اسلام اور سائنس کے باہمی تعلق کو سمجھنے کے لیے بہت سے بنیادی مسئلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اُن کو سمجھنے کے لیے ششماہی جریدہ اسلام اور سائنس (کینیڈا) کے مدیر مظفر اقبال صاحب نے ایک تفصیلی مکالمہ پروفیسر سید حسین نصر سے کیا۔ سید صاحب کا شمار اسلام اور تاریخ و فلسفۂ سائنس کے صفِ اول کے سکالرز میں ہوتا ہے۔ آپ جارج واشنگٹن یونی ورسٹی میں اسلامیات کے پروفیسر اور فائونڈیشن برائے مطالعاتِ روایت کے صدر ہیں۔ سائنس، فلسفے، عرفانِ اسلامی، تقابلِ ادیان، علم الکلام اور روایت و جدیدیت کے موضوعات پر متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ مظفر اقبال صاحب سے اس مکالمے میں، جو فروری اور مارچ ۲۰۰۳ء میں دو طویل اور سنجیدہ نشستوں میں مکمل ہوا، سید صاحب نے اسلامی نظام کے بارے میں اپنے خیالات، تمنائوں اور توقعات کا کھل کر اظہارِ خیال کیا ہے۔ بنیادی سوال بہت اہم تھا۔ دنیائے اسلام اپنی تہذیب کے خصائص سے دست کش ہوئے بغیر سائنس اور ٹیکنالوجی کے موجودہ عہد کے پیداکردہ تقاضوں سے کیونکر عہدہ برآ ہوسکتی ہے؟ کیا علم و حکمت کی اسلامی روایت کا احیا ممکن ہے؟ اس احیا کے لیے مغرب میں رہنے والے کیا کرسکتے ہیں؟ (ایڈمن)
٭
مظفر
: دو صدیوں سے زیادہ کی مدت ہوگئی مسلمان ایک ایسی الجھن میں مبتلا ہیں جس کا کوئی سلجھائو نظر نہیں آتا۔ سوال یہ ہے کہ مغرب کی پیدا کردہ سائنس اور ٹکنالوجی کی بدولت جو نئی دنیا رونما ہوئی ہے اُس میں مسلمانانِ عالم اپنی تہذیب کی اسلامی خصوصیات کو تباہ کیے بغیر اُن بے شمار مسائل سے کیونکر نمٹ سکتے ہیں جن کو حل کرنے کے لیے سائنس و ٹکنالوجی کی فنی مہارت حاصل کرنا ضروری ہے؟ اس سوال کا جواب اُنیسویں صدی کے مصلحین نے یہ تجویز کیا تھا کہ مغرب کے نظامِ اقدار اور تصورِ کائنات کو درآمد کیے بغیر مغربی سائنس و ٹکنالوجی کو درآمد کرلیا جائے ان کی یہ تجویز اس تصور پر مبنی تھی کہ سائنس اور ٹکنالوجی کا اقدار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس آپ نے ہمیشہ ’’اسلام کی انفرادی حیثیت‘‘ کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ’’اسلام کی انفرادی حیثیت‘‘ کا مطلب ہے اسلامی تہذیب کا وہ خاص اور منفرد پہلو جو ذاتِ مطلق سے اس کے تعلق میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ لیکن آپ کو معلوم ہی ہے آپ کے اس فارمولے پر قابل عمل نہ ہونے کی وجہ سے سخت تنقید کی گئی ہے۔ اس تنقید کے بارے میں آپ کا رد عمل کیا ہے؟
٭
نصر
: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ جو سوال آپ نے اُٹھایا ہے یہ بڑا وسیع ہے اور اس کی کئی جہات ہیں۔ ایک پہلو اس کا عملی ہے اور ایک پہلو نظری ہے۔ جہاں تک عملی پہلو کا تعلق ہے میں مانتا ہوں کہ اس میں اس حد تک صداقت ہے کہ مثلاً بنگلہ دیش میں کسی کو ملیریا ہوجائے تو ہمیں ملیریا کے علاج کے لیے بہترین دوا حاصل کرنی چاہیے خواہ وہ کہیں سے بھی دستیاب ہو۔ رہ گئی مغربی سائنس کی مختلف صورتوں کی بات…… خواہ وہ دوائوں کی شکل میں ہو یا الیکٹرونکس یا دیگر مصنوعات کی صورت میں جو سائنس کی نہیں بلکہ اطلاقی سائنس یعنی ٹکنالوجی کی پیداوار ہیں…… جو مغرب سے دنیائے اسلام میں آرہی ہیں ان کو روکنا حکومتوں کے لیے کسی حد تک ناممکن ہے۔ کوئی حکومت یہ نہیں کہہ سکتی کہ ہم ٹیلیفون یا کوئی اور سائنسی ایجاد استعمال نہیں کریں گے۔ اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ اس سے بھی بڑا اور زیادہ اہم مسئلہ کچھ اور ہے۔ وہ یہ کہ اکثر مسلم حکومتیں صرف اس ایک نکتے پر زور دیتی ہیں کہ زیادہ سائنس کا مطلب ہے زیادہ طاقت۔ لہٰذا مسلمانانِ عالم کو چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہوسکے زیادہ سے زیادہ ٹکنالوجی میں ترقی کرکے مغربی ٹکنالوجی اور سائنس کا مقابلہ کریں اور مغرب سے آگے نکل جائیں۔ جس طرح کہ جاپانی کارسازی کی صنعت میں امریکیوں سے آگے نکل گئے ہیں۔ یہ ذہنیت جو دنیائے اسلام میں بہت چل رہی ہے، انتہائی خطرناک ہے۔ خاص طور پر آج کے حالات میں جب کہ دنیائے انسانیت کا ایک حصہ مغرب سائنس کی بنیاد پر ٹکنالوجی کو ترقی دے کر ناقابل حل مسائل و مشکلات میں مبتلا ہوچکا ہے۔ جیسے ماحولیات کی تباہی کا مسئلہ، جیسے انسانی اخلاق و اقدار کی بربادی کا مسئلہ اور ایسے ہی دوسرے ہزاروں مسئلے۔ اگر دنیائے اسلام بھی محض اکیسویں صدی میں شامل ہونے کا تکبر حاصل کرنے کے نام پر ماحولیات کی غارت گری اور معاشرتی انتشار کا شریک ہونا چاہتی ہے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ اقدام خودکشی کے مترادف ہوگا۔ پس آپ کے سوال کے عملی پہلو کے حوالے سے اتنا عرض کروں گا کہ اگر دنیائے اسلام جدید سائنس کے اطلاق(ٹکنالوجی) کے لیے اپنا دروازہ کھولتی ہے اور خالص سائنس کو اختیار کرتی ہے تو ضرور کرے لیکن بڑی احتیاط اور توازن کے ساتھ۔ یہ ضروری نہیں کہ مغرب کی ہر ترقی کو اپنانے کے لیے جست لگائی جائے۔ مغرب میں جو کچھ ہورہا ہے اُس کی ہر بات کی تقلید کی ضرورت نہیں۔ جہاں تک آپ کے سوال کے نظری پہلو کا تعلق ہے مسلمانوں کو مغربی سائنسی علوم پر مہارت حاصل کرنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے لیکن اس مہارت پر اسلامی عقلی روایت کی روشنی میں کڑی تنقیدی نگاہ بھی رکھنے چاہیے۔
اچھا آئیے اب اپنے دوسرے نکتے کی طرف۔ میں کئی عشروں سے یہ کہتا چلا آرہا ہوں کہ اسلامی تہذیب، مغربی سائنس و ٹکنالوجی کی، جیسی کہ یہ موجودہ حالت میں ہے، تقلید نہیں کرسکتی اور اگر کرے گی تو خود کو تباہ کرلے گی۔ اگر کوئی شخص اس کے علاوہ کچھ اور کہتا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ جدید سائنس کی فلسفیانہ اساس سے بے خبر ہے اور نہیں جانتا کہ دنیا پر اس کے اطلاق کے کیسے کیسے اثرات وارد ہوئے ہیں۔ اگر اسلامی تہذیب کو ایک زندہ تہذیب کی حیثیت سے قائم و دائم رہنا ہے تو انتہائی ضروری ہے کہ نظریاتی سطح پر جدید سائنس کی اساس پر مکرر غور کیا جائے۔ ایک سلسلۂ فکر کا آغاز ہونا چاہیے، جس کے تحت اسلام کے اپنے تصورِ کائنات اور حقیقتِ مطلقہ کی ماہیئت کی مابعد الطبیعی معرفت کی روشنی میں جدید سائنس کے مختلف پہلوئوں کی نئی تعبیر اور نئی تدوین کے مطابق فیصلہ ہو کہ کیا قبول کیا جائے اور کیا مسترد کیا جائے اور عملی سطح پر تو جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں آزادانہ تنقیدی کسوٹی کی ضرورت ہے، یہ جانچنے کی کہ کیا ترک کیا جائے اور کیا اختیار کیا جائے؟
گویا جدید سائنس کے تعلق سے دو مختلف جہتوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ہے عملی جہت۔ مثلاً یہ بات کہ ہمارے پاس ہوائی جہاز یا ایسی اور چیزیں ہیں کہ نہیں ہیں؟ طب اور مواصلات اور اس طرح کے دوسرے شعبوں میں بعض ایسے فیصلے کرنے پڑتے ہیں، جن سے گریز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود فیصلہ کرتے وقت مغرب میں جو کچھ ہورہا ہے، مسلم دنیا اُس کی اندھا دھند تقلید نہیں کرسکتی۔ اول اس لیے کہ اگر ہم مغرب کی اندھی تقلید کریں گے تو ہمیشہ مغرب سے پیچھے رہیں گے۔ دوم اس لیے کہ اس طرح ہم جدید ٹکنالوجی کی غلطیوں کی نقل کریں گے، جو بڑی حد تک حرص و لالچ پر مبنی ہے اور جو نسلِ انسانی کی بہت سی ناکامیوں کی ذمہ دار ہے اور یوں جدید ٹکنالوجی کی غلطیاں دہرانے سے مسلم دنیا مزید مصیبتوں میں مبتلا ہوجائے گی۔ اسی لیے کہتا ہوں کہ مغرب کی پیروی کرتے وقت بڑی احتیاط کی ضرورت ہے تاآں کہ مسلم دنیا کو حسبِ ضرورت متبادلات وضع کرنے کے لیے وقت مل جائے۔
نظریاتی سطح پر تو اور بھی زبردست کام کرنا ہوگا اور وہ یہ کہ مغربی سائنس کا مطالعہ زیادہ گہرائی اور بصیرت کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔ مغربی سائنس کو اُس کی اپنی اصطلاحوں میں سمجھنے کے بعد اُس کے تصورِ کائنات (ورلڈ ویو) کی روشنی میں سمجھنے پرکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اُن بڑے اختلافات پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، جو تیرہویں صدی میں پیدا ہونے والی جدید سائنس کی فکری اساس اور اسلامی فکر و دانش کے درمیان پائے جاتے ہیں، جس کے بطن سے اسلامی سائنس نے جنم لیا تھا۔
مغربی سائنس و ٹیکنالوجی کو کیسے اختیار کیا جائے؟
٭
مظفر
: ٹھیک ہے۔ آپ نے جس حل کی طرف اشارہ کیا ہے، مجھے تو وہ بالکل وہی حل نظر آتا ہے جو دو سو سال سے اُس وقت سے ہمارے ساتھ چلا آرہا ہے جب عثمانیوں، محمد علی پاشا اور دوسرے مسلم حکمرانوں نے اُس وقت سوچا تھا، جب مغربی افواج اُن کی دہلیز پر دستک دے رہی تھیں اور انھوں نے کہا تھا، اچھا اگر یوں ہے تو ہم بھی عسکری خطرے کا مقابلہ کرنے کے یے جدید ٹکنالوجی اپنائیں گے۔ انھوں نے پیش آمدہ مسئلے کا حل یہ نکالا کہ بس اتنی سائنس اور اتنی ٹکنالوجی اپنانا کافی ہے، جو بدلی ہوئی صورت کا مقابلہ کرسکے۔ محترم! میرا سوال دوسری نوعیت کا ہے۔ آپ جس احتیاط کی بات کررہے ہیں، کیا اُس کا اختیار کرنا ممکن بھی ہے؟ مثال کے طور یہ دیکھیے کہ جب ہم جدید مواصلاتی آلات درآمد کرتے ہیں۔ مثلاً سیل فون تو وہ پہلے سے موجود ذرائع مواصلات کے نظام کو درہم برہم کردیتے ہیں۔ یہ نو بہ نو آلات آتے ہیں تو جزواً جزواً نہیں آتے بلکہ ’’مکمل پیکیج‘‘ کی شکل میں آتے ہیں۔ تو ایسی صورتِ حال میں آپ جس چیز کو ’’اسلامی مقام‘‘ کہتے ہیں، اُس کا تحفظ کیونکر ممکن ہے؟
٭
نصر
: آپ نے بجا فرمایا۔ ممکن نہیں ہے۔ میں آخری شخص ہوں گا جو جدید ٹکنالوجی کو غیر جانب دار یا انسانیت کا خیر خواہ خیال کرے۔ مسئلے کو بہ حیثیت مجموعی دیکھنا ہوگا۔ جدید ٹکنالوجی کا ایک ابلیسی پہلو بھی ہے، جو ابن آدم کے ظاہر و باطن دونوں کی روحانی کیفیت کو تباہ کرکے رکھ دیتا ہے۔ اس بات میں ذرا شک کی گنجائش نہیں ہے۔ آج کی گفتگو میں اس بات کو واضح کردینا چاہتا ہوں۔ جب میں ’’احتیاط‘‘ کی بات کرتا ہوں تو اس سے میری مراد یہ ہوتی ہے کہ مسلم دنیا کو جدید ٹکنالوجی کی اندھی تقلیدنہیں کرنی چاہیے! بلکہ جدید ٹکنالوجی پر ویسی ہی کڑی تنقیدی نگاہ رکھنے کی قابلیت پیدا کرنی چاہیے جیسی انگلستان میں ولیم۔میور اور جان۔رسکن اور مغرب کے بہت سے دانشوروں نے بیسویں صدی میں اختیار کی تھی۔ افسوس ہماری مسلم دنیا میں دانشوروں کی بہت کمی ہے۔ ہمیں ان کی سخت ضرورت ہے۔ ہمیں جدید ٹکنالوجی میں مضمر تمام خطرات سے باخبر ہونا چاہیے اور اس کی ہر بات کو بے چوں و چرا قبول نہیں کرلینا چاہیے۔ آپ نے سیل فون کی بہت اچھی مثال دی۔ سیل فون نے واقعی لاکھوں انسانوں کے ماحول کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ سیل فون نے ہماری اُس اندرونی پرسکون دنیا کو بھی تباہ کردیا ہے جس میں ہم خدا کے ساتھ تنہا ہوتے ہیں۔ اس چھوٹے سے آلے نے ہر شخص کو مجبور کردیا ہے کہ وہ ہمہ وقت دنیا کے آفات و آلام سے پُر، ہنگاموں سے اپنی زندگی کا رشتہ جوڑے رکھے۔ اور یہ کوئی اتفاقی امر نہیں ہے۔ اگر سوچا جائے تو جہاں تک روحِ انسانی پر اس کے اثرات کا تعلق ہے، اس میں بڑی گہری معنویت ہے۔
آئیے اب مسئلے پر ایک اور جہت سے بات کرتے ہیں۔ فرض کرو ایک فائر سٹیشن یا کسی سرکاری ایجنسی کو اپنے عملے اور متعلقہ حضرات سے فوری رابطے کی ضرورت ہے اور اُن سے کہا جائے کہ وہ اپنے پاس سیل فون نہ رکھا کریں۔ کیونکہ اس سے رُوح کمزور پڑتی ہے تو وہ آپ کی بات سنیں گے بھی نہیں۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ عملی سطح پر کوئی مسلم حکومت اس حل کو قبول نہیں کرے گی۔ ہم مفکر کی حیثیت سے جو کچھ کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک تنقیدی کسوٹی فراہم کردیں اور نشان دہی کردیں کہ کہاں کہاں احتیاط کی ضرورت ہے اور ذرا گہرائی میں جاکر جدید سائنس و ٹکنالوجی کے اس پورے کارخانے کی تار و پود، اس کے مجموعی مزاج اور ماحول کے بارے میں بھی بتائیں کہ اس کا ایک ایک جز ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہے کہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ حصہ تو بہت اچھا اور کارآمد ہے اور باقی حصے برے اور بیکار ہیں۔ یقینا صورتِ حال اس سے مختلف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید ٹکنالوجی اپنے ساتھ ایک خاص تصور کائنات ایک خاص طرزِ زیست، ایک خاص طرزِعمل اور ایک خاص تصورِ وقت بھی لاتی ہے۔ جدید ٹکنالوجی کے ساختہ وقت بچانے والے تمام آلات دراصل وقت کو برباد کرنے والے ہیں۔ ای میل وقت بچاتی ہے لیکن اس کی وصولی اور جواب کی ترسیل آپ کے ذہن و جسم پر دبائو ڈالتی ہے۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے۔ میں سوچ نہیں سکتا کہ اسلامی تہذیب مغربی ٹکنالوجی کا ایک اچھا حصہ اختیار کرے اور کہے کہ یہ اچھا اور کارآمد ہے اور دوسرا حصہ مسترد کرے اور کہے کہ یہ بُرا اور بے۔کار ہے۔ آپ جدید ٹکنالوجی کا جو بھی حصہ اختیار کریں وہ لازماً اپنے ساتھ منفی اثرات بھی لائے گا۔ بہرحال عملی سطح پر مجھے نہیں معلوم کہ تاریخ کے جاریہ حالات میں ٹکنالوجی کی کون کون سی صورتیں ترک کی جاسکتی ہیں لیکن اتنا وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہم احتیاط اور تنقیدی رویہ اختیار کریں تو حالات بدل سکتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ مغربی ٹکنالوجی کے بعض پہلو مسلم حکومتیں اختیار کررہی ہیں۔ خواہ آپ کچھ بھی کہیں اور میں کچھ بھی کہوں۔ کاش ایسا نہ ہوتا لیکن ہورہا ہے اور روکا نہیں جاسکتا۔ اگر روکا نہیں جاسکتا جدید ٹکنالوجی پر کم از کم ایک تنقیدی کسوٹی تو بٹھائی جاسکتی ہے اور جہاں تک ممکن ہوسکے اس کے منفی اثرات کو گھٹایا جاسکتا ہے۔ کاش ہم مغربی ٹکنالوجی کو الگ رکھ کر اپنی اسلامی ٹکنالوجی کو ترقی دے سکتے جیسی ازمنۂ وسطیٰ میں ہوئی تھی۔ اگر فی الوقت ایسا ممکن نہیں ہے تو کم از کم اتنا تو کیا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کا ذہنی رویہ تبدیل کیا جائے اور اُنھیں آگاہ کیا جائے کہ مشینوں کی حکومت سے کیسے کیسے منفی اثرات وارد ہوتے ہیں۔ جدید اداروں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں اور بالخصوص برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں میں سائنس پرستی کا رحجان مذہبی عقیدے کی سی پختگی کے ساتھ پایا جاتا ہے جسے دور کرنا بہت مشکل ہے۔
ہم میں اتنی جرأت تو ہونی ہی چاہیے کہ جدید سائنس کی خامیوں کی نشان دہی کرسکیں اور سائنس کی تفہیم کے لیے ایک دوسرا عقلی و روحانی فریم ورک دے سکیں۔ اس کے بعد اگلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنی اسلامی سائنس کو ترقی دیں اور رائج کریں۔ یہ وہ بات ہے جو میں چالیس سال سے کہتا آرہا ہوں۔ گویا پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنی اسلامی عقلی روایت کی جڑوں سے پیوستہ رہتے ہوئے جدید سائنس پر مکمل دسترس حاصل کریں۔ پھر اگلا قدم اسلامی فریم ورک کے اندر رکھیں جدید سائنس کے فریم ورک کے اندر نہ رکھیں۔ کوئی مسلمان طبیعیات داں یہ ہرگز نہیں کہے گا کہ وہ کوانٹم میکانیات کی دریافتوں کی پروا نہیں کرتا۔ یہ فضول بات ہے۔ ضرورت جس بات کی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے کوانٹم میکانیات کو سمجھا جائے۔ پھر اُس کی تشریح اُس طریق سے کی جائے جس طریق سے کوپن ہیگن سکول نے کی تھی۔ یعنی ڈیکارٹ کے فلسفۂ ثنویت کے اُصول پر جس کی بنیاد پر جدید سائنس کا سارا کارخانہ کھڑا کیا گیا ہے۔ اگر ہم ایسا عقلی سطح پر کرسکیں اور عالم خارجی کا مستند اسلامی فلسفہ یا مابعد الطبیعیات تخلیق کرسکیں اور دوسرے یہ کہ ہم اپنی سائنسی روایت اور مغربی سائنس دونوں کے امتزاج سے عالم خارجی کی اسلامی سائنس وضع کرسکیں اور تیسرے یہ کہ مغربی سائنس کو ہم اپنی سائنسی روایت میں جذب کرسکیں تو پھر ایسی سائنس کی بنیاد پر ہمارے لیے اپنی ٹکنالوجی پیدا کرنا ممکن ہوسکے گا۔ لیکن فی زمانہ دنیا کی معاشی، عسکری اور سیاسی طاقتیں اس قدر مضبوط و مستحکم ہیں کہ اگر آپ یہ کہیں کہ ’’ہم جدید سائنس و ٹکنالوجی کو مسترد کرتے ہیں‘‘ تو کوئی آپ کی بات نہیں سُنے گا۔ آپ ذرا موجودہ عالمِ اسلام پر نظر دوڑائیے۔ مسلم حکومتیں مغرب نواز ہوں یا بادشاہتیں یا جمہوریتیں ہوں، اسلامی انقلاب کی پیداوار ہوں یا سیکولر ہوں وہ سب جدید سائنس و ٹکنالوجی کی شان میں قصیدہ خوانی میں متحد و متفق ہیں۔ مسلم حکومتوں کا یہ ہے وہ رویہ جسے تبدیل ہوجانا چاہیے۔
خدا کا شکر ہے کہ گزشتہ تیس چالیس برسوں میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ پہلے کی نسبت کافی بہتری نظر آتی ہے۔ جس میں ناچیز کی بھی عاجزانہ کوششوں کا حصہ ہے۔ اب کم از کم اتنا تو ہوا ہے کہ چند آوازیں اُٹھی ہیں جو کہتے ہیں کہ جس راستے پر ہم جارہے ہیں وہ صحیح نہیں ہے۔ نیز یہ کہ عقلی روایت کو جدید سائنس و ٹکنالوجی پر تنقید کرنے کے قابل ہونا پڑے گا۔ اگر اس دریا پر ایک کمزور پل تعمیر کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہو تو ہمیں کم از کم یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہ جدید سائنس کی کیا بات ہے یہ کیسی شاندار چیز ہے۔ ہمیں اپنا یہ رویہ بدلنا پڑے گا۔ اگر جدید طب کو اپنانے کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہو تو ہمیں کم از کم اس کی خامیوں کا احساس ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی روایتی اسلامی طب کی ترقی و ترویج کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ جسے فراموش کردیا گیا ہے اور اب کہ جب چینی آکوپنکچر مغرب میں آرہا ہے تو خوشی کی بات ہے کہ اکثر لوگ طب اسلامی کی تجدید کی باتیں کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں ہمیں اپنی ذہنیت کو بدلنا ہوگا۔ اور دراصل سارے قصے میں سب سے اہم کام کی بات یہی ہے۔
مجھے محمد علی پاشا اور ایسے دوسرے حضرات سے سخت اختلاف ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یورپ جائو وہاں بندوقیں بنانا سیکھو واپس آئو۔ بندوق برادر فوجیں کھڑی کرو اور باقی ہر چیز بھول جائو۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ دراصل تمام چیزیں اکھٹی آتی ہیں۔ بندوق سازی سے لے کر کمپیوٹر اور سیل فون بنانے کی ٹکنالوجی تک فولاد سازی، جہاز سازی یہ سب صنعتیں آتی ہیں۔ کیونکہ ان سب کا ایک دوسرے سے گہراتعلق ہے۔ ٹکنالوجی اپنا ایک تصورِ کائنات رکھتی ہے اور انسان پر عائد کرتی ہے۔ یہ انسان کو بھی ایک مشین بنا دیتی ہے۔ اسلامی تہذیب کو ہر ممکن طریقے سے کوشش کرنی چاہیے کہ وہ انسان کو مشین نہ بننے دے اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ ہماری حکومتوں کے پاس فی الوقت ٹکنالوجی درآمد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ یہ صورتِ حال ہمیشہ قائم رہے گی اور ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارۂ کار آئندہ بھی نہ ہوگا۔ میری تجویز یہ ہے کہ فی الحال ہم تاخیری حربے اختیار کرسکتے ہیں۔ یعنی مغربی سائنس و ٹکنالوجی کی اندھا دھند تقلید کرنے کی بجائے ہمیں یہ کرنا چاہیے کہ جہاں تقلید انتہائی ضروری ہو وہاں کی جائے اور ضروری نہ ہو وہاں نہ کی جائے۔ دریں اثنا اس مہلت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہم اپنی سائنس کی تخلیق کے لیے وقت نکال لیں اور یوں انشائ۔اللہ ایک دن ہماری اپنی ٹکنالوجی بھی ہوگی۔ آپ دیکھیں گے۔
اسلامی سائنسی روایت کی تجدید کیسے؟:
٭
مظفر
: میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی سائنسی روایت کی تجدید کا معاملہ علم کی اسلامی روایت سے جڑا ہوا ہے۔
نصر
: یہ درست ہے۔
٭
مظفر
: آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ نے ایسے علمی ماحول میں تربیت پائی جو روایتی اسلامی فلسفے اور تصوف کے عظیم اساتذہ نے قائم کی تھی۔ جس کا ذکر آپ نے بڑی صراحت سے اپنے فکری سوانح میں بھی کیا ہے لیکن اب موجودہ صورتِ حال میں ہمارے مسلمان بھائیوں کے لیے ایک باثروت فکری و روحانی ماحول میں تربیت پانے کے کیا امکانات ہیں؟ میں خاص طور پر اُن مسلمانوں کے بارے میں متشوش رہتاہوں جو مغرب میں رہتے ہیں۔ ہم مغرب میں رہنے والے اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو وہ پہلا سا اسلامی علمی ماحول کیونکر فراہم کرسکتے ہیں؟ آج تک تو ہم مغرب میں اپنے نوجوانوں کے لیے ایک بھی ایسا علمی ادارہ قائم نہ کر سکے تو پھر ہماری نوجوان نسل اسلامی روایت کیونکر اپنائے اور اُس میں کیونکر جذب ہو؟
نصر: مغرب کو بعد میں لیں گے۔ پہلے میں عالمِ اسلام کی بات کرتا ہوں۔ ہمیں مغربی تعلیمی اداروں کی پیروی نہیں کرنی چاہیے جیسا کہ ہم سرسید احمد خان اور ایسے دوسرے مفکروں کے زمانے سے گزشتہ دو سو سال سے پیرویٔ مغرب کرتے آرہے ہیں۔ بلکہ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے رو ایتی اسلامی تعلیمی ادارے قائم کریں اور انھیں مضبوط و مستحکم بنائیں۔ ہمارے تعلیمی ادارے یعنی مدرسے بدقسمتی سے گزشتہ چند صدیوں میں کئی مسلم ممالک میں بڑے تنگ نظر ہوچکے ہیں۔ مثلاً انھوں نے اپنے نصاب سے ریاضیات اور فلکیات تو چھوڑئیے، فلسفے اور منطق کو بھی خارج کردیا ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ مدرسوں کی تشکیل نو اور تجدیدِ نو کی جائے تو میرا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ انھیں کسی بھی لحاظ سے سیاسی یا معاشی یا کسی اور طرح متعصبانہ علیحدگی پسند بنا دیا جائے بلکہ میرا مطلب مدرسہ سسٹم کے حقیقی اور معتبر احیا سے ہوتا ہے۔ دوسرے، ضرورت اس بات کی ہے کہ عالم اسلام میں حصولِ علم کا اپنا روایتی طریق اختیار و مستحکم کیا جائے جس کا مطلب یہ ہے کہ حصولِ علم کو سیرت سازی، اخلاقی اقدار اور رُوحانی اوصاف اور خوبیوں کے ساتھ منسلک و مربوط کیا جائے۔ کردار سازی کو حصولِ علم کا ضروری حصہ بنانا چاہیے۔ یہ ایسی چیز ہے جو پوری دنیاے اسلام میں ملایشیا سے لے کر مراکش کے مدرسوں تک میں رائج ہونی چاہیے۔ بعض مسلم ملکوں مثلاً ایران میں اچھی اُمیدیں پیدا ہوئی ہیں۔ حال ہی میں وہاں چند نئے معیاری مدرسے قائم ہوئے ہیں جیسے قم میں۔ طلبہ کی کثیر تعداد ہونے کے باعث تعلیمی معیار بہت اونچا تو نہیں ہے لیکن چند ایسے ادارے بھی ہیں، جہاں معیار پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ ایسے سلجھے ہوئے، اعلیٰ تعلیم یافتہ، شائستہ دانشور اُبھر رہے ہیں جو صرف قانون و فقہ پر عبور نہیں رکھتے بلکہ اسلام کی فکری و روحانی اقدار کے بھی حامل ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عالم اسلام میں اپنے مکمل تعلیمی نظام کے تجربے کو مضبوط بنایا جائے۔ یہ نظام مرا نہیں ہے۔ اس کے احیا و تجدید کی ضرورت ہے۔
اسلامی تہذیب مدرسہ سسٹم کے مثبت اوصاف و اقدار کو نئی جامعات میں منتقل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی جو اُنیسویں صدی کے بعد قائم ہوئی ہیں۔ خواہ وہ پنجاب یونیورسٹی ہو یا کلکتہ یا الٰہ آباد یا استنبول یا تہران یا قاہرہ یونیورسٹی۔ ان جامعات میں مغرب کے یونیورسٹی سسٹم کی محض تقلید کی گئی ہے۔ مدرسہ سسٹم میں جو نصاب پڑھایا جاتا تھا وہ ترک کردیا گیا ہے۔ استاد اور شاگرد میں تحریم و تکریم کا جو گہرا رشتہ تھا وہ ٹوٹ گیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں جو ایک روحانی فضا برقرار رہتی تھی وہ ختم ہوگئی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ایک بھی تو مسلم ملک ایسا نہیں ہے جہاں اسلامی مدرسے کی روایت کو اُن جدید تعلیمی اداروں کے ساتھ مربوط کیا گیا ہو جو انجینئرنگ، ریاضیات، طبیعیات یا طب وغیرہ کی تعلیم و تدریس کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔ مسلم دنیا کے لیے آج سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ دو تعلیمی نظاموں میں خلیج حائل ہوگئی ہے اُسے بتدریج دور کیا جائے۔
عالمی اسلامی تعلیمی کانگریس (منعقدہ ۱۹۷۷ئ) نے جو میں نے سید علی اشرف مرحوم، ڈاکٹر زبیر اور عبداللہ نصیف کے ساتھ مل کر منعقد کی تھی اور جس کے ایما پر متعدد اسلامی یونیورسٹیاں قائم کی گئی ہیں جس میں تعلیمی نظاموں کے خلیج پاٹنے کی کوشش کی تھی لیکن بدقسمتی سے یہ تحریک مکمل طور پر کامیاب نہ ہوسکی۔ کیونکہ اس راہ میں مسالک اور فرقوں کے کئی خرخشے حائل ہوگئے اور یوں اسلام کی فکری و عقلی روایت سے پورا فائدہ نہ اٹھایا جاسکا۔ مثلاً ان نئی جامعات میں اسلامی فلسفے پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی اور جب اسلامی فلسفے ہی کو سنجیدگی سے نہیں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے علومِ عقلی کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہی نکل سکتا ہے کہ آپ شریعت الگ پڑھائیں گے اور جدید سائنس اور جدید عمرانیات اور جدید معاشیات الگ پڑھائیں گے اور اس کا نام رکھ دیں گے اسلامی یونیورسٹی۔ صاحب، یہ ہرگز اسلامی یونیورسٹی نہیں ہے۔ ایسی یونیورسٹی کو اسلامی ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ اسلامی یونیورسٹی وہ ہوتی ہے، جس میں تمام مضامین اسلام کے تناظر میں پڑھائے جاتے ہوں۔ اس کی بہترین مثال مغرب میں ازمنۂ وسطیٰ کے تعلیمی ادارے ہیں۔ اُس وقت مغربی یونیورسٹیاں اسلام کے مدرسہ سسٹم کی بنیاد پر قائم کی گئی تھیں۔ لیکن یاد رہے وہ یونیورسٹیاں کرسچین تھیں۔ انھوں نے اسلامی نصاب اُٹھایا۔ بہت سی اسلامی تعلیمی روایات و رسوم اور تدریسی طریقے اختیار کیے، اُن کو عیسائی بنا کر اپنی یونیورسٹی میں رائج کردیا۔ انھوں نے اسلامی تعلیمی روایات و طریق کو اپنے دینی و فکری تصورات کے ساتھ مربوط کرلیا اور یوں انھوں نے یونیورسٹیاں قائم کیں جو مکمل طور پر مسیحی تھیں اور جو مکمل طور پر اُن اسلامی اداروں سے بالکل مختلف تھیں جن سے انھوں نے یہ سب کچھ مستعار لیا تھا۔ بدقسمتی سے ہم اُن کے رویے کا عکس اپنے آئینے میں نہ دیکھ سکے۔ ہمیں بھی ویسا ہی کرنا چاہیے تھا، جیسا انھوں نے کیا تھا۔ پس آج دنیائے اسلام میں جو ساری صورتِحال ہے، وہ کسی بھی لحاظ سے معیاری اور مثالی نہیں ہے۔
اب آئیے مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کی طرف۔ ضرورت جس چیز کی ہے، وہ یہ ہے کہ مغربی تعلیمی اداروں کا ماحول ہم اپنے تصورات و افکار، اپنے ماخذات اور اپنی روایات کے ذریعے اور نیز انسانی روابط و تعلقات کے ذریعے اپنے تعلیمی اداروں میں منتقل کریں۔ جہاں تک کتابوں کا تعلق ہے، گزشتہ چالیس برسوں کے دوران اس ضمن میں خاصا کام ہوا ہے۔ ہم نے اسلامی عقلی روایت سے ماخوذ کافی کتابوں کے تراجم رائج الوقت زبانوں میں کرالیے ہیں اور مغربی افکار کی تشریح اسلامی نقطۂ نظر سے کی ہے۔ میں نے بھی اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق اس کارِ خیر میں حصہ لیا ہے اور دوسرے معاصرین نے بھی اس ضمن میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ہم نے مغربی ماحول میں قابل مطالعہ اور قابلِ تفہیم مروجہ مغربی زبانوں میں اسلامی فلسفے، سائنسی علوم، دینیات اور تصورِ کائنات پر بے شمار کتابوں کے تراجم کیے ہیں یا نئی تصانیف لکھی ہیں۔ یہ نصابی کتابیں نایاب نہیں ہیں، جس طرح کہ چالیس سال پہلے تھیں۔ لیکن ہمارے پاس جو چیز نہیں ہے وہ ہے ایک مرکز۔ ایسی جگہ جہاں طلبہ کی تربیت اسلامی طریقے سے کی جائے۔ امریکا میں اب متعدد اسلامی یونیورسٹیاں قائم ہوچکی ہیں لیکن اسلامی تعلیم و تربیت کے نقطۂ نظر سے ابھی اُن میں کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں ہوئی۔
آج کل نیویارک سٹیٹ میں ایک اور نئی اسلامی یونیورسٹی قائم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اُسے جارج ٹائون کے نمونے پر بنایا جائے گا جو کیتھولک یونیورسٹی ہے یا جوشوا یونیورسٹی کے طرز پر جو یہودیوں کے اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں یا البرٹ آئن سٹائن یونیورسٹی کی طرز پر یا ایسی ہی کسی اور بلند پایہ یونیورسٹی کی طرز پر۔ ایسی بڑی اسلامی یونیورسٹی قائم کرنے میں کامیابی ہوگی یا نہیں؟ یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ میں اپنی طرف سے اُن کے ساتھ پورا تعاون کررہا ہوں۔ لیکن میرا اپنا نقطۂ نظر کچھ اور ہے۔ یہ کہ بڑی بڑی یونیورسٹیاں قائم کرنے سے پہلے ہمیں کوئی چھوٹا سا علمی مرکز بنانا چاہیے، جہاں یہی کوئی بیس پچیس طلبہ چند ایسے اساتذہ کی رہنمائی میں تعلیم و تربیت حاصل کریں، جو اپنی اسلامی علمی روایت کی حامل ہوں۔دیکھیے! میری عملی زندگی کا خاتمہ قریب ہے…… شاید عمر بھی تمام ہونے والی ہے…… لیکن میں نے طلبہ کی کئی نسلوں کو تربیت دے دی ہے اور گذشتہ چند برسوں میں پندرہ بیس نوجوان دانشور پیدا کردئیے ہیں، جو اگلی نسل کو تربیت دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ اُس نے مجھے توفیق اور ہمت دی کہ اپنی روایت نوجوانوں کے سینے میں منتقل کرسکوں۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ایک چھوٹے علمی مرکز کی ضرورت ہے جہاں ہم خیال نوجوان طلبہ اکھٹے ہوں اور ہر سال چند نوجوان دانشور تربیت پاکر، دوسروں کو تربیت دینے کے لیے تیار ہوں۔ اپنی بات کو میں ایک سادہ سی مثال سے واضح کروں گا۔ اگر آپ کے پاس تھوڑا سا گندم ہو تو آپ اس کے آٹے سے چند روٹیاں پکا لیں گے اور آٹا ختم ہوجائے گا۔ لیکن اگر آپ دانۂ گندم بیج کے طور پر کھیت میں بو دیں تو اگلے موسم بہار میں گندم کی ایک پوری فصل پیدا ہوجائے گی جس سے آپ ہزارہا لوگوں کو خوراک مہیا کرسکیں۔
اس مثال پر عمل کرتے ہوئے، مغرب میں اسلامی تعلیم کا اہتمام بھی پہلے چھوٹے یونٹ سے کیا جائے۔ پھر رفتہ رفتہ بڑے یونٹ کی جانب بڑھا۔ اگر آپ اعلیٰ معیار کا ایک چھوٹا یونٹ قائم کریں جہاں زیادہ سے زیادہ بیس تیس طلبہ کی تربیت کی گنجائش ہو اور وہ طلبہ اعلیٰ ذہانت کے مالک ہوں اور آپ انھیں اسلامی عقل وفکر کی زندگی کی میراث منتقل کریں، جس میں تمام سائنسی علوم، فلسفہ،منطق، ریاضی، روحانی علوم اور سب کچھ شامل ہوں تو یہ تربیت یافتہ نوجوان اپنی باری پر دوسروں کو تربیت دیں گے اور اس طریقے سے بیس برس کے بعد کئی سو نوجوانوں کی ایک کھیپ تیار ہوجائے گی جو کسی بڑی یونیورسٹی کے علمی نظام کی بنیاد ثابت ہوں گے۔ میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ منزل کی طرف قدم بہ قدم بڑھا جائے۔ چنانچہ میں احباب سے کہتا رہتا ہوں کہ ہمیں اپنی تمام اجتماعی کوششوں سے ایک چھوٹا سا مرکز قائم کرلینا چاہیے، جس کا نام مثلاً ’’مرکز برائے اسلامی سائنس‘‘ ہو یا کچھ اور جو مناسب خیال کیا جائے۔ بہتر ہوگا کہ اس کے نصاب میں فلسفہ، منطق، دنییات اور دیگر متعلقہ مضامین شامل ہوں۔ ضروری نہیں ڈگریاں بھی دی جائیں۔ اسے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والوں کا ادارہ بنایا جاسکتا ہے، جیسا کہ پرنسٹن کا اعلیٰ مطالعات کا سنٹر ہے۔ اسے دین دار مخلص مسلمانوں کا مرکز بنایا جاسکتا ہے جو ایم اے یا پی ایچ ڈی کی ڈگریاں رکھتے اور اسلامی علوم سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ یہاں آئیں، بیٹھیں، کام کریں باہم کام کی باتیں کریں، تعلیم پائیں، تعلیم دیں، سلسلۂ ابلاغ جاری ہو، جو لوگ اسلام کی تبلیغ کی خدمت بجا لانے کا جذبہ رکھتے ہیں، وہ بھی مرکز میں آکر بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ دو تین ذہین و فطین ایرانی فلسفی اور مفکر حال ہی میں امریکا آئے ہیں، جن کی انگریزی تو زیادہ اچھی نہیں ہے لیکن اُن کے پاس علم بہت ہے۔ انھوں نے اسلامی سائنسی علوم کے گہرے مطالعے میں پندرہ تا بیس برس گزارے ہیں۔ انھیں مشاہرے پر ملازمت دی جاسکتی ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی لوگ ہوں گے جو شامل ہونا چاہیں گے۔ اور یوں رفتہ رفتہ کارواں بنتا جائے گا اور منزل قریب آتی جائے گی۔
٭
مظفر
: آپ کی اس تجویز کو عملاً کیا مزید آگے بڑھایا جاسکتا ہے؟ مجھے یاد ہے آپ ایک دفعہ حکیم محمدسعید شہیدؒ کے تعاون سے کراچی میں ایسا علمی مرکز قائم کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن آپ کی کوشش اُس وقت کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا مسلم حکومتیں اس قسم کی علمی مہم سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں۔ غالباً انھیں تو اس نوعیت کی احیائی تحریک کی ضرورت کا احساس تک نہیں۔
نصر
: آپ کی بات بالکل درست ہے
٭
مظفر
:یہی وجہ ہے کہ میں اپنی بات کا آغاز مغرب سے کرنا چاہتا تھا لیکن آپ نے رُخ دنیائے اسلام کی طرف موڑ دیا ہے تو یہ بڑی متضاد سی بات بن گئی ہے لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ مغرب میں کامیابی کا زیادہ امکان ہے۔ اسی لیے میں گفتگو مغرب کے دائرے میں رکھنا چاہتا تھا کیونکہ……
نصر
: بڑی حد تک مجھے آپ سے اتفاق ہے لیکن دنیائے اسلام میں کچھ استثنائی صورتیں بھی ہیں۔
٭
مظفر
: جی ہاں، مسلم دنیا میں متمول نجی شعبہ پر تکیہ کیا جاسکتا ہے۔ بڑی اُمید تھی کہ نجی شعبہ کی مدد سے اسلامی علمی روایت کی احیا کے سلسلے میں نئے نئے ادارے قائم ہوں گے لیکن یہ اُمید بھی پوری نہ ہوسکی۔ قومی وسائل جتنے بھی ہیں، وہ سب حکومتوں کی تحویل میں ہیں، جو احیا و تجدید کے مقصد پر قومی وسائل صرف کرنے سے کوئی غرض نہیں رکھتے۔ ایسے حالات میں احیائی تحریک کیونکر اور کہاں سے شروع کی جائے؟
نصر
: یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کچھ بھی نہیں ہوا۔ چند کوششیں ہوئی ہیں اور وہ کامیاب بھی ہورہی ہیں، مثلاً ایران، ملائیشیا، مسلم انڈیا اور پاکستان میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔ خاص طور پر ایران میں جہاں چند ایسی جامعات قائم ہوئی ہیں، جن کا نظم و نسق حکومت کے پاس نہیں علما کے ہاتھ میں ہے۔ یہ جامعات حقیقی معنی میں ’’مدرسے‘‘ ہیں جہاں غیر ملکی زبانوں، جدید سائنسی علوم اور مغربی اداروں میں پڑھائے جانے والے دوسرے مضامین کی بھی تدریس ہوتی ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ ایسی کوششوں کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے انشاء اللہ۔ لیکن بہ حیثیت مجموعی آپ کی یہ بات درست ہے کہ مسلم حکومتیں اسلام کی علمی روایت کی تجدید سے کوئی غرض نہیں رکھتیں۔ میں پھر یہی کہوں گا کہ اگر مسلم دنیا میں جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے اسلامی تعلیمی مراکز قائم ہوں تو عوام اور حکومتیں جلد یا بدیر اُن میں دلچسپی لینے لگیں گے۔ اس لیے کہ ان اداروں سے بہترین خلاّق لوگ تربیت لے کر سامنے آئیں گے۔
آپ جانتے ہیں، میں برس ہا برس ایران میں یہ جنگ لڑتا رہا ہوں۔ میں نے وہاں اکیڈمی آف فلاسفی یا انجمن شاہی قائم کی تھی۔ جس کا بہت بڑا بجٹ تھا، جو کسی قسم کے سرکاری لال فیتے کے مراحل سے گزرنے کے بجائے ہمیں ملکہ سے براہ راست ملتا تھا۔ چند سال کے اندر اندر اس اکیڈمی نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ پوری دنیا میں اس کی دھوم مچ گئی۔ اکثر ایرانی اور خود حکومت کو بھی ابتدا میں اس کی کامیابی پر شک تھا لیکن جب یہ کامیاب ہوگئی تو سب حیران رہ گئے اور اب تعاون کے لیے آمادہ ہوگئے۔ کامیابی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اول درجے کے معیاری مقالات اکادمی کے اپنے مجلے Sophia Perenis (جاوداں خرد) میں نیز بین الاقوامی مقالات تحقیقی جرائد میں چھپتے تھے اور دنیا کے ممتاز اور سربرآوردہ فلسفی ایران آتے اور اپنی آنکھوں سے اکادمی کی کارکردگی کا مشاہدہ کرنے کی آرزو کرتے تھے۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ حکومتوں کا ذہن تو نہیں بدلا جاسکتا لیکن نتائج دکھا کر انھیں متوجہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ بھی کرنے کا کام ہے۔ بلاشبہ یونیورسٹیاں حکومتیں چلا رہی ہیں لیکن آپ اور میں بڑے اور وسیع پیمانے کے ادارے کی بات نہیں کررہے کوئی ایسی بڑی یونیورسٹی جیسے قاہرہ یونیورسٹی جہاں پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ ہزار طلبہ بیک وقت تعلیم پارہے ہوں۔ ہم بات کررہے ہیں، چھوٹے ادارے کی جہاں تھوڑے ذہین لوگ تعلیم و تربیت حاصل کریں۔ تاریخ اسلام کے اس موڑ پر ہمیں بہت بڑے ادارے نہیں، جن میں تعداد کو دیکھا جاتا ہے بلکہ چھوٹے بنیادی اہمیت کے منصوبوں کی ضرورت ہے، جہاں معیار کو دیکھا جائے، جو ایک دفعہ کامیاب ہوگئے تو دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کریں گے۔
اسلامی سائنسی و عقلی روایت کو زوال کیوں آیا؟:
٭
مظفر
: احیائی تحریک کا ایک تقاضا یہ بھی تو ہے کہ اُن اسباب کی آگاہی حاصل ہو جن کی وجہ سے اسلامی عقلی روایت کو زوال آیا تھا۔ اس ضمن میں بھی اب تک کوئی کام نہیں کیا گیا۔ چند غلط سلط باتیں دہرائی گئی ہیں مثلاً گولٹ تسیہر کا یہ نظریہ کہ اسلامی بنیادپرستی پر غیر ملکی سائنسی علوم نے غلبہ پالیا تھا یا یہ سادہ سا جواب کہ صاحب! اسلامی دنیا میں تو سائنس کا قتل الغزالی نے کیا تھا لیکن یہ مسئلے کے حقیقت پسندانہ اور صحیح جواب نہیں ہیں۔ صحیح جواب کیا ہیں؟ میں نہیں جانتا۔ اچھا اس مسئلے پر آپ نے بھی زیادہ نہیں لکھا۔ اس مسئلے کے متعدد پہلو ہیں مثلاً یہ سوال کہ زوال آیا تو کب آیا یعنی کب شروع ہوا؟ آپ کا کیا خیال ہے اسلامی عقلی روایت کو زوال کب آیا، کیوں آیا؟
نصر
: پہلے تو میں یہ عرض کر دوں کہ میرا نہیں خیال پوری کی پوری اسلامی روایت کو ہر لحاظ سے زوال آیا۔ یہ بات ہی غلط ہے۔ مثال کے طور پر اسلامی فنون کو دیکھیے جو اسلامی تہذیب کا انتہائی اہم شعبہ ہے۔ فن بافندگی کو آج تک زوال نہیں آیا۔ا یران میں انیسویں صدی میں انتہائی خوبصورت اور دیدہ زیب قالین بنے جارہے تھے۔ آج بھی قالین بافی کے نمونے شاہکار ہیں۔ اسی طرح فن تعمیر کو دیکھیے۔ بیسویں صدی تک بڑی خوبصورت عمارات تعمیر ہورہی تھیں۔ سو ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم کن شعبوں میں زوال یا ترقی کی بات کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ اسلامی فلسفے کو دیکھیے جو اسلامی علمی روایت کا دل ہے۔ وہ ایران میں بیسویں صدی میں احیائی برگ و بار لارہا تھا اور ہندوستان میں بھی انتہائی اہم مفکر اس مدت میں پیدا ہوئے۔ مثلاً لکھنؤ میں فرنگی محل کے دانشور اور فضل حق خیر آبادی کا مکتب اور بے شمار دوسرے ادارے اور نامور اشخاص۔ سو مجموعی زوال کی بات نہ کیجئے۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ تمام تہذیبوں کو ایک خاص انداز میں زوال آیا تھا۔ اگر آپ ایک معیار کی بات کریں تو ایک روحانی طور پر زندہ و تابندہ تنظیم جسے تہذیب کہا جاتا ہے تو تمام غیر مغربی تہذیبیں آہستہ آہستہ زوال آمادہ ہوئی ہیں۔ جب کہ مغربی تہذیب بڑی سرگرمی اور تیزی سے زوال پذیر ہوئی ہے۔ پھر آپ یہ بھی دیکھیے کہ پچھلی صدی سے غیر مغربی تہذیبیں زیادہ فعال ہوتی جارہی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اُن میں زوال کا عمل بند ہوگیا ہے۔ اس لیے کہ فعالیت اکثر اوقات اُن کے اپنے روحانی معیار و اقدار کے مطابق نہیں ہوتا۔ یہ بڑا نازک مسئلہ ہے، جس کے متعلق میں اپنے کئی مقالات میں کھل کر بحث کرچکا ہوں۔
اچھا، آئیے اب کچھ گفتگو سائنس اور فلسفے کے باہمی تعلق پر بھی کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزم ہیں اور اسلام کی عقلی روایت میں ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں سمجھا جاتا۔ مسلم دنیا کی ایک کمزوری یہ ہے کہ اس کی اپنی عقلی روایات کی تفہیم اسلامی فلسفہ و سائنس کے مغربی مطالعات پر مبنی ہے۔ اور مغربی مطالعات ویسے تو زمانۂ قدیم سے چلے آرہے ہیں لیکن جدید مفہوم میں اُنیسویں صدی میں شروع ہوئے۔ ظاہر ہے اسلام کی عقلی روایت پر مغرب میں غور ہوگا تو مغربی نقطۂ نظر سے ہوگا۔ یہ قدرتی بات ہے۔ اہل مغرب کے نزدیک اسلامی فلسفۂ و سائنس اُنیسویں صدی میں یکایک اُس وقت ختم ہوگیا جب مغرب اور مسلم دنیا کے روابط ختم ہوگئے۔ جدید زمانے کے بعض دانشور مثلاً ہنری کوربن، تشیہیکو آئزوٹسو اور میں خود بھی، ایک عرصے سے بار بار اس حقیقت پر زور دے رہے ہیں کہ اسلامی فلسفہ ابن رشد پر ختم نہیں ہوگیا تھا۔ پچھلی چند دہائیوں سے علومِ طبیعی کے میدان میں ایسی فاضلانہ تحقیقات سامنے آئی ہیں جو زیادہ تر مغربی علما کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں، جنھوں نے اس پرانے خیال کو بدل کر رکھ دیا ہے کہ اسلامی سائنس کا زوال سقوطِ بغداد یا ایسے ہی کسی اور حادثے کے ساتھ شروع ہوگیا تھا۔
مراغہ کی رصدگاہ اور اُس کا عظیم مکتب فلکیات تو سقوطِ بغداد کے بہت بعد کی بات ہے۔ اُس کی دریافت کا سہرا ای ایس کینیڈی اور چند دوسرے مغربی علما کے سر ہے۔ بعض عرب علما مثلاً جارج سالبہ کا نام بھی ان میں شامل ہے۔ ہمیں ان سب کا ممنون ہونا چاہیے۔ مملوکیوں کی فلکیات پھر یمنیوں کی فلکیات کی دریافتیں ہوئیں۔ اس ضمن میں ڈیوڈکنگ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ انھوں نے اسلامی فلکیات کی تاریخ میں ایک بالکل نیا باب کھول دیا ہے۔ پچھلے کئے برس سے استنبول اور ترکی کے دوسرے شہروں میں عہدِ عثمانیہ کے سائنسی علوم پر تحقیقی کام ہورہے ہیں اور یوں اسلامی سائنس کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا جارہا ہے۔
میرا اپنا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اگر ہم بعد کے تحقیقی کاموں کا سنجیدگی سے مطالعہ کریں۔ بے شبک مغربی سائنس کی نگاہ ہی سے کریں جیسا کہ لاشعوری طور پر ہم مغربی نگاہ کو حرفِ آخر سمجھ بیٹھے ہیں۔ بالخصوص جب کہ مغربی سائنس نے اتنی اہمیت و مقبولیت حاصل کرلی ہے کہ ہماری نظر میں وہ تہذیب اسلامی کا پیمانہ بن چکی ہے یا یوں سمجھو کہ ہم نے مغربی معیار ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ جب کہ میں ایسا نہیں سمجھتا اگرچہ مسلم دنیا کے اہل دانش نے بہ حیثیت مجموعی سمجھ لیا ہے…… خیر اگر مغربی معیار ہی کو سب کچھ مان لیا جائے تب بھی اسلامی زوال کی حد آگے آجائے گی یعنی زوال کا دور تیرھویں صدی نہیں بہت بعد کا مقرر کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر پچھلے دو تین برسوں میں بعض محققین نے جن میں کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جارج سالبہ پیش پیش ہیں، نے ثابت کیا ہے کہ شمس الدین فخری جسے ہمیشہ سے پندرھویں اور سولھویں صدی کا عالم دین یا مفکر خیال کیا جاتا رہا ہے، وہ بہت بڑا ماہر فلکیات بھی تھا بلکہ وہ بعدکے ماہرینِ فلکیات میں سب سے اہم اور سب سے بڑا تھا۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر بعد کی صدیوں میں اسلامی تہذیب کے عرب علاقوں کے علاوہ پوری مسلم دنیا میں بالخصوص مسلم انڈیا، ایران اور عثمانی سلطنت میں تحقیق کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہاں بڑی نمایاں اور قابل ذکر سائنسی سرگرمیاں اٹھارویں صدی میں بلکہ خاص شعبوں میں اُنیسویں صدی میں بھی ہوتی رہی ہیں ، حتیٰ کہ مسلم دنیا میں مغربی سائنس کی آمد بتدریج شروع ہوئی اور رفتہ رفتہ اُس نے اسلامی فلسفہ وسائنس کی روایت کی جگہ لے لی۔ فلسفے کے میدان میں تو اسلامی فکری روایت کبھی ختم نہ ہوئی۔ بیسویں صدی میں اسلامی فلسفے کے عظیم نمایندے جیسے علامہ طباطبائی اور دوسرے حضرات برابر کام کرتے رہے ہیں۔ ان میں سے بعض کے ساتھ میں نے تعلیم بھی پائی ہے۔
ہمیں اسلامی سائنس کی واضح، قطعی اور مکمل تاریخ لکھنی پڑے گی۔ خاص طور پر بعد کی صدیوں کی۔ مسلم علما اب تک زیادہ تر مغربی علما کے فرمودات کی پیروی کرتے رہے ہیں، جن کا زورِ تحقیق اسلامی سائنس کے عہدِ اول کی تاریخ پر مرتکز رہا ہے، جس کے بارے میں بلاشبہ کافی نئی معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ لیکن اب ضرورت ہے، اسلامی سائنس کی مکمل تاریخ کی جو ہمارے اپنے نقطۂ نظر سے لکھی جائے۔ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ اسلامی سائنس پر زوال کب اور کیوں آیا، پہلے ہمارے پاس اس کی مستند تاریخ تو ہو۔
دوسرے میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اپنے نقطۂ نظر سے اسلامی سائنس کی تاریخ لے آئیں تو معلوم ہوگا کہ اسلامی سائنس کی روایت سائنس کی اپنی تاریخ کا نقطہ عروج تھی۔ یعنی اگر جارج سارٹن کے طریقِ تحقیق کی پیروی میں آٹھویں تا پندرھویں صدی کی درمیانی مدت کی تاریخ پر غور کیا جائے۔ جس کے بعد یہ عالمی سائنس کی چوٹی پر نہ رہی اور مغربی سائنس زیادہ فعال اور سرگرم ہوگئی۔ تاہم اسلامی سائنسی روایت اپنے مخصوص تخلیقی انداز میں بارھویں، تیرھویں صدی ہجری/ اٹھارویں، اُنیسویں صدی عیسوی میں مسلسل جاری رہی۔ اور اسلامی فلسفہ تو آج تک جاری و ساری ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی سائنس کی سرگرمی میں کمی…… مَیں اسے زوال نہیں کہوں گا…… کمی کیوں آئی؟
میرا خیال ہے۔ یہ سوال ہی بے محل ہے کیونکہ اس کی بنیاد اس مفروضے پر قائم کی گئی ہے کہ ہر تہذیب کی عام فعالیت علم الکائنات اور ریاضیات کے شعبوں میں ہوتی ہے۔ یہ مفروضہ درست نہیں ہے۔ جب ہم سائنس کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں مثلاً عراق میں بابلی تہذیب کے ہزاروں سال پر مشتمل تاریخ، مصری تہذیب کی ہزاروں سال پر مشتمل تاریخ، یا رومن، چینی اور انڈین تاریخ …… ان طویل تاریخوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ مفروضہ درست نہیں ہے۔ اکثر و بیشتر صورتوں میں زیادہ فعال سائنسی سرگرمی فی الحقیقت اُس وقت دیکھنے میں آئی جب وہ تہذیب مررہی تھی۔ جارج سارٹن بھی یہی کہتا ہے۔ مثال کے طور پر بابلی تہذیب میں جو اپنے عظیم سائنسی شاہکاروں کی وجہ سے مشہور ہے۔ سائنس نے اُس وقت عروج پایا جب وہ تہذیب ختم ہورہی تھی۔ بعض سائنسی علوم کے حوالے سے مصری تہذیب کی بھی یہی کیفیت ہے۔ یونانی تہذیب کا بھی یہی حال ہے۔ یونانی سائنس کے عظیم شاہکار، مثلاً بطلیموس اور اقلیدس اور اُن کے معاصرین کے کارنامے اُس وقت ظہور میں آئے، جب یونان کے حضے بخرے ہوگئے تھے۔ اُس کا مذہب مررہا تھا۔ اُس کی ثقافت دم توڑ رہی تھی اور اُس کی سیاسی زندگی پر رومیوں کا تسلط قائم ہورہا تھا۔ یہ ناقابل تردید تاریخ حقائق ہیں۔ انڈین، چینی اور دوسری تہذیبوں میں بھی جن کی تاریخ بہت طویل ہے۔ ایک وقت ایسا آیا تھا، جب سائنسی علوم اپنے جوبن پر تھے مثلاً ریاضی، طبیعیات، فلکیات اور کیمیا وغیرہ ایسا وقت بھی آیا جب سائنس سے زیادہ لگائو نہ تھا اور جس وقت سائنس سے لگائو نہ تھا تو اُس وقت فنون سے زیادہ لگائو ہوگیا اور فن تعمیر، ادبیات، سیاستِ مدن اور ایسے دوسرے فنون نے بہت ترقی کی۔
سائنس بابلی تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تہذیب کے دورِ اول ہی میں شروع ہوگئی تھی۔ یعنی اسلامی سائنس اسلامی تہذیب کے آغاز ہی میں اپنے عروج پر تھی۔ مثال کے طور پر جابر بن حیان دوسری صدی ہجری کا آدمی ہے۔ آج تک الکیمیا جابر سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ نویں صدی میں تو ایک سے بڑھ کر ایک عظیم علمائے فلکیات اور ریاضی داں کام کررہے تھے۔ دسویں صدی میں البیرونی اور ابن سینا جیسے عظیم لوگ برسر عمل تھے۔ پھر ایک طویل عرصے تک کئی صدیوں تک نشیب وفراز آتے رہے۔ پھر اسلامی تہذیب کی صلاحیتوں اور توانائیوں کے دھارے نے رفتہ رفتہ اپنا رُخ بدل لیا۔ ۱۵۰۰ء کے آتے آتے مغرب طاقت پکڑ چکا تھا۔ انکشافات اور دریافتوں کا دور شروع ہوچکا تھا۔ یورپیوں نے امریکا دریافت کرلیا۔ پھر وہ افریقہ کے گرد چکر کاٹ کر بحرِ ہند کو عبور کرکے ایشیا کے ساحلوں تک پہنچ گئے لیکن وہ دارالسلام میں داخل نہ ہوسکے۔ اُس زمانے میں دنیائے اسلام اب تک بہت بڑی طاقت تھی۔ اُس وقت دنیا کی طاقتور ترین سلطنتیں عثمانیوں اور صفویوں کی تھی اور امیر ترین ہندوستان کی سلطنتِ مغلیہ تھی۔ یہ تینوں مسلم سلطنتیں معاشی، سیاسی اور عسکری لحاظ سے اُس وقت بھی بہت مضبوط، مستحکم اور طاقتور تھیں۔ ان کے فنون کو دیکھیے۔ تاریخ انسانیت کے عظیم ترین فن پارے اس دور میں تخلیق ہوئے۔ آگرہ کا تاج محل، اصفہان کی شاہی مسجد، استنبول کی مسجد سلطان احمد۔ یہ فن تعمیر کے ان۔مٹ نقوش ہیں۔ پھر خطاطی، ادبیات اور دوسرے فنون کے شاہکار ہیں جن کے نام گنوائے جاسکتے ہیں۔
سو کسی تہذیب کو جانچنے کے لیے یہ سوال عائد کرنا کہ ’’اُس میں سائنس کو زوال کیوں آیا؟‘‘ اور پھر سائنس کے زوال کا موازنہ اُس تہذیب کے زوال سے کرنا بالکل غلط ہے۔ اس لیے کسی بھی تہذیب میں…… معلومہ تہذیبوں میں سے بھی …… تمام تخلیقی توانائیوں کو بہ تمام وکمال صرف علم۔الکائنات اور ریاضی پر نہیں جھونک دیا جاتا۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے، جب تہذیب صرف اپنے تصورِ کائنات ہی میں مطمئن ہوجاتی ہے اور بعد ازاں کسی بھی وقت اُس کی تخلیقی فعالت کا رُخ فلسفے، آرٹ، تصوف، ادب، قانون اور دوسرے میدانوں کی طرف مڑ جاتا ہے۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ سوال کی نوعیت ہی غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسری معلومہ تہذیبوں کے مقابلے میں جن میں جدید مغربی تہذیب بھی شامل ہے، اسلامی تہذیب کے اندر سائنسی علوم سے بہت زیادہ اور بہت گہرا لگائو رہا ہے۔ مغرب تو یہی کوئی چار سو سال سے گلیلیو کے وقت سے، سائنس سے دلچسپی لینے لگا ہے اور اب آکر سائنس کو اپنی فکری و عقلی دلچسپی کا محور بنایا ہے۔ نہیں معلوم، آئندہ سو سال میں کیا ہونے والا ہے۔ قیاس کے گھوڑے دوڑانے سے کیا فائدہ۔ ہمیں واقعی نہیں معلوم حالات کا دھارا کس رُخ پر بہے گا۔ میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ آج جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی تہذیب میں سائنس کی ترویج و اشاعت کے مسئلے کو ہمیں اسلامی تہذیب ہی کے دائرے میں رکھ کر اسلامی تہذیب کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
رہا تجدید و احیا کا مسئلہ جس پر آپ نے بہت اچھی اور صحیح بات کی ہے۔ یہ مسئلہ بھی ہمیں اپنی اسلامی سائنسی روایت کی روشنی میں حل کرنا چاہیے اور یہ بات میں چالیس سال سے بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصے سے برابر کہتا رہا ہوں۔ یہ مسئلہ بھی بڑے مغالطہ انگیز انداز میں اُٹھایا جارہا ہے۔ یہ محض ایک مفروضہ ہے کہ اسلامی سائنس سات سو سال پہلے مرگئی تھی اور اب سات سو سال کے بعد اس کے احیا کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اس مفروضے پر اڑے رہے تو اسلامی سائنس کا احیا کبھی نہ ہوسکے گا۔ اس لیے کہ اُنیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں مروجہ اسلامی سائنس پر جدید مغربی سائنس کی کئی تہیں چڑھ چکی ہیں۔ بے شک اسلامی سائنس اور مغربی سائنس میں مطابقت پیدا کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ مثلاً تقسیم ہند کے بعد حکیم محمد سعید اور حکیم عبدالحمید مرحوم مغفور کے ہاتھوں قائم شدہ ہمدرد انسٹی ٹیوٹ میں دوا سازی کا شعبہ اس کی ایک اچھی مثال ہے۔ میں نے جس سائنسی مطابقت کا ذکر کیا ہے وہ اس مفہوم میں ہے کہ مغربی طب کی ٹکنالوجی کا پیوند مسلم دنیا میں رائج طبی روایت میں لگایا جائے۔ چنانچہ اسی مفہوم میں ہمدرد انسٹی ٹیوٹ نے مغرب کی طبی ٹکنالوجی سے استفادہ کیا۔ اگر دوسرے شعبوں میں مغربی سائنس سے مطابقت پذیری زیادہ کامیاب نہ ہوسکی تو یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔
ایک منصوبہ جسے آپ میری زندگی کا خواب یا آرزوے ناتمام کہ لیجیے۔ وہ صرف یہ ہے کہ اللہ مجھے توفیق دے کہ میں اسلامی تہذیب کے تناظر میں اسلامی سائنس کی مکمل تاریخ مرتب کرجائوں۔ اس کام کا آغاز میں نے An Annotated Bibliography of Islamic Sciences کے نام سے ۱۹۷۰ء کے عشرے میں کیا تھا۔ سات جلدیں اس کام کی ایرانی انقلاب سے پہلے مکمل ہوچکی تھیں۔ ان میں سے تین جلدیں تو میری ذاتی نگرانی میں طبع ہوئی تھیں۔ باقی کی چار جلدیں زیر تدوین ہیں۔ اسلامی سائنس کی جامع کتابیات کی تجمیع و تدوین کے اس کام کو دراصل اسلامی سائنس کی عظمت شناسی اور قدر افزائی کی طرف ایک بڑا قدم سمجھا جارہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ تجدید و احیا کے مسئلے کا تعلق دو باتوں سے ہے۔ ایک تو یہ کہ عہدِ جدید سے پہلے کی اسلامی سائنس کی مرگ یا زوال یا انحطاط جو بھی آپ کہیں، کے اسباب کا جائزہ لیا جائے۔ دوسرے دورِ اول کی اسلامی سائنس کی تاریخ سے بھی اس مسئلے کا تعلق ہے جو محض جزوی علم کی بنیاد پر لکھی ہوئی نہ ہو بلکہ تمام سائنسی علوم پر محیط ہو۔
(جاری ہے)
دوسرا حصہ