عمار خان ناصر صاحب نے جنگی قیدیوں کو غلام باندی بنانے سے متعلق داعش کے نقطہ نظر کا ذکر کیا اور اس کے لیے کن دلائل کا سہارا لیا جاتا ہے، ان الفاظ کے ساتھ وہ سوال اُٹھاتے ہیں:
”دولت اسلامیہ (داعش) کے ترجمان جریدے میں جنگی قیدیوں کو غلام باندی بنانے کے حق میں مضمون دیکھا۔ داعش کا مؤقف یہ ہے کہ جو حکم اللہ کی شریعت میں بتایا گیا ہے، اس کو انسان کیسے تبدیل کر سکتے ہیں؟ جدید دور میں جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کی ممانعت سے اتفاق کرنے والے مسلم فقہاء عموما اس پابندی کا جواز ”معاہدے” کے اصول پر ثابت کرتے ہیں۔ یعنی غلام بنانا چونکہ واجب نہیں، بلکہ مباح ہے جسے کسی دوسرے اخلاقی اصول کے تحت ممنوع کیا جا سکتا ہے، اس لیے بین الاقوامی معاہدے کے تحت اس پابندی کو قبول کرنا شرعی طور پر درست ہے۔ یہ ایک قابل فہم فقہی استدلال ہے، البتہ اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاہدے کی پابندی تو اسی فریق پر لازم ہوتی ہے جو معاہدے کا حصہ ہو۔ داعش وغیرہ تو جدید بین الاقوامی قانون کو تسلیم نہیں کرتے اور نہ انھوں نے معاہدات پر دستخط کیے ہیں۔ اگر وہ اس پابندی پر عمل نہ کریں تو شرعی طور پر ان پر کیا اعتراض بنتا ہے؟ اگر یہ کہا جائے کہ جدید بین الاقوامی عرف میں اس کو غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے تو پھر یہ اصولی سوال آجاتا ہے کہ جس چیز کو شریعت میں اخلاقی طور پر جائز مانا گیا ہو، کیا اس کے متعلق سماج کے اخلاقی پرسپشن میں تبدیلی شریعت کے عطا کردہ اخلاقی جواز کو ختم کر سکتی ہے؟ ایک دوسرے پہلو سے یہ سوال یوں بنتا ہے کہ کیا شریعت نے غلامی کو اخلاقی جواز انسانی پرسپشنز سے ماورا ہو کر دیا یا اس بنیاد پر دیا کہ چونکہ انسان اسے اخلاقی طور پر جائز مان رہے ہیں، اس لیے یہ جائز ہے؟ اگر غلامی کا اخلاقی جواز عرف اور انسانی پرسپشن سے ماورا ہے تو داعش پر اعتراض بظاہر نہیں بنتا، کیونکہ وہ بین الاقوامی معاہدات کو قبول ہی نہیں کرتی۔ البتہ اگر اس کے اخلاقی جواز میں عرف اور انسانی پرسپشنز کا بھی دخل ہے تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ داعش کا موقف درست نہیں۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟“
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد نے کمنٹس کی شکل میں جو جواب دیا ہے، قارئین کے لیے اسے یکجا کرکے پیش کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر محمد مشتاق احمد لکھتے ہیں:
پہلے تو اس پوسٹ میں کارفرما چند ”ٹویسٹس“ ملاحظہ کیجیے:
1۔ ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کو ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کےلیے یا تو ماضی کی غلامی کی بات کی گئی ہے جب مسلمان، کسی بھی وجہ سے، غلام بناتے تھے، یا آیندہ کی بات کی گئی ہے جب مفروضہ طور پر مسلمان کسی وقت اس پوزیشن پر آجائیں گے کہ وہ پھر سے غلام بناسکیں گے۔ لمحۂ موجود میں غلامی کی بات کی بھی گئی ہے تو صرف اس مثال کی جو مسلمانوں کے ایک بہت ہی محدود گروہ نے بہت ہی محدود پیمانے پر اختیار کی۔
سوال یہ ہے کہ ماضی میں جو کچھ مسلمانوں نے کیا، کیا اسے ہم undo کرسکتے ہیں؟ یا مستقبل میں اگر کبھی مسلمان سیاسی طور پر دنیا میں غالب آئے، حالانکہ آپ کے استاد گرامی (جاوید احمد غامدی) کے بقول نہ امام مہدی نے آنا ہے، نہ ہی مسیح نے، تو مسلمانوں کے عالمی سیاسی غلبے کا مفروضہ ہی غلط ہوا، لیکن بہرحال اگر کبھی ایسا ہوا تو اس وقت کے مسلمان جو کچھ کریں گے، اس کا جواب ابھی سے ہم کیوں دیں؟ ماضی کے لوگوں کو ماضی کا جواب دینے دیں، مستقبل کے لوگ اپنا جواب دے لیں گے۔ ہم لمحۂ موجود کی بات کیوں نہ کریں اور یہ کیوں نہ دیکھیں کہ اس وقت غلامی کی رائج شکلوں کے رواج میں ہمارا کتنہ حصہ ہے اور وہ حصہ کس حد تک ہمارے آزاد اختیار پر مبنی ہے؟
2۔ دوسرا دلچسپ ٹویسٹ یہ ہے کہ داعش، یا کسی بھی گروہ، کی جانب سے کی گئی کسی بھی کارروائی کو ”مسلمانوں کے مؤقف“ کے طور پر کیوں دیکھا جائے جبکہ مسلمان ایک سیاسی وحدت کے طور پر باقی ہی نہیں رہے؟ کیا اسی قیاس پر گوانتانامو کی غلامی کےلیے پوری مغربی مسیحی/یہودی دنیا کو ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ اگر مسلمان ایک سیاسی وحدت ہوتے، داعش کی خلافت موجود ہوتی، اور ایسے میں داعشی خلیفہ کی جانب سے ایسا کوئی اقدام ہوتا اور اسے مسلمانوں کے مؤقف کے طور پر دیکھا جاتا، تو کوئی بات بھی تھی۔
سردست تو آپ زیادہ سے زیادہ یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ داعش کا جن علاقوں پر اور جن لوگوں پر مؤثر کنٹرول رہا، کیا وہ علاقے اور وہ لوگ موجودہ عالمی بندوبست سے نکل سکتے ہیں؟ لیکن سوال یوں ہوتا تو جواب بھی پھر بہت سیدھا سادہ ہوتا نا کہ اگر وہ اس عالمی بندوبست سے نکل سکتے ہیں تو انھیں اس عالمی بندوبست میں کون جکڑے رکھ سکتا ہے؟ بہرحال ٹویسٹ یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک اکائی فرض کرکے، ان کے حاشیے پر موجود ایک معمولی گروہ کے طرزِ عمل کو یہ معلوم کرنے کےلیے استعمال کیا جا رہا ہے کہ مستقبل بعید میں، جب امام مہدی اور سیدنا مسیح کے نہ آنے کے باوجود مسلمان کسی وجہ سے عالمی سیاسی غلبہ حاصل کرلیں گے، تو یہ والا طرزعمل اختیار کرنے میں ان کےلیے شرعی مانع کیا ہوگا؟
3۔ تیسرا ٹویسٹ یہ ہے کہ لمحۂ موجود کے نام نہاد اخلاقی اقدار کو مستقل اور غیرمتبدل فرض کرکے یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ماضی میں خواہ غلامی کو برا نہ سمجھا جاتا رہا ہو لیکن اب جبکہ انسانیت اس کی برائی پر متفق ہوچکی ہے تو پھر مستقبل میں اگر کبھی مسلمانوں کو عالمی سیاسی غلبہ حاصل ہو، تو وہ یہ کام کیسے جائز تصور کرسکیں گے جسے آج انسانیت برا سمجھنے پر متفق ہوچکی ہے؟ سوال میں پنہاں سادگی اور قطعیت پر نظر کیجیےاور دیکھیے کہ کیسے لمحۂ موجود کے متعلق مفروضات پر قائم احساس کو موہوم مستقبل پر لاگو کرکے آج کے مسلمان کو ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کرکے اس سے سوال کیا جارہا ہے؟
4۔ چوتھا ٹویسٹ، جو اس موضوع پر پچھلی ڈیڑھ صدی میں لکھے گئے لٹریچر کی عمومی خصوصیت ہے، یہ ہے کہ ”غلامی“ کو ایک جامد اور عالمی طور پر متفق علیہ یکساں تصور کے طور پر پیش کیا گیا ہے حالانکہ مختلف ادوار میں، مختلف معاشروں میں، مختلف نظامہاے قوانین میں، غلامی کا عنوان مختلف نوعیت کی جکڑبندیوں کو دیا گیا ہے۔ اس انتہائی وسیع spectrum میں موجود مختلف shades کو ”غلامی“ کا ایک نام دے کر نہ صرف تنوع کی نفی کی جاتی ہے بلکہ بہت ہی زیادہ سادہ فکری ، اور معاف کیجیے گا، سطحیت کی بنیاد پر انتہائی قطعی لہجے میں دو ٹوک موقف اپنایا جاتا ہے جو خطبوں، یا عذرخواہی، میں تو مفید ثابت ہوسکتا ہے، علمی اور عملی طور پر اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔
مثال کے طور پر کیا جسے رومی قانون میں غلام کہا جاتا تھا، اسلامی قانون میں غلام کا وہی تصور تھا؟ کلاسیکی (اور چونکہ ”کلاسیکی“ کا لفظ آپ کو بہت مرغوب ہے، اس لیے یہاں استعمال کرنے کی جسارت کررہا ہوں) رومی قانون میں غلام کو ”شخص“ (person) کے بجاے ”مال“ (property) قرار دیا جاتا تھا۔ ”شخصیت“ (personality) کی نفی کے نتائج نفسیات میں نہیں، بلکہ قانون میں دیکھیں تو اس کا قانونی اثر یہ تھا کہ گائے، بھینس، زمین، لکڑی یا کسی بھی دوسری چیز کی طرح، جسے مال مانا جاتا تھا، غلام کے کوئی قانونی حقوق نہیں ہوتے تھے (خواہ عملاً ان کےلیے کچھ نہ مانا جاتا رہا ہو، لیکن قانون میں ان کے کوئی حقوق نہیں تھے)۔ قانونی حقوق کےلیے پہلے قانونی شخصیت کا ماننا لازم تھا اور وہ غلام کو میسر نہیں تھی۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کے بہت سے ”قاری“ فوراً کہہ اٹھیں گے کہ فقہائے کرام نے بھی تو غلام کو مال مانا ہوا ہے؛ جی ہاں، یقیناً مانا ہوا ہے لیکن صرف مال نہیں، شخص بھی؛ بلکہ پہلے شخص، پھر مال؛ اور اس وجہ سے اسلامی قانون میں غلامی کا تصور کلاسیکی رومی قانون کے غلامی کے تصور سے اپنی اساس اور جوہر میں ہی مختلف ہوجاتا ہے۔
شخص ماننے کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ غلام کے کچھ حقوق ایسے تسلیم کیے گئے جن پر آقا کا اختیار نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ حقوق شریعت نے متعین کیے ہیں اور شریعت کے دیے گئے حقوق کو چھیننے کا اختیار آقا کے پاس، بلکہ ریاست کے پاس بھی نہیں تھا۔ اسلامی قانون کے بعد کی دنیا میں غلامی کی مختلف نوعیتیں دنیا میں رائج رہی ہیں، اور اب بھی رائج ہیں، اور وہ بنیادی طور پر انھی دو قسموں میں تقسیم ہیں: غلام بطور مال یا غلام بطور قانونی شخص اور مال؟ اگر دوسری قسم ہے تو اس کے مختلف مدارج ہیں کہ کسی میں قانونی حقوق زیادہ ہیں اور کسی میں کم لیکن بہرحال کسی نہ کسی درجے میں ”کسی کی ملکیت“میں بھی ہیں۔
اب ذرا گرد و پیش پر نظر ڈال کر دیکھیے کہ یہ دو قسمیں آج بھی رائج ہیں یا نہیں؟ بالکل ہی آخری سطح پر آکر دیکھیے کہ کیا بعض انسانوں کےلیے قانونی شخصیت کا انکار آج بھی ہورہا ہے یا نہیں؟ اگر ہورہا ہے تو پھر آج کے مسلمانوں کو ماضی کے مسلمانوں کے کیے گئے کاموں کی بنیاد پر کیوں ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے؟ آج کے انسانوں سے آج کے کرتوتوں کا کیوں نہ پوچھا جائے؟ لیکن نہیں، یہ سوال ”مدرسہ ڈسکورسز“ کے اہداف و مقاصد کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اس لیے اس کا نہ اٹھایا جانا ہی اوفق للمصلحۃ ہے۔
ان تمہیدی نکات کے بعد اب صلبِ موضوع پر چند نکات ملاحظہ کیجیے:
1۔ معاصر بین الاقوامی نظام کے متعلق یہ مفروضہ کہ اس نے غلامی کا خاتمہ کردیا ہے، محض پروپیگنڈا ہے اور بس۔ غلامی کی دونوں قسمیں (غلام بطور مال اور غلام بطور شخص و مال) معاصر دنیا میں نہ صرف رائج ہیں بلکہ بین الاقوامی قانون کی رو سے انھیں تسلیم بھی کیا گیا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ کیجیے۔ نوے کی دہائی میں سعودی عرب نے اپنے ایک شہری کو (اس شہری کا نام خوفِ فسادِ خلق کی وجہ سے نہیں لے رہا) حقوقِ شہریت سے محروم کردیا۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا۔ نہ ہی تنہا سعودی عرب نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ بہت سے ممالک نے بارہا بہت سارے لوگوں کو حقوقِ شہریت سے محروم کیا ہوا ہے۔ دور کیوں جائیں؟ روہنگیا اور بہار میں ہی دیکھ لیجیے۔ سوال یہ ہے کہ حقوقِ شہریت سے محرومی کا قانونی مطلب کیا ہے بالخصوص جب آپ دوسری ریاستوں کو بھی مجبور کریں کہ وہ اس شخص کو شہریت تو کیا ”سیاسی پناہ“ بھی نہ دے؟
حقوقِ شہریت سے محروم شخص ، جو کسی بھی ریاست کا شہری نہ ہو، جسے بین الاقوامی قانون کی زبان میں stateless person کہا جاتا ہے، کے قانونی حقوق کیا ہوتے ہیں؟ پھر یہ بھی یاد کیجیے کہ بین الاقوامی قانون کی رو سے انسانی حقوق کےلیے مطالبہ ریاست سے کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ایسا شخص کسی ریاست کا شہری ہی نہیں ہے تو اس کے حقوق کا مطالبہ کن سے کیا جائے؟ ہاں، اس سوال پر بھی ضرور غور کیجیے کہ اس کی حیثیت قانونی طور پر اس غلام سے کیسے مختلف ہے جس کےلیے قانونی شخصیت تسلیم کی گئی؟دوسری مثال گوانتانامو کے قیدیوں کی ہے۔ بین الاقوامی قانون کی رو سے مانا جاتا تھا کہ جنگ میں آپ کے مخالف فریق یا تو مقاتل ہیں اور یا غیر مقاتل اور پھر دونوں قسموں کےلیے قانونی حقوق و فرائض متعین تھے۔ امریکا نے کہا کہ یہ لوگ نہ مقاتل ہیں، نہ ہی غیر مقاتل اور اس وجہ سے بین الاقوامی قانون میں موجود دونوں قسموں کے قانونی حقوق سے محروم ہیں۔ مزید انھوں نے ان کو امریکا سے باہر گوانتانامو کے جزیرے میں رکھا کہ امریکی قانون کی پہنچ سے بھی دور رہیں۔
سوال یہ ہے کہ گوانتانامو میں موجود قیدیوں کو کس بنیاد پر غلاموں سے مختلف گروہ مانا جائے؟ اور ہاں۔ گوانتانامو تو محض ایک مثال ہے۔ برطانیہ کی بل مارش جیل ہو، عراق کی ابوغریب جیل ہو، افغانستان کی بگرام جیل ہو یا پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود انٹرنمنٹ کیمپس ہوں، اس نوعیت کی غلاموں کی فیکٹریاں تقریباً ہر ریاست نے بنا رکھی ہیں۔ مقدار اور معیار کا فرق ضرور ہوگا لیکن نوع ایک ہی ہے۔ پھر ”مسنگ پرسنز“ کو غلام نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟ ان کی تو قانونی شخصیت ہی کا انکار کیا جاتا ہے۔ ہمیں کیا پتا وہ کہاں ہیں؟ جہاد کےلیے گئے ہوں گے۔ گوادر میں دریافت ہوئے۔ بوریوں میں لاش مل گئی، شکر کریں۔ پھر کارپوریٹ غلامی (corporate slavery) کی کیا بات کی جائے؟ اور اس سب سے آگے بڑھ کر ریاست کی غلامی تو اس وقت بھی بین الاقوامی قانون کا رکنِ رکین ہے۔ اپنے دستوری نظام میں ہی دیکھیے۔ پاکستان میں جو کچھ ہے اور جو کوئی بھی ہے، وہ پاکستان کی ملکیت ہےاور پاکستان کے ساتھ غیرمشروط وفاداری اس کا ناقابل تنسیخ فریضہ ہے۔ آپ فلم کو بے شک عنوان دیں ”مالک“ اور شوق سے کہیں کہ میں اس ملک کا مالک ہوں لیکن قانونی طور پر ملک مالک ہے اور میں اور آپ مملوک۔ چند دن قبل عرض کیا تھا کہ پاکستان میرا نہیں ہے، میں پاکستان کا ہوں۔ یقین نہ ہو تو جبری خدمت کا قانون ہی دیکھ لیجیے۔ ریاست کیسے ہم سب کو زبردستی کام کرنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ ینگ ڈاکٹرز کے خلاف کارروائی اسی قانون کے تحت تو ہوتی ہے۔ ریاست کے غلام ہو تم، انکار کیسے کرسکتے ہو؟ جبری تعلیم بھی دیکھیے۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں، آپ کے بچے کو تعلیم دیں گے اور اسے وہ کچھ پڑھائیں گے جو ہم چاہیں گے۔ جبری ویکسینیشن کو ہی دیکھیے۔ آپ لاکھ چیخیں چلائیں، آپ کے بچے کو ہر بار پولیو کے قطرے پلائیں گے وغیرہ۔ اب کہیے کہ اس جبر میں اور غلامی میں فرق ہوتا ہے۔ میں مان لوں گا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اس غلامی اور اس غلامی میں بھی فرق ہوتا ہےاور غلامی کی بہت سی قسموں کو لمحۂ موجود میں بھی بین الاقوامی قانونی نظام نے تسلیم کیا ہوا ہے۔ اس لیے یہ سوال ہی غلط ہے کہ کل کو اگر مسلمان عالمی سیاسی غلبہ حاصل کرلیں گے تو وہ غلامی کو کیسے رائج کرسکیں گے؟ بے فکر رہیں۔ انسانوں نے غلامی کو ہمیشہ تسلیم کیا ہے اور آیندہ بھی تسلیم کرتے رہیں گے۔ ہاں، مغربی سیاسی نظام کی منافقت یہ ہے کہ ”غلامی“ کے عنوان پر پابندی لگادی ہے خواہ غلامی کی کئی نئی بدترین شکلیں انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ اسی نظام نے رائج کی ہوں۔
2۔ یہ سوال بھی معاصر بین الاقوامی قانون کی اساس سے بے خبری (یا تجاہل) کی بنیاد پر اٹھایا گیا ہے کہ اگر کوئی مسلمان ریاست اس وقت ان معاہدات میں شامل نہ ہو جس غلامی پر پابندی عائد کرتے ہیں تو کیا غلام بنانا شرعاً اس کےلیے جائز ہوگا؟ معاصر بین الاقوامی قانونی نظام کے تحت آپ ”ریاست“ یا ”نظم اجتماعی“ کی صورت تبھی اختیار کرسکتے ہیں جب پہلے ان معاہدات کو تسلیم کرلیں؛ ورنہ بصورتِ دیگر آپ کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو کلاسیکی رومی قانون کی رو سے غلاموں کے ساتھ کیا جاتا تھا!
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ سو سال قبل اوپن ہائم نے ، جس کی کتاب کو بین الاقوامی قانون پر کلاسیکس میں شمار کیا جاتا ہے، صراحتاً کہہ دیا تھا کہ یہ بین الاقوامی قانونی نظام یورپی مسیحی اقوام کا تشکیل کردہ ہے؛ اس میں غیر یورپی اور غیر مسیحی اقوام تین شرائط پر شامل ہوسکتی ہیں: ایک یہ کہ وہ تہذیب کی ایک خاص سطح تک پہنچی ہوئی ہوں ؛ دوسری یہ کہ وہ اس نظام کی شرائط اور قیود قبول کرلیں؛ اور تیسری یہ کہ اس نظام میں پہلے سے شامل (یورپی مسیحی ) اقوام انھیں اس نظام میں شامل کرنے پر آمادہ بھی ہوں۔
ان شرائط کے اثرات دیکھنے ہوں تو اوپن ہائم کی یہ بات بھی نوٹ کیجیے کہ امریکا تو یورپی مسیحی اقوام کی ہی extension ہے؛ اور ایتھوپیا اگرچہ مسیحی ہے لیکن ابھی وہ تہذیب کے اس خاص مقام تک نہیں پہنچا کہ اسے اس نظام میں شامل کیا جائے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس نظام کو اقوام متحدہ کی تنظیم کے ذریعے نافذ کیا گیا ہے اور اب بھی اقوام متحدہ کی تنظیم کے چارٹر میں دیکھ لیجیے کہ کون سی شرائط پوری ہوں تو اس کے بعد ہی آپ کو اس نظام میں شامل سمجھا جاسکتا ہے؟ چین ہی کی مثال لے لیجیے۔ 1949ء میں کمیونسٹ چین نے قوم پرست چین کو شکست دے دی تھی لیکن 1970ء تک کمیونسٹ چین کو اقوام متحدہ کا رکن ہی بننے نہیں دیا گیا۔ ہاں، جب ساٹھ کی دہائی میں اس نے ایٹمی دھماکا کیا اور دوسری طرف کمیونسٹ بلاک میں روس کی اجارہ داری کے سامنے لیڈرشپ کے ایک نئے امیدوار کے طور پر بھی سامنے آگیا ، تو امریکا نے پاکستان کے ذریعے چین کے ساتھ فاصلے کم کیے اور پھر اسے اقوام متحدہ کا رکن بننے دیا۔
اسی طرح جب کبھی کوئی مسلمان ریاست اتنی طاقت حاصل کرلے گا کہ اسے تسلیم کرنا مجبوری بن جائے تو اسے غلامی کی ان تمام شکلوں سمیت قبول کرلیا جائے گا جو اس مسلمان ملک میں رائج ہوں، جیسے چین میں رائج غلامی کی لاتعداد شکلوں کو قبول کرلیا گیا ہے۔ تب تک کیا ہوگا؟ تب تک یہ ہوگا کہ اوپن ہائم کی ذکر کردہ شرائط پر آپ کو ناپا اور تولا جائے گا۔ آج کل پہلی شرط (تہذیب کی ایک خاص سطح) کےلیے معیار نام نہاد حقوقِ انسانی کے معاہدات ہیں۔ ان معاہدات کو مانے بغیر آپ سسٹم کا حصہ نہیں بن سکتے بلکہ آپ کو اسی طرح کچلا جائے گا جیسے افغانستان میں طالبان یا عراق و شام میں داعش کو کچلا جارہا ہے اور اس ضمن میں حقوق، آزادی، غلامی کے سارے تصورات غیرمتعلق ہوجاتے ہیں۔ اس لیے یہ مفروضہ ہی غلط ہے کہ کوئی ریاست اس نظام سے الگ رہ کر اپنے تصورات رائج کرے گی (اپنا نظام غلامی رائج کرے گی) تو کیسے کرے گی؟
3۔ یہ بھی ادھورا سچ ہے کہ معاہدے کی پابندی تو اسی فریق پر لازم ہوتی ہے جو معاہدے کا حصہ ہو؛ اس کے ساتھ دو باتوں کا اضافہ کیجیے تو پورا سچ سامنے آجائے گا: ایک یہ کہ معاہدے کی پابندی کا مطالبہ وہی فریق کرسکتا ہے جو خود معاہدے کی پابندی کرتا ہو؛ خود معاہدے کی دھجیاں اڑانے والا فریق دوسرے فریق سے معاہدے کی پابندی کا مطالبہ نہیں کرسکتا؛ دوسری یہ کہ جب تک کوئی گروہ خود کو معاہدے میں پہلے سے شامل فریقوں سے الگ تسلیم کروا نہیں لیتا، تب تک وہ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ معاہدے کی پابندی پر مجبور نہیں ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان نے بہت سے معاہدات پر دستخط کیے ہیں؛ اب اگر پاکستان میں کوئی گروہ اٹھ کر یہ اعلان کرتا ہے کہ ان معاہدات کی پابندی اس پر لازم نہیں ہے ، تو اس کی یہ بات تب تک تسلیم نہیں کی جائے گی جب تک وہ پاکستان سے الگ اپنی مستقل حیثیت منوا نہ لے؛ اور یہ منوانا قانون سے زیادہ سیاسی طاقت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
بین الاقوامی قانون کی کیا بات کریں؟ ملکی قانون میں ہی دیکھ لیجیے ۔ کچھ عرصہ قبل میں نے سوال اٹھایا تو بہت سے لوگوں کو عجیب لگا کہ اگر ہمارا دستور ایک معاہدہ ہے تو میں اس کی پابندی پر مجبور کیوں ہوں جبکہ میں اس معاہدے میں اپنی مرضی سے شامل نہیں ہوا؟ نہ میں پاکستان میں اپنی مرضی سے پیدا ہوا ہوں، نہ ہی دستور پاکستان کے تحت اپنی اور ریاست و حکومت کی حیثیت متعین کرنے میں میرا کوئی کردار شامل ہے۔ پھر آخر کس بنیاد پر مجھ سے اس دستور کی پابندی کا مطالبہ کیا جارہا ہے اور کیوں مجھ پر اس ریاست سے غیرمشروط وفاداری کا فریضہ عائد کیا جاتا ہے؟ ہاں، اگر کوئی گروہ اس حد تک طاقت حاصل کرلے کہ وہ اس بند و بست سے باہر نکل سکے تو اسے بنگلہ دیش کی طرح مستقل حیثیت مل جاتی ہے اور وہ دستورِ پاکستان کی پابندی اور پاکستان سے وفاداری کی ذمہ داری سے فارغ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اگر داعش، یا کوئی گروہ، بین الاقوامی قانونی نظام کی جکڑ بندیوں سے الگ ہوسکتا ہے، تو جب وہ الگ ہوجائے تو اس کے بعد بے شک وہ یہ دعویٰ کرے کہ وہ اس نظام کی پابند نہیں ہے۔ تب تک تو اس نظام کی جکڑبندیوں کے اندر رہ کر ہی جدوجہد اس پر لازم ہے، جیسے ہم میں سے بہت سے لوگ اسی نظام کے اندر عدالت اور دیگر ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ ہاں، اگر کوئی گروہ اس پورے نظام سے تو الگ نہ ہوسکے لیکن اس نظام کی کسی اکائی کے اندر، یا اس سے باہر، اپنی مستقل حیثیت منوالے تو موجودہ بین الاقوامی نظام بھی اس کی یہ حیثیت تسلیم کرتا ہے کہ وہ صرف ان معاہدات کا پابند ہوگا جو اس نے اپنے طور پر مانے ہوں۔
Genva Call نامی تنظیم ایسی مسلح تنظیموں سے باقاعدہ ان معاہدات پر دستخط کرواتی ہے جنھیں یہ تنظیمیں اپنے لیے قابل قبول مانیں اور یہ دستخط اسی Alabama Room میں ہوتے ہیں جہاں یورپی طاقتوں نے 1864ء میں پہلے جنیوا معاہدے پر دستخط کیے تھے! 2017ء میں جنیوا میں بین الاقوامی قانون کے ماہرین کی ایک ورکشاپ میں جنیوا کال کی ایک خاتون نے اپنی پریزینٹیشن دی تو ہم میں سے ایک نے ان سے پوچھا کہ آپ داعش سے کیسے معاہدات منوا سکتے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ منواسکتے ہیں کیا، ہم منواچکے ہیں!
تو خلاصہ یہ ہوا کہ جب تک کوئی گروہ، داعش، طالبان، یا کوئی بھی نام دیں، اس پوزیشن میں نہیں آتا کہ وہ پہلے سے موجود اکائیوں (ریاستوں) سے الگ حیثیت منوالے، تب تک وہ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ مجھ پر ان معاہدات کی پابندی لازم نہیں ہے؛ ہاں، وہ اس پوزیشن میں آجائے تو بے شک وہ بعض معاہدات مانے اور بعض نہ مانے (اور پھر نہ ماننے کے نتائج بھگتے)۔
4۔ مقدمات کی ترتیب درست کرنے اور بہت سی غلط فہمیوں کے ازالے کی اپنی سی کوشش کے بعد سوال کا شرعی جواب بہت ہی آسان اور نہایت ہی مختصر ہے۔ جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کے سوا آزاد انسان کو غلام بنانے کی سب شکلیں حرام ہیں۔ جنگی قیدیوں کو غلام بنایا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا کرنا مسلمانوں کے مصلحت میں ہو اور اس سے کسی معاہدے کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو۔ معاہدے کی پابندی مسلمانوں کے اسی گروہ پر لازم ہوگی جو معاہدے میں شامل ہو، یہ پابندی دوطرفہ ہوگی۔ چنانچہ اگر دوسرا فریق اس معاہدے کی پابندی نہ کرتا ہوتو مسلمانوں پر بھی اس معاہدے کی پابندی لازم نہیں ہوگی۔ اسی طرح معاہدے کی خلاف ورزی مسلمانوں کے کسی گروہ کی جانب سے ہو تو ذمہ داری اسی گروہ پر ہوگی اور دوسرے مسلمانوں سے اس سلسلے میں نہیں پوچھا جاسکتا۔ البتہ اگر عالمی طور پر مسلمان ایک سیاسی وحدت بن جائیں اور پھر اس سیاسی وحدت کی جانب سے معاہدہ ہو تو اس کی پابندی سب مسلمانوں پر لازم ہوگی، سواے ان کے جو اس سیاسی وحدت سے الگ مستقل حیثیت رکھتے ہوں۔ غلام بناچکنے کے بعد ان غلاموں کو وہ سارے حقوق حاصل ہوں گے جو شریعت نے ان کو دیے ہیں۔
اب جس کے جی میں آئے ، وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرِ عام رکھ دیا!
ڈاکٹر محمد مشتاق، چئیرمین شعبہ قانون، اسلامی یونیورسٹی ، اسلام آباد