علمِ منطق کا لغوی معنی ہے گفتگو کرنا جبکہ اصطلاح میں اس کی تعریف ہے ایسے قوانین کا جاننا جن کا لحاظ ذہن کو فکر میں غلطی سے بچالے۔ مختصر یہ کہ منطق وہ علم ہے جس میں صحیح فکر کے لیے لازم قوانین کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ جب ہم کسی مسئلے یا دعوی کو ثابت کرنے کے لیے استدلال پیش کرتے ہیں تو اس کے متعلق غور و فکر کرتے ہیں اور منطق کا تعلق غور و فکر سے ہے یعنی منطق کا موضوع غور و فکر ہے۔
منطق کا مقصد طرزِ فکر کا صحیح ہونا ہے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ تصورات اور تصدیقات کو حاصل کرنے کے لیے فکر کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر فکر درست نہیں ہوتی بلکہ فکر میں بھی غلطی واقع ہوجاتی ہے اس غلطی سے بچنا ضروری ہے اور غلطی سے ہم اس وقت بچ سکیں گے جب ہمیں فکر کے قوانین کا علم ہو اور یہی فکر کے قوانین غلطی کی نشاندہی کرتے ہیں ایسے قوانین ہمیں علم منطق سمجھنے سے حاصل ہوں گے لہذا فکر کی غلطی سے بچنے کے لیے علم منطق کو جاننا ضروری ہے۔
اس علم کی ابتداء تخلیق انسانیت سے آج تک مسلسل چلی آرہی ہے۔ یعنی جب سے انسان نے شعور کے مدارج طے کیے ہیں اس میں علمِ منطق سے کسی نہ کسی طرح اور کسی نہ کسی درجے میں بدیہی طور پر آشنائی موجود ہے۔ ایک عام آدمی بھی اپنے اندر سوالات اور ان کے جوابات دینے کی صلاحیت کسی نہ کسی درجے میں رکھتا ہے اور وہ علمِ منطق کی دقیق معلومات کے بغیر بھی اپنی روز مرہ زندگی میں اس علم کا اطلاق مسلسل کرتا ہے۔ مثلاً: فلاں بات سچ ہے یا جھوٹ؟ اگر سچ ہے تو کیوں؟ جھوٹ ہے تو کیوں جھوٹ ہے؟ فلاں کام اچھا ہے یا برا؟ یا کسی کی ہچکچاہٹ کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا کہ فلاں شخص جھوٹ بول رہا ہے۔ کسی کے لہجے سے یہ اندازہ کرنا کہ وہ شخص آپ کی بات میں دلچسپی نہیں لے رہا یا وہ آپ سے غصہ یا ناراضی سے بات کر رہا ہے۔ یہ سب منطق ہے لیکن یہ منطق کی ایسی صورتیں ہیں جو بدیہی اور غیر شعوری طور پر انسان میں موجود ہوتی ہیں۔ لیکن جب معاملہ تھوڑا پیچیدہ ہو تو پھر ہر انسان میں ایسے منطقی معموں کو حل کرنے کی استعداد نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں قوانین و ضوابط کے تحت معاملات کو حل کرنا پڑتا ہے ورنہ انسان غلط قضایا سے مطلوب نتائج، صحیح قضایا سے غلط استدلال اور غلط دلائل سے غلط نتائج اور غیر منطقی سوالات کی الجھن میں پھنسا رہتا ہے۔ وہ ایسے سوالات کا جواب نہیں دے پاتا۔
اسی وجہ سے منطق کے اصول و ضوابط کی باقاعدہ تدوین کی ضرورت پیش آئی۔
جو کچھ ہمیں معلوم ہے اس کے مطابق اس علم کا استعمال سب سے پہلے حضرت ادریس علیہ السلام نے معجزے کے طور پر کیا اور مخالفین کو خاموش اور عاجز کردیا۔ اس کے بعد حکیم افلاطون نے منطق کو وضع کیا، لیکن یہ تدوین مکمل نہیں تھی اس لیے حکیم افلاطون کو اس علم کا معلم اول نہیں کہہ سکتے۔
اس کے بعد ارسطو نے اپنے استاد اسکندر رومی کے حکم پر علم منطق کی تدوین کی اور معلم اول کا لقب پایا۔
اس کے بعد ابو نصر فارابی نے شاہ منصور کے حکم پر علم منطق کو مدون کیا اور یونانی زبان سے عربی زبان میں ترجمہ کرکے منتقل کردیا ۔فارابی کا علوم فلسفہ میں وسیع اور گہرا مطالعہ تھا ایک سو گیارہ کتابوں کے مصنف تھے۔ فارابی کو معلم ثانی کہا جاتا ہے۔
اس کے بعد ابو علی حسین بن عبداللہ بن سینا البخاری جن کو شیخ رئیس کہتے ہیں نے اس علم کو مزید وسعت دی اور آسان کرکے پیش کیا اور یہ کام انہوں نے سلطان مسعود کے حکم سے کیا۔ سینا کو معلم ثالث کہا جاتا ہے۔
ابونصر فارابی نے منطق کو “رئیس العلوم “کہا ہے۔
ابوعلی سینا نے منطق کو “خادم العلوم “کہا ہے۔
امام غزالی رحمہ اللہ نے فرمایا:”کہ جو شخص علم منطق سے اچھی طرح واقف نہ ہو اس کا علوم میں اعتماد نہیں ہے ۔علم منطق کو سمجھے بغیر “علم کلام “فلسفہ “اصول فقہ “اور دیگر علوم کی کتابوں کو سمجھنا قدرے مشکل ہوجاتا ہے۔
قاضی ثناء للہ پانی پتی نے فرمایا :”علم منطق جوتمام علوم کا خادم ہے ،اس کا پڑھنا مفید ہے۔
مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا:”منطق وفلسفہ کی تعلیم سے ذہن وفکر کو جلا ملتی ہے اور ذہن مرتب طریقے سے سوچنے کا عادی بن جاتا ہے ،اور یہ تفسیر ،حدیث وفقہ کے مسائل کو سمجھنے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔
ابوالحسن ندوی رحمہ اللہ نے فرمایا:”منطق ایک طرح کی ورزش اور دماغی ریاضت ہے ۔علم منطق شریعت کی نظر میں کوئی بھی علم کسی بھی زبان وقوم سے تعلق رکھتا ہو،اس کا سیکھنا مباح بسا اوقات ضروری بھی ہوجاتا ہے ۔عقلی طور پر یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ قر آنی آیات اور احادیث سے استدلال کرکے اللہ تعالی کی ذات اور اس کی صفات کی معرفت حاصل کرنا واجب ہے ،اب اللہ کی ذات اور اس کی صفات کی معرفت کا حصول علم منطق پر موقوف ہے ،لہذا منطق کا سیکھنا ضروری ہوا۔
حضرت امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ “منطق میں دلائل اور براہیں اور تعریفات وحدود کے شرائط واسباب اور علل سے بحث ہوتی ہے اور ان چیزوں کی معرفت واجب علی الکفایہ ہے لہذا منطق کا سیکھنا بھی واجب علی الکفایہ ہوگا۔ اور اس منطق کو سیکھنے کی ممانعت ہے جس میں معتزلہ ودیگر گمراہ فرقوں کے بے فائدہ شبہات و فضولیات ہیں۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ منطق کی مثال تلوار و بندوق کی ہے، اگر تلوار وبندوق خریدنے کا مقصد ناحق قتل کرنا، اور رہزنی وغارتگری، وغیرہ ہے تو نا جائز ہے اسی طرح اگرعلم منطق کا مقصد دین اسلام کے مقرر کردہ اصول و ضوابط کو مسترد کرنا اور غلط ثابت کرنا ہو تو سیکھنا ناجائز ہے ورنہ جائز ہے بلکہ ضروری ہے۔ مقصد یہ کہ اگر کوئی منطق و فلسفہ کے زور پر عقائد کو پرکھے اور نصوص میں تصرف کا قائل ہوجائے (جیسا کہ معتزلین کا رویہ تھا) تو اس کے لیے منطق و فلسفہ سراسر گمراہی ہے۔
نوٹ: اس علم کو” علم میزان” (ترازو) بھی کہتے ہیں کیونکہ اس علم کے ذریعے عقل، صحیح اور غلط فکروں میں موازنہ کرتی ہے۔ اسی طرح اس علم کو” علم آلی” بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ دوسرے علوم کوحاصل کرنےاور سیکھنے کیلئے آلہ(ذریعہ) کی حیثیت رکھتاہے۔ فائدہ: علم منطق کا کام یہ دیکھنا ہے کہ ہمیں کس طرح سوچنا چاہیے، ہمارا طریق استدلال کیسا ہونا چاہیے، صحیح طرز استدلال کیا ہے، غلط طرز استدلال کیسا ہوتا ہے، صحیح غوروفکر کرنے کے بنیادی اصول، قوانین، کونسے ہیں۔
ڈاکٹر مزمل شیخ بسمل