جزیہ اس ٹیکس کو کہتے ہیں جو اسلامی حکومت اپنی غیرمسلم رعایا سے اس خدمت کے معاوضہ میں وصول کرتی ہے کہ وہ ان کے سیاسی، معاشرتی اور مذہبی حقوق کی حفاظت کی ذمہ دار ہے،آج کل تمام حکومتوں کا نظام ٹیکسوں پر چلتا ہے۔ حکومتیں شہری حقوق اور رہائش، سیکورٹی، انکم کے بیسوں ٹیکس وصول کرتی ہے اس کے برخلاف جزیہ ایک معمولی سا ٹیکس تھا جو غیر مسلموں کی جان ومال کی حفاظت کے بدلے میں وصول کیا جاتا ۔اسکی مقدار افراد کی حیثیت اور صلاحیت کے اعتبار سے مختلف ہوتی تھی جس میں رعایت اور چھوٹ کی بھی بڑی گنجائش ہوتی تھی۔ اس سے متعلق تفصیلات کتب فقہ میں مذکور ومسطور ہیں۔ اس کے برعکس مسلمانوں کو صدقہ،زکوٰة اور عشر اداکرنا پڑتاتھا،جوجزیہ سے کہیں زیادہ ہوجاتاتھا۔
جزیہ کے عائد کرنے کی مختلف وجوہات جو علماء نے بیان کی ہیں صاحب المناز نے انہیں یکجا بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ان کے قتل نہ کیے جانے کا بدلہ ہے یا ان کی حفاظت اور ان کو فوجی خدمات سے مستثنیٰ کرنے کا معاوضہ ہے یا وہ مساویانہ حقوق جو انہیں مملکت اسلامیہ کا شہری ہونے کی وجہ سے حاصل ہیں اور انہیں مذہبی اور معاشی آزادی جو دی گئی ہے یا ان کے مال و جان و آبرو کی حفاظت کی جو ذمہ داری لی گئی یہ اس کا معاوضہ ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ فوجی خدمات سے انہیں مستثنیٰ کرنے اور ان کے مال و جان اور آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری لینے کا معاوضہ ہے۔ حضرت خالد بن ولید (رض) نے صلوبا بن نسطونا اور اس کی قوم سے جو معاہدہ کیا تھا اس کے الفاظ درج ذیل ہیں :۔ ترجمہ : ” یہ عہد نامہ ہے جو خالد بن ولید نے صلوبا بن نسطونا اور اس کی قوم سے کیا۔ میں تم سے اس بات کا معاہدہ کرتا ہوں کہ تم جزیہ ادا کرو اور ہم تمہاری حفاظت کریں۔ جب تک ہم تمہاری حفاظت کریں گے ہم جزیہ وصول کرنے کے حقدار ہیں ورنہ نہیں “۔ (البلاذری)
اس روایت سے اور اس کی ہم معنی متعدد روایات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جزیہ اس ذمہ داری کا معاوضہ تھا جو مسلمان ان کی حفاظت اپنے ذمہ لیا کرتے تھے اور ایسا بھی ہوا کہ جب کبھی مسلمانوں نے محسوس کیا کہ وہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے سے قاصر ہیں تو انہوں نے جزیہ کی وصول شدہ رقم واپس کردی۔ چناچہ جنگ پر موک سے پہلے جب مسلمانوں نے جنگی مصلحت کے پیش نظر عمص وغیرہ کو خالی کرنا ضروری سمجھا تو افواج اسلامیہ کے سپہ سالار عام حضرت ابو عبیدہ (رض) نے اپنے تمام ماتحت جرنیلوں کو حکم بھیجا کہ اپنے اپنے علاقہ سے جو جزیہ اور خراج انھوں نے وصول کیا ہے وہ لوگوں کو واپس کردیں اور انہیں بتائیں کہ قاصر ہیں اس لیے ہم یہ واپس کر رہے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں دشمن پر کامیابی بخشی تو جو معاہدہ ہمارے اور تمہارے درمیان ہوچکا ہے وہ بحال رہے گا۔ اگر تم نے اسے نہ توڑا تو ہم اس کی پابندی کریں گے۔ جب وہاں کے باشندوں نے مسلمانوں کا یہ رویہ دیکھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو چھلکنے لگے اور وہ دعائیں مانگنے لگے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں پھر واپس لائے اور دشمن پر غلبہ نصیب کرے۔ ردکم اللہ علینا ونصرکم علیہم فلو کانوا ہم لم یردوا علینا شیئا۔ ” اللہ تعالیٰ تمہیں ہمارے پاس واپس لائے اور تمہاری مدد فرمائے۔ اگر وہ (رومی) ہوتے تو ہمیں پھوٹی کوڑی بھی واپس نہ کرتے ۔ یہی وہ بےمثل کردار تھا جس نے انہیں اسلام کا گرویدہ بنا دیا۔ عہد فاروقی میں ہمیں ایسے متعدد واقعات رکھائی دیتے ہیں جن میں یہ تصریح ہے کہ جب جزیہ ادا کرنے والوں نے جنگ میں شرکت کی تو ان کا جزیہ معاف کردیا گیا۔(الفاروق۔ شبلی نعمانی ١٩١)
*جزیہ اور اس کے متعلقہ احکام :۔
جزیہ کو چونکہ مستشرقین اوراقوام مغرب نے خاصا بدنام کر رکھا ہے لہذا اس کے متعلق چند تصریحات ضروری معلوم ہوتی ہیں :۔
1۔ جزیہ صرف ان افراد پر عائد کیا جاتا ہے جو لڑنے کے قابل ہوں۔ غیر مقاتل افراد مثلاً بچے، بوڑھے، عورتیں معذور لوگ، صوفی اور گوشہ نشین قسم کے حضرات اس سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ جزیہ ادا کرنے کے بعد یہ لوگ دفاعی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجاتے ہیں اور رسول اللہ نے ایسے لوگوں (جنہیں عرف عام میں اہل الذمہ یا ذمی کہتے ہیں) کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی سخت تاکید فرمائی ہے۔
2۔ جزیہ ان لوگوں کی مالی حالت کا لحاظ رکھ کر عائد کیا جاتا ہے چناچہ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ ” میں نے مجاہد سے پوچھا کہ شام کے کافروں سے تو سالانہ چار دینار لیے جاتے ہیں اور یمن کے کافروں سے صرف ایک دینار لیا جاتا ہے اس کی کیا وجہ ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اس لیے کہ شام کے کافر زیادہ مالدار ہیں۔ ” (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب الجزیۃ الموادعۃ) امام محمد کا قول ہے کہ جزیہ صرف ان لوگوں پر عائد کیا جائے گا جو مال دار ہوں گے اور کام کاج کرتے ہوں گے۔ آپ کا یہ بھی قول ہے کہ اگر ایک عیسائی کمائی تو کرتا ہے لیکن اپنے اہل و عیال کے اخراجات کے بعد اس کے پاس کچھ نہیں بچتا تو اس سے کوئی جزیہ وصول نہیں کیا جائے گا۔
3۔ جزیہ کی وصولی میں انتہائی نرمی اختیار کی جاتی تھی اور سیدنا عمر کو اس سلسلہ میں دو باتوں کا بہت زیادہ خیال رہتا تھا۔ ایک یہ کہ جزیہ کی شرح ایسی ہو جسے لوگ آسانی سے ادا کرسکیں۔ چناچہ آپ نے عراق کی مفتوحہ زمینوں پر خراج کے تعیین کے لیے سیدنا حذیفہ بن یمان اور سیدنا عثمان بن حنیف (رض) جیسے اکابر صحابہ کو مقرر کیا جو اس فن کے ماہر تھے جب ان بزرگوں نے یہ حساب پیش کیا تو آپ نے ان دونوں کو بلا کر کہا کہ تم لوگوں نے تشخیص جمع میں سختی تو نہیں کی ؟ سیدنا عثمان بن حنیف (رض) نے کہا نہیں۔ بلکہ وہ اس سے دگنا بھی ادا کرسکتے تھے۔ (کتاب الخراج ص ٢١) اور دوسری یہ کہ ہر سال جب عراق کا خراج آتا تو دس معتمد اشخاص کوفہ سے اور اتنے ہی بصرہ سے طلب کیے جاتے۔ سیدنا عمر ان کو چار دفعہ شرعی قسم دلا کر پوچھتے کہ رقم کی وصولی میں کسی شخص پر ظلم یا زیادتی تو نہیں کی گئی (الفاروق ص ٣٢٦)
4۔ جزیہ چونکہ دفاعی ذمہ داریوں کے عوض لیا جاتا ہے لہذا جو لوگ ایسی خدمات خود قبول کرتے ان سے جزیہ نہیں لیا جاتا تھا۔ مثلاً
ا۔ طبرستان کے ضلعی شہر جرجان کے رئیس مرزبان نے مسلمانوں کے سالار سوید سے صلح کی اور صلحنامہ میں بتصریح لکھا گیا کہ مسلمان جرجان اور طبرستان وغیرہ کے امن کے ذمہ دار ہیں اور ملک والوں میں سے جو لوگ بیرونی حملوں کو روکنے میں مسلمانوں کا ساتھ دیں گے وہ جزیہ سے بری ہیں۔ (الفاروق ص ٢٣٩)
ب۔ آذر بائی جان کی فتح کے بعد باب متصل کا رئیس شہر براز خود مسلمانوں کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں تمہارا مطیع ہوں لیکن میری درخواست یہ ہے کہ مجھ سے جزیہ نہ لیا جائے بلکہ جب ضرورت پیش آئے تو فوجی امداد لی جائے۔ چناچہ اس کی یہ شرط منظور کرلی گئی۔ (الفاروق ص ٢٤٣)
ج۔ عمر و بن عاص نے جب فسطاط فتح کیا تو مقوقس والی مصر نے جزیہ کی بجائے یہ شرط منظور کی کہ اسلامی فوج جدھر رخ کرے گی، سفر کی خدمت (یعنی راستہ صاف کرنا۔ سڑک بنانا۔ پل باندھنا وغیرہ) مصری سر انجام دیں گے۔ چناچہ عمرو بن عاص جب رومیوں کے مقابلہ کے لیے اسکندریہ کی طرف بڑھے تو مصری خود منزل بمنزل پل باندھتے، سڑک بناتے اور بازار لگاتے گئے۔ علامہ مقریزی نے لکھا ہے کہ چونکہ مسلمانوں کے سلوک نے تمام ملک کو گرویدہ بنا لیا تھا اس لیے قبطی خود بڑی خوشی سے یہ خدمات سر انجام دیتے تھے (الفاروق ص ١٩٤)
5۔جزیہ دے کر غیرمسلم اسلامی ریاست کی طرف سے فوجی خدمات، ملک کی نگہداشت اور دوسرے کاموں سے بری ہوجاتے اور انہیں مسلمانوں کے مساوی حقوق حاصل ہوجاتے۔ حالاں کہ مسلمانوں کو اس طرح کے کئی ٹیکس زکوٰة و صدقات اور عشر و خراج نکالنے پڑتے تھے اور حکومت ان سے وصول کرتی تھی، باوجود اس کے ملک کی فلاح و بہبود اوراس کی تعمیر و ترقی کے ساتھ فوجی خدمات پر بھی مامور ہونا پڑتا ہے، جہاد میں شرکت کرنا پڑتا تھا۔ چنانچہ جزیہ کی وصولی کی حکمت بیان کرتے ہوئے علامہ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں کہ:”ذمیوں پر جزیہ لگانے کی ایک دوسری وجہ بھی تھی اور یہ وہی وجہ ہے جس کا سہارا ہر زمانہ میں کوئی بھی حکومت ٹیکس لگاتے وقت لیتی ہے، یعنی مفاد عامہ کے اخراجات مثلاً پولیس اور عدالت کا نظام، سڑکوں اور پلوں وغیرہ کی تعمیر کے کام جو معیشت کی بہتری کے لیے ضروری ہیں اور جن سے ہرشہری چاہے وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم یکساں فائدہ اٹھاتا ہے۔ مسلمان زکوٰة، صدقہٴ فطر اور دیگر ٹیکسوں کی صورت میں اس طرح کے اخراجات میں حصہ لیتے ہیں۔ اگر غیرمسلمین جزیہ کی صورت میں ایک معمولی رقم کے ذریعہ ان میں حصہ لیں تو تعجب کی کیا بات ہوگی۔“
اب ان متمدن اور مہذب مغربی اقوام کا حال بھی سن لیجئےجن کے سکالرزجزیہ کو بدنام کرنے اور اسے ذلت کی نشانی ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا تے ہیں۔ خود یہ لوگ فتح کے بعد مفتوح قوم سے اپنا سارا جنگ کا خرچہ بطور تاوان جنگ وصول کرتے اور کرتے رہے ہیں۔ پچھلی چند صدیوں میں تو تاوان جنگ کے علاوہ سیاسی اوراقتصادی غلامی پر بھی مفتوح اقوام کو مجبور کیا جاتا رہا۔ البتہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سیاسی غلامی کو متروک قرار دے کر اس کے بدلے اقتصادی غلامی کے بندھن مضبوط تر کردیئے ہیں ان کے زرخیز ترین علاقہ پر ایک طویل مدت کے لیے قبضہ کرلیا جاتا ہے اور اس معاملہ میں انتہائی سختی سے کام لیا جاتا ہے تاکہ مفتوح قوم میں بعد میں اٹھنے کی سکت ہی باقی نہ رہ جائے۔ اسلام نے جزیہ کی ایسی نرم شرائط سے ادائیگی کے بعد نہ تاوان جنگ عائد کرنے کی اجازت دی ہے اور نہ ہی کسی طرح کی اقتصادی غلامی کی۔
جزیہ کے حوالے سے سب سے ذیادہ اعتراضات عیسائی مستشرقین اور مشنریز نے اٹھائے ۔ضروری ہے کہ انہیں اپنی کتابوں کا آئینہ بھی دکھا دیا جائے ۔تورات میں ہے کہ اگر بنی اسرائیل فلسطین کے علاوہ کسی اور ملک سے جنگ کرنے کے لیے نکلتے ہیں لیکن جنگ کی نوبت نہیں آتی اور صلح ہوجاتی ہے تو ایسی صورت میں اس کے باشندوں سے خراج وصول کرنے کا حکم دیا گیا ہے :” جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اس کے نزدیک پہنچے تو پہلے اسے صلح کا پیغام دینا اور اگر وہ تجھ کو صلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لیے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باجگزار بن کر تیری خدمت کریں اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے لڑنا چاہے تو تو اس کا محاصرہ کرنا اور جب خداوند تیرا خدا سے تیرے قبضہ میں کر دے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کر ڈالنا “۔ (استثنا ٢٠ : ١٠ تا ١٣) ۔
*مذہبی آزادی:
جہاں تک آزادی کا تعلق ہے تو اسلامی ریاست میں تمام اقلیتوں کو مذہبی آزادی حاصل ہوتی ہے۔ ان کے عبادت خانے کھلے رہتے ہیں ، ان کی جان مال اور آبرو بالکل اسی طرح محفوظ ہوتی ہے جس طرح مسلمانوں کی۔ اس طرح انھیں ہر طرح کی معاشی آزادیاں ہوں گی لیکن وہ سودی کاروبار نہیں کرسکیں گے اور اپنی آبادیوں سے باہر خنزیر اور شراب کو بیچ نہیں سکیں گے۔ جہاں تک مذہب کی تبلیغ کرنے کی آزادی کا سوال ہے تو تبلیغ کی کئی شکلیں ہیں۔ ایک شکل یہ ہے کہ کوئی مذہبی گروہ خود اپنی آئندہ نسلوں کو اور اپنے عوام کو اپنے مذہب کی تعلیم دے۔ اس کا حق تمام ذمی گروہوں کو حاصل ہوگا۔ دوسری شکل یہ ہے کہ کوئی مذہبی گروہ تحریر یا تقریر کے ذریعے سے اپنے مذہب کو دوسروں کے سامنے پیش کرے اور اسلام سمیت دوسرے مسلکوں سے اپنے وجہ اختلاف کو علمی حیثیت سے بیان کرے۔ اس کی اجازت بھی ذمیوں کو ہوگی۔ تیسری شکل یہ ہے کہ کوئی گروہ اپنے مذہب کی بنیاد پر ایک منظم تحریک ایسی اٹھائے جس سے سوسائٹی کے لوگوں کے دینی عقائد و نظریات کو مجروع کیا جائے ، انکی دل آزاری ہو یا اس کی غرض یہ ہو کہ ملک کا نظام تبدیل ہو کر اسلامی اصولوں کے بجائے اس کے اصولوں پر قائم ہو جائے۔ ایسی تبلیغ کی اجازت اسلامی ریاست بلکہ کوئی بھی ریاست اپنی حدود اقتدار میں نہیں دیتی۔
*آیت جزیہ اور ذلیل کرنے کا اعتراض
قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ 29ۧ
اہل کتاب جو کہ نہ خدا پر (پورا پورا) ایمان رکھتے ہیں اور نہ قیامت کے دن پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام بتلایا ہے اور نہ سچے دین (اسلام) کو قبول کرتے ہیں ان سے یہاں تک لڑو کہ وہ ماتحت ہو کر اور رعیت بنکر جزیہ دینا منظور کریں۔ (ترجمہ اشرفی)
آیت میں ” صَاغِرْوُنَ “ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا معنی ذلیل اور چھوٹا ہونا بھی ہے۔ بعض معترضین اس پر اعتراض اٹھائے ہیں کہ اسلام اپنی غیر مسلم رعایا کو ذلیل کرکے رکھنا پسند کرتا ہے ۔ اس سلسلے میں بعض لوگوں کے دلوں میں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ہم یہاں انھیں وارداتِ قلبیہ کا جائزہ لیں گے۔ مثلاً کوئی کہہ سکتا ہے کہ جب معاملہ یہ ہے تو آیتِ جزیہ ’’حَتیّٰ یُعْطُوْا لجِزْیَۃَ عن یدوہم صاغرون‘‘میں ’’صَاغِرُوْنَ‘‘ کے کیا معنی ہوں گے؟ اور مسلم حکمرانی کے بعض ادوار میں ذمیوں سے کیوں بظاہر حقارت آمیز طریقے سے جزیہ وصول کیاجاتا تھا؟
اس کا صحیح جواب جاننے کے لیے ضروری ہے کہ آیتِ مذکورہ کی ایسی تفسیر کی جائے جو اسلام کے عام اصولوں سے ہم آہنگ ہو اور اس سلسلے میں یہ بات بھی نگاہ میں رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے اسلام کے زریں دور میں اہلِ کتاب (یہود ونصاریٰ) سے کس طرح سے جزیہ لیا تھا۔اہل علم واقف ہیں کہ اسلام نے اہلِ کتاب کے عقائد، ان کے اموال اور ان کی عبادت گاہوں کے احترام کی کس قدر تاکید کی ہے۔ اسی طرح انھیں کسی طرح کی ایذا پہنچانے سے قطعی طور پر منع کیاگیا ہے، چاہے وہ زبان ہی کی حد تک کیوں نہ ہو۔ جس طرح کسی مسلمان کی غیبت کرنے سے روکا گیا ہے اسی طرح اُن ذمّیوں (غیر مسلم رعایا) کی غیبت کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
اس سلسلے میں جب ہم اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اہلِ کتاب سے جزیہ وصول کرنے کے معاملے میں نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے اور نہ ہی خلفاے راشدین کی جانب سے کوئی ایک ایسا واقعہ ملتا ہے کہ اہلِ کتاب کے ساتھ کوئی ایسا سلوک کیاگیا ہو جسے ذلت و حقارت پر محمول کیا جاسکے۔ اہلِ کتاب سےکبھی اس طرح سے جزیہ نہیں لیاگیا جس سے اُن کے ساتھ کسی طرح کی بدسلوکی یا حقارت کا اظہار ہوتا ہو ۔ اور اسلام نے تو اہلِ کتاب کو ایذا پہنچانے سے منع کیا ہے، حتیٰ کہ اُن کی غیبت کرنا بھی منع ہے تو بھلا ان کے ساتھ ذلت و حقارت کا معاملہ کرنا کیسےجائز ودرست ہوسکتا ہے۔ہمارے لیے چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی شارع (نظامِ قانون بنانے والے) ہیں، اس لیے آپ کا اُسوہ ہی ہمارے لیے قابلِ تقلید و اتباع ہے۔ اور خلفاے راشدین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں سب سے زیادہ آپؐ کے قریب رہے ہیں اور آپؐ کی لائی ہوئی شریعت کو سب سے زیادہ مضبوطی سے پکڑنے والے تھے۔ لیکن ان کے دور میں جزیہ کی وصولیابی کے تعلق سے اہانت و حقارت کا کوئی ایک واقعہ بھی تاریخ کی کتابوں میں منقول نہیں ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ ہم آیت جزیہ کو اس طرح نہ سمجھیں جس طرح کہ بعض لوگوں نے اُسے سمجھا ہے۔ چنانچہ ہم اللہ تعالیٰ کے قول ’’عَنْ یَدِِ‘‘ میں ’’الیَدُ‘‘ کی تفسیر قدرت، استطاعت اور طاقت سے کرتے ہیں۔ ہمیں نصوصِ قرآنی اور عربی زبان و ادب میں ایسے شواہد ملتے ہیں جو اس مفہوم کی تائید کرتے ہیں۔ آپ خالد بن ولیدؓ کے عہد میں ناطفؔ پادری کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی تحریر میں دیکھ چکے ہیں کہ حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول، ’’علیٰ کل ذِی یَدِِ‘‘ ہے، جس کا صاف اور واضح مطلب ہے کہ ہر صاحب قدرت پر جزیہ لاگو ہوگا۔ اور ہم یہ بات بتا چکے ہیں کہ جزیہ صرف ان لوگوں پر عائد ہوگا جو اُس کی ادائی پر قادر ہوں۔ اِسی بنا پر چھوٹے بچوں ، معذوروں ، فقیروں، راہبوں اور خواتین کو جزیہ سے مستثنیٰ کردیاگیا ہے۔
رہا اللہ تعالیٰ کا قول: ’’وَہُمْ صَاغِرُوْن‘‘ تو یقینی طور پر یہاں لفظ صَغَار ذلت و حقارت کے بجائے خُضُوع (خود سپردگی، تابعداری اور ماتحتی) کے معنٰی میں ہے ۔ اور لغت میں بھی صَغَارٌ (جس سے صاغرون مشتق ہے)کے معنٰی خُضُوع کے آتے ہیں، یعنی کسی کے سامنے جھکنا اور اپنے کو اس کی تابعداری و ماتحتی میں دینا۔ چنانچہ ولد صغیر کا اِطلاق اس بچے پر ہوتا ہے جو اپنے والدین اور اپنے سے بڑوں کی اطاعت کے لیے جھکا رہا ہے۔ اور جزیہ کے سیاق میں خُضوع سے مراد اسلامی مملکت کے اقتدا کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی اطاعت و تابعداری میں جھکے رہنا ہے یا اس کی ماتحتی قبول کرنا ہے۔ اسی لیے بعض علماء نے لکھا ہے کہ آیت مذکورہ میں عطاء جزیہ کے ساتھ جو عَنْ يَّدٍ فرمایا ہے اس میں حرف عَنْ بمعنی سبب اور يَّدٍ بمعنی قوت و غبلہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ یہ جزیہ کا دینا بطور اختیاری چندہ یا خیرات کے نہ ہو، بلکہ اسلامی غلبہ کو تسلیم کرنے اور اس کے ماتحت رہنے کی حیثیت سے ہو ( کذا فی الروح المعانی) اور ذمّیوں کی طرف سے جزیہ ادا کرنے کا مطلب مملکت اسلامی سے وفاداری اور تعلق کا اظہار ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلامی مملکت ان کے جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت کرتی ہے۔ اور ان کے جملہ معاملات کی نگرانی اور ان کے مذہبی عقائد کے احترام کا بھی اہتمام کرتی ہے۔ اور اختلاف عقائد کے باوجود سارے باشندوں کو مملکتِ اسلامی کے اقتدار اور اس کے قوانین و ضوابط کو قبول کرنے اور اس کی تابعداری کے لیے ذلت وحقارت کا راستہ نہیں اختیار کیا جائے گا۔ آیت جزیہ کی یہی وہ صحیح تفسیر ہے جو نُصوص قرآنی، شریعتِ اسلامی کے اصول ومبادی اور اسلام کے گزشتہ سنہری دور کے تاریخی و اقعات سے ہم آہنگ ہے۔ اس کی تفسیر امام شافعی (رح) سے بھی یہ منقول ہے کہ وہ اسلامی ریاست کے قوانین کے تابع ہو کر رہنا منظور کرلیں (روح المعانی ج 10 ص 379)
رہی یہ بات کہ مسلم حکمرانی کے بعض ادوار میں، خصوصاً عہدِ عثمانی کے اواخر میں جزیہ کچھ اس طرح لیاجاتا تھا کہ اس میں ذلت و حقارت بھی شامل ہوتی تھی، تو اُسے اسلام کے خلاف حجت نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ اسلام میں قانون سازی کے کچھ ذرائع ہیں جو اسلامی نظام کے قوانین وضوابط طے کرتے ہیں، اور وہ قرآن وسنت اور اجماع (اجماعِ امت) ہیں۔ اس لیے مسلمانوں میں سے کسی فردِ واحد کا کوئی عمل، خواہ وہ کسی حیثیت و منصب کا حامل ہو اسلام کے خلاف دلیل نہیں بن سکتاہے۔ ہاں رسول اللہﷺ کا عمل دلیل بن سکتا ہے۔ رہاصحابہ کرامؓ کا عمل تو وہ نبیﷺ کے شاگرد اور رفقاء ہیں اور لوگوں میں سب سے زیادہ مقاصد شریعت پر نظر رکھنے والے ہیں۔اُن کے بارے میں جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ اُن کا عمل اُسی وقت حُجت بنے گا، جب وہ اسلامی شریعت کے احکام کے مطابق ہوگا۔
جہاں تک ان روایات کا تعلق ہے جن میں جزیہ لینے میں سختی کاحکم ہے جیسا کہ عبدالکریم الجزری نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے کہ وہ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ جب نبطیوں (ایک عجمی قوم جو عراق میں دجلہ و فرات کے دوآبہ کے درمیان آباد تھی) سے جزیہ وصول کیا جائے تو ان کے ساتھ اس معاملے میں پوری سختی کی جائے۔۔ اس طرح بعض فقہی کتابوں میں کچھ احکام آئے ہیں جیسے لانے والا اخراج کی رقم خود لائے ، کسی کے ہاتھ نہ بھیجے اور پیدل آئے سواری سے نہ آئے ، اور کھڑے کھڑے پیش کرے ، جبکہ وصول کرنے والا بیٹھے بیٹھے وصول کرے ، اور وہ بھی اس کی گردن پر تھپڑ لگائے وغیرہ وغیرہ ایسی روایات اور احکام ان سرکش طبیعت لوگوں کے لیے تھے جنہیں جنگ اور محکومی بھی سدھار نہیں سکی ، و ہ اپنی پرانی روش پر ہی قائم تھے اور اسلامی قوانین اور عمال کو حقیر سمجھتے تھے۔ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں اس بارے میں لکھتے ہیں :
” یہ طرز عمل ایسے ہی لوگوں کے ساتھ مناسب ہے ، جو اپنی بےغیرتی اور بےشرمی کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں ، کہ ان کے ساتھ ایسا نہ کیا جائے ، تو انہیں اپنی ذلت احساس بھی نہ ہو۔ رہ گئے وہ جو بڑی حساس طبیعت رکھتے ہیں ، صرف جزیہ دیتے رہنا ہی ان کی نظر میں ان کے لئے کمال ذلت کی بات ہے۔ تو پھر ایسوں کو ذلت کا احساس دلانے کے لئے تھپڑ مارنے ، سخت کلامی کرنے اور ان کے دامن و گریبان کو کھینچنے کی ضرورت نہیں… الحاصل ہر فرد کے ساتھ اس کے مزاج وطبیعت کے مناسب سلوک کیا جائے”۔(تفسیر آیت 29، سور ت التوبہ )
مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں ’’ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جو جزیہ عائد کیا جاتا ہے وہ درحقیقت کوئی سزا نہیں ہے، بلکہ اس کا مدعا صرف یہ ہے کہ امن وآئین کے پابند ہوں،رضا ورغبت کے ساتھ قانونِ عدل کی اطاعت کریں اور اپنی استطاعت بھراس حکومت کے مصارف ادا کریں جو انہیں پر امن زندگی بسر کرنے کا موقع دیتی ہے،ظلم وتعدی سے محفوظ رکھتی ہے،انصاف کے ساتھ حقوق تقسیم کرتی ہے،قوت والوں کو کمزوروں پر ظلم کرنے سے روکتی ہے،کمزوروں کو قوت والوں کا غلام بننے سے بچاتی ہے اور تمام سرکش عناصر کو اخلاق وانسانیت کے حدود کا پابند بناتی ہے۔‘‘(الجہاد فی الاسلام ص۱۲۵،مطبوعہ مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی دسمبر ۱۹۷۹ء)
جہاد تک خلافت عثمانی کے آخری ادوار کا تعلق ہے یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اسلامی حکومت کے آخر کے ادوار میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات متعدداسباب کی بنا پر ابتری کا شکار ہوگئے تھے۔اب ایسی خراب فضا میں جس میں غیرمسلموں کے تعلقات اسلامی مملکت کے ساتھ اچھے نہ رہے ہوں، بسا اوقات کوئی حاکم انحراف کا شکار ہوکر انتقام کی طرف مائل ہوسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی فقیہ یا مفتی غلطی کربیٹھے، اور کوئی ایسی بات طے کردے جو اسلامی شریعت کی روح اور اس کے عام اصول و مبادی کے منافی ہو۔ لیکن بہر صورت سارا قصور منحرف حاکم یا جاہل مفتی کا ہوگا۔ اسلامِ عظیم کی تعلیمات اس سے بالکل بَری ہیں۔ اسلام کے قوانین مبنی برحق اور ہر طرح کے نقائص سے پاک ہیں ۔ بڑے سے بڑا متعصب بھی آج تک اُن میں کوئی نقص یا عیب نہیں نکال سکا ہے۔اسلام نے جزیہ کے معاملے میں اخلاق، رواداری اور شرافت کی شاندار مثال قائم کی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بیسویں صدی میں مغربی استعمار کے جوئے تلے دبی اقوام کو اپنی جان ومال کی حفاظت، اپنے عقائد کی ضمانت اور اپنے حقوق کی رعایت اس درجہ نہیں حاصل تھی جتنی کہ چودہ سو سال پہلے اسلامی مملکت میں فتح وعزت کے دنوں میں مُحارب اور مغلوب اقوام کو حاصل تھی۔
استفادہ تحریر: ڈاکٹر مصطفیٰ سباعی ترجمہ: عبدالحلیم فلاحی