یہ بہرحال انصاف نہیں کہ یہاں کے سرکاری کارندوں کو مسلم مفاد اور مسلم خون کی حرمت سے متعلق خبردار ہی نہ کیا جائے..مستقبل کا علم سوائے اللہ کے کسی کو نہیں۔ ہم ہر مسلم خطے کی خیر وعافیت کیلئے صبح شام اللہ سے دعا کرتے ہیں اور آئندہ دنوں کیلئے بے حد پر امید بھی ہیں، مگر ”معرکۂ اسلام و کفر“ ایک عالمی سطح پر آج جس فیصلہ کن نوبت کو پہنچا چاہتا ہے اس کے پیش نظر، ’ناگہانی حالات‘ کی کئی ایک ممکنہ صورتوں سے غافل رہنا بھی ہرگز درست نہ ہوگا، جن کو پیدا کردینے کیلئے دشمن اس وقت صبح شام کوشاں ہے۔
البتہ مثالیں دیکھنی ہوں تو یہی عراق ہے جہاں ریاستی انتظامیہ ایک عرصے تک دین کیلئے کام کرنے والے عناصر کی سرکوبی کو اپنے فرائض منصبی میں سرفہرست جان کر رہی۔ دین کی غیرت رکھنے والوں پر ایک طویل مدت عراق کے اندر عرصۂ حیات تنگ رہا۔ مگر آج یہی عراق ہے جہاں سابقہ ’سرکاری فوج‘ اور ”دین کے جانباز“ ایک ساتھ بندوق اٹھائے اپنے وجود، اپنی امت اور اپنی نسلوں کا دفاع کررہے ہیں اور ’دونوں‘ اس صلیبی حملے کے مدمقابل ایک ہی مورچے میں کھڑے ہیں، اور سوائے ”جہاد“ کے کسی کو کوئی لفظ یاد نہیں۔ ’بعث‘ اور ’بعث کے مفادات‘ اور ’بعث کے عقائد‘ آج سب کو بھول گئے ہیں۔ پناہ نظر آرہی ہے تو ”اسلام“ اور ”جنت“ اور ”شہادت“ ایسے شعائر میں ہی!
اللہ سے خیر اور عافیت ہی کا سوال ہے مگر کون جانے کل کے حالات کس کس کو ایک مورچے میں اکٹھا کردینے والے ہیں! اور یہ بھی کیا ضروری ہے ایک ’مشترکہ مورچہ‘ کیلئے برے حالات ہی کا مفروضہ قائم کیا جائے، یہاں کی قومی قیادتوں کیلئے راہِ ہدایت کے امکان کو بعید از قیاس کیوں جانا جائے!؟
اللہ کی ایک عجیب قدرت دیکھنے میں آرہی ہے کہ عالم اسلام کے بیشتر خطوں کے ’قومی مفادات‘ بھی بہت بڑی حد تک اس وقت ”اسلامی مفادات“ ہی سے وابستہ ہوچکے ہیں، یوں بہت سے مقامی طبقوں کیلئے بھی زندگی کی واحد ضمانت اب وہی نوجوان رہ گئے ہیں جو اسلام کیلئے جینا اور اسلام کیلئے مرنا آج اپنی زندگی کا باعزت ترین مصرف جانتے ہیں! کون نہیں جانتا صلیبی قوتیں یہاں سب کچھ بلڈوز کردینے کیلئے آئی ہیں؟ یہ تو ان کو ابھی موقعہ نہیں ملا، اور اس کا سہرا بھی حقیقت دیکھیں تو ان نوجوانوں کو ہی جاتا ہے، ورنہ کون نہیں جانتا بغضِ اسلام سے بھری ہوئی یہ قوتیں یہاں صرف ’جہادیوں‘ کو مارنے نہیں آئیں، یہ اس ’اسلامی خطرے‘ کو ختم کرنے آئی ہیں جس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ’کہاں‘ سے پھوٹ آئے! یہ صرف اپنے ’حال‘ کو محفوظ بنانے نہیں آئیں، بلکہ در اصل تو یہ اپنے اس ’مستقبل‘ کو محفوظ کرنے آئی ہیں جس کیلئے عالم اسلام کا ہر وہ فرد ’خطرہ‘ ہے جو خود چاہے کتنا ہی بے دین ہو مگر اس کی پشت سے ان ’نسلوں‘ کے پیدا ہوجانے کا امکان ہے جو شرک اور ظلم کی اس عالمی سلطنت کا خاتمہ کرکے رہیں گی۔
وہ خوب جانتے ہیں امتِ اسلام کا کوئی شخص کیسا ہی دین گریز اور ’سیکولر‘ کیوں نہ ہو، مگر اس بات کی کیا ضمانت کہ ایک بدترین نام نہاد سیکولر مسلمان کے گھر میں ایک ایسا نوجوان پیدا نہیں ہوگا جس کو چین صرف قرآن سننے میں ملتا ہو اور اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک صرف اتباعِ سنتِ رسول اللہ میں ہو!؟پس یہاں کا تو ہر فرد اپنی پشت میں ایک ’امکانی خطرہ‘ ‘potential threat’ لئے پھرتا ہے، خواہ وہ دشمن کیلئے اس وقت کتنا ہی مددگار کیوں نہ ثابت ہورہا ہو اور فی الوقت دشمن کی کتنی ہی بڑی ضرورت بھی کیوں نہ ہو !
پشتوں کی بات جانے دیجئے، خود انہی ’سیکولروں‘ کا کیا بھروسہ کس دن توبہ کی فکر دامنگیر ہو جائے!؟ کس دن عذابِ قبر کا خوف لاحق ہوجائے اور کسی کو دفن ہوتا دیکھ کر یا کسی ’یادش بخیر‘ کی زمین میں دھنسی ہوئی قبر پر کوئی گرد آلود کتبہ لگا دیکھ کر ’دنیا کی حقیقت‘ ایک دم سامنے آجائے، جس کو بھلا دینے کیلئے قرآن پڑھنے پڑھانے والے معاشرے میں آدمی کواچھی خاصی ’تگ و دو‘ اور اپنے ضمیر کے ساتھ روز ایک جنگ کرنا پڑتی ہے، جوکہ امتِ اسلام میں پائے جانے والے ہر شخص پر در اصل اللہ کی ایک خاص رحمت ہے؟!
روز کتنے واقعات ایسے ہورہے ہیں کہ بے دینی میں امام مانا جانے والا ایک شخص یک لخت دین کی طرف پھر آتا ہے اور بقیہ زندگی تقویٰ اور خوفِ خدا کی زندہ مثال بن کر رہتا ہے؟ اس ’تبدیلیِ حالت‘ سے آج نہ تو کرکٹ اور ہاکی کے سٹار مستثنیٰ ہیں اور نہ شوبزنس کے مرد و زن، اور نہ بڑے بڑے بے دین بیوروکریٹوں کے بچے اور نہ خود بڑے بڑے سرکاری افسر اور فوجی جرنیل!.آئے روز خبر چھپتی ہے کہ ’مسلم ورلڈ‘ کے کسی نہ کسی ملک میں کوئی نیوز کاسٹر یا کسی ٹی وی پروگرام کی ہوسٹ ’سکارف‘ پر اصرار کے باعث ملازمت سے سبکدوش کردی گئی ہے!کیا عالم اسلام کا کوئی برے سے برا آدمی بھی اپنی ’گارنٹی‘ دے سکتا ہے کہ وہ ہرگز اور کسی قیمت پر خدا کی جانب لوٹ آنے کا نہیں!؟ کیا معلوم کس دن کس کے اندر کا مسلمان جاگ جائے اور ’معاملہ‘ سر تا پیر الٹ جائے!
اور آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ ایسے واقعات، صرف ہمارے ملک میں نہیں پورے عالم اسلام میں، اس کثرت اور تکرار کے ساتھ ان آخری عشروں میں بے حد بڑھ گئے ہیں اور ان میں اب روز بروز اضافہ ہی ہورہا ہے؟ یہاں تک کہ ہمارے معاشروں میں آج جو کوئی بھی اخلاق باختگی کا بدترین سمبل بنا ہوا ہے، اس کے ’کل‘ کی بابت کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا اور”خاتمہ بالخیر“ کے حوالے سے ’سب کچھ‘ ممکن ہے، بلکہ تو صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ ایسی کسی ’خبر‘ پر لوگوں کو تعجب بھی بس اب ’ایک حد تک‘ ہی ہوتا ہے!
اور کیا یہ تک دیکھنے میں نہیں آیا کہ ایک شخص جو اپنی عمر کے کثیر سال عالم اسلام کے ایک بڑے خطے میں طاغوت بنا رہا تھا، موت کے وقت قرآن کو سینے سے لگا کر چلتا ہے اور اپنے خاتمۂ خیر کو یقینی بناتے ہوئے، موت سے آنکھیں چار کرتے وقت، صرف اور صرف أشہد أن لا الہ الا اللہ کا ورد کرتا ہے؟!
مغرب کو جانے والے ہمارے بچے وہاں سے بے دینی سیکھ کر آنے کی بجائے اسلام کے داعی بن کر لوٹتے ہیں!
کیا یہ سب زندہ شواہد نہیں کہ زمانہ غالباً اس امت کے حق میں تیزی کے ساتھ گردش کا حکم پا چکا ہے، اور یہ کہ جس عالمی ساہوکاری نظام کا اس ’گردشِ ایام‘ میں نقصان ہوتا صاف نظر آرہا ہے اس کے اندیشہ ہائے دور دراز یہاں کے چند صد یا چند ہزار ’جہادیوں‘ کے گرد ہی نہیں گھومتے بلکہ اس کے خدشے اس پورے سیناریو سے متعلق ہیں ، جس کی بابت امکان ہے، کہ اس کا ’ہر پتہ‘ اس ’آگ‘ کو ہوا دینے لگے جو ظلم کے محلات کو خاکستر کردینے والی ہے! آپ یہ توقع کرنے لگے کہ وہ یہاں کے کچھ جنگجوؤں کی ’تادیب‘ کرکے واپس اپنے ملک لوٹ جائیں گے اور غارت گری کا یہ سارے کا سارا سلسلہ وہیں تھم جائے گا؟؟؟!
ظلم اور فساد کا ایک پانچ سو سالہ عالمی نظام جو اس وقت بڑھاپے کے آخری مراحل سے گزر رہا ہے، اور جوکہ موت کے بیشمار اسباب آپ ہی اپنے اندر اٹھائے پھرتا ہے، آج ایسا کوئی امکان باقی نہیں رہنے دینا چاہتا جو اس کی باقی ماندہ زندگی کو مختصر کردینے کا یقینی سبب بننے والا ہو، جبکہ اس ’سبب‘ کی بابت ان کے سب ’باخبر‘ مدت سے ’عالم اسلام‘ ہی کی طرف بار بار اشارہ کئے جارہے ہیں! یہ ’اشارہ‘ اپنے مضمرات میں اتنا واضح ہے کہ آج کے مٹھی بھر ’جہادی‘ ہی صرف اس کی زد میں نہیں آتے بلکہ عالم اسلام کا وہ پورا سیناریو ہے جس کے وجود میں آنے کا امکان ختم کردینے کیلئے یہاں کا ’بہت کچھ ‘ یا شاید ’سب کچھ‘ ختم کردینا ان کی نظر میں ضروری ہے۔ زیادہ سے زیادہ وہ کسی بات کے روادار ہوسکتے ہیں تو یہ کہ ’ترجیحات‘ رکھیں، یعنی ہم میں سے کسی کی باری ان کے نزدیک پہلے آنا ضروری ہو اور کسی کی ذرا ٹھہر کر!
اس لحاظ سے امکانی طور پر potentially یہاں کے بہت سے ’غیر دینی‘ طبقے بھی آج عین اسی خندق میں کھڑے ہیں جس میں کہ اس وقت کے ’دینی طبقے‘، چاہے کسی کو اس کا شعور آج ہو جائے یا کوئی کل اس کا تجربہ یا مشاہدہ کرنا چاہے!
محض مثال کیلئے.. اس صلیبی کینہ کو، ایک ڈیڑھ عشرہ پیشتر خطۂ بلقان میں، یعنی بوسنیا اور کوسووا میں، دلوں کے تہہ خانے سے باہر آنے اور کھل کھیل کر اپنی دیرینہ حسرتیں پوری کرنے کا ایک ’بے تکلف‘ موقعہ ملا تھا، یہ کوئی بہت پرانے زمانے کا واقعہ نہیں بلکہ یہی ’ٹی وی اور اخبارات‘ کا دور ہے، ذرا جا کر پوچھ لیجئے کیا وہاں صرف ’ڈھاڑیوں والے‘ ہی قتلِ عام کی نذر ہوئے تھے اور صرف ’سکارف والیاں‘ ہی نشانۂ ستم بنائی گئی تھیں یا پھر مسلم آباؤ اجداد کے سبھی نسبت یافتگان جو جو ’قابو‘ آسکے آگ اور خون کے اس کھیل کی نذر کردیئے گئے؟ اور ان سب کے بلا تفریق و امتیاز قتل ہونے کا حوالہ صرف اور صرف ’وہ‘ چیز تھی جس کا تعلق سراسر اُنکے ’حال‘ سے نہیں بلکہ یا تو ان کے ’مسلم ماضی‘ سے ہے اور یا پھر ’مسلم مستقبل‘ سے؟
بہت کم لوگ تاریخ کے اس دور رس ترین جنگی سلسلہ a warfare of the most far-reaching effect کی حقیقت سے واقف ہیں اور اسی وجہ سے یہ اس کو بے حد سطحی طور پر لے رہے ہیں، یوں یہ عالم اسلام کے کچھ مٹھی بھر نوجوانوں کے خاتمے کی صورت میں اس جنگ کا ایک عنقریب اختتام دیکھ رہے ہیں! حقیقت یہ ہے کہ آنے والے گلوبلائزیشن کے دور میں داخل ہونے کے اس منفرد ترین موقعہ پر، دنیا کی دو ملتوں کی یہ ایک بے حد زوردار ٹکر ہے، جس کے پیچھے، دونوں طرف، چودہ سو سال کا مومنٹم ہے۔ یہ دو ملتیں تعداد میں دنیا کا نصف بنتی ہیں مگر اہمیت اور تاثیر میں قریب قریب یہی دنیا ہیں۔ابھی اکیسویں صدی کی ’وسائل پر قبضے کی خوفناک ترین دوڑ‘ کا فلسفہ اپنی جگہ پڑا ہے، جوکہ کوئی مبالغہ نہیں۔ پھر، دنیا کے سب سے بڑے ظالم کیلئے یہ زندگی اور موت کی ایک کشمکش ہے، جس میں کسی کا کوئی لحاظ جائز نہیں رہتا۔ ایسے بھاری بھر کم مومنٹم کی ٹکر تو دنیا میں شاید ہی کبھی ہوئی ہو۔ اس میں ’بیچ‘ کی خلقت لازماً ماری جائے گی، اور بدترین موت وہ ہے جو یقینی ہو مگر انسان کی اپنی اختیار کردہ نہ ہو بلکہ نری بے بسی کی موت ہو اور کوئی بھی اعلیٰ مقصد اس کا عنوان نہ بن سکتا ہو…. اور جس پر آدمی بعد از موت نہ تو کسی دنیوی اعزاز کا مستحق ہو اور نہ اخروی ثواب کا…. یعنی نری موت!!!
پس یہاں کے سب قوم پرست اور دین گریز، خاطر جمع رکھیں۔ یہ جنگ ’فیصلہ‘ ہوئے بغیر ختم ہونے کی نہیں۔اطمینان رکھیں ’آج‘ کے دینی طبقے اس جنگ کا نقطۂ اختتام نہیں! یہ کچھ لوگوں کو ’مروا دینے‘ یا ’پکڑوا دینے‘ پر رک جانے والی نہیں! یہ تو طاقت کے نشے میں چور ایک بدمست باطل کا حق کے امکانی قیام کے خلاف ایسا زور کا تصادم ہے جو شاید صدیوں سے نہیں دیکھا گیا اور جس میں ’پوزیشن‘ لئے بغیر کسی کیلئے کوئی چارہ ہی نہیں، اور ’غیر جانبداری‘ جس میں کوئی آپشن ہی نہیں!
بے شک آپ کا آخرت پر ایمان نہ ہو اور اسلام سے کوئی دلچسپی نہ ہو، آپ کسی نہ کسی نسبت سے، خود نہیں تو اپنے ان آباؤ اجداد کے تعلق سے جنہوں نے کئی بر اعظموں کو چیر کر آج کے اس ’عالم اسلام‘ کو ایک جیتے جاگتے لازوال واقعہ کی شکل دے ڈالی ہے، اور اپنی ان آئندہ پشتوں کے تعلق سے جن کی بابت آپ لاکھ چاہیں مغرب کو مطلوبہ ’یقین دہانی‘ کرا ہی نہیں سکتے.. اور یوں کسی نہ کسی نسبت سے، حتیٰ کہ نہ چاہتے ہوئے بھی، آپ اس جنگ سے بہر حال متعلق ہوجاتے ہیں۔ رہا اس جنگ پر کوئی تلافیِ نقصان یا کوئی اجر و ثواب، تو اس کا انحصار آپ کے اخلاصِ نیت پر ہے اور درستیِ اعتقاد پر، جس کو کوئی آپ پر زبردستی نہیں ٹھونس سکتا۔ پس جو چیز آپ پر زبر دستی نہیں ٹھونسی جاسکتی وہ اس جنگ میں دنیا و آخرت کی سرخروئی ہے، جوکہ آپ کا اپنا ہی فیصلہ ہونا چاہیئے۔ رہی خود یہ جنگ تو وہ بہر حال آپ پرٹھونس دی گئی ہے، جس کے پیچھے زمان اور مکان کی وہ سب جہتیں ہیں جن کو اپنے ’ماضی‘ سے مٹا دینا آپ کیلئے ممکن ہے اور نہ اپنی امت کے اس ’مستقبل‘ سے جس کی صورت دھیرے دھیرے اب نکھرتی آرہی ہے!
حقیقت تو یہ ہے کہ بے حد طاقت رکھنے کے باوجود، اس دنیا کو آپ چلا رہے ہیں اور نہ ’وہ‘۔ اس کو جو ہستی چلا رہی ہے وہ کوئی اور ہے، اور آپ اور ’وہ‘، سب اس کے چلائے ہوئے یہاں چلے جا رہے ہیں اور ایک ایسی سمت کی جانب بڑھ رہے ہیں جدھر کو جانا آپ کا فیصلہ ہے اور نہ ’ان‘ کی منشا! ہر کسی کے آپشن یہاں بے حد محدود ہیں لہٰذا ’نتائج‘ پیشگی اس قدر واضح ہیں کہ ظن وتخمین کی کچھ بہت ضرورت نہیں۔ زیادہ سے زیادہ کوئی چیز اوجھل ہے تو وہ وقت کا فیکٹر ہے کہ جس انجام کی جانب آپ کے اور ’ان‘ کے نہ چاہنے کے باوجود یہ سب صورتحال بڑھی چلی جا رہی ہے وہ جلد آنے والا ہے یا اس میں ابھی کچھ موڑ آنے والے ہیں۔
پس وہ بات جو بے حد واضح رہنی چاہیے، یہ کہ: آج جن ناتواں بازوؤں کو اس ظلم کے خلاف اٹھنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے، عالم اسلام کے اندر پائے جانے والے سب طبقوں کی بقا آج انہی ہاتھوں کی بقا میں مضمر ہے۔ کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ ان ہاتھوں کو مضبوط کرے تو بھی ان کو اپنا محسن ضرور جانے۔ دشمن آج اگر یہ موقعہ پاتا ہے کہ یہ ہاتھ توڑ دیئے جائیں تو یہ یہاں پائے جانے والے ہر طبقے کی موت ہے۔
البتہ جو بات اس سے بھی زیادہ تشویش ناک ہوسکتی ہے وہ یہ کہ یہاں کے مقامی طبقے آپ ہی ان ہاتھوں کو توڑنے میں دشمن کے ساتھ تعاون کریں اور یوں آپ اپنی موت کا انتظام کرکے آئیں۔ کیا کوئی شخص آپ ہی اپنی نسلوں کا دشمن بھی ہوسکتا ہے؟ اور کیا ایسا کوئی شخص خود اپنے بچوں کی نظر تک میں معتبر ہوسکتا ہے؟
آخر میں تو یہاں ہر شخص کے حصے میں ایک قبر ہی آنے والی ہے۔ صلاح الدین بھی ایک قبر ہی میں دفن ہے جو آج تک اس امت کی ہر نسل سے دعائیں اور تسلیمات و تحسینات لیتا آیا ہے اور جس کے ذکر پر یہاں کا ہر شخص اپنے آپ کو اس کا زیر بار اور احسان مند محسوس کرتا ہے…. اور ان شکم پروروں کو بھی بالآخر اس دنیا سے صرف ایک قبر ہی ملی جنہوں نے منہ کی رال کے عوض اپنی ملت اور امت اور نسلوں تک آنے والی اپنی بہوؤں بیٹیوں کی عزت و آبرو کو مول میں دے ڈالا تھا اور یہ ہماری تاریخ کے وہ ناسور ٹھہرے کہ تاریخ کا کوئی دور سوائے آہوں اور لعنتوں کے ان کو کسی چیز کا مستحق نہیں جانتا اور ان ماؤں کو آج بھی روتا ہے جو اپنی امت کی ذلت کیلئے ایسے نپوتوں کو جنم دے بیٹھیں۔ ابھی یہ وہ کچھ ہے جس کا دینا اس دنیا کے بس میں ہے۔ رہ گیا وہ کچھ جس کا دینا رب العالمین کا اختیار ہے، اس کا تو سوچ میں آنا بھی انسان کو یا تو مبہوت کردیتا ہے اور یا پھر رونگٹے کھڑے کردینے کیلئے کافی ہے۔
کیا کوئی ایسا بھی شخص ہے جس کو بالآخر دنیا یہاں ’دو گز زمیں‘ سے زیادہ کوئی ایک چیز بھی دے دینے کی روادار ہوئی ہو؟ یہی ’دو گز زمیں‘ہے جس پر پھر تا قیامت رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور یا پھر ابدی لعنتیں برستی ہیں۔ فیصلہ البتہ آپ خود کرتے ہیں، اور کیا بعید کرچکے ہوں!
٭٭٭٭٭٭٭
گو ہم یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ ایک مسلمان کو ناحق قتل کردینے کی اخروی سنگینی یہاں پائے جانے والے سب سرکاری و غیر سرکاری طبقوں پر واضح ہوجائے۔ خدا کے سامنے روزِ آخرت کھڑے ہو کر خونِ مسلم کی بابت کوئی کیا جواب دے گا، یہ ہر شخص کے اپنے سوچنے کی بات ہے ، کسی کا افسر روزِ قیامت اس کو چھڑانے کیلئے آئے گا اور نہ کسی کا حاکمِ بالا اس کی جگہ خدا کا عذاب سہنے کو آئے گا۔
سب سے کمزور اور لاغر وہاں وہ ہوگا جو آج اللہ کے ماسوا سہاروں پر بھروسا کرتے ہوئے، اور ’اُس‘ کے غیروں کے ’احکامات‘ کو سر آنکھوں پر رکھتے ہوئے، ’اُس‘ کے اولیاء(اللہ کے جتھہ برداروں اور اس کے رسولوں کی نصرت کے لئے نکلنے والوں) کو وجود سے ختم کردینا ’معمولی‘ بات سمجھتا ہے!
ایک غیر مسلم کا ناحق خون کردینا بھی اگر ایک سنگین جرم ہے تو پھر اس شخص کا خون کردینے کے بارے میں کیا خیال ہے جو اللہ اور رسول پر ایمان رکھتا ہے؟ وہ بدبخت جو اللہ پر ایمان رکھنے والے کسی شخص کو قتل کرکے آیا ہوگا، قیامت کے روز اللہ کے سامنے آخر کھڑا کیسے ہوگا؟ چند ٹکے کا مفاد اور وہ بھی چند پل کی زندگی، جہنم کے عذاب کے ساتھ کیا اس کا کوئی موازنہ ہے؟ قرآن کی ایک ہی آیت میں اتنی وعیدیں ایک ساتھ، آدمی کے رونگٹے کھڑے کردینے کیلئے کیاکافی نہیں؟
وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا(النساء: 93)
یعنی: جس شخص نے جانتے بوجھتے ہوئے ایک مؤمن کا خون کر دیا:- اس کی سزا جہنم،- اس جہنم میں اس کو ہمیشگی،- اللہ کا اس پر غضب ہوا – اللہ کی اس پر لعنت برسی، – اور ایک عذابِ عظیم بھی اللہ نے اس کیلئے تیار کرلیا ہے۔
مفسر طبریؒ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں عبد اللہ بن عباسؓ سے یہ اثر لاتے ہیں:
روایت سالم بن ابی الجعد سے، کہا: ہم عبد اللہ بن عباسؓ کے پاس تھے، یہ تب کی بات ہے جب (آخر عمر میں) عبد اللہ بن عباسؓ کی بینائی جاتی رہی تھی۔ ایک آدمی آیا اور عبد اللہ بن عباسؓ کو پکار کر کہنے لگا: عبد اللہ ابن عباسؓ! اس شخص کی بابت آپ کا فتویٰ کیا ہے جو کسی مومن کو جانتے بوجھتے قتل کر آیا ہے؟ عبد اللہ بن عباسؓ نے جواب میں یہی آیت پڑھی: فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا(النساء: 93) ”اس کی سزا جہنم، ہمیشگی کے ساتھ، اللہ کا اس پر غضب ہوا، اللہ نے اس پر لعنت کردی، اور ایک بہت بڑا عذاب وہ اس کیلئے تیار کئے ہوئے ہے“۔آدمی نے پوچھا: مگر کیا خیال ہے اگر وہ توبہ کرلیتا ہے اور ایمان وعمل صالح اور ہدایت کا راستہ اختیار کرلیتا ہے؟ عبد اللہ بن عباسؓ گویا ہوئے: اس کی ماں اس کے بین کرے۔ توبہ اس کیلئے کہاں؟ ہدایت اس کیلئے کہاں؟ قسم مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں نے تمہارے نبی ﷺ کو فرماتے سنا: جس آدمی نے کسی دوسرے آدمی کو قتل کیا ہوگا، قیامت کے روز وہ اپنے قاتل کو پکڑ کر رحمن کے عرش کے پاس لائے گا، اس کی شاہ رگ سے خون (اسی طرح) ابل رہا ہوگا۔ تب وہ اپنے قاتل کو پکڑ کر رب العالمین سے کہے گا: ذرا پوچھ اس سے، کیوں اس نے میرا خون کیا؟اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں عبدا للہؓ کی جان ہے، یہ آیت نازل ہوئی تو اس کو منسوخ کرنے کیلئے تمہارے نبی ﷺ کے رحلت کرجانے تک کوئی اور آیت اس کے بعد نازل نہیں ہوئی۔
عبد اللہ بن عمرؓ نے ایک آدمی کو دیکھا جو کسی مسلمان کا خون کر آیا تھا۔ تب عبد اللہ ابن عمرؓ نے اس سے کہا: ٹھنڈا پانی جتنا پینا ہو یہیں دنیا میں پی جانا، آگے اس کی امید مت رکھنا۔
امام ابن کثیرؒ سورۂ نساءکی اسی آیت کے ضمن میں ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ کی ایک حدیث لاتے ہیں، جو کہ عبد اللہ بن عمروؓ سے مروی ہے:لزوال الدنیا أہون علی اللہ من قتل رجل مسلم.”پوری دنیا ختم ہوجائے، یہ اللہ کے ہاں (سنگینی میں) اس سے کہیں کم ہے کہ ایک مسلمان آدمی کا خون کردیا جائے“
پس کوئی اگر ایک مسلمان کا قتل کرتا ہے، خدا کے نزدیک وہ اِس سے بھی بڑا پاپ ہے کہ وہ خدا کا سارا جہان ڈھا دے۔ مومن کی جان کی اللہ کے ہاں اتنی بڑی حرمت ہے۔کوئی اللہ اور رسول پر ایمان رکھنے والے کسی شخص پر بندوق اٹھائے تو اللہ کے اس انتقام کا پہلے اندازہ کرلے جو اللہ اپنا نام لینے والے کیلئے، دنیامیں نہیں تو آخرت میں لے کر رہے گا۔ جس میں ہمت ہے وہ خدا کے کسی نام لیوا کو مار کر، کل اپنا حشر دیکھ لے۔
ایک بڑی عدالت عنقریب لگنے والی ہے….!
استفادہ کتاب رو بہ زوال امیریکن ایمپائر از حامد کمال الدین