‘پوسٹ کولڈ وار ‘سیناریوسمجھنےکی ضرورت ہے

ہمارے وہ قارئین جو ہمارا جہاد پر موجودہ سلسلہ تحریر شروع سے ملاحظہ فرمارہے ہیں اور جنہوں نے سرسری دیکھا ہے اور انہیں اس پر کچھ اشکالات بھی ہیں’ سے درخواست ہے کہ ہمارے اس سلسلہ تحاریر کو اک دفعہ لازمی ملاحظہ فرمائیں۔ یہ سلسلہ ریاست، جہاداور اسکی جدید تفہیم اور جدید بیانیوں کے متعلق ہمارے موقف کو اک بڑے کینوس اور سیناریو میں واضح کرے گا اور اس سے موجودہ ساری صورتحال اور اس کے متعلق مین سٹریم کا بیانیہ مزید واضح ہو کے سامنے آجائے گا۔انشاءاللہ(ایڈمن)

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سرد جنگ کے خاتمہ کے ساتھ ہی، آپ دیکھ رہے ہیں، عالم اسلام کے متعدد خطے جنگ کا میدان بننے لگے۔ کچھ سٹرٹیجک مسلم خِطوں پر باقاعدہ فوجی قبضے مانند افغانستان، عراق، مالی (اور خلیج و مشرقِ وسطیٰ کی آبی گزرگاہیں)۔ کچھ جو پہلے سے مقبوضہ تھے ان پر ازسرنو مظالم مانند کشمیر و فلسطین وغیرہ (جہاں صلیبی مغرب کے حلیف براجمان ہیں)۔ اور کچھ مضبوط جان مسلم ملکوں میں دہشتگردی، تخریب کاری اور عدم استحکام پیدا کرانے کی کوششیں۔ اس دہشتگردی کا خصوصی نشانہ عالم اسلام کی وہ فوجی یا اقتصادی طاقتیں جو کسی نہ کسی سطح پر مسلم دنیا کا سہارا ہو سکتی ہیں، مانند پاکستان، ترکی اور سعودیہ وغیرہ۔ دہشتگردی اور عدم استحکام پیدا کرانے کی اِن سرگرمیوں میں بیرونی ہاتھ اِس قدر عیاں ہو چکا کہ ’مقامی عناصر‘ کی حیثیت آلۂ کار سے زیادہ کی نہیں۔ آخر معاملہ کیا ہے؟ کسی ایک ملک کی بات ہو تو چلیے ہم وہاں کی حکومت یا فوج یا اداروں کی کسی مخصوص غلطی یا کوتاہی یا زیادتی کو اِس پوری صورتحال کی ذمہ داری اٹھوائیں اور آئندہ بھی خدانخواستہ اگر وہاں کچھ ہونا ہے تو اس کا ملبہ اسی ایک آدھ واقعے یا فیصلے پر ڈالتے جائیں…! مگر آپ دیکھ رہے ہیں یہ دھواں تو پورے عالم اسلام میں اٹھنے لگا۔ ہر مضبوط اور ’سر اٹھاتا‘ مسلم ملک اِس وقت ہچکولوں کی زد میں ہے۔ باہر سے اس پر جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں اور وہ اپنی سرحدوں پر چہار اطراف ’انگیج‘ کرایا جا رہا ہے جہاں بیرونی جارحیت کا سامنا کرنے کے علاوہ کچھ مقامی عناصر کے ساتھ ’چوہے بلی‘ کے ایک کھیل میں وہ بمشکل تمام پورا اتر رہا ہے۔ جبکہ درون میں اس کے شہر اور بستیاں، سڑکیں اور گلیاں، مسجدیں اور بازار دہشتگرد کارروائیوں سے خون میں نہلائے جا رہے ہیں۔

یہ جنگیں ہمارے خیال میں کچھ وقائع نہیں بلکہ ایک دور ہے جس سے عالم اسلام کو گزرنا ہے؛ اور جس کے لیے یہاں بسنے والے ہر ہر طبقے کو ہوش، حوصلے اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہے۔ سب سے پہلے، اِس جنگی سلسلے کا پس منظر سمجھ لینا ضروری ہے۔ اس کو کسی ایسے معمولی تناظر میں تو ہرگز نہ لینا چاہیے گویا یہ چند انتظامی غلطیوں یا کچھ سیاسی نارسائیوں کا نتیجہ ہے؛ یعنی چند متنازعہ اقدامات سے گریز کیا ہوتا تو یہ جنگیں آپ کے گھر یا خطے کا پتہ ہی نہ پوچھتیں! یا اب بھی چند ہلکے پھلکے اقدامات کر کے اِس جنگی سلسلے سے باہر آیا جاسکتا ہے! ایسا ہرگز نہیں۔

ہمارے اندازے میں، جتنے بڑے بڑے واقعات ’’عالمی جنگوں‘‘ کے خاتمے پر آپ کو یکلخت دیکھنے کو ملے تھے، اور پھر جیسی عظیم الشان تابڑ توڑ تبدیلیاں ’’سرد جنگ‘‘ کے خاتمے پر دیکھنے میں آئی تھیں، کچھ اسی شان اور قد کاٹھ کی تبدیلیاں اِس تیسرے دور یعنی ’’پوسٹ کولڈ وار جنگوں‘‘ کے خاتمہ پر بھی آپ کو حیران کر سکتی ہیں۔ یا کیا بعید اس سے بھی بڑھ کر۔ اپنے پیش رَو دونوں ادوار کے برعکس، جنگوں کا یہ تیسرا دور وہ ہے جس میں ’’مسلمان‘‘ کسی نہ کسی شکل میں اور کسی نہ کسی سطح پر ایک باقاعدہ فریق کے طور پر شریک ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ جس طرح عالمی جنگیں محوری طور پر pivotally جرمن و جاپانی ’’خطرہ‘‘ کے خلاف تھیں (پہلی عالمی جنگ میں جرمن کے ساتھ عثمانی ایمپائر بھی) یا جس طرح سرد جنگ محوری طور پر pivotally کمیونسٹ ’’خطرہ‘‘ کے خلاف تھی (اگرچہ اور بہت سے فریق بھی اس میں حصہ بن گئے یا بنا دیے گئے ہوں) عین اسی طرح یہ حالیہ جنگیں محوری طور پر pivotally اسلامی ’’خطرہ‘‘ کے خلاف ہیں… تو شاید غلط نہ ہو۔ گو اس کی ظاہری شکل و صورت سے کہیں کہیں ایسا نہ بھی نظر آ رہا ہو۔ جنگوں کے اُس دوسرے (کولڈ وار) دور کی حرکیات dynamics اگر پہلے (عالمی جنگوں) والے دور سے مختلف تھیں اور بہت سے جلدباز ذہنوں کو قبل از وقت تبصرہ پر اُکسا رہی تھیں تو اِس تیسرے (پوسٹ کولڈ وار) دور کی حرکیات پہلے دونوں ادوار سے مختلف اور صبر آزما ہو سکتی ہیں (جس سے امکان ہے کچھ سطحی اذہان مسلسل دھوکہ کھاتے چلے جائیں۔ حتیٰ کہ ان میں سے بعض، عالم اسلام پر حملہ آور قوتوں کے ہاتھ میں بھی کھیل جائیں)۔


ہمارے اس سلسلۂ مضامین کا ایک خصوصی مقصد یہ ہے کہ اِس سطحیت کا شکار ذہن کو اس کے قائم کردہ مفروضوں سے باہر لایا اور ایک وسیع تر کینوَس دیا جائے۔ تصویر کے وہ حصے جن پر یہ حضرات انگلی رکھ رکھ کر دکھا رہے ہوتے ہیں بسا اوقات ’اپنی جگہ‘ صحیح ہونے کے باوجود اس لحاظ سے نہایت غلط اور گمراہ کن ہوتے ہیں کہ یہ پوری تصویر میں جڑے بغیر دیکھے اور دکھائے جا رہے ہوتے ہیں یا مصالح اور مفاسد کے ایک وسیع تر تناظر میں نہیں لیے جا رہے ہوتے

۔!!!

اس سلسلۂ مضامین کو پڑھنے کے بعد اغلباً آپ تائید کریں گے کہ وہ دہشت گردی جس کا ہمارے کئی ایک مسلم ملکوں کو سامنا ہے، اور جس میں زیادتی کے ساتھ ’’اسلام‘‘ اور ’’جہاد‘‘ کو بھی ملوث کیا جا رہا ہے… اس میں جہاں کچھ منحرف غالی افکار کو دخل ہے وہاں صورتحال کو دیکھنے کے کچھ محدود اور غلط زاویے بھی اس خونیں سانحے کے ذمہ دار ہیں۔ ان دونوں عوامل کا نتیجہ: کہ جہاں ہمارا کچھ نوجوان سرمایہ ’’اسلام‘‘ اور ’’ملی حمیت‘‘ کے نام پر تخریبی قوتوں کے ہتھے چڑھنے لگا وہاں اِن مسلم ملکوں کے اداروں کا بہت سا وقت، محنت اور وسائل بھی اِس سیکورٹی محاذ کی نذر ہونے لگے۔ یعنی ہر دو صورت قوم کا نقصان۔ معاملہ اس نوبت کو پہنچ جانے کے بعد، بےشک اِس سیکورٹی محاذ پر پورا اترنا ناگزیر تھا اور بلاشبہ اِن ملکوں کی سیکورٹی اور داخلی استحکام اس وقت کا ایک بڑا اسلامی مطلوب ہے، اور جوکہ اِس سلسلۂ مضامین میں جا بجا واضح بھی کیا گیا ہے… تاہم اس مسئلے کا ایک پائیدار حل ہماری نظر میں صرف ’’سیکورٹی اقدامات‘‘ نہیں بلکہ نوجوانوں کی سطح پر ’’نظر‘‘ کی وہ درستی بھی ہے جو ابتداءً یہ مسئلہ پیدا کرانے کا باعث بنی۔

انتہاپسندی کا شکار طبقوں سے ہٹ کر بھی، دین سے وابستہ حلقوں کی یہ ضرورت ہے کہ عالم اسلام کو درپیش ایک بھیانک صورتحال کو یہ درست طور پر دیکھیں اور پھر تاریخ کے اِس اہم موڑ پر اپنا مثبت تعمیری کردار ادا کریں۔ خود یہ طبقے بھی (جن کا انتہاپسندی سے کچھ لینادینا نہیں)، یا ان کا ایک بڑا حصہ، معاملے کو اس کے پورے تناظر میں دیکھ بہرحال نہیں رہا۔ نتیجتاً؛ کوئی اِس صورتحال سے لاتعلق ہے تو کوئی اِس کی غلط تفسیریں کرنے میں مگن۔ اور ایک نادان طبقہ تو اب اس کو ’ریاست بمقابلہ فلاں یا فلاں مسلک‘ دیکھنے لگا! یہ الگ سے ایک آشوب ہے؛ اور آپ کچھ نہیں کہہ سکتے یہ ایک آسان سی گولی دے کر دشمن یہاں آپ کے کیسےکیسے قلعے ڈھانے کی کوشش کرے۔ (دشمن کی نظر ہمارے یہاں پائے جانے والے ایک ایک رخنے پر ہے؛ اور اُس کی ’رینڈ کارپوریشنیں‘ ہمارے ایسے ہر رخنے کا بےرحم استعمال کر جانے پر مصمّم)۔ ان سب حوالوں سے ضروری ہو جاتا ہے کہ اس صورتحال کا، جو عالم اسلام کے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی، نقشہ درست طور پر اور ایک بڑے کینوس پر رکھ کر سمجھ لیا جائے۔ ورنہ اندیشہ ہے، کافر کو شکست دینے کے جذبہ کے تحت، یا اپنے ’عقیدے‘ یا ’مسلک‘ یا اپنی کسی علاقائی یا لسانی ’وابستگی‘ کےلیے جذباتیت کا ثبوت دے کر، ہم اپنے ہی خلاف یہ جنگ لڑتے رہیں۔ یا اس جنگ کا ایک بڑا حصہ ہم اپنے خلاف لڑیں۔ خدانخواستہ۔ اور تب ہم اس میں جتنا زور لگائیں، جتنی محنت اور قربانیاں پیش کریں، اتنا ہی اپنا مزید نقصان کریں اور دشمن کو جو صورت یہاں مطلوب ہے اسے پیدا کرنے کے امکانات خود اپنے ہاتھوں بڑھاتے جائیں۔ اپنی ذہانت سے زیادہ، ہماری سادگی اور لاعلمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے… دشمن نے واقعتاً معاملہ کچھ یوں ترتیب دے لیا ہوا ہے کہ ہمارے بظاہر ’آگے بڑھنے‘ کی کچھ جہتیں بھی فی الوقت اُسی کے نقشے کو پورا کروا رہی ہیں۔ ہوش مندی یہاں ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہو گا۔ جذباتیت، بےجا تصادم اور آہ و زاری ایسے رویّے چھوڑ کر سمجھداری اور گہرائی کے ساتھ معاملے کو سمجھ لینے کی ضرورت ہے۔

یہ ایک واقعہ ہے کہ کچھ نادیدہ عوامل ہمارے نوجوان کو دو جانب سے گھسیٹ رہے ہیں:

• یہاں کے دین دار نوجوان کو تکفیر اور تخریب کی طرف۔

• جبکہ دین سے غافل نوجوان کو الحاد اور تشکیک کی طرف۔

یہ دونوں انتہائیں extremes معاشرے کو اپنے چنگل میں لینے کی سرتوڑ کوشش میں ہیں۔ ہمیں اپنے نوجوان کو ہر دو طرف سے بچانا ہو گا۔ اپنے دین کو اِس معاشرے کےلیے اور اپنے معاشرے کو اِس دین کےلیے کارآمد رکھنا اور ہر قیمت پر ان کا جوڑ پختہ کرنا وقت کا بڑا چیلنج ہے؛ جس کےلیے ڈھیروں صبر اور حکمت درکار ہے۔ ہمارے حالیہ سلسلۂ تحاریر کا تعلق کسی قدر پہلے مسئلہ سے ہے۔ یعنی اس نظر کی اصلاح جو دینداروں کے ایک طبقے کو یہاں تخریب کی راہ دکھاتی ہے؛ جس کے نتیجہ میں ’’دین‘‘ کی ساکھ خراب تو ’’معاشرے‘‘ کا امن و استحکام تباہ ہوتا ہے؛ اور پھر ان دونوں واقعات کے نتیجہ میں بیرونی محاذ پر دشمن کی عسکری چڑھائی اور اس کے جنگی منصوبے کامیابی پاتے ہیں جبکہ اندرونی محاذ پر اُس کی لبرل یلغار معاشرے میں ممکن ہوتی چلی جاتی ہے؛ بلکہ اُسے معاشرے کے درمند و خیرخواہ اور قوم کے بزرگ و سرپرست کے رُوپ میں سامنے آنا ملتا ہے؛ جوکہ اُس کی نہایت غیرحقیقی تصویر ہے۔ ’’دین‘‘ کے نام لیواؤں کی طرف سے اِس سے بڑا تحفہ شاید ہی اُس کو کبھی دیا جا سکتا تھا۔ اس پہلو سے اپنے نوجوان ذہن کے کچھ مغالطے جن کا تعلق واقع کی تشخیص اور تجزیہ سے ہے، یہاں ہم دور کرنے کی کوشش کریں گے۔

یہ سب اِس سلسلۂ مضامین کا ایک مقدمہ تھا۔ عالم اسلام پر جو جنگ اِس وقت مسلط کی گئی ہے، اس کے دو بنیادی محور ہیں:

1. پہلا یہ کہ: ’’مسلمان‘‘ کو کسی بڑی جغرافیائی اکائی کے طور پر روئےزمین سے ختم کر ڈالا جائے۔

2. دوسرا یہ کہ: ’’مسلمان‘‘ کو ایک تہذیبی واقعے کے طور پر ختم کر ڈالا جائے۔

جنگ کے یہ دونوں محور آئندہ چند تحریروں میں مفصل بیان کیے جاتے ہیں۔

1.’’مسلمان‘‘ کو کسی بڑی جغرافیائی اکائی کے طور پر روئےزمین سے ختم کر ڈالا جائے


یہ جنگ جو عالم اسلام کے حق میں محض کچھ وقائع نہیں بلکہ ایک ’’دور‘‘ ہے، اور جس نے سرد جنگ ختم ہونے کے اگلے ہی دن جزیرۂ عرب میں ڈیرے لگا دیے اور ایک نئی ترتیب سے وہاں کے پانیوں اور پٹرول کے سوتوں پر آ بیٹھی، پھر چند ہی سال میں وہاں سے افغانستان و جنوبی ایشیا اور پھر اس کے ساتھ ہی عراق اور آخر پورے مشرق وسطیٰ اور ایشیائے کوچک (حالیہ ترکی) تک پھیل گئی اور اب عالم اسلام کی دو بڑی قوتوں پاکستان اور ترکی کے گرد طریقےطریقے سے منڈلا رہی اور ان کے خلاف ہزاروں اندرونی و بیرونی عوامل کو حرکت دینے میں لگی ہے… عالم اسلام کے خلاف جاری اِس جنگ کے دو ہی بڑے محور ہیں۔ ان میں سے پہلا یہ کہ: ’’مسلمان‘‘ کو کسی بڑی جغرافیائی اکائی کے طور پر روئےزمین سے ختم کر دیا جائے۔ حتیٰ کہ چند بڑی بڑی جغرافیائی اکائیوں کے طور پر بھی ’’مسلمان‘‘ کو روئےزمین پر نہ رہنے دیا جائے۔

اب جا کر معاملہ ان کے ہاتھ سے کچھ نکلتا محسوس ضرور ہو رہا ہے، وللہ الحمد، تاہم اُن کے ’سن دو ہزار ایک‘ والے تیور دیکھیں تو پروگرام یہی تھا کہ مسلمانوں کا کوئی بڑا خطہ مستحکم نہ چھوڑا جائے۔ یعنی کوئی گھر مسلمانوں کا ایسا نہ ہو جس میں یہ ’کروڑوں‘ کی تعداد میں اپنی قوت اور وسائل مجتمع کر سکتے اور اپنی قسمت کے آپ مالک ہو سکتے ہوں۔ مسلمانوں کا کوئی طاقتور خطہ جو کافر کے ساتھ برابری کی سطح پر آ سکتا ہو۔ بلکہ (گلوب پر اپنی مرکزی پوزیشن، اپنے بےتحاشا وسائل، خصوصاً اپنی ایک ہوش ربا ڈیموگرافی کے بل پر) کسی دن کافر پر فوقیت پا سکتا ہو، جس کے امکانات کچھ ایسے معدوم بھی نہیں رہ گئے اگر بعض مسلم ممالک یونہی پنپتے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ صلیبی/صیہونی/بھارتی الائنس اپنے ان بھاری بھرکم امکانات کے ساتھ جو اُسے آج حاصل ہیں، عالم اسلام کے ایسے کسی مستقبل کا سدباب کر جانا چاہتا ہے۔

مسلمانوں کا ایسا کوئی گھر ’اسلامی نظام‘ پر بےشک آج نہ بھی کھڑا ہو، اور چاہے وہاں دین سے دُوری کے ان گنت مظاہر بھی دیکھنے میں آتے ہوں، اور بےشک قرآن بھی وہاں بےسوچے سمجھے ہی فی الحال پڑھا جا رہا ہو، اذان اور نماز کے کلمات بھی فی الحال ان کی زندگیوں میں کوئی خاص مضمون ادا نہ کر پا رہے ہوں… اس کے باوجود اذانوں کا کوئی دیس ایسا نہ چھوڑا جائے جو ’کروڑوں‘ پر مشتمل ہو۔ ’لاکھوں مربع میل‘ پر کھڑا ہو۔ ’وسائل‘ کا ایک بڑا ذخیرہ رکھتا ہو۔ کسی ’بڑی فوج‘ کا مالک ہو۔ کوئی ’ایٹمی طاقت‘ رکھتا ہو۔ کسی ’بڑی عسکری قوت‘ کا مخزن ہو۔ کسی علاقائی یا عالمی توازن کے اندر کوئی اہم ’ایکویشن‘ equation بنا سکتا ہو۔ مسلمان بےدین سے بےدین بھی اِس حیثیت میں قبول نہیں۔ اور وہ بھی فی الحال۔ ورنہ؛ مسلمان کسی بھی حیثیت میں قبول نہیں۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان اور ترکی دنیا کی چند بڑی فوجی طاقتوں میں آتے ہیں۔ (صدام کا عراق بھی دنیا کی کچھ قابل ذکر فوجی طاقتوں میں آنے لگا تھا، جو اَب صلیب کی ڈاڑھ تلے آ چکا، اور وہ عراق اِس وقت عبرت نگاہ ہے۔ کوئی فرضی اور ’کانسپی ریسی‘ کہانی نہیں ہے)۔ پاکستانی انٹیلی جنس دنیا کی پہلی چار یا پانچ انٹیلی جنسیوں میں آتی ہے اور گلوب کا ایک قابل ذکر کھلاڑی۔ ترکی یورپ کی ابھرتی ہوئی ایک اقتصادی طاقت ہے، اس وقت جب یورپ کی کئی معیشتیں بیٹھ رہی ہیں۔ نیز مشرقِ وسطیٰ کی ابھرتی ہوئی ایک سیاسی طاقت اور بحر ابیض کا ایک مرکزی ترین کھلاڑی۔ ادھر افغانستان میں ایک ’’پاکستان دوست‘‘ حکومت کے آتے ہی وسط ایشیا تک جو ایک سُنی بلاک بنتا ہے وہ ’بھارت‘ سے بڑی ایک ایمپائر ہے۔ مسلمانوں کے یہ دو سُنی پول two sunni poles at the heart of the globe (ایک ابھرتا ہوا ترکی مغرب میں، اور ایک ریجنل پاور کے طور پر نمایاں ہوتا پاکستان مشرق میں) کسی ’دورِعثمانی‘ کی یاددہانی نہ بھی ہو، ’دورِ ممالیک‘ ایسا ایک داخلی استحکام تو مسلم دنیا کو پھر بھی دلواتا ہے؛ جہاں مسلم پانیوں میں ہر کسی کو پوچھ کر گزرنا پڑتا ہے۔ یعنی زمین کے مرکز میں مسلمانوں کی چلتی ہے اگرچہ عالمی فیصلوں پر وہ ابھی نہ بھی اثرانداز ہوں۔ کوئی ’بڑی مجبوری‘ نہ ہو تو ملتِ صلیب ایسی کسی صورت کو واپس آتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔

ادھر ہمارے کچھ دینداروں کے خیال میں، چونکہ یہاں اسلامی شریعت قائم نہیں ہے اس لیےکافر کو ہمارے اِن مسلم ملکوں پر حملہ آور ہونے یا انہیں غیرمستحکم کرنے کی کیا ضرورت! (بلکہ وہ تو ہمارے اِن حضرات کے خیال میں اِن مسلم ملکوں کو مستحکم کرنے کی فکر میں ہو گا!) معاملے کی یہ ایک نہایت سطحی یا شاید گمراہ کن تصویر ہے۔ اس اشکال کا ازالہ ہم اگلی تحریر میں کریں گے۔

٭چند مسلم ممالک اتنی سی طاقت بھی کیونکر حاصل کر سکے؟

عالم اسلام میں جو کچھ ’بڑے سائز‘ کے ملک پائے جاتے ہیں یا کچھ مضبوط فوجوں یا اہم سٹرٹیجک حیثیت کی مالک ریاستیں ہیں، ان کے ساتھ دشمن کی بےرحمی پچھلے سات عشروں کے دوران ایک حد سے نہیں بڑھ پائی… تو اس کی وجہ دشمن کی ایک مجبوری تھی جس کا نام ہے ’سردجنگ‘۔ یہ وہ مجبوری ہے جس نے نصف صدی تک مغربی بلاک کو خطرۂ موت کی سولی پر لٹکائے رکھا اور جس کے باعث مغربی بلاک آپ کے پاکستان، ترکی، مصر اور سعودی عرب ہی کیا ’افغان جہاد‘ کی بلائیں لینے پر مجبور ہوا جا رہا تھا بلکہ اس میں اپنی بقاء دیکھنے لگا تھا۔ سو اس کےلیے تو دعائیں دیجیے ’سرد جنگ‘ کو! البتہ یہ مت سمجھیے کہ یہ بڑی بڑی مسلم اکائیاں اپنی اِس ’اسلام سے دُور‘ حالت میں بھی چلیں ان کو قبول تو ہیں۔ ہرگز نہیں ۔

تیسری دنیا میں ’’آزادیوں ‘‘ کا جو ایک فنامنا بیسویں صدی کے وسط میں دیکھا گیا اور بعدازاں چند مسلم ممالک کے کچھ ترقی کرجانے کی بھی جو ایک صورت بنتی چلی گئی، اس کا دراصل ایک پس منظر ہے: بیسویں صدی یعنی nineteen hundreds کا نصفِ اول دو ’’عالمی جنگوں ‘‘ اور نصفِ دوم پانچ عشروں پر محیط ایک خونخوار گلوبل ’’سرد جنگ‘‘ پر مشتمل ہے۔ یہ دراصل استعمار کے شکنجے میں پوری طرح آچکے اور اب بظاہر ہمیشہ ہمیشہ کےلیے ’’قابو‘‘ عالم اسلام کی گردن چھڑوانے اور مسلمانوں کو سنبھلنے کا بھرپور موقع دینے کےلیے ایک خالص خدائی تدبیر تھی؛ اس پر شکر کریں تو صرف خدا کا…

مغربی قوتوں کی عالم اسلام پر ایک خونخوار چڑھائی جو اٹھارویں اور انیسویں صدی میں ہوئی، بیسویں صدی میں یکلخت پسپا ہوتی ہے، بلکہ ’آزادیوں ‘ کی ریل پیل دکھائی دیتی ہے، تو اس سے ان قوتوں کی ’شرافت‘ کے بارے میں کوئی دھوکہ نہ کھانا چاہیے۔ وہ شکار جو اٹھارویں اور انیسویں صدی میں مارا گیا تھا، اُس کو تو ایسے مزے لےلے کر کھایا جانا تھا کہ الامان والحفیظ۔ ’کالج یونیورسٹیاں‘ بناتے اور ملکہ وکٹوریہ کے در کو پہنچانے والی ’ریل‘ بچھاتے کچھ دیر لگ گئی تو اس لیے کہ یہاں جلدی ہی کسی بات کی نہیں تھی! جس شکار کو مارنے کےلیے صدیاں لگیں اس کو کھانے کےلیے بھی صدیاں چاہیے تھیں؛ اور ابھی تو صرف ’انفراسٹرکچر‘ ڈالا جا رہا تھا! یعنی تسلی سے یہاں بسنا اور سیر ہو کر کھانا تھا! لیکن کیا دیکھتے ہیں ، چند ہی عشروں میں (بیسویں صدی nineteen hundreds کا آغاز) ’’عالمی جنگوں ‘‘ کا ایک ہولناک کمرتوڑ عذاب (مَن عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالحَرْبِ کے مصداق) مسلمانوں کے سینے پر چڑھی بیٹھی استعماری قوتوں کے عین سر پر آپہنچا (قُلْ هُوَ الْقَادِرُعَلَىٰ أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ) اور تھوڑے عرصے میں غاصبوں کی کمر توڑ ڈالی۔ اتنی سیانی قومیں خدائی تدبیر کے آگے یوں بےبس؛ اپنے ہاتھ سے (تیسری دنیا کے جذباتی ’فرقوں ‘ کی طرح) ایک دوسرے کا یوں گلا کاٹتی چلی گئیں کہ سارا عالمی سیناریو ہی بدل کر رہ گیا اور وہ ٹوٹی کمر کے ساتھ ’فی الوقت کےلیے‘ شکار کی جان چھوڑ، شرافت و انسانیت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے، اپنے گھر سدھار گئیں ؛ اور اپنے بڑھاپے کا اندازہ کر کے ’حقوقِ انسانی‘ کا وِرد کرنے لگیں ۔ دنوں میں ’یو۔این‘ کھڑی کی گئی۔ بقیہ کہانی پھر سرد جنگ نے پُر کی، جس کی تفصیلات ہمارے سامنے ہیں ، اور جس کے بطن سے خدا نے ہمارا عالمی جہاد برآمد کرا ڈالا، جوکہ ابھی سرے نہ لگا تھا کہ شمال مغربی برصغیر کی ایک غیرمعمولی صلاحیتوں کی مالک مسلم قوم کو دنیا ’’نیوکلیئر پاور‘‘ کے طور پر دیکھ رہی تھی!

اتنا ڈراؤنا خواب تو عالمِ صلیب کے یہاں پچھلی تین صدیوں سے کبھی نہ دیکھا گیا ہو گا! مسلمانوں کا ’’عالمی جہاد‘‘ اور مسلمانوں کا ’’نیوکلئیر پاکستان‘‘ خدائی تقدیر کے کچھ خصوصی نشان ہیں ، جن کو محض ’اسباب‘ کے تحت بیان کرنا ہم اپنے لیے خاصا دشوار پاتے ہیں ۔ (دونوں ، اپنی الگ الگ حیثیت میں __ ایک دُوررَس طور پر __ ’عالمی توازن‘ کو اس کی اوقات پر لانے کا نقطۂ ابتداء، ان شاءاللہ وبفضلہٖ تعالیٰ)۔

ان دونوں (عالمی جہاد کا سامنے آنا اور نیوکلیئر پاکستان کا ظہور) کی تفسیر ( explanation )’سرد جنگ کے فراہم کردہ مواقع‘ کے سوا کسی چیز سے ممکن نہیں ؛ اور ’سرد جنگ‘ اپنی پیش رَو ’عالمی جنگوں ‘ کی طرح ایک خاص خدائی تدبیر؛ جس نے ’سیانی‘ قوموں کو خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا۔

حق یہ ہے کہ ہمارا ’’عالمی جہاد‘‘ اور ہمارا ’’نیوکلئیر پاکستان‘‘ (مجموعی طور پر) سرد جنگ کے بطن سے برآمد ہونے والا اتنا ہی بڑا ایک واقعہ ہے جتنا کہ عالمی جنگوں کے بطن سے برآمد ہونے والا عالم اسلام کی تابڑتوڑ ’آزادیوں ‘ ایسا ایک بڑا تاریخی واقعہ۔

پھر اس سے کچھ ہی دیر بعد تقدیر کے بطن سے ایک اور واقعہ ایسا رونما ہوا جو کسی کے سان گمان میں تھا اور نہ آ سکتا تھا۔ اِس واقعہ کو بھی محض ’اسباب‘ کی بنیاد پر تفسیر ( explain) نہیں کیا جاسکتا؛ اور یہ تھا ’اتاترک کے ترکی‘ کا منظر سے ہٹتے اور اس کی جگہ ’اردگان کے ترکی‘ کا نمودار ہوتے چلے جانا!

(کچھ بعید نہیں اسی فہرست میں ’فہد و عبداللہ کے دَم کشیدہ سعودی عرب‘ کی جگہ خطرات میں کود پڑنے والا ’سلمان کا سعودی عرب‘ بھی آئے، مگر یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔ ’مرسی کا مصر‘ بھی اِس فہرست میں آتا آتا رہ گیا؛ ورنہ آنے والے دنوں کی صورت شاید کوئی اور ہوتی۔ گو پھر بھی ہم ناامید نہیں؛ آج نہیں تو کل ان شاءاللہ ایک واقعہ ہونا ہی ہے۔ پھر تیونس سے نمودار ہونے والی اور لیبیا و مصر سے گزرتی شام تک جا پہنچنے والی ’عرب سپرنگ‘ جو کہ آدھی پونی ’اسلامی سپرنگ‘ بھی تھی، وقتی طور پر چاہے ناکام ہو گئی ہو لیکن خطے میں اسرائیل کے ’مستقبل‘ کےلیے پریشان طبقوں کو بہت کچھ بتا گئی: ان بڑے بڑے سائز کے مسلم ملکوں کے یہاں کوئی ٹھوس انفراسٹرکچر یا کوئی مضبوط اکانومی تیار حالت میں چھوڑنا جسے کبھی بھی کوئی عوامی رَو اٹھ کر اپنے زیرِ استعمال لے آئے اور آخر اس کے اندر اِن خطوں کے مسلمانوں کی امنگیں اور جذبے بولنے لگیں، ایک سنگین غلطی ہوگی۔ اِن خطوں کو تو مغرب کی دیوی ’جمہوریت‘ کے درشن کروانا غلط ٹھہرا! نیز جس ’اسلامی جذبہ‘ کو عرب دنیا میں اتنے عشرے بےدردی کے ساتھ کچل کر دیکھ لیا گیا مگر وہ پھر اتنا زندہ ہے کہ یہاں کی کسی بھی عوامی رَو کے کاندھے پر سوار ہو لیتا ہے، اس کا تو کوئی اور ہی پائیدار علاج کرنا ہوگا)۔ ’سرد جنگ‘ کی مجبوری اب نہیں ہے! جس کے بعد عالم اسلام کو ’پتھر کے دور‘ میں دھکیل جانے کےلیے ملتِ صلیب کے یہاں گھنٹیاں بجائی دی گئیں ، الا یہ کہ کوئی اور مجبوری ان کے آڑے آ جائے۔ اس مقصد کےلیے روم و فارس کی دوریاں تک ختم کرائی جا چکیں ۔ ہمیں فی الحال نہیں معلوم، روس کا بیچ میں آنا یہاں کس درجہ کا گیم چینجر ہے۔ اتنا واضح ہے کہ روس اس بار خاصی حد تک ایک صلیبی چہرے کے ساتھ ہی میدان میں کودا ہے؛ جس کے ڈھیروں شواہد ہیں ۔

یہ ہے مختصراً اس سوال کا جواب کہ چند مسلم ملک اتنی سی طاقت کا حصول بھی اگر کر پائے تو اس کا موقع انہیں کیونکر ملا. اور یہ کہ پچاس کے عشرے سے لے کر اب تک اگر کچھ غیرمعمولی مجبوریاں نہ ہوتیں تو اس کی گنجائش بھی وہ اِن مسلم ملکوں کو دینے والے نہ تھے۔ واللہ غالبٌ علیٰ أمرِہ۔

جن دینداروں کو معاملے اس جہت پر تعجب ہے :


کچھ بڑی مسلم آبادیاں اور کچھ مضبوط عسکری امکانات کی مالک مسلم ریاستیں – اپنے یہاں اسلام نافذ نہ ہونے کے باوجود – اسلام دشمنوں کی آنکھ میں کھٹکتی آئی ہیں۔ البتہ اِس ”مابعد سرد جنگ دور“ میں یہ اُن کی جارحیت کا نشانہ بھی ہو سکتی ہیں۔ اِس دشمنی اور جارحیت کا حوالہ بدستور ”اسلام“ ہی رہے گا خواہ یہ جارحیت یورپ و امریکہ کی جانب سے ہو یا بھارت و اسرائیل کی جانب سے۔ کچھ دینداروں کے لیے البتہ اس بات کا یقین کرنا مشکل ہے کہ دشمن کی اِس جارحیت کا حوالہ آج بھی اسلام ہو! جب یہاں ‘اسلامی نظام’ نہیں تو کافر اِن ملکوں کی قوت پارہ پارہ کرنے میں بھلا کیوں دلچسپی لےگا، ایک خاص یوٹوپیا میں بسنے والا ہمارا یہ طبقہ اِس طرزِفکر سے باہر آنے پر آمادہ نہیں۔

”اسلامی نظام“ کے معاملہ میں یہ ذہن کئی پہلوؤں سے نہ صرف ایک غلو بلکہ خلطِ مبحث کا شکار ہے؛ جس کے باعث ”شریعت“ ایسے ایک عالی مرتبت عنوان کے تحت اب یہ اشیاء میں بہتری کی بجائے ایک منفیت اور تعطل لانے کا سبب بن رہا ہے۔ اِس لحاظ سے، اندیشہ ہے، ”شریعت“ کا نام لیوا یہ شدت پسند ذہن مکتبِ استشراق (Orientalist’s Desk) کے لیے عالم اسلام میں ایک اچھی دریافت ثابت ہو سکتا ہے۔ کچھ بڑی اور مضبوط مسلم اکائیوں کی صورت میں آج ہمیں اِس جہان کے اندر جو ایک نعمت حاصل ہے، اور جس کے پیچھے مسلمانوں کی ڈیڑھ سو سال کی محنت اور قربانی ہے، اور جس کے دم سے آج بھی ہمارے بہت سے اسلامی مصالح اللہ کے فضل سے محفوظ ہیں اور تھوڑی حکمت اور عقلمندی سے کام لے کر مزید محفوظ کیے جاسکتے ہیں۔ ہمارے اِس یوٹوپیا ذہن کو البتہ نہ اس کا ادراک ہے اور نہ اس کے تحفظ کے لیے اس کے ہاں کوئی پریشانی۔ بلکہ بعضوں کے خیال میں تو ہمارا اِس نعمت سے محروم ہو جانا اور عالم اسلام کا ”سن اٹھارہ سو کچھ“ والے پوائنٹ پر واپس جا پہنچنا جہاں مسلم سرزمینیں تاحدِنگاہ اغیار کے قبضے اور تصرف میں ہوتی ہیں، یعنی ایک باقاعدہ غلامی۔ وہ عالم اسلام کے اِس حالیہ نیم آزاد سیناریو سے کہیں ”افضل“ ہے! یہ وہ ذہن ہے جسے اندازہ نہیں کہ یہ چیز اگر خدانخواستہ ہم سے چھن گئی تو صدیوں کے حساب سے ہم پیچھے دھکیلے جا سکتے ہیں (اس کی کچھ وضاحت ہم آگے بھی کرنے کی کوشش کریں گے)۔ دورِ زوال کی اس اجتماعی و قومی صورتحال کو یہ حضرات اپنے کچھ ”مثالی“ شرعی معیارات پر ہی جانچیں گے؛ اس سے کم کوئی پیمانہ مسلمانوں کی حالیہ سماجی یا جغرافی پوزیشن کو زیرِغور لانے کے لیے گویا موجود ہی نہیں!

شرعی معیارات سر آنکھوں پر۔ تاہم معاملے کا نقشہ اگر آپ دشمن کی جہت سے سمجھنا چاہتے ہیں تو حالیہ عالمی اکھاڑ پچھاڑ میں مسلمانوں کی اِن جغرافیائی اکائیوں کی پوزیشن طے کرتے وقت اپنے مخصوص معیارات کی بجائے دشمن کے محرکات کو ہی سامنے رکھنا ہوگا۔ اس وقت کے پاکستان، ترکی، عراق، سعودی عرب، مصر، سوڈان، انڈونیشیا اور الجزائر وغیرہ کو تھوڑی دیر کے لیے دشمن کی نظر سے دیکھنے کی زحمت فرمالیجیے۔ آپ کو معلوم ہو جائے گا، ایسی بڑی بڑی مسلم اکائیوں کی دیرپا گنجائش ایک صلیبی ”نیوورلڈ“ کے اندر کہاں ہے۔ ”شرعی معیاروں“ کا معاذ اللہ ہمیں انکار نہیں۔ لیکن ان کو لاگو کرنے کا سیاق بالکل اور ہے (جس پر ذرا آگے چل کر ایک قاعدہ ذکر ہو رہا ہے)۔ اِس چیز کو اگر آپ نظرانداز کریں گے تو معاملے کو الجھا بیٹھیں گے۔ (بلکہ ایک طبقہ اسے الجھا بیٹھا ہے، جس کا خیال ہے وہ معاملے کو شرعی معیاروں پر پرکھ رہا ہے!)۔ ہم ان حضرات سے کہتے ہیں، اپنے ان ”شرعی معیاروں“ پر آپ کا بوسنیا اور کوسووا بھی یقیناً فیل (fail) ہی ہوتا تھا۔ اسلام کی کوئی ایک بھی بات اغلباً آپ کو بوسنیا اور کوسووا میں نوّے کی دہائی کے آغاز میں نظر نہ آتی تھی۔ لیکن اُسی ”دین سے دور“ بوسنیا اور کوسووا کو آپ ایک نظر صلیبی کی آنکھ سے دیکھیں تو وہ صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جانے کے قابل ٹھہرتا تھا!

یہ ہے وہ فرق جس پر ہم آپ سے توجہ لینا چاہتے ہیں تاکہ اِس جنگ کے نقشے کو سمجھنے میں غلطی نہ ہو (اور اپنے پیر پر آپ کلہاڑی نہ مار بیٹھیں)۔ آپ نے نوٹ فرمایا: وہی ”اسلام سے کوسوں دور مسلمان“ بوسنیا اور کوسووا کے اندر گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا جانے کے لائق ٹھہرتا ہے۔ وہی ”مغربی میم“ دکھائی دینے والی آپ کی بوسنوی اور کوسووی خاتون، صلیبی گماشتے کے ہاتھوں غارت کر دیے جانے کے قابل قرار پاتی ہے۔ اس لیے کہ اس کے رحم میں پلنے والے نطفے کسی دن اِسی لاالٰہ الا اللہ کو ”سوچ سمجھ کر“ بھی پڑھ سکتے ہیں؛ جس سے فرعون کی ”مجوزہ“ دنیا کی جان جاتی ہے۔ ورنہ کافروں جیسا ہونے میں کیا کسر چھوڑی تھی بوسنیا اور کوسووا کی ہماری اس بیٹی نے؟

تو پھر یہاں سے اندازہ کر لیجیے، کافر کتنی دُور تک دیکھتا ہے، پیچھے بھی اور آگے بھی۔ دوسری جانب ہمارا یہ مسلمان ”شرعی عینک“ لگا رکھنے کے باوجود کیسا کوتاہ نظر ہے۔ کافر اِس ”بےدین“ مسلمان کی پشت میں پڑی نسلوں کو لاالہ الا اللہ پڑھتا اور چشم تصور میں یورپ کی طرف بڑھتا دیکھتا ہے تو آج اِسے کسی بڑی جغرافیائی اکائی کے طور پر دیکھنے کا روادار نہیں رہتا۔ ادھر ہمارا تنگ نظر دیندار اِس کی ٹخنوں سے نیچی شلوار یا اس کی ڈاڑھی مُنڈی صورت سے گزرنے پر آمادہ نہیں! یہ اس کے کچھ خلافِ شریعت افعال دیکھتا یا اسے عقیدہ و عمل کی خرابیوں میں پڑا ہوا یا ایک غیر اسلامی نظام میں گرفتار پاتا ہے تو اپنی کسی ہمدردی یا مدد و نصرت و اعانت کے قابل نہیں جانتا۔ اور کیا بعید خود بھی کسی وقت اس کا کام تمام کرنے کی سوچے؛ اور نادانستہ اُس خرانٹ دشمن ہی کا کام آسان کر آئے!

مقصد یہ کہ: اس جنگ کا نقشہ سمجھنے کے لیے آپ یہاں پر ”مطلوبہ“ تبدیلی و اصلاح کے معیارات نہیں، بلکہ ذرا دیر معاملہ دشمن کی نگاہ سے دیکھ لیجئے۔ بہت ممکن ہے صورتحال اُس سے مختلف نظر آئے جو آپ اِس جنگ کے کسی ایک ہی فیکٹر کو سامنے رکھتے ہوئے معاملہ کی اسیسمنٹ (assessment) کرتے رہے تھے۔

یہ بات ایک قاعدے کے طور پر نوٹ ہونی چاہیے کہ:

– اپنے شرعی معیارات آپ زیربحث لائیے یہاں پر درکار اصلاح اور تبدیلی کے مباحث کے دوران۔ جبکہ اس اصلاح اور تبدیلی کا اپنا ایک طریقہ ہے، جس پر ہم کسی الگ سلسلۂ مضامین میں روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔

– البتہ اِس عالمی اکھاڑے کا نقشہ جانچنا ہو تو۔ اپنی اِن آج کی جغرافیائی اکائیوں کو اِن کے وسائل، معدنیات، عسکری امکانات اور ڈیموگرافی وغیرہ ایسے عوامل کے ساتھ (جو ”مستقبل“ کے کسی عالمی نقشے کو تشکیل دینے میں غیر معمولی اہمیت رکھتے ہوں) ذرا دیر کے لیے ”صلیبی“ کی نظر سے دیکھ لیجیے۔ خاص اِس پہلو سے ”صلیبی“ عالم اسلام کو جس گھیرے میں لے رہا ہے، اسے اپنے سامنے رکھ لیجیے۔ اور پھر یہاں پر چلی جانے والی چالوں کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔

٭دشمن صرف آپ کا ”آج“ نہیں دیکھتا


واضح کرتے چلیں، ہماری ان تنقیحات کا مقصد صرف ایک ہے: احیائے اسلام کی کوششوں کو ایک کلیرٹی (clarity) دینا، یہاں پر جاری اصلاحی و دعوتی عمل کو ایک پختگی کی طرف لانا اور عالم اسلام کو درپیش اِس بحران سے نکلنے کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالنا۔ ہمیں پروا نہیں، فی الحال ہماری ان باتوں کو کس قدر تعجب اور حیرانی سے لیا جاتا ہے۔

سن 2007ء میں ہم جو باتیں کر رہے تھے اور ”لال مسجد“ سے ملحقہ پورے ایک منظرنامے سے خبردار کر رہے تھے، (جس پر ہماری تالیف ”رو بہ زوال امیریکن ایمپائر“ شاہد ہے)، اُن باتوں کی صداقت سے آج وہ لوگ بھی شاید انکار نہ کر پائیں جو اُس وقت ہماری اُن باتوں کو حیرانی سے سن رہے تھے اور شاید سننا بھی گوارا نہیں کر رہے تھے۔ دینی طبقوں کو اس بات کا واضح ادراک کرنا تھا اور ہے کہ:

مسلمانوں کی ہر بڑی جغرافیائی اکائی، خواہ وہ اپنے یہاں قائم ”نظام“ یا اپنی بستیوں کے اندر نظر آنے والے تہذیبی مظاہر کے معاملہ میں سن 1992ء کے بوسنیا، کوسووا یا البانیہ سے ابتر اور ”غیراسلامی تر“ کیوں نہ ہو، اِس وقت صلیبی منصوبہ ساز اور اُس کے بھارتی/صیہونی اتحادی کی ہِٹ لسٹ پر ہے۔ اور ایسی ہر بڑی مسلم اکائی کے کویت، قطر اور برونائی جتنے یا اس سے بھی چھوٹے ٹکڑے کر دینا ایک ”نیا جہان“ تشکیل کرنے والوں کی ترجیحات میں اِس وقت باقاعدہ شامل ہے۔ اِس خواب کو عملی تعبیر پہنانا آج بےشک اُن کے لیے آسان نہیں (اور ان شاءاللہ کبھی آسان نہ ہوگا)؛ اور فوراً تو شاید ممکن ہی نہیں کیونکہ معاملہ اچھا خاصا اُن کے ہاتھ سے نکلا ہوا ہے، لہذا اس کے لیے اب انہیں کچھ الجھی ہوئی اور لمبی چالیں چلنا پڑ رہی ہیں۔ جس کے تحت یہاں کے بہت سے اندرونی و بیرونی عوامل کو بیک وقت وہ راہ دکھائی جا رہی ہے جو مسلم دنیا کو چھوٹے چھوٹے لقمے کر دینے پر منتج ہو۔

یہ مت سمجھیے کہ وہ جغرافیائی اکائیاں جو شیاطینِ عالم کے کسی مطلوبہ ”پوسٹ یو این ورلڈ“ (a desired post-UN-world) میں فٹ نہیں بیٹھتیں۔ وہ خاص کوئی ”اردگان کے ترکی“ یا ”ضیاء الحق کے پاکستان“ یا ”فیصل کے سعودیہ“ یا ”عزت بیگووچ کے بوسنیا“ ایسی مسلم اکائیاں ہی ہوں گی۔ یعنی اردگان یا ضیاء الحق یا فیصل یا بیگووچ ایسی مذہب پسند قیادتیں اگر نہ ہوں تو مسلمانوں کی یہ جغرافیائی اکائیاں بجائے خود تو اپنی تمام تر ڈیموگرافک جہتوں کے ساتھ اُن کو ہضم ہی ہضم ہیں! یہ سوچنا بالکل غلط ہوگا۔ حق یہ ہے کہ ترکی میں اردگان یا پاکستان میں ضیاء الحق یا سعودیہ میں فیصل یا بوسنیا میں بیگووچ ایسا کوئی ”اسلامسٹ“ اوپر آ جانا دشمن کو ہم پر بےرحم ہو جانے کے کچھ اضافی اسباب فراہم کرتا ہے۔ ورنہ قبول ان کو ”اتاترک“ کا ترکی بھی بہرحال نہیں ہے۔ ابھی ہم اس کی وجہ بتائیں گے کہ کیوں۔ (”اتاترک کا ترکی“ ہم نے اِس ضمن کی بدترین مثال دینے کے لیے قصداً ذکر کیا ہے تاکہ کوئی غموض رہ ہی نہ جائے، بقیہ مثالیں اسی پر قیاس کر لیجیے)۔

اتاترک کا ترکی ”خلافت“ کے مقابلے پر ایک نعمتِ غیر مترقبہ ضرور ہوگا۔ (ہم یہاں دشمن کی نظر سے صورتحال کی تصویر دکھا رہے ہیں)۔ تاہم ”خلافت“ جب ایک بار ختم کی جا چکی تو ضروری نہیں ”اتاترک کا ترکی“ اپنے اُسی سائز، اُنہی وسائل اور اُنھی عسکری امکانات کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہے۔ لِكُلِّ مَقَامٍ مَقَال، وَلِكُلِّ حَادِثٍ حَدِيثٌ! ۔وجہ اس کی واضح ہے: ”اتاترک کے ترکی“ کو ”اردگان کا ترکی“ بننے میں آخر دیر ہی کتنی لگتی ہے؟ چند عشرے؟ تو پھر ایک مضبوط ترکی ”اتاترک“ کے پاس بھی کیسے چھوڑا جا سکتا ہے؟ الا یہ کہ کوئی مجبوری ہو۔ اور ہاں مجبوری ہو (مثال: سوویت عفریت کی گرم پانیوں کی طرف پیش قدمی) تو ”ضیاءالحق کے پاکستان“ کے ساتھ بھی معاملہ کر لینا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ”اسلامی پاکستان“ اپنے نیوکلیئر پروگرام کو بھی خاطرخواہ حد تک آگے بڑھا لیتا ہے!

پس مسئلہ مجبوریوں کا ہے۔ کوئی خاص مجبوری نہ ہو تو عالم اسلام میں کوئی ملحد سے ملحد ”قیادت“ کیوں نہ ہو، بے دین سے بے دین ”نظام“ کیوں نہ ہو، صلیبی یہاں ایک مسلم ملک کو مضبوط اور توانا چھوڑنے کا ”خطرہ“ مول لے ہی نہیں سکتا۔ اتاترک بھی ہو، وہ صرف اپنے کفر کی گارنٹی دے سکتا ہے اپنی نسلوں کی نہیں! اس ”مسئلے“ کا کوئی کرے تو کیا کرے؟ مسلم دنیا کی ”گارنٹی“ اللہ کے فضل سے کوئی نہیں دے سکتا؛ یہاں تک کہ خود ملحد بھی نہیں! خود اِس (ملحد) کے گھر کب کوئی دیندار پیدا ہو جائے، کیا ضمانت ہے؟ (صلیبی کو ہماری مسجد اور ہماری اذان، یہاں تک کہ اب تو ہماری تبلیغی جماعت اور الہدیٰ جیسی بے ضرر چیزیں بری لگتی ہیں کیونکہ یہ مسلم بیداری کے لیے ایک ”نرسری“ کا درجہ رکھتی ہیں!

بڑی بڑی ملحد شخصیات کے گھروں میں آپ نے بڑے بڑے دیندار بچے دیکھ رکھے ہوں گے؛ عالم اسلام کا یہ ایک ”جینوئن“ مسئلہ ہے؛ آخر اسے کیسے نظرانداز کر دیا جائے!)۔ یہ ملحد اپنی آئندہ نسلوں کی تو کیا ضمانت دے گا، اس بات ہی کی کیا ضمانت کہ خود یہی کل کو تائب نہیں ہو جائے گا اور مرنے سے پہلے خدا کے ساتھ اپنا معاملہ سدھار لینے کے لیے فکرمند نہیں ہو جائے گا! مسلمان ماں کے دودھ میں خدا نے کچھ رکھا ضرور ہے۔

اس لحاظ سے؛ خدا نے عالم اسلام کے معاملے کو کچھ لاک (lock) لگوا دیے ہیں۔ یہ قدرتی لاک (lock) ہیں۔ کوئی مائی کا لال انہیں اَن لاک (unlock) نہیں کر سکتا۔ کوئی ضمانتیں یہاں پائی ہی نہیں جاتیں۔ ضمانتیں کہیں ہوں تو دی جائیں! ملتِ صلیب پس یہاں ”شخصیات“ کو نواز سکتی ہے ”ملکوں“ کو نہیں؛ خواہ یہ شخصیات اُس کے لیے سونے کی کیوں نہ ہو جائیں. لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ پڑھنے والے ملکوں کو ”بڑی طاقتیں“ بنتا چھوڑنا صلیبی کی لغت میں نہیں، سوائے یہ کہ مجبوری ہو!

پس کُل کھیل آپ کو اُس کی مجبوریوں کے ساتھ کھیلنا ہوتا ہے۔ اس بات کو ایک کُلی قاعدے کے طور پر لکھ لیجیے۔

یہ جنگیں کسی اسلامی انقلاب کا راستہ روکنے کیلیے نہیں ہیں :


سرد جنگ کے ختم ہوتے ہی کوئی ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ملتِ صلیب اپنے لاؤ لشکر سمیت عالم اسلام پر چڑھ آتی ہے۔ اس کے درست پس منظر کو سمجھنے کےلیے، ہمارے نزدیک ضروری ہے کہ ’’سرد جنگ‘‘ اور اس سے پہلے ’’عالمی جنگوں‘‘ سے بھی ذرا پیچھے جا کر اُس وقت اور موجودہ نقطے کو جوڑیں اور پھر اس تصویر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

میں معذرت خواہ ہوں جن حضرات کا خیال ہے کہ یہ جنگیں آپ کے کسی ممکنہ اسلامی انقلاب کا راستہ روکنے اور یہاں کے مسلم ملکوں اور ان میں قائم نظاموں کو بچانے کےلیےملتِ صلیب کی جانب سے لڑی جا رہی ہیں اور خاص اس غرض سے وہ عالمِ اسلام کو تاراج کرتی پھر رہی ہیں! یہ اس معاملے کی ایک سطحی اور جذباتی تصویر ہے۔

بھائی آپ کا کونسا اسلامی انقلاب یہاں ’لبِ بام‘ پہنچا ہوا تھا جو اِن تمام جنگوں کی یہ توجیہ کی جائے؟ حق یہ ہے کہ ’اسلامی انقلاب‘ کی تمام کوششیں اس سے پہلے ہی عالم اسلام کے اندر ایک ’بھاری پتھر‘ ثابت ہو چکی تھیں۔ یہاں تک کہ ’متبادل‘ کے سوال کھڑے ہو چکے تھے (جس کا کچھ فائدہ بعدازاں عسکریت پسند افکار نے بھی اٹھایا)۔ غرض اکیسویں صدی شروع ہونے تک ’’اسلامی انقلاب‘‘ کی تمام یا اکثر کوششیں دم توڑ چکی تھیں، کہ عالم اسلام پر صلیبی چڑھائی کا یہ نیا سلسلہ سامنے آیا۔ہاں ایک مثال ذکر کی جا سکتی ہے: تحریکِ ملا عمر، جو افغانستان میں نمو پزیر تھی۔ لیکن اس کے پیچھے جو قوتیں اور جو عوامل اور جو اہداف کارفرما تھے اس کو نہ تو سرسری لینا درست ہے اور نہ اُس پورے عمل سے کاٹ کر دیکھنا (اگر آپ واقعتاً حالیہ صلیبی یورش سے پہلے کی صورتحال کا ایک واقعاتی تجزیہ کرنا چاہتے ہیں اور محض اپنی پسند کے نتائج پر پہنچنے کی جلدی نہیں رکھتے)۔ پس 2001 تک کی تحریکِ ملا عمر اور اس کے پشت پناہوں (اور ہردو کے مابین اُس وقت پائی جانے والی ہم آہنگی) کو سامنے رکھیں تو یہ تصویر بنتی ہی نہیں کہ ’ملتِ صلیب آپ کے کسی ممکنہ اسلامی انقلاب کا راستہ روکنے اور یہاں کے مسلم ملکوں اور ان میں قائم نظاموں کو بچانے کےلیے مسلم سرزمینوں پر چڑھ آئی ہے‘۔

غرض ’’اسلامی انقلاب‘‘ کی یہ ایک ہی مثال (تحریکِ ملا عمر) پورے عالم اسلام کے اندر آپ دے سکتے ہیں، مگر یہ ’’انقلاب‘‘ جن عوامل کا مرہونِ منت تھا وہ آپ کی ذکرکردہ بات کی بجائے کسی اور حقیقت پر دلالت زیادہ کرتے ہیں۔ سامنے کی بات ہے، افغانستان کا یہ ’’اسلامی انقلاب‘‘ اپنے جن دوستوں پر سہارا کر کے آ رہا تھا، اور ان کے ساتھ ایک سچی قابل اعتماد دوستی کے اصولوں پر کھڑا تھا (نہ کہ ’موقع پرستی‘ کی کوئی اپروچ، جیساکہ ہمارے بعض اوہام پرستوں کا خیال ہے)، ان سے الگ کر کے آپ اس پورے معاملے کی توجیہ نہیں کر سکتے۔ اس ایک پیش رفت (تحریکِ ملا عمر) کے علاوہ آپ کا کونسا ’اسلامی انقلاب‘ تھا جس کا خطرہ بھانپ کر ملتِ صلیب آپ کے ان ملکوں پر چڑھ آئی تھی؟

بڑی دیر سے ہمارا یہ کہنا رہا ہے کہ عالم اسلام پر مسلط کی جانے والی اِن نئی جنگوں کا بڑا ہدف اُن قوتوں کو ہلکا اور اُن سوتوں کو خشک کرنا ہے جن سے عالمی جہاد دنیا میں مدد پاتا رہا، یا آئندہ مراحل میں پا سکتا ہے؛ جہاد کا فنامنا اپنی کسی مستقل بالذات حیثیت میں البتہ اتنا بڑا (تاحال) نہیں ہے۔ پس عالم اسلام پر ملت صلیب کے چڑھ آنے کی تفسیر ہمارا یہ عالمی جہاد ضرور ہے تاہم استعمار کے اہداف اسی میں محصور نہیں ہیں۔ پس یہ عالمی جہاد دشمن کا ایک براہِ راست اور اعلانیہ ہدف ضرور ہے، زیرعنوان: ’دہشتگردی‘۔ (جس کا اللہ کا شکر ہے دہشتگردی سے کچھ بھی تعلق نہیں ہے)۔ لیکن اِس ’اعلانیہ ہدف‘ کے پیچھے فی الوقت کچھ ’غیراعلانیہ ہدف‘ بھی اُنہیں کچھ کم نہیں کھٹک رہے؛ جو نہ صرف ملتِ صلیب کی نظر میں بلکہ حسین حقانی ایسے ہمارے ایک کثیر بکاؤ مال کی نظر میں ’فساد کی اصل جڑ‘ہے۔

اپنے تاثرات کی حد تک (جوکہ ناکافی معلومات کی غیرموجودگی میں تاثرات ہی ہو سکتے تھے) ہم یہ خیالات اپنی مجالس میں شروع دن سے شیئر کرتے آئے ہیں۔ اور تحریروں میں بھی کچھ اشارہ اِن امکانات کی جانب ہوتا آیا ہے۔ لیکن اب تو یہ بات خاصی کھل کر سامنے آگئی ہے کہ صلیبی طاقتیں (مع ان کے صیہونی، فارسی اور بھارتی حلیف) اس وقت عالم اسلام کے کن کن ممالک کو غیرمستحکم destabilize کرنے، حتیٰ کہ بس چلے تو ٹوٹے کردینے کےلیے دوڑدھوپ فرما رہے ہیں۔ (بھارت اور ایران پر نوازشات کی حد ہوتی کسے نظر نہیں آرہی؟ اور جنوبی ایشیا میں ’دہشتگردی‘ کی بابت ایک خالص بھارتی نیریٹو A pure Indian narrative on terrorism in the South Asia کی تائید میں، اور من و عن انہی ’بھارتی‘ لائنز پر، امریکی بیانات اور دباؤ بلکہ صاف امریکی دھونس بھی اب کسے نظر نہیں آرہی؟ بلوچ لبریشن آرمی کی سرپرستی؟ پھر پاکستان میں دہشتگرد کارروائیوں کےلیے امریکی قبضہ کے زیرانتظام چلنے والے ’کابل‘ کا روٹ بھی آخر کسے نظر نہیں آ رہا؟ اور کونسی بات اب ڈھکی رہ گئی ہے؟)۔ کیا یہ غورطلب نہیں کہ پاکستان، ترکی اور سعودی عرب کو تو دھماکوں کی زد پر رکھ لیا جاتا ہے جبکہ ایران اس سے پوری طرح محفوظ رہتا ہے؟ اور کوئی اندازہ کرے، اردگان کے الیکشن ہار جانے کےلیے مغربی پریس میں، خصوصاً صیہونی پریس کے اندر، یہاں تک کہ ہمارے اپنے لبرلز کے یہاں، کیسی کیسی بےچینی پائی جاتی ہے! اور کوئی یہ بھی پوچھے کہ سعودی عرب نے، جسے چاروں طرف سے ایران کی وفادار ’مرگ بر امریکہ‘ نعرے لگاتی ’جہادی تنظیمیں‘ گھیرا ڈالے ہوئے ہیں، مغربی میڈیا یہاں تک کہ ہمارے یہاں کے لبرل میڈیا کا آخر بگاڑا کیا ہے جو کسی بلکتے بچے کی طرح یہ بتائے بغیر کہ تکلیف کہاں ہے مسلسل شور مچاتا اور سعودی عرب کے لتّے لیے جاتا ہے؟ اور اب تو یہ بھی راز نہیں رہا کہ افغانستان اور شام میں جہاد جیسے کیسے مدد پاتا رہا تو اس کا سورس کیا رہا ہے۔

پس یہ غیرمعمولی واقعات اور جنگوں کا یہ ایک لامتناہی سلسلہ جن کا اکھاڑا آج آپ کاعالمِ اسلام بنا ہوا ہے… ’سرد جنگ‘ سے نکلنے کی کچھ خوفناک علامات symptoms ہیں۔اس وقت کی ایک بڑی ترجیح مغرب کے ہاں: عالم اسلام کے کچھ اونچے اونچے ٹیلوں کو ’زمین کے برابر‘ لانا ہے۔ یہاں کچھ بڑی بڑی اکائیوں کو چھوٹے چھوٹے ریزوں میں بدلنا ہے۔ ’انیسویں صدی‘ کے سیناریو کو ضروری حد تک واپس لانا اس کے بغیر ممکن نہیں۔

(واضح رہے، ’انیسویں صدی‘ کا سیناریو پورے کا پورا واپس لانا ایجنڈا میں نہیں۔ یوں بھی ’انجینئرنگ‘ کی مہارتیں دشمن کے یہاں اب پہلے سے بہت بڑھ گئی ہیں اور ’اداروں‘ کا تجربہ بہت کچھ رنگ لا چکا ہے۔ کوئی یو-این نما چیز ہی اپنی کسی ترقی یافتہ تر شکل میں آئندہ عشروں کے دوران ایک مفید دریافت ثابت ہو سکتی ہے، خدانخواستہ)۔

’انیسویں صدی کے سیناریو‘ سے ہماری مراد یہ کہ: عالمِ اسلام کے وسائل گورے کے قدموں میں ڈھیر ایک ’خام مال‘ ہو اور یہاں کے انسان اُس کے مخلص ’مزارعے‘ اور ’مزدور‘ اُس کی درازیِ عمر کےلیے دعاگو۔

انیسویں صدی کا یہ سیناریو بڑی کم لاگت کے ساتھ ایک اور طرح بھی دہرایا جا سکتا ہے۔عالم اسلام پر قبضہ کیوں کرو، اور یہاں پر ’جنگ ہائے آزادی‘ ایسی کچھ طویل و عریض آزمائشوں کا سامنا کیوں کرو۔ عالم اسلام کو اپنا ’خام مال‘ اور ’مزارعے‘ اور ’مزدور‘ بنا رکھنے کا اس سے ایک کم خرچ اور آسان تر طریقہ بھی ہے: یہاں ایک ایک ضلع یا ڈویژن کے سائز کا ایک ایک ملک بنا دو، جن کے مابین جگہ جگہ وسائل اور پانیوں کے جھگڑے ہوں اور بات بات پر ان کے مابین بندوقیں نکل آیا کریں، جبکہ تم خود ان کے مابین صلح کرانے آیا کرو! (چھوٹے کاشتکاروں کا پانی کبھی پورا نہیں ہوتا؛ اور ان کی لڑائیاں بھی گھر کے دانے پورے کرنے کےلیے ہوتی ہیں، یعنی کچھ بہت ہی ’حقیقی اور بنیادی ضرورت کی‘ لڑائیاں جنہیں آدمی اپنے بھائیوں کے ساتھ بڑے ہی سچے جذبے کے ساتھ لڑتا؛ اور یوں دشمن کے مقاصد اپنے گھروں کے اندر بڑی اعلیٰ سطح پر پورے کراتا ہے! خدا اس بےبسی اور بےکسی سے ہماری نسلوں کو محفوظ رکھے)۔ مفلوک الحالی بھائی کو بھائی کا دشمن کر ہی دیتی ہے، پھر جبکہ ساتھ میں بھائی کو بھائی سے لڑانے کے کچھ اور (مذہبی، لسانی، علاقائی، عصبیتی) اسباب بھی تلاش اور مہیا کر لیے جاتے رہیں۔ خدانخواستہ، خدانخواستہ، بحرہند کے ٹھیکیدار ’سوا اَرَب کے نیوکلیئر بھارت‘ کے پڑوس میں درجنوں چھوٹےچھوٹے بےکس بےسہارا لینڈلاکڈ land-locked مسلم ممالک جو قدم قدم پر بھارت سے اپنا جائز حق لینے کےلیے بھی مغرب کی طرف دیکھیں! ایک مضبوط نیوکلیئر اسرائیل کے گرد درجنوں ’مڈل ایسٹ ممالک‘ جن میں سے کسی ایک کا سائز بھی کویت اور امارات سے بڑا نہ ہو! ایک نیوکلیئر فرانس کے دست نگر درجنوں شمال افریقی ممالک، جو صبح شام اُس کی بلندیِ اقبال کےلیے دعائیں کریں! ایک مضبوط حبشہ (اتھیوپیا) کے زیرسایہ درجنوں شرق افریقی ممالک، اِفلاس کے مارے اور اندرونی جنگوں کے کھائے ہوئے! علیٰ ھذا القیاس۔ عالم اسلام کو ’خام مال‘ اور ’مزدور‘ و ’مزارعے‘ رکھنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے جس کو لکھت پڑھت میں لا رکھنے کےلیے یو۔این کی کوئی نئی ’ترقی یافتہ‘ جُون سامنے لانے کے پروگرام بھی زیرغور ہیں!

اس بنا پر؛ ہم یہ بھی نہیں کہتےکہ استعماری لشکر عالم اسلام پر انیسویں صدی کےقبضوں جیسا کوئی قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہماری نظر میں، مسلم ملکوں کے اندر ان کی حالیہ فوجی کارروائیاں (اور زیادہ تر پراکسی جنگیں) صرف عالم اسلام کی ایک ’’تشکیلِ نو‘‘ a redesigning of the Muslim world کی خاطر ہیں۔ جس کے بعد ہر خطے میں کوئی مقامی ٹھیکیدار پیدا کر کے ]مثلاً جنوبی ایشیا میں بھارت، مشرق وسطیٰ میں اسرائیل (کسی حد تک شاید ایران بھی)، شمال افریقی ممالک پر فرانس اور شرق افریقی ممالک پر اتھیوپیا وغیرہ[، باقی ماندہ کنٹرول ’عالمی اداروں‘ کے ذریعے کیا جائے گا۔ لَا قَدَّرَ اللہ، اگر ان کا ہاتھ پڑ گیا۔ مگر بہت امید یہ ہے کہ ہمارا عالمی جہاد اور اس کے کچھ دوست اللہ کی توفیق سے اُن کا یہ منصوبہ سرے چڑھنے نہیں دیں گے۔ عالمِ استعمار کو اگر اس مقام پر ناکام کروا دیا جاتا ہے تو یہ ان شاء اللہ عالم اسلام کی حقیقی آزادی کے حوالے سے تاریخ کا ایک ٹرننگ پوائنٹ turning point ہو گا۔

کسی مضبوط اسلامی ملک کو پنپتا چھوڑنا استعمار کیلیے ناقابل برداشت کیوں ؟


پیچھے ہم بات کر آئے، سرد جنگ کے سرے لگنے کے بعد استعمار کو خواہش ہوئی ہے کہ عالم اسلام میں انیسویں صدی والا سیناریو پورا نہ سہی، ایک حد تک بحال کیا جائے۔ یعنی مسلم دنیا اپنے وسائل اور باشندوں سمیت پھر سے گورے کے قدموں میں ڈھیر ایک خام مال ہو۔ یہاں کوئی مقامی قوت ایسی مضبوط اور شہ زور نہ پائی جائے کہ یہاں کے باشندے اپنے وسائل اور اپنے مفادات کے معاملے میں آپ اپنی قسمت کے مالک ہوں اور وسائل کے معاملے میں گورا یہاں سے بےدخل و بےاختیار کر دیا جائے۔

ایک اور چیز البتہ گورے کو اس سے بھی بڑھ کر پریشان کرتی ہے…

آج نہ سہی کل، کل نہ سہی پرسوں، کسی اندرونی اصلاح کے نتیجے میں اسلامی قیادتوں کے زیراثر افراد کا اقتدار میں آنا یہاں خارج از امکان بہرحال نہیں ہے۔ (ترکی میں اسلامیہوائیں چل پڑنا آخر کس کے گمان میں تھا؛ جہاں اقتدار کی سطح پر بھی معاملہ اب ’باعثِ تشویش‘ ہی ہے۔ مصر کی صورتحال ’باعثِ تشویش‘ ہوتی ہوتی رہ گئی۔ اور کئی مثالیں آگے پیچھے اسی قبیل کی ’باعثِ تشویش‘ آسکتی تھیں اگر عرب بہار لہو رنگ نہ کر دی جاتی۔ عالمِ عرب کو تو اِسی خطرے کے پیش نظر ’جمہوریت بی‘ کی جھلک نصیب نہیں جب تک کہ کوئی لمبی چوڑی انجینئرنگ یہاں کی نہ کر دی جائے!)

مقصد یہ کہ ایک بنا بنایا مضبوط ملک اپنے وسائل اور اپنے فیصلوں پر مکمل کنٹرول رکھنے والا اور کسی دوسرے کو پاس نہ پھٹکنے دینے والا، ایسے کسی خطرے کےلیے چھوڑیں ہی کیوں جہاں کسی احمد سرہندی کے گہرے و دُوررَس عمل کے نتیجے میں اسی اکبر کی مسند پر دنیا ایک روز کسی عالمگیر کو جلوہ افروز دیکھے! نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ مسلمانوں کی کوئی ایسی مضبوط خودمختار (اپنے فیصلوں کی آپ مالک) اِکائی آخر ہو ہی کیوں؟

لہٰذا ایک غیراسلامی نظام کے ساتھ بھی کوئی مضبوط مسلم اکائی چھوڑنا دُوررَس طور پر خطرے کا سودا ہے! آج جب یہ مسلم ممالک بحرانوں میں گھِرے ہیں، ’فیصل‘ اور ’ضیاءالحق‘ ایسے ناگہانی خطرات تو پھر بھی یہاں سر اٹھا لیتے ہیں! (جنہیں ’راہ سے ہٹانا‘ بالآخر مجبوری ہو جاتی ہے)! بھلا کوئی ایسا دور جب ان ملکوں کے ہاں دُور دُور تک کوئی بحران بھی نہ ہو اور یہ اپنے فیصلے آپ کرنے کی پوزیشن میں بھی ہوں (بیرونی مداخلت والی اِس پوری صورتحال سے باہر ہوں؛ اور آپ اپنی کر کے کھا رہے ہوں) تو تب اگر یہاں کوئی فیصل یا کوئی ضیاءالحق اٹھ کھڑا ہوا تو کیسا کیسا ڈراؤنا سیناریو نہیں ہو سکتا! یہاں تو کچھ پکےپکے انتظامات کر کے جانا ہو گا اس بار! بیڑہ غرق ہو دو عالمی جنگوں اور ان کے بعد چلنے والی ایک طویل سرد جنگ کا جو ’انیسویں صدی‘ ہاتھ سے نکل گئی۔ اب یہ جو ایک موقع ہاتھ آیا ہے (سرد جنگ سے فراغت)، اس کو بھی ضائع کردیں تو گورے کو عقلمند کون کہے! پکے انتظامات بھائی صاحب! یہاں کوئی مسلم اکائی، خواہ فی الحال وہ کیسے ہی غیراسلامی نظام پر کیوں نہ کھڑی ہو، اور خواہ وہ اپنے نظام یا تہذیب کے معاملہ میں سن 92ء کے بوسنیا اور کوسووا کا نقشہ کیوں نہ پیش کر رہی ہو، ایک مضبوط مستحکم حالت میں چھوڑو ہی مت۔ یہ نہیں تو اِن کی نسلوں میں اس لاالٰہ الا اللہ کو سوچ سمجھ کر پڑھنے والے ضرور پیدا ہوں گے۔

حالیہ صلیبی مہم: مسلم اکائیوں کا چُورا کرنا

استعماری قوتوں کا مقصود دو پوائنٹوں میں آ جاتا ہے:

1. مسلم دنیا کے اندر جو بڑی بڑی اور مضبوط اکائیاں ہیں وہ کسی طرح ہلکی پھلکی کر دی جائیں تاکہ بیرون سے ان کی ’سرپرستی‘ مستقل بنیادوں پر جاری رہنا ممکن ہو۔

2. یہاں کے نہ صرف نظاموں کو بلکہ معاشروں ہی کو ارتداد کی راہ پر ڈال دیا جائے۔

(دوسری چیز ہماری آئندہ فصل میں ذکر ہو گی۔ یہاں پہلی کا کچھ بیان ہے)

انسانی وقائع اس پر شاہد ہیں، کوئی اکائی ایک بار توڑ دی جائے تو اس کی بحالی پھر جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش کے ساتھ آپ اکٹھے تھے سو تھے۔ لیکن اب اگر دونوں طرف بڑی ہی مخلص قیادتیں آ جائیں (فی الحال ایک مفروضہ) تو وہ بھی ان دو ’ٹکڑوں‘ کو ایک کر کے شاید ہی کبھی دکھا سکیں۔ یعنی ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا۔ پورا ’مشرقِ وسطیٰ‘ چند عشرے پہلے (عثمانی دور میں) ایک ملک تھا۔ جی ہاں پورا ’مشرقِ وسطیٰ‘ ایک ملک، جس پر ابھی چند عشرے ہی گزرے ہیں۔ لیکن اب یہ ایک درجن سے زائد ملک ہیں اور یوں گویا ہمیشہ سے الگ الگ ملک! ان میں سے ہر کوئی ’الگ تھلگ قوم‘ جو دنیا جہان کی قوموں سے جوتے کھا سکتی ہے مگر اپنی ’الگ تھلگ‘ حیثیت پر آنچ آنے نہیں دینے والی! یعنی گورے نے (اپنے دورِ اول میں) یہاں قبضہ کرنے اور یہاں کی قوموں کو غلام بنانے پر اکتفاء نہیں کیا۔ بلکہ وہ ایک ایسا دُوررَس کام بھی ’’مشرقِ وسطیٰ‘‘ میں عین اُسی ہلے کے اندر کر گیا ہےکہ کبھی یہ آزاد بھی ہو لیں تو آپس کی یہ دراڑیں ختم نہ کر سکیں۔ بلکہ اِن دراڑوں کو اپنا وجود اور اپنی زندگی جان کر ان کےلیے لڑیں۔

غرض ایک اکائی جب ایک بار ٹوٹی تو پھر مشکل سے جڑنے کا نام لیتی ہے۔ آپ دیکھ لیں گے کبھی ان ملکوں میں شریعت کی حکمرانی واپس آئی تو بھی ان فاصلوں کو ختم کرانا آسان کام نہ ہوگا۔ (جن لوگوں کا خیال ہے ادھر ’خلافت‘ کا بٹن دبایا جائے گا ادھر عالم اسلام کے سب ٹکڑے برق کی تیزی کے ساتھ آن جمع ہوں گے، وہ کسی خوش فہموں کی جنت میں رہتے ہیں، ہمارے نوجوانوں کو لازماً ایسی خیالاتی دنیا سے نکلنا ہو گا)۔

آپ کو یاد ہے بنو عباس اور بنو امیہ کے مابین اندلس کا بقیہ عالم اسلام سے کٹنا ہمارے اسلامی دور میں ہی ہوا تھا، جسے پہلی پوزیشن پر واپس لانا پھر مسلسل دوبھر رہا۔ اس کے علاوہ بھی الگ الگ امارتوں کی جہاں کوئی صورت بنی انہیں پہلے والی پوزیشن پر واپس لانا کبھی آسان نہیں رہا، باوجود اس کے کہ اُس دور میں انکل سام عالم اسلام میں دندناتے بھی کہیں نہیں پھر رہے تھے۔ پھر جبکہ یہ الگ الگ امارتیں محض کچھ انتظامی اکائیاں تھیں نہ کہ دورِ حاضر کی طرح باقاعدہ ’قومیتیں‘۔ پھر بھی ایک بار ٹوٹ چکی چیز کو جوڑنا اس قدر مشکل تھا۔ جوڑنے کے کچھ واقعات ہماری تاریخ میں ہوئے ضرور؛ مگر تلوار کے اچھےخاصے استعمال کے بعد۔ یعنی ایک ایسا مشکل آپشن کہ مسلمانوں کو ایک ممکنہ بڑی وحدت میں نہ لے کر آئیں تو مار کھائیں اور اگر وحدت میں لے کر آئیں تو مسلمانوں کے مابین خونریزی کے ایک ناگوارترین عمل اور عصبیتوں کے ایک دریا سے گزر کر؛ اور کسی کسی وقت تو معاملہ اسی خونریزی اور باہمی دشمنی میں دب کر رہ جائے۔ یہ وجہ ہے کہ مسلمانوں کا ٹکڑے ہونا سب سے بڑی نحوست جانا گیا ہے، کیونکہ یہ اپنے اندر صدیوں کے مضمرات رکھتا ہے؛ اس (شیرازہ بکھرنے) سے بچنے کےلیے بڑی سے بڑی قیمت دینا وارے کا جانا گیا ہے۔

یہاں چیزیں ٹوٹ آسانی سے جاتی ہیں، لیکن جڑنے کا نام پھر نہیں لیتیں خواہ کیسے ہی سورما اس کےلیے زور لگا لیں، الا ما شاء اللہ۔ یہ ایک جانی مانی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی کوئی جغرافیائی اکائی چاہے ایک غیرشرعی نظام کے تحت بھی ہو، آج اگر لخت لخت کرائی جاتی ہے تو اس میں مسلمانوں کا ڈھیروں نقصان ہے۔ لہٰذا ایک غیرشرعی نظام ہے تو بھی ہم یہ قبول نہیں کر سکتے کہ وہ جیسے چاہیں ہمارے ٹکڑے کر جائیں کہ کیا فرق پڑتا ہے ایک غیرشرعی نظام ہی تو ہے! (وہی سوچ جس کا ہم نے اپنے اِس مضمون کے گزشتہ حصے میں جائزہ لیا ہے)۔ بھائی آپ کا جو حصہ ایک بار ریزہ ریزہ ہو گیا، وہاں کبھی دیندار لوگ اقتدار میں آجائیں تو بھی ان کےلیے اس چُورے کو واپس وحدت میں لانا کوئی آسان کام نہ ہو گا۔ مع کچھ دیگر مفاسد۔ یہ شیرازہ جتنا منتشر ہو گا اتنا آپ کےلیے مسئلہ ہو گا۔ اور دشمن کا کام آپ کے خلاف اُس وقت بھی آسان کیے رکھے گا (اور اب تو رکھے گاہی؛ بلکہ وہاں پہنچنے ہی آپ کو کیوں دے گا)۔ لہٰذا اپنے وجود پر دشمن کا اِس قسم کا کوئی وار ہم تو (اپنا بس چلنے کی حد تک) آج بھی نہیں ہونے دیں گے۔

ہمارا دشمن اس حقیقت کو خوب جانتا ہے اور عالم اسلام کی ایک نئی انجینئرنگ کرنے کے مشن پر کسی قدر کامیابی سے گامزن ہے:

• عراق جو مشرقِ وسطیٰ کی سب سے بڑی فوجی قوت تھا، نیز عرب وحدت کا روحِ رواں ہونے کے باعث کسی وقت ایک مجوزہ ’عرب یونین‘ کا جرمنی کہلاتا تھا، بڑی ہی کامیابی کے ساتھ تین ٹکڑے کیا جا چکا، جو چار تک پہنچ سکتے ہیں۔ نیز وہ عراق اب نرا تین یا چار ٹکڑے نہیں۔ بلکہ ایسا ’تین چار ٹکڑے‘ ہے جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں اور ہزار سال تک آپس میں لڑ سکتے ہیں، سوائے یہ کہ ان میں صلح صفائی رکھنے والا کوئی ’عالمی‘ سیانا امنِ عالم کا ٹھیکیدار ان ’کھلنڈروں‘ کے سر پر دستِ شفقت رکھنے کو موجود اور ان پر مسلسل مہربان رہنے کو تیار ہو!

• لیبیا عملاً کئی ٹکڑے ہو چکا؛ جوکہ متحارب بھی ہیں۔

• سوڈان اس سے پہلے دولخت کیا جا چکا، اور مزید تقسیم کےلیے تیزی کے ساتھ مہرے ہلائے جا رہے ہیں۔

• یمن کے ٹکڑے تقریباً ہو چکے، آگے ابھی کچھ معلوم نہیں کیا بنتا ہے، اور معاملات کا سلجھنا کچھ ایسا آسان نہیں ہے۔ خصوصاً جبکہ سعودیہ کا اپنا ہاتھ چکی میں آ چکا ہوا ہے۔

• خود سعودیہ کےلیے ایک بڑا ’سرجری پلان‘ زیرعمل ہے، جس پر سعودیہ کی پریشانی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ سعودیہ اس وقت عملاً کئی جہت سے حالتِ جنگ میں ہے۔ ایک مضبوط ترکی اور ایک مضبوط پاکستان حالیہ سیناریو میں نہ ہوتے(نیز شاہ سلمان کا تُرک-سعودی تعلقات کے بگاڑ کو دنوں کے اندر کامیابی کے ساتھ دور کر لینا، بلکہ داخلی و خارجی سطح پر تعلقات و معاملات کو چشم زدن میں ایک نئی ترتیب دے لینا) تو دیکھتے امریکہ اس بار کہاں تک کام آتا ہے۔ سعودیہ کا دھڑن تختہ خدانخواستہ اب تک ہوا ہوتا۔ خطرہ اب بھی گیا کہیں نہیں ہے، اور اللہ سے اچھی ہی امید رکھنی چاہئے۔

• مصر کو عدم استحکام میں جھونکنے کے زوردار عوامل اندرونی و بیرونی سطح پر اس کے چاروں طرف منڈلا رہے ہیں، لیکن وہاں پر داخلی جنگجوئی militancy کے جن تجربات سے (اَسّی اور نوّے کی دہائی میں) وہاں کے دینی حلقوں کو خوب کان ہو چکے، اغلباً وہی اس میں مانع ہے کہ ایسی کوئی مہم جوئی وہاں ازسرنو شروع ہو اور پھر ایک غیراختتام پزیر خانہ جنگی کی ابتداء بن جائے، گو ’کوششیں‘ اس کےلیے ہر طرف سے جاری ہیں!

• شام ایک خون آشام صورتحال میں سرتا سر گرفتار ہے، جس سے نکلنے کی کوئی صورت سامنے نہیں آ رہی، بلکہ اور سے اور الجھتی جا رہی ہے۔ (کچھ تسلی شام کے حوالے سے ابھی ہے تو وہ اردگان ایسی قیادت کا پڑوس میں موجود ہونا ہے، جو شروع سے وہاں کے مظلوم اور بےبس عوام نیز ان کی مددگار مقامی قوتوں کے ساتھ تعاون کی کچھ مناسب صورتیں رکھتی ہے۔ بلکہ اردگان ایسی قیادت کے خطہ میں موجود ہونے کے باعث یہ تک امکان ہماری نظر میں موجود ہے (نیز دعاء ہے) کہ شام کا معاملہ اسلام کے حق میں بٹھانے کی کوئی ویسی یا اُس سے بھی بہتر صورت اللہ کی توفیق سے سامنے آ جائےجیسی افغانستان کا مسئلہ پاکستان کے تعاون سے اسلام کے حق میں بٹھانے کے اندر کامیابی پائی گئی تھی)۔

• مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے ’رہائی‘ تو بڑی دیر پہلے دلوائی جاچکی،جس کےلیے ’بنگلہ دیش‘ آج تک کسی کا زیرِبار ہے! انڈونیشیا سے ایسٹ تیمور کو ’آزادی‘ بھی اِس ’نائن الیون‘ والے ہلے سے پہلے ہی دلائی جا چکی۔ مگر اب تو عالم اسلام کا ہر بڑا رقبہ یا زیادہ آبادی یا مضبوط فوج رکھنے والا ملک سیدھاسیدھا نشانے پر ہے۔ اس کے ایک ایک رخنے پر اہلِ کفر کی نظر ہے۔ یہاں ’علیحدگی‘ کی نوبت لے آ سکنے والے کمزور سے کمزور عوامل اُن سے غیرمعمولی توجہ پاتے ہیں۔ مذہبی یا سیاسی یا لسانی تفرقہ پیدا کرانے والے سب عناصر کو اُن کی پوری آشیرباد ملتی ہے۔ قومی یکجہتی کو ختم کرنے اور اجتماعی عزائم کو شل کرنے والی سب بغض کی ماری زبانیں اور اقلام اُن کے ’پےرول‘ پر رہتے ہیں۔ اور یہ سب باتیں اب کوئی راز نہیں۔ غرض ایسے کسی بھی مسلم ملک کو توڑنے کی امکانی صلاحیت رکھنے والے عوامل خاصی مکاری اور حیلہ جوئی کے ساتھ پیدا کرائے جارہے ہیں۔ اور حسب ضرورت دھونس سے بھی کام لیا جاتا ہے۔

• پاکستان اُن کا ایک بڑا ہدف ہے، جیسا کہ پیچھے گزر چکا۔ ہمارے حلقوں میں بیٹھنے والے اصحاب جانتے ہیں، ہم اپنی نجی مجالس میں بارہا کہہ چکے، عراق ایسی مضبوط فوجی طاقت کا چند سالوں میں جو حشر کر دیا گیا، عالمی قوتوں کے تیور پاکستان کا اس سے برا حشر کرنے کے تھے؛ پاکستان بلاشبہ عراق سے زیادہ اُن کی نظر میں کھٹکتا رہا ہے۔ امکانی طور پر potentially ہمارے اِس ملک میں جو جو متحارب عناصر ہو سکتے تھے انسب کو بھڑوانے، اور یہاں آگ بھڑکانے والے جو جو عوامل ہو سکتے تھے ان سب کو ہوا دینے کی پوری کوشش کر لی گئی۔ ہمارے پڑوس کی کچھ کینہ پرور انٹیلی جنسیں، نیز کچھ عالمی جاسوسی ادارے اور ان کی بغل بچہ تخریب کار تنظیمیں (مانند بلیک واٹر وغیرہ) پاکستان کو داخلی طور پر عدم استحکام کا شکار کرنے اور یہاں کے لوگوں سے ایک دوسرے کا گلا کٹوانے کے بےشمار جتن کر چکیں۔ بہت بہت ہوم ورک کیا گیا۔ لیکن ایک تو اللہ کی حفاظت۔ دوسرا یہاں پر ایک نہایت چوکس اور پیش بند پیشہ ورانہ دفاعی بندوبست کا موجود ہونا۔ کہ نہ صرف داخلی طور پر دشمن کا کہیں ہاتھ نہیں پڑنے دیا گیا۔ بلکہ افغانستان میں دشمن منہ کی کھا رہا ہے۔ بلکہ کشمیر میں مسلمان عنقریب ایک نئے سرے سے سر اٹھانے والا ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان کا مسلمان ایک نئی جرأت کے ساتھ کھڑا ہونے کے امکانات لا چکا ہے، بعد اس کے کہ اِس پورے خطے میں مسلم امیدوں پر تقریباً پانی پھرتا دکھائی دے رہا تھا۔ بلکہ بعید نہیں بھارت کا سکھ ایک بار پھر اپنے حق کےلیے اٹھ کھڑا ہو۔ البتہ خطرہ ظاہر ہے ابھی پاکستان سے ٹلا نہیں اور کچھ نہیں کہا جا سکتا، دشمن ابھی کیا کیا حربے آزمانے والا ہے۔