اسلام سائنس اورمسلمان- سیدحسین نصرسےگفتگو[2]

حصہ اول

جدید مغربی چیلنجز-مسلم دنیا کیاکرسکتی ہے ؟:

مظفر: میرے خیال میں یہ مسئلہ اب بہت زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ اس لیے کہ مغرب نے اپنی سائنسی دریافتوں کا رُخ جارحیت کی ٹکنالوجیوں کی طرف کردیا ہے اور پھر ان جارحیت کی ٹکنالوجیوں کو مسلم ممالک کو مفتوح کرنے اور اُن کے اداروں کو تباہ کرنے کے لیے وقف کردیا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے مسلمان مصلحین جن کا پہلے ذکر کرچکا ہوں بڑی سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اُن پر قبضہ جدید سائنس ہی نے کیا ہے اور اب اُن کی نجات مغربی سائنس ہی کو اختیار کرنے میں ہے۔ لیکن میرا سوال قائم ہے کہ موجودہ صورتِ حال سے بحفاظت نکل آنے کی کیا راہ ہے؟ کیا طریقہ ہے؟ کیا علاج ہے؟ آپ نے صرف طب کی مثال دی ہے لیکن دوسرے علوم بھی ہیں، طبیعات ہے، کیمیا ہے، یہ سب ٹکنالوجیوں کی ترقی میں اور بعدازاں معاشی ترقی میں ممددومعاون ثابت ہوتے ہیں۔ یہ ٹکنالوجیاں اسلحہ سازی میں بھی استعمال ہوتی ہیں اور یوں باقی دنیا پر غلبہ پانے کا اہم ذریعہ ہیں۔ یہ ٹکنالوجیاں، یہ اسلحہ، یہ سب کچھ جدید دنیا کے لوازم ہیں۔ کیا مسلم دنیا اپنے علمی و عملی فقدان کے باعث اس صورتِ حال سے نبردآزما ہوسکتی ہے تو کیونکر؟


نص

ر


: آپ کا سوال گہرا ہے۔ مذہبی اور فلسفیانہ نقطۂ نظر سے آپ کے سوال کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ میں جدید سائنس کو گوئٹے کی دانش کے حوالے سے، فائوسٹی یعنی شیطانی سائنس کہا کرتا ہوں۔ یعنی جدید سائنس نتیجہ ہے اپنی رُوح کو شیطان کے پاس گروی رکھ دینے کا۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس نے مغرب میں عیسائیت کے تصورِ کائنات کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے، بلکہ اسے عیسائیت کے لیے بربادی کا پیش خیمہ بنا دیا ہے اور اگرچہ سائنس مذہبی معاملات میں بظاہر غیر جانبدار نظر آتی ہے لیکن درحقیقت یہ غیرجانبدار ہے نہیں بلکہ بجائے خود ایک طرح کا فلسفہ بن کر بیٹھ گئی ہے۔ سائنس پرستی کا فلسفہ مغربی تصورِ کائنات پر چھا گیا ہے اور ٹکنالوجی کی صورت میں اس کا اطلاق (چند کامیابیوں کے باوصف) پوری دنیا کو تباہ کردیا ہے۔ ماحولیات کو اور زندگی کے ہر شعبے کو تباہ کررہا ہے۔ ایسے حالات میں دنیائے اسلام کے سوچنے کی بات ہے کہ کیا وہ مغرب کی طرح شیطان کے پاس اپنی رُوح گروی رکھنے کے سودے کے بغیر ویسی ہی طاقت حاصل کرسکتی ہے جیسی مغرب نے حاصل کی ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو یہ اُس کی خام خیالی ہے۔ میں نہیں مانتا کہ ایسا کبھی ہوسکتا ہے۔ کسی محیّرالعقول قوت کا حصول جیسے ایٹم بم، جو مغرب کے ایٹم بموں کا جواب ثابت ہوسکے یا لیزرگائیڈڈ میزائل جو مغرب کے لیزرگائیڈڈ میزائل کا مقابلہ کرسکیں اور پھر اوپر سے یہ نعرہ لگانا کہ یہ ہے اسلامی بم،ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ یہ محض ہماری خوش فہمی ہے۔ علاوہ ازیں ایسے تباہ کن ہتھیار بنانا رُوحِ اسلام کے بھی خلاف ہے کیونکہ جدید سائنس کا یہ پورا کارخانہ قدرت میں موجود روحانی جہات کو فراموش کردینے کے مترادف ہے۔ یعنی قدرت سے خدا کا انقطاع۔ ایسے میں کوئی سائنس داں انفرادی طور پر وہ خواہ کتنا ہی متقی اور خدا پرست ہو روحانی کیفیت اُس کے کسی بھی حساب کتاب اور مشاہدے میں نہیں آسکتی۔ لہٰذا یہ سوچنا غیر ضروری ہے کہ جدید سائنس داں دنیائے فطرت کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دنیائے فطرت کا مطالعہ آج ذاتِ باری تعالیٰ سے بے نیاز ہوکر خالص تجرید کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ آج سائنس کے میدان میں اب کسی کو مابعدالطبیعیات سے سروکار نہیں رہا۔ البتہ ایسا یقینا ہوسکتا ہے کہ کچھ سائنس دان ذاتِ باری تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوں اور نجی زندگی میں نیک، سچے اور صالح ہوں۔ مگر یہ بات ہمارے موضوع اور استدلال سے تعلق نہیں رکھتی۔ آپ کسی ایسے ماہر طبیعیات کا نام لے سکتے ہیں جو ملحد ہو اور ایسے بھی کسی ماہر طبیعیات کو جانتے ہوں جو کٹرعیسائی ہو اور وہ دونوں طبیعیات کے نوبل پرائز میں برابر کے شریک ہوں۔ وہ صاحبِ ایمان ہیں یا ملحد ہیں اس کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں۔ سائنس تو صرف اتنا دیکھے گی کہ وہ سائنس کی جدید تفہیم کے مطابق کام کررہے ہیں یا نہیں۔

آپ نے جو نکتہ اُٹھایا ہے ہم کیا کرسکتے ہیں۔ مسلم دنیا کیاکرسکتی ہے؟ میرا نہیں خیال کہ طاقت کے تمام ذرائع یعنی ٹکنالوجی پر مکمل دسترس حاصل کرکے ہم مسلمان بھی رہ سکتے ہیں اور مکمل طور پر خودمختار بھی۔ ہم اس طریقے سے خودمختاری حاصل نہیں کرسکتے۔ جاپان دوسری عالمی جنگ میں شکست کھا گیا۔ اگر وہ جنگ میں نہ کودتا تو آج وہ دنیا کی بڑی فوجی طاقتوں میں سے ایک ہوتا لیکن کس قیمت پر؟ آج پچاس سال بعد جاپان کی صورتِ حال کیا ہے؟ وہاں بدھ مت کو کیا ہوا؟ جاپان کی مذہبی روایات کو کس کی نظر کھا گئی؟ الحاد اور لاادریت بعد کی نسلوں میں جس طرح پھیلے ہیں سب کو معلوم ہے۔ یہی قصہ چین کا ہے جو دنیا کی بڑی طاقت بن سکتا ہے لیکن وہاں قدیم کنفیوشش کا چین برقرار رہے گا یا رخصت ہوجائے گا؟ یہ سوال ہے معاملے کی جڑ۔

مسلم حکومتوں سے یہ نہیں کہا جاسکتا: ’’ہتھیار حاصل نہ کرو‘‘، اس لیے کہ وہ اپنا دفاع کرنا اور مضبوط بننا چاہتی ہیں اور اچھی حکومت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے عوام کا دفاع کرے۔ اس کے باوجود اگر ہم مسلم مفکرین ہوائی قلعے بناتے رہیں۔ جس طرح ہمارے مسلمان مفکرین صدیوں سے بناتے رہے ہیں یا مزید آگے بڑھ کر ہم خیال کریں کہ ہم مغرب کی ٹکنالوجی کی عسکری اور دوسری صورتوں پر مکمل دسترس حاصل کرسکتے ہیں اور ہم مغربی ٹکنالوجی کے منفی اور ضرر رساں اثرات سے بھی محفوظ رہیں اور ٹکنالوجی جو اپنے ساتھ مادہ پرستی کے افکار لاتی ہے، اُن سے بھی بچے رہیں تو ہم اس طرح اپنے پیشے سے انصاف نہ کرسکیں گے اور ہم پر جو اجتماعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اُس سے عہدہ بر آ نہ ہوسکیں گے۔جو لوگ ہمارے پچھلے تمام مصلحین کے خوابوں پر اعتبار کرتے ہیں محمد علی پاشا، مفتی محمد عبدہ‘، جمال الدین افغانی اور ترکی کے سعید نورسی، علامہ محمد اقبال اور ایسے دوسرے حضرات کے خواب اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح بیک وقت مغرب کی سی ٹکنالوجی کی طاقت بھی حاصل کرسکتے ہیں اور اس کے تصورِ کائنات کے بھی وفادار رہ سکتے ہیں یہ لوگ خود بھی ناممکن کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ مسلم مفکرین کی حیثیت سے ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ دنیاوی نتائج خواہ کچھ بھی ہوں جہاں تک سائنس اور فطرت کا تعلق ہے ہمیں اسلامی تصورِ کائنات اور تناظر کو بہرصورت قائم رکھنا چاہیے۔

دوم یہ کہ جس طرح مغرب میں بعض لوگ جدید ٹکنالوجی سے اپنے ماحولیات کے تحفظ کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ہمیں بھی اپنے ماحولیات کے تحفظ کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔

سوم یہ کہ ہمیں مغربی سائنسی علوم کا پورا اور گہرا مطالعہ کرنا چاہیے اور اُن کو اسلامی تناظر میں جذب کرلینا چاہیے اور یہ کام آگے بڑھ کر اگلے مورچے پر سائنسی علوم کی سرحدوں پر جاکر خصوصاً طبیعیات کی سرحدوں پر اور کوانٹم میکانیات کے اندر جاکر۔ کوانٹم میکانیات کی تعبیرِ نو کوپن ہیگن سکول اور ڈیکارٹ کے نظامِ ثنویت کے مطابق نہیں (جو جدید کوانٹم میکانیات کی فکری بنیادوں میں بیٹھے ہیں) بلکہ مابعد الطبیعیات کے تناظر میں کرنی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان معاملات کو فلسفیانہ طور پر سمجھنا بڑا ہی مشکل اور کھٹن کام ہے اور یہیں سے ہمارے لیے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ کوانٹم میکانیات کے علاوہ دوسرے شعبوں کا بھی یہی حال ہے۔

چہارم یہ کہ ہمیں دنیائے اسلام میں جہاں تک ممکن ہوسکے، ایسے علاقے قائم کرنے چاہئیں جہاں عالم فطرت اور سائنس کے اسلامی تصور پر مبنی متبادل ٹکنالوجی پر تجربے کئے جاسکیں، بالخصوص طب، دواسازی، زراعت اور دوسرے شعبوں مین جہاں تجربے ہوسکتے ہوں۔ اُمید ہے کہ نت نئے، مہلک اور تباہ کن ہتھیار بنانے کا جنون، جس کی وجہ سے دنیا میں تباہی و بربادی آرہی ہے، بتدریج ختم ہوجائے اور انسانیت کی رمق باقی رہ جائے جو مقدس اور روحانی طور پر معتبر سائنس کا بیج بوسکے اور خوش آئند مستقبل کے لیے عالم فطرت سے ہمارا سچا تعلق قائم کرسکے۔

اسلامی سائنس/تصور

کائنات اور جدید سائنس:



مظفر

: آپ کے نظریے اور کام پر جو تنقید ہوتی رہتی ہے، اُس کے بارے میں ایک مختصر سا سوال اور آخر میں آغازِ تخلیق خصوصاً مبدأ کائنات کے بارے میں ایک سوال- ڈیوڈ کنگ اور چند دوسرے مؤرخین نے آپ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ نے اسلامی سائنس کی تعریف متعین کئے بغیر اس کو ایک ’’آئیڈیل‘‘ بنا دیا ہے حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ آپ نے اپنی متعدد تحریروں میں اسلامی سائنس کو بڑی صراحت سے بیان کیا ہے۔ لیکن آپ نے ریاضیات کی تاریخ کے بارے میں اپنا جو نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔ ڈیوڈ کنگ نے اُس پر خاصی نکتہ چینی کی ہے۔ میرا خیال ہے، ’’فسیٹول آف اسلام‘‘ کے موقع پر آپ کی جو کتاب شائع ہوئی تھی ڈیوڈ کنگ کا اشارہ اُس کی طرف ہے ۔

نصر

: جی ہاں۔ اسلامک سائنس۔ ایک باتصویر مطالعہ

مظفر

: مجھے نہیں معلوم، آپ نے کبھی تنقید کا جواب دیا ہو۔

نصر

: جی ہاں، میں اپنی کتابوں پر تنقید کا جواب دینے کے خبط میں کبھی مبتلا نہیں ہوا۔ تاہم اسلامی سائنس پر میرے کام کے خلاف ڈیوڈکنگ اور دوسرے حضرات نے جو نکتہ چینی کی ہے، اُس کے جواب میں صرف دوباتیں عرض کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ ڈیوڈکنگ نے دو تصحیحات کی ہیں جو میں اُن کے شکریے کے ساتھ بسروچشم تسلیم کرتا ہوں۔ خاص طور پر ایک آلے کی تشریح کے ضمن میں مطالعے کی غلطی ہے۔ دراصل ہم اس کتاب کی تکمیل و اشاعت کے لیے بہت عجلت میں تھے۔ ۱۹۷۶ء کا ’’فیسٹول آف اسلام‘‘ سرپر کھڑا تھا۔ لکھنے کاکام تو قریب قریب مکمل ہوچکا تھا لیکن نظرثانی باقی تھی۔ عجلت میں یہ غلطی رہ گئی۔ بہرحال جن چند غلطیوں کی نشاندہی ڈاکٹر کنگ نے کی ہیں وہ بالکل درست ہیں اور اس میں وہ حق بجانب ہیں۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ میں نے اسلامی سائنس کی تاریخ کا جائزہ مجموعی تناظر میں لیا ہے جسے ڈاکٹر ڈیوڈ کنگ اور دوسرے مغربی مورخین سائنس سمجھ نہیں سکے۔ کیونکہ یہ حضرات دراصل ثبوتیت اور تجربیت کے قائل ہیں۔ وہ سائنس کی تاریخ کا مطالعہ ماخ اور جارج سارٹن کی عینک سے کرتے ہیں جنھوں نے پیری ڈوہم (Pierre Duhem) کے نقطۂ نظر کو مسترد کررکھا ہے، جس کے مطابق سائنس کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے ثبوتیت کو نہیں، غیر ثبوتیت کو بنیاد بنانا چاہیے۔ چنانچہ جونہی سائنس کی تاریخ مرتب ہونا شروع ہوئی یہ ثبوتیت کی اساس پر اُستوار ہوتی گئی۔ لیکن ثبوتیت کے اسلوبِ تحقیق کو میں نے اپنی علمی زندگی کے آغاز ہی میں مسترد کر دیا تھا۔ میں اُس وقت زیادہ تراِس کوشش میں تھا کہ سائنس کو اسلام کے عقلی تناظر میں سمجھا سمجھایا جائے۔ یعنی جہاں تک میں سمجھا ہوں حالانکہ یہ سمجھنا بھی کوئی آسان کام نہیں کہ سائنس اصل میں ہے کیا۔ پھر بھی میں اپنے طور پر خاصا واضح ہوں۔ اگر آپ کسی مغربی مفکر سے پوچھیں کہ سائنس کیا ہے؟ تو اُس کے لیے اس سوال کا جواب دینا خاصا مشکل ہوگا۔ حالانکہ اس سوال کا جواب وہی ہے جو سائنس کے ایک مورخ نے دیا تھا کہ سائنس وہی کچھ ہے جو سائنس دان کرتے ہیں۔

مظفر

: درست

نصر

: آپ خود بھی سائنس داں ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کیا یہ جواب بہترین جواب نہیں ہے کیونکہ اگر آپ کا جواب یہ ہوگا کہ سائنس فلاں فلاں مخصوص سائنسی طریق پر مبنی ہوتی ہے تو یہ جواب کم۔ازکم کیپلر یا آئن سٹائن کے موافق نہ ہوگا۔ اسی طرح آپ اس کے علاوہ کوئی اور جواب دیں تو اُس کے لیے کچھ اور مستثنیات ہوں گی۔ پس سائنس تو وہی کچھ ہے جو سائنس داں کرتے ہیں۔ تو پھر اسلامی سائنس بھی وہی کچھ ہے جو اسلامی سائنس داں کرتے ہیں۔ مزید برآں میں نے تو اپنی طرف سے اسلام کی عقلی کائنات کے پورے سیاق و سباق میں اسلامی سائنس کا مقام متعین کرنے کی کوشش کی ہے اور میرا خیال ہے کہ میں اسلامی سائنس کی تاریخ کے اپنے مطالعے میں بڑی وضاحت سے تحریر کردیا ہے۔ لیکن مغرب کے مورخین نے ایک عرصے تک میرے موقف کو تسلیم نہیں کیا۔ بہرصورت اب چند سائنس دان سامنے آئے ہیں جنھوں نے میرا یہ نقطۂ نظر تسلیم کرلیا ہے کہ سائنس کی تاریخ کو متعلقہ تہذیب کے اپنے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ جوزف نیندھم پر میری تنقید کا تعلق بھی میرے اسی موقف سے تھا۔ انھیں اپنی تصنیف چین میں سائنس اور تہذیب کی مدد کے لیے کیمبرج یونی ورسٹی کے علما کی ایک پوری ٹیم میسر تھی، جبکہ میں اکیلا تھا اور میں نے اورینٹل سائنس کے بارے میں اُن کے خلاف ردِّعمل کے طور پر اسلام میں سائنس اور تہذیب لکھی تھی۔ اُس وقت انھوں نے اپنی یادگار کتاب لکھنی شروع ہی کی تھی اور ایک ایسے مغربی سائنس داں کے نقطۂ نظر سے لکھی گئی تھی، جو مارکسی اشتراکی خیالات رکھتا تھا۔ ظاہر ہے کہ کنفیوشیسیت اور تائو مت کے تناظر سے چینی سائنس کی تاریخ لکھی جاتی تو وہ بالکل مختلف ہوتی۔ بالکل یہی معاملہ اسلامی سائنس کا ہے۔

میں سمجھتا ہوں، میں نے اپنے طور پر وہ منہاجِ تحقیق وضع کردیا ہے، جسے اسلامی سائنس کی تاریخ کے مطالعے کے لیے اختیار کیا جاسکتا ہے۔ میں نے بہت پہلے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اس منہاج کو اپنی تصنیف میں واضح کردیا تھا۔ اور اب تو ہمارے پاس نوجوان مسلم دانشوروں کی ایک پوری نسل تیار ہوچکی ہے بلکہ سائنس کی تاریخ کے ایسے مغربی دانشور پیدا ہوچکے ہیں جو ہمارے نقطۂ نظر کے خلاف نہیں ۔ بہت سے ایسے بھی ہیں، جو اس موضوع کے بارے میں میرے ہم خیال ہیں۔ اگرچہ مخالفین کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔ میں ہمیشہ اچھے مفکرین کا احترام کرتا ہوں، جیسے ڈیوڈکنگ ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ اُس روحانی تناظر سے باہر ہیں، جو صرف مسلمان سائنس دانوں ہی کا حصہ ہے۔ نصیرالدین طوسی یا ابن سینا کا تصورِکائنات مغربی سائنس داں پوری طرح نہیں سمجھ سکتے لیکن اس سے اُن کے احترام میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انھوں نے اپنی اپنی جگہ قابلِ قدر خدمات انجام دے رکھی ہیں۔ مسلمان مورخینِ سائنس کے کرنے کاکام یہ ہے کہ وہ اپنے انداز میں اسلامی نقطۂ نظر سے سائنس کی تاریخ کا مطالعہ کریں۔ جارج سارٹن نے جن کا میں ہارورڈ یونیورسٹی میں شاگرد رہاہوں اور جو بلاشبہ بڑے فاضل مورخ تھے یا دوسرے مورخین نے جو کچھ لکھا ہے، اُسے مدِّنظر رکھتے ہوئے خالص اسلامی تناظر میں سائنس کی تاریخ مرتب کریں۔ میں نے زندگی بھر یہی خدمت انجام دینے کی کوشش کی ہے۔ اچھا آئیے اب اپنے آخری سوال کی طرف ۔کیا سوال تھا؟

مظفر

: جی، میرا آخری سوال آغازِ تخلیق سے متعلق ہے۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ آغاز تخلیق کائنات اور آغاز تخلیق حیات۔ مذہب اور سائنس کے میدان کا یہ بہت بڑا موضوع ہے۔ آپ نے اپنی تصنیف Islamic Cosmological Doctrines میں مسئلہ تخلیق پر تین خاص پہلوئوں سے بحث کی ہے لیکن جدید کونیات جو خالص طبیعی کائنات ہے۔ آپ کے نقطۂ نظر کو تسلیم نہیں کرتی۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہبل کی دوربین اور دوسرے جدید آلاتِ رصد کے مشاہدات کے ذریعے جو نئے انکشافات وحقائق سامنے آئے ہیں اُن کی تطبیق ابن سینا، اخوان الصفا اور البیرونی کے نظریات سے کیونکر ہوسکتی ہے؟ مختصر یہ کہ اب جو نئے شواہدو انکشافات سامنے آئے ہیں، اُن کی روشنی میں تخلیق کائنات کے آغاز کے بارے میں اب اسلامی نقطۂ نظر کیا ہوگا؟ اور ابن سینا اور البیرونی کے نظریات سے اُن کا موازنہ کن اصولوں کی بنیاد پر ہوگا؟

نصر

: بات یہ ہے کہ اسلام نے یا ہندومت یا عیسائیت یا کسی اور مذہب نے آغاز تخلیقِ کائنات کے بارے میں جو بھی تعلیمات دی ہیں۔ جدید کونیات نے انھیں غلط اور منسوخ قرار نہیں دیا ہے۔ جدید کونیات محض طبیعیات ارضی کی توسیع ہے، جو اس مفروضے پر مبنی ہے کہ طبیعیات کے تمام قوانین جو زمین پر لاگو ہوتے ہیں، اُن کااطلاق تمام کائنات پر ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے قطع نظر کہ جدید کونیات توسیع ہے۔ ہر وہ چیز جس کی پیمائش آلات سے نہ ہوسکتی ہو، اس سے خارج ہے۔ پس جدید کونیات کلاسیکی طبیعیات کے علاوہ جدید طبیعیات اور کوانٹم میکانیات کی قابلِ پیمائش دنیا تک محدود ہے۔ جب کہ اس کے برعکس آغازِ تخلیق کائنات کے بارے میں اسلام کے یا کسی دوسرے روایتی مذہب کے عقائد حقیقت کے پورے عرفان پر مبنی ہیں۔ حقیقت میں صرف ذاتِ باری تعالیٰ ہی نہیں بلکہ تمام ملکوتی یا غیرمادّی جہات بھی شامل ہیں، جن پر کائنات کے طبیعی پہلوئوں کے بارے میں نئی تحقیقات وانکشافات کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ میں تمام جدید کونیاتی نظریات کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ یہ سب ہر دس سال کے بعد تبدیل ہوجاتے ہیں۔ ان نظریوں کے بارے میں قیاس آرائی بہت ہوتی ہے۔ نامعلوم کی ایک ایسی فضاے بسیط معلوم پر محیط ہے کہ جسے تخلیقِ کائنات کے بارے میں آخری اور حیرت انگیز نظریے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے،وہ منصہ شہود پر آنے کے بعد متروک ومنسوخ ہوجاتا ہے۔ کیونکہ کوئی دوسرا سائنس داں اپنی نئی دریافت کے ساتھ آجاتا ہے کہ اُس نے مشاہدۂ افلاک کے لیے نئے صوتی آلات ایجاد کرلیے ہیں، جو نتائج کو یکسر بدل کر رکھ دیں گے یا کوئی محقق نمودار ہوکر دعویٰ کرے گا کہ اُس نے ایک نیا نظامِ پیمائش یا نیا ہندسی فارمولا دریافت کرلیا ہے۔ اس طرح یکے بعد دیگرے نظریات کی قطار لگ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر زمانہ حال میں متعدد نظریے مشہور ہیں۔ کثیر نوعی کائناتیں (Multiple Universes) سٹرنگ تھیوری(String Theory)، بگ بینگ تھیوری (Big Bang Theory) بلکہ میرے زمانۂ طالبِ علمی سے اب تک کونیات کے پانچ چھ بڑے نظریوں کی صحت کے بارے میں دلائل کا انبار لگ چکا ہے۔

میرا خیال ہے جو لوگ جدید طبیعیات و کیمیا کی اساس پر کائنات کے بارے میں نظریہ سازی کرتے ہیں، انھیں اصطلاح ’’کونیات‘‘ (Cosmology) استعمال نہیں کرنی چاہیے۔ کونیات کا مطلب ہے کون یعنی کائنات کی سائنس۔ اور کائنات صرف مادی یا قابل پیمائش یا مرئی چیزوں تک محدود نہیں ہے۔ یہ چیزیں کائنات کا حصہ تو ہیں، لیکن یہی کُل کائنات نہیں ہیں۔ اسی لیے میں خود بھی ایسی نظریہ سازی کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ ہمارے لیے جو کرنے کا کام ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق پہلے کائنات کے متعلق اسلامی نظریہ قائم کریں۔ پھر یہ دیکھیں کہ جدید ماہرینِ کونیات کیا کہتے ہیں؟ اسلامی نظریے اور جدید نظریوں میں خواہ مخواہ کی ظاہری مماثلتیں ڈھونڈنے کی بھی ضرورت نہیں، جیسے یہ کہنا کہ ہاں بگ بینگ کے بارے میں تو قرآن نے پہلے ہی کہہ رکھا ہے’’ کن فیکون‘‘ یا جیسے کہ بعض مسیحی علماے دین کہا کرتے ہیں، امر ربی (Fiat Lux)۔ اس طرح کے مذہبی اقتباسات کو سائنسی نظریات پر منطبق کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ عنقریب کوئی سائنس داں اُٹھے گا اور ثابت کردے گا کہ بگ بینگ نہیں ہوا تھا۔ یہ نظریہ بالکل غلط ہے۔ دس پندرہ سال پہلے کی بات ہے فلاڈیفیا میں یہودی علماے دین اور یہودی ماہرین کونیات کے مابین بگ بینگ کے مسئلے پر ایک بڑی کانفرنس ہوئی تھی۔ آج بھی ایسے کئی ماہرینِ کونیات موجود ہیں جو بگ بینگ کو یا اس کے نظریے کو تسلیم نہیں کرتے۔ میرے خیال میں مذہبی کونیات کو جس کی اساس ماورائے طبیعی عرفان یا تصورِ کائنات پر ہے اور جدید کوینات کو ایک دوسرے میں خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ یہ علم کے دو جداگانہ طریق ہیں اور ان کی اصطلاحیں اور باتیں جداگانہ ہیں۔ جدید کونیات اس نظریے کی بنیاد پر کھڑی ہے کہ کرۂ ارض کی طبیعیات کے مطابق جو قابل مشاہدہ چیز قابل پیمائش ہے، اُس کا اطلاق پوری کائنات پر ہوتا ہے یعنی ستارے حبس مادے سے بنے ہیں، اُسی مادے سے وہ گلیاں بنی ہیں، جن پر آپ اور میں چلتے ہیں۔ یہ بہت بڑا ادعا ہے جسے سائنسی طور پر ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ یہ جدید تجزیہ پسندی، جدید سائنس پرستی کی نظریہ بازی کی تحریک کا ایک حصہ ہے۔ ہمارے لیے کرنے کا کام یہ ہے کہ اسلامی کونیات کا جدید نظریوں اور مفروضات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک بالکل مختلف آرٹ، بالکل مختلف سائنس اور بالکل مختلف اندازِ فکرونظر ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دو بالکل مختلف و متضاد چیزوں، دو بالکل مختلف و متضاد علوم، دو بالکل مختلف و متضاد عقلی مشاغل کے لیے ایک ہی لفظ بولا جاتا ہے۔ روایتی کونیات اور جدید کونیاتی مفروضات میں زمین آسمان کا فرق ہے، جو پچھلی صدی میں وضع ہوئے ہیں اور جو محض ارضی طبیعیات کی توسیع ہیں۔

اور جہاں تک تخلیقِ حیات کے آغاز کا تعلق ہے میرا خیال ہے اور یہ فقط میرا خیال ہی نہیں ہے بلکہ پوری اسلامی عقلی روایت کا فیصلہ ہے جس کی توثیق حکمتِ قدیمہ نے کررکھی ہے کہ ہر چیز کا مبدا ذاتِ باری تعالیٰ ہے۔ ہر چیز جو موجود ہے، اُس کا وجود ذاتِ باری تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اور اگر مغربی فلسفے یا مذہب کی زبان میں بات کریں تو کہا جائے گا کہ تمام مخلوقات کا مصنف خدا کا ہاتھ ہے۔ جو چیز بھی خلق کی گئی ہے وہ اُسی مصنفِ اعظم نے پیدا کی ہے۔ زندگی ایک عجیب اور مختلف نوعیت کی چیز ہے، جو کرۂ۔ارض کی سطح پر پائی جاتی ہے، جہاں ہم اس کا مشاہدہ بے جان مادے کے مقابل کرتے ہیں اور یہ خیال کہ خالق اور اُس کی مخلوقات کا باہمی تعلق صرف مبدائے کائنات کے نقطۂ آغاز سے ہے اور اس کا نقطۂ آغاز بگ بینگ ہے اور بگ بینگ کے فوراً بعد خالق و مخلوق کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ یہ خیال محض ایک خود ساختہ مفروضہ ہے جسے اسلام ہرگز تسلیم نہیں کرتا۔ اسلام کے نزدیک رضائے الٰہی ہر وقت، ہر دم اپنی مخلوقات کے ساتھ رہتی ہے۔ رضائے الٰہی آپ کے ساتھ بھی ہے، میرے ساتھ بھی ہے، لہٰذا مخلوقات کی ابتدا کا مسئلہ بہت آسان اور قابل فہم ہوجاتا ہے۔

یہ ایک اور امر ربی ہے، ایک اور خداوندی شانِ نزول، مادی دنیا میں شمولیت، حقیقت مطلقہ کے ایک اور مکانی تانے بانے کا تعارف۔ پس اگرچہ ہم کیمیاوی اور حیاتیاتی عناصر میں زنجیری عمل پیدا کرنے کی بڑی کوشش کرتے ہیں لیکن ان مادوں میں کوئی مکمل تعامل پیدا نہیں ہوپاتا۔ کہا جاسکتا ہے کہ اگر تسلسل نہیں تو پھر ایک جست سہی، ایک لمبی کوانٹم چھلانگ۔ جدید سائنس میں اگرچہ قدرت کی تخلیق سے ’’خدا کا ہاتھ‘‘ کاٹ دیا گیا ہے۔ یعنی تخلیق سے خدا کا کوئی تعلق نہیں۔ پھر بھی تخلیق کی قوت کائنات کے اندر الوہیت وحدت الوجودیت اور ماورائیت کی صورت میں جاری و ساری محسوس ہوتی ہے۔ اگرچہ سائنس داں ایسی اصطلاحات استعمال نہیں کرتے۔ یوں لگتا ہے جیسے تخلیق کی قوت خدا کے ہاتھوں سے لے کر قدرت کے ہاتھوں میں دے دی گئی ہے۔ اس خیال کے آتے ہی یکایک کیمیاوی عناصر کا ملغوبہ چھلانگ لگا کر ایک زندہ مخلوق بن جاتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ چھلانگ خود دنیائے فطرت کے اندر سے لگائی گئی ہے۔ اور یہ سوچ کر کہ یہ سب کچھ خودبخود ہوا ہے لوگ مطمئن ہوجاتے ہیں۔ لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ اس پودے کا عمل ایک ماورائی سبب ہے تو وہ مضطرب ہو کر سوچنے لگتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ یہ اُس فلسفے کی وجہ سے عین ممکن ہے جو آج دنیائے جدید پر مسلط ہے۔ حالانکہ اس کی کوئی منطق ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ ہاں اگر یوں کہا جائے کہ چھلانگ بیرونی عوامل کے سبب سے نہیں بلکہ اندرونی عوامل کے سبب سے لگی ہے تو یہ بڑی اہم، قابل فہم اور قابل ذکر بات ہے۔

یہ بات اُس چھلانگ پر بھی صادق آتی ہے، جو زندگی سے شعور کی طرف لگائی جاتی ہے بلکہ یہ چھلانگ زیادہ بڑی اور لمبی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایک پرندے کو اُڑتا ہوا دیکھتے ہیں تو اس سوچ میں پڑ جانے کی کوئی منطق نہیں ہے کہ پر ایک ایسے عضو سے بتدریج پیدا ہوئے تھے جس کا پرواز سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یا یہ فرض کرنے بیٹھ جائیں کہ آنکھ کسی عجیب عضو سے ارتقا پارہی تھی کہ یکایک اس نے دیکھنا شروع کردیا۔ اس قسم کی سوچ بالکل فضول ہے۔ لیکن ایسی باتوں پر ہم یقین کرلیتے ہیں اور حقیقت کی اُن نشانیوں پر یقین نہیں کرتے جو قدرت میں نظر آرہی ہیں اور جن میں کثرت ہے، تنوع ہے، متنوع حقائق ہیں، متنوع اشکال ہیں، متنوع انواع ہیں، زندگی کی متنوع صورتیں ہیں، متنوع صلاحیتیں اور توانائیاں ہیں۔

تاہم میرا ایمان ہے کہ اسلام کی وہ تعلیمات جن کا خاکہ چند ماہرین کونیات نے تیار کیا تھا، جن کا تذکرہ میں نے کونیات سے متعلق اپنی کتاب میں کیا تھا۔ آج بھی مستندومعتبر ہیں۔ اگرچہ اسلامی کونیات کی اور بھی صورتیں اہم ہیں۔ اگر آپ کے پاس باصلاحیت مسلمان فلسفیوں اور سائنس دانوں کی کھیپ موجود ہو جن کی جڑیں اپنی روایت میں بہت گہری ہوں تو وہ تمام چیزوں کے درمیان کمال درجے کا ارتباط پیدا کرسکتے ہیں۔ یوں سمجھے۰۰ کہ جدید سائنس نے زندگی کے بارے میںجتنی چیزیں بھی دریافت کی ہیں اُن سب میں ایک کامل ہم۔آہنگی پیدا کردیں گے۔ ثابت ہوجائے گا کہ زندگی کی بنیاد محض غیر ثابت شدہ اور قیاسی مفروضات پر نہیں بلکہ حقیقت پر قائم ہے۔ ایسا کرتے وقت نہ تو کسی مذہبی عقیدے کو قربان کیا جائے گا۔ نہ سائنس کی کسی دریافت کو نظر انداز کیا جائے گا۔ سائنس کی ہر دریافت حقیقت کو حقیقت جان کر کی گئی ہے اور محض مفروضات پر مبنی ایسی تشریحات و تعبیرات کو، جو حقیقتِ مطلقہ کے عرفان اور طبیعی کائنات کے ہر مظہر میں اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ سے ہم آہنگ نہ ہوں، سائنس بھی اُن کو تسلیم نہیں کرتی۔

مظفر

: آپ کا بہت بہت شکریہ۔

نصر

: جزاک اللہ خیراً

انٹرویو: مظفر اقبال، ترجمہ: سید قاسم محمود