ہمارے بعض دوست اکثر یہ شکوہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں مذہبی لوگ سیکولرازم کی مخالفت کرتے ہیں، جبکہ بھارت میں انہی مذہبی لوگوں یا جماعتوں کے ہم خیال اعلانیہ سیکولرازم کی حمایت کرتے ہیں، تو کیا یہ ’’کھلا تضاد‘‘ نہیں۔ آج ایک دوست نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے یہ فرمایا کہ جغرافیائی حدود سے عقائد نہیں تبدیل ہوجاتے، یعنی سیکولرازم کے حوالے سے جو دلائل یہاں مؤثر ہیں، انھیں بھارت میں بھی مؤثر ہونا چاہیے۔
بات انتہائی سادہ ہے، کوئی سمجھنا چاہے تو ایک لمحہ درکار ہوگا۔ ہاں سیکولرازم کی حمایت پر کمربستہ دوست جو اس حوالے سے اپنا مؤقف انتہائی قطعیت سے طے کر بیٹھے ہوں، ان کی بات دوسری ہے۔ میری یہ تحریر ویسے ان کے لیے ہے ہی نہیں، وہ دوست ضرور پیش نظر ہیں جن کے ذہن میں یہ مغالطہ گردش کر رہا ہے۔
ہم یعنی پاکستانی سیکولرازم کی مخالفت اور اسلامی ریاست، اسلامی نظام کا مطالبہ تین وجوہات کی بنا پر کرتے ہیں۔
ایک تو یہ کہ پاکستان بھاری مسلم اکثریت والا ملک ہے، یہاں کے سماج کے بنیادی فیبرک میں مذہب اور مذہبی تہذیب رچی بسی ہے۔ یہ مسلمان اکثریت چاہتی ہے کہ ان کے فیصلے، ان کا آئین، قوانین اور ڈوز، ڈونٹس اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے طریقے کے مطابق بنائے جائیں۔ یہ مسلمان الہامی دانش پر مکمل بھروسہ کرتے ہیں اور انسانی عقل و دانش کو قرآن کے سامنے ہیچ اور عاجز سمجھتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا ملک ہے، بنیادی مطالبہ ہی یہی تھا کہ مسلم اکثریتی علاقوں کو ایک الگ ملک بنایا جائے، جہاں وہ اپنے مذہبی قوانین، اسلامی کلچر اور نظریات کے مطابق رہ سکیں۔ اسلامی نظام ایک طرح سے پاکستان کے مطالبے کا اِن ِبلڈ یعنی لازمی جز ہے۔
تیسرا یہ کہ آج کے عہد میں اسلام کے تصور علم، اخلاقیات، معشیت، روایات، شہریات پر مبنی ایک اسلامی فلاحی جمہوری ریاست قائم کر کے دکھانا بہت ضروری ہے۔ یہ ہم مسلمانوں کی بطور امت ذمہ داری ہے، مگر پاکستان چونکہ بنا ہی کلمہ طیبہ کی بنیاد پر ہے، اس لیے پاکستانیوں پر زیادہ بڑی زمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان ایک ایسی اسلامی نظریاتی ریاست بنے جو یہ سب کام کرے، اور ایک اچھا فلاحی، عادلانہ اسلامی نظام پر مبنی معاشرہ اور حکومت بنا کر سب کو دکھائے۔
ان سب وجوہات کی بنا پر ہم سیکولرازم کی مخالفت کرتے ہیں کہ سیکولر ریاست میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں، کوئی سیکولر ریاست ملک میں اسلامی نظام قائم ہونے دے گی، نہ ہی وہ شہریوں کو اسلامی اخلاقیات اور تعلیم وتربیت فراہم کر سکتی ہے۔ سیکولر ازم لادینیت ہو یا نہ ہو، اس بحث سے قطع نظر یہ تو واضح ہے کہ وہ اگر پاکستان میں رائج ہوگیا تو دین اجتماعی معاشرے سے کٹ کر صرف گھروں تک محدود رہ جائے گا اور عملی طور پر لادینیت ہی آگے بڑھتی چلی جائے گی۔
اب رہی بات بھارت کی۔
بھارت ایک ہندو اکثریتی ملک ہے۔ جہاں ستر اسی فیصد کے قریب ہندو رہتے ہیں۔ کوئی احمق ہی بیس بائیس فیصد بھارتی مسلمانوں کو یہ مشورہ دے سکتا ہے کہ وہ یہ مطالبہ کریں کہ بھارت میں اسلامی نظام رائج کیا جائے۔ ظاہر ہے وہ وہاں اقلیت میں ہیں، وہ کیسے اسلامی ریاست کا مطالبہ کر سکتے ہیں؟ اگر وہ مذہبی ریاست کی بات کریں گے تو وہ صرف اور صرف ہندو ریاست ہوگی۔ کامن سینس یہ بتاتی ہے کہ ایسے میں ان کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟
دوسری بات یہ کہ بھارت تقسیم ہوا تو بھارتی قوم پرست مسلمانوں، جن میں مذہبی علماء بھی شامل تھے، نے کانگریس کا ساتھ دیا اور وہ سیکولرازم کو سپورٹ کرتے تھے۔ سیکولرازم بھارتی آئین کا حصہ ہے، بلکہ بھارتی سپریم کورٹ کے مطابق یہ آئین کا ایسا بنیادی جز ہے جسے بھارتی پارلیمنٹ بھی تبدیل نہیں کر سکتی۔ اس لیے بھارت کی جماعت اسلامی، جمعیت علمائے ہند یا دیگر مذہبی حلقے اگر سیکولرازم کی حمایت کر رہے ہیں تو وہ دراصل ایک ستر سالہ پرانی پالیسی کی حمایت ہے، ان میں سے بیشتر کا یہ تقسیم سے پہلے والا مؤقف تھا، جسے وہ آج بھی قائم رکھے ہوئے ہیں۔
تیسری بات یہ کہ بی جے پی کی شدت پسندانہ ہندوانہ پالیسی کے بعد بھارتی مسلمانوں کے پاس اور کیا آپشن رہ گئی ہے؟ وہ اقلیت میں ہیں، اس لیے ظاہر ہے بھارت میں اسلامی نظام کے نافذ ہونے کا مطالبہ نہیں کر سکتے، انہوں نے مذہب کی بنیاد پر تقسیم کی مخالفت کی تھی، اور سیکولر ریاست کی سپورٹ کی تھی، اب ان کے پاس ویسے بھی یہی ایک جائے آماں اور آپشن بچی ہے۔
چوتھی بات یہ کہ اگر فرض کریں بھارت میں سیکولر ازم آئین کا حصہ نہیں رہتا اور بھارت ایک ہندو ریاست بن جاتا ہے، تب بھی ہم پاکستانی تو کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ بھارتیوں کا اپنا داخلی معاملہ ہے۔ اگر ہندو بھارتی ریاست مسلمان اقلیتیوں کے مفادات کا تحفظ کرے، انھیں مذہبی آزادی دے، ان کے مسائل حل کرے تو ظاہر ہے کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ سیکور ازم بھارت یا کسی بھی غیر مسلم اکثریتی ملک میں رہنے والی مسلمان اقلیت کی محفوظ آپشن ہوسکتی ہے، لیکن اگر وہ غیر مسلم ریاست ہندو، عیسائی، یہودی ریاست بن بھی جائے، تب بھی ظاہر ہے جب تک مسلمان اقلیت کے ساتھ زیادتی نہیں ہوتی، ان کے حقوق سلب نہیں کیے جاتے، ان پر مذہبی پابندیاں نافذ نہیں ہوتیں، تب تک عالمی دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
پاکستان میں سیکولرازم کی مخالفت اور بھارت میں سیکولرازم کی حمایت یکسر الگ الگ ایشوز ہیں اور دونوں جگہ یہ مؤقف اختیار کرنے والے مسلمان اپنی جگہ درست ہیں۔
مثال یوں سمجھ لیں جیسے سندھ میں سندھی زبان سکولوں میں پڑھائی جاتی ہے، پیپلزپارٹی ظاہر ہے اس کی حامی ہے۔ لیکن اگر خیبر پختونخوا کی پیپلزپارٹی مطالبہ کرے کہ اس صوبے میں پشتو کو سکولوں میں پڑھایا جائے تو پنجاب کا کوئی دانشور اٹھ کر اسے پیپلزپارٹی کی منافقت کانام دے، اور دلیل یہ دے کہ سندھ میں یہ مختلف بات کر رہے ہیں، اور خیبرپختونخوا میں ان کا مؤقف الگ ہے، تو یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہوگی۔ بھائی میرے! ہر جگہ کے اپنے معروضی زمینی حقائق ہیں، ان کے مطابق مؤقف میں تبدیلی آنا فطری ہے۔
حرف آخر یہ کہ ہر بات کی مخالفت کرنے اور طنز کے تیر برسانے کے بجائے کچھ باتوں کو کامن سینس کی بنیاد پر ہی سمجھ لیا جائے تو کیا برائی ہے۔ کتنا وقت بچ جائے گا۔
تحریر عامر ہاشم خاکوانی