جاوید احمد غامدی صاحب اور ان کے شاگردوں نے اہل کتاب عورتوں کے ساتھ نکاح سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ دوستانہ روابط رکھے جاسکتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اہل کتاب خواتین کے ساتھ نکاح کی اجازت کا اصل مقصد اہل کتاب کے ساتھ دوستانہ روابط قائم کرنا نہیں تھا، بلکہ ان کی خواتین کو اسلام کی قبولیت کا موقع دینا تھا ۔ اگر مقصد محض دوستانہ روابط بنانا تھا تو پھر اہل کتاب مردوں سے مسلمان عورتوں کے نکاح کی اجازت کیوں نہیں دی گئی؟
اس مکتب فکر کے بعض لوگوں نے اس سے آگے بڑھ کر قرار دیا ہے کہ جن غیر مسلموں سے نکاح کی حرمت کا حکم تھا وہ صرف وہی تھے جن پر رسول اللہ ﷺ نے اتمام حجت کیا تھا۔ باقی رہے آج کل کے غیر مسلم تو یہ حکم ان کے لیے نہیں ہے۔ یہ رائے فقہائے اسلام کے اجماعی موقف کے خلاف تو ہے ہی لیکن یہاں اس رائے پر مولانا اصلاحی کے اصولوں کے تحت تنقید کی جاتی ہے:
پہلے اس آیت کریمہ کے الفاظ پر غور کریں جس میں یہ اجازت دی گئی ہے:
الْیَوْمَ أُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ حِلٌّ لَّکُمْ وَطَعَامُکُمْ حِلُّ لَّہُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ إِذَا آتَیْْتُمُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْْرَ مُسَافِحِیْنَ وَلاَ مُتَّخِذِیْ أَخْدَانٍ وَمَن یَکْفُرْ بِالإِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ وَہُوَ فِیْ الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (سورۃ المائدۃ، آیت ۵)
“آج تمہارے لیے پاک چیزیں حلال کردی گئی ہیں، اور جن کو کتاب دی گئی ہے ان کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے۔ اور (حلال ہیں تمہارے لیے) پاک دامن عورتیں مسلمانوں میں سے اور پاک دامن عورتیں ان میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی، بشرطیکہ ان کو قید نکاح میں لاکر ان کا مہر ادا کردو، نہ کہ بدکاری کرتے ہوئے یا آشنائی گانٹھتے ہوئے۔ اور جو ایمان کے ساتھ کفر کرے گا تو اس کا عمل ڈھے جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔”
پہلے تو لفظ الیوم پر غور کریں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پچھلی آیات کی طرح یہ آیت بھی اس وقت نازل ہوئی جب اہل کتاب پر حجت تمام ہوچکی تھی۔ اس کے بعد الذین أوتوا الکتٰب کی ترکیب پر بھی غور کریں۔ جیسا کہ مولانا اصلاحی نے واضح کیا ہے، قرآن مجید میں یہ ترکیب بالعموم شرار اہل کتاب کے متعلق استعمال ہوئی ہے جبکہ خیار اہل کتاب کے لیے بالعموم الذین آتینٰھم الکتٰب کی ترکیب آئی ہے۔ اس کے بعد لفظ المحصنٰت پر غور کریں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان شرار اہل کتاب کے زیر تسلط بعض پاکباز خواتین پائی جاتی تھیں۔پھر نکاح کے مقصد پر بھی نظر ڈالیں۔ کہا گیا کہ تمہارا مقصد شہوت رانی یا خفیہ آشنائی قائم کرنا نہ ہو، بلکہ پاکبازی اختیار کرنا ہو۔ اس کے بعد آیت کے آخری حصے پر نظر ڈالیں جس میں مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ کہیں وہ ایمان کو چھوڑ کر کفر کی روش نہ اختیار کرلیں۔
پس آیت کا مجموعی پیغام یہ ہوا کہ جس وقت شرار اہل کتاب پر حجت تمام کی گئی اس وقت بھی ان کے ہاں چند پاکباز خواتین پائی جاتی تھیں جن سے نکاح کی اجازت مسلمانوں کی دی گئی تاکہ وہ انہیں شرار اہل کتاب کے قبضے سے نکالیں اور انہیں کھلے ماحول میں اسلام کو سمجھنے کا موقع ملے تو شاید وہ اسلام قبول کرلیں۔ ماحول کا اثر مردوں پر بھی ہوتا ہے لیکن خواتین کی انفعالی طبیعت کی وجہ سے ان پر اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے ملکہ سبا کے متعلق بھی گواہی دی ہے کہ وہ ایک سلیم فطرت کی مالک اور سوچنے سمجھنے والی خاتون تھیں لیکن جب تک وہ اپنے قوم کے اندر رہیں ان کے اثر سے شرک پر قائم رہیں۔ جب انہیں اس ماحول سے نکلنے کا موقع ملا تو فوراً ہی انہوں نے اسلام قبول کرلیا:
وَصَدَّہَا مَا کَانَتْ تَّعْبُدُ مِن دُونِ اللّٰہِ إِنَّہَا کَانَتْ مِن قَوْمٍ کَافِرِیْنَ (سورۃ النمل، آیت ۳۴)
“اور اس کو روک رکھا تھا ان چیزوں نے جن کو وہ اللہ کے ماسوا پوجتی رہی تھی۔ وہ ایک کافر قوم میں سے تھی۔”
تاہم اہل کتاب خواتین سے نکاح کی اجازت کے ساتھ ہی مسلمانوں کو خبردار کیا گیا کہ کہیں الٹا وہی اسلام چھوڑ کر کفر کے مرتکب نہ ہوجائیں۔ یہیں سے یہ بات خود بخود واضح ہوگئی کہ کیوں مسلمان خواتین کو اہل کتاب مردوں سے شادی کی اجازت نہیں دی گئی؟
یہاں یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موضوع پر مولانا اصلاحی کی رائے خود ان کے اپنے الفاظ میں نقل کی جائے:
”ہمارے سلف صالحین میں سے ایک گروہ نے دار الحرب اور دار الکفر میں کتابیات سے نکاح کو مکروہ قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک اس کے جواز کے لیے دار الاسلام ہونا بھی ایک شرط ہے۔ مجھے یہ قول بہت ہی قوی معلوم ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات انہوں نے فحوائے کلام سے مستنبط کی ہے۔ میں اس کے ماخذ کے لیے لفظ ’ الیوم‘ کی طرف پھر توجہ دلاتا ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اجازت میں وقت کے حالات کو بھی دخل ہے۔ اوپر ’ الیوم یئس الذین کفروا‘ اور ’الیوم أکملت لکم‘ والی آیات بھی گزر چکی ہیں، اور ’ فلا تخشوھم و اخشون‘ بھی ارشاد ہوچکا ہے، جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اس دور میں کفار کا دبدبہ ختم ہوچکا تھا اور مسلمان ایک ناقابل شکست طاقت بن چکے تھے۔ یہ اندیشہ نہیں تھا کہ ان کو کتابیات سے نکاح کی اجازت دی گئی تو وہ کسی احساس کمتری میں مبتلا ہو کر تہذیب اور معاشرت اور اعمال و اخلاق میں ان سے متاثر ہوں گے، بلکہ توقع تھی کہ مسلمان ان سے نکاح کریں گے تو ان کو متاثر کریں گے اور اس راہ سے ان کتابیات کے عقائد و اعمال میں خوشگوار تبدیلی ہوگی اور عجب نہیں کہ ان میں بہت سی ایمان و اسلام سے مشرف ہو جائیں۔
”علاوہ ازیں یہ پہلو بھی قابل لحاظ ہے کہ کتابیات سے نکاح کی اجازت بہر حال علی سبیل التنزل دی گئی ہے۔ اس میں آدمی کے خود اپنے اور اس کے آل و اولاد اور خاندان کے دین و ایمان کے لیے جو خطرہ ہے، وہ مخفی نہیں ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ مسلمان مردوں کو تو کتابیات سے نکاح کی اجازت دی گئی لیکن مسلمان عورت کو کسی صورت میں بھی کسی غیر مسلم سے نکاح کی اجازت نہیں دی گئی، خواہ کتابی ہو یا غیر کتابی۔ یہ چیز اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اجازت صرف ایک اجازت ہے۔ یہ کوئی مستحسن چیز نہیں ہے۔“
تقریباً اسی رائے کا اظہار جناب غامدی نے اپنی کتاب میزان کے باب ”قانون معاشرت“ میں کیا ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں:
”آیت کے سیاق سے واضح ہے کہ یہ اجازت اس وقت دی گئی، جب توحید کے معاملے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا اور مشرکانہ تہذیب پر اس کا غلبہ ہر لحاظ سے قائم ہوگیا۔ اس کے لیے آیت کے شروع میں لفظ ’الیوم‘ کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اجازت میں وقت کے حالات کو بھی یقینا دخل تھا۔ لہٰذا اس بات کی پوری توقع تھی کہ مسلمان ان عورتوں سے نکاح کریں گے تو یہ ان سے متاثر ہوں گی اور اس طرح شرک و توحید کے مابین کوئی تصادم نہ صرف یہ کہ پیدا نہیں ہوگا، بلکہ ہوسکتا ہے کہ ان میں بہت سی ایمان و اسلام سے مشرف ہوجائیں۔“
تاہم افغانستان پر امریکی حملے کے تناظر میں جب غامدی صاحب سے انٹرویو لیا گیا تو اس میں انہوں نے اس کے برعکس یہ موقف اختیار کیا کہ اگر اہل کتاب سے دوستی ناجائز ہوتی تو ان کی خواتین سے نکاح کی اجازت کیوں دی گئی؟ انہوں نے مزید قرار دیا کہ دوستی کی ممانعت تو ان اہل کتاب کے لیے ہے جن پر رسول اللہ ﷺ نے حجت تمام کردی تھی:
”یہ بات جزیرہ نماے عرب کے ان یہود و نصاری کے بارے میں کہی گئی ہے جن پر رسالت مآب ﷺ نے اتمام حجت کیا تھا۔ یہ بات قومی حیثیت میں یہود و نصاری کے بارے میں نہیں کہی گئی۔ اگر اس کو اس کی قومی حیثیت سے متعلق کیا جائے تو پھر اہل کتاب خواتین سے نکاح کی اجازت کے کیا معنی ہیں؟ یہ نکاح کیا دوستی اور محبت کے جذبات کے بغیر ہوجائے گا؟“
یہاں غامدی صاحب اپنے موقف کے اس تضاد کو محسوس نہیں کر پائے کہ اہل کتاب کی خواتین سے نکاح کی اجازت اس موقع پر دی گئی جب اہل کتاب پر حجت تمام کی جاچکی تھی۔ اگر نکاح کی اجازت سے مراد دوستانہ روابط کی اجازت تھی تو پھر اسی موقع پر اور اسی سورۃ المائدۃ میں اہل کتاب سے دوستی کی ممانعت کیوں کی گئی؟ پس مولانا اصلاحی کے اصولوں کی روشنی میں صحیح موقف یہ ہے کہ اہل کتاب پر حجت تمام کئے جانے کے بعد ان سے دوستانہ روابط کی ممانعت کی گئی اور ساتھ ہی ان کی پاکباز خواتین کو اسلام کی قبولیت کا موقع دینے کے لیے مسلمانوں کو ان سے نکاح کی اجازت دی گئی۔ واللہ تعالیٰ أعلم!
تحریر ڈاکٹر مشتاق احمد