ہیومن کون ہے؟
عام طور پر ھیومن کا ترجمہ انسان کرکے یہ سمجھا جاتا ھے کہ ‘انسان تو بس انسان ہی ھوتا ھے، چاھے مشرق کا ھو یا مغرب کا’۔
مگر یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں بلکہ پیچیدہ ھے۔ درحقیقت ہر تہذیب (نظام زندگی) کا ایک اپنا مخصوص تصور انفرادیت ھوتا ھے۔ اس تصور انفرادیت کے تعین کی بنیاد اس سوال کا جواب ھے کہ ‘میں کون ھوں؟’ (زندگی کا مقصد کیا ھے، خیر کیا ھے شر کیا ھے وغیرہ جیسے سوالات کا جواب اسی بنیادی سوال کے جواب سے طے پاتے ہیں)۔ بالعموم تاریخی طور پر اس سوال کا جائز مقبول عام جواب یہ رہا ھے کہ ‘میں عبد (مسلمان) ھوں’، اور طویل عرصے تک اسی تصور انفرادیت کو انسانیت کا جائز اظہار سمجھا جاتا رہا ھے۔ اگرچہ پچھلے ادوار میں اسکے برعکس جواب دینے والے افراد اور معاشرے بھی موجود رھے ہیں البتہ اکثریت معاشرے (جیسے تمام مذھبی معاشرے) اسی مذہبی تصور انفرادیت پر مبنی تھے۔
سترھویں اور اٹھارویں صدی عیسوی کے یورپی معاشروں میں تحریک تنویر کے زیر اثر اس سوال کا ایک اور جواب عام ھونا شروع ھوا (جو آج ان معاشروں میں بہت راسخ ھوچکا) جسکے مطابق ‘میں عبد نہیں بلکہ آزاد اور قائم بالذات (autonomous) ھوں’ (اس تصور ذات کی ابتداء ڈیکارٹ کے جملے I think, therefore I am سے ھوتی ھے، جسکے مطابق کائنات کی واحد ہستی جو اپنے ھونے کا جواز خود اپنے اندر رکھتی ھے نیز جو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر اور منبع علم ھے وہ اکیلی ذات ‘میں’ یعنی ‘I’ ھوں)۔ اس آزاد اور قائم بالذات تصور ذات کو تنویری فکر میں ”ہیومن” کہا جاتا ھے۔ ھیومن اپنی بندگی کی نفی اور صمدیت کا دعوی کرتا ھے، دوسرے لفظوں میں ھیومن ‘خدا کا باغی’ تصور ذات یا انسان ھے۔
مشہور مغربی فلسفی فوکو کہتا ھے کہ ‘ھیومن’ انسانی تاریخ میں پہلی بار سترھویں صدی میں پیدا ھوا۔۔۔۔۔ان معنی میں نہیں کہ اس سےقبل دنیا میں انسان نہیں پاۓ جاتے تھے اور نہ ہی ان معنی میں کہ یہ کوئ زیادہ عقل مند انسان تھا اور پہلے کے انسان جاہل وغیرہ تھے، بلکہ ان معنی میں کہ اس سے قبل کسی انسانی تہذیب اور نظام فکر میں آزادی ( autonomy or self-determination) کو انفرادیت کے جائز اظہار کا مقصد سمجھا اور قبول نہیں کیا گیا (گویا یہ کفر و الحاد کی ایک جدید شکل تھی)۔
اس سے قبل انسانیت کیلئے لفظ mankind (خدا کی رعایاومخلوق) استعمال کیا جاتا تھا، ھیومینیٹی (humanity) کاتصورسترھویں صدی میں وضع کیا گیا۔ ھیومن ازم کا ڈسکورس درحقیقت اسی تصور ھیومن سے نکلتا ھے جسکے مطابق انسانیت کی بنیادی صفت آزاد و قائم بالذات ھونا ھے اور عقل کا مطلب اس انسانی آزادی میں اضافے (یعنی انسان کو عملا قائم بالذات بنانے) کو بطور مقصد حیات قبول کرنا ھے۔ ھیومینیٹی جدید مغربی الحاد کا نہایت کلیدی تصور (central construct) ھے اور تنویری فکر سے برآمد ھونے والے مختلف مکاتب فکر (مثلا لبرل ازم،سوشل ازم، نیشنل ازم وغیرہم) اسی تصور ھیومینیٹی کے مختلف نظرئیے،تعبیرات و توجیہات ھیں۔
جو لوگ تصور ذات کے تعین میں ایمانیات کی بنیادی اہمیت سے ناواقفیت کی بنا پر یہ کہتے ہیں کہ ‘انسان تو بس انسان ھے’ وہ انتہائ سطحی بات کرتے ہیں (زندگی کا مقصد، خیروشر، علم،حق اور عدل کے تصورات، معاشرتی و ریاستی نظم کی تشکیل وغیرہم اس سوال کا جواب تبدیل ھونے سے یکسر تبدیل ھوجاتے ہیں)۔ آسان مثال سے سمجھئے کہ حضرت عیسی بطور ایک معین شخصیت مسلمانوں اور عیسائیوں میں مشترک ھیں (کہ دونوں تاریخی طور پر ایک ہی مخصوص شخصیت کو عیسی مانتے ہیں) مگر انکے درمیان چودہ سو سال سے وجہ اختلاف ‘تصور عیسی’ ھے نہ کہ ‘شخصیت عیسی’ (یعنی ایک کے یہاں عیسی ابن اللہ ھیں جبکہ دوسرے کے یہاں عیسی رسول اللہ)۔ اگر کوئ یہ کہے کہ ‘عیسی تو بس عیسی ھے، مسلمان اور عیسائ بلاوجہ دست و گریباں ہیں’ تو یقینا وہ ایک غیر علمی بات کرے گا۔ اسی طرح ھیومن کو بھی انسان کہنا اور مسلمان کو بھی انسان کہنا ایسی ہی کنفیوژن کا شکار ھونا ھے، ظاہر ھے وہ انسان جو خود کو خدا کا بندہ اور وہ جو خود کو خدا سمجھتا ھے بھلا کیسے یکساں زندگی (معاشرہ و ریاست) تعمیر کرسکتے ہیں؟
تحریر ڈاکٹر زاہد مغل