ذمیوں کےمتعلق فقہی مسائل اور شہری مساوات-ایک مکالمہ

کچھ عرصہ پہلے عمار خان ناصر صاحب جو غامدی مکتبہ فکر سے نسبت رکھتے ہیں’ نے ایک محقق عالم مولانا سمیع اللہ سعدی صاحب کے سوال کے جواب میں کچھ جزیء فقہی مسائل سیاق و سباق سے ہٹ کے پوسٹ کئے اور ان سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مسلم معاشروں میں اہل ذمہ یعنی غیر مسلم ‘دوسرے درجے کے شہری’ ہوتے ہیں ، اہل ذمہ کا تصور ’’محکومی” سے عبارت ہے۔ عمار صاحب بالکل اسی انداز میں کچھ عرصہ پہلے غلامی کی بحث میں بھی فقہی ذخیرے سے چندوقتی و عرفی جزئیات اور ذوقی و سد ذریعہ پر مبنی مسائل کی عبارات پیش کرکے فقہ اور فقہاء کے متعلق تشکیک پیدا کرنے کی کوشش کرچکے ہیں۔ اس بحث میں مولانا علی عمران، ڈاکٹر زاہد مغل نے بھی حصہ لیا اور حامد کمال الدین صاحب نے اس پر علیحدہ سے ایک تحریر میں تفصیلی تبصرہ کیا۔ یہ بحث دو قسطوں میں پیش ہے۔ یہ بحث اور تحریر ناصرف اسلام کے تصور ذمہ اور فقہاء کی چند عبارات کے متعلق پیدا کی گئی اس تشکیک کا جواب فراہم کرتی ہےبلکہ اسلامی فقہ کی جامعیت ، وسعت اور ہر دور میں اس کی افادیت کو بہت اچھے انداز میں واضح کرتی ہے۔

ایڈمن

*—-*

سمیع اللہ سعدی

اسلامی حکومت کے غیر مسلم شہری اور محترم عمار خان ناصر صاحب سے ایک سوال

محترم عمار صاحب نے اسلامی مملکت کے غیر مسلم شہریوں کے بارے میں دوسرے درجے کے شہری ہونے کا وہی مغالطہ دہرایا جو لبرل حضرات دہراتے ہیں ، روایت پر گہری نظر رکھنے والا آدامی بھی اگر منصوص احکام ،عرف و سد ذریعہ پر مبنی جزئیات اور ذوق و مزاج پر مبنی مسائل میں فرق نہ کر سکے تو اسے المیہ ہی کہا جاسکتا ہے ،ٓنجناب سے گزارش ہے کہ وہ دوسرے درجے کے شہری ہونے کی وضاحت اگر فرما دیں ،فقہی ذخیرے کی رو سے تو ان بنیادی شہری حقوق میں مسلم و غیر مسلم کا کوئی امتیاز نہیں ہے:

۱۔مسلم و غیرمسلم دونوں کی عبادت گاہوں کو تحفظ حاصل ہے ۔

۲۔دونوں کو اپنے اپنے طریقے کے مطابق مذہبی اعمال کرنے کی آزادی ہے ۔

۳۔ غیر مسلم ایک مسلمان کی طرح اپنے دین کے مطابق اپنی عائلی زندگی ترتیب دے گا ۔

۴۔معاملات میں اپنے دین کے مطابق خرید و فروخت کرے گا ،یہاں تک کہ ایک اسلامی معاشرے میں خنزیر و شراب کی آزادانہ بیع و شرا کر سکے گا ۔

۵۔ بیرونی جارحیت سے اسے تحفظ ایک مسلمان کی طرح اس کا بنیادی حق ہے ،یہاں تک کہ ابن حزم نے لکھا ہے کہ اگر کسی غیر مسلم آبادی پر بیرونی جارحیت ہو ،یا ان کی گرفتاری ہو تو مسلمان اپنی جانوں پر کھیل کر ان کی حفاظت کریں گے اور تاریخ نے یہ لمحہ بھی دیکھا جب امام ابن تیمیہ تاتاری بادشاہ سے قیدیوں کو چھڑانے گئے تو بادشاہ نے مسلم قیدیوں کو رہا کرنے پر رضامند ہوا تو ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ غیر مسلم بھی ہمارے شہری ہیں ،ان کی رہائی کے بغیر ہم یہاں سے نہیں جائیں گے ۔

۶۔اندرونی طور پر ان کے جان ،مال اور عزت کا تحفظ ایک مسلمان کی طرح ہپے ،بلکہ احادیث کی رو مسلمان سے بڑھ کر ہے۔

۷۔مسلمان حکومت کو زکوۃ اور دوسرے جائز ٹیکس دیں گے جبکہ غیر مسلم جزیہ دے گا ۔

۸۔ غیر مسلم عہدوں پر متمکن ہو سکتے ہیں ،البتہ وہ عہدے جن کے لئے اسلامی تعلیمات کی ضرورت ہے جیسے کہ خلافت یا عہد قضا ،تو وہ غیر مسلم کو نہیں دے سکتے ،البتہ غیر مسلموں کے لئے ان کا علیحدہ قاضی ہو سکتا ہے ۔

محترم عمار صاحب بسے ایک سوال

عہدے کی اس استثنائی شرط کے علاوہ( جس میں مساوات امریکہ جیسے جمہوری ملک میں بھی نہیں ہے ،یاد ہوگا جب اوباما پہلی بار صدارت کے لئے نامزد ہوا تھا تو ان کے نام میں حسین کی وجہ سے انہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ،اور انہیں اپنے آپ کو عیسائی باور کرانے کے لئے کیا کیا جتن کرنے پڑے ) وہ کونسے شہری و سماجی و قانونی حقوق ہیں ،جو نصوص کی رو سے ایک اسلامی ریاست میں مسلمان کو حاصل ہیں اور غیر مسلم ان سے محروم ہیں ؟یاد رہے فقہی ذخیرے کے منصوص احکام ،وقتی و عرفی جزئیات اور ذوقی و سد ذریعہ پر مبنی مسائل میں فرق روا رکھنے کی ہمیں محترم سے توقع ہے ۔

بینوا توجروا


عمار ناصر


برادرم سعدی صاحب نے ’’اہل ذمہ کو کون سے حقوق حاصل نہیں’’ کا جو سوال اٹھایا ہے، اس کی تفصیلات بہت طویل ہیں۔ سردست صرف ایک فقہی ضابطے کے عملی انطباق کی مثالیں اپنی کتاب ’’حدود وتعزیرات’’ سے نقل کر رہا ہوں۔ ان سے کافی حد تک واضح ہو جائے گا کہ دوسرے درجے کا شہری ہونے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔

فقہی ذخیرے کے مطابق نہ صرف یہ کہ کسی مسلمان کے خلاف کسی غیر مسلم کی گواہی قابل قبول نہیں، بلکہ فقہا نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ غیر مسلموں کی گواہی کسی مسلمان کے خلاف ہو یا غیرمسلم کے خلاف، اگر اس کو قبول کرنے سے کسی مسلمان کو ضرر لاحق ہوتا ہو تو یہ گواہی قبول نہیں کی جائے گی: ’وشہادة الکافر فی ما یتضرر بہ المسلم لا تکون حجة‘ (سرخسی، المبسوط 26/38)

اس کی چند اطلاقی مثالیں دیکھیے:

اگر دو غیر مسلم گواہ ایک مسلم اور ایک غیر مسلم کے خلاف قتل کی گواہی دیں تو ان میں سے مسلمان کے خلاف ان کی گواہی رد کر دی جائے گی، جبکہ یہی گواہی غیر مسلم کے خلاف قابل قبول ہوگی، البتہ اس سے قصاص کے بجاے دیت لی جائے گی۔ (فتاویٰ عالمگیری 3/521۔)

اگر چار نصرانی گواہ کسی نصرانی کے بارے میں گواہی دیں کہ اس نے کسی مسلمان لونڈی کے ساتھ زنا کیا ہے تو اگر تو وہ زنا بالجبر کی گواہی دیں تو نصرانی پر زنا کی حد جاری کی جائے گی، لیکن اگر وہ کہیں کہ زنا لونڈی کی رضامندی سے ہوا تھا تو گواہی قبول نہیں کی جائے گی (کیونکہ اس طرح غیر مسلموں کی گواہی پر ایک مسلمان لونڈی کو سزا دینا پڑے گی)، بلکہ مسلمان لونڈی کے ساتھ ساتھ نصرانی کو بھی چھوڑ دیا جائے گا اور گواہوں پر حد قذف جاری کی جائے گی۔ (ابن نجیم، البحر الرائق 7/95)

اگر کسی مسلمان کو کہیں کوئی چیز پڑی ہوئی مل جائے اور کوئی غیر مسلم علامات بتا کر اس چیز کا مالک ہونے کا دعویٰ کرے اور اپنے دعواے ملکیت پر دو غیر مسلم گواہ پیش کر دے تو بھی اس کا دعویٰ تسلیم نہیں کیا جائے گا، اس لیے کہ غیر مسلموں کی گواہی پر وہ چیز مسلمان سے نہیں لی جا سکتی۔ (ابن نجیم، البحر الرائق 5/169)

اگر کوئی نصرانی فوت ہو جائے اور اس کی موت کے بعد ایک مسلمان دو نصرانی گواہ پیش کرکے یہ دعویٰ کر دے کہ میت کے ذمے اس کے ایک ہزار درہم واجب الادا ہیں اور ایک نصرانی بھی دو نصرانی گواہ پیش کر کے یہی دعویٰ کر دے (جبکہ میت کے مال میں دونوں میں سے کسی ایک ہی کے مطالبے کو پورا کرنے کی گنجایش ہو) تو مسلمان کا دعویٰ قبول کرتے ہوئے اس کو ایک ہزار درہم دلوا دیے جائیں گے اور نصرانی کے دعوے کو کوئی حیثیت نہیں دی جائے گی، کیونکہ اس کا دعویٰ ماننے کی صورت میں مسلمان کو ضرر لاحق ہوتا ہے۔ (مصنف عبد الرزاق، رقم 15534)

اس سے بھی بڑھ کر اس تصور کی وسعت اور اس کے عملی اثرات کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ فقہا کے نزدیک اگر کوئی مسلمان کسی آدمی کو زنا کرتے ہوئے دیکھے تو ’نہی عن المنکر‘ کے فریضے کی رو سے اس پر لازم ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اسے عملاً روک دے، لیکن اگر ایک مسلمان زنا کر رہا ہو اور کوئی غیر مسلم اسے دیکھ لے تو وہ زبان سے تو اسے منع کر سکتا ہے، لیکن بالفعل نہیں روک سکتا، اس لیے کہ اس سے مسلمان پر غیر مسلم کی بالادستی لازم آتی ہے۔ (الغزالی، احیاءعلوم الدین 2/2387)

علی عمران


اصل مسئلہ اس ضمن یہ ہے کہ اسلام میں گواہی کو دینی ذمہ داری کا درجہ حاصل ہے ..لہذا اس کا حامل بھی ایک مسلمان ہی ہوسکتاہے ،کوئی کافر نہیں.سو ظاہر ہے کہ جب کافر گواہی کے قابل نہیں رہا…، تو اس کی گواہی کے جو ممکنہ ایفیکٹس سے تھے، اس سے بھی ان سب کو بچانا لازمی ٹھہرتا ہے، جن جن کو یہ اثرات متأثر کرسکتےہیں ..چونکہ فقہاء تمام ممکنہ صورتوں کو جو شاید امر واقعہ کے طور پر کبھی وجود بھی نہ پائیں، تاہم چونکہ اس مسئلہ یا قاعدہ کے ممکنہ متعلقات ہوسکتےہیں، لہذا بےدھڑک ان کو لکھتے چلے جاتے تھے.سو اصل قاعدہ کی روشنی میں دیکھیں، تو یہ ساری صورتیں اپنی جگہ پر بیٹھتی نظر آتی ہے.

باقی کیونکہ سے آگے عموماً اس مسئلے کے فائدہ کی طرف نظر کرنی مقصود ہوتی ہے نہ کہ علت کی طرف، اسوجہ سے عموماً وہ ذکر ہی نہیں کی جاتی.سو اصل واقعہ یہی ہے کہ چونکہ شہادت ایک دینی ذمہ داری ہے اور کافر کے پاس دین نہیں ہوتا، لہذا کافر اس کا اہل بھی نہیں..یعنی کافر شہادت کی ادائیگی کے لائق بھی نہیں.

اس وجہ سے جو اس قاعدہ کی متفرعات ہوسکتی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب کافر شہادت کا اہل نہیں، لہذا اگر اس کی شہادت سے کسی مسلمان کو ضرر پہنچتا ہو، تو اس کی یہ شہادت مسلمان کے بارے میں قبول نہیں کی جائے گی۔ہاں جہاں پر کفار کے مابین معاملہ ہو، تو وہاں پر اس کو قبول کیا جائے گا.یہ بالکل ایسا ہے، جیسے بقر عید کی قربانی ایک دینی حکم ہے، لہذا ایک کافر اس کو ادا نہیں کرسکتاہے ..اور نہ ہی اس پر وہ اثرات و احکام مرتب ہوں گے، جو ایک مسلمان کی قربانی پر مرتب ہوں گے.سادہ سی بات تھی، جس کو یار دوستوں نے چیستاں بنا دیا.!(اس مسئلے پر مزید تفصیل آگے حامد کمال الدین صاحب کی تحریر میں آئے گی)

ذیشان وڑائچ


کہیں پر ایک سنگین جرم یا ظلم ہوتا ہے۔ ثابت کرنا مشکل ہے۔ کافر گواہ موجود ہے۔ علامات ظاہر کر رہی ہیں کہ جرم ہوا ہے اور کسی کے حقوق مارے گئے ہیں۔

تو کیا کیا جائے؟ ملزم کو معاف کردیا جائے؟ بالفاظ دیگر کسی مجرم کو کھلی چھوٹ ہو کہ وہ کسی کافر کی موجودگی سے بے فکر ہوجائے؟

علی عمران


یہ ایسے ہی ہے، جیسے کہا جاتا ہے کہ ڈی این اے اور ویڈیو سے جرم کا ثبوت مانا جائے.آسان سی بات ہے، اگر یہ ثبوت نہیں بھی مانا جارہا، تو کم ازکم مخصوص شخصیت کے خلاف تحقیقات کے لئے ایک عمدہ رستہ تو فراہم کررہا.عموماً گواہی کسی بھی جرم کے ایک سے زیادہ ہی ہوتی ہیں.تاہم اس کو کھوجا جاسکتاہے ..اور غیر مسلم کی یہ گواہی اس کے لئے انڈیکیٹر کا کام دے سکتی ہے.سو سزا نہ سہی،مزید تحقیقات میں اس سے بہرحال مدد لی جاسکتی ہے..

ذیشان وڑائچ

میرے خیال میں موجود کاملیکس سوسائٹی میں “گواہی” کی حیثیت انڈکیٹر کی ہی زیادہ ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ صرف گواہی پر فیصلہ ہوتا ہو۔ اگر کسی مسلمان عاقل بالغ کی گواہی موجود ہو، لیکن انڈییکیشن اس گواہی کے خلاف ہوں تو مزید تحقیقات ہوتی ہے۔ اس تحقیق میں گواہ کے غلط ہونے کے امکانات کو پوری طرح سے تسلیم کیا جاتا ہے۔مولانا تقی عثمانی کی یہ تحریر پڑھی تھی کہ اگر سائنسی حساب سے چاند دیکھنے کا کوئی امکان نہ ہو، لیکن کوئی ایک دو عاقل بالغ مسلمان چاند دیکھنے کی گواہی دیں تو ان کی گواہی رد کی جاسکتی ہے۔پورے تناظر میں یہ بات کہ کس کی گواہی قابل قبول ہے اور کسی کی نہیں ایک طرح سے irrelevant ہوجاتی ہے۔

سمیع اللہ سعدی

یہی تو وہ مسائل ہیں. جنہیں میں نے وقتی سدا للذریعہ اور ذوقی و عرفی قرار دیا تھا. ..بات سادہ سی ہے کہ ایک مملکت کے شہری ہونے کے جو بنیادی حقوق ہوتے ہیں وہ نصوص کی ( نصوص کا لفظ پیش نظر رہے) غیر مسلم کو حاصل ہیں.باقی شروط عمریہ ہوں یا فقہاء کے بعد کے اجتہادات. ان میں مقاصد شریعت اور عرف و حالات کی بنا پر تغیر کی لچک موجود ہے.حیرت تو یہ ہے کہ حدود و دیگر بعض حساس مسائل میں تو آپ فقہی ذخیرے سے آگے گئے ہیں لیکن اس مسئلے میں سوئی فقہی اجتہادات پر اٹکی ہے. یا للعجب

زاہد مغل

فقہاء نے اہل ذمہ و اہل معاہد وغیرہ کی جو کیٹیگریز کی ہیں ان میں اتنی وسعت موجود ہے کہ وہ چند مخصوص حقوق کو چھوڑ کر جدید حقوق کی فراھمی کو یقینی بناتے ہیں۔ لہذا جدید حقوق کی فراہمی کے لئے جدید سیاسی تناظر اختیار کرنے کی شاید ضرورت نہیں۔ علماء بالعموم اسے اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔

دیگر اقوال کا تناظر کیا ہے، اس کا تو فی الوقت مجھے علم نہیں البتہ امام غزالی نے جو بات جس تناظر میں کہی ہے اس پر میں ذرا تفصیل سے کچھ لکھتا ہوں۔ میرے خیال میں فقہ وغیرہ کی کتابوں میں درج بعض ذیلی مسائل کو یوں الگ سے کاپی پیسٹ کرکے لگا دینا ایک غیر مناسب طریقہ استدلال ہے۔ ویسے بھی، یہ بات تو کسی نے بھی نہیں کہی کہ فقہ کی کتابوں میں درج تمام استنباطی مسائل پر ہر وقت عمل کرنا لازم ہے۔ نیز نہ ہی ان تمام مسائل پر عمل نہ کرنا اس بات کو مستلزم ہے کہ سیاسی بیانیہ تبدیل کرکے وہ “جدید” والا اختیار کرلیا جائے جس کی تلقین نئے بیانئے والے کررے ہیں۔ ایسے میں اس قسم کے حوالے لگانے سے کیا حاصل؟

اب آئیے ذرا امام غزالی کے حوالے کی طرف۔ امام غزالی محو بالا بات “نہی عن المنکر کی شرائط” کی اس شرط کی بحث کے ضمن میں لائے ہیں کہ کیا عادل ہونا اس کی شرط ہے یا نہیں؟

اس حوالے سے امام غزالی سب سے پہلے اس شرط کو پیش کرنے والوں کے دلائل ذکر کرکے پھر ترتیب وار ان کا جواب دیتے ہیں۔ پھر امام صاحب اپنی دلیل پر وارد ہونے والے اشکالات کا جواب دیتے ہیں۔ چنانچہ امام صاحب یہ مقدمہ پیش کرتے ہیں کہ فاسق بھی نہی عن المنکر کرسکتا ہے اور اسکی دلیل یہ دیتے ہیں کہ معصوم تو کوئی بھی نہیں۔ اپنی اس تقریر پر پہلے وہ معترضین کا یہ اعتراض وارد کرتے ہیں کہ “عدل سے مراد کبائر سے بچنے والا ہے نہ کہ معصوم”۔ اس کا رد وہ ایک کبیرہ گناہ کرنے والے شخص کے حق میں نہی عن المنکر کی اجازت ہونے والی چند مثالوں سے کرتے ہیں۔

پھر اس پر یہ اعتراض وارد کرتے ہیں کہ “اچھا اگر فاسق کے لئے نہی عن المنکر جائز ہے تو پھر ایک ذمی کا مسلمان کو نہی عن المنکر کرنا بھی جائز ہوگا”؟ اپنی پوزیشن کو ھم آھنگ رکھتے ہوئے اس سوال کا جواب دینے کے لئے امام کا انداز استدلال یہ ہے کہ یہاں ایک اور اصول بھی کارفرما ہے جسے مدنظر رکھنا ہوگا یعنی “لن یجعل اللہ للکفرین علی المؤمنین سبیلا” جس کی رو سے اگرچہ ذمی کا مسلمان کو ایسا کہنا (کہ زنا مت کر) فی نفسہ حرام نہیں ہے البتہ اگر وہ مسلمان پر برتری حاصل کرنے یا حکم چلانے کے ارادے سے ایسا کہہ رہا ہے تو اسے منع کیا جائے گا۔ اس کے بعد امام صاحب (چند دیگر پہلووں پر گفتگو کرنے کے بعد) لکھتے ہیں “لیکن یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے اور زیر بحث موضوع سے خارج بھی ہے”

دیکھ لیجئے، امام صاحب کا طرز استدلال خود بتا رہا ہے کہ یہ ایک ذیلی نوعیت کا مسئلہ ہے نیز انہوں نے خود ہی یہ بھی بتا دیا کہ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے (کہ یہ امر واقعی اس آیت کے تحت آتا ہے یا نہیں)۔ مگر آپ نے یہ بات بتانے کے بجائے اسے “فقہاء” کا نام لے کر “روایتی بیانئے کے وسیع تر (ھولناک) اثرات دکھانے” کے جس تناظر میں لگایا ہے اس سے پڑھنے والے کو یہ احساس گزرتا ہے گویا یہ اس بحث میں کوئی بہت ہی بنیادی و متفق علیہ قسم کا مسئلہ ہے۔ یہ طرز استدلال غیر مناسب ہے۔

عمار ناصر

حضور، میں نے صرف یہ واضح کیا ہے کہ اہل ذمہ کا تصور ’’محکومی’’ سے عبارت ہے جسے برابر کی شہریت والے جدید سیاسی تصور کے ساتھ خلط کرنا یا سادگی سے یہ تاثر پیش کرنا کہ دونوں تصورات میں عملی حقوق کے اعتبار سے کوئی خاص فرق نہیں، نادرست ہے۔ آپ اور سعدی صاحب جو نکتہ اٹھا رہے ہیں کہ اس تصور کے سارے فقہی لوازم قطعی اور ابدی نہیں، بلکہ اجتہادی ہیں اور تبدیل ہو سکتے ہیں، اس پہلو کی نفی نہیں، بلکہ تائید ہی کر رہا ہے جس کی طرف میں متوجہ کر رہا ہوں، یعنی دور جدید میں اس معاملے کو اجتہاداً‌ طے کیا گیا ہے اور یقیناً‌ اس اجتہاد کی نہ صرف گنجائش بلکہ ضرورت ہے۔ مجھے اعتراض اس پر نہیں، اس پر ہے کہ فقہی روایت کے نمائندہ حضرات کلاسیکی تصور کو اس کی اصل اور پوری شکل میں بیان نہیں کر رہے، بلکہ اپنی اجتہادی ترمیمات کے ساتھ بنائے گئے ایک نئے تصور کے متعلق یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہی فقہی تصور بھی ہے۔ یہ غیر علمی اور قطعاً‌ اپالوجیٹک طرز فکر ہے۔

ابوسعد ایمان

جناب زاہد مغل کی اس تفصیل کے بعد عمار خان ناصر صاحب پر سیدھا سیدھا رجوع بنتا تھا کہ انہوں نے امام غزالی کے اقتباس کو کانٹ چھانٹ کر صرف ایک نہایت برا مفہوم پیدا کرکے پیش کیا جب کہ حقیقت میں امام صاحب متوازن انداز سے بات کررہے ہیں۔ امام غزالی رحمہ اللہ کی زیربحث موضوع پر عمار خان ناصر صاحب اور زاہد مغل صاحب کی بیان کی گئی تفصیل کو اکٹھے ملا کر پڑھا جائے تو بغیر کسی توقف کے یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ عمار خان ناصر صاحب نے ایک علمی قضیے میں مطلوب دیانت کا مظاہرہ نہیں کیا۔

سمیع اللہ سعدی

اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کا معاملہ سمجھنے کے لیے فقہی ذخیرے کے ساتھ مسلم حکمرانوں خصوصا خلافت امویہ، عباسیہ اور اندلس کے اموی حکمرانوں کے تعامل اور اس وقت کے مسلم سماج کے طرز عمل کو بھی دیکھنا ضروری ہے. کیا وجہ ہے کہ فقہی جزئیات کی وہ سختی بالعموم اس وقت کے مسلم سماج میں نظر نہیں آتی.اہل ذمہ کے ساتھ امتیازی سلوک تو دور کی بات، انہیں اتالیق مقرر کیا جاتا ہے.انہیں بعض حساس عہدے دیے جاتے ہیں،درباروں میں ان کے لیے نشستیں رکھی جاتی ہیں اور یہاں تک کہ خلافت اموی میں یوحنا دمشقی اسلامی خلافت میں رہ کر آزادانہ مناظرانہ کتب لکھتے ہیں.اندلس میں تو یہ فراخی انتہاء کو پہنچ جاتی ہے حالانکہ بنوامیہ کا اسلامی و عربی تعصب معروف ہے..اسی فراخدلی کا نتیجہ تھا کہ غیر مسلموں کی دارالحرب کی طرف نقل مکانی کے کوئی بڑے اور قابل ذکر واقعات نہیں ملتے. بلکہ اندلس میں تو عربی ثقافت کو بڑے پیمانے پر اپنانے کی روایت ملتی ہے.مسلم سماج میں غیر مسلموں کی تحلیل اسی طرف مشیر ہےکہ فقہی جزئیات مخصوص تناظر اور خاص احوال و ظروف کے حامل ہیں.اگر خیر القرون ان جزئیات سے عملی طورپر صرف نظر کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟

انس حسان

فقہی ذخیرےمیں یقینابعض ایسےمسائل موجودہیں جن سےمسلمانوں کےیک گونہ تفوق کاتاثرملتاہےلیکن ان مسائل سےامت کےاجتماعی طرزعمل کی نفی لازم نہیں آتی! یقیناعروج کی اپنی الگ نفسیات ہوتی ہےاوراس نفسیات کےتحت فقہاءمیں مسلم وغیرمسلم کےحقوق، دارالحرب ودارالاسلام کےاحکام اورجہادوقتال کی علت جیسےمباحث میں سخت اختلاف رہاہےلیکن ان اختلافات کواپنےسیاق سےکاٹ کرامت کےاجتماعی طرزعمل کےطورپرپیش کرناقرین انصاف نہیں!اس حوالےسےخطبات شبلی میں علامہ شبلی کاایک خطبہ لائق مطالعہ ہے!

زاہد مغل

نیز یہ بات بھی اہم ہے کہ سارے فقیہوں نے جو ساری باتیں اپنے اپنے علم کے مطابق لکھی ہوں ضروری نہیں کہ وہ ساری کی ساری عمل میں لائی گئی ہوں یا انہیں عمل میں لانا ضروری ہو۔

عمارناصر

اس بات سے اتفاق ہے۔۔ اگر ذہن میں ہو تو میں نے بھی اسی قسم کی بعض تفصیلات ’’جہاد’’ میں بیان کی ہیں۔ بلکہ یہ بھی عرض کیا ہے کہ مدون فقہی ذخیرہ اس لحاظ سے ناقص ہے کہ وہ مسلمان حکومتوں کے عملی تعامل کو بیان نہیں کرتا، صرف فقہاء کے قیاسی اجتہادات تک محدود ہے، جبکہ معاملہ قیاسی کم، اور سیاسی زیادہ ہے، اس لیے مسلم روایت کی تعبیر صرف فقہی کتابوں سے زیادہ سیاسی حکومتوں کے عمل کی روشنی میں ہونی چاہیے۔

البتہ اس ساری وسعت کے باوجود یہ طریقہ بالکل غلط ہے کہ دو الگ الگ بنیادوں پر قائم سیاسی تصورات (اہل ذمہ اور جمہوری ریاست کے شہری) کو گڈمڈ کیا جائے یا ان کے باہمی فروق کو نظر انداز کیا جائے۔ یہ طریقہ شدید فکری تضادات کو جنم دیتا ہے۔

انس حسان

شایدیہی وجہ ہےکہ ماضی میں عام طورپر مسلمانوں کے سیاسی نظام کی اساس کسی مخصوص فقہی مکتب پراستوارنہیں کی گئی! بلکہ ریاستی نظام کی بہتری کےلیے حسب موقع فقہی اجتہادات سےاستفادہ کیاگیاہے!

نورالوہاب

بالکل بجا ہے کہ یہ اجتہادی امور میں سے ہے ـ جدید دور کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لئے اجتہادی اصولوں کی روشنی میں نظرِ ثانی بھی کرنی چاہئے ـ لیکن اہلِ ذمہ کے قدیم تصور کو آج کے تصورات کے ساتھ کمپئیر کرنا بھی درست نہیں ـ قدیم تصور کو اُس دور کے مقامی اور عالمی حالات کے تناظر میں رکھ کر دیکھنا چاہئے ـ جدید دور کے ساتھ کمپئر کرنے سے یہ خیال ذہن میں آتا ہے جیسے مسلم اہلِ علم ہمیشہ سے رواداری کے خلاف رہے ہیں ـ جب کہ معاملہ اس کے برعکس ہے

سمیع اللہ سعدی

جب آپ کے نزدیک موجودہ اجتہادی ترمیمات کی گنجائش ہے ،تو پھر اہل ذمہ کا تصور محکومی سے کیسے عبارت ہوگیا؟زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں اہل ذمہ کا اسلامی تصور ذو ابعاد ہے ،جس میں بعض اجتہادات کر کے اسے مائل بمحکومی اور کچھ اجتہادات سے مساویانہ بن سکتا ہے ،تو مالا یہ بات ثابت ہوگئی اہل زمہ کا منصوص تصور صرف محکومیانہ نہیں ،بلکہ اس میں مساویانہ درجے کی پوری پوری گنجائش ہے اور یہی محترم مغل صاحب اور میں عرض کر رہا تھا کہ فقہی جزئیات اس ذو ابعاد تصور کا ایک رخ پیش کر رہی ہیں نہ کہ اسلام کے تصور ذمہ کا مکمل نقشہ ۔

آپ کے اس جملے “یقیناً‌ اس اجتہاد کی نہ صرف گنجائش بلکہ ضرورت ہے” میں گنجائش سے مراد شرعی و فقہی گنجائش مراد ہے؟اگر یہی مراد ہے جو متبادر ہے تو یہ بات ثابت ہوگئی کہ اسلام کے تصور ذمہ میں وہ لچک ہے جسے موجودہ شہریت سے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے ۔وھو المقصود


عمار ناصر


آپ مساویانہ درجے کے کسی نئے تصور کے لیے ’’اہل ذمہ’’ کی اصطلاح بطور لا مشاحۃ فی الاصطلاح کے وضع کرنا چاہیں تو الگ بات ہے۔ جو اصطلاح اسلامی فقہی روایت نے وضع کی ہے، اس کی بنیاد ہی مساویانہ درجے کی نفی پر ہے۔ اس میں مسلمان حاکم ہیں اور اہل ذمہ محکوم، مسلمان بالادست ہیں اور اہل ذمہ پست۔ فقہاء ان کی حیثیت یوں بیان کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے لیے ’’کالعبید’’ یعنی غلاموں کی طرح ہیں۔ سخت تعجب ہے کہ آپ جیسے فقہی روایت سے واقف حضرات کیسے ان تفصیلات سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔

سمیع اللہ سعدی


جب مساوانہ درجے کی نئی اصطلاح بھی بطون نصوص سے نکلی ہے تو پھر یہ کہنا تو غلط ہوا کہ اسلام کا تصور ذمہ محکومی پر مبنی ہے ،زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ فقہا کے بیان کردہ بعض اجتہادات تصور محکومی پر مبنی ہے ،فقہا کے بیان کردہ اجتہادات ان نصوص کی ایک تعبیر ہے ،نصوص کی کلی نمائندہ نہیں ۔

عمار ناصر

تعبیر تھوڑی سی درست فرما لیں۔ ’’تصور ذمہ’’ میں وہ لچک نہیں ہے، البتہ اسلام کے اصولی احکام میں وہ لچک موجود ہے۔اب ہماری بات میں زیادہ فرق نہیں رہ گیا۔

سمیع اللہ سعدی

تصور ذمہ کے دو درجے ہیں ،ایک منصوص ،جس میں موجودہ لچک ہے اور ایک استنباطی ،جس میں ظاہر ہے کہ نہیں ہے ۔یہی بات میں نے پہلے کمنٹ میں کی تھی کہ اسلام کا تصور ذمہ لچکدار ہے ۔ باقی فقہا کے اجتہادات کی بھی اگر تنقیح کر لی جائے تو دو درجے بنیں گے،ایک میں بنیادی حقوق سے اہل ذمہ مستفید ہوتے ہیں ،اور دوسرا درجہ جسے آئیڈیلزم کی تعبیرات کہہ سکتے ہیں ،اور آئیڈیل باتیں عموما کتب تک ہی رہتی ہیں زمینی حقائق اور آئیڈیل میں ہمیشہ بعد المشرقین ہوتا ہے ۔جیسا کہ مسلم سیاسی تاریخ اس پر شاہد ہے ۔


عمار خان ناصر


میں اس کو اس طرح تعبیر کروں گا کہ اسلام کے سیاسی تصورات میں مساوی شہریت کے تصور کی بھی گنجائش ہے (جس کا ایک اظہار میثاق مدینہ ہے) اور ’’اہل ذمہ’’ کے تصور کی بھی جو عموماً‌ اسلامی تاریخ اور فقہی روایت میں رائج رہا۔ مساوی شہریت کے تصور کے لیے ’’ذمہ’’ کی تعبیر نہ لفظی لحاظ سے درست ہے اور نہ اصطلاحی لحاظ سے، اور یہی وجہ ہے کہ محدثین اور اصحاب سیرت میثاق مدینہ کے معاہدین کو فقہی لحاظ سے ’’اہل ذمہ’’ میں شمار نہیں کرتے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ جدید دور میں مسلم فکر نے ’’اہل ذمہ’’ کے تصور کو ترک کر کے ایک بہت بنیادی نوعیت کا اجتہاد کیا ہے اور مساوی شہریت کے تصور کو قبول کیا ہے جسے میثاق مدینہ کے حوالے سے مبنی بر نص بھی کہا جا سکتا ہے اور اجتہاد مقاصدی کی مثال بھی شمار کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ ہر صورت میں اجتہاد مطلق کی مثال ہے، اسے ضمنی وترمیمی اجتہاد سمجھنا یا ’’تصور ذمہ’’ کا تسلسل قرار دینا بالکل غلط ہے۔

سمیع اللہ سعدی


یہ تصور ذمہ کا تسلسل ہے یا اجتہاد مطلق ،یہ تعبیر کا اختلاف ہے ،مجھے اہل ذمہ سے متعلق چاروں فقہی مکاتب کےاصول و فروع کا علم نہیں ،لیکن خیال یہ ہے کہ اگر اہل ذمہ کے تصور اور اس سے جڑے قواعد و فروع کا چاروں مکاتب اور شواذ فقہی اقوا ل کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو شاید موجودہ تصور کی جڑیں اس میں مل سکیں گی،خصوصا امام جوینی کی الغیاثی سے بہت مدد مل سکتی ہے ۔

زاہد مغل

میں اس بحث میں صرف اتنی بات کا اضافہ کرنا چاہوں گا کہ “مساوی شہریت” بذات خود ایک اضافی امر ہے، یعنی مساوی ہونے سے کیا مراد لیا جارہا ہے۔ ظاہر ہے اس دنیا میں مساوات کا ایسا کوئی تصور نہیں جو ہر ہر لحاظ سے مساوات قائم کرسکے۔ پس فقہاء نے مسلم و غیر مسلم کے مابین “بالادست و تابع” کا جو تصور قائم کیا اسے برقرار رکھتے ہوئے اس کے اندر بھی ایک ذیلی مساوات قائم کرنا ممکن ہے۔ مثلا بطور معاھد وغیرہ غیر مسلم کو ایسے بہت سے حقوق میسر ہوتے ہیں جو مسلمان کو بھی میسر ہوتے ہیں، پس “اس مشترکہ دائرے” میں وہ سب مساوی ہیں۔ چنانچہ “مساوی شہریت” کا یہ معنی مراد لینے میں کوئی امر مانع نہیں۔

لیکن اگر کوئی “شہری مساوات” سے وہ والی مساوات مراد لے رہا ہے جو جدید تناظر میں پائی جاتی ہے (اور اسے میثاق مدینہ کا اظہار سمجھا جارہا ہے) تو اس کی گنجائش پر بات کرنے کے لئے فقہاء کی فقہی عبارات پر گفتگو کی نوبت بہت بعد میں آئے گی، اس سے بہت پہلے ایمانیات کے باب کو کھنگالنا ہوگا کہ آیا اسلام کے نام پر جس شے پر ایمان لایا گیا ہے اسکی نوعیت اور اس کا دائرہ کار کیا ہے؟