ایمان و الحاد کے مابین جاری بحث “ایمان بمقابلہ عقل” کی بحث نہیں بلکہ “انسانی وجود کی ماھیت” سے متعلق چند ماقبل عقل مفروضات و قضیات سے متعلق ہے۔ مغربی روایت سے تعلق رکھنے والے مفکرین جھانسہ دینے کے لئے اس گفتگو کو “ایمان و عقل” کے عنوان سے پیش کرتے چلے آئے ہیں، گویا “عقل” نامی جنس پر ان کی اجارہ داری ہے۔ چنانچہ ماقبل عقل وجودی حالت کے تعین کے ضمن میں بنیادی سوالات یہ ہیں کہ
(1) انسان کسی کی مخلوق ہے یا آزاد و قائم بالذات وجود؟ یہ سوال خود اس کے اپنی ذات کے وجود سے متعلق ہی نہیں بلکہ اس پوری کائنات کے وجود سے متعلق عمومی سوال کا ایک جزو ہے۔
(2) انسانی وجود کا مقصد کیا ہے؟ یعنی کیا وہ یہاں کسی آزمائش کے لئے رکھا گیا ہے یا کسی بے معنی اتفاق کے طور پر نمو پزیر ہوگیا ہے؟
اگر دوسرے سوال کا وہ جواب درست سمجھا جائے جس کی طرف نظریہ ارتقاء والے مذھب کے متبادل کے طور پر دعوت دیتے ہیں تو اسے قبول کرنے کے نتیجے میں انسان کی وجودی حالت سے متعلق پہلے مفروضے (کہ وہ آزاد و مختار ہے) کی حقیقت، انسان کے علم کی نوعیت اور تصورات اخلاق پر چند نہایت اہم سوالات کھڑے ہوجاتے ہیں:
الف) اتفاق سے وجود میں آنے والی مخلوق ان معنی میں آزاد ہے کہ وہ ان قوانین کو قابو کرلے گی جن سے وہ وقوع پزیر ہوا، ایک احمقانہ بات ہے۔ چنانچہ ایوولوشن کا تصور اور آزادی متضاد چیزیں ہیں
ب) اس پوزیشن کی رو سے انسان کی تمام صلاحیتیں اندھے بہرے اتقاق کی مرھون منت ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ اتفاق کسی ایک طرح سے ہوا، اس کا معنی یہ ہوا کہ اگر یہ اتفاق کسی دوسری طرح ہوتا تو انسان کے پاس بالکل الگ قسم کی صلاحیتیں ہوتیں اور نتیجتا اس کا تصور ذات و حقیقت مختلف ہوتا ہے۔
ج) اس پوزیشن سے معلوم ہوا کہ انسانی ذھن چونکہ سروائیول کے قانون کے تحت نمو پزیر ہوا لہذا اس کا تمام علم ادراک حقیقت سے متعلق نہیں بلکہ “سروائیول” سے متعلق ہے، یعنی سائنس وغیرہ کے ذریعے انسان حقیقت کو نہیں جان رہا بلکہ صرف سروائیول کے امکانات کو وسعت دے رہا ہے کیونکہ انسانی ذھن اسی دائرے میں نمو پزیر ہوا ہے۔ انسان کی سروائیول کی جدوجہد کے علاوہ کائنات کا کیا مطلب ہے، انسانی ذھن یہ کبھی نہیں جان سکتا
د) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اخلاق نامی کسی شے کا کوئی وجود نہیں، بالخصوص لبرل سیکولر اخلاق کا جس کے مطابق سب انسان مساوی ہیں۔ ارتقاء کا تصور بتاتا ہے کہ کوئی بھی انسان مساوی نہیں ہے کیونکہ سب کا ایوولوشل فرق طرح سے ہوا ہے اور نہ ہی کسی کو کوئی مستقل حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔
ہ) دنیا میں جتنے بھی معذور لوگ پیدا ہوتے ہیں وہ انسانی نکتہ نگاہ سے ایک غلط قسم کی اتفاقی میوٹیشن کا نتیجہ ہوتے ہیں لہذا ان لوگوں کو بچانے یا انکی زندگی کو معنی دینے کی کوشش کرنا ایک احمقانہ بات ہے
نظریہ ارتقاء کا عقلی استدلال اور “گیپ فلنگ”: کیا خدا کو ماننا پیچیدہ و ارتقاء کو ماننا سہل ہے؟
نظریہ ارتقاء کے مطابق انسانی عقل کے عمل دخل و صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ “سروائیول” تک محدود کیا جاسکتا ہے جیسے حیوانات کی عقل۔ لیکن یہ جو انسانی عقل میں “استنباط” (deduction)، “حق و باطل میں تمیز”، “ڈسکور (دریافت) کرلینے کی جستجو” و “جمالیاتی حظ” جیسی صلاحیتیں ہیں ان کی کیا توجیہہ ہے جبکہ ان تمام صفات کا بقا سے کچھ لینا دینا نہیں؟ آخر نظریہ ارتقاء کے اندر ان لازمی انسانی صفات کی توجیہہ کیسے ممکن ہے؟ نظریہ ارتقاء کے لئے یہ نہایت مشکل سوال ہے اور اس سوال کا جواب دینے (یعنی “گیپ کو بھرنے”) کے لئے نظریہ ارتقاء والے complexity theory کا سہارا لیتے ہیں جس کے مطابق چند اجزاء کے ملنے سے بسا اوقات ایسے نتائج و صفات ابھر آتی ہیں جو نہ تو متوقع ہوتی ہیں اور نہ ہی اجزاء میں شامل ہوتی ہیں (انہیں emergent properties کہتے ہیں)۔ چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ کے تمام پراسسز پر ابھی تک ہمیں پوری طرح رسائی حاصل نہیں ہوسکی اور ہمیں امید رکھنی چاھئے کہ مستقبل میں اس اصول کے تحت ایسی تحقیق ہوجائے گی جو ان تمام مشکل معاملات و سوالات کو حل کردے گی کہ یہ صفات کیسے ابھر آئیں۔
درج بالا بیان کے اندر بہت سے قابل غور پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ نظریہ ارتقاء اب تک انسانی زندگی اور وجود سے متعلق نہایت اہم سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہے لیکن اپنے مومنین کو یہ “پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ” کی بنیاد پر “پر امید” رہنے ہی کی دعوت دیتا ہے۔ کسی بھی نظام و علمیت کی بقا کے لئے لازم ہوتا ہے کہ اس کے ماننے والے “پرامید” رہیں اور نظریہ ارتقاء بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔
برادر حمزہ زیروٹز کے ایک سوال کے جواب میں مشہور ملحد ڈاکنز کہتا ہے کہ کائنات کی ابتداء کو سمجھنے کے لئے خدا جیسی پییچیدہ ھستی (جو دعائیں سنتی و گناہ معاف کرتی ہے وغیرہ) کو ماننے سے آسان تر یہ مان لینا ہے کہ یہ کائنات کسی تکے سے خود ہی بن گئی ہوگی۔ ڈاکنز جیسے ملحد عام لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے عوامی فورمز پر اسی قسم کی باتیں کیا کرتے ہیں کہ دیکھو ہمارے نظریات و اصول کتنے سادہ ہیں جبکہ مذھبی ایمانیات کتنی پیچیدہ۔ درج بالا مثال سے واضح ہوتا ہے کہ نظریہ ارتقاء کے تحت صرف ایک انسانی وجود سے متعلق ہی چند صفات کی توجیہہ کرنے کی خاطر میتھمیٹکس کی ایک نہایت پیچیدہ برانچ Chaos theory (جس کے اصول و ماڈلز کو اس دنیا میں اعشاریہ ایک فیصد سے بھی کم لوگ سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، یہاں تک کہ ایم ایس سی میتھس کے طلباء کی بھی عظیم اکثریت انہیں سمجھنے سے قاصر ہوتی ہے) کا سہارا لینا پڑتا، اور وہ بھی صرف بطور مثال کیونکہ اب تک اس کے ذریعے بھی ان انسانی صفات کی کوئی توجیہہ فراہم نہیں کی جاسکی (نظریہ ارتقاء کی پیچیدگی کی مزید پیچیدہ جہات بھی ہیں جن کا احاطہ یہاں ممکن و مقصود نہیں)۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ڈاکنز کا یہ کہنا سراسر دھوکہ ہے کہ نظریہ ارتقاء کو مان لینا مذھبی ایمانیات کو مان لینے سے سہل و آسان تر ہے۔