٭مفہومات کی جنگ war of concepts:
تسمیات labels کا معاملہ سیاسی پہلوؤں سے حد درجہ حساس ہے۔ بڑے بڑے دوررس مقاصد محض لیبلز لگا کر حاصل کر لئے جاتے ہیں۔ ’دہشت گردی‘ کا لفظ اِس حقیقت پر ایک نہایت واضح مثال ہے۔ جس فریق کے ہاتھ میں میڈیا کی طاقت ہوگی وہ دوسرے کا ستیاناس کر کے رکھ دے گا۔ حق تو یہ ہے کہ یہ جنگ بڑی حد تک ’اصطلاحات‘ پر ہی سہارا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اِس دور میں ’نکتہ وروں‘ کی ایک بڑی تعداد کو ’اصطلاحات‘ کے اندر ہی نقب لگاتا دیکھیں گے۔ باہر سے ’میڈیا‘ اور اندر سے ’اصطلاحات‘ کے نقب زن!!!
’فرقہ واریت‘ ایک دوسری اصطلاح ہے جس کو جاہلی میڈیا اپنے بے شمار اغراض کے لئے نہایت کامیابی کے ساتھ برتتا ہے۔’فرقہ واریت‘کا لیبل گویا ایک لٹھ ہے جو ہر داعیِ اصلاح کے سر پر دے ماری جاتی ہے اور بڑے بڑے ’سمجھ دار‘ اِس کے ڈر کے مارے دم سادھ کر بیٹھ رہنے میں ہی عافیت جانتے اور اپنی ’ساکھ‘ کا تحفظ ممکن بناتے ہیں۔ تب وہ اپنی سرگرمی کیلئے ایسے ’بے ضرر‘ محاذوں پر ہی سرگرم ہوجانا مناسب تر جانتے ہیں جن پر کسی بھی ’فرقے‘ کو اعتراض نہ ہو۔۔۔۔! یعنی عین وہ چیز جو جاہلیت کو مطلوب ہے!!!جاہلیت یہی تو چاہتی ہے کہ اُس کے ہاتھ میں ’اصطلاحات‘ کی یہ لٹھ پکڑی دیکھ کر آپ اُس کے آگے لگ کر بھاگ کھڑے ہوں! اِس لٹھ سے یہ ڈرائے سب کو اور مارے کسی کسی کو!!!
چنانچہ ”اصطلاحات“ کو ’نیشنلائز‘ بلکہ اب تو ’گلوبلائز‘ کر لینے سے جاہلیت اپنا جو مقصد حاصل کر رہی ہے، میڈیا کے دور میں یہی تو تاریخ کا بدترین فاشزم ہے اور آخری درجے کی فکری وثقافتی اجارہ داری۔ جاہلیت اپنی اِس پوزیشن کو ہی تو برقرار کھنا چاہتی ہے کہ اِس کا بولا ہوا ایک لفظ آپ کو بھسم کر جانے کی امکانی صلاحیت رکھے! یہ اپنی خاص ’زبان‘ میں آنکھ کا ایک اشارہ کردے تو آپ محسوس کریں کہ آپ کہیں کے نہیں رہے اور اِس کا استعمال کیا ہوا ایک ’کنایہ‘ گویا آپ کو سات پشتوں تک برباد کر کے رکھ دے گا!مفہومات کی یہ جنگ war of concepts پس ایک نہایت حقیقی جنگ ہے اور میدان کا نقشہ بدل دینے کیلئے نقطہء اولین۔ حقائق کو صحیح الفاظ دینا اور الفاظ کو صحیح وثابت شرعی حقائق کا ہی عکاس بنا رکھنا۔۔ عین اِس محاذ پر پہرے بٹھا دینا اور یہاں پر جاہلیت کو ہرگز کوئی واردات نہ کرنے دینا ایک نہایت حقیقی محاذ ہے، اور قطعاً کسی غفلت اور کسی ناتوانی کا متحمل نہیں۔
آج اگر کوئی نیا خوفناک ’نام‘ یا کوئی نئی پر اَسرار ’اصطلاح‘ ہمارے سامنے لائی جاتی ہے، کہ دھڑا دھڑ ہم اُس کی مذمت شروع کر دیں۔۔ جس سے فائدہ اٹھا کر جاہلیت خود ہمارے ہی ہاتھوں بہت اچھی اچھی تحریکی کوششوں کا خون کروا دے اور باطل کو چیلنج کرنے والے ہر داعی اور دعوت کو اچھوت بنا دینے کیلئے ہم دینداروں کو ہی بڑی ہوشیاری کے ساتھ استعمال کر جائے؛ جیساکہ ’وہابیت‘ کا لیبل عام کرنے سے ڈیڑھ سو سال تک عالمی استعمار کا کام چلتا رہا تھا اور اب اس کے پرانا ہوجانے کے باعث باطل اسلام کے تحریکی عمل کو ’بلیک لسٹ‘ کروانے کیلئے کچھ نئے لیبلز کی تلاش میں بے چین ہے۔۔۔۔ تو ایسے کسی نئے خوفناک ’نام‘ یا کسی نئی پراَسرار ’اصطلاح‘ کی بابت سنی سنائی باتوں سے متاثر ہوجانے کی بجائے، خصوصاً ’اسٹیٹس کو‘ کی حامی قوتوں کی جانب سے عام کر دیے جانے والے فقروں کو ہی دہراتے چلے جانے کی بجائے، اُس کو اسلام کے صحیح وثابت حقائق کی روشنی میں پرکھنا ہی ہم پر لازم ہے۔۔ اور اِس سلسلہ میں بھی راہنمائی ہمیں کہیں ’اِدھر اُدھر‘ سے نہیں وقت کے مستند جہابذہء علم سے ہی لینی ہے۔
٭نت نئی دعوتوں اور تحریکوں کا ظہور:
دوسری جانب یہ بھی البتہ درست نہیں کہ ’اسلام سے تمسک‘ کے نام پر ہم وقت کی کسی نئی گمراہی یا انتہا پسندی کی کسی نئی صورت کو اپنی صفوں میں گھس آنے دیں، اپنے نوجوانوں میں ردِ عمل در ردِ عمل کی راہ پر چل پڑنے کے ذہن کی حوصلہ افزائی کریں، جذباتی اور شدت آمیز رویوں کو اپنے یہاں پروان چڑھنے دیں، اور ایسے افکار اور نظریات کو اپنے لوگوں میں پھیلنے دیں جو کسی نامعلوم وگمنام مصدر کی جانب سے سامنے لائے جارہے ہوں۔ہرگز درست نہیں کہ اپنے یہاں ہم ایسے لٹریچر کو عام ہونے دیں جو کسی نامعلوم سمت سے آرہا ہو؛ یعنی جس کے لکھنے والے نہ تو وقت کے معروف اہل علم کے اقوال اور فتاویٰ کے پابند ہوں اور نہ اُن اہل علم کے کہنے میں رہتے ہوں۔
اور یہ بات تو خاص طور پر متنبہ رہنے کی ہے کہ ایسے لٹریچر کی اپنے یہاں ہرگز پزیرائی نہ کی جائے جس کے لکھنے والے وقت کے معروف علمائے سنت پر طعن وتشنیع کرتے ہوں اور اُن کی بابت نوجوانوں کا ایسا تاثر بنائیں کہ وہ (یعنی وقت کے معروف علمائے سنت) امت کی راہنمائی کیلئے نااہل ہیں لہٰذا امت کے نوجوان اب اِن (لٹریچر نویسوں) ہی کی راہنمائی قبول کر لیں!.ایسے گمنام لکھاریوں سے شدید ہوشیار رہیں جن کے نہ تو مبلغِ علم کی بابت ہمیں علماءکی کوئی شہادت دستیاب ہے اور نہ جن کے صائب نظر ہونے کی بابت علماءکا کوئی بیان ہم تک پہنچا ہے، جبکہ یہ لکھاری وقت کے کچھ نہایت عظیم اور خطرناک موضوعات پر قلم اٹھا رہے ہوں بلکہ تو فتوے صادر کر رہے ہوں اور فتوے بھی ایسے جن کی کوئی نظیر علمائے وقت کے یہاں ملتی ہی نہ ہو۔۔۔۔ ہاں ایسے لٹریچر، ایسے لکھاریوں اور ایسے فکر سے متنبہ رہنا بے حد ضروری ہے۔
یقینا ایسا بہت کچھ اِس وقت سامنے لایا جا رہا ہے جس میں ہمارے مخلص وعمل پسند نوجوانوں کے جذبات کو زیادہ سے زیادہ برانگیختہ کر کے انتہا پسندی کی ڈالی پر چڑھا لیا جاتا ہے، وقت کے وہ سب زندہ علمی مصادر جو اہلسنت کی قیادت کے اہل ہیں نوجوانوں کی نظر میں ابتدا ہی کے اندر مشکوک ٹھہر ا دیے جاتے ہیں، یوں نوجوانوں سے وہ سب علمی سہارے پہلے ہلے میں ہی چھین لئے جاتے ہیں جو آگے پیر پیر پر آنے والے بہت سے نازک مقامات پر اور بہت سے خطرناک گڑھوں سے ان نوجوانوں کے تحفظ کا یقینی ذریعہ بن سکتے تھے۔ یوں ایک بار جب اِن نوجوانوں کو وقت کے علمائے سنت سے برگشتہ کر لیا جاتا ہے اور اُن کو اِن علمی سوتوں ہی سے منقطع کر دیا جاتا ہے جو آئندہ کے مراحل میں ان نوجوانوں کو قدم قدم پر سنت اور سلف کے منہج سے سیراب کرسکتے تو پھر یہ ’لکھاری‘ ہی ان نوجوانوں کی نظر میں ’علماء‘ ٹھہرتے ہیں اور یہی ان کیلئے ’مفتی‘ اور یہی ’سب کچھ‘۔ پھر یہی جس کو کافر کہہ دیں وہ اِن نوجوانوں کی نگاہ میں کافر اور جس کو گمراہ کہہ دیں وہ گمراہ! اور جس کی بابت ’توقف‘ اختیار کریں اُس خوش قسمت کی بابت ’توقف‘ کر جانا ہی ’صحیح موقف‘ مانا جائے گا! یہاں تک کہ علماءتک کو ’عذر دینے‘ یا ’نہ دینے‘ کا فیصلہ اِنہی کے ہاتھوں میں آجاتا ہے!۔۔۔۔ ’حتی اذا لم یبق عالما، اتخذ الناس رؤوساً جہالاً، فسئلوا، ف افتوا بغیر علم، فضلوا و اضلوا“”یہاں تک کہ اللہ جب (ان کے لئے) کوئی عالم نہ چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو ہی اپنا رہبر بنا لیں گے، جن سے مسئلے دریافت کئے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے، تب وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے“۔(بخاری حدیث رقم 100، کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم۔)حق یہ ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوسکتا کہ ’غیر عالم‘ فتوے دیں اور معاملہ کسی نہ کسی گمراہی پر نہ پہنچے!)
یہاں تک دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ مخلص و جذباتی نوجوانوں کو عقیدہ کے بعض رسائل خاص اپنی ’شرح‘ اور ’تطبیق‘ کے ساتھ پڑھا کر، اور پھر وقت کے علماءاور داعیوں اور جماعتوں کی بابت ان میں ایک خاص منفی رویہ پروان چڑھا کر اور اِن نوجوانوں کو یہ زعم دلا کر کہ ’اب تو عقیدہ کے اصول ہم خود بہت سمجھتے ہیں بلکہ تو اِتنا سمجھتے ہیں کہ علمائے وقت کو یا تو اُس کی سمجھ ہی نہیں یا پھر بزدلی اور مصلحت پسندی کا عارضہ لاحق ہے‘، وقت کے سب کبار علماء کو اُن کی نظر سے یکسر گرا دیا جاتا ہے۔ تب وقت کے اہلِ علم سے راہنمائی لینے کے معاملہ میں دنیا اُن کے لئے اتنی چھوٹی ہو جاتی ہے کہ گنے چنے چند ہی نام رہ جاتے ہیں جن کا ’علمی و شرعی اعتبار‘ ان کی نگاہ میں ’ابھی تک‘ قائم ہو، اور یہ بھی وہ نام ہوں گے جن کے علمی مقام اور امہات الامور میں قول صادر فرما دینے کے معاملہ میں جن کی اہلیت، بلکہ تو جن کے استقامتِ فکر کی بابت علماءکی کوئی ایک شہادت بھی کبھی نہ پائی گئی ہوگی!۔
اِس ’پراسیس‘ سے گزارے گئے بعض مخلص نوجوانوں کو آپ دیکھیں گے کہ بڑے بڑے علماءکا نام آئے تو اُن کے ذکر تک کو خندہء استہزاءکے قابل جانیں گے، البتہ کچھ ایسے گمنام قسم کے ’علمی نام‘آئیں جن کو آج تک کسی ایک صحیح عالم نے فتوی دینے کے اہل تسلیم نہیں کیا ہوگا، تو ایسے ناموں کا ذکر آتے ہی کھِل اٹھیں گے اور اُن کے ’علمی‘ حوالے دیے جانے پر کمال شرحِ صدر محسوس کریں گے!
بلاشبہ اِس خطرناک صورتحال کے تقویت پانے کیلئے ہماری برصغیر کی زمین بے حد ممد ہوسکتی ہے۔ ’ردِ تقلید‘ کی محنت کے نتیجے میں یہاں پہلے سے یہ ذہن بہت عام ہوگیا ہے کہ ایک عامی صرف اور صرف ’دلیل‘ کا پابند ہے اور وہ بھی اپنے فہم کے مطابق، خواہ کوئی بھی اُس کو اپنی ’دلیل‘ سمجھا لے! اہل علم کے فہم کی پابندی، بدقسمتی سے، یہاں کے ایک بڑے طبقے کے نزدیک ضروری نہیں۔۔ نہ صرف ضروری نہیں بلکہ تو کئی ایک کے نزدیک ’کتاب و سنت سے اعراض‘ ہے اور ’غیر نبی کی بات تسلیم کرنا‘۔۔۔۔! یہ اِس منہج ہی کا نتیجہ ہے جو آپ دیکھتے ہیں، مسائل کے ترک واختیار کے معاملہ میں ایک بڑے طبقے کی ’نقل مکانی‘ ساری عمر جاری رہتی ہے۔۔۔۔!
ہمارے برصغیر میں پائی جانے والی یہ صورتحال پس اِس معاملہ میں شدید طور پر ممد ہوسکتی ہے کہ ’غیر عالموں‘ کی جانب سے سامنے لائی جانے والی دعوتیں یہاں اپنے پیروکار پیدا کر لینے میں کچھ زیادہ دِقت نہ پائیں۔معاملہ یہ ہے کہ ’دلیل‘ دے لینا کچھ مشکل نہیں، ’دلیل‘ سب دے لیتے ہیں۔ اصل بات تو ’دلیل‘ کو سمجھنا ہے اور ’دلیل‘ سے ’مسئلہ‘ اخذ کرنا، خصوصاً اُس ایک ’دلیل‘ کو ’ادِلَّہ‘ کے ساتھ صحیح جگہ اور صحیح ترتیب پر رکھ کر دیکھ پانا اور معاملے کی ایک پوری تصویر دیکھ لینے کے لئے مطلوبہ نظر اور صلاحیت کا مالک ہونا۔
یقینا صورت حال ایسی ہے کہ ملک ملک کی دعوتیں اور افکار آج ہمارے یہاں پہنچ رہے ہیں، بلکہ ہر جگہ پہنچ رہے ہیں۔ بلاشبہ بہت سی ایسی دعوتیں جوکہ علماء کی اٹھائی ہوئی دعوتیں نہیں، یہاں کے تحریکی نوجوانوں کی تاک میں ہیں۔ ہمارا یہ برصغیر، مخلص اور عمل پسند جانفروش نوجوانوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے اور اِس ذخیرہ کا تحفظ اور اِس کو صحیح ترین سمت دکھانا ہم سب کا فرض، خصوصاً جبکہ قیادتوں کا فقدان بھی ہماری برصغیر کی تحریکی دنیا کا ایک بہت بڑا المیہ ہے، اور اِس لحاظ سے یہ مسئلہ اور بھی غیر معمولی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ خدشہ ہے کہ اِس رخنہ کا خاطر خواہ ادراک نہ کیا گیا تو ہمیں یہ کسی بڑے نقصان سے دوچار نہ کر دے۔
’’تکفیر‘‘ اور ’’مذہبِ خوارج‘‘ کا حملہ سب سے زیادہ ایک نیک اور دین سے متمسک ماحول پر ہوتا ہے۔ بےدینوں پر کچھ اور قسم کے وائرس آتے ہوں گے، البتہ یہ ایک وائرس خدا نے ایسا رکھا ہے جو اعلیٰ دینی جذبہ رکھنے والے ماحول پر ہی حملہ آور ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ نیکی اور دین سے تمسک ظاہر ہے جہاد سے وابستہ طبقوں کے اندر پایا جاتا ہے۔ اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر خدا کےلیے پیش کرنا اور سچے دل سے شہادت کا آرزومند ہونا اور عملاً قدم قدم پر اس کا ثبوت دینا کوئی آسان بات نہیں؛ یہ دین سے وابستگی کی ایک اعلیٰ سطح چاہتی ہے۔ عہد صحابہؓ میں بھی جب نیکی کا جذبہ لوگوں میں عروج پر تھا، علم میں کمی آتے ہی پہلا حملہ معاشرے پر اسی چیز کا ہوا تھا اور ایک پورے دور کا ستیاناس کر گیا۔ چنانچہ یہ ایک ایسا وائرس ہے جو دینداری کے حوالہ سے ایک صحتمندترین جسم پر ہی حملہ آور ہوتا ہے اور کچھ ہی دیر میں اس کو کھوکھلا کر کے رکھ دیتا ہے۔ اس لحاظ سے ہم کہیں گے، ہماری سب سے اعلیٰ چیز اس کی زد میں آتی ہے۔
ہمارے نزدیک موجودہ دور میں سامنے آنے والے شدت پسند بیانیہ کی سب سے عجیب بات یہی ہے کہ یہ عالم اسلام کے ہر ملک میں علماء کی مین اسٹریم mainstream کو ہی مرجئہ یا ارجاء سے موسوم کرنے لگے۔ یعنی وہ علماء جنہوں نے اِن کا علمی محاکمہ کرنا تھا، جن کی طرف دین کے فہم و استدلال کے معاملہ میں خود اِن کو رجوع کرنا تھا، اور جن کی علمی راہنمائی میں ان کو اپنا یہ سب راستہ طے کرنا تھا، اور جن کی ایک معتد بہٖ تعداد نے (اِن کے درست ہونے کی صورت میں) مسلم معاشروں کے سامنے اِن کے حق میں کلمۂ خیر کہنا تھا… وہ علماء ہی سب سے پہلے ان کے کٹہرے میں لا کھڑے کیے گئے! یہاں جج کی کرسی ہی اِن کے اپنے پاس ہے۔ علماء کے فیصلے اِن کے ہاتھ میں ہیں؛ اور علماء کو اِن سے سندِ توثیق پانی ہے! یعنی ابتداء سے ہی معاملہ الٹ دیا گیا۔
اِن حضرات کے ہاں معاملہ کی ترتیب عموماً یوں چلتی ہے کہ حکمرانوں اور پھر ان کے ساتھ اور بھی بہت سے (اور بعض کے نزدیک اکثر یا شاید سارے) ریاستی ادارے اپنے کارندوں سمیت کافر ہیں۔ نہ صرف کافر ہیں (معاذاللہ) بلکہ یہ بات اُن بدیہیات میں آتی ہے جو اس کے بعد کی سب باتوں کو طے کرنے میں کلیدی حیثیت رکھے گی۔ یعنی سب چیزیں اسی ایک بات کی روشنی میں طے ہوں گی۔!
اب مثلاً سوال پیدا ہو گیا ہے کہ امت کے علماء کونسے ہیں جن کی طرف مسائلِ وقت (نوازل) کے معاملہ میں رجوع کیا جائے۔ ظاہر ہے وہی علماء ہو سکتے ہیں جو دین کے اِس بنیادی مسلّمہ و بدیہۃ (!) کو تسلیم کرتے ہیں <کہ حکمران اور ان کے ساتھ اور بھی بہت سے (اور بعض کے نزدیک اکثر یا شاید سارے) ادارے کافر ہیں!>undefined اب دیکھئے نا جس عالم کو دین کے اِس بنیادی مسئلے کا ہی نہیں پتہ (!) اُس کے علم پر کیسے اعتماد کیا جائے؟ بہت ہوا تو ان سے ’حیض اور نفاس‘ ایسے معاملات میں رجوع کر لیا جائےجن کے اندر یہ عالم ہیں! چنانچہ ایک چیز پہلے یہ خود طے کر دیں گے (حکمرانوں اور اداروں کی تکفیر)۔ اِس پہلی ہی بات میں البتہ علماء سے نہیں پوچھا جائے گا کیونکہ ان کو اس کا پتہ جو نہیں ہے! یہ پہلی بات علماء کی طرف نہیں لوٹانی؛ کیونکہ اس سے وہ رُوٹ ہی نہیں بنے گا جس پر یہ ایک نوجوان کو پلک جھپکتے میں چڑھا لاتے ہیں۔ ہاں یہ پہلی بات اپنی طرف سے طے کردینے اور اس کو بنیادی ترین مسلّمات میں ٹھہرا دینے کے بعد نوجونوں کو کسی وقت ’غوروفکر‘ کی دعوت بھی دے دی جائے گی کہ بھئی خود دیکھ لو کون علماء ہیں جن کے علم پر اعتماد کیا جا سکتا ہے!
اب یہاں نوجوان جب نظر اٹھا کر دیکھتا ہے تو تقریباً پورا عالم اسلام اس کو سائیں سائیں کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ’علماء‘ یہاں ہیں کہاں! دُوردُور تک دیکھ لو کہیں نظر آتے ہیں؟ نہیں بالکل نہیں۔ سبھی یا ’حق‘ سے ناواقف ہیں یا ’حق‘ کو چھپائے ہوئے ہیں! لہٰذا علماء اب بس وہی ہیں جو ’حق بات‘ کر رہے ہیں۔ (’حق بات‘ کا تعین سب سے پہلے کر دیا گیا تھا: اور وہ البتہ given تھی!)۔ بس اِنہی سے فتویٰ لو اور اِنہی کی طرف رجوع کرو!یہ ہے معاملے کی ترتیب جو عموماً اختیار کی جاتی ہے۔
حالانکہ پورا عالمِ اسلام ایک بات سے سائیں سائیں کر رہا ہو، تو یہ کان کھڑے کر دینے والی بات ہونی چاہئے۔ لیکن یہاں جذباتیت ایک ابتدائی برین واشنگ کر چکی ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں پورے عالمِ اسلام کو ایک بات سے سائیں سائیں کرتا دیکھ کر آدمی کو اس پر پریشان ہو جانے کی بجائے شرح صدر ہونے لگتا ہے کہ واقعی ان سب علماء کو اس قابل نہ جاننا بلاوجہ نہ تھا! اور پھر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی! ’وثوق‘ میں جوں جوں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے توں توں آدمی علمائےامت سے دور ہوتا اور اپنے ’خصوصی‘ مراجع کے ساتھ وابستہ ہوتا چلا جاتا ہے۔اس کے بعد… علمائےامت جو حکمرانوں اور ریاستی اداروں اور ان کے کارندوں کو ’کافر‘ کہنے کے مسئلہ سے ’واقف‘ نہیں یا اس معاملہ میں ’کتمانِ حق‘ سے کام لے رہے ہیں، خودبخود ’مرجئہ‘ کی صف میں جا کھڑے ہوئے!
***
نوجوانوں میں شدت اور جلد بازی کو پزیرائی دلوانا طبعی طور پر آسان ہے، اور اِس وجہ سے ان کو علماء سے منسلک رکھنا پیشگی ضروری ہے کہ جو بھی ’نئی‘ چیز آئے نوجوان اُس کی ’دلیل‘ کی چمک سے متاثر ہونے کی بجائے، اور اس پر خود کوئی فیصلہ کرنے کی بجائے، اس کو ان علمائے سنت کی جانب ہی لوٹائیں جو ’دلیل‘ کے فہم اور استیعاب پر قدرت رکھتے ہیں۔ ہر چمکتی چیز سونا نہیں، سونے کی جانچ کرنا سنار کا کام ہے۔ ’دلیل‘ کو جانچنا علماءکا کام ہے۔ یہی وجہ ہے جو آپ دیکھتے ہیں کہ وہ نئی نئی دعوتیں جو ہمارے جذباتی وعمل پسند نوجوانوں میں پزیرائی پانے کیلئے کوشاں ہیں ان کا پہلا نشانہ علماء ہی ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہی ان کے راستے کی رکاوٹ ہیں۔ علماء ہی نوجوانوں کو ایسی نئی نئی دعوتوں کے خطرناک مضمرات سے آگاہ کرسکتے ہیں اور علماء ہی ان کو اِن دعوتوں کے ہاتھوں خراب ہونے سے اللہ کے فضل سے بچا سکتے ہیں، بشرطیکہ یہ نوجوان علماء سے پوری طرح منسلک رہیں۔
ایک بچنا وہ ہے جو حفظِ ماتقدم کہلاتا ہے۔ یعنی نقصان ہونے ہی نہ دیا جائے اور آدمی محفوظ کا محفوظ رہے۔ علم اور علماء دراصل تو اِسی لئے پیدا ہوئے ہیں، اور ان کی جانب رجوع بھی دراصل تو اِسی انداز سے اور اِسی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ پس علماء سے وابستگی ایسی ہونی چاہیے جو پیشگی آپ کا تحفظ کرے۔۔ تاکہ کسی نئی دعوت کے ہاتھوں، جس کی پشت پر علم اور علماء نہیں، خراب ہونے سے آپ اور آپ کے اصحاب اور آپ کا پورا خطہ اور آپ کی قوم ابتداء ہی بچ جائیں اور آپ کا بہت سا وقت، اور بہت سی محنت، اور بہت سے وسائل، بلکہ تو کیا بعید بہت سا خون، ضائع جانے سے بچا رہے اور کسی نہایت صحیح و حقیقی مصرف میں ہی کام آئے۔
البتہ ایک بچنا وہ ہے جو نقصان دیکھ لینے کے بعد ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ جب کسی راستے کے نقصانات سامنے ہی آجائیں تو ان سے تحفظ کرنا بسااوقات پھر ناممکن بھی ہوجاتا ہے۔ اللہ سے خیر تو تب بھی مانگنی چاہیے، البتہ اِس بات کی نوبت تب آتی ہے جب ابتداءً علم اور علماءکا دامن نہ تھاما گیا ہو۔
برصغیر کی تحریکی دنیاکو ایسے حادثات کی نذر نہ ہونے دینا جوکہ انتہاپسندانہ رجحانات کے عام ہوجانے کا ایک طبعی ولازمی نتیجہ ہوں گے، اور جن کا کہ آج ہر خطے کے تحریکی عمل کو ہی شدید خطرہ ہے’ اسی چیز پر منحصر ہے کہ یہاں علم اور علماءسے وابستہ رہنے کی ہی تحریک اٹھائی جائے، اور ان علماءسے خاص طور پر وابستہ ہوا جائے جو منہجِ سنت وسلف پر اتھارٹی ہونے کے ساتھ ساتھ معضلاتِ وقت پر گہری نگاہ اور عقیدہ کو زمانے سے جوڑنے کیلئے مطلوبہ علمی استعداد رکھتے ہیں اور اپنی اس صلاحیت کی بدولت نوجوانوں کو وقت کے مسائل و احوال کے معاملہ میں صحیح راہنمائی دے سکتے ہیں۔ الحمد للہ ایسے علماءناپید نہیں۔
یہ تو واقعہ ہے کہ یہاں کئی ایک دعوتیں نئی سامنے آ رہی ہیں۔ اور یہ بھی واقعہ ہے کہ یہاں برصغیر میں ایک بہت بڑا تحریکی خلا پہلے سے پایا جاتا ہے۔۔ایک خلا کسی نہ کسی چیز سے پر بھی ضرور ہوتا ہے۔ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں اِس وقت یہاں ہر نئی چیز کی پزیرائی کا امکان ہے، بے شک وہ نئی چیز کچھ دیر بعد اِس خلا کو اور بھی بڑا کر دے! یہی وہ حقیقی بحران ہے جو ہر درد دل رکھنے والے واقفِ حال کو پریشان کئے ہوئے ہے اور ’سب ٹھیک‘ کا نعرہ وہی لگا رہے ہیں جو اِس بحران ہی کے ادراک سے عاجز ہیں۔
جہاں یہ صورتحال (جوکہ ایک بڑے خلا سے عبارت ہے) کچھ بڑے بڑے انتظامات کو عمل میں لائے جانے کی متقاضی ہے، اور بلاشبہ اس کیلئے بھی دردمندوں کو سر جوڑ کر بیٹھ جانا چاہیے، وہاں اِس بات کی بھی ضرورت ہے کہ وہ نئی نئی دعوتیں جو ہمارے برصغیر میں اِس وقت قدم رکھ رہی ہیں اُن کی بابت ایک بصیرت پیدا کرائی جائے۔۔۔۔، یعنی:اگر تو اِن دعوتوں کی پشت پر وقت کے معروف علمائے سنت پائے جاتے ہیں پھر تو نہ صرف اِن کی پزیرائی کرائی جائے بلکہ یہ امید رکھی جائے کہ یہ ہمارے اُس بحران کو حل کر دینے میں بھی مددگار ہوں گی جس نے عرصہ سے ہمیں ایک بند گلی پر پہنچا رکھا ہے۔ اور بلاشبہ ایسی کئی تحریکی پیشرفتیں بالفعل آج پائی جاتی ہیں جو علمائے جزیرۃ العرب کے زیر تحریک پروان چڑھ رہی ہیں اور کمال کی سلفی (کلاسیکل)وعصری جہتوں کو مجتمع رکھے ہوئے ہیں اور جن کو اپنے یہاں لے کر آنے میں ان شاءاللہ بہت بڑی خیر ہے۔البتہ اگر ان دعوتوں کی پشت پر وقت کے معروف علمائے سنت نہیں پائے جاتے ۔۔اور بلاشبہ کئی ایک دعوتیں ایسی ہیں جو یہاں پیر جمانے کی کوشش میں ہیں مگر یہ دعوتیں جن لوگوں کا خلاصہء فکر ہیں نہ تو وہ ”علمائے امت“ کی صنف میں آتے ہیں اور نہ وہ ”علمائے امت“ کے زیر راہنمائی ہی چلتے ہیں اور نہ مسندِ افتاءپر فائز ہوجانے کیلئے اُن کو ”علمائے سنت“ کی جانب سے کبھی کوئی اجازت یا سند ہی حاصل رہی ہے، بلکہ یہ لوگ جوکہ زیادہ تر گمنام ہوتے ہیں اپنے رسائل میں وقت کے ہر خطیر موضوع پر قلم اٹھاتے اور ’دلیل‘ کی روشنی میں لوگوں کو اپنی ’اَقُول‘ سناتے ہیں اور دِماء(human lives) کے بہا دیے جانے تک کے موضوع پر خود اپنے ’اجتہاد‘ سے فتاویٰ صادر کرنے میں تردد نہیں کرتے۔۔ نہ صرف خود فتاویٰ دینے سے تردد نہیں کرتے جبکہ اِفتاءکے سرے سے اہل نہیں، بلکہ علمائے امت کو ان موضوعات پر فتویٰ دینے کیلئے نااہل جانتے ہیں! (حالانکہ علماءبھی ہوں تو وہ دوسرے کو اپنے مخالف اجتہاد کا حق دیتے ہیں!) ۔۔۔۔ تو ایسی دعوتوں سے خبردار ہی رہا جائے۔ یقین کیجئے یہ ہمارے برصغیر کے اِس بحران کو بے اندازہ بڑھا دیں گی۔
ضروری نہیں اِن شدت پسند رجحانات کو کوئی خاص نام یا عنوان دیا جائے مگر ان سے متنبہ رہنا بہر حال لازم ہے۔ ان رجحانات میں ’جماعتِ تکفیر‘ سے متاثر ہونے کا عنصر بھی، کہیں پر کم اور کہیں پر زیادہ، پایا جانا خارج از امکان نہیں۔آج جو لوگ اِن رجحانات کو آگے بڑھنے میں مدد دے رہے ہیں، اُن کا اخلاص اور جذبہء عمل اپنی جگہ ، لیکن اِن رجحانات کو آگے بڑھنے کے لئے آج اگر چھوڑ دیا جاتا ہے تو بعید نہیں کل کو معاملہ خود اِن کے ہاتھ سے نکل جائے۔ کیونکہ یہ رجحانات کسی ’مرجعیت‘ کی پابندی سے واقف نہیں۔ اپنے فتووں میں، شدت کی جن حدوں پر یہ آج ’احتیاطاً‘ رک جاتے ہیں اِن کے پیچھے چلنے والے کل ان حدوں پر نہیں رکیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ جن ملکوں میں یہ تجربات بہت پہلے ہو چکے ہیں وہاں سامنے آنے والے نتائج سے ہی سبق حاصل کیا جائے!
علمائے سنت کو ’بائی پاس‘ کرنے کا عمل ایک بار شروع ہوجائے پھر وہ آگے سے آگے بڑھتا ہے۔ تب نہ تو کہیں کوئی ایسا ’نقطہ‘ متعین کر دینا ممکن رہتا ہے جہاں ’رک جانا‘ ہر ایک پر لازم کر دیا جائے اور نہ ’کسی‘ کی یہ حیثیت ہی باقی رہتی ہے کہ وہ ’روک‘ سکے۔ ’دلیل‘ پوچھنے والے جب تک کہ خود ان کو دلیل ’نظر‘ اور ’سمجھ‘ نہ آجائے، چلتے جاتے ہیں! کوئی ضوابط پھر ایسے نہیں پائے جاتے جن کی جانب رجوع لازم ہو۔ ’ضوابط‘ بھی ہر شخص کے پھر اپنے ہوتے ہیں اور ’قواعد‘ بھی! تب چھوٹے چھوٹے اتنے گروہ بنتے ہیں جن کا کوئی حدوحساب نہیں رہتا۔ یہ محض مفروضہ نہیں، جہاں جہاں یہ تجربے ہوئے وہاں وہاں یہ واقعہ رونما ہوتا دیکھا جا چکا ہے۔
استفادہ تحریر :کیا مرجئہ طے کریں گے کہ تکفیری کون ہیں از حامد کمال الدین، سی ماہی ایقاظ