکھلی اور مریضانہ قسم کی سائنس پرستی (Scientism) کو فروغ دیا ہے جس کے تحت بڑی تعداد میں ایسے سائنسدانوں اور انجینئرز کی کھیپ پیدا کی گئی ہے جنہوں نے اپنی سائنسی سرگرمیوں کا مرکز و محور اسلامی تصورحیات اور مشاہدہ کائنات کو نہیں بنایا بلکہ اُس کے بالکل برعکس مغربی تعلیمی اداروں کی وجہ سے (چاہے مغربی ممالک میں ہوں یا ان کے نقش قدم پر چلنے والے مسلم ممالک میں ہوں) خود ان کے لیے اسلامی تناظر جہاں اور مشاہدہ کائنات (World View) کو ہی اجنبی بنا دیا ہے۔
اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ انفرادی سطح پر وہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں عبادات سرانجام بھی دیتے ہیں لیکن اپنی فکری اور علمی زندگی میں, اسلامی تناظر جہاں اور تصور حیات و ممات کو شعوری ولاشعوری طور پر بے دخل کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ,نتیجتاً عام مسلمانوں کے اذہان میں معتبر سلامی تصور جہاں اور مشاہدہ کائنات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہونا شروع کر ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے مسلم معاشروں میں آفاقی وحدت کے بجائے تشکیک پر مبنی کثرتیت پیدا ہورہی ہے۔ یوں اسلامی انسانی (نفسی) علوم کو بے توقیر کرکے نقصان پہنچایا گیا ہے اور اس سے پیدا ہونے والے خلا کو سیکولر تصورحیات کے ذریعے سے پرُ کیا گیا ہے جو ہمیں ایسے کٹرمسلم ممالک جو ’’دارالسلام‘‘ کہلائے جاتے ہیں وہاں بھی واضح نظر آتا ہے۔
اس لیے مسلمانوں پر لازم ہے کہ دورحاضر میں اسلام تناظر جہاں کی تشکیل نو اور ازسرنو دریافت کرنے کے لیے جدوجہد کریں جس کے تحت پہلے بیرونی صورت علم (جدید سائنس) کے مطالعے کو کڑے نقد و جرح قبول واستراد اور اس کے بعد چنیدہ اجزاء کو انجداب کی کسوٹی سے گزارا جائے تاکہ اسلامی تصورکائنات و مشاہدہ کائنات سے اجنبی عناصر کو الگ کیا جاسکے۔ لیکن یہ بات لازماً یاد رکھنی چاہیے کہ آفاقی اور دیگر سائنسی علوم کے تناظر میں اسلامی مشاہدہ کائنات کی تشکیل نو محض اُن شرعی قوانین سے اخذ نہیں کی جاسکتی جو کہ ہمارے افعال و کردار (اعمال) میں اللہ کی رضاومنشا کے قواعد کی وضاحت کرتے ہے اور نہ ہی محض کلامی مباحث سے جس کا بڑا مقصد عقلیت پسندانہ و پرستانہ (Rationalism) حملوں سے دین الحق کو محفوظ بنانے کی سعی کرنا ہے اور نہ ہی مروجہ فقہی مباحثوں سے جو قرآن سے متعلقہ تو ہیں لیکن براہِ راست قرآن کا مرکزی موضوع نہیں ہیں اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات پر مبنی تصورحقیقت قرآن کا مرکزی موضوع ہے (جس کے تحت دنیا کی عارضی زندگی میں انسان کے افعال و کردار کو متعین کیا گیا ہے) اور جس کی وضاحت احادیث اور روایتی مفسرین کی تشریحات و توضیحات کے ذریعے کی گئی ہے اس میں اسلامی آفاقی علم اسلامی ماورائی (طبیعات) اور تصوف کے مختلف فکری تناظرات اعمال اور دیگر اسلامی سائنسی علوم شامل ہیں۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ تجدد پسندوں نے روایتی اسلامی انداز فکروتفکر کو نظرانداز بھی کیا ہے اور بے توقیر بھی اور نام نہاد مذہبی بنیادپرستوں نے فرقہ وارانہ (عصبیتی) تحریکوں کے ذریعے اس حوالے سے بے اعتنائی برتی ہے چاہے اسلامی تصور جہاں کی دریافت نو کا معاملہ ہو یا پھر فطری علم کے تعامل اور ربط کے ساتھ ساتھ جڑے ’’تصورعلم‘‘ کے مختلف درجات مراتب اور مقامات کا احوال ہو۔ ہمیں یہی داستان عبرت ہر جگہ دکھائی دیتی ہے اور اگر ہم قرآنی بصیرت کے ساتھ اسلامی دنیا کی پچھلی دو صدیوں (19ویں اور بیسویں 20 صدی عیسوی) کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں اس حوالے سے بہت سے اسباق سیکھنے کو مل سکتے ہیں۔
حصہ دوئم