غلاموں اور لونڈیوں سے متعلق چند بڑے اعتراضات کے جوابات

قدیم زمانے میں غلام تین طرح کے تھے۔ ایک جنگی قیدی، دوسرے آزاد آدمی جن کو پکڑ پکڑ کر غلام بنایا اور بیچ ڈالا جاتا تھا۔ تیسرے وہ جو نسلوں سے غلام چلے آہے تھے اور کچھ پتہ نہ تھا کہ ان کے آباء و اجداد کب غلام بنائے گئے تھے اور دونوں قسموں میں سے کس قسم کے غلام تھے۔ اسلام جب آیا تو عرب اور بیرون عرب دنیا بھر کا معاشرہ ان تمام اقسام کے غلاموں سے بھرا ہوا تھا اور سارا معاشی و معاشرتی نظام مزدوروں اور نوکروں سے زیادہ ان غلاموں کے سہارے چل رہا تھا۔ اسلام کے سامنے پہلا سوال یہ تھا کہ یہ غلام جو پہلے سے چلے آ رہے ہیں ان کا کیا کیا جائے۔ اور دوسرا سوال یہ تھا کہ آئندہ کے لیے غلامی کے مسئلے کا حل کیا ہے۔

پہلے سوال کے جواب میں اسلام نے یہ نہیں کیا کہ یکلخت قدیم زمانے کے تمام غلاموں پر سے لوگوں کے حقوق ملکیت ساقط کر دیتا، کیونکہ اس سے نہ صرف یہ کہ پورا معاشرتی و معاشی نظام مفلوج ہو جاتا بلکہ عرب کو امریکہ کی خانہ جنگی سے بھی بدرجہا زیادہ سخت تباہ کن خانہ جنگی سے دوچار ہونا پڑتا اور پھر بھی اصل مسئلہ حل نہ ہوتا جس طرح امریکہ میں حل نہ ہوسکا اور سیاہ فام لوگوں (Negroes) کی ذلت کا مسئلہ بہرحال باقی رہ گیا۔ اس احمقانہ طریقِ اصلاح کو چھوڑ کر اسلام نے فَکّ رَقَبَہ کی ایک زبردست اخلاقی تحریک شروع کی اور تلقین و ترغیب، مذہبی احکام اور ملکی قوانین کے ذریعے سے لوگوں کو اس بات پر ابھارا کہ یا تو آخرت کی نجات کے لیے طوعاً غلاموں کو آزاد کریں، یا اپنے قصوروں کے کفارے ادا کرنے کے لیے مذہبی احکام کے تحت انہیں رہا کریں، یا مالی معاوضہ لے کر ان کو چھوڑ دیں۔ اس تحریک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود 63 غلام آزاد کیے۔ آپ کی بیویوں میں سے صرف ایک بیوی حضرت عائشہؓ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 67 تھی۔ حضور کے چچا حضرت عباس ؓ نے اپنی زندگی میں 70 غلاموں کو آزاد کیا۔ حکیم بن حزامؓ نے 100، عبداللہ بن عمرؓ نے ایک ہزار، ذوالکلاع حمیریؓ نے آٹھ ہزار اور عبدالرحمٰن بن عوف نے تیس ہزار کو رہائی بخشی۔ ایسے ہی واقعات دوسرے صحابہ کی زندگی میں بھی ملتے ہیں جن میں حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عثمانؓ کے نام بہت ممتاز ہیں۔ خدا کی رضا حاصل کرنے کا ایک عام شوق تھا جس کی بدولت لوگ کثرت سے خود اپنے غلام بھی آزاد کرتے تھے اور دوسروں سے بھی غلام خرید خرید کر آزاد کرتے چلے جاتے تھے۔ اس طرح جہاں تک سابق دور کے غلاموں کا تعلق ہے، وہ خلفائے راشدین کا زمانہ ختم ہونے سے پہلے ہی تقریباً سب کے سب رہا ہو چکے تھے۔

اب رہ گیا آئندہ کا مسئلہ۔ اس کے لیے اسلام نے غلامی کی اس شکل کو تو قطعی حرام اور قانوناً مسدود کر دیا کہ کسی آزاد آدمی کو پکڑ کر غلام بنایا اور بیچا اور خریدا جائے اس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی آزاد کو پکڑ کر بیچے گا اس کے خلاف میں خود قیامت کے روز مدعی بنوں گا (بخاری)۔ البتہ جنگی قیدیوں سے متعلق اسلام کا قانون یہ قرار پایا کہ جو لوگ جنگ میں گرفتار ہوں ان کو یا تو احسان کے طور پر رہا کر دیا جائے یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے یا دشمن کے مسلمان قیدیوں سے ان کا مبادلہ کر لیا جائے لیکن اگر یونہی رہا کر دینا جنگی مصالح کے خلاف ہو اور فدیہ وصول نہ ہوسکے اور دشمن اسیران جنگ کا مبادلہ کرنے پر بھی رضا مند نہ ہو تو مسلمانوں کو حق ہے کہ انہیں غلام بنا کر رکھیں۔

البتہ اس قسم کے غلاموں کے ساتھ انتہائ حسن سلوک اور رحمت و رأفت کے برتاؤ کا حکم دیا گیا ہے، ان کی تعلیم و تربیت دینے اور انہیں سوسائٹی کے عمدہ افراد بنانے کی ہدایت کی گئ ہے اور مختلف صورتیں ان کی رہائ کے لیے پیدا کی گئ ہیں۔ ان غلاموں کے لیے ایک طرف اس امر کا موقع کھلا رکھا گیا کہ وہ اپنے مالکوں سے مکاتبت (معاہدہ) کر کے رہائ حاصل کر لیں اور دوسری طرف وہ تمام ہدایات ان کے بارے میں موجود رہیں جو قدیم غلاموں کے بارے میں تھیں کہ نیکی کا کام سمجھ کر رضائے الٰہی کے لیے انہیں آزاد کیا جائے، یا گناہوں کے کفارے میں ان کو آزادی بخش دی جائے یا کوئ شخص اپنی زندگی تک اپنے غلام کو غلام رکھے اور بعد کے لیے وصیت کر دے کہ اس کے مرتے ہی وہ آزاد ہو جائے گا (جسے اسلامی فقہ کی اصطلاح میں تدبیر اور ایسے غلام کو مدبر کہتے ہیں) یا کوئ شخص اپنی لونڈی سے تمتع کرے اور اس کے ہاں اولاد ہو جائے اس صورت میں مالک کے مرتے ہی وہ آپ سے آپ آزاد ہو جائے گی خواہ مالک نے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو۔ یہ حل ہے جو اسلام نے غلامی کے مسئلے کا کیا ہے۔ معترضین اس کو سمجھے بغیر اعتراضات جڑتے ہیں اور معذرت پیشہ حضرات اس کی معذرتیں پیش کرتے کرتے آخر اس امر واقع کا ہی انکار کر بیٹھتے ہیں کہ اسلام نے غلامی کو کسی نہ کسی صورت میں باقی رکھا تھا۔

غلاموں اور لونڈیوں سے متعلق چند سوالات

سوال

“اکثر علماء لونڈیوں سے بلا نکاح تمتع کے جواز میں

’إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ۔ (المومنون ۶)

 سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں۔‘

پیش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا جواب کیا ہے؟

  1. لونڈیوں سے بلا نکاح تمتع محض شہوت رانی ہے اور اسلام اس کے خلاف ہے۔

وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ كِتَابَ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا۔ (النساء ۲۴)

اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پر حرام ہیں) سوائے ان (کافروں کی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آ جائیں، (ان احکامِ حرمت کو) اللہ نے تم پر فرض کر دیا ہے، اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاک دامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے، پھر ان میں سے جن سے تم نے اس (مال) کے عوض فائدہ اٹھایا ہے انہیں ان کا مقرر شدہ مَہر ادا کر دو، اور تم پر اس مال کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مَہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہو جاؤ، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔

  1. اگر ملکیت کی بناء پر مالک کو حقِ وطی حاصل ہو جاتا ہے تو ایک غلام کی مالکہ جو غیر شادی شدہ ہو اس کو بھی اپنے غلام سے استفادہ کا موقع حاصل ہونا چاہیے۔ مخلوط نسل کی پیدائش کو روکنے کے لیے وہ مانعات حمل استعمال کرسکتی ہے۔
  2. غیر مسلم محارب قومیں اگر گرفتار شدہ مسلمان عورتوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کریں تو عقلاً اس کے خلاف مسلمانوں کو احتجاج کا کیا حق ہے؟
  3. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک اور بے لوث زندگی بالخصوص عالمِ شباب میں خانگی زندگی بہترین مثال ہے۔ یہ کہاں تک صحیح ہے کہ آخری عمر میں جب کہ متعدد ازواج مطہرات موجود تھیں آپ نے بھی لونڈیوں سے تمتع کیا؟
  4. اگر ملکیت سے حق وطی حاصل ہوتا ہے تو

وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلاً أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مِّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُمْ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ وَأَن تَصْبِرُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (النساء ۲۵)

اور تم میں سے جو کوئی (اتنی) استطاعت نہ رکھتا ہو کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کر سکے تو ان مسلمان کنیزوں سے نکاح کر لے جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں ہیں، اور اللہ تمہارے ایمان (کی کیفیت) کو خوب جانتا ہے، تم (سب) ایک دوسرے کی جنس میں سے ہی ہو، پس ان (کنیزوں) سے ان کے مالکوں کی اجازت کے ساتھ نکاح کرو اور انہیں ان کے مَہر حسبِ دستور ادا کرو درآنحالیکہ وہ (عفت قائم رکھتے ہوئے) قیدِ نکاح میں آنے والی ہوں نہ بدکاری کرنے والی ہوں اور نہ درپردہ آشنائی کرنے والی ہوں، پس جب وہ نکاح کے حصار میں آ جائیں پھر اگر بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی آدھی سزا لازم ہے جو آزاد (کنواری) عورتوں کے لئے (مقرر) ہے، یہ اجازت اس شخص کے لئے ہے جسے تم میں سے گناہ (کے ارتکاب) کا اندیشہ ہو، اور اگر تم صبر کرو تو (یہ) تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اللہ بخشنے والا مہر بان ہے۔

کی صورت میں جب لونڈی کا نکاح کسی شخص سے کر دیا جائے تو کیا اس لونڈی پر دو اشخاص کو مباشرت کا حق ہو گا؟ ایک خاوند کو بلحاظ نکاح اور دوسرے مالک کو بلحاظ ملکیت۔ اگر نہیں تو کیوں؟

جواب

ان سوالات کے جوابات میں پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ حق ملکیت کی بنا پر تمتع کی اجازت قرآن مجید کی متعدد آیات میں صریح طور پر وارد ہوئ ہے۔ بہت سے لوگ اس معاملہ میں بڑی بے باکی کے ساتھ یہ سمجھتے ہوئے اعتراضات کر ڈالتے ہیں کہ یہ شاید محض “مولویوں” کا گھڑا ہوا مسئلہ ہو گا۔ اور بعض منکرین حدیث اس کو اپنے نزدیک “حدیث کے خرافات” میں سے سمجھ کر زبان درازی کرنے لگتے ہیں۔ لہٰذا ایسے سب لوگوں کو آگاہ رہنا چاہیے کہ ان کا معاملہ “مولویوں” کی فقہ اور محدثین کی روایات سے نہیں بلکہ خود خدا کی کتاب سے ہے۔ اس کے لیے حسب ذیل آیات ملاحظہ ہوں:

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواْ فِي الْيَتَامَى فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلاَّ تَعُولُواْ۔ (النساء ۳)

اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے)، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو) یا وہ کنیزیں جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں آئی ہوں، یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو۔

وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ كِتَابَ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا۔ (النساء ۲۴)

اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پر حرام ہیں) سوائے ان (کافروں کی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آ جائیں، (ان احکامِ حرمت کو) اللہ نے تم پر فرض کر دیا ہے، اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاک دامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے، پھر ان میں سے جن سے تم نے اس (مال) کے عوض فائدہ اٹھایا ہے انہیں ان کا مقرر شدہ مَہر ادا کر دو، اور تم پر اس مال کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مَہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہو جاؤ، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔

وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ۔ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ۔ (المومنون۶ ، ۵)

اور جو (دائماً) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا۔ (الاحزاب ۵۰)

اے نبی! بیشک ہم نے آپ کے لئے آپ کی وہ بیویاں حلال فرما دی ہیں جن کا مہَر آپ نے ادا فرما دیا ہے اور ان عورتوں کو جو (احکامِ الٰہی کے مطابق) آپ کی مملوک ہیں، جو اللہ نے آپ کو مالِ غنیمت میں عطا فرمائی ہیں، اور آپ کے چچا کی بیٹیاں، اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں، اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں، اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں، جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور کوئی بھی مؤمنہ عورت بشرطیکہ وہ اپنے آپ کو نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نکاح) کے لئے دے دے اور نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی) اسے اپنے نکاح میں لینے کا ارادہ فرمائیں (تو یہ سب آپ کے لئے حلال ہیں)، (یہ حکم) صرف آپ کے لئے خاص ہے (امّت کے) مومنوں کے لئے نہیں، واقعی ہمیں معلوم ہے جو کچھ ہم نے اُن (مسلمانوں) پر اُن کی بیویوں اور ان کی مملوکہ باندیوں کے بارے میں فرض کیا ہے، (مگر آپ کے حق میں تعدّدِ ازواج کی حِلّت کا خصوصی حکم اِس لئے ہے) تاکہ آپ پر (امتّ میں تعلیم و تربیتِ نسواں کے وسیع انتظام میں) کوئی تنگی نہ رہے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہے۔

آگے چل کر پھر فرمایا:

لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيبًا۔ (الاحزاب ۵۲)

اس کے بعد (کہ انہوں نے دنیوی منفعتوں پر آپ کی رضا و خدمت کو ترجیح دے دی ہے) آپ کے لئے بھی اور عورتیں (نکاح میں لینا) حلال نہیں (تاکہ یہی اَزواج اپنے شرف میں ممتاز رہیں) اور یہ بھی جائز نہیں کہ (بعض کی طلاق کی صورت میں اس عدد کو ہمارا حکم سمجھ کر برقرار رکھنے کے لئے) آپ ان کے بدلے دیگر اَزواج (عقد میں) لے لیں اگرچہ آپ کو ان کا حُسنِ (سیرت و اخلاق اور اشاعتِ دین کا سلیقہ) کتنا ہی عمدہ لگے مگر جو کنیز (ہمارے حکم سے) آپ کی مِلک میں ہو (جائز ہے)، اور اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے

ان آیات سے یہ بات صریح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ قرآن کی رو سے ملک یمین کی بنا پر تمتع جائز ہے۔ اب تحقیق طلب امر یہ ہے کہ یہ اجازت کن حالات میں دی گئی ہے؟ اس کا مقصد کیا ہے؟ اور اس سے استفادہ کی کیا کیا صورتیں شارع نے تجویز کی ہیں؟

جنگ میں گرفتار ہونے والے سبایا (لونڈی غلاموں) کے حق میں اسلام نے جو قوانین وضع کیے تھے ان کو سمجھنے میں آج لوگوں کو اس لیے دقتیں پیش آ رہی ہیں کہ اس زمانے میں وہ حالات باقی نہیں رہے ہیں جن کے لیے یہ قوانین وضع کیے گئے ہیں مگر قدیم ترین زمانے سے اٹھارویں صدی عیسوی کے آغاز تک دنیا میں اسیران جنگ کو غلام بنا کر رکھنے اور انہیں خرید و فروخت کرنے کا طریقہ رائج تھا۔ اس زمانہ میں بہت ہی کم ایسا ہوتا تھا کہ دو محارب سلطنتیں صلح کے بعد اسیران جنگ کا مبادلہ کرتیں یا ان کو فدیہ دے کر چھڑاتیں۔ زیادہ تر قاعدہ یہی تھا کہ جو لوگ جنگ میں گرفتار ہوتے وہ اسی سلطنت کے قبضہ میں رہتے جس کی فوج ان کو گرفتار کر کے لے جاتی۔ اس طرح آبادیوں کی آبادیاں قید ہو کر ایک ملک سے دوسرے ملک میں چلی جاتی تھیں اور کسی سلطنت کے یے یہ ممکن نہ تھا کہ ان کثیر التعداد قیدیوں کو مقید رکھ کر ان کے کھانے کپڑے کا بار اٹھاتی۔ اس لیے سلطنتیں اپنی ضرورت کے مطابق قیدیوں کو اپنے قبضے میں رکھتی تھیں اور باقیوں کو فوج کے افراد میں تقسیم کر دیتی تھیں، جن کے پاس وہ لونڈی غلام بن کر رہتے تھے۔

یہ حالات تھے جن سے اسلام کو سابقہ درپیش تھا۔ اس نے ان حالات میں دنیا کے سامنے یہ اصول پیش کیا کہ جو لوگ جنگ میں قید ہوں ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دو یا اسیران جنگ سے مبادلہ کر لو یا بطریق احسن رہا کر دو۔ لیکن اس اصلاحی تعلیم کا نفاذ تنہا مسلمانوں کے عمل سے نہ ہوسکتا تھا بلکہ اس کے لیے ان غیر مسلم قوموں کا راضی ہونا بھی ضروری تھا جن سے مسلمانوں کو جنگ پیش آتی تھی اور وہ اس وقت اس اصلاح کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھیں نہ اس کے بعد بارہ صدیوں تک آمادہ ہوئیں۔ اس لیے اسلام نے بدرجۂ آخر اس کی اجازت دی کہ دشمن کے اسیرانِ جنگ کو اسی طرح غلام بنا کر رکھا جائے جس طرح دوسری قومیں مسلمانوں کے اسیران جنگ کو رکھتی ہیں۔

مگر اس اجازت سے یہ خطرہ تھا کہ کہیں مسلمانوں کے اجتماعی نظام میں بھی ایک پست طبقہ (Depressed Class) پیدا نہ ہو جائے۔ جیسا کہ ہر اس قوم کے اجتماعی نظام میں ہوا ہے جس نے دوسری قوموں کو مغلوب کیا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اسیران جنگ کے ساتھ یہ معاملہ خلاف انسانیت تھا اس سے ان بہت سے اخلاقی و تمدنی مفاسد کے پیدا ہونے کا بھی اندیشہ تھا جو کسی نظامِ اجتماعی میں ایک ایسے طبقہ کی پیدائش کا لازمی نتیجہ ہیں۔ لہٰذا اسلام نے اسیران جنگ کو غلام بنا کر رکھنے کی اجازت تو ضرورت کی بنا پر دی مگر اس کے ساتھ ایسے قوانین بھی مقرر کیے جن کا منشاء یہ تھا کہ غلامی کی حالت میں بہتر سے بہتر سلوک جو ان کے ساتھ ممکن ہو وہ کیا جائے اور ایسے اسباب مہیا کیے جائیں جن سے وہ رفتہ رفتہ اسلامی سوسائٹی میں جذب ہو جائیں۔

یہی مقصد ہے جس کے لیے لونڈیوں سے تمتع کی اجازت دی گئی ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے اپنے تصور کو اب سے چند سو برس پیچھے لیے جائیے۔ فرض کیجئے کہ ایک غیر قوم سے مسلمانوں کی جنگ ہوتی ہے۔ اس میں ہزاروں عورتیں ان کے ہاتھ آتی ہیں۔ ان میں بہت سی جوان اور خوبصورت عورتیں بھی ہیں۔فریق مخالف نہ ان کو فدیہ دے کر چھڑا تا ہے نہ ان مسلمان عورتوں سے ان کا تبادلہ کرتا ہے جو اس کے قبضہ میں چلی گئی ہیں۔ مسلمان ان عورتوں کو بطریق احسان بھی نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ اس طرح تو ان کی اپنی عورتوں کے چھوٹنے کی کوئ امید کی ہی نہیں جاسکتی۔ ناچار وہ ان کو اپنے قبضے میں رکھتے ہیں۔ اب فرمائیے کہ اتنی کثیر تعداد میں جو عورتیں دار الاسلام میں آ گئی ہیں ان کو کیا کیا جائے۔ ان کو دائم الحبس کر دینا ظلم ہے۔ ان کو ملک میں آزاد چھوڑ دینا گویا فسق و فجور کے جراثیم پھیلا دینا ہے۔ ان کو جہاں جہاں بھی رکھا جائے گا، ان سے اخلاقی مفاسد پھیلیں گے۔ ایک طرف سوسائٹی خراب ہو گی اور دوسری طرف خود ان کی پیشانیوں پر ہمیشہ کے لیے ذلت کے داغ لگ جائیں گے۔ اسلام اس مسئلہ کو یوں حل کرتا ہے کہ انہیں افرادِ قوم میں تقسیم کر دیتا ہے اور ان افراد کو ہدایت کرتا ہے کہ خبردار ان کو رنڈیاں نہ بنا دینا کہ ان سے حرام کراؤ اور ان کو اپنی آمدنی کا ذریعہ بناؤ، بلکہ یا تو خود ان کو اپنے تصرف میں لاؤ نہیں تو ان کے نکاح کر دو تاکہ یہ بد کاریاں اور آشنائیاں نہ کرتی پھریں۔ اس قانون کی مختلف دفعات قرآن میں مختلف مقامات پر بیان کی گئی ہیں (1)۔ سورۂ نور کے چوتھے رکوع میں ہے:

وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِن بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَّحِيمٌ۔ (النور ۳۳)

اور ایسے لوگوں کو پاک دامنی اختیار کرنا چاہئے جو نکاح (کی استطاعت) نہیں پاتے یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی فرما دے، اور تمہارے زیردست (غلاموں اور باندیوں) میں سے جو مکاتب (کچھ مال کما کر دینے کی شرط پر آزاد) ہونا چاہیں تو انہیں مکاتب (مذکورہ شرط پر آزاد) کر دو اگر تم ان میں بھلائی جانتے ہو، اور تم (خود بھی) انہیں اللہ کے مال میں سے (آزاد ہونے کے لئے) دے دو جو اس نے تمہیں عطا فرمایا ہے، اور تم اپنی باندیوں کو دنیوی زندگی کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ پاک دامن (یا حفاطتِ نکاح میں) رہنا چاہتی ہیں (2)، اور جو شخص انہیں مجبور کرے گا تو اللہ ان کے مجبور ہو جانے کے بعد (بھی) بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

اس مقام پر یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اسیران جنگ میں سے کوئ عورت کس شخص کی ملکیت میں صرف اسی وقت آتی ہے جبکہ وہ حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کے حوالے کی جائے اور اس کے بعد اس عورت کے ساتھ مباشرت کا حق صرف اسی شخص کو حاصل ہوتا ہے۔ سرکاری طور پر تقسیم ہونے سے پہلے کسی عورت سے مباشرت کرنا زنا ہے۔ اور اس طرح تقسیم کے بعد ایک مالک کے سوا کسی اور آدمی کا اس کے ساتھ ایسا فعل کرنا زنا ہے۔ اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اسلام میں زنا ایک قانونی جرم ہے۔

عرب جاہلیت میں بہ کثرت لوگ ایسے تھے جنہوں نے اپنی لونڈیوں کے ذریعہ سے باقاعدہ قحبہ خانے کھول رکھے تھے۔ وہ ان کی کمائی کھاتے تھے اور ان کی ناجائز اولاد کو پال کر اپنے خدم و حشم میں اضافہ کرتے تھے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے ہیں تو وہاں عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین کا ایک قحبہ خانہ موجود تھا جس میں اس نے چھ لونڈیاں اسی غرض سے رکھ چھوڑی تھیں۔ اسی چیز کی ممانعت اس آیت میں کی گئی ہے۔

یہ اس قانون کی پہلی دفعہ ہے جس نے لونڈیوں کے ایک برے مصرف کا دروازہ قطعی بند کر دیا۔

مگر یہ ان کے لیے ہے جو اپنی عصمت کی حفاظت کرنا چاہتی ہوں۔ رہیں وہ لونڈیاں جو آپ ہی بدکاری کی طرف مائل ہوں تو ان کے بارے میں یہ حکم دیا گیا:

وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلاً أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مِّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُمْ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ وَأَن تَصْبِرُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ۔ (النساء ۲۵)

اور تم میں سے جو کوئی (اتنی) استطاعت نہ رکھتا ہو کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کر سکے تو ان مسلمان کنیزوں سے نکاح کر لے جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں ہیں، اور اللہ تمہارے ایمان (کی کیفیت) کو خوب جانتا ہے، تم (سب) ایک دوسرے کی جنس میں سے ہی ہو، پس ان (کنیزوں) سے ان کے مالکوں کی اجازت کے ساتھ نکاح کرو اور انہیں ان کے مَہر حسبِ دستور ادا کرو درآنحالیکہ وہ (عفت قائم رکھتے ہوئے) قیدِ نکاح میں آنے والی ہوں نہ بدکاری کرنے والی ہوں اور نہ درپردہ آشنائی کرنے والی ہوں، پس جب وہ نکاح کے حصار میں آ جائیں پھر اگر بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی آدھی سزا لازم ہے جو آزاد (کنواری) عورتوں کے لئے (مقرر) ہے، یہ اجازت اس شخص کے لئے ہے جسے تم میں سے گناہ (کے ارتکاب) کا اندیشہ ہو، اور اگر تم صبر کرو تو (یہ) تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اللہ بخشنے والا مہر بان ہے۔

اس طرح ان لونڈیوں کے لیے بدکاری کاراستہ تو بالکل بند کر دیا گیا، خواہ مجبورانہ ہو یا رضاکارانہ۔ مگر نفس تو وہ بھی رکھتی ہیں اور ان کے داعیاتِ فطرت کی تکمیل بھی ضروری ہے ورنہ ظلم بھی ہو گا اور اخلاقی مفاسد کے چور دروازے بھی کھلیں گے۔ اس لیے ان کی نفسیاتی ضرورتوں کو با عزت طریقہ سے پورا کرنے کی دو صورتیں تجویز کی گئی ہیں:

1۔ ایک صورت یہ ہے کہ ان کے آقا ان کے نکاح کر دیں

وَأَنكِحُوا الْأَيَامَى مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ۔ (النور ۳۲)

اور تم اپنے مردوں اور عورتوں میں سے ان کا نکاح کر دیا کرو جو (عمرِ نکاح کے باوجود) بغیر ازدواجی زندگی کے (رہ رہے) ہوں اور اپنے با صلاحیت غلاموں اور باندیوں کا بھی (نکاح کر دیا کرو)، اگر وہ محتاج ہوں گے (تو) اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا، اور اللہ بڑی وسعت والا بڑے علم والا ہے۔

اسی طرح جو نادار لوگ زیادہ مہر دے کر معزز خاندانوں میں شادیاں کرنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں ان کو بھی ترغیب دی گئی کہ تھوڑے مہر پر لونڈیوں سے نکاح کر لیں۔

اور جو شخص تم میں اتنی استطاعت نہ رکھتا ہو کہ شریف خاندانوں کی مومن عورتوں سے نکاح کرسکے تو وہ تمہاری مومن لونڈیوں سے نکاح کرے (النساء25)

لونڈی کو جب اس کا مالک کسی دوسرے شخص کے نکاح میں دے دے تو پھر اس مالک کو اس لونڈی کے ساتھ مباشرت کرنے کا حق باقی نہیں رہتا، کیونکہ کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا یہ حق مہر کے عوض دوسرے شخص کی طرف منتقل کر چکا ہے۔ اس بنا پر ایسی لونڈیاں بھی محصنات میں داخل ہو جاتی ہیں جن کو نصِ قرآنی نے شوہر کے سوا سب کے لیے حرام کر دیا ہے۔ چنانچہ آیت مذکورہ کے بعد اس کی تصریح کر دی گئی ہے:

پس ان کے مالکوں کی اجازت سے ان کے ساتھ نکاح کرو اور دستور کے مطابق ان کے مہر ادا کر دو۔ وہ قید نکاح میں لائ جائیں نہ کہ کھلی اور چھپی بد کاریاں کریں۔ پھر جب وہ نکاح سے پابند ہو جائیں اور اس کے بعد بدکاری کریں تو ان پر اس سزا کا نصف ہے جو شریف خاندانی عورتوں کے لیے ہے (النساء25)

2۔    دوسری صورت یہ ہے کہ خود مالک ان سے تمتع کرے۔ اس کی تین شکلیں ہیں ایک یہ کہ محض ملک یمین ہی کو قید نکاح سمجھ کر تمتع کیا جائے۔ دوسری یہ کہ لونڈی کو آزاد کر کے اس سے نکاح کیا جائے اور اس آزادی ہی کو اس کا مہر قرار دیا جائے۔ تیسرے یہ کہ اس کو آزاد کر کے جدید مہر کے ساتھ نکاح ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری اور تیسری شکل کو ترجیح دی ہے اور اس کی فضیلت میں متعدد احادیث آئی ہیں:

جس شخص کے پاس لونڈی ہو اور وہ اس کو خوب اچھی تعلیم دے اور اس کو اچھا ادب سکھائے پھر اس کو آزاد کر دے اور اس کے بعد خود اس سے نکاح کر لے تو اس کو دوہرا اجر ملے گا (بخاری، کتاب النکاح)

دوسری حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ “اس کو آزاد کر کے مہر دے کر اس کے ساتھ نکاح کرے” ابوداؤد الطیالسی نے ایک اور حدیث نقل کی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

جب کسی شخص نے اپنی لونڈی کو آزاد کیا پھر اس کو جدید مہر دے کر اس سے نکاح کیا تو اس کے لیے دو اجر ہوں گے۔

خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جویریہ کے ساتھ اسی طرح نکاح کیا ہے کہ پہلے ان کو آزاد کیا پھر قیدِ نکاح میں لائے۔ اس باب میں روایات مختلف ہیں کہ آپ نے جدید مہر ادا کیا تھا یا آزادی ہی کو مہر قرار دیا، لیکن اغلب یہ ہے کہ آپ نے جواز کی دونوں صورتیں ظاہر کرنے کے لیے دونوں طریقوں پر عمل فرمایا ہے۔ کسی کو جدید مہر دیا ہے اور کسی کی آزادی ہی کو مہر قرار دیا ہے۔

اس اجازت کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ بنی قریظہ کے سبایا میں سے حضرت رَیحانہؓ ، غزوۂ بنی المصطلق کے سبایا میں سے حضرت جویریہؓ ، غزوۂ خیبر کے سبایا میں سے حضرت صفیہؓ اور مقوقس مصر کی بھیجی ہوئ حضرت ماریہ قبطیہؓ کو اپنے لیے مخصوص فرمایا۔ ان میں سے مقدم الذکر تین کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کر کے ان سے نکاح کیا تھا لیکن حضرت ماریہ قبطیہؓ سے بربنائے ملک یمین تمتع فرمایا، ان کے بارے میں یہ ثابت نہیں ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کر کے ان سے نکاح کیا ہو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی حیات طیبہ کے اخیر زمانے میں تین لونڈیوں کے ساتھ نکاح کرنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کا اصل مقصد اسلامی سوسائٹی میں لونڈیوں کے لیے عزت کی جگہ پیدا کرنا تھا۔ اور آپ خود اپنے عمل سے مسلمانوں کو یہ تعلیم دینا چاہتے تھے کہ انسانی برادری کے اس بدقسمت گروہ کے ساتھ ان کو ایسا سلوک کرنا چاہیے۔ مگر دشمنان اسلام کی بدطینتی نے آپ کے اس انتہائ شریفانہ فعل کو بھی نفسانیت پر محمول کر کے چھوڑا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان عیب چینی پر اتر آئے تو دنیا کا کوئ نیک سے نیک فعل بھی ایسا نہیں جس میں وہ بدی کا پہلو نہ نکال سکتا ہو۔

رہی پہلی شکل، یعنی حقِ ملکیت کی بنا پر تمتع کرنا، تو وہ بھی جائز ہے اس لیے کہ قرآن مجید میں ملک یمین کی بنا پر تمتع کی صریح اجازت دی گئی ہے۔ اور اس کے ساتھ کوئ شرط یا قید نہیں لگائ گئی ہے۔ اس میں بظاہر جو کراہت نظر آتی ہے وہ محض ایک وہمی کراہت ہے۔ چونکہ طبیعتیں نکاح کے عام اور معروف طریقے کی خوگر ہو چکی ہیں اس لیے لوگ سمجھتے ہیں کہ عورت اور مرد کا صرف وہی تعلق جائز ہے جس میں قاضی صاحب آئیں، دو گواہ ہوں، ایجاب و قبول ہو اور خطبہ نکاح پڑھایا جائے۔ اس کے سوا جو صورت ہے وہ محض شہوت رانی ہے۔ لیکن اسلام کوئی رسمی مذہب نہیں بلکہ ایک عقلی مذہب ہے۔ وہ رسم کو نہیں حقیقت کو دیکھتا ہے۔ نکاح سے ایک عورت جو ایک مرد کے لیے حلال ہوتی ہے تو آخر اسی بناء پر تو حلال ہوتی ہے کہ اللہ کے قانون نے اس کو حلال کیا ہے۔ اسی طرح اگر ملکِ یمین کی بنا پر اللہ کا قانون اس کو حلال کرے تو اس میں کراہت کی کون سی بات ہے؟ نکاح کا مقصد انسان کے جذبۂ شہوت رانی کو ایک حد کے اندر محدود کرنا اور ایک ضابطہ سے منضبط کرنا اور مرد و زن کے تعلق کو ایک باقاعدہ تمدنی تعلق کی صورت میں قائم کرنا ہے۔ اسی لیے اعلان کی شرط لگائ گئی ہے کہ سوسائٹی میں یہ امر معلوم و مشتہر ہو جائے کی فلاں عورت فلاں مرد کے لیے مختص ہو چکی ہے، اس کے بطن سے جو اولاد ہو گی وہ فلاں شخص کی ہو گی۔ اور اس عورت کے ساتھ کسی دوسرے شخص کا زوجی تعلق نہ ہو گا۔ یہ سب اغراض ملکِ یمین سے بھی پوری ہوسکتی ہیں۔ سوسائٹی میں یہ امر معلوم و مشتہر ہوتا ہے کہ فلاں لونڈی فلاں شخص کی مملوکہ ہے۔ کسی دوسرے شخص کے لیے اس لونڈی سے زوجی تعلق پیدا کرنا جائز نہیں ہوتا جب تک کہ مالک اپنی رضا مندی سے اس کو نکاح میں نہ دے دے۔ لہٰذا ایک عورت کا مرد کے لیے مخصوص ہونا اس صورت میں بھی ویسا ہی قطعیت اور شہرت کے ساتھ واقع ہوتا ہے جس طرح کہ نکاح کی صورت میں ہوا کرتا ہے۔ مالک کے تصرف میں آ جانے کے بعد ایک عورت اگر صاحبِ اولاد ہو جائے تو وہ اس خاندان کی ایک فرد بن جاتی ہے۔ اس کو ام ولد کہا جاتا ہے۔ مالک کی وفات کے بعد وہ آپ سے آپ آزاد ہو جاتی ہے۔ اس کی اولاد جائز سمجھی جاتی ہے اور اپنے باپ سے شرعی ورثہ پاتی ہے۔ اس اولاد کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو شریعت میں صُلبی اولاد کے لیے مقرر ہیں۔ پھر کیا یہ نکاح کی طرح باقاعدہ زوجی تعلق نہیں ہے؟۔

ہاں اس طریقہ میں ایک کراہت ضرور ہے۔ مگر وہ ایک دوسرے پہلو سے ہے۔ ملک یمین کی بنا پر جس لونڈی سے نکاح کیے بغیر تمتع کیا جاتا ہے وہ اصلاً لونڈی ہی رہتی ہے۔ اس کو محصنات کے برابر مرتبہ حاصل نہیں ہوتا اور اس کی اولاد پر بھی پرستار زادگی کا داغ رہتا ہے۔ اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فضیلت اس طریقے کو دی ہے کہ پہلے اس کو آزاد کر کے شریف عورتوں کے مرتبہ میں لے آؤ، پھر اس سے بطریق احسن معروف نکاح کرو تاکہ اس میں عزتِ نفس کا وہ احساس پیدا ہو جائے جو شریف عورتوں میں ہوتا ہے، اور وہ مساویانہ حیثیت سے تمہاری سوسائٹی میں داخل ہو جائے اور اس پر لونڈی پن کا اور اس کی اولاد پر پرستار زادگی کا داغ نہ رہے۔

 اب آپ کے صرف دو سوالوں کا جواب باقی ہے۔ ایک یہ کہ اگر مرد کو ملک یمین کی بناء پر تمتع کا حق حاصل ہے تو عورت کو یہ حق حاصل کیوں نہیں؟ دوسرے یہ کہ اگر غیر مسلم محاربین مسلمان عورتوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کریں تو ہم کو اس پر احتجاج کا کیا حق ہے؟

ذیل میں ان دونوں کا جواب علی الترتیب دیا جاتا ہے۔

پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں ملک یمین کی بنا پر تمتع کا حق صرف مردوں ہی کو دیا گیا ہے، عورتوں کو نہیں دیا گیا۔

وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ۔ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ۔ (المومنون ۶،۵)

اور جو (دائماً) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں

اسی طرح دوسری تمام آیات میں بھی خطاب صرف مردوں سے ہے۔

اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ زوجی تعلق کے معاملہ میں عورت اور مرد کے درمیان ہمیشہ سے انسان نے امتیاز کیا ہے، اور یہ امتیاز خود اس کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے (جو لوگ اس کو سمجھنا چاہتے ہوں وہ ہماری کتاب “پردہ” میں “قوانین فطرت” کا باب بغور مطالعہ فرمائیں)۔ عورت میں عصمت کا احساس مرد سے زیادہ ہوتا ہے۔ عورت سے با عصمت رہنے کی توقع بھی مرد کی بہ نسبت زیادہ کی جاتی ہے۔ اگر مرد فحش کاری کا مرتکب ہو تو اس کو اتنی بری نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا جس سے عورت کی فاحشہ گری کو دیکھا جاتا ہے۔ عورت کی قد و قیمت ازالۂ بکارت کے بعد آدھی رہ جاتی ہے، مگر مرد دس بیویاں بھی کر چکا ہو تو اس کی قدر و قیمت میں کوئ فرق نہیں آتا۔ عورت اگر کسی غیر قوم کے مرد کے پاس چلی جاتی ہے تو اس کی ساری قوم اس کو اپنے لیے بے عزتی سمجھتی ہے۔ لیکن مرد کا غیر قوم کی عورت سے تعلق پیدا کرنا کچھ زیادہ معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ یہ انسانی فطرت ہے اور اس کو اسلام نے ایک حد خاص تک ملحوظ رکھا ہے۔ مگر جب یہ چیز جہالت کی حد تک پہنچ جاتی ہے تو وہ اس کو پامال کرنے میں بھی تامل نہیں کرتا۔ مثلاً اسلام مردوں کو کتابیہ عورتوں سے نکاح کی اجازت دیتا ہے، مگر عورتوں کو اہل کتاب سے نکاح کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہاں تک اس نے انسانی فطرت کا لحاظ کیا ہے۔ لیکن اگر یہودی یا نصرانی مسلمان ہو جائے تو اسلام بلا تامل اس کے ساتھ نکاح کرنے کی ہر مسلمان عورت کو اجازت دیتا ہے خواہ وہ کتنے ہی شریف گھرانے کی ہو۔ محض نومسلم ہونے کی بنا پر اس سے نکاح کو مکروہ سمجھنا اسلام کی نگاہ میں خود مکروہ ہے۔

اس قاعدے کو اگر آپ سمجھ لیں تو یہ بات آپ کی سمجھ میں آسانی سے آسکتی ہے کہ اسلام عورت کو اپنے غلام سے تمتع کی اجازت کیوں نہیں دیتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ایسا کیا جائے تو معاشرے میں ایسی عورت کی قدرو قیمت گھٹ جائے اور اس کے بعد اگر وہ اس غلام سے قطع تعلق کر کے کسی شخص سے نکاح کرنا چاہے تو امید نہیں کی جاسکتی کہ اس کے کفو میں کوئ مرد اس کو قبول کرے گا۔ یہی نہیں بلکہ اگر عورت اپنے غلام سے تمتع کرے تو خود اپنے خاندان میں اس کا مرتبہ گھٹ جانے کا اندیشہ ہے۔ اس لیے کہ عورت کو عائلی زندگی میں جو وزن حاصل ہوتا ہے وہ اس کے شوہر کی بدولت ہوا کرتا ہے اور یہاں شوہر خود غلام ہے جس کو آزاد مرد کا سا مرتبہ حاصل نہیں۔ اس حد تک اسلام نے فطرت انسانی کی رعایت ملحوظ رکھی ہے۔ لیکن اگر کوئ غلام آزاد کر دیا گیا ہو تو شریف سے شریف خاندان کی عورت کا بھی اس سے نکاح ہوسکتا ہے۔ حتیٰ کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پھوپھی زاد بہن کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام سے کیا۔

عورت کو غلام سے تمتع کی اجازت نہ دینے کی دوسری اور زیادہ اہم وجہ یہ ہے کہ ملک یمین مرد کے لیے تو منزلۂ نکاح ہوسکتا ہے مگر عورت کے لیے نہیں ہوسکتا۔ اسلام نے خانگی زندگی کے لیے جو قانون مقرر کیا ہے اس کا اصل الاصول یہ ہے کہ مرد کو عورت پر قوام ہونا چاہیے۔ اسی لیے عورت کا مہر مرد پر واجب کیا گیا ہے۔ اور عورت پر مرد کو اقتدار کا ایک درجہ دیا گیا ہے تاکہ وہ عورت کی خبر گیری اور حفاظت کرے اور اپنے گھر میں وہ حاکمانہ قوت استعمال کرسکے جو خانگی زندگی کے نظام کو درست رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ مصلحتِ عظمیٰ غلام سے تمتع کرنے کی صورت میں فوت ہو جاتی ہے۔ اپنے غلام سے کسی عورت کا تعلق شہوت رانی کی غرض تو پوری کرسکتا ہے مگر اسلامی نظام تمدن کے اندر ان دوسری اغراض کو پورا نہیں کرسکتا جن کو شریعت نے عورت اور مرد کے ازدواجی تعلق میں ملحوظ رکھنا ضروری سمجھا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں مرد غلام ہونے کی حیثیت سے عورت کا تابع فرمان ہو گا اور اسے گھر میں وہ اقتدار حاصل نہ ہوسکے گا جو اخلاق و معاشیات کی نگرانی کے لیے اور خاندانی نظام کو درست رکھنے کے لیے مرد ہونے کی حیثیت سے حاصل ہونا چاہیے۔

رہا آپ کا آخری سوال تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال کرتے وقت آپ نے یہ فرض کر لیا تھا کہ دشمن کے قبضے میں جو مسلمان عورتیں جاتی ہوں گی ان کو تو وہ بالکل گھر کی بیٹیاں بنا کر رکھتے ہوں گے۔ کیا واقعی آپ کا مفروضہ صحیح ہے؟ اور آپ کا یہ کہنا کہ اس پر ہمیں احتجاج کا کیا حق ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم عورتوں ہی کو نہیں مردوں کو بھی غلام بنا کر رکھنا نہ چاہتے تھے اگر دشمن اسیرانِ جنگ کے تبادلے پر راضی ہوتے تو ہم ان کے ایک مرد یا عورت کو بھی اپنے پاس غلام بنا کر رکھنے پر اصرار نہ کرتے لہٰذا اگر صدیوں تک دنیا میں غلامی کا رواج رہا اور ایک قوم کی شریف عورتیں لونڈیاں بن بن کر دوسری قوموں کے تصرف میں آتی رہیں تو یہ ہمارے کسی قصور کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اس کے ذمے دار وہ لوگ تھے جو صدیوں تک اسیرانِ جنگ کے بارے میں کسی مہذب اور معقول رویے کو اختیار کرنے پر راضی نہ ہوئے۔

سوال

“اسلامی شریعت میں نکاح کے لیے تو چار کی حد مقرر ہے کہ ایک وقت میں آدمی چار بیویوں سے زیادہ نہیں رکھ سکتا لیکن لونڈیوں کے لیے کوئ حد سرے سے رکھی ہی نہیں گئی۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

بظاہر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس اجازت نے چار کی حد مقرر کرنے کے سارے فوائد کو باطل کر دیا۔ اس نے خوش حال لوگوں کے لیے بے تحاشہ عیاشی کا دروازہ کھول دیا۔ امراء و رؤسا کے لیے یہ گنجائش نکال دی کہ بے شمار عورتوں کو خرید خرید کر گھروں میں ڈال لیں اور خوب دادِ عیش دیں۔ یہ محض مفروضہ ہی نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی پچھلی تاریخ میں عملاً یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔ کیا آپ اس کی کوئ معقول توجیہ کرسکتے ہیں؟

جواب

آپ کے سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ لونڈیوں سے تمتع کی اجازت جن اہم تمدنی مصالح کی بنا پر دی گئی ہے وہ تعداد کے تعین سے فوت ہو جاتے ہیں۔ اس امر کا تعین نہیں کیا جاسکتا کہ کس زمانے اور کس لڑائی میں کتنی عورتیں سبایا کی حیثیت سے دارالاسلام میں آئیں گی اور ایک خاص وقت میں مسلمان آبادی کے اندر سبایا کا تناسب کس قدر ہو گا۔ اب اگر تمتع کی اجازت دینے کا مقصد ہی عورتوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کی تمدنی خطرات کا سب باب تھا تو آپ خود غور کیجیے کہ اضافہ کی مقدار متعین نہ ہونے کی صورت میں تمتع کی حد کا تعین آخر کس طرح کیا جاسکتا تھا۔ جس حکیم نے یہ قانون بنایا ہے وہ یک چشم نہیں ہے کہ ایک وقت میں معاملہ کے ایک ہی رخ کو دیکھ سکتا ہو۔ اس کی حاوی نگاہ بیک وقت تمام پہلوؤں پر پڑتی ہے۔ اسی لیے اس سے وضع قانون میں وہ بے اعتدالی صادر نہیں ہوئ جس کے صادر نہ ہونے کی شکایت انسان نے اکثر اس سے کی ہے۔

رہا آپ کا یہ شبہ کہ لونڈیوں کی ان گنت تعداد سے تمتع کرنے کی اجازت جنسی آوارگی کا دروازہ کھولتی ہے۔ اور یہ کہ لونڈیوں کے قابل بیع و شراء ہونے کی وجہ سے اس کا امکان ہے کہ مال دار لوگ لونڈیاں خرید خرید کر عورتوں کا ایک پورا بیڑہ فراہم کر لیں اور اپنے گھروں کو عیاشی کا اڈا بنا کر رکھ دیں تو یہ اور اس نوعیت کے اکثر شبہات عموماً اسی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ معاملہ کا ایک ہی پہلو نگاہ کے سامنے ہوتا ہے اور دوسرے پہلو چھپے رہتے ہیں۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیجیے کہ شارع نے اپنا قانون انسانی کی بھلائ کے لیے بنایا ہے اور اس قانون میں جو سہولتیں اور گنجائش رکھی ہیں وہ ان حقیقی ضرورتوں کے لیے رکھی ہیں جو عموماً انسان کو پیش آتی ہیں یا پیش آسکتی ہیں۔ اگر بعض لوگ ان گنجائشوں سے اس قسم کے غلط فائدے اٹھاتے ہیں جن کے لیے دراصل شارع نے یہ گنجائش نہیں رکھی تھی تو یہ ان کی اپنی نا فہمی ہے یا شرارت نفس۔ لیکن اس قسم کی انفرادی غلطیوں کے امکان یا وقوع سے ڈر کر قانون میں ایسی تنگی پیدا کرنا جس سے عام لوگوں کی حقیقی ضرورتیں پوری ہونے میں مشکلات واقع ہوں، کسی حکیم کا کام نہیں ہوسکتا۔

خدا کی شریعت مالدار لوگوں کو بے حساب لونڈیاں خرید خرید کر عیاشی کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ دراصل یہ تو ایک بے جا فائدہ ہے جو نفس پرست لوگوں نے قانون سے اٹھایا ہے۔ قانون بجائے خود انسانوں کی سہولت کے لیے بنایا گیا تھا اس لیے نہیں بنایا گیا تھا کہ لوگ اس سے یہ فائدہ اٹھائیں۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے شریعت ایک مرد کو چار تک بیویاں کرنے کی اجازت دیتی ہے اور اسے یہ حق بھی دیتی ہے کہ اپنی منکوحہ بیوی کو طلاق دے کر دوسری بیوی لے آئے۔ یہ قانون انسانی ضروریات کو ملحوظ رکھ کر بنایا گیا تھا۔ اب گر کوئ شخص محض عیاشی کی خاطر یہ طریقہ اختیار کرے کہ چار بیویوں کو کچھ مدت رکھ کر طلاق دیتا اور پھر ان کی جگہ بیویوں کی دوسری کھیپ لاتا چلا جائے تو یہ قانون کی گنجائشوں سے ناروا فائدہ اٹھانا ہے جس کی ذمہ داری خود اسی شخص پر عائد ہو گی نہ کہ خدا کی شریعت پر۔ اسی طرح شریعت نے جنگ میں گرفتار ہونے والی عورتوں کو جبکہ ان کی قوم مسلمان قیدیوں سے ان کا تبادلہ کرنے یا فدیہ دے کر ان کو چھڑا کے لیے تیار نہ ہو، لونڈی بنانے کی اجازت دی اور جن اشخاص کی ملکیت میں وہ حکومت کی طرف سے دے دی جائیں ان کو یہ حق دیا کہ ان عورتوں سے تمتع کرسکیں تاکہ ان کا وجود معاشرے کے لیے اخلاقی فساد کا سبب نہ بن جائے۔ پھر چونکہ لڑائیوں میں گرفتار ہونے والے لوگوں کی کوئ تعداد معین نہیں ہوسکتی تھی اس لیے قانوناً اس امر کی بھی کوئ حد معین نہیں کی جاسکتی تھی کہ ایک شخص بیک وقت کتنے غلام اور کتنی لونڈیاں رکھ سکتا ہے۔ لونڈیوں اور غلاموں کی خرید و فروخت کو بھی اس بنا پر جائز رکھا گیا کہ اگر کسی لونڈی یا غلام کا نباہ ایک مالک سے نہ ہوسکے تو وہ کسی دوسرے شخص کی ملکیت میں منتقل ہوسکے اور ایک ہی شخص کی دائمی ملکیت مالک و مملوک دونوں کے لیے عذاب نہ بن جائے شریعت نے یہ سارے قواعد انسانی حالات و ضروریات کو ملحوظ رکھ کر سہولت کی خاطر بنائے تھے۔ اگر ان کو مالدار لوگوں نے عیاشی کا ذریعہ بنا لیا تو اس کا الزام انہی پر ہے نہ کہ شریعت پر۔

شارع نے لونڈیوں کی غیر محدود تعداد سے تمتع کی اجازت اس لیے نہیں دی تھی کہ ایک ایک مسلمان اپنے گھر میں راجہ اندر بن جائے اور بے شمار عورتوں کے جھرمٹ میں بس رات دن دادِ عیش ہی دیتا رہے۔ بلکہ دراصل مقصد یہ تھا کہ اگر کبھی غیر معمولی حالات پیش آ جانے کی وجہ سے سوسائٹی میں عورتوں کی تعداد یکا یک بہت بڑھ جائے تو اس کو آسانی کے ساتھ جذب کیا جاسکے اور اس کی بدولت اخلاقی مفاسد نہ پھیلنے پائیں۔ اس غرض کے لیے کئی صورتیں رکھی گئی ہیں۔ مثلاً یہ کہ لونڈیوں کے نکاح غلاموں سے کر دیے جائیں۔ لونڈیوں کے نکاح کم استطاعت مردوں سے کر دیے جائیں۔ لونڈیوں کو آزاد کر کے خود مالک ان سے نکاح کر لیں۔ جن لوگوں کے پاس لونڈیاں ہوں وہ خود آزاد کیے بغیر ہی ان سے تمتع کریں۔

اسی طرح لونڈیوں کی بیع و شراء کو جائز کرنے کا مقصد بھی یہ نہیں تھا کہ آوارہ مزاج لوگ محض عیاشی کی خاطر بہت سی لونڈیاں خرید خرید کر جمع کر لیا کریں اور جب دل بھر جائے تو انہیں بیچ کر دوسرا بیڑا بھرتی کر لیں۔ بلکہ دراصل یہ سہولت ان ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر دی گئی تھی جو عموماً انسان کو پیش آتی ہیں مثلاً ایک شخص مفلس ہو گیا ہے اور لونڈی غلام رکھنے کی استطاعت اس میں نہیں رہی ہے یا اس کے پاس ضرورت سے زائد لونڈی غلام جمع ہو گئے ہیں یا ان میں سے کسی کو وہ پسند نہیں کرتا۔ کیا ان حقیقی ضرورتوں کو نظر انداز کر کے محض اس خوف سے لونڈیوں اور غلاموں کی خرید و فروخت ممنوع کر دی جاتی کہ بعض لوگ اس قانون حق سے ناجائز فائدہ اٹھائیں گے؟ ایسی برائیوں کے امکانات تو خود نکاح و طلاق کے قانون میں بھی ہیں۔ اگر کوئ شریر آدمی “جائز زناکاری” پر اتر آئے تو وہ روز ایک عورت سے چند روپوں پر نکاح کرسکتا ہے اور دوسرے دن اسے طلاق دے کر کسی دوسری عورت کو تلاش کرسکتا ہے۔ پھر کیا ایسی انفرادی شرارتوں کے خوف سے یہ صحیح ہو گا کہ طلاق اور نکاح کے قانون میں ایسی بندشیں بڑھا دی جائیں جن سے عام لوگوں کی زندگی تنگ ہو جائے۔

سوال

“کیا نظام شریعت میں جنگ کے قیدیوں کو غلام اور لونڈی بنانے کی اجازت ہو گی؟ کیا ان غلاموں اور لونڈیوں کو فروخت کرنے کا بھی حق حاصل ہو گا؟ کیا ان غلاموں اور لونڈیوں سے بیویوں کے علاوہ تمتع جائز ہو گا اور اس پر تعداد کی کوئ قید نہ ہو گی؟

جواب

نظام شریعت میں جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانے کی اجازت ایسی حالت میں دی گئی ہے جب کہ وہ قوم جس سے ہماری جنگ ہو ، وہ نہ قیدیوں کے تبادلے پر راضی ہو، نہ فدیہ لیکر ہمارے قیدی چھوڑے اور نہ فدیہ دے کر اپنے قیدی چھڑائے۔ آپ خود غور کریں تو سمجھ سکتے ہیں کہ ااس صورت میں جو قیدی کسی حکومت کے پاس رہ جائیں وہ یا تو انہیں قتل کرے گی یا انہیں عمر بھر اس قسم کے انسانی باڑوں میں رکھے گی جنہیں آج کل (Concentration Camp) کہا جاتا ہے اور کسی قسم کے انسانی حقوق دیے بغیر ان سے جبری محنت لیتی رہے گی۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت بے رحمانہ بھی ہے اور خود اس ملک کے لیے کچھ بہت مفید نہیں ہے جس میں اس طرح کے قیدیوں کی ایک بڑی تعداد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک خارجی عنصر کی حیثیت سے موجود رہے۔ اسلام نے ایسے حالات کے لیے جو شکل اختیار کی ہے وہ یہ ہے کہ ان قیدیوں کو فرداً فرداً مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے اور ان کی ایک قانونی حیثیت مشخص کر دی جائے۔ اس طرح جو انفرادی رابطہ ایک ایک قیدی کو ایک ایک مسلم خاندان سے پیدا ہو گا اس میں اس امر کا امکان زیادہ ہے کہ ان سے انسانیت اور شرافت کا برتاؤ ہو اور ان کا ایک اچھا خاصا حصہ بتدریج مسلمانوں کی سوسائٹی میں جذب ہو جائے۔

جن مسلمانوں کو ایسے اسیران جنگ پر حقوق ملکیت حاصل ہوتے ہیں ان کے لیے شریعت نے یہ ضابطہ مقرر کیا ہے کہ اگر کوئ لونڈی یا غلام اپنے مالک سے درخواست کرے کہ میں محنت مزدوری کر کے اپنے فدیہ کی رقم فراہم کرنا چاہتا ہوں تو مالک اس کی درخواست کو رد کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ اسے ازروئے قانون ایک خاص مدت تک کے لیے اس کو مہلت دینی ہو گی اور اس مدت میں اگر وہ فدیہ کی رقم ادا کرے تو اسے آزاد کر دینا پڑے گا۔ کوئ غلام یا لونڈی اپنی آزادی کے لیے اپنے آقا کو ایک معاوضہ ادا کرنے کی پیشکش کرے اور جب آقا اسے قبول کر لے تو دونوں کے درمیان ایک طرح سے معاہدہ طے پا گیا۔ اسلام میں غلاموں کی آزادی کے لیے جو صورتیں رکھی گئی ہیں یہ ان میں سے ایک ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ معاوضہ مال ہی کی شکل میں ہو۔ آقا کے لیے کوئ خاص خدمت انجام دینا بھی معاوضہ بن سکتا ہے۔ بشرطیکہ فریقین اس پر راضی ہو جائیں۔ معاہدہ ہو جانے کے بعد آقا کو یہ حق نہیں رہتا کہ غلام کی آزادی میں بیجا رکاوٹیں ڈالے وہ اس کو معاہدے کی رو سے معاوضہ ادا کرنے کے لیے کام کرنے کا موقع دے گا اور مدت مقررہ کے اندر جب بھی غلام اپنے ذمے کی رقم یا خدمت انجام دے دے وہ اس کو آزاد کر دے گا۔ حضرت عمر کے زمانے کا واقعہ ہے کہ ایک غلام نے اپنی مالکہ سے معاہدہ کیا اور مدتِ مقررہ سے پہلے ہی طے کی گئی رقم فراہم کر کے اس کے پاس لے گیا۔ مالکہ نہ کہا کہ میں تو یک مشت نہ لوں گی بلکہ سال بسال اور ماہ بماہ قسطوں کی صورت میں لوں گی۔ غلام نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شکایت کی۔ انہوں نے فرمایا یہ رقم بیت المال میں داخل کر دے اور جا تو آزاد ہے۔ پھر مالکہ کو کہلا بھیجا کہ تیری رقم یہاں جمع ہو چکی ہے اب تو چاہے یک مشت لے لے ورنہ ہم تجھے سال بسال اور ماہ بماہ دیتے رہیں گے (دار قُطنی بروایت ابو سعید مقبری)

اس قسم کے لونڈی غلاموں کو بیچنے کی اجازت دراصل اس معنی میں ہے کہ ایک شخص کو ان سے فدیہ وصول کرنے اور فدیہ وصول نہ ہونے تک ان سے خدمت لینے کا جو حق حاصل ہے اس کو وہ معاوضہ لے کر دوسرے شخص کی طرف منتقل کر دیتا ہے۔ قانون میں یہ گنجائش جس مصلحت سے رکھی گئی ہے اس کو آپ پوری طرح اسی صورت میں سمجھ سکتے ہیں جبکہ دشمن فوج کے کسی سپاہی کو بطور قیدی رکھنے کا آپ کو اتفاق ہوا ہو۔ فوجی سپاہیوں سے خدمت لینا کوئ آسان کام نہیں ہے اور اسی طرح دشمن قوم کی کسی عورت کو گھر میں رکھنا بھی کوئ کھیل نہیں ہے، اگر کسی شخص کے لیے یہ گنجائش نہ چھوڑی جاتی کہ جس قیدی مرد یا عورت سے وہ عہدہ برا نہ ہوسکے اس کے حقوق ملکیت کسی دوسرے کی طرف منتقل کر دے تو یہ لوگ جس کے بھی حوالے کیے جاتے اس کے حق میں بلائے جان بن جاتے۔

جنگ میں گرفتار ہونے والی عورتوں کے لیے (جبکہ نہ ان کا تبادلہ ہو اور نہ فدیہ کا معاملہ ہی طے ہوسکے) اس سے بہتر حل اور کیا ہوسکتا ہے کہ جو عورت حکومت کی طرف سے جس شخص کی ملکیت میں دی جائے اس کے ساتھ اس شخص کو جنسی تعلقات قائم کرنے کا قانونی حق دے دیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو یہ عورتیں ملک میں بد اخلاقی پھیلنے کا ایک مستقل ذریعہ بن جاتیں۔ قانونی حیثیت سے ملکِ یمین اور عقدِ نکاح میں کوئ خاص فرق نہیں ہے بلکہ اس صورت میں تو خود حکومت باقاعدہ طریقہ سے ایک عورت کو ایک مرد کے حوالے کرتی ہے۔ پھر جو معاشرتی حیثیت ان عورتوں کو شریعت میں دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ کسی شخص کی ملکِ یمین میں جانے کے بعد اس عورت کے ساتھ کسی دوسرے شخص کو جنسی تعلق رکھنے کا حق نہیں ہوتا۔ جو اولاد اس سے ہو اس کا نسب اسی شخص سے ثابت ہوتا ہے اور وہ اپنے باپ کی اسی طرح جائز وارث ہوتی ہے جس طرح کسی آزاد بیوی کی اولاد۔ جس لونڈی سے اولاد ہو جائے اسے بیچنے کا مالک کو حق نہیں رہتا اور مالک کے مرنے کے بعد وہ خود بخود آزاد ہو جاتی ہے۔

لونڈیوں سے تمتع کے لیے تعداد کی قید اس لیے نہیں لگائ گئی کہ ان عورتوں کو تعداد کا کوئ تعین ممکن نہیں ہے جو کسی جنگ میں گرفتار ہو کر آسکتی ہیں۔ بالفرض اگر ایسی عورتوں کی بہت بڑی تعداد جمع ہو جائے تو سوسائٹی میں انہیں کھپانے کی کیا تدبیر ہرسکتی ہے جب کہ لونڈیوں سے تمتع کے لیے تعداد کا تعین پہلے ہی کر دیا گیا ہو؟

بعد کے زمانوں میں امراء و رؤسا نے اس قانونی گنجائش کو جس طرح عیاشی کا حیلہ بنا لیا وہ ظاہر ہے کہ شریعت کے منشاء کے بالکل خلاف تھا۔ کوئ رئیس اگر عیاشی کرنا چاہے اور قانون کے منشاء کے خلاف قانون کی گنجائشوں سے فائدہ اٹھانے پر اتر آئے تو نکاح کا ضابطہ ہی کب اس کے لیے رکاوٹ بن سکتا ہے۔ وہ روز ایک نئی عورت سے نکاح کرسکتا ہے اور دوسرے دن اسے طلاق دے سکتا ہے۔

 ٭٭٭

(مسئلہ غلامی ،تنقیحات حصہ دوم، ابوالاعلیٰ مودودی)

ٹائپنگ: خاور بلال

پرو ف ریڈنگ، ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید