علماء اورلاؤڈسپیکرکی مخالفت

جب کبھی اسلام اور جدید دنیا کے معاملات پر بات ہوتی ہے ،ہمیں ایک جملہ عموما َسننے کو ملتا ہے: “یہ ملا ہر قسم کی ترقی کے خلاف ہیں،جب لاؤڈ سپیکر ایجاد ہوا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ اس کا استعمال حرام ہے”۔”ملاؤں” کی مختلف تحریرات کے مطالعہ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ معتبر اور جید علماء کے بارے میں یہ رائے رکھنا کہ وہ ٹیکنالوجی کے خلاف تھے/ہیں درست نہیں ۔ درحقیقت وہ ٹیکنالوجی کے استعمال کے خلاف نہیں، بلکہ ترقی کے نام پر مغرب اور اس کی ثقافت کی اندھادھند تقلید کے خلاف ہیں۔ (مجوزہ مطالعہ: “اسلام اور جدت پسندی” مصنفہ مفتی تقی عثمانی)

اسی ضمن میں جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ پریشان رکھا وہ یہ رائے تھی کہ ایک وقت میں علماء نے لاؤڈ سپیکر کا استعمال حرام قرار دیا تھا۔ میری ہمیشہ سے کوشش رہی کہ میں معاملے کی تہہ تک پہنچوں کہ کس طرح وقت کے ساتھ فتویٰ تبدیل ہوگیا؟ وہ علماء جنہوں نے اوائل میں یہ فتویٰ دیا تھا اب کیا رائے رکھتے ہیں؟اور اپنے ابتدائی فیصلے کے متعلق کیا محسوس کرتے ہیں؟آخرکار میں نے تمام سوالوں کے جوابات حاصل کرلیے اور آج انہیں آپ کے پیش خدمت کرتا ہوں:

جی ہاں، لاؤڈسپیکر کے حرام قرار دیئے جانے کا فتویٰ دیا گیا تھا اور یہ فتویٰ ایک معروف عالم دین اور فقیہ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے دیا تھا۔اس معاملے پر ان کے تین فتاویٰ جات ان کے مذہبی مسائل (کے حل) کے مجموعہ “امدادالفتاویٰ” کی جلد اول کا حصہ ہیں۔ان کے تلامذہ میں شامل مفتی شفیع عثمانیؒ نے اس کی تدوین کا اہتمام کیااور جلد کے اختتام پر ایک ضمیمہ کی شکل میں فتویٰ کا پس منظر، اس کی بنیاد اور اس کی بالآخر تبدیلی کی وجوہات پر روشنی ڈالی۔ ذیل میں اس کا خلاصہ پیش ہے:

اس معاملے سے متعلق پہلا فتویٰ رمضان المبارک 1346 ہجری (فروری 1928ء) 1 کو سامنے آیا ، جس میں مولانا تھانویؒ کی یہ رائے تھی کہ اس کا استعمال بالکل حرام ہے۔اس کے کچھ ہی عرصہ بعد ذوالحج 1346 ہجری (مئی 1928 ء) میں اسی رائے کا اعادہ کیا گیا۔ مفتی شفیع ؒکے مطابق یہ رائے اس آلہ کے (برصغیر میں ) متعارف کرائے جانے کے ابتدائی دنوں کی ہے، جب اس کا زیادہ ادراک نہیں تھا۔ رائے کی بنیاد اس مفروضے پر تھی کہ یہ “گراموفون” کی طرح کی کوئی چیز ہے، جو ان دنوں گانے بجانے اور موسیقی کے لیے مخصوص تھا۔ مزید یہ کہ اس کا استعمال وسیع پیمانے پر نہیں تھا اورچونکہ اکثر لوگوں کو اس کا پتاہی نہیں تھا اس لیے اس کی تفصیل اور گہرائی میں جانے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

عبادات میں اس کے استعمال کی ممانعت کی بنیاد اس کی کارکردگی سے متعلق الجھن تھی۔ مولانا تھانویؒ اور دیگر علماء پر یہ واضح نہیں تھا کہ یہ محض آواز کو بلند کرتا ہے یا پھر اسے ریکارڈ کرکے نشر کرتا ہے، اور آج تک علماء اس بات پر قائم ہیں کہ ریکارڈ شدہ آواز سے نماز نہیں ہوتی2۔(اس موقع پر یہ بات بھی واضح رہے کہ جس وقت مولانا تھانویؒ اپنی رائے پر قائم تھے، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اس آلے کے استعمال سے نماز فاسد قرار دئیے جانے پر ان سے متفق نہیں تھے)۔چنانچہ ان لوگوں نے ایسے معاملات میں مہارت رکھنے والے حضرات سے مدد طلب کی۔ ان لوگوں کے نام اور ان کی طرف سے موصول شدہ جوابات حاشیہ کی صورت میں امداد الفتاویٰ جلد اول کے صفحات 685 تا 687 میں درج ہیں۔جن لوگوں سے اس آلہ کے استعمال سے متعلق رائے طلب کی گئی ،ان میں یہ دونام بھی شامل ہیں:

1)۔ سید شبیر علی ،ایم۔اے ۔پروفیسر محکمہ سائنس،علی گڑھ

2)۔برج نندر، بی۔ایس۔سی۔ سائنس ، ایلگزینڈر ہائی سکول بھوپال

دیگر تمام افراد نام کے ساتھ مذکور نہیں۔

یہ نہیں کہا جارہاکہ وہ لوگ ہی حقیقی سند تھےبلکہ مولانا تھانوی ؒکا یہ عمل اس معاملے سے متعلق ان کی فکر اور رویے کا عکاس ہے۔انہوں نے درپیش مسئلے پرایسے لوگوں سے دریافت کرنے کااہتمام کیا جو ان کی نسبت معاملہ کی باریک بینی سے زیادہ واقف تھے۔غور کیجیئے کہ ایک ہندو کی رائے پر بھی توجہ دی گئی۔ تاہم (جوابات پر غور کرنے کے بعد)الجھن برقرار رہی اور مولانا تھانویؒ نے یہ رائے دی کہ اگرچہ اس سے پڑھی جانے والی نمازیں فاسدنہیں ٹھہرتیں ، مگر نماز میں اس کے استعمال سے پرہیز کرنا مناسب ہے۔ (امداد الفتاویٰ جلد 1، صفحہ 685)

محرم الحرام 1357 ہجری (مارچ 1938ء) میں کچھ جدید آلات ؛جن کی درست کیفیت اور دائرہ کار مولانا تھانویؒ کےعلم میں لایا گیا، سے متعلق ایک تفصیلی سوال کے جواب میں مولانا نے یہ رائے دی کہ عام خطبات اور تقاریر میں اسکے استعمال کی اجازت ہے ۔ مگر انہوں نے نماز اور عیدین کے خطبات میں اس کے استعمال کی اجازت نہ دی۔اور اپنے ذوالحج 1346 ہجری کے فتویٰ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا :”یہ سب تحقیقات اپنے معلومات کے موافق لکھی گئیں اگر کسی کو اس سے زیادہ یا اس کے خلاف تحقیق ہو وہ اپنی تحقیق پر عمل کرے اور اگر ہم کو بھی مطلع کردے تو ماجور ہوگا ۔واللہ تعالیٰ اعلم و علمہ اتم و احکم “(امدادالفتاویٰ جلد اول،صفحہ 691)

مولانا تھانویؒ کی وفات کے بعد ان کے شاگرد مفتی شفیعؒ نے بھی انہی کی رائے کے مطابق فتویٰ جاری رکھا۔لیکن قیام پاکستان کے بعد انہوں نے وہی سوالات ریڈیو پاکستان کے ماہرین کو ارسال کیے ، جن کا متفقہ جواب آیا کہ نشر کی جانے والی آواز محض بلند کی جاتی ہے اور اس کو پہلے ریکارڈ نہیں کیا جاتا۔ مفتی شفیع  ؒ  لکھتے ہیں کہ اس سے نمازوں میں لاوڈسپیکر کے استعمال سے متعلق ممانعت کی بنیاد دھڑام سے گرگئی۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے لاؤڈسپیکر کے استعمال سے متعلق شعبان 1372 ہجری (اپریل 1953ء) میں مقالہ لکھا اور 1382 ہجری(1962-1963ء) میں اس کا اعادہ کیا۔

یہاں پر مفتی کے عہدہ کی حساس نوعیت کا ادراک لازمی ہے۔ اسے بہت احتیاط سے رائے دینا پڑتی ہے کیونکہ اس کے الفاظ کا اطلاق محض عوام الناس ہی نہیں ،خود اس پر بھی ہوتا ہے اور فتویٰ کے نتیجے میں آنے والے کسی بھی قسم کے نتیجے کا وہ خود ذمہ دار ہوتا ہے۔معاملہ اسلامی عبادات کے ایک اہم رکن نماز کی معقولیت سے متعلق ہونے کی وجہ سے بہت اہم تھا۔علماء کا طرزعمل بہت عملی اور محتاط تھا کیونکہ انہوں نے لوگوں کو ایسی چیز کے استعمال سے منع کیا جس کے متعلق ان کے اذہان میں شبہات تھے جو ممکنہ طور پر نماز کی معقولیت پر اثرانداز ہوسکتے تھے ، جبکہ وہ خود حقیقت کی تلاش میں مصروف رہے۔اور جونہی ان پر حقیقت آشکارا ہوئی انہوں نے اپنی رائے سے رجوع کرلیا۔

اہم نکات

1)۔ پہلا فتویٰ محدود اور غلط معلومات کی بنیاد پر تھا اور چونکہ اس آلہ سے متعلق واقفیت بہت کم تھی اس لیے اس کی گہرائی میں جانے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔

2)۔آلے کی کارکردگی سے متعلق تفصیلات کے حصول کے لیے ماہرین سے رائے طلب کرنے کا نہایت معقول طریقہ اپنایا گیا، اور اس ضمن میں ایک ہندو سے رائے لینے میں بھی کوئی عار محسوس نہ کی گئی۔

3)۔آلے کی حقیقی کیفیت کے ادراک پر علماء نے عبادات کے علاوہ دیگر سرگرمیوں میں اس کے استعمال کی ممانعت سے ہاتھ روک لیا۔

4)۔مگر جب تک آلے کی تفصیلی معلومات پر پردہ رہا،انہوں نے عبادات میں اس کے استعمال پر ممانعت کی رائے برقرار رکھی کیونکہ عبادات میں حقیقی اصولوں کی پابندی لازم ہوتی ہے۔

5)۔تاہم جب ماہرین کی متفقہ رائے یہ سامنے آئی کہ اس آلے سے نشریات ریکارڈ نہیں ہوتیں بلکہ محض آواز بلند ہوتی ہے تو علماء نے اپنے فتویٰ کی ترمیم میں کوئی عار محسوس نہ کی۔

اگرچہ آج یہ سب کچھ بہت عجیب سا لگتا ہے ، مگر خود کو ان کی جگہ پر رکھنے سے یہ ماننا پڑتا ہے کہ علماء کا عمل بہت مدبرانہ تھا ۔ وہ محتاط تو تھے مگر ہٹ دھرم نہیں تھے ۔لہٰذا انہوں نے نئی معلومات کا خیرمقدم کیا، اور آلے کی کارکردگی سے متعلق وضاحت کے لیے ماہرین سے تجویز طلب کرنے کا درست طریقہ کار اختیار کیا اور اسی کے مطابق اپنے فیصلے میں ترمیم کی۔

اگر کوئی ادھار مانگ لائے ذہن سے سوچنے اور مسلمانوں کے ہمہ قسمی جدات و اختراعات میں پڑنے؛ چاہے ان کا تعلق امورعبادات سے ہی کیوں نہ ہو، کا خواہش مند نہ ہو تو وہ علماء کی حکمت عملی کو ضرورسراہے گا۔

….

1)۔ ہجری تقویم سے عیسوی تقویم کا اخراج انداز اکیا گیا ہے۔

2)۔مثلا  ملاحظہ ہو،شیخ فراز ربانی کا فتویٰ: “نماز تہجد:ریکارڈشدہ تلاوت کو سننا

تحریر:وقار اکبر چیمہ