تکفیری سوچ سے مزاحمت کیسے کی جائے ؟کچھ عرصہ پہلے ایک عالم مولانا طلحہ السیف( جوپاکستان کی ایک مستند و معروف جہادی تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں) کا اس موضوع پر عمار خان ناصر (جو غامدی مکتبہ فکر سے بھی نسبت رکھتے ہیں )سے ایک مختصر مکالمہ ہوا، اسکو بعد میں مولانا نے اک الگ تحریر کی شکل میں بھی پیش کیا ۔ وہ تحریر پیش ہے۔ ایڈمن
جناب عمار خان ناصر نے امت میں پھیلتی تکفیری سوچ (جسے وہ داعشی فکر سے تعبیر کرتے ہیں)کے حل کی بابت ایک پوسٹ لگائی ہے۔اس پر بندہ نے یہ کمنٹس کیئے۔
“مسلمانوں میں جڑ پکڑ چکی کسی خرابی کے ازالے کی واحد موثر صورت اس قضیے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا واضح اندازمیں پیش کرنا ہے۔اس سے اس خرابی کی جڑ معاشرے سے کٹ جاتی ہے۔داعش اور دیگر تکفیری گروہ جہاد کے نام پر جو خرابی لائے ہیں اسکا حل انکار جہاد یا جہاد کی ایسی تاویل نہیں جو جذبہ جہاد رکھنے والے نوجوان کو انکار کا تاثر دے کہ گویا اس فریضے پر عمل ممکن ہی نہیں پھر یقینا وہ انہی کی طرف مائل ہوگا۔اسکا حل یہ ہے سنت جہاد کو کھل کر بیان کیا جائے،اسکی حدود اور پابندیاں واضح کی جائیں اور اسکا درست راستہ بتایا جائے۔ان گروہوں کی دعوت میں جان نہیں نہ انکے پاس کوئی شرعی دلائل ہیں۔شرعی جہاد سے اعراض اور تاویل کی پالیسی نے نوجوانوں کو ان کے شکنجے میں پھنسا دیا ہے۔ایک عام نوجوان اتنا جانتا ہے کہ قتال اللہ ورسول کا حکم ہے ۔داعش وامثالہا اسی کی طرف بلا رہے ہیں اور دوسری طرف وہ یہ دیکھتا ہے کہ سوائے انکار وتاویل کے کچھ نہیں نہ کوئی شرعی لائحہ عمل اس حکم شرعی کے لئے موجود ہے ۔تو وہ کدھر جائے گا؟
جو جہادی جماعتیں اس وسیع تر فکر کے تحت کام کررہی ہیں انہوں نے دین کے ہر شعبے کی ترتیب اپنے نظم کے اندر ہی پیدا کر کے ان نوجوانوں کی تسلی کا کافی سامان کر رکھا ہے ۔وہ مشغول بھی رہتے ہیں مطمئن بھی کہ جہاد کررہے ہیں اور کسی غلط فکر کی طرف بھی نہیں جاتے۔جن حضرات نے شرعی بنیادوں پر یہ نظم قائم کیا انکی طرف سے حکومت اور اہل علم دونوں کو دردمندی سے اس جانب متوجہ کیا گیا کہ اس ترتیب کو کمزور کرنا وہ بھیانک نتائج لائے گا جنہیں آپ آج داعش یا کچھ بھی اور نام دے لیں۔لیکن دونوں طبقات نے اسکی کمزوری میں اپنا پورا حصہ ڈالا اور پورے جہادی طبقے کو ایک ہی فہرست میں رکھا نتیجہ سامنے ہے۔ابھی بھی جو نوجوان اس ترتیب سے وابستہ ہیں وہ تکفیری سوچ سے کوسوں دور ہیں ۔یہ اس فکر کا وہ حل ہے جس کے اثرات کھلی آنکھوں سے دیکھے جا سکتے ہیں۔باقی فی الحال کاغذوں میں ہیں یا ذہنوں میں۔
ہم تکفیری سوچ سے مزاحمت کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے اس بنیادی نکتے کو فراموش کرتے ہیں اسلئے کوئی بیل منڈھے نہیں چڑھتی۔زوال امت کی تشخیص اور حل صرف نکتہ جہاد میں مرکوز نہیں اور نہ ہی کوئی اہل علم ایک پورے جامع نصاب کی ضرورت اور اہمیت سے بے خبر ہوسکتا ہے ۔اس وقت سوال چونکہ تکفیری فکر کے پھیلائو کو روکنے کے حوالے سے تھا اسلئے بحیثیت ایک شاہد عیان کے اسکی وجہ کی طرف متوجہ کیا گیا۔آپ خود چند سال قبل کے حالات میں غور کرلیں مشاہدے سے اسی نتیجے تک پہنچیں گے کہ تکفیری فکر کے پھیلائو کی وہی تاریخ ہے جو جہادی فکر پر پابندی اور رکاوٹ کی ہے۔
اس پر انکا ایک سوال:
“آپ کا مدعا سمجھ رہا ہوں، لیکن یہ ذرا مختلف پہلو ہے۔ جو نوجوان جذبہ جہاد سے سرشار ہیں، ان کے جذبے کو کسی غلط رخ پر مڑنے سے بچانے کے لیے بطور ایک حکمت عملی یہ طریقہ مفید ہے اور قابل ستائش۔ میں جو بات عرض کر رہا ہوں، وہ یہ کہ کیا بنیادی اور اہم ترین سوالات کی روشنی میں یہ طرز فکر کتنا درست ہے کہ فی نفسہ جہاد کو معروضی حالات میں احیائے امت کے مطلوب ترین ذریعے کے طور پر پیش کیا جائے؟ مجھے تو اس جہادی حکمت عملی میں بھی اتنی پیچیدگیاں نظر آتی ہیں جو پچھلی ربع صدی میں صرف مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے ایک بہت محدود دائرے میں اپنائی گئی۔ آپ تو براہ راست ان پیچیدگیاں اور مضمرات کے شاہد ہوں گے۔ اب شاید حالات اس کے بھی متحمل نہیں رہے۔ اس صورت میں جہاد کی ترغیب اور وہ بھی ان نصوص کی روشنی میں جن میں جہاد کا حکم تاریخ عالم میں ایک غیر معمولی انقلاب پیدا کرنے کے لیے دیا گیا، کس حد تک دین کے منشا کے مطابق ہوگی؟”
جواب:۔۔
ضرورت اور اہمیت کے حوالہ جات تو ایک مبسوط مقالے کے متقاضی ہیں اجمالا دو باتوں کا ذکر۔
1۔اللہ ورسول کے ایک قطعی حکم کا بالکل اس طرح معطل ہونا کہ اس پر عمل کی ترتیب کہیں موجود نہ ہو اسلامی معاشرے پر جو برے اثرات مرتب کرسکتا ہے آنجناب ان سے ناواقف نہ ہوں گے خصوصا کوئی ایسا عمل جس کے ترک پر شدید وعیدیں وارد ہوں۔
2۔موجودہ دنیا میں کتنے واقعات ہیں اور ابھی تک انکا تسلسل جاری ہے کہ کفار نے مسلمانوں پر اعتداء کیا۔ان واقعات میں غور کریں جہاں مزاحمت ہوئی وہاں کے جانی مالی اور دینی نقصانات اور جہاں مزاحمت نہیں ہوئی وہاں کے نتائج مسلمانوں میں مزاحمت کی فکر کو زندہ رکھنے کی ضرورت واضح کرتے ہیں۔(اس مقدمہ کی مثالوں کے ساتھ توضیح کیلئے میرے دو مضمون اسی وال پر موجود ہیں 1۔قرآن کا حکم۔2۔غلبہء اسلام)
اس کے پیش نظر نظریہ مزاحمت کو زندہ رکھنے کیلئے اس دعوت کا جاری رہنا بہرحال ضروری ہے۔اور تیسرا نکتہ اب وہ بھی شامل کرلیجئے کہ تکفیری فکر سے بچائو کے لئے بھی اب اس دعوت کا زوردار انداز میں پھیلائو لازم ہے۔باقی یہ بات میں پیچھے بھی عرض کر آیا کہ ایک جامع نصاب کی ضرورت کسی بھی زمانے کی نسبت اب زیادہ ہے لیکن اس نصاب سے جہاد اور دعوت جہاد کا اخراج تجربہ سے ثابت ہو چکا کہ بھیانک نتائج لایا ہے اور لائے گا۔
تحریر مولانا طلحہ السیف