اسلامی تصورجہاں[Worldview] اورجدیدسائنس[2]

حصہ اول

معتبر اسلامی سائنس کی تخلیق کے مدارج:

بلاشبہ عصرحاضر میں معتبر اسلامی سائنس کی تخلیق ایک طویل المدت صبرآزما کام (Project) ہے۔ جس پر اس سفر کے ہر مسافر کو لازماً چلنا پڑے گا۔ لہذاجو حقیقی معنوں میں سلامی تصور جہاں کے مطابق اپنی اس سائنس کو تخلیق کرنا چاہتا ہے اُسے یہ صبر آزما مسافت طے کرنا پڑتی ہے جس کے ممکنہ مراحل درج ذیل ہو سکتے ہیں:


1

– سب سے پہلے ہمیں آزادانہ اسلامی تصور جہاں اور مشاہدہ کائنات کے تحت موجودہ جدید مغربی سائنس کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ اسلامی تصور جہاں کے مطابق تو سائنس اور مشاہدے کی جڑیں وحی الٰہی میں کھبی ہوتیں ہیں اس لیے مسلمانوں کو بھی ایک عقاب کی طرح اوپر سے پورے گردوپیش پر نظر رکھنی چاہیے اور محض سانپ کے رنگین نقش و نگار کو دیکھ کر دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔ چنانچہ اسلامی علمی تہذیب میں در آنے والی اس سائنس پرستی پر غوروخوص کرنا چاہیے اور تمام علوم کا ازسرنو مطالعہ اور تجزیہ کرنا چاہیے اور مغربی نشاۃ ثانیہ اور عروج کی واحد وجہ محض مغربی سائنسی فنی مہارت کو قرار نہیں دینا چاہیے کیونکہ یہ ترقی یافتہ اقوام ا فراد کو چاند پر تو بھیج سکتے ہیں لیکن ان کے نوجوان لڑکے گلیوں میں ایک دوسرے کو قتل کرتے پھرتے ہیں۔ اس لیے صرف معتبر اسلامی تناظر میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے سے ہی ہم اس احساس محرومی اور کمتری کی دلدل سے نکل سکتے ہیں جس میں نام نہاد مسلم اشرافیہ Elites پوری گہرائی کے ساتھ پھنسی ہوئی ہے۔

2

۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ سے لے کر دیگر تمام روایتی سائنسی علوم فلسفہ کلام آفاقی علوم تزکیہ نفس پر مبنی تصوف (جو کہ ماورایت اور عرفانی (Gnoises) علوم کا ماخذ ہوں) ان سب کا انتہائی سنجیدگی اور گہرائی کے ساتھ ٹھوس مطالعہ نہایت ضروری ہے تاکہ اسلامی تناظر جہان اور مشاہدہ کائنات کی صورت گری کی جاسکے۔ مزید حقیقی معنوں میں اسلامی تصور فطرت اور فطری علوم کے بارے میں جانا جاسکے۔ یہ صبر آزما طویل المدتی کام ایک منظم منصوبے Project کی طرح اسلامی فکری اور روایتی ڈھانچے کے دائرے میں سرانجام دینا چاہیے نہ کہ سہل پسندی اور عجلت پسندی کے انداز میں سادگی سے قرآن کی ’سائنسی‘ آیات کے ترجمے کے ساتھ کسی قسم کی علمی ’اسلامائزیشن‘ کی صورت میں پیش کیا جائے جس کے تحت زیادہ تر آیات قرآنی کو پہلے سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان کیا جاتا ہے اور اپنی طرف سے معانی اور مفہوم بنائے جاتے ہیں اور بالخصوص تجدد پسندی کے تحت تو نیت اور مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ تصورات نظریات اور معاملات کو جتنا زیادہ ہوسکے اسلام سے دور کیا جاسکے۔ یقینا یہی وجہ ہے جس کی طرف قرآن مجید میں سورۃ النحل میں اشارہ کیا گیا ہے:

ولکن یضل من یشآء ویھدی من تشآء۔ ترجمہ :’’مگر وہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈالتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے۔ ‘‘ (سورۃ النحل آیت نمبر93)

یہی وجہ ہے کہ لوگ کلام الٰہی کو پڑھنے اور سننے کے بعد بھی گمراہی کا شکار ہوسکتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کی توفیق نہ دی گئی ہو۔ مغرب میں بھی تجدد پسند مسلمانوں میں قرآن و احادیث کی غیرمعروف اور گمراہ کن تعبیرات پھیل چکی ہیں۔ حتیٰ کہ مسلم ممالک میں موجود تجدد پسند مسلمانوں کے پورے جتھے کے جتھے جدید ذرائع مواصلات کے ذریعے ان تعبیرات کو فروغ دے رہے ہیں۔ لہٰذا صرف معتبر اور اصل اسلامی تصور جہاں اور مشاہدہ کائنات ہی رائج الوقت مغربی تصورجہاں کی بیخ کنی کرسکتا ہے وگرنہ محض دوسرے درجے کی نقالی جو کہ مغربی تصورجہاں کے باب میں اختیار کی گئی ہے یا محض قرآن و احادیث کی آیات کا ایسااستعمال جو محض ادبی ثقاہت بڑھانے کے لیے کیا گیاہو اس سے یہ عظیم کام سرانجام نہیں دیا جاسکتا۔

پس ثابت ہوا کہ معتبر اور حقیقی اسلامی تصورجہاں اور مشاہدہ کائنات کی دریافت نو اُس وقت تک نہیں کی جاسکتی جب تک اسلامی علوم کی تاریخ اور فہم کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ نہ کرلیاجائے۔ یہ مطالعہ اس لیے ضروری ہے تاکہ اعلیٰ درجے کے معتبر اسلامی علوم کا بیج بویا جاسکے جس سے نکلنے والا پودا جب تناآور درخت بنے تو اُس کی جڑیں وحی الٰہی میں کھبی ہوئی ہوں اور اس کی شاخیں چودہ صدیوں کی اسلامی تاریخ کے عرصے پر محیط ہوں۔

بہرحال المیہ یہ ہے کہ دیگر عملی اور علمی شعبہ جات کی طرح سائنس کا شعبہ بھی مغربی ماخذات کے ذریعے ترتیب پاتا ہے یہاں تک کہ اگر اسلامی سائنس کو بھی سمجھنا ہو تو پھربھی مغربی ماخذات کے ذریعے سے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ یہ سامنے کی چیز ہے کہ آخر مغرب کو اسلامی سائنس کی تاریخ میں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟ مغرب تو اپنے تصورجہاں کی روشنی میں پوری مسلم تاریخ کے سفر کو ایک باب سے بھی زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ حالانکہ اس کے برعکس ماضی کے جلیل القدر مسلمانوں کی دلچسپی کا محورہی اسلامی تہذیب اور تصورجہاں پر مبنی علوم کی نمو اور بڑھوتری کے ساتھ جڑا تھان جسے انہوں نے ہزار سالوں تک آگے بڑھایا کیونکہ اس تناظر جہاں اور تصور جہاں کا براہ راست تعلق اسلامی وحی کے ساتھ تھا اوریہ تصور اُس فکری روایت کے ساتھ پیوست تھا جس کے تحت اسلامی سائنس کی صورت گری لازماً اسلامی تصورحیات کے مطابق ہی کی جاتی تھی نہ کہ اس کا مقصد دیگر تہذیبوں میں پائی جانے والی سائنسی ترقی اور نمو کے کردار کی وضاحت کرنا مقصود ہوتاتھا۔

3

۔ ایک اور اہم کام یہ ہے کہ بڑی تعداد میں مسلمانوں کو جدید علوم پڑھنے کی اجازت ملنی چاہیے اور اس کے مواقع بھی بہم مہیا کیے جانے چاہئیں بالخصوص وہ بنیادی علوم جسے مغرب خالص Pure سائنس کہتا ہے۔ انہیں سیکھنا مسلمانوں کے لیے لازم ہے۔ دیکھا جائے تو آج مسلم دنیا میں اطلاقی علوم کے ماہر ڈاکٹر اور انجینئرز بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن ایسے مسلمان ماہرین خال خال ہی پائے جاتے ہیں جنہوں نے تصوراتی پہلوئوں کے لحاظ سے مختلف علوم مثلاً طبیعات کیمیا حیاتیات کا مطالعہ کررکھا ہو۔ جو آگے بڑھ کر اگلی صفوں میں ان شعبہ جات میں کام کرتے ہوئے تصوراتی تبدیلیاں برپا کرسکیں جن کے بارے میں آجکل نام نہاد تجدد پسند ماہرین سائنس اور ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کی نصیحتیں کرنے سے نہیں تھکتے۔ لیکن ان مرعوبانہ ذہنیت کے حامل سکالرزکے لیے ایسے سائنسی مضامین جن کی اطلاقی حیثیت اور فوری افادیت کی کوئی اہمیت نہیں ہےجنہیں پیور سائنس مانا جاتا ہے۔ بہرحال اس غواصی کے بغیر مسلمان ہمیشہ وصول کنندہ ہی رہیں گے یا پھر مغربی سائنس اور ٹیکنالوجی کی چادر میں پڑی شکنوں کو دیکھ دیکھ کر خوش اور مطمئن ہوتے رہیں گے۔

اس لیے ہماری تجویز یہ ہے کہ بہترین انداز میں خالصتاً سائنس (Pure Science) اور دیگر جدید سائنسی علوم میں مہارت حاصل کی جائے اور اس کی تصوراتی اور فلاسفک بنیادوں پر تنقید کی جائے مزید علوم کو اسلامی نقطہء نظر اور تصورجہاں کے مطابق ڈھالنے کی کوششیں کیں جاسکیں، ساتھ ہی سائنسی ’حقائق‘ کی اس انداز سے تعبیرگری کی جاسکے کہ حقائق (Facts) اور سیکولر فلسفہء حیات سے اخذشدہ تعبیر کے مابین فرق کیا جاسکے ۔مثلاً ہمالیہ پہاڑ کے جغرافیائی مطالعہ جات یا پھر کرسٹل (قلموں) کی کیمیائی اور طبیعی ساخت کے مطالعہ جات کو ڈارون ارتقاء کے مفروضوں سے ممیز کیا جانا چاہیے جسے عام طور پر سائنسی حقیقت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

جہالت کو فروغ کوئی بھی نہیں دینا چاہتا بالخصوص اسلام جیسا مذہب (الدین) جو سراسر علم پر مبنی ہے اُس میں ’غفلت و جہالت‘ کی گنجائش ہی نہیں ہے چنانچہ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اسلام کا موازنہ ہر اُس مکتبہء فکر اور سوچ کے دھارے کے ساتھ کیا جانا چاہیے جو کہ ’حقیقت‘ کی نمائندگی کرنے والے علم کے طور پر خود کو پیش کرتا ہو۔ بہرحال یہ صورتحال نہایت تکلیف دہ ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک پر ایسی مسلم اشرافیہ بااختیار ہیں جو فخراً خود کو جدید مغربی سائنس کے صارف اور استعمال کنندہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن اس قسم کی مغلوبانہ ذہنیت مسلم ممالک کی جامعات میں علمی گراوٹ پیدا کرتی ہے جیسا کہ پنجاب یونیورسٹی علی گڑھ اور قاہرہ کی یونیورسٹی کے حوالے سے کیے جانے والے مطالعہ جات سے سامنے آیا ہے۔ اس لیے جدید مغربی سائنس کو گہری اسلامی بصیرت اور اسلامی تناظر جہاں کے بغیر اپنانے سے نہ تو ہم جدید مغربی تعلیمی اداروں کے ہم پلہ ہوسکتے ہیں اور نہ ہی مغربی سائنس پر جرح و تنقید اور دیگر علوم کے ساتھ اس کا انضمام کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی سیاسی علمی اصطلاحی تحریک کے ذریعے یہ نشاۃ ثانیہ ممکن ہے۔ نہ ہی محض جذباتی نعرہ بازی یا اکساہٹ ہی کسی ٹھوس علم کی جگہ لے سکتی ہےجیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے: قل ہل یسوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون۔ ترجمہ :’’کہہ دیجیے: کیا جاننے والے اور نا جاننے والے برابر ہوسکتے ہیں؟‘‘ (سورۃ الزمر آیت نمبر۹)

یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی غیرطبیعی کیمیائی تجربہ گاہ (لیبارٹری) میں کام کرتے ہوئے اسلامی سائنس کے فارمولے نہیں اپنا سکتا اس کے بجائے وہ بوائل لیوائیزائر اور دیگر کیمیا گروں کے اصولوں اور فارمولوں کو ہی آگے بڑھائے گا لیکن اگر ماہرین کیمیا اور طبیعات جو کہ اسلام تناظر جہاں پر یقین رکھتے ہیں اگر وہ خلوص نیت کے ساتھ اسلامی مشاہدہ کائنات اور تناظرجہاں کے مطابق اس سائنس کو ڈھالنے کی کوشش کریں۔ جس طرح سترھویں صدی میں تناظراتی اور فکری تبدیلی (Paradigm) کے ذریعے ایک نئے سیکولر تصورجہاں پر مبنی( عقلیت نوازی تجربیت اور سیکولرازم ) کا ڈھانچہ مسیحی مذہب کے ملبے پر کھڑے ہو کر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس اسلامی تصورجہاں سے اخذشدہ علم کیمیا جس کی بنیاد روایتی اسلامی علم ’الکیمی‘ پر رکھی گئی تھی۔ تاہم اب اس کا جابر بن حیان کے دورکی الکیمی کے ساتھ کوئی مربوط ربط قائم نہیں رہا چنانچہ مسلمانوں کو بھی سترھویں صدی کی طرح تناظراتی مفہوم کو تبدیل کرکے مغربی سائنس کو اسلامی تصورجہاں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اُن جلیل القدر ہستیوں اور علماء و حکماء کے علم پر انحصار کرنا ہوگا جو کہ اسلامی تناظر جہاں اور تصور جہاں سے گہرائی کے ساتھ واقفیت رکھتے تھے اور جدید سائنسز یا علوم کو بھی اعلیٰ ترین سطحوں کے لحاظ سے جانتے تھے اور ان کا سوچنے کا اندازبھی مغربی سیکولر خدوخال اور فلاسفک اصولوں کے انجداب کی وجہ سے کھوکھلا نہیں ہوا تھا۔

جہاں تک اُن اہل علم حضرات کا تعلق ہے جو سائنسدان تو ہیں مگر سائنسی لحاظ سے فعال نہیں ہیں حالانکہ وہ کم از کم اپنے مغربی تصورحیات پر مبنی علم کی حدود کو تو تصوراتی لحاظ سے ہم پر واضح کرسکتے ہیں اور سائنس پرستی (Sciencism) کے خطرات سے ہمیں باخبر کرسکتے ہیں اور جدید سائنس سے اخلاقیات کی دوری کی وجہ سے پیدا ہونے والے فساد کی نشاندہی کرسکتے ہیں ساتھ اس بحران کے حوالے سے ہمیں پیشگی خبرداربھی کرسکتے ہیں جو کہ مغربی سائنس کی اندھی تقلید کے نتیجے میں اور دیگر سائنسی علوم کی شاخوں کے ساتھ اطلاق کی وجہ سے فساد کی صورت میں انسان کے فطرت کے ساتھ تعلق اور خود فطرت کی اندرونی ہم آہنگی کے ضمن میں پیدا ہوسکتا ہے حالانکہ بحیثیت خلیفۃ اللہ اور اشرف المخلوقات ہماری ذمہ داری یہ تھی کہ ہم فطرت کے تمام مظاہر کی تشریح اللہ کی آیات (نشانیوں) کے طور پر کرتے اور اس کی اہمیت ’مادی حقیقت‘ سے پرے ماورائی حقیقت (آخرت) کے لحاظ سے کرتے اور فطری توازن بھی برقرار رکھتے۔ اب یہ کتنا بڑا المیہ اور مخمصہ ہے کہ جب مسلم سیاسی رہنماء رونا رو رہے ہوتے ہیں کہ مسلمان مغربی سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ گئے ہیں بعینہٖ اس وقت مادی ترقی کی اس دوڑ میں اسلامی دنیا کے مسلم ممالک انتہائی بے دردی کے ساتھ قدرتی ماحول کو غیرفطری لحاظ سے تباہ کررہے ہوتے ہیں کیونکہ جدید ٹیکنالوجی سے مزین آلات نے ایسا کرنا نہایت آسان کردیا ہے۔ اس لیے اسلامی تصورجہاں سے مخلص مسلمان سائنسدانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی معاشرے میں بڑے پیمانے پر اُن خطرات کی نشاندہی کریں جو کہ عالمی سطح پر مغربی ٹیکنالوجی کے اطلاق کے نتیجے میں پیدا ہونے کا اندیشہ ہے کیونکہ اس جدید مادی سائنس نے ایک طرف اخلاقی اقدار کو اضافی قرار دے دیاے اور دوسری طرف جدید سائنس نے خدا(اللہ تعالیٰ) کی ذات کو بھلا رکھا ہے۔

دراصل مسلم سائنسدان وہ ہیں جنہیں دوسرے اسلامی مفکرین کے ساتھ مل کر مطالعہ فطرت کے دیگر امکانات کے حوالے سے ذہن کشادگی پیدا کرنے کے لیے کام کرنا ہوتا ہے۔ جن میں بطور خاص اسلامی تناطر جہاں کا احیاء بھی شامل ہے۔ اب جبکہ ہر گزرے دن کے ساتھ متمدن اقوام پر واضح ہورہا ہے کہ جدید سائنس دو دھاری تلوار ہے یہ سائنس جہاں طب کے میدان میں ’معجزات‘ کا ظہور کرواتی ہے وہاں لاکھوں ماں کے پیٹ میں پلے بچوں کی موت کی بھی حمایت کرتی ہے جدید سائنس نے بلاشبہ زراعت کے شعبے میں بہت سی کامیابیاں حاصل کیں ہیں لیکن بالواسطہ یا بلاواسطہ بہت زیادہ کھانے والے بھی پیدا کیے ہیں۔ جدید سائنس نے جہاں مغربی شہروں کے ذریعے پانی کو صاف کیا ہے وہاں ہوا کو آلودہ بھی کیا ہے اور یہ آلودگی کے پھیلاؤ کا عمل متوازن بھی نہیں ہے۔ اگر غیرمتوازن طریقے سے آلودگی کا یہ پھیلاؤ چلتا رہا تو پھر اگلی صدی تک کوئی انسان اس زمین پر ایسا نہیں بچے گا جو کہ مغربی سائنس کے فضائل بیان کرتا پھرے اور مغربی سائنس کی ثناخوانی کرتار ہے۔ یہی بات سائنس کی طرف سے انسانی آبادی پر نیوکلیئر بم استعمال کرنے کے حوالے سے بھی کی جاسکتی ہے۔

جدید سائنس سے جڑے سائنسی فلسفے میں اُن انسانی خواہشات کو قابو کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا جا سکا ہے جسے قرآن مجید میں نفس امارہ کہا گیا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اگر اس سیکولر سائنسی فلسفے پر ایستادہ جدید مغربی سائنس کو محض ’پرامن‘ مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا جس کا سائنس پرستوں کی طرف سے شور مچایا جاتا ہے تب بھی یہ جدید سائنس انسانی لالچ اور ہوس میں اضافے کا مؤجب بنتی رہے گی اور قدرتی ماحول اور خدا کی تخلیقات کے مابین تناؤ بھری اور ایک نہ ختم ہونے والی جنگی کیفیت طاری رہے گی۔ حالانکہ اسی قدرتی ماحول کی توازن کی حالت میں قیام ہی ہمارے وجود کی بقا کے لیے ناگزیر ہے اور یہی چیز ہمیں بحیثیت انسان ہمارے لیے ممکن بناتی ہے۔

4

۔ ایک اور اہم مرحلہ روایتی اسلامی علوم سائنسز کی ممکنہ حد تک بحالی کا بھی ہے۔ خاص طور پر طب دوا شناسی زراعت اور فن تعمیر جیسے شعبہءجات کو اسلامی تناظر جہاں کے مطابق بحال لازماً کروانا چاہیے۔ لازما ان شعبہ جات کی بحالی سے نہ صرف مسلمانوں میں اُن کی اپنی ثقافت کے حوالے سے اعتماد پیدا ہوگا بلکہ اس عمل کے نہایت مثبت نوعیت کے معاشرتی اور معاشی اثرات بھی مرتب ہوں گے اور مغربی سائنس کی طرف سے واحد قابل الحصول اور دستیاب ’حل‘ ہونے کا دعویٰ بھی کسی حد تک غلط ثابت ہوجائے گا۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں بھی غیر مزاحمتی انداز کا فن طب اور دواشناسی کا علم فروغ پا رہا ہے جس میں آکوپنکچر اور ٓایووادیک (Ayurvedic) ادویات کا علم شامل ہے لیکن یہ حقیقت کس قدر المناک ہے کہ اسلامی ادویات جو کہ دنیابھر میں طبی علوم میں نئے رجحانات جنم دے رہی ہیں خود مسلم ممالک میں ناپید ہیں۔ اس پہ متضاد یہ کہ مسلم ممالک کے اکثریتی ماہرین طب روایتی طریقہء علاج کا مذاق اڑاتے اور اس کی توہین کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ تاہم ان مخصوص حقائق سے ہمیشہ پیچھا نہیں چھڑایا جاسکتا ہے۔ لہٰذا کم از کم مسلم ممالک میں اسلامی ادویات کی تنظیم سازی کے رجحان کو ضرور فروغ دینا چاہیے جیسے حکیم محمد سعید شہید نے اس سلسلے میں انقلابی اقدام کرتے ہوئے المدینہ حکمۃ (حکمت کاشہر) قائم کرنے کی کوشش کی جس کے مقاصد میں بنیادی طور سے اسلامی طریقہء تشخص و علاج کی بحالی تھا لیکن افسوس کہ اُن کی شہادت کے بعد یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکام لیکن بہرحال اب بھی کراچی اور دہلی میں ہمدرد کے ادارے بھرپور انداز سے کام کررہے ہیں۔ وہ دیگر مسلم ممالک کے لیے ایک رول ماڈل (تقلیدی نمونے) کی حیثیت سے کام کرسکتے ہیں کیونکہ شاید ہی کوئی اس مقصد کی افادیت سے انکار کرسکے اور یوں بھی روایتی علوم کے ماہرین اور اور جدید سائنس کے ماہرین کے مابین مثبت رابطے کی سبیل نکلے گی جو کہ بالآخر اسلامی تناظر جہاں اور روایتی اسلامی علوم کی فعالیت میں مربوط کردار ادا کرے گی۔

5۔ ایک نہایت اہم مرحلہ کلی طور پر اسلامی علوم کو اخلاقیات (Ethics) کے ساتھ دوبارہ مربوط ربط کے ساتھ جوڑنا ہے لیکن یہ مربوط ربط اور انضمام محض سائنسدانوں کے شخصی کردار کے لحاظ سے نہیں ہوگا بلکہ ان علوم کے تصوراتی ڈھانچوں اور فلاسفک بنیادوں کے قیام کے ذریعے ہوگا۔ ہم جانتے ہیں کہ جدید سائنس اور اخلاقیات کے درمیان کوئی منطقی ربط موجود نہیں ہے کیونکہ نشاۃ ثانیہ سے پہلے کی اخلاقیات جو کہ بیشتر مسیحی مذہب پر قائم تھیں اور جن تناظر جہاں کو آباد کرتی ہے اسے جدید سائنس نے کونے کھدرے میں پھینک دیا ہے۔ یوں اب سائنسی اخلاقیات انسان پرستی (Humanism) پر مبنی ایک لگاتار تغیر پذیر انسانی فطرت پر ٹکی ہے۔ چنانچہ اگر قابل مشاہدہ متبادل اخلاقی نظام کی بات کی جائے تب سیکولر مغرب تاحال کوئی واضح نمونہ اخلاقیات کے حوالے سے پیش نہیں کر سکا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ حالیہ موسمیاتی عالمگیر گرماؤ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ماحولیاتی بحران کو بھی اس اخلاقی بحران کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ جس میں تمام تر کوششیں ایسی ماحولیاتی اخلاقیات وضع اور اطلاق کرنے میں صرف ہورہیں ہیں جن کا لازمی نتیجہ مسلسل قدرتی ماحول کی تباہی کے تسلسل کی صورت میں نکلے گا۔ اس لیے ہمیں جلد از جلد ایسے آفاقی علم کی ضرورت رہے گی جو کہ اپنے مزاج میں احتجاجی ہو اور اخلاقی اقدار کے ساتھ کائنات کے حوالے سے اُسی رویے کا حامی ہو جو کہ تمام تہذیبوں نے اپنے اپنے مذاہب سے اخذ کیں ہیں۔ بلاشبہ اب یہ مسلم متکلمین فیلسوف ماہر اخلاقیات (درسیات) کے ذمے کام ہےن جس میں لازماً سائنسدانوں کا بھی مشترکہ کردار ہے۔ یہ سچ ہے کہ کوئی بھی ٹھوس ثقہ اور معتبر اسلامی سائنس اس وقت تک نہیں تخلیق پاسکتی جب تک وہ اسلامی تصور اخلاق اور فلاسفی کے ساتھ جڑی ہوئی نہ ہو بلکہ اس سائنس کے استعمال کنندگان یعنی سائنسدان بظاہر شخصی لحاظ سے اخلاقی ہوں یا غیراخلاقی ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اُن کی اخلاقیات کا گہرا تعلق اپنائے گئے اخلاقی رویے کے ساتھ مشروط ہے۔ یہ مسائل اپنے حل کے لیے متحرک ردعمل تسلسل کے ساتھ چاہتے ہیں یوں یہ اور اس سے ملتے جلتے سوالات سریع حل کے متقاضی ہوتے ہیں جیسے بائیومیڈیسن انجینئرنگ میں ہونے والی تمام نئی تحقیقات زیادہ سرعت آمیز ردعمل کی متقاضی ہوتیں ہیں۔ بہرحال جدید جیو میڈیسن اور بائیو انجینئرنگ کی تحقیقات تمام الہامی مذاہب کی اخلاقی عمارات کی جڑوں کو کھوکھلا کررہیں ہیں چاہے وہ مذہب اسلام ہو یا پھر کسی اور مذہبی روایت کے ساتھ جڑے ہوئے اخلاقیات کے فلسفے ہوں۔

جدید مغربی ٹیکنالوجی: اہم نقاط:


بظاہر ٹیکنالوجی کا براہ راست تعلق جدید سائنس کی اطلاقی جہتوں کے ساتھ ہے۔ تاھم اس ٹیکنالوجی نے اپنی نوعیت کے فلاسفک نفسیاتی مذہبی معاشرتی اور معاشی مسائل پیدا کیے ہیں اس لیے اسے خالص سائنس سے الگ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ خالص سائنس کے بجائے یہ ٹیکنالوجی ہی ہے جس کے بل بوتے پر مغرب عالمی سطح پر غلبے کے قابل ہوا ہے اور یہ مادی طاقت ہی ہے جو کہ اس ٹیکنالوجی کے اندر چھپی ہوئی ہے۔ یہی طاقت جہاں ایک طرف کسی انسان کو بااختیار بناتی ہے مگر دوسری طرف محکوم اقوام کو مزید لاچار بھی کرتی ہے۔طاقت اور دولت کے حصول کے لیے اس وقت بھی بہت سی مسلم حکومتیں ٹیکنالوجی میں دلچسپی رکھتیں ہیں لیکن اگر کوئی مسلم حکومت ٹیکنالوجی کی اس دوڑ میں ہم ایک لمحے کے لیے فرض بھی کرلیں کہ موجودہ مغربی ٹیکنالوجی کی سطح تک پہنچ بھی جائے تو کیا مغرب اُس وقت تک ٹیکنالوجی کی کسی خاص ساکن حالت پر اکتفا کیے بیٹھا رہے گا؟ یقینا نہیں تب بھی درحقیقت مغرب کی اندھادھند نقالی کے ضمن میں مسلم ممالک خود کو مغرب کا اور زیادہ دست نگر کرلیں گے۔

یہ کشمکش جو کہ مسلمانوں کے دل و دماغ میں برپا ہے یہ یقینا اس لیے بھی تکلیف دہ ہے کیونکہ اس کے اپنے مخصوص سیاسی اور معاشی نتائج ہیں۔ مثلاً عراق کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ عراق کی ایک لڑائی میں مغرب کی کثیر القومی اسلحہ ساز کمپنیوں نے دولت کے انبار پیدا کیے یہ اتنی زیادہ دولت ہے کہ ایک اندازے کے مطابق یہ دولت قاہرہ شہر کے حجم کے برابر تمام پرانی عمارات کی مرمت اور نگہداشت کے لیے کافی ہوسکتی تھی۔ لیکن یہ ہی المیہ ہے کہ مسلمانوں کے مابین نہ صرف اتحاد کافقدان ہے بلکہ حد سے زیادہ مغربی ٹیکنالوجی پر ایمان (ایقان) اور انحصار ہے۔ یہ محکومی عسکری اسلحہ کے لحاظ سے بھی ہے اور اس میں ادویات سازی سے لے کر نیوکلیئر توانائی تک شامل ہے۔ مسلم ممالک محض جدید ٹیکنالوجی کے نام پر وہ تمام کچھ وصول کررہے ہیں جو کہ مغرب انہیں بیچنا چاہتا ہے۔ اس میں استعمال شدہ ادویات اور دیگر مسترد شدہ ٹیکنالوجیز (آلات) بھی شامل ہیں۔ لہذا مسلم ممالک محض وصول کنندہ ہیں حالانکہ ان میں سے اکثر اشیاء (ٹیکنالوجیز) کو خود مغربی معاشروں میں سیاسی و طبی وجوہات کی وجہ سے مسترد کردیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مسلم ممالک کا مغرب پر اُس حد سے زیادہ انحصار اب ہے جتنا کہ پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبہ جات کا پچھلی صدی میں تاج برطانیہ کے براہ راست غلبے کے خلاف لڑائی کے کرتے وقت تھا۔

اس لیے سائنسی شعبہ جات اور ٹیکنیکی حوالوں سے مغرب کا دست نگر بننے کے بجائے اسلامی تصورجہاں کے مطابق تکنیکی فنون کو پروان چڑھانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان اہم عوامل اور حدود و قیود کا تعین بھی لازماً کرنا چاہیے جس کے تحت کسی بھی ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جانا ہے۔ سو اخلاقیات کا براہ راست فطری تعلق جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ دوبارہ قائم کرنا چاہیے۔ ٹیکنالوجی کی بنیاد پر قائم شدہ معیشت کا براہ راست تعلق اخلاقیات کے ساتھ جوڑنا چاہیے کیونکہ اسلام کی اخلاقیات کے بغیر معیشت سے زیادہ اسلام مخالف چیز اور کوئی نہیں ہے۔ اسلام میں معیشت کا براہ راست تعلق ’شریعت‘ کے ساتھ ہے۔ اس لیے ہمیں ٹیکنالوجی کے سارے معاملے کو اسلامی تصورجہاں سے اخذ شدہ روحانی اصولوں کے تناظر میں تنقیدی فکر کے ساتھ پیش کرنا چاہیے۔

دراصل مغربی ٹیکنالوجی کے اسلامی نقاد مغرب میں موجود اُن گراں قدر لوگوں کی طرح ہیں جنہوں نے جدید ٹیکنالوجی کے اندر چھپے انسان مخالف اثرات کا انتہائی گہرائی کے ساتھ ادراک کرلیا ہے۔ ان بڑے ناموں میں لولئیس ممفورڈ ہیڈیگر ایون الچ اور تھیوڈور روزک کے نام شامل ہیں۔ لیکن یہ نہایت افسوس ناک بات ہے کہ جب اس طرح کی تنقیدی آوازیں ٹھوس دلائل کے ساتھ مسلم ممالک میں اٹھائیں جاتی ہیں تب بمشکل ان پر کان دھرا جاتا ہے۔ لہٰذا اس بحرانی کیفیت اورجدید ٹیکنالوجی کا ازسرنو جائزہ اس اصول کی بنیاد پر لیا جانا چاہیے کہ ٹیکنالوجی کے انتخاب میں معاشرتی لحاظ سےبکم درجے کی برائی پھیلانے والے ٹیکنیکی آلات اور ماحولیاتی لحاظ سے کم نقصان دہ فنی مہارتوں کو فروغ دیا جائے۔

بہرحال ہمیں اس عبوری دور میں اُن تمام choices کو اپنانا ہے جو کہ اسلام کے معاشرتی اور انفرادی زندگی کے مراتبی نظام کو کم سے کم تر نقصان پہنچانے والی ہوں اور اس کے ساتھ ماحول دوست بھی ہوں۔ اس لیے جہاں تک ہوسکے زراعت سے لے کر فن تعمیر جیسے اہم شعبہ جات تک مسلمانوں کو ان روایتی تکنیکس اور فنون جو کہ زیادہ تر سستے اور ثقافتی لحاظ سے اسلامی تصور جہاں کے قریب ہیں’ کو بحال کرنا اور محفوظ بنانا چاہیے اور یہ کام بلاجھجک اور بغیر کسی شرم کے سرانجام دینا چاہیے۔ کیونکہ خدانخواستہ اگر یہ نہ کیا گیا اور جدید تکنیکی یلغار اسی طرح جاری رہی تو پھر اس زمین پر انسانی حیات اور قیام ہی بہت جلد ناممکن ہوکر رہ جائے گان لہٰذا ماحول دوست اور متبادل ٹیکنالوجیز کی کھوج پر کام شروع کر دینا چاہیے۔ جیسا کہ شمسی توانائی سے بجلی کا حصول وغیرہ ہمیں اُس دن کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ جب مغرب ان شمسی سیلوں کو مسلم ممالک میں ہزاروں اور لاکھوں ڈالرز کے عوض فروخت کرنا شروع کردیں وگرنہ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ ان مشکل اور ہرجائی حالات میں مغربی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسی تنظیموں نے ایسے منصوبوں اور پالیسیوں کو فروغ دیا ہے جنہوں نے فضا میں اوزون کی سطح اور ایمیزون کے برساتی جنگلات کو نقصان پہنچایا۔ لہٰذا اس کے سدباب میں مسلمانوں کو اپنی توجہ ’امانت‘ کے اسلامی تصور پر مرکوز کرنی چاہیے۔ جس کے تحت خلیفۃ اللہ اور اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے اسلام نے تمام انسانوں پر اخلاقی ذمہ داریاں عائد کیں ہیںن جس کے تحت نہ صرف بنی نوع انسان بلکہ کلی طور پر زمین پر قائم شدہ توازن (قرآنی اصطلاح میں ’اصلاح‘ کو برقرار رکھنا ہے۔ مزید یہ کہ ہمیں اس ضمن میں مغرب کی اندھا دھند نقل اور فوری ہوس پر مبنی مادی فائدے اٹھانے کی عمومی سوچ کو محدود کرنا ہے کیونکہ دورحاضر میں ہوس کے مارے ہوئے چند مالداروں (سرمایہ داروں) کی بے ہنگم لالچ ہوس ہی ہے جس نے اس ساری بحث پر تاریکی کے سائے ڈال رکھے ہیں یوں حقیقت تک رسائی اور بھی مشکل ہوگئی ہے۔

٭

اختتامیہ

:

نتیجتاً یہ کہا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی سائنس (علم جمع علوم) اسلامی کہلائی جاسکتی ہے اگر وہ مجموعی طور پر کلیتاً اسلامی نظم کو نقصان نہ پہنچائے اور اس کائنات اور ہماری دنیا میں موجود تمام اشیاء کے حوالے سے خدا کے ساتھ ایک عمودی علت (Vertical Cause) اور آفاقی تعلق ہمارے شعور (دل و دماغ) میں بحال رکھےن لیکن اللہ کے ساتھ اس متبرک عمودی تعلق کے ساتھ ساتھ اشیاء اور افراد کے ساتھ جائز حدود پر مبنی اور انصاف (عدل) کے مقام پر افقی تعلق (Horizontal Relation) کو بھی برقرار رکھے تاکہ دنیاوی سطح پر اشیاء کی تفہیم اور برتاؤ آسانی سے سمجھا جاسکے کیونکہ اسلامی سائنس ایسی سائنس ہوتی ہے جو الحق پر مبنی حقیقت ‘صداقت’ سے اپنے علم کا آغاز کرتی ہے اور دوبارہ اُس ابدی حقیقت (اللہ) کی طرف لوٹ جاتی ہے جو کہ تمام اشیاء (چیزوں) کی سب سے بڑی مقصدی علت و مبدا ء ہے/ اسی قسم کی سائنس )ایک ہزار سال پہلے مسلمانوں کی طرف سے دنیا کے سامنے پیش کی گئی تھی۔ لہٰذا اسے دوبارہ زندہ کرنے کے لیے اسلامی سائنسی فلسفے (فکر) اور اسلامی تصورجہاں تناظر حیات و ممات اور مشاہدہ کائنات (World View) کی تشکیل نو ایسی زبان میں کرنے کی ضرورت ہے جو کہ دورحاضر کے لوگوں کے لیے قابل فہم ہو تاکہ اس کی روشنی میں جدید سائنس پر ٹھوس تنقیدی علم کی بنیاد ڈالی جاسکے۔ یقینا اس طرح اسلامی سائنس کی تاریخ میں نیا باب رقم کیا جاسکے گا۔ جس سے ایک طرف معتبر اسلامی سائنس کو روایتی اسلامی سائنس کی بنیادوں پر تخلیق کیا جائے گا تو دوسری طرف مغربی سائنس سے اُن عناصر کے بامعنی انجداب کو بھی ممکن بنایا جائے گا جو کہ کسی حد تک ’حقیقت‘کی تشریح کرتے ہیں۔ یہ بظاہر چھوٹا قدم بذات خود ایک معتبر اور اصیل (ثقہ) اسلامی تہذیب کی بحالی کی طرف ایک زبردست چھلانگ ہوگی کیونکہ اس سائنس کے تحت مذہب سائنس فلسفے اور علوم عرفانی کے مابین تقسیم اور اختلاف کو قبول کرنے سے انکار کیا جائے گا۔ یوں یہ اقدام خود انتہائی گہرائی کے ساتھ انسانیت اور انسانی زندگیوں پر مثبت اور خوشگوار اثرات مرتب کرے گا۔ جو کہ اس وقت جدید مغربی انسان کی طرف سے خدا سے غفلت پر مبنی تخلیق کردہ سائنس کے اطلاق کی وجہ سے موت کے دروازے پر کھڑی ہے۔ یوں غفلت کا مارا ہوا جدید باغی انسان خلیفۃ اللہ (نائب خدا) کی حیثیت سے مخلوقِ خدا کی نگہبانی کے فریضے کی طرف سے غافل ہوگیا ہے۔ اس لیے سب سے بزرگ و برتر علیم ہستی کی طرف سے بھیجے گئے علم سے فکری توانائی کا حصول کرتے ہوئے ایسے تصورجہاں تخلیق کرنے والا علم جس میں روحانیت اور اخلاقیات محض علیحدہ علیحدہ بےروح فلسفوں کی حیثیت سے پیش نہ کیے جارہے ہوں بلکہ جو علم ماورائی حقیقت (عالم غیب) پر مبنی کائناتی سچائیوں کے بنیادی عوامل کی وضاحت کرنے والا ہو وہی علم ہی انسانیت کو اجتماعی خودکشی سے بچا سکتا ہے۔ جس کی طرف انسان بحیثیت فرد اور اجتماعیت اجتماعی طور پر اقوام عالم مادی ترقی (Progress) کے خیالی دھوکے پر بڑھتی چلی جارہی ہیں۔

آئیے امید کرتے ہیں کہ انسانی تاریخ کی ان تاریک گھڑیوں میں بھی اسلامی دنیا اللہ تعالیٰ کی آخری وحی اور پیغام کے پیغامبر کی حیثیت سے ایک ایسی مطلق اور کلی اسلامی سائنس کی تخلیق میں اپنا کردار ادا کرے گی جس کے ذریعے سے نہ صرف اس اسلامی تہذیب کو دوبارہ زندہ کیا جاسکے گا۔ جو ہزار سال پہلے ہمارے معاشروں کا جیتا جاگتا حصہ تھی بلکہ ایسی فطری (اسلامی) سائنس اور ٹیکنالوجی بنی نوع انسان (مردوعورت) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اصلاح شدہ ماحول کے ساتھ توازن اور ہم آہنگی کی حالت میں اس دنیاوی عارضی قیام کو ممکن اور سہل بنائے گی۔ سب سے بڑھ کر توحید وحدانیت اور تصور حقیقت ‘صداقت’ پر مبنی ’’الحق‘‘ کے ساتھ خود کو منسلک کرسکے گی جو کہ کائنات اور انسان دونوں کے حقیقی علم کا مبدّا ہے۔

تحریر سید حسین نصر، ترجمہ اطہر وقار عظیم