کچھ عرصہ قبل دیسی ملحدین کے علامہ جناب ایاز نظامی کی جانب سے بار بار یہ چیلنج دیا گیا کہ کسی درس نظامی کے فارغ کو لایا جائے اور ان سے دو دو ہاتھ کرائے جائیں۔ رد الحاد کے ہمارے مجاہدوں کی نظر انتخاب مجھ ناتواں پر پڑی۔ معذرت چاہی کہ محض مدرسے میں پڑھ لینے سے کوئی عالم نہیں ہوجاتا، میں کیا اور میرا مبلغ علم کیا! لوگوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں، تمہیں کونسا طرم خان سے مقابلہ کرنا ہے، ایاز نظامی ہی تو ہیں، جنہیں ملحدین کے سماج میں قحط علم کے سبب علامہ کا منصب مفت نصیب ہوگیا ہے۔۔ دیکھ لینا پہلے ہی ہلے میں آنجناب کی علمیت اور درس نظامی کا سارا خمار اتر جائے گا۔

مجھے بھی ایاز نظامی صاحب کی علمیت کے بارے میں کسی قسم کی کوئی غلط فہمی نہیں تھی، اس لئے اپنی کم مائیگی کے باوجود بھی آخر کار میں نے حامی بھر ہی لی۔ بہر حال بگل بجایا گیا، اور آنجناب کو اپنے کرتب دکھانے کی کھلی دعوت دی گئی۔ بمشکل تمام جناب والا اپنے “عافیت کدے” سے برامد ہوئے، مجھ سے پرسنل پر شرائط اور موضوع وغیرہ سے متعلق گفتگو ہوئی۔ میں نے ملحدین کے دین “ہیومن رائٹس” پر بات کرنے کی تجویز رکھی اس دعوے کے ساتھ کہ یہ مبہم، غیر منطقی، خلاف حقیقت اور غیر عملی ہے۔ مگر اپنے دین پر بات کرنا ملحدین کو سخت ناپسند ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا دین بس دھونس دھڑلے سے مان لیا جائے۔ آنجناب بھی تیار نہیں ہوئے۔ بلکہ انہوں نے اپنا دعوی پیش کیا کہ “کامن سینس کی روشنی میں قرآن انسانی کلام ہے” پس یہی موضوع مناظرہ ٹھہرا کہ “کیا قرآن انسانی کلام ہے؟”

2 نومبر 2015 کو آنجناب پبلک میں اپنے مقدمے کے ساتھ نمودار ہوئے کہ میرا موقف ہے کہ قرآن انسانی کلام ہے، یہ کلام الٰہی نہیں ہے، خود قرآن نے سورۃ النساء کی آیت نمبر 82 میں کہا ہے کہ:

أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا کَثِيرًا ﴿٨٢﴾ترجمہ : کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اور اگر یہ قرآن سوائے الله کے کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت اختلاف پاتے۔

اس کے بعد ایاز نظامی صاحب نے اپنا اصل دعوی بایں الفاظ پیش کیا:

میرے نزدیک قرآن کا سب سے بڑا داخلی تضاد سورۃ فصلت کی آیات 9 تا 12 اور سورۃ النازعات کی آیات 27 تا 30 کے مابین واقع ہے۔ یہاں ان آیات کو درج کرتا ہوں:

قُلْ أَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ۚ ذَٰلِکَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿٩﴾ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَکَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ ﴿١٠﴾ ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ کَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ ﴿١١﴾ فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَىٰ فِي کُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ۚ ذَٰلِکَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿١٢﴾

ترجمہ: کہہ دو کیا تم اس کا انکار کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین بنائی اور تم اس کے لیے شریک ٹھیراتے ہو وہی سب جہانوں کا پروردگار ہے (9) اور اس نے زمین میں اوپر سے پہاڑ رکھے اور اس میں برکت دی اور چار دن میں اس کی غذاؤں کا اندازہ کیا (یہ جواب) پوچھنے والوں کے لیے پورا ہے (10) پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھؤاں تھا پس اس کو اور زمین کو فرمایا کہ خوشی سے آؤ یا جبر سے دونوں نے کہا ہم خوشی سے آئے ہیں (11) پھر انہیں دو دن میں سات آسمان بنا دیا اور اس نے ہر ایک آسمان میں اس کا کام القا کیا اور ہم نے پہلے آسمان کو چراغوں سے زینت دی اور حفاظت کے لیے بھی یہ زبردست ہر چیز کے جاننے والے کا اندازہ ہے (12)

اور ان آیات کا سورۃ النازعات کی آیات 27 تا 30 سے موازنہ دیکھئے :

أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ ۚ بَنَاهَا ﴿٢٧﴾ رَفَعَ سَمْکَهَا فَسَوَّاهَا ﴿٢٨﴾ وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا ﴿٢٩﴾ وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِکَ دَحَاهَا ﴿٣٠﴾

کیا تمہارا بنانا بڑی بات ہے یا آسمان کا جس کو ہم نے بنایا ہے (27) ا سکی چھت بلند کی پھر اس کو سنوارا (28) اور اس کی رات اندھیری کی اور اس کے دن کو ظاہر کیا (29) اور اس کے بعد زمین کو بچھا دیا (30)

یہ ایک واضح تضاد ہے کہ سورۃ فصلت کی آیات میں پہلے زمین کی تخلیق کا ذکر ہے، اور بعد میں آسمان کی تخلیق کا ذکر، جبکہ سورۃ لنازعات کی آیات میں پہلے آسمان کی تخلیق کا ذکر ہے اور آسمان کی تخلیق کے بعد زمین کی تخلیق کا ذکر ہے۔

 (ہم نے یہاں قرآن کریم سے استفادے کے صحیح طریقے پر مختصر کلام کرتے ہوئے عرض کیا قرآن دراصل تخلیق کے تین مراحل بیان کرتا ہے:

1- رتق وفتق، کہ جس کا ذکر سورہ انبیاء کے اندر ہے، آسمان صورت دخان (دھواں)تو اسی مرحلے میں وجود پا گیا تھا…

2- تخلیق أرض من حیث الأصل

3- تسویہ سماء (آسمان کو برابر کرنا، اس کے طبق بنانا، سیاروں اور ستاروں سے سجانا وغیرہ) اور دحو أرض (زمین کو پھیلانا، بچھانا، رہائش کے لئے تیار کرنا وغیرہ)۔۔۔

تو جن چیزوں میں آپ کو خلط ہوا، وہ یہی آخری دو مرحلے ہیں(یعنی زمین کی تخلیق اور زمین کا دحو)

پس جن آیات کو آپ آپس میں ٹکرانے کی سعی فرما رہے ہیں ذرا ان کو ایک بار غور سے پڑھ لیں کہ کیا ہر جگہ تخلیق ہی کا لفظ ہے؟ یا کہیں دحو اور تسویہ بھی ہے؟ !!!

تو جناب من! خلق اور چیز ہے اور دحو اور. زمین کی تخلیق آسمان کےتسویہ ( برابر کرنے) سے پہلے ہوئی ہے، جب کہ زمین کا دحو (یعنی بچھانا) یہ آسمان کے تسویہ کے بعد۔۔ آخر اس میں تعارض کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ جب دو چیزیں ہی الگ الگ ہیں، تو ان کا وقت الگ الگ ہونا آپس میں کیسے متعارض ہوا؟

سو آیات کی روشنی میں ترتیب یوں ہوئی.. (رتق اور فتق کے بعد) خلق أرض< تسویہ سماء (جبکہ وہ پیش کردہ آیات کی روشنی میں دھویں کی شکل میں پہلے سے تھا) < دحو ارض وإخراج ماء ومرعی…

پس دو دن زمین کے بننے میں، پھر دو دن تسویہ سماء کے – پھر دو دن دحو ارض کے.. اس طرح زمین پر جو کل کام ہوا’ خلق ‘اور ‘دحو’ کا اسے سورہ حم سجدہ میں واؤ کے ذریعے یکجا کیا گیا، جو مطلق جمع کے لیے ہوتا ہے، ترتیب کا فائدہ نہیں دیتا.. کیونکہ سیاقِ امتنان میں ترتیبِ وقوع کی اہمیت نہیں، بلکہ سیاق سے انسب یہی ہے کہ زمین جو انسان کے لئے اصل کارزار حیات ہے، اس سے متعلق نعمتوں کو یکجا کرکے بیان کیا جائے، سو زمین پر ہونے والے اس سارے کام کی کل مدت ہوئی چار دن، جیسا کہ مذکورہ آیت میں بیان ہوا… (جس کو آپ نے غلط طور پر صرف ‘قدر فیھا’ سے جوڑ دیا ہے) اور اگلی آیت میں ثم کا عطف براہ راست خلق الارض پر ہے (یہ اس صورت میں کہ کوئی ثم سے مزید برآں مراد لینے پر آمادہ نہ ہو، حالانکہ ہم نے آگے بحث میں ثابت کیا کہ ثم جملوں میں تو ترتیب کے لئے آتا ہی نہیں)!

 رہا نازعات میں مذکور دحوِ ارض تو اس کی تشریح خود اگلی آیت میں ہے کہ اخرج منھا ماءھا ومرعاھا… (اس کے اندر سے اس کا پانی اور چارہ نکالا)

(اس کے بعد ہم نے محض یہ واضح کرنے کے لئے کہ ہماری بیان کردہ ترتیب ہماری خانہ ساز نہیں، بخاری کتاب التفسیر کے حوالے سے حضرت ابن عباس کا قول اپنی تائید میں پیش کیا۔ یہ دراصل صرف یہ بتانے کے لئے تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ آنجناب نے اعتراض پیش کردیا تو ہم نے جواب دینے کے لئے کوئی تاویل گھڑ لی ہے، بلکہ یہی ان آیات کی تفسیر چلی آرہی ہے۔مگر موصوف نے ہمارے اس حوالے میں پیش کی گئی ضعیف روایات کو اپنے حق میں لانے کے لئے بطور بہانہ استعمال کیا ، حالانکہ ان کا دعوی اور بحث کا موضوع خود قرآن میں تضاد دکھانا تھا نہ کہ قرآن اور روایات میں۔)

 الغرض قرآن کریم میں تضاد کے اس دعوے کا خلاصہ یہ نکلا کہ ملحد قرآن کریم کی آیات کی جو من مانی تشریح کرے، پہلے اسے مان لو، خواہ چودہ صدیوں میں ان آیات کا یہ معنی کسی نے بھی نہ سمجھا ہو، پھر جب آپ ملحد کی اس تشریح کو مان لیں گے تو قرآن میں تضاد خود بخود ثابت ہوجائے گا۔ورنہ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ قرآن کریم کی ان آیات کاایسا کوئی مطلب نہیں نکلتا۔

ہمارے پہلے جواب کے بعد جواب الجواب اور اس کے جواب کا جو سلسلہ چلااس میں آنجناب نے اپنے اسی دعوے کی ملحدانہ تکرار کی،اور مفروضات مبنی پر مفروضات اور فحش لغوی، نحوی ودیگر غلط بیانیوں کے ذریعے اپنے اس موہوم تضاد کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔ جب ان کی غلطیوں پر ان کی گرفت کی جاتی، تو اس کا جواب دینے کے بجائے، آئیں بائیں شائیں کرتے، یا موضوع سے ہٹ کر کچھ نئے بلنڈرز لے آتے۔ بعد کی تکرار کے علاوہ اٹھائے گئے چند اہم پوائنٹس پر مکالمہ پیش ہے۔

ایاز نظامی صاحب نے لکھا :

اب سورۃ حم سجدہ کے مطابق ترتیب یوں ہوئی:

1- تخلیق ارض 2- متعلقات ارض ( جس میں دحو، ارساء، برکت اور تقدیر اقوات سب کو شامل کرلیجئے) 3- تسویہ سماء

اور سورۃ النازعات کے مطابق ترتیب یوں ہے:

1- تسویہ سماء (رفع سمکھا فسواھا) پھر اس کے بعد 2- تخلیق ارض (جسے قرآن نے دحو کہا ہے) اور پھر اس کے بعد 3- اخراج لماء من الارض اور ارساء الجبال

اور ان دونوں ترتیبوں میں فرق بالکل نمایاں ہے۔ اس لئے میرے نزدیک اپ کی اس قدر محنت کے باوجود تضاد جوں کا توں اپنی جگہ پر قائم و دائم ہے۔

ہم نے عرض کیا کہ جب واو ترتیب کے لئے نہیں آتا، تو تخلیق ارض کے بعد متعلقات ارض کس دلیل سے درج کیے گئے؟؟

دوسری زبردستی آپ نے نازعات میں تخلیق ارض کے لفظ زبردستی شامل کرکے، اوپر سے ایک اور زبردستی کی کہ تخلیق کو قران نے دحو کہا ہے!! ہرگز نہیں کہا!! آپ ایک بھی شاہد نہیں پیش کرسکتے!! اور تناقض وتضاد پر مبنی زبردستی کا ایک اور کارنامہ یہ کہ دو سطر قبل خود دحو کو متعلقات ارض میں مابعد التخلیق شمار کیا!!

تیسری زبردستی، اخراج ماء ومرعی کو دحو سے الگ مرحلہ شمار کیا، جناب اگر عربی اسلوب سے واقف ہیں، تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اگر ایسا ہوتا تو “واخرج منہا۔۔۔” کہا جاتا، اخرج منہا صاف طور پر ماقبل ہی کی تشریح ہے!!

ایاز نظامی:

 //جب دحو خود تخلیق کا ہی ایک مرحلہ ہے تو اسے تخلیق کہنے میں کیا مانع و حارج ہے//

مرزا احمد وسیم بیگ:

 دحو تخلیق کا مرحلہ ہے، عین تخلیق نہیں! پس جو تخلیق سورہ بقرہ اور سورہ حم میں تسویہ سماء سے پہلے بیان کی گئی ہے، اس سے اس کا کوئی تعارض نہیں، بلکہ دحو اس تخلیق سے مختلف اور بعد کا مرحلہ ہے! البتہ دحو تخلیق کا مترادف ہرگز نہیں، جو آپ باور کرانا چاہ رہے ہیں، اور جس کے بغیر آپ کا تضاد کا مقدمہ ثابت نہیں ہوسکتا!!!

ایاز نظامی:

کیا دحو کے بغیر اخراج الماء و مرعیٰ اور ارساء الجبال ممکن ہے ؟

مرزا احمد وسیم بیگ:

 جناب ‘دحو’ نام ہی ان سارے کاموں کا ہے! زمین کو بچھانا، ہموار کرنا، زندگی کی حامل مخلوقات کے رہنے سہنے کے لئے تیار کرنا، جو کچھ چیزیں اللہ نے تخلیق کے ابتدائی مرحلے میں اس میں رکھ دی تھیں، یا جن کی اصل تخلیق فرما دی تھی، ان کو نکالنا، مقررہ مقدار میں اپنی حکمت ومشیت سے پھیلانا!!! اور اسی میں اخراج ماء ومرعی بھی آتا ہے، اور ارساء جبال بھی!!! میں نے واضح کیا کہ اگر اخراج ماء ومرعی دحو سے الگ کوئی چیز ہوتی تو واؤ استئنافیہ کے ساتھ، واخرج منہا ماءھا ومرعاھا کہا جاتا، اس کو سمجھنے کے لئے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، اوپر آسمان والی آیات پر غور فرمائیے، “بناھا” کی تشریح شروع کی گئی تو واو نہیں لایا گیا، “رفع سمکھا” اور “سواھا” کو جوڑنے کے لئے فا لایا گیا، پھر “اغطش” کی جگہ واو کے ساتھ “واغطش” کہا گیا۔

(جناب نظامی نے یہاں ضعیف حدیث کے ذریعے اپنے مقدمے میں جان ڈالنے کی کوشش میں کے بارے میں کچھ انتہائی مضحکہ خیز تبصرے کیے، موضوع سے غیر متعلق ہونے کے لئے ہم یہاں اس سے صرف نظر کرتے ہیں، لیکن اصل مناظرے میں اس پر ان کی اچھی طرح پکڑ کی گئی تھی، دلچسپی رکھنے والے حضرات اصل مناظرے میں ہمارا کمنٹ نمبر 17 اور 18 ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ اسی طرح رتق وفتق کے قرآنی الفاظ اور تحریف کلام اللہ کی جسارت پر ہمارا رد کمنٹ نمبر 21 میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ نیز وہ آیت جن میں یہ الفاظ آئے ہیں ان پر ہمارے جوابات کے خلاصے کے لئے ہمارا کمنٹ نمبر 23 ملاحظہ فرمایا جائے۔)

ایاز نظامی:

 آپ کو ابھی تک حم سجدہ کی آیات اور نازعات کی آیات میں تضاد واقعی نظر نہیں آیا ؟ یا تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں ؟ کیا آپ ان کے ظاہرا متضاد ہونے سے بھی انکاری ہیں ؟ مختصر ترین جواب ضرور دیجئے گا۔

مرزا احمد وسیم بیگ: جی جناب، ہمیں دو مختلف چیزوں کےوقوع کا وقت مختلف ہونے میں کوئی تضاد واقعی نظر نہیں آتا، یوں سمجھیں کہ “کمرے کی چنائی چھت پڑنے سے پہلے ہوئی تھی”، اس بات میں اور اس میں کوئی تعارض نہیں ہے کہ “کمرے کی فنشنگ چھت پڑنے کے بعد ہوئی تھی”، اگرچہ کمرے میں فنشنگ کا سامان پہلے ہی کیوں نہ رکھ دیا گیا ہو! یقینا پرائمری کا بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس میں کوئی تعارض نہیں ہے!!

آخر کار ہم نے اپنے چوتھے جواب میں بحث کا خلاصہ کچھ یوں کیا:

اب تک کی بحث کا خلاصہ:

  • * پیش کردہ آیات کا مقصود اللہ کی عظمت کا بیان، اس کی نشانیوں اور نعمتوں کی یاددہانی ہے، ترتیب کا بیان مقصود نہیں ہے کہ اس سے انسانی ہدایت نہیں جڑی ہوئی… ثم اور بعد ذلک مزید برآں کے معنی میں بھی آتے ہیں..
  • * سادہ طور پر تخلیق کے چار مراحل کہے جاسکتے ہیں، رتق وفتق (زمین وآسمان کا پہلے ملا ہوا ہونا، پھر انہیں جدا کرنا) – خلق الأرض وما فيها من حیث الأصل (زمین اور اس میں جو کچھ بھی ہے، اس کی اصل کا پیدا کرنا) – تسویہ سماء اور دحو أرض (آسمان کی درستگی، اور زمین کی ہمواری)..
  • * جب تک سورہ نازعات میں مذکور دحو کے معنی میں تحریف کرتے ہوئے اسے کل مراحل تخلیق پر محیط نہ مانا جائے، قرآن کے بیان میں کوئی تعارض نہیں بنتا… اس لئے کہ دحو اور چیز ہے اور سورہ بقرہ اور حم سجدہ میں مذکور ‘خلق’ اور چیز ہے.. نیز خلق ہر جگہ اپنے تمام مراحل کو شامل ہو یہ ضروری نہیں… پس دو الگ الگ چیزوں کے وقوع کا وقت مختلف ہونا تضاد کیونکر کہلا سکتا ہے؟
  • * سورہ نازعات میں مذکور دحو کا معنی “والأرض بعد ذلک دحاها” کے فورا بعد اگلی ہی آیت میں بیان ہوا ہے “اخرج منھا ماءھا ومرعاھا” لہذا اسے ‘خلق’ یعنی عدم سے وجود میں لانا سے بدلنا بد دیانتی ہوگا…
  • * سورہ حم سجدہ کی آیت “وجعل فیھا رواسي من فوقها وبارک فيها وقدر فيها أقواتها في أربعة أيام” میں ہم نے جو معنی اختیار کیا ہے، وہ یہ ہے کہ یہی دحو کا مرحلہ ہے، اسے اس وجہ سے مقدم کیا گیا ہے کہ یہاں اللہ عزوجل بندوں پر اپنے احسان شمار فرما رہا ہے، لہذا اس کو زمین کی تخلیق کے ساتھ بیان کرنا مناسب حال ہوا، اور اس میں موجود واؤ ایسا کوئی تقاضہ نہیں کرتا کہ ماقبل مستقل اور الگ آیت میں مذکور مرحلے اور اس مرحلے میں کوئی فاصلہ نہ ہو، نہ اسے ماقبل سے جوڑ کر مرتب کرنا اس سے سمجھ میں آتا ہے.. ایسی صورت میں مذکورہ آیت جملہ معترضہ شمار ہوگی اور اگلی آیت “ثم استوى الی السماء…” میں ثم کا عطف، مذکورہ آیت سے پہلے والی آیت “قل ائنکم لتکفرون بالذی خلق الأرض فی یومین” میں “خلق الأرض” پر ہوگا.. یہ چیز لغت کے کسی قاعدے سے متعارض نہیں ہے…
  • * واضح رہے کہ آیت میں ایک دوسرے احتمال کی بھی بھرپور گنجائش موجود ہے جسے ہم نے جان بوجھ کر نظر انداز کیا تھا کہ ایک ہی پر ٹک کر بات کی جائے، وہ یہ ہے کہ یہاں پہلی دونوں آیات، یعنی “خلق الأرض” والی اور “وجعل فیھا…” والی آیات کو ایک ہی مرحلے میں شمار کیا جائے، اور اس سے وہی مراد لیا جائے جو سورہ بقرہ میں مذکور ہے… (یعنی زمین اور اس میں جو کچھ ہے، اس کی اصل کو پیدا کرنا) کیونکہ اس میں کہیں بھی پھیلانے اور نکالنے وغیرہ کا ذکر نہیں ہے، بلکہ صرف مقدر کرنے یا ٹھیک ٹھیک اندازہ کرکے رکھ دینے کا ذکر ہے! پس یہ دحو سے مختلف اور متقدم “خلق لکم ما فی الارض جمیعا” والا مرحلہ بھی ہوسکتا ہے… اس صورت میں مابعدِ “ثم” ماقبل کے تمام امور پر معطوف ہوکر بھی نازعات میں مذکور دحو سے متعارض نہیں ہوگا..
  • * اسی طرح کا ایک احتمال یہ بھی ہے کہ “ثم” کے لفظ سے ترتیب نہ مراد لے کر اسے برائے فصل مان لیا جائے، اور عربی زبان وادب میں اس کی بھی گنجائش اور مثالیں موجود ہیں، ملاحظہ فرمائیں لغت کی ایک اہم کتاب المصباح المنیر کا حوالہ:
  • “ثُمَّ :  حرف عطف وهي في المفردات للترتيب بمهلة وقال الأخفش هي بمعنى الواو لأنها استعملت فيما لا ترتيب فيه نحو والله ثم والله لأفعلن تقول وحياتک ثم وحياتک لأقومن وأما في الجمل فلا يلزم الترتيب بل قد تأتي بمعنى الواو نحو قوله تعالى {ثم الله شهيد على ما يفعلون} <يونس: 46>undefined أي والله شاهد على تکذيبهم وعنادهم فإن شهادة الله تعالى غير حادثة ومثله {ثم کان من الذين آمنوا} <البلد: 17>undefined <المصباح المنير في غريب الشرح الکبير (1/ 84)>undefined

ترجمہ:

.ثم، حرفِ عطف ہے،جو مفردات (يعنی تنہا تنہا کلمات ) میں ترتیب کا فائدہ دیتا ہے،اخفش کہتے ہیں کہ یہ بمعنی “اور” کے ہے، کیونکہ یہ ان جگہوں میں بھی مستعمل ہے،جہاں پر ترتیب نہیں ہوتی۔ جیسے اللہ کی قسم پھر اللہ کی قسم، میں یہ ضرور کروں گا۔  جیسا کہ آپ کہتے ہیں تمہاری زندگی کی قسم پھر تمہاری زندگی کی قسم،میں ضرور کھڑا ہوں گا۔

جہاں تک جملوں کی بات ہے تو ان میں ترتیب کوئی لازم نہیں، بلکہ “اور” کے معنی میں آتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا : {ثم الله شهيد على ما يفعلون} <يونس: 46>undefined “اور اللہ شاہد ہے اس پر جو وہ کرتے ہیں”۔یعنی اور اللہ انکی تکذیب اور عناد پر گواہ ہے۔ کیونکہ یقیناً اللہ کا شاہد ہونا غیر حادث ہے۔ اسی کی مثال ہے؛{ثم کان من الذين آمنوا} <البلد: 17>undefined” اور وه ایمان والوں میں سے تھے۔۔۔”

تو جناب اس توضيح سے تو جنابِ نظامی کے سارے مقدمے کی اساس ہی منہدم ہوگئی ! جملوں میں تو ‘ثم’ ترتیب کے لئے آتا ہی نہیں ہے!

اس لحاظ سے سورہ بقرہ اور سورہ حم میں ترتیب صرف بیان کی ترتیب مانی جائے گی، وقوع کی ترتیب نہیں مانی جائے گی، یا اسے مزید برآں کے معنی میں لیا جائے گا! اس طرح “دحو” کو تخلیق قرار دینے والے وہم کے برقرار رہتے ہوئے بھی تضاد جاتا رہتا ہے!

اسی کے برعکس احتمال بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ یہی معاملہ بعد ذلک کا بھی ہے، بعد ذلک کو مزید برآں کے معنی میں لینے میں بھی لغت میں کوئی رکاوٹ نہیں! (ملاحظہ فرمائیں ہمارا کمنٹ نمبر 10)

نوٹ: کوئی یہ نہ کہے کہ ہم تو اقرار کر چکے تھے کہ ثم تراخی کے لئے آتا ہے! جی ہاں، ہم اب بھی کہتے ہیں کہ ثم تراخی کے لئے آتا ہے، لیکن یہ نہیں کہتے کہ ہرجگہ لازما تراخی ہی کے لئے آتا ہے! لہذا یہ احتمال اپنی جگہ بالکل قائم ہے!

  • * تضاد اس وقت ہوتا ہے جب کہ ہم کوئی ایسا معنی لینے پر “مجبور” ہوں، جس سے تضاد لازم آئے، جبکہ یہاں ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے… متعدد واضح معانی کا احتمال موجود ہے، جن میں کوئی ٹکراؤ نہیں…
  • * ان احتمالات میں سے کسی کو بھی اختیار کرنے سے آیات کے اصل مقصود میں کہ جس کا ذکر کیا گیا کوئی فرق واقع نہیں ہوتا…
  • * ہم نے جو معنی اختیار کیا، اور جو وضاحت بیان کی وہ اس مکالمے کے پیش نظر وجود میں نہیں لائی گئی، بلکہ نقل ہوتی ہوئی آئی ہے، چنانچہ بطور مثال صحیح بخاری کتاب التفسیر باب سورة حم السجدة کے اندر ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے.

نظامی صاحب کےچند مزید اشکالات(خلاصے میں مذکور اشکالات کے علاوہ )، جن کو بار بار پوری قوت سے رد کیا گیا، مگر وہ اب بھی ان ہی پر اصرار کر رہے ہیں :

(۱) ان کے بقول رتق اور فتق تخلیق سے متعلق نہیں ہیں، جب کہ ہم نے بتایا کہ سیاق وسباق بھی یہی کہتے ہیں اور لغوی معنی بھی اسی کی تائید کررہے ہیں، اور مفسرین کا بہانہ بھی نہیں چل سکتا کیوں کہ ابن عباس ، حسن ، عطا ، ضحاک اور قتادہ وغیرہ سلف سے اس کی یہ تفسیر ثابت ہے (دیکھیں طبری وقرطبی ودیگر کتب تفسیر) کہ زمین وآسمان ملے ہوئے تھے!اسی ضمن میں رتق اور فتق کے معنی کو بھی رکھ لیں، جسے ہم نےکمنٹ نمبر7 اور  13 میں بیان کیا۔۔۔ اور نظامی صاحب کے کمنٹ نمبر 13 کے جواب (کمنٹ نمبر 21) میں مزید اس کی توکید بھی کردی گئی!

(2) آنجناب کا خیال ہے کہ لفظ تخلیق چونکہ بعض جگہوں پر تمام مراحل کو شامل ہے، اس لئے ہر جگہ اس سے تخلیق کے تمام مراحل مراد لیے جائیں، جس کے بعد کسی اضافی تکمیلی، تحسینی، تزئینی وغیرہ مرحلے کی گنجائش نہ ہو! حالانکہ کامن سینس کی بات ہے کہ اگر ایک جگہ یا بعض جگہوں پر تخلیق کا لفظ بول کر اس کے تمام مراحل مراد لئے گئے ہیں تو یہ بالکل بھی ضروری نہیں کہ ہر جگہ اس سے تمام مراحل مراد لئے جائیں، اس پر ہم نے واضح شواہد خود قرآن ہی سے پیش کیے، مگر نظامی صاحب نے اس پر توجہ دینے یا ان کا جواب دینے کی زحمت گوارہ نہیں فرمائی! اسی ضمن میں ان کا یہ اشکال ہے کہ “تسویہ” اور “دحو” تخلیق سے کوئی الگ چیز نہیں، بلکہ ہر جگہ تخلیق میں یہ شامل ہے ، جو کہ ایک بے بنیاد ضد ہے!

(3) دحو کو آنجناب تخلیق ہی قرار دیتے ہیں، حالانکہ دحو کی تشریح خود قران ہی نے کردی جیسا کہ بار بار عرض کردیا گیا! اور دحو کے معنی تخلیق کے ہرگز کسی لغت میں نہیں ہیں!

(4) نظامی صاحب کے خیال میں ترتیب جو ہم بیان کر رہے ہیں وہ قرآنی نہیں ہے، حالانکہ عین قرانی ترتیب ہم بیان کررہے ہیں!یعنی پہلے رتق وفتق پھر زمین اور جو کچھ اس میں ہے اس کی من حیث الاصل تخلیق، پھر آسمان کا “تسویہ” ، پھر زمین کا “دحو” یعنی لوازمات حیات سے اسے آراستہ کرنا! (ملاحظہ فرمائیں ہمارا کمنٹ نمبر 16 ودیگر مقامات)

(5) یہ شبہہ کہ ثم اور بعد ذلک ہر جگہ ترتیب وقوع کے لئے آتے ہیں،حالانکہ ایسا نہیں ہے، جیسا کہ ہم نے بتایاثم بھی، صرف جملوں کی ترتیب یا بیان کی ترتیب کے لئے آسکتا ہے، اور بعد ذلک میں “بعدیت” وجود میں آنے کی ترتیب کے علاوہ بھی متعدد چیزوں کی طرف راجع ہوسکتی ہے!

(6) حدیث ضعیف سے استدلال پر بھی نظامی صاحب کو اصرار ہے، حالانکہ حدیث ضعیف کہتے ہی اسےہیں جس کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ثابت ہی نہ ہوتی ہو!

(7) ایک نہایت اہم اشکال جو سارے فساد کی جڑ ہے، وہ نظامی صاحب کی یہ بچکانہ سوچ کہ اگر کسی کے بھی ذہن میں کوئی ایسا معنی آجائے جس سے تضاد لازم آتا ہو، تو تضاد ثابت ہوسکتا ہے! حالانکہ تضاد صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے، جب کہ ہم ایسا معنی لینے پر مجبور ہوں، جس سے تضاد لازم آرہا ہو!! جب کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہاں متعدد معانی کی اس خوبصورتی سے گنجائش ہے کہ اصل مقصود پر ذرہ بھر بھی فرق نہیں پڑتا، اور تضاد کا کوئی شائبہ تک بھی نہیں پایا جاتا!!

یوں بحث یہیں اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی تھی، بلکہ اس سے بہت پہلے، کیوں کہ نظامی صاحب کے پاس ہماری معروضات کے جواب میں سوائے تکرار کے کچھ نہیں تھا، لیکن پھر بھی ان کی خواہش پر اسے دو جوابات تک اور جاری رکھا گیا۔جواب نمبر پانچ میں ہم نے ان کی ہر تکرار میں صرف پچھلے جواب کا حوالہ دینے پر اکتفا کیا، البتہ آخری جواب کے کچھ حصے بشمول حرف آخر ملاحظہ فرمائیں:

نظامی صاحب نے فرمایا: ///

بہت عجیب بات فرمائی مولانا صاحب نے کہ قرآن ایک جگہ کہتا کہ ہم نے زمین بنائی اور دوسری جگہ فرماتا کہ ہم نے زمین نہیں بنائی تو تب تضاد ثابت ہوتا، لہذا اگر قرآن ایک جگہ کہتا ہے کہ ہم نے پہلے زمین بنائی اور اس کے بعد آسمان بنایا اور پھر دوسری جگہ کہے کہ ہم نے آسمان بنایا اور اس کے بعد زمین بنائی تو یہ کوئی تضاد ہی نہیں ہے۔ بہت خوب ///

جواب:

عجیب اس لئے لگی جناب کو یہ بات کہ تضاد کا مفہوم جب کھلے کھلے لفظوں میں بیان کیا گیا، تو آنجناب نے توجہ نہیں فرمائی، جب ایک مثال سے اسے سمجھانے کی کوشش کی گئی تو آنجناب نے اس سے من چاہا مفہوم اخذ کرلیا!! جناب من! تضاد کا فیصلہ کرنے میں سیاق وسباق اور موقعہ ومحل ہر چیز کی رعایت کی جائے گی، جیسا کہ آپ کو بار بار سمجھانے کی کوشش کی گئی۔ بارہا کلام میں مخصوص وجوہات اور حکم ومصالح کی بنیاد پر تقدیم وتاخیر ہوتی ہے، میں نے عرض کیا کہ نازعات کے اندر “اشد الخلق” کی بات چل رہی ہے، سو آسمان کا ذکر پہلے مناسب حال تھا، اگرچہ کہ اس کے بعد زمین کی تخلیق کا نہیں، بلکہ زمین کے دحو کا ذکر کیا گیا، اور آپ کو چیلنج کیا کہ کسی لغت سے دحو کے معنی خلق لاکر دکھا دیجئے! دوسری طرف حم سجدہ کے بارے میں عرض کیا کہ وہاں رد شرک کے سیاق میں بندوں پر احسانات کا ذکر چل رہا ہے، لہذا وہاں زمین کے متعلقات کو پہلے یکجا کردیا گیا ہے، کہ انسان جن نعمتوں سے بہرہ اندوز ہوتا ہے، ان کا براہ راست تعلق اسی زمین سے ہے! مگر اسلوب بیان میں پھر بھی اس بات کی بھر پور رعایت کی گئی کہ جملہ معترضہ جملہ معترضہ ہی رہے اور سمجھا جا سکے، اور اصل سلسلہ کلام بھی نہ ٹوٹنے پائے، اس طرح کہ آسمان کے تسویہ کوزمین کے پیدا کرنے پر عطف کیا گیا، جب کہ متعلقات ارض کو ایسے پیرایے میں لایا گیا کہ اس کی ترتیب ہی لازم نہیں آتی، اور وہ پوری بیانی وبلاغی وسعت کے ساتھ جملہ معترضہ ہی رہتا ہے! گوکہ یہ امر پھر بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ دحو کا لفظ یہاں نہیں ہے، اور اس بات کی بھرپور گنجائش ہے کہ اس جملہ معترضہ میں بھی اسی بات کا ذکر ہو، جس کا سورہ بقرہ میں ہے، یعنی ان تمام چیزوں کی اصل کو ٹھیک ٹھیک متعین مقدار میں صرف رکھ دیا جانا، جنہیں دحو ارض کے مرحلہ میں پھیلایا اور سجایا گیا! ! یہ تو اس قرآن کا اعجاز ہے! کہ ہر مقام اور سیاق کے اعتبار سے بہترین اور مناسب ترین ترتیب کے باوجود کہیں پر بھی تناقض نہیں ہوتا،الا یہ کہ آدمی کٹ حجتی کی قسم کھالے! اور آنجناب کو اصرار ہے کہ آپ کی کج فہمی کو قرآن کا تضاد مان لیا جائے!

نظامی صاحب آگے فرماتے ہیں:

 ///گویا زید کہتا ہے کہ میں جمعرات کو لاہور گیا پھر کہتا ہے کہ میں جمعہ کو لاہور گیا تو یہ کوئی تضاد ہی نہیں ہے، کیونکہ تضاد تو تب ہوتا کہ زید پہلے یہ کہتا کہ میں جمعرات کو لاہور گیا اور پھر کہتا کہ میں جمعرات کو لاہور نہیں گیا۔ مولانا صاحب! تضاد تسلیم نہ کرنے کی یہ رعایت صرف قرآن کو ہی حاصل ہے یا زید کو بھی اس معاملے میں آپ یہی رعایت دینے کیلئے تیار ہیں ؟ //

جواب:

 بے شک، اگر زید ایسا کہے تو اس سے لازماتضاد نہیں سمجھا جاسکتا، کیونکہ عین ممکن ہے کہ وہ جمعرات کو بھی لاہور گیا ہو، اور جمعہ کو بھی لاہور گیا ہو!

نظامی صاحب:

//اس مسئلہ کا حل مولانا نے یہ نکالا ہے کہ سورۃ حم سجدہ سے ترتیب کا ہی انکار کر دیا جائے۔ جب خود قرآن کے الفاظ سے ترتیب کا بیان معلوم ہو رہا ہے تو کسی اور کے پاس بھلا کیا گنجائش رہ جاتی ہے کہ وہ سورۃ حم سجدہ سے ترتیب کا انکار کرے۔ پورے قرآن میں سورہ حم سجدہ کی آیات ہی وہ آیات ہیں جن میں تفصیل سے تخلیق ارض و سماء کو بیان کیا گیا ہے، اور باقاعدہ دنوں کی تعداد بیان کرکے بتایا گیا ہے کہ زمین و آسمان کو کب اور کیسے بنایا گیا ہے۔ اس لئے زمیں و سماء کی تخلیق کی وضاحت کا اصل استدلال سورہ حم سجدہ کی آیات سے ہی بنتا ہے، اور سورۃ النازعات کی آیات اس سے واضح طور پر متصادم ہے۔ سورۃ حم سجدہ میں بیان شدہ تفصیل نے مومنین کیلئے کوئی موقع چھوڑا ہی نہیں ہے کہ سورہ النازعات کے آیات سے اس تضاد کی کوئی تاویل بیان کی جا سکے، اس کا واحد حل یہ ہے کہ سرے سے ترتیب کا ہی انکار کر دیا جائے، اب محض قرآن کے تضاد کو چھپانے کیلئے تو قرآن کو یہ رعایت نہیں دی جا سکتی نا۔ کیونکہ ثمّ کا حرف اصلا تراخی یعنی تاخیر کو بیان کرنے کیلئے وضع کیا گیا ہے اب اسے اس کے اصل معنیٰ سے ہٹانا ہے تو اس کیلئے ایک قرینہ درکار ہے اور قرینہ یہ ہے کہ ترتیب کو تسلیم کر لیا جائے تو قرآن میں تضاد واقع ہوتا ہے۔ //

جواب:

 جناب نظامی صاحب کے پاس چونکہ ان ادلہ کا تو کوئی جواب نہیں ہے جن کی روشنی میں سورہ حم سجدہ کی آیا ت کی تشریح کی گئی، لہذا اب ان کے پاس صرف یہی حل رہ جاتا ہے کہ بجائے دلیلوں کا جواب دینے کے الٹا ہم ہی پر ترتیب کے انکار کا الزام دھر دیا جائے، اور اس بحث کی متابعت کرنے والوں کو اب اس کی بھی حاجت نہیں رہ گئی کہ انہیں بتایا جائے کہ کہاں کہاں ہم نے اس بہتان کی تردید کی ہے! کیونکہ بلادلیل یہ دعوی جتنی بار آپ دہرا چکے ہیں، اتنی ہی بار ہم اس کی تردید بھی کرچکے ہیں! دوسرا حل یہ ہے کہ قرآن کی خودساختہ تشریح کی جائےاور لازما اسے ماننے کا مطالبہ کیا جائے! حالانکہ ان کا الزام نہ صرف یہ کہ لازم نہیں، بلکہ بے بنیاد بھی ہے!

ثم پر بھی ہم نے بات کی، اگرچہ کہ ہمارے موقف کی صحت اس پر ٹکی بھی نہیں، جیسا کہ اسی آخری جواب کی مختصر وضاحت سے بھی ظاہر ہے، اور اس پوری بحث سے بھی اظہر من الشمس ہو چکا ہے! اس کے باوجود ہم نے باقاعدہ لغت کی کتاب سے حوالہ دیا، اپنے کمنٹ نمبر 24 اور 25 میں کہ ثم جملوں میں ترتیب کے لئے تو اصلا آتا ہی نہیں، اور آنجناب قرینے ڈھونڈنے میں مصروف ہیں، پھر بھی، اتمام حجت کے لئے، کہ کہیں آسمان سے ٹپک کر کھجور پر اٹکنے کا بہانہ نہ مل جائے، ہم نے متعدد بار سیاق کلام اور مناسبات ، موقع ومحل پر بھی بات کرلی (ملاحظہ فرمائیں: کمنٹ نمبر 4، کمنٹ نمبر 10، نیز کمنٹ نمبر 24 خلاصہ۔۔ مزید اس کمنٹ کی ابتداء میں بھی اس کی طرف اشارہ کردیا!)

قرینے کے بارے میں آنجناب کو یاد دلادوں کہ قرینہ لفظیہ بھی ہوتا ہے، اور معنویہ بھی، قرینہ داخلی بھی ہوتا ہےخارجی بھی! مگر ناظرین آنجناب کی دوغلی پالیسی ملاحظہ فرمائیں، فرماتے ہیں کہ “اور قرینہ یہ ہے کہ ترتیب کو تسلیم کر لیا جائے تو قرآن میں تضاد واقع ہوتا ہے” یعنی، اگر قرآن کے ایک مقام دوسرے مقام کی تشریح کرے، تو آنجناب نے اسے نہیں ماننا، بلکہ اگر ایک جگہ واقع اجمال کی دوسری جگہ تفصیل، یا عموم کی تخصیص، یا اطلاق کی تقیید، یا ابہام کی تفسیر آئے تو اسے تضاد شمار کرنا ہے،اور یہ سب قرائن ہی ہوتے ہیں! مگر دیکھیے کہ خود ہی قرینے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں، اور ساتھ ساتھ کہتے بھی جار ہے ہیں کہ قرینہ جو پیش کرو گے اسے تو میں نے ماننا نہیں ہے، بلکہ اسے تضاد بتانا ہے! جناب، یہی ہم آپ کو سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اگر ایک مقام کا کلام دوسرے مقام کے کلام کی تفسیر بننے کی گنجائش رکھتا ہے، تو اسے تضاد نہیں کہتے! مگر آنجناب کا اصرار ہے کہ نہیں، ہر جگہ کو علاحدہ علاحدہ کرکے آنجناب کی رہنمائی میں سمجھیں، تاکہ جو تضاد آنجناب سجھانا چاہیں، وہ بآسانی ذہن نشین ہوسکے!

چلیں کوئی بات نہیں! آج اس سلسلے میں بھی حجت تمام کر ہی دیتے ہیں! آپ کو قرینہ چاہئے نا؟ وہ بھی داخلی( یعنی خود زیر بحث مقام ہی پر؟؟ ) اور وہ بھی لفظی؟ تو جناب غور فرمالیجئے حم سجدہ کی اس آیت پر  : { ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ کَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ} <فصلت: 11>undefined “پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو کہ دھواں سا تھا، پھر اس سے اور زمین سے کہا (غور کرنے کا یہی مقام ہے) کہ تم “دونوں” آجاؤ طوعا یا کرہا، “دونوں” نے کہا کہ ہم بخوشی آتے ہیں”

واضح رہے کہ یہ آیت حم سجدہ کی ان دو آیات کے بعد آئی ہے جن میں خلق ارض اور متعلقات ارض کا ذکر ہے، اور تسویہ سماء والی آیت اس کے بعد ہے!

اب ملاحظہ فرمائیے کہ اس اسٹیج پر آسمان کا بخوشی آنا تو اس کو سات طبق بنانا ہوا، بھلا “زمین کا آنا” قرینہ نہیں ہے ہمارے موقف پر کہ درمیانی آیت جملہ معترضہ ہے، اور اگر نہ ہو تو دحو ارض سے مختلف ہے۔۔۔ کیونکہ یہ آیت صراحت کر رہی ہے کہ ابھی زمین کا کچھ کام باقی تھا!

خلاصہ:

 میں امید کرتا ہوں کہ میں نے نظامی صاحب کے اشکالات کو رفع کرنے کی جو کوشش کی، اس سے ناظرین کو اچھی طرح معلوم ہوگیا ہوگا کہ قرآن کریم کی جن آیات کے اندر تضاد کا دعوی کیا گیا تھا، وہ بالکل بھی متضاد نہیں ہیں! کیونکہ ہم ایسا کوئی معنی لینے کے لئے لغوی، بلاغی، بیانی کسی ناحیے سے مجبور نہیں ہیں، جیسا معنی لینے کے لئے نظامی صاحب زور لگا رہے ہیں، اور جس سے کہ تضاد لازم آتا ہو!

ہم نے واضح کیا کہ دحو کا معنی کسی لغت میں تخلیق نہیں ہوتا، واضح کیا کہ حم سجدہ میں ترتیب (اگر وہ مقصود ہے بھی تو) خلق ارض اور تسویہ سماء کے مابین ہے، اور متعلقات ارض کا ذکر وہاں یا تو جملہ معترضہ کے طور پر لایا گیا ہے کیونکہ سیاق کا تقاضا یہی تھا، اور ایک بلیغ کلام میں صرف ظاہری وقوعی ترتیب کی نہیں بلکہ معنوی اور بلاغی ترتیب ہی اہم ہوتی ہے! یا پھر اس کا مفہوم صرف اسی قدر ہے، جو کہ سورہ بقرہ کی آیت میں مذکور ہے، یعنی ان چیزوں کی اصل کا رکھ دیا جانا ۔۔ اور نازعات میں آسمان کے بنانے اور زمین کے دحو کے درمیان ترتیب ہے (اگر وہ مقصود ہو تو)! یعنی جن متعلقات ارض کی اصل پہلے مرحلے میں رکھ دی گئی تھی، ان کو پھیلانا۔۔

 یوں دونوں کو ملانے سے، ترتیب اس طرح بنتی ہے، خلق ارض، تسویہ سماء اور دحو ارض۔۔۔ اور اس طرح یہ وہم ختم ہوجاتا ہے، جو بعض کج فہمیوں پر مبنی تھا!

یاد دلاتے چلیں کہ یہاں بار بار وضاحت کرنے کے باوجود نظامی صاحب نے جن کج فہمیوں، نیز لغوی ونحوی غلطیوں یا مفروضات اور زبردستیوں پر اپنے استدلال کی بنیاد رکھی اور جن پر آخر تک قائم رہے، اور کسی ایک بھی علمی مقام پر اپنی غلطی تسلیم نہیں کی ، وہ یہ ہیں: (1) دحو سے خلق مراد ہونا، (2) خلق میں ہر جگہ دحو کا شامل ہونا، (3) فتق کا معنی اصلاح ہونا، اور رتق کا معنی رکا ہوا ہونا یا بنجر ہونا۔۔(واضح رہے کہ فتق کا معنی اصلاح ہرگز نہیں ہوتا، بلکہ اس کی عین ضد یعنی پھاڑنا، شگاف ڈالنا ہوتا ہے، جب کہ رتق کا معنی پھٹے ہوئےکو جوڑنا یا ملانا، اسی معنی میں اس کے تحت بند ہونا بھی شامل ہے، مگر بند ہونا بمعنی رکنا اس کا معنی نہیں، اسی مذکور معنی میں اس کے ضمن میں اصلاح کا لفظ بھی آیا ہے، مگر اردو والی اصلاح وہ ہرگز نہیں ہے۔) (4) “رأی” سے ہر جگہ رویت بصری مراد ہونا، نیز اس کے لئے مخاطب کا وقوع کے وقت موجود ہونا (5) “ثمّ” سے ہر حال میں (جملوں میں بھی) ترتیب کا مراد ہونا (6) ترتیب ہر حال میں وقوع ہی میں ہونا، کسی معنوی امر میں نہ ہونا (7) کلام میں جملۂ معترضہ کے وجود کو مسلسل نظر انداز کرکے عملا اس کا انکار کرنا (8) واؤ کے ذریعے (اور اگر اس کے ذریعے نہیں تو بلا سبب) دو مرحلوں کو آپس میں حتمیت کے ساتھ فوریت وترتیب کا متقاضی گردانتے ہوئے نتھی کرنا (9)تضاد کا یہ غلط مفہوم سامنے رکھنا کہ اگر کسی کے بھی ذہن میں قرآن کا یا کسی بھی کلام کا ایسا مفہوم آجاتا ہے، جو متضاد ہے، تو اس سے تضاد ثابت ہوسکتا ہے (10) تضاد کے پائے جانے کے شرائط کو مسلسل نظر انداز کرنا، جیسے دو مختلف چیزوں کے وقوع کے وقت میں اختلاف کو تضاد گردانتے رہنا! (۱۱) حدیث ضعیف کو دلیل گرداننا،(نیز حاکم کی تصحیح کو حتمی سمجھنا حالانکہ وہ متساہل ہیں۔)

یہ اور ان جیسے کچھ اوربے بنیادمفروضات تھے، جن پر نظامی صاحب کا مقدمہ قائم تھا، اور جب نظامی صاحب اپنی بنیادوں ہی کا دفاع نہ کرسکے، تو بھلا مقدمہ کیسے قائم رہ سکتا ہے؟؟

آخری بات:

ناظرین! بحث کو آپ نے ملاحظہ فرمایا، جس کا خلاصہ میں نے یہاں پیش کیا۔۔۔ دراصل نظامی صاحب کچھ پرانے وقتوں کے مزاعم میں ہیں! کچھ بوسیدہ نظریات جو انہوں نے اپنے زمانۂ طالب علمی میں صحیح علمی ماحول نہ ملنے کی وجہ سے بنا لیے تھے ان سے چمٹے ہوئے ہیں، مثالیں اس بحث میں بہت ہیں، جن میں سے چند کا تذکرہ میں نے خلاصے میں کیا، اب مثلا ضعیف حدیث کے بارے میں آنجناب کے تصور کو لیجئے! تو ہم ان کی خدمت میں بصد احترام عرض کریں کہ جناب یہ پرانے (درمیانے) وقتوں کی بات ہوگئی جب احادیث کی تحقیق پر کچھ خاص زور نہیں دیا جاتا تھا! عالم اسلام نے پچھلے دنوں ایک نئی علمی بیداری دیکھی ہے، کمیونیکیشن کے جدید ترین وسائل نے اس نہضت ونشات کو عالمی بنا دیا، عالم عرب کے ساتھ انٹریکشن اور جدید محققین، مثل شعیب ارنؤوط، احمد شاکر، البانی وغیرہم کی مساعی سے بہرہ مند ہونے کے سبب برصغیر میں بھی یہ پرانی فکر عرصہ ہوا ترک کردی گئی ہے! اور اب یہاں کے مدارس بھی علوم حدیث اوررجال وغیرہ پر زور دینے لگے ہیں!

 حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے نظامی صاحب سے شدید ہمدردی ہے؛ کیونکہ شاید انہیں اس سے خوف آتا ہے کہ ان کے فرسودہ خیالات میں ذرا سابھی تزلزل آیا تو کہیں ریت کے اوپر دھری، برسوں میں تعمیر کردہ ان کی فکر کی پوری مائل بہ کجی عمارت اڑاڑادھڑام زمین پر نہ آرہے! مگر نظامی صاحب! میں آپ کو حوصلہ دلانا چاہتا ہوں کہ “ہمت مرداں تو مدد خدا” بخدا کچھ مشکل نہیں کہ آپ اپنے نظریات کا از سر نو جائزہ لیں! پرانے وقت کے مغالطوں اور فریبوں سے نکلیں، گمانوں کی وادئ تیہ کو خیر باد کہہ کر یقین و ایماں کی ارض مقدسہ کی طرف عازم سفر ہوں!

بہر حال! ہمیں یقین ہے کہ اس بحث کو دیکھ کر انصاف پسند قارئین خود ہی فیصلہ کر لیں گے کہ کون اپنی باتوں کی تکرار کر رہا تھا، اور کون دلائل دے رہا تھا! کس کی جانب سے دلائل کو نظر انداز کیا جارہا تھا، اور کس نے فریق مخالف کی ایک ایک دلیل پر گرفت کرکے اس کی کمزوری کو عیاں کیا!

 اور ناظرین سے گزارش کروں گا کہ وہ بالخصوص نظامی صاحب کے لئے دعا کیا کریں! اور ہاں اس عاجز کو بھی خصوصی دعاؤں میں یاد رکھیں!

اللہ تعالی ہم تمام کو حق کہنے اور حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے!

آمین، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

تحریر: مرزا احمد وسیم بیگ

مکمل مناظرہ اس لنک سے آن لائن پڑھیے

Debate-kia-quran-kalam-e-khuda-wandi-hai by ilhaad.com on Scribd